Bint e Rafique
رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2017
- پیغامات
- 130
- ری ایکشن اسکور
- 27
- پوائنٹ
- 40
سورۃ المائدہ آیت نمبر تین کی بقیہ تفسیر.
((ما اکل السبع))سے مراد وہ جانور ہے جس پر شیر، بھیڑیا، چیتا یا کتا وغیرہ درندہ حملہ کرے اور اس کا کوئی حصہ کها جائے اور اس سبب سے وہ مر جائے تو اس جانور کو کهانا حرام ہے، اگرچہ اس سے خون بہا ہو بلکہ اگرچہ ذبح کرنے کی جگہ سے ہی خون نکلا ہو تاہم وہ جانور بالا جمع حرام ہے-
اہل جاہلیت میں ایسے جانور کا بقیہ کها لیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس سے منع فرمایا ہے.
پھر فرماتا ہے مگر ذبح وہ جسے تم ذبح کر لو، یعنی گلا گھونٹا ہوا، لٹهہ مارا ہوا اوپر سے گر پڑا ہوا سینگ اور ٹکر لگا ہوا درندوں کا کهایا ہوا اگر اس حالت میں تمہیں مل جائے کہ اس میں جان باقی ہو اور تم اس پر باقاعدہ اللہ کا نام لے کر چھری پھیر لو تو پھر یہ جانور تمہارے لیے حلال ہو جائیں گے-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سعید بن جبیر، حسن اور سدی رح یہی فرماتے ہیں, حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر تم ان کو اس حالت میں پا لو کہ چھری پھرتے ہوئے وہ دم رگڑیں یا پیر ہلائیں یا آنکھوں کے ڈھیلے پهر آئیں تو بے شک ذبح کر کے کها لو، ابن جریر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جس جانور کو ضرب لگی ہو یا اوپر سے گر پڑا ہو یا ٹکر لگی ہو اور اس میں روح باقی ہو اور تمہیں وہ ہاتھ پیر رگڑتا مل جائے تو تم اسے ذبح کر کے کها سکتے ہو -
حضرت طاؤس، حسن، قتادہ، عبید بن عمیر، ضحاک اور بہت سے حضرات سے مروی ہے کہ بوقت ذبح اگر کوئی حرکت بهی اس جانور کی ظاہر ہو جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے.
جمہور فقہاء کا یہی مزہب ہے ۔
تینوں اماموں کا بهی یہی قول ہے امام مالک البتہ اس بکری کے بارے میں جسے درندہ پھاڑ ڈالے اور آنتیں نکل آئیں تو فرماتے ہیں کہ ذبح نہ کیا جائے ۔"
بخاری و مسلم میں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا-"
رسول اللہ ﷺ ہم کل دشمنوں سے لڑائی میں باہم ٹکرانے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں کیا ہم بانس سے ذبح کر لیں-"
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو چیز خون بہائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے اسے کها لو سوائے دانت اور ناخن کے یہ اس لیے کہ ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں ۔
نصب پر جو جانور ذبح کئے جائیں وہ بھی حرام ہیں، مجاہد رح فرماتے ہیں یہ پرستش گاہیں کعبہ کے ارد گرد تهیں -
ابن جریر رح فرماتے ہیں یہ تین سو ساٹھ بت تهے جاہلیت کے عرب ان کے سامنے اپنے جانوروں کو قربان کرتے تھے اور ان میں سے جو بیت اللہ کے بالکل متصل تھا اس پر ان جانوروں کا خون چھڑکتے تهے اور گوشت ان بتوں پر بطور چڑھاوا چڑھاتے تهے - ((صحیح بخاری کتاب الحج))
پس اللہ تعالٰی نے یہ کام مومنوں پر حرام کیا ہے اور ان جانوروں کا کهانا بھی حرام کر دیا -
اگرچہ ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ بهی کہی گئی ہو کیونکہ یہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک نے اور اس کے رسول ﷺ نے حرام کیا ہے، اور یہی لائق ہے اس جملے کا مطلب بھی یہی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کی حرمت بیان ہو چکی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کے نام پر چڑھاوے چڑھائیں جائیں-
(( ازلام))
سے تقسیم کرنا جو حرام ہے وہ وہ ہے جو جاہلیت کے عرب میں دستور تها کہ انہوں نے تین تیر رکهہ چھوڑے تهے ایک پر لکھا تھا ((افعل)) یعنی کر، دوسرے پر لکھا تھا مجھے میرے رب کی ممانعت ہے ۔ تیسرا خالی تھا اس پر کچھ بھی نہیں تھا لکھا ہوا.
وہ لوگ بطورِ قرعہ اندازی کے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے میں جب انہیں تردد ہوتا تو ان تیروں کو نکالتے اگر حکم،"کر" کا تیر نکلا تو اس کام کو کرتے اگر ممانعت کا تیر نکلتا تو باز آ جاتے اگر خالی تیر نکلا تو نئے سرے سے قرعہ اندازی کرتے، الازلام، جمع ہے زلم کی اور بعض زلم یعنی( ز اور لام پر زبر) کہتے-
استسقام کے معنی ہیں ان تیروں سے تقسیم کی طلب ہے، قریشیوں کا سب سے بڑا بت ہبل خانہ کعبہ کے اندر کنوئیں پر نصب تھا -
جس کنویں میں خانہ کعبہ کے ہدیے اور مال جمع رہا کرتے تھے، اس بت کے پاس سات تیر تهے، جن پر کچھ لکھا ہوا تھا، جس کام میں کوئی اختلاف پڑ جاتا یہ قریشی یہاں آ کر ان تیروں کو نکالتے اور اس پر جو لکھا پاتے اسی کے مطابق عمل کرتے-
بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مجسمے گڑے ہوئے تھے جن کے ہاتھوں میں تیر تهے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ انہیں غارت کرے انہیں خوب معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی ((صحیح بخاری کتاب الحج))
صحیح حدیث میں ہے کہ صرافہ بن مالک بن جعشم جب رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ڈھونڈنے کے لیے نکلا کہ انہیں پکڑ کر کفار مکہ کے سپرد کرے اور رسول اللہ ﷺ اس وقت ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ کو جا رہے تھے تو اس نے اسی طرح
قرعہ اندازی کی اس کا بیان ہے پہلی مرتبہ وہ تیر نکلا جو مرضی کے ن تھا میں نے پهر تیروں کو ملا جلا کر تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی نکلا کہ تو انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گا، میں نے پهر نہ مانا تیسری مرتبہ فال لینے کے لیے تیر نکلا تو اب کے بهی یہی تیر نکلا لیکن ہمت کر ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکل کهڑا ہوا-
اس وقت صرافہ مسلمان نہیں تھا یہ رسول اللہ ﷺ کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور پھر بعد میں اسے اللہ نے اسلام سے مشرف فرمایا.
ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں وہ شخص جنت کے بلند درجوں کو نہیں پا سکتا جو کہانت کرے یا تیر اندازی کرے یا کسی بد فالی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آئے-"
حضرت مجاہد رح نے یہ بھی کہا کہ عرب ان تیروں کے ذریعے اور فارسی اور رومی پانسوں کے ذریعہ جوا کھیلا کرتے تھے جو مسلمانوں پر حرام کیا جاتا ہے○
ممکن ہے کہ اس قول کے مطابق ہم یوں کہیں کہ تهے تو تیر استخارہ کے لیے مگر ان سے جوا بهی گاہے بگاہے کھیل لیا کرتے - واللہ اعلم -
اسی صورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے جوئے کو بھی حرام کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ ایمان والو شراب جوا بت اور تیر فال کے نجس اور شیطانی کام ہیں، تم ان سے الگ رہو تاکہ تمہیں نجات ملے شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ ان کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت و بغض ڈال دے، الخ اسی طرح یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ تیروں سے تقسیم طلب کرنا حرام ہے اس کام کا کرنا فسق، گمراہی، جہالت اور شرک ہے ۔
اس کے بجائے مومنوں کو حکم ہوا کہ جب تمہیں اپنے کسی کام میں تردد ہو تو تم اللہ تعالٰی سے استخارہ کر لو اس کی عبادت کر کے اس سے بھلائی طلب کرو -مسند احمد-
بخاری و سنن میں مروی ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ ہمیں جس طرح قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے اسی طرح ہمارے کاموں میں استخارہ کرنا بهی تعلیم فرماتے تھے، رسول اللہ ﷺ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جب تم میں سے کسی کو کوئی اہم کام آ پڑے تو اسے چاہیے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر دعائے استخارہ کرے.
جاری ہے
((ما اکل السبع))سے مراد وہ جانور ہے جس پر شیر، بھیڑیا، چیتا یا کتا وغیرہ درندہ حملہ کرے اور اس کا کوئی حصہ کها جائے اور اس سبب سے وہ مر جائے تو اس جانور کو کهانا حرام ہے، اگرچہ اس سے خون بہا ہو بلکہ اگرچہ ذبح کرنے کی جگہ سے ہی خون نکلا ہو تاہم وہ جانور بالا جمع حرام ہے-
اہل جاہلیت میں ایسے جانور کا بقیہ کها لیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس سے منع فرمایا ہے.
پھر فرماتا ہے مگر ذبح وہ جسے تم ذبح کر لو، یعنی گلا گھونٹا ہوا، لٹهہ مارا ہوا اوپر سے گر پڑا ہوا سینگ اور ٹکر لگا ہوا درندوں کا کهایا ہوا اگر اس حالت میں تمہیں مل جائے کہ اس میں جان باقی ہو اور تم اس پر باقاعدہ اللہ کا نام لے کر چھری پھیر لو تو پھر یہ جانور تمہارے لیے حلال ہو جائیں گے-
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سعید بن جبیر، حسن اور سدی رح یہی فرماتے ہیں, حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر تم ان کو اس حالت میں پا لو کہ چھری پھرتے ہوئے وہ دم رگڑیں یا پیر ہلائیں یا آنکھوں کے ڈھیلے پهر آئیں تو بے شک ذبح کر کے کها لو، ابن جریر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ جس جانور کو ضرب لگی ہو یا اوپر سے گر پڑا ہو یا ٹکر لگی ہو اور اس میں روح باقی ہو اور تمہیں وہ ہاتھ پیر رگڑتا مل جائے تو تم اسے ذبح کر کے کها سکتے ہو -
حضرت طاؤس، حسن، قتادہ، عبید بن عمیر، ضحاک اور بہت سے حضرات سے مروی ہے کہ بوقت ذبح اگر کوئی حرکت بهی اس جانور کی ظاہر ہو جائے جس سے یہ معلوم ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حلال ہے.
جمہور فقہاء کا یہی مزہب ہے ۔
تینوں اماموں کا بهی یہی قول ہے امام مالک البتہ اس بکری کے بارے میں جسے درندہ پھاڑ ڈالے اور آنتیں نکل آئیں تو فرماتے ہیں کہ ذبح نہ کیا جائے ۔"
بخاری و مسلم میں حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا-"
رسول اللہ ﷺ ہم کل دشمنوں سے لڑائی میں باہم ٹکرانے والے ہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں کیا ہم بانس سے ذبح کر لیں-"
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو چیز خون بہائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے اسے کها لو سوائے دانت اور ناخن کے یہ اس لیے کہ ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں ۔
نصب پر جو جانور ذبح کئے جائیں وہ بھی حرام ہیں، مجاہد رح فرماتے ہیں یہ پرستش گاہیں کعبہ کے ارد گرد تهیں -
ابن جریر رح فرماتے ہیں یہ تین سو ساٹھ بت تهے جاہلیت کے عرب ان کے سامنے اپنے جانوروں کو قربان کرتے تھے اور ان میں سے جو بیت اللہ کے بالکل متصل تھا اس پر ان جانوروں کا خون چھڑکتے تهے اور گوشت ان بتوں پر بطور چڑھاوا چڑھاتے تهے - ((صحیح بخاری کتاب الحج))
پس اللہ تعالٰی نے یہ کام مومنوں پر حرام کیا ہے اور ان جانوروں کا کهانا بھی حرام کر دیا -
اگرچہ ان جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ بهی کہی گئی ہو کیونکہ یہ شرک ہے جسے اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک نے اور اس کے رسول ﷺ نے حرام کیا ہے، اور یہی لائق ہے اس جملے کا مطلب بھی یہی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کی حرمت بیان ہو چکی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کے نام پر چڑھاوے چڑھائیں جائیں-
(( ازلام))
سے تقسیم کرنا جو حرام ہے وہ وہ ہے جو جاہلیت کے عرب میں دستور تها کہ انہوں نے تین تیر رکهہ چھوڑے تهے ایک پر لکھا تھا ((افعل)) یعنی کر، دوسرے پر لکھا تھا مجھے میرے رب کی ممانعت ہے ۔ تیسرا خالی تھا اس پر کچھ بھی نہیں تھا لکھا ہوا.
وہ لوگ بطورِ قرعہ اندازی کے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے میں جب انہیں تردد ہوتا تو ان تیروں کو نکالتے اگر حکم،"کر" کا تیر نکلا تو اس کام کو کرتے اگر ممانعت کا تیر نکلتا تو باز آ جاتے اگر خالی تیر نکلا تو نئے سرے سے قرعہ اندازی کرتے، الازلام، جمع ہے زلم کی اور بعض زلم یعنی( ز اور لام پر زبر) کہتے-
استسقام کے معنی ہیں ان تیروں سے تقسیم کی طلب ہے، قریشیوں کا سب سے بڑا بت ہبل خانہ کعبہ کے اندر کنوئیں پر نصب تھا -
جس کنویں میں خانہ کعبہ کے ہدیے اور مال جمع رہا کرتے تھے، اس بت کے پاس سات تیر تهے، جن پر کچھ لکھا ہوا تھا، جس کام میں کوئی اختلاف پڑ جاتا یہ قریشی یہاں آ کر ان تیروں کو نکالتے اور اس پر جو لکھا پاتے اسی کے مطابق عمل کرتے-
بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے مجسمے گڑے ہوئے تھے جن کے ہاتھوں میں تیر تهے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ انہیں غارت کرے انہیں خوب معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی ((صحیح بخاری کتاب الحج))
صحیح حدیث میں ہے کہ صرافہ بن مالک بن جعشم جب رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ڈھونڈنے کے لیے نکلا کہ انہیں پکڑ کر کفار مکہ کے سپرد کرے اور رسول اللہ ﷺ اس وقت ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ کو جا رہے تھے تو اس نے اسی طرح
قرعہ اندازی کی اس کا بیان ہے پہلی مرتبہ وہ تیر نکلا جو مرضی کے ن تھا میں نے پهر تیروں کو ملا جلا کر تیر نکالا تو اب کی مرتبہ بھی یہی نکلا کہ تو انہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکے گا، میں نے پهر نہ مانا تیسری مرتبہ فال لینے کے لیے تیر نکلا تو اب کے بهی یہی تیر نکلا لیکن ہمت کر ان کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں نکل کهڑا ہوا-
اس وقت صرافہ مسلمان نہیں تھا یہ رسول اللہ ﷺ کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور پھر بعد میں اسے اللہ نے اسلام سے مشرف فرمایا.
ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں وہ شخص جنت کے بلند درجوں کو نہیں پا سکتا جو کہانت کرے یا تیر اندازی کرے یا کسی بد فالی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آئے-"
حضرت مجاہد رح نے یہ بھی کہا کہ عرب ان تیروں کے ذریعے اور فارسی اور رومی پانسوں کے ذریعہ جوا کھیلا کرتے تھے جو مسلمانوں پر حرام کیا جاتا ہے○
ممکن ہے کہ اس قول کے مطابق ہم یوں کہیں کہ تهے تو تیر استخارہ کے لیے مگر ان سے جوا بهی گاہے بگاہے کھیل لیا کرتے - واللہ اعلم -
اسی صورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے جوئے کو بھی حرام کیا ہے، اور فرمایا ہے کہ ایمان والو شراب جوا بت اور تیر فال کے نجس اور شیطانی کام ہیں، تم ان سے الگ رہو تاکہ تمہیں نجات ملے شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ ان کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت و بغض ڈال دے، الخ اسی طرح یہاں بھی فرمان ہوتا ہے کہ تیروں سے تقسیم طلب کرنا حرام ہے اس کام کا کرنا فسق، گمراہی، جہالت اور شرک ہے ۔
اس کے بجائے مومنوں کو حکم ہوا کہ جب تمہیں اپنے کسی کام میں تردد ہو تو تم اللہ تعالٰی سے استخارہ کر لو اس کی عبادت کر کے اس سے بھلائی طلب کرو -مسند احمد-
بخاری و سنن میں مروی ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ ہمیں جس طرح قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے اسی طرح ہمارے کاموں میں استخارہ کرنا بهی تعلیم فرماتے تھے، رسول اللہ ﷺ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ جب تم میں سے کسی کو کوئی اہم کام آ پڑے تو اسے چاہیے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر دعائے استخارہ کرے.
جاری ہے