• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترمذی کی حدیث سے نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنے پر استدلال [انتظامیہ]

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اور سيار أبي الحكم ثقہ راوی ہے لہٰذا عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي کا ضعف احناف کو نہیں پہنچتا۔
تو آپ اس ضعیف راوی کے بغیر ثقہ روات سے اس متن کو نقل کردیں ،
یعنی صحیح سند سے ثابت کریں کہ : زیر ناف ہاتھ باندھنا سنت ہے !
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تھریڈ کا مطالعہ کرنے والے اہل علم سے گذارش ہے کہ صاحب ھدایہ کے درج ذیل الفاظ کو بغور پڑھیں
" ويعتمد بيده اليمنى على اليسرى تحت السرة " لقوله عليه الصلاة والسلام " إن من السنة وضع اليمين على الشمال تحت السرة "
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
حنفی مذہب کے مشہور وکیل ،نویں صدی کے معروف عالم امام (أبو محمد بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ)
حنفی مذہب کی مشہور کتاب’’ الھدایہ ‘‘ کی شرح ( البناية شرح الهداية ) جلد ۲ ص ۱۸۲ ۔میں لکھتے ہیں ::
كيف يكون الحديث حجة على الشافعي وهو حديث ضعيف لا يقاوم الحديث الصحيح والآثار التي احتج بها مالك والشافعي، هو حديث وائل بن حجر أخرجه ابن خزيمة في " صحيحه " قال: «صليت مع رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فوضع يده اليمنى على اليسرى على صدره»
زیر ناف ہاتھ باندھنے کی جناب علی والی حدیث امام شافعی رحمہ اللہ کے خلاف کیسے دلیل بن سکتی ہے جبکہ وہ نہایت ضعیف روایت ہے ،
اور یہ اس صحیح حدیث اور آثار کے مقابلہ نہیں کرسکتی جو امام مالک و امام شافعی کی دلیل ہیں۔انکی دلیل صحیح ابن خزیمہ میں سیدنا وائل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :
وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جناب نبی اکرم ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی،تو آپ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھے ‘
یہاں امام عینی حنفی نے دو اعتراف کئے ہیں :
ایک یہ کہ زیر ناف ہاتھ باندھنے کی حدیث ضعیف ہے ،
دوسرا اعتراف یہ کہ : سینے ہاتھ باندھنے کی حدیث صحیح ہے ۔ (لا يقاوم الحديث الصحيح )
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس تھریڈ کا مطالعہ کرنے والے اہل علم سے گذارش ہے کہ صاحب ھدایہ کے درج ذیل الفاظ کو بغور پڑھیں
" ويعتمد بيده اليمنى على اليسرى تحت السرة " لقوله عليه الصلاة والسلام " إن من السنة وضع اليمين على الشمال تحت السرة "
محترم! اس پر آپ کو جو اشکال ہے وہ پیش کریں کہ کس بات کی آپ کو سمجھ نہیں آئی ؟

نفی مذہب کے مشہور وکیل ،نویں صدی کے معروف عالم امام (أبو محمد بدر الدين العينى (المتوفى: 855هـ)
حنفی مذہب کی مشہور کتاب’’ الھدایہ ‘‘ کی شرح ( البناية شرح الهداية ) جلد ۲ ص ۱۸۲ ۔میں لکھتے ہیں
محترم! لوگوں کو کیوں بے وقوف بناتے ہو؟ آپ کا دعویٰ قرآن اور حدیث کا ہے اور اس پورے محدث فورم میں کبھی آپ امتیوں کے اقوال پیش کرتے ہو کبھی ان کے جن کو ”مشرکـ مشرک“ کہتے ”لا مذہبوں“ کی زبانیں نہیں تھکتیں۔

سنن الترمذي:كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ:
حدثنا قتيبة حدثنا أبو الأحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال ثم كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے اور دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑتے
قال أبو عيسى حديث هلب حديث حسن
اس حدیث کے متعلق ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حديث هلب ”حسن “ ہے
اور فرماتے ہیں کہ؛
والعمل على هذا ثم أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة
پھر اس حدیث کی تشریح میں ہاتھ باندھنے کی جگہ کا تعین فرماتے ہیں؛
ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا بعض ہاتھوں کو ناف کے اوپر باندھتے ہیں اور بعض ناف کے نیچے ـــــــــ الخ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
محترم! لوگوں کو کیوں بے وقوف بناتے ہو؟ آپ کا دعویٰ قرآن اور حدیث کا ہے اور اس پورے محدث فورم میں کبھی آپ امتیوں کے اقوال پیش کرتے ہو کبھی ان کے جن کو ”مشرکـ مشرک“ کہتے ”لا مذہبوں“ کی زبانیں نہیں تھکتیں۔
قربان جائیں آپ کی جراءت پر ۔۔۔۔
کس درجہ دلیری سے سب کو الو بنانے کے چکر میں ہیں ،اور الزام دوسروں کو دیتے ہو کہ تم دھوکہ دے رہے ہو ۔۔۔

میں نے تو بڑی دیانت سے دونوں (زیر ناف والی بھی ۔۔اور۔۔ سینے پر ہاتھ باندھنے والی بھی ) بلا کم و کاست نقل کردی ہیں ،اور وہ بھی ایک حنفی عالم کے حوالے سے تاکہ
مقلدین کیلئے حقیقت انکے بزرگ کی زبانی پہنچ جائے ۔۔
اور ان حدیثوں کی اسنادی حالت بھی انہی حنفی بزرگ کے قلم سے پیش کردی ۔۔

لیکن آپ حنفی مذہب کے اتنے بڑے ستون سے پلو چھڑانا چاہتے ہیں ۔۔۔اور ان کی احناف کے ہاں مسلمہ علمی حیثیت کو بڑی بے دردی سے رد کر رہے ہیں ؛
آپ کی اس ’’ بد مذہبی ‘‘ پر مجھے بڑا افسوس اور دکھ ہوا۔۔۔۔

آپ کا دعوی تو فقہ حنفی کے مقلد ہونے کا ہے ،لیکن آپ تو نرے نفس کو مقلد نکلے ۔
چند دن پہلے بھی آپ نے اسی طرح دو انتہائی اہم ائمہ (جناب ابن ہمام ؒ اور جناب ابن نجیم ؒ ) کو یہود کے زمرے میں لا کھڑا کیا تھا ۔
بہر حال اس طرز عمل پر ہمیں بڑا افسوس ہے ،کہ حنفیہ کے ایسے محسن علماء و فقہاء جو فقہ حنفی کی تدوین و دفاع میں اپنی زندگیاں لگا گئے ،انکے ناخلف انکی یہ درگت بنا رہے ہیں؛
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
میں نے تو بڑی دیانت سے دونوں (زیر ناف والی بھی ۔۔اور۔۔ سینے پر ہاتھ باندھنے والی بھی ) بلا کم و کاست نقل کردی ہیں ،اور وہ بھی ایک حنفی عالم کے حوالے سے تاکہ
۔۔۔۔۔ ابتسامہ

آپ کا دعوی تو فقہ حنفی کے مقلد ہونے کا ہے ،لیکن آپ تو نرے نفس کو مقلد نکلے ۔
فقہ حنفی کا مقلد ہوں ”حنفیوں“ کا نہیں ۔۔۔۔۔ ابتسامہ

بہر حال اس طرز عمل پر ہمیں بڑا افسوس ہے ،کہ حنفیہ کے ایسے محسن علماء و فقہاء جو فقہ حنفی کی تدوین و دفاع میں اپنی زندگیاں لگا گئے ،انکے ناخلف انکی یہ درگت بنا رہے ہیں؛
آپ کو تو خوش ہونا چاہئے جیسے کہ جب کوئی حنفی ایک مجلس میں تین طلاق دے دیتا ہے تو تمام ”لامذہب“ بغلیں بجانا شروع کر دیتے ہیں کہ ”شکار“ ہاتھ آگیا۔
آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو سنت کہا ہے۔
امام ترمذی سمیت کسی محدث نے ناف کے علاوہ کسی اور مقام کوہاتھ باندھنے کا محل نہیں فرمایا اس کی وجہ یہی آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے۔
تمام ”لا مذہب“ بھی اور اہلِ سنت بھی سن لیں کہ اختلاف کی صورت میں ہمیں جو تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی وہ یہ ہے؛
مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ـــــ الحدیث (ابو داؤد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاو میرے بعد زندہ رہا وہ بہت اختلاف دیکھے گا تم پر لازم ہے میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت اس کے سات چمٹ جاؤ اور اس کو داڑھوں سے مضبوطی سے پکڑ لو ــــ الخ
لہٰذا ہم ”لا مذہبوں“ کی طرح ادھر ادھر کی ہانکنے کی بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کہ ”ناف کی نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے“ سے چمٹے رہیں گے۔ وما توفیقی الا باللہ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
قال أبو عيسى حديث هلب حديث حسن
اس حدیث کے متعلق ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حديث هلب ”حسن “ ہے
اور فرماتے ہیں کہ؛
والعمل على هذا ثم أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة
پھر اس حدیث کی تشریح میں ہاتھ باندھنے کی جگہ کا تعین فرماتے ہیں؛
ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا بعض ہاتھوں کو ناف کے اوپر باندھتے ہیں اور بعض ناف کے نیچے ـــــــــ الخ
امام ترمذیؒ ایک محدث ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے فقیہ بھی تھے اور مذاہب ِعلما سے بھی خوب واقف تھے، آپ نے فقہ الحدیث امام بخاری جیسے حاذق محدث سے حاصل کی اور فقہ اہل الرائے اس وقت کے مشہور فقیہ الرازی سے اور فقہ مالکی اسحق بن موسی انصاری اور ابومصعب زہری سے ا خذ کی جب کہ امام شافعی کا مذہب ِقدیم حسن بن محمد زعفرانی اور قولِ جدید ربیع بن سلیمان سے حاصل کیا، اسی طرح امام احمد بن حنبل ،اسحق بن راہویہ اور دیگر بہت سے علما کے اقوال ومذاہب کو خوب سلیقہ سے اپنی جامع میں سمو دیا۔آپ کی جامع آپ کے تفقہ فی الحدیث اور مذاہب پر اطلاع کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ہر باب میں علما کے اقوال پیش کر کے ان میں سے ایک کو ترجیح دیتے ہیں جس سے قاری کا یہ تاثر بنتا ہے کہ آپ فقہ و حدیث کے بہت بڑے امام تھے۔
اس سے روزِ روشن کی طرح یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ کم از کم امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ تک کوئی بھی سینہ پر ہاتھ نہیں باندھتا تھا۔ تمام مسلم ناف کے پاس ہی ہاتھ باندھتے تھے۔ ناف ایک چھوٹی سی جگہ ہے اور مستور ہوتی ہے۔ اس بات کا اندازہ لگانا، کہ ہاتھ ناف کے اوپر ہیں یا نیچے، بہت مشکل ہے۔
اس مشکل کو آخری خلیفہ راشد علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کو سنت کہہ کر حل کردیا۔ الحمد للہ
 

Ibne Habibullah

بین یوزر
شمولیت
جنوری 12، 2016
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
22
دیکھا گیا ہے کچھ لوگ سینہ پر ہاتھ باندھتے ہین کچھ ناف کے اوپر کچھ ناف کے نیچے اور کچھ کھلے چھورتے ہین ان سبکی نمازین ہوجاتی ہین۔ ہاتھ باندھنا فرض ہے واجب ہے سنت ہے مستحب ہے قرآن و سنت کی روشنی مین بتائین
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
صحيح وضعيف سنن الترمذي - (ج 1 / ص 252) ( سنن الترمذي )
252 حدثنا قتيبة حدثنا أبو الأحوص عن سماك بن حرب عن قبيصة بن هلب عن أبيه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه قال وفي الباب عن وائل بن حجر وغطيف بن الحارث وابن عباس وابن مسعود وسهل بن سعد قال أبو عيسى حديث هلب حديث حسن والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم يرون أن يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة ورأى بعضهم أن يضعهما فوق السرة ورأى بعضهم أن يضعهما تحت السرة وكل ذلك واسع عندهم واسم هلب يزيد بن قنافة الطائي .

تحقيق الألباني : حسن صحيح

ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ــــــــــــــ بعض ہاتھوں کو ناف کے اوپر باندھتے تھے اور بعض ناف کے نیچے ــــــ ــــــــــ الحدیث
محدث نے صرف ناف کے محاذات کا ذکر کیا۔
اس طرح صحیح مسلم میں بھی محدث نے وضاحت سے لکھا ؛

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ:
بَاب وَضْعِ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ تَحْتَ صَدْرِهِ فَوْقَ سُرَّتِهِ وَوَضْعُهُمَا فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ


تکبیر تحریمہ کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر سینہ کے نیچے ناف کے اوپر باندھنا ـــــــــــــــــــــــــــ
صحیح مسلم میں عنوانات امام مسلم کے لگائے ہوئے نہیں ہیں۔
 

Ibne Habibullah

بین یوزر
شمولیت
جنوری 12، 2016
پیغامات
106
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
22
کل ایک سوال پوچھا تھا کہ وہابی سینہ پر ہاتھ باندھتے سنی ناف پر مالکی کھلا چھورتے۔ ان مین سے کسکی نماز صحیح ہے قرا و سنت جی روشنی مین بتائین
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کل ایک سوال پوچھا تھا کہ وہابی سینہ پر ہاتھ باندھتے سنی ناف پر مالکی کھلا چھورتے۔ ان مین سے کسکی نماز صحیح ہے قرا و سنت جی روشنی مین بتائین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نماز میں ہاتھ باندھنا جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قول و فعل سے ثابت ہے ، بلکہ دیگر ابنیاء علیھم الصلاۃ و السلام کا بھی طریقہ ہے ،
اور بہت ہی مؤکدہ سنت ہے ،
عطاء بن أبي رباح يحدث عن بن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إنا معشر الأنبياء أمرنا أن نؤخر سحورنا ونعجل فطرنا وأن نمسك بأيماننا على شمائلنا في صلاتنا"
امام عطا بن ابی رباح ؒ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ ہم انبیا کی جماعت کو افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنے او رحالت ِنماز میں دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔''(رواہ ابن حبان ، ،وإسناد صحيح ، وأخرجه الطبراني في "الكبير" "11485"، وصححه الضياء المقدسي في "الأحاديث المختارة" 63/10/2، والسيوطي في "تنوير الحوالك" 1/174.
وأورده الهيثمي في "مجمع الزوائد" 2/105 وقال: رواه الطبراني، ورجاله رجال الصحيح ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ما حكم قبض اليدين في الصلاة ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :
الحمد لله
أولاً : قبض اليدين في الصلاة يعني : وضع اليد اليمنى على اليسرى في حال القيام سنة من سنن الصلاة ثابتة عن النبي صلى الله عليه وسلم ، وقال بها جماهير أهل العلم .
قال ابن قدامة رحمه الله :
" أما وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة : فمن سنتها في قول كثير من أهل العلم , يروى ذلك عن علي وأبي هريرة والنخعي وأبي مجلز وسعيد بن جبير والثوري والشافعي وأصحاب الرأي , وحكاه ابن المنذر عن مالك " انتهى .
"المغني" (1/281) .
وقال علماء اللجنة الدائمة :
" القبض في الصلاة وضع كف اليد اليمنى على اليد اليسرى ، والسدل في الصلاة إرسال اليدين مع الجانبين ،
وقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه وضع يده اليمنى على اليسرى فيالصلاة حال القيام للقراءة ، وحال القيام بعد الرفع من الركوع ،
وذلك فيما رواه أحمد ومسلم عن وائل بن حجر رضي الله عنه ( أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم رفع يديه حين دخل فيالصلاة وكبر ، ثم التحف بثوبه ، ثم وضع اليمنى على اليسرى ، فلما أراد أن يركع أخرج يديه ثم رفعهما وكبر فركع فلما قال سمع الله لمن حمده رفع يديه فلما سجد سجد بين كفيه )
وفي رواية لأحمد وأبي داود : ( ثم وضع يده اليمنى على كفه اليسرى والرسغ والساعد ) ،
وفيما رواه أبو حازم عن سهل بن سعد الساعدي قال : ( كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة ) ، وقال أبو حازم : لا أعلمه إلا ينمي – أي : رفعه وينسبه - ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم . رواه أحمد والبخاري .
ولم يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم في حديثٍ أنه سدل يديه وأرسلهما مع جنبيه في القيام في الصلاة " انتهى .
"فتاوى اللجنة الدائمة" (6/365، 366) .
ثانياً :
وأما مكان وضعهما فعلى الصدر .
روى ابن خزيمة (479) عن وائل بن حجر رضي الله عنه قال : صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره .
صححه الألباني في "تحقيق صحيح ابن خزيمة" .
وقال الألباني في "صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم" (ص 69) :
" وضعهما على الصدر هو الذي ثبت في السنة ، وخلافه إما ضعيف أو لا أصل له " انتهى .
وقال السندي في حاشية ابن ماجه :
" وَبِالْجُمْلَةِ فَكَمَا صَحَّ أَنَّ الْوَضْع هُوَ السُّنَّة دُون الإِرْسَال ثَبَتَ أَنَّ مَحَلّه الصَّدْر لا غَيْر ، وَأَمَّا حَدِيث : ( أَنَّ مِنْ السُّنَّة وَضْع الأَكُفّ عَلَى الأَكُفّ فِي الصَّلاة تَحْت السُّرَّة ) فَقَدْ اِتَّفَقُوا عَلَى ضَعْفه " انتهى .
وقال الشيخ ابن عثيمين :
" وهذه الصفة – أعني : وَضْع اليدين تحت السُّرَّة - هي المشروعة على المشهور مِن المذهب ، وفيها حديث علي رضي الله عنه أنه قال : ( مِن السُّنَّةِ وَضْعُ اليدِ اليُمنى على اليُسرى تحت السُّرَّةِ ) – رواه أبو داود وضعفه النووي وابن حجر وغيرهما - .
وذهب بعضُ العلماء : إلى أنه يضعها فوق السُّرة ، ونصَّ الإِمام أحمد على ذلك .
وذهب آخرون مِن أهل العِلم : إلى أنه يضعهما على الصَّدرِ ، وهذا هو أقرب الأقوال ، والوارد في ذلك فيه مقال ، لكن حديث سهل بن سعد الذي في البخاري ظاهرُه يؤيِّد أنَّ الوَضْعَ يكون على الصَّدرِ ، وأمثل الأحاديث الواردة على ما فيها من مقال حديث وائل بن حُجْر أن النبي صلى الله عليه وسلم : ( كان يضعُهما على صدرِه ) .
"الشرح الممتع" (3/36، 37) .
ثالثا ً :
وأما صفة وضعهما : فلذلك صفتان :
الأولى : أن يضع كفه اليمنى على كفه اليسرى والرسغ والساعد .
الثانية : أن يقبض بيده اليمنى على اليسرى
) .
والله أعلم .
موقع الإسلام سؤال وجواب
 
Top