• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترویح کی غلطیاں

شمولیت
اکتوبر 18، 2016
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
32
اگر نمازِ ترویح میں غلطی سے تین رکعات پڑھ لی تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اگر نمازِ ترویح میں غلطی سے تین رکعات پڑھ لی تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
نماز تراویح کی ہو یا فرض نفل کوئی اور نماز ہو ۔۔۔۔ اگر غلطی سے ایک رکعت زیادہ پڑھ لی جائے تو سلام کے بعد سہو کے دو سجدے کرنے سے
نماز درست ہوجائے گی ۔
جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بتایا گیا ہے ؛
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا، فَقِيلَ لَهُ: أَزِيدَ فِي الصَّلاَةِ؟ فَقَالَ: «وَمَا ذَاكَ؟» قَالَ: صَلَّيْتَ خَمْسًا، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ ‘‘ (صحیح البخاری )
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر میں پانچ رکعت پڑھ لیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا نماز کی رکعتیں زیادہ ہو گئی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا بات ہے؟ کہنے والے نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد دو سجدے کئے۔ (صحیح بخاری )
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2016
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
32
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
نماز تراویح کی ہو یا فرض نفل کوئی اور نماز ہو ۔۔۔۔ اگر غلطی سے ایک رکعت زیادہ پڑھ لی جائے تو سلام کے بعد سہو کے دو سجدے کرنے سے
نماز درست ہوجائے گی ۔
جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بتایا گیا ہے ؛
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ خَمْسًا، فَقِيلَ لَهُ: أَزِيدَ فِي الصَّلاَةِ؟ فَقَالَ: «وَمَا ذَاكَ؟» قَالَ: صَلَّيْتَ خَمْسًا، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا سَلَّمَ ‘‘ (صحیح البخاری )
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر میں پانچ رکعت پڑھ لیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا نماز کی رکعتیں زیادہ ہو گئی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا بات ہے؟ کہنے والے نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد دو سجدے کئے۔ (صحیح بخاری )
شکریہ سر وقت دینے کے لیے
ایک اور سوال
اگر نماز تراویح میں امام تیسری رکعت کے لیے کهڑا ہو گیا اور سورۃ فاتحہ بهی آدھی پڑھ لی تو اس صورت میں کیا کرنا چاہئے ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اگر نماز تراویح میں امام تیسری رکعت کے لیے کهڑا ہو گیا اور سورۃ فاتحہ بهی آدھی پڑھ لی تو اس صورت میں کیا کرنا چاہئے ؟
اس صورت میں سورہ فاتحہ مکمل کرکے رکوع ، سجدے بھی کرے گا اور سلام کے بعد سہو کے دو سجدے کرلے ، ان شاء اللہ نماز مکمل اور درست ہوگی ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اگر نماز تراویح میں امام تیسری رکعت کے لیے کهڑا ہو گیا اور سورۃ فاتحہ بهی آدھی پڑھ لی تو اس صورت میں کیا کرنا چاہئے ؟
اس سلسلہ میں دوسرا فتوی یہ ہے کہ :
إذا قام المصلي للركعة الخامسة في الصلاة الرباعية ، فماذا عليه ؟
السؤال:
إذا صلى الرجل منفرداً ( صلاة من أربع ركعات ) ، ثم سها وقام للركعة الخامسة ، فماذا عليه أن يفعل ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔
الجواب :
الحمد لله
الإمام والمنفرد والمأموم حكمهم واحد بالنسبة للزيادة ، فمن زاد منهم ركعة عامداً ، ذاكرا لزيادتها : بطلت صلاته ، ومثل هذا لا يكاد يفعله أحد .
وأما إذا كانت الزيادة في الصلاة سهواً ، فلا يخلو : إما أن يعلم المصلي ( سواء كان إماماً ، أو مأموماً ، أو منفرداً ) بالزيادة في أثناء الركعة الزائدة ، ففي هذه الحال يلزمه الرجوع ، وإلا بطلت صلاته ؛ لتعمد الزيادة في الصلاة ، ويتشهد إذا لم يكن تشهد قبل هذا ، ويسجد للسهو بعد السلام .
قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : " قوله : ( وإن علم فيها ) أي : إنْ عَلِمَ بالزيادة في الرَّكعة التي زادها .
قوله : ( جلس في الحال ) أي : في حال علمه ، ولا يتأخَّر ، حتى لو ذَكَرَ في أثناء الرُّكوع أن هذه الرَّكعة خامسة يجلس .
وقد يتوهَّمُ بعضُ طَلَبَةِ العِلم في هذه المسألة أن حكمها حكم من قام عن التشهُّد الأول ، فيظن أنه إذا قام إلى الزائدة ، وشَرَعَ في القراءة : حَرُمَ عليه الرجوع ، وهذا وهمٌ وخطأ ، فالزائد لا يمكن الاستمرار فيه أبداً ، متى ذكر : وجب أن يرجع ، ليمنع هذه الزيادة ؛ لأنه لو استمر في الزيادة مع عِلْمِهِ بها ، لزاد في الصلاة شيئاً عمداً ، وهذا لا يجوز ؛ وتبطل به الصَّلاة .
قوله : ( فَتَشَهَّد إن لم يَكُنْ تَشَهَّدَ ) أي : أنه إذا علم بالزيادة ، فجلس ، فإنه يقرأ التشهُّدَ ، إلا أن يكون قد تشهَّد قبل أن يقوم للزيادة ، وهل يمكن أن يزيد بعد أن يتشهَّد ؟
الجواب : نعم يمكن ، وذلك بأن يتشهَّد في الرابعة ، ثم ينسى ويظنُّ أنها الثانية ، ثم يقوم للثالثة في ظَنِّه ، ثم يذكر بعد القيام بأن هذه هي الخامسة ، وأن التشهد الذي قرأه هو التشهُّد الأخير .
قوله : ( وسَجَدَ وسَلَّم ) ظاهر كلامه رحمه الله : أنه يسجد قبل السلام .. وهو المذهب ؛ لأنهم لا يرون السجود بعد السلام ؛ إلا فيما إذا سَلَّمَ قبل إتمامها فقط ، وأمَّا ما عدا ذلك فهو قبل السَّلام ، لكنَّ القول الرَّاجح الذي اختاره شيخ الإِسلام ابن تيمية : أن السجود للزيادة يكون بعد السلام مطلقاً .
مسألة : إذا قام إلى ثالثة في الفجر ماذا يصنع ؟
الجواب : يرجع ولو بعد القراءة ، وكذلك بعد الرُّكوع : يرجع ويتشهَّد ويُسلِّم ، ثم يسجد للسهو ويُسَلِّم ، على القول الرَّاجح أن السجود هنا بعد السلام " .
انتهى من " الشرح الممتع " (3/342 - 343) .


وأما إذا لم يعلم المصلي بالزيادة ، إلا بعد الفراغ منها : ففي هذه الحال : تصح صلاته ، ويسجد للسهو بعد السلام ؛ لأجل الزيادة التي حصلت في الصلاة .
جاء في " مجموع فتاوى ابن عثيمين " (14/31) : " عن رجل صلى الظهر خمساً ، ولم يعلم إلا في التشهد ، فما الحكم ؟
فأجاب : إذا زاد الإنسان في صلاته ركعة ، ولم يعلم حتى فرغ من الركعة ، فإنه يسجد للسهو وجوباً ، وهذا السجود يكون بعد السلام من الصلاة ، ودليل ذلك أن الرسول صلى الله عليه وسلم لما صلى خمساً وأخبروه بعد السلام : ثنى رجليه وسجد سجدتين ... ، فلما سجد بعد السلام ، ولم ينبِّه أن محل السجود في هذه الزيادة قبل السلام ، علم أن السجود للزيادة بعد السلام ، ويشهد لذلك حديث ذي اليدين " انتهى .
والله أعلم .


موقع الإسلام سؤال وجواب
____________________________
ترجمہ :
سوال :
اگر نمازی چار رکعتوں والی نماز میں پانچویں رکعت کیلئے کھڑا ہوجائے تو اسکا کیا حکم ہے؟
جب نمازی اکیلا چار رکعت والی نماز ادار کر رہا ہو، اورپھر بھول کر پانچویں رکعت کیلئے کھڑا ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
الحمد للہ:

نماز میں زیادتی کے بارےمیں امام، منفرد، اور مقتدی سب کا ایک ہی حکم ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر عمداً رکعت زیادہ کردے تو اسکی نماز باطل ہوجائے گی، اور عین ممکن ہے کہ ایسا کوئی بھی نہیں کرتا۔

اور اگر نماز میں زیادتی بھول کی وجہ سے ہو تو اسکی دو صورتیں ہیں:

1- کہ امام ، مقتدی ، یا منفرد ،کسی کو بھی زائد رکعت کے دوران ہی پتہ چل جائے، تو فورا تشہد میں بیٹھنا ضروری ہے، وگرنہ اسکی نماز باطل ہوجائے گی،کیونکہ اب وہ جان بوجھ کر نماز میں زیادتی کر یگا، چنانچہ اگر پہلے تشہد نہیں بیٹھا تو اب وہ تشہد بیٹھے گا، اور سلام کے بعد سجدہ سہو کریگا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ شرح ممتع میں کہتے ہیں:

"مؤلف کا قول: (وإن علم فيها)یعنی اگر زائد رکعت کے دوران ہی نمازی کو زیادتی کا علم ہوجائے تو ( جلس في الحال )یعنی: جس وقت یاد آئے اسی وقت تشہد میں بیٹھ جائے ، تاخیر نہ کرے، چاہے پانچویں رکعت کے رکوع میں ہی یاد آئے تو وہ فورا تشہد میں بیٹھ جائے۔

یہاں کچھ طلبائے کرام کا وہم ہے کہ "ایسے شخص کا حکم اُسی شخص جیسا ہے جو پہلا تشہد بھول کر کھڑا ہوجاتا ہے، چنانچہ اگر زائد رکعت کیلئے کھڑا ہونے کے بعد قراءت شروع کردی تو اب تشہد میں واپس بیٹھنا حرام ہے" یہ وہم غلط ہے، کیونکہ زائد رکعت مکمل کرنا بالکل بھی ممکن نہیں ہے، جیسے یاد آئے تو تشہد میں لوٹنا واجب ہے، تا کہ نماز میں زیادتی نہ ہو؛ کیونکہ اگر نمازی زائد رکعت پڑھتا ہی رہے تو یہ نماز میں عمداً زیادتی کا موجب ہے، اور یہ جائز نہیں ہے؛ اس سے نماز باطل ہوجائے گی۔

مؤلف کا قول:( فَتَشَهَّد إن لم يَكُنْ تَشَهَّدَ ) یعنی : نمازی کو زائد رکعت کا جیسے ہی علم ہو تو تشہد بیٹھ جائے، اور تشہد کی دعا پڑھے، اگر زائد رکعت کیلئے کھڑا ہونے سے پہلے تشہد پڑھ چکا تھا تو اب دوبارہ ضرورت نہیں۔ لیکن یہاں سوال ہے کہ: کیا تشہد پڑھنے کے بعد بھی نماز میں زیادتی ہوسکتی ہے؟

جواب: یہ ہے کہ جی ہاں! ہوسکتی ہے، وہ اس طرح کہ چوتھی رکعت کے تشہد کو دوسری رکعت کا تشہد سمجھ لے، اور اپنے گمان کے مطابق تیسری کیلئے کھڑا ہواجائے، اور کھڑا ہونے کے بعد نمازی کو یاد آئے کہ یہ تو پانچویں رکعت ہے، اور جو تشہد پڑھا تھا وہ آخری تشہد تھا ، درمیان والا نہیں۔

مؤلف کا قول: ( وسَجَدَ وسَلَّم ) ظاہری طور پر تو اسکا یہی مطلب ہے کہ سلام سے پہلے سجدہ سہو کریگا، [حنبلی مذہب]یہی ہے؛ کیونکہ [حنابلہ]کے ہاں سلام کے بعد سجدہ سہو ہے ہی نہیں، الا کہ نماز مکمل ہونے سے پہلے ہی سلام پھیر لے تو [بعد میں سجدہ سہو کرسکتا ہے] جبکہ اسکے علاوہ جتنی بھی سہو کی صورتیں ہیں سب میں سجدہ سہوسلام سے پہلے ہے۔

جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اختیارات کے مطابق، نماز میں زیادتی کی وجہ سے کیا جانے والا سجدہ سہو ہمیشہ اور مطلقا سلام کے بعد ہی ہوگا۔

مسئلہ : نمازِ فجر میں تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہوگیا تو اب کیا کریگا؟

جواب: قراءت شروع کر لے یا رکوع میں پہنچ جائے ہر حالت میں نمازی واپس تشہد میں بیٹھ کر تشہد پڑھے گا اور پھر سلام پھیر کر سجدہ سہو کریگا اور پھر دوبارہ سلام پھیرے گا، اس مسئلہ میں یہی راجح موقف ہے کہ یہاں سجدہ سہو سلام کے بعد ہوگا"انتہی

" الشرح الممتع " (3/342 - 343)

اور اگر نمازی کو نماز میں زیادتی کا علم نماز سے فراغت کے بعد ہی ہوا تو ایسی حالت میں اسکی نماز درست ہوگی، اور زیادتی کی وجہ سے سلام کے بعد سجدہ سہو کریگا۔

جیسے کہ " مجموع فتاوى ابن عثيمين " (14/31) میں ہے کہ:

"ایک ایسے آدمی کے بارے میں سوال ہے کہ جس نے ظہر کی نماز پانچ رکعت ادا کی اور اسے اس بات کا احساس تشہد ہی میں ہوا تو اسکا کیا حکم ہے؟

انہوں نے جواب دیا: اگر انسان نماز میں ایک رکعت زائد ادا کر لے اور اسے نماز سے فراغت کے بعد ہی احساس ہوتا ہے تو اسکے لئے سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا واجب ہے، اسکی دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار پانچ رکعتیں پڑھائیں تو سلام پھیرنے کے بعد آپکو اس بارے میں بتلایا گیا: تو آپ نے اسی وقت دو سجدہ سہو کئے۔۔۔، سلام کے بعد سجدہ سہو کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں زیادتی کے وقت سجدہ سہو کے وقت کا تعین نہیں کیا کہ یہ سلام سے پہلے ہوگا، چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں زیادتی کے وقت سلام کے بعد سجدہ سہو کیا جائے گا، اسکی ایک اور دلیل حدیث ذو الیدین بھی ہے"انتہی

واللہ اعلم .

اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2016
پیغامات
46
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
32
اس سلسلہ میں دوسرا فتوی یہ ہے کہ :
إذا قام المصلي للركعة الخامسة في الصلاة الرباعية ، فماذا عليه ؟
السؤال:
إذا صلى الرجل منفرداً ( صلاة من أربع ركعات ) ، ثم سها وقام للركعة الخامسة ، فماذا عليه أن يفعل ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔
الجواب :
الحمد لله
الإمام والمنفرد والمأموم حكمهم واحد بالنسبة للزيادة ، فمن زاد منهم ركعة عامداً ، ذاكرا لزيادتها : بطلت صلاته ، ومثل هذا لا يكاد يفعله أحد .
وأما إذا كانت الزيادة في الصلاة سهواً ، فلا يخلو : إما أن يعلم المصلي ( سواء كان إماماً ، أو مأموماً ، أو منفرداً ) بالزيادة في أثناء الركعة الزائدة ، ففي هذه الحال يلزمه الرجوع ، وإلا بطلت صلاته ؛ لتعمد الزيادة في الصلاة ، ويتشهد إذا لم يكن تشهد قبل هذا ، ويسجد للسهو بعد السلام .
قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله : " قوله : ( وإن علم فيها ) أي : إنْ عَلِمَ بالزيادة في الرَّكعة التي زادها .
قوله : ( جلس في الحال ) أي : في حال علمه ، ولا يتأخَّر ، حتى لو ذَكَرَ في أثناء الرُّكوع أن هذه الرَّكعة خامسة يجلس .
وقد يتوهَّمُ بعضُ طَلَبَةِ العِلم في هذه المسألة أن حكمها حكم من قام عن التشهُّد الأول ، فيظن أنه إذا قام إلى الزائدة ، وشَرَعَ في القراءة : حَرُمَ عليه الرجوع ، وهذا وهمٌ وخطأ ، فالزائد لا يمكن الاستمرار فيه أبداً ، متى ذكر : وجب أن يرجع ، ليمنع هذه الزيادة ؛ لأنه لو استمر في الزيادة مع عِلْمِهِ بها ، لزاد في الصلاة شيئاً عمداً ، وهذا لا يجوز ؛ وتبطل به الصَّلاة .
قوله : ( فَتَشَهَّد إن لم يَكُنْ تَشَهَّدَ ) أي : أنه إذا علم بالزيادة ، فجلس ، فإنه يقرأ التشهُّدَ ، إلا أن يكون قد تشهَّد قبل أن يقوم للزيادة ، وهل يمكن أن يزيد بعد أن يتشهَّد ؟
الجواب : نعم يمكن ، وذلك بأن يتشهَّد في الرابعة ، ثم ينسى ويظنُّ أنها الثانية ، ثم يقوم للثالثة في ظَنِّه ، ثم يذكر بعد القيام بأن هذه هي الخامسة ، وأن التشهد الذي قرأه هو التشهُّد الأخير .
قوله : ( وسَجَدَ وسَلَّم ) ظاهر كلامه رحمه الله : أنه يسجد قبل السلام .. وهو المذهب ؛ لأنهم لا يرون السجود بعد السلام ؛ إلا فيما إذا سَلَّمَ قبل إتمامها فقط ، وأمَّا ما عدا ذلك فهو قبل السَّلام ، لكنَّ القول الرَّاجح الذي اختاره شيخ الإِسلام ابن تيمية : أن السجود للزيادة يكون بعد السلام مطلقاً .
مسألة : إذا قام إلى ثالثة في الفجر ماذا يصنع ؟
الجواب : يرجع ولو بعد القراءة ، وكذلك بعد الرُّكوع : يرجع ويتشهَّد ويُسلِّم ، ثم يسجد للسهو ويُسَلِّم ، على القول الرَّاجح أن السجود هنا بعد السلام " .
انتهى من " الشرح الممتع " (3/342 - 343) .


وأما إذا لم يعلم المصلي بالزيادة ، إلا بعد الفراغ منها : ففي هذه الحال : تصح صلاته ، ويسجد للسهو بعد السلام ؛ لأجل الزيادة التي حصلت في الصلاة .
جاء في " مجموع فتاوى ابن عثيمين " (14/31) : " عن رجل صلى الظهر خمساً ، ولم يعلم إلا في التشهد ، فما الحكم ؟
فأجاب : إذا زاد الإنسان في صلاته ركعة ، ولم يعلم حتى فرغ من الركعة ، فإنه يسجد للسهو وجوباً ، وهذا السجود يكون بعد السلام من الصلاة ، ودليل ذلك أن الرسول صلى الله عليه وسلم لما صلى خمساً وأخبروه بعد السلام : ثنى رجليه وسجد سجدتين ... ، فلما سجد بعد السلام ، ولم ينبِّه أن محل السجود في هذه الزيادة قبل السلام ، علم أن السجود للزيادة بعد السلام ، ويشهد لذلك حديث ذي اليدين " انتهى .
والله أعلم .


موقع الإسلام سؤال وجواب
____________________________
ترجمہ :
سوال :
اگر نمازی چار رکعتوں والی نماز میں پانچویں رکعت کیلئے کھڑا ہوجائے تو اسکا کیا حکم ہے؟
جب نمازی اکیلا چار رکعت والی نماز ادار کر رہا ہو، اورپھر بھول کر پانچویں رکعت کیلئے کھڑا ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
الحمد للہ:

نماز میں زیادتی کے بارےمیں امام، منفرد، اور مقتدی سب کا ایک ہی حکم ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر عمداً رکعت زیادہ کردے تو اسکی نماز باطل ہوجائے گی، اور عین ممکن ہے کہ ایسا کوئی بھی نہیں کرتا۔

اور اگر نماز میں زیادتی بھول کی وجہ سے ہو تو اسکی دو صورتیں ہیں:

1- کہ امام ، مقتدی ، یا منفرد ،کسی کو بھی زائد رکعت کے دوران ہی پتہ چل جائے، تو فورا تشہد میں بیٹھنا ضروری ہے، وگرنہ اسکی نماز باطل ہوجائے گی،کیونکہ اب وہ جان بوجھ کر نماز میں زیادتی کر یگا، چنانچہ اگر پہلے تشہد نہیں بیٹھا تو اب وہ تشہد بیٹھے گا، اور سلام کے بعد سجدہ سہو کریگا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ شرح ممتع میں کہتے ہیں:

"مؤلف کا قول: (وإن علم فيها)یعنی اگر زائد رکعت کے دوران ہی نمازی کو زیادتی کا علم ہوجائے تو ( جلس في الحال )یعنی: جس وقت یاد آئے اسی وقت تشہد میں بیٹھ جائے ، تاخیر نہ کرے، چاہے پانچویں رکعت کے رکوع میں ہی یاد آئے تو وہ فورا تشہد میں بیٹھ جائے۔

یہاں کچھ طلبائے کرام کا وہم ہے کہ "ایسے شخص کا حکم اُسی شخص جیسا ہے جو پہلا تشہد بھول کر کھڑا ہوجاتا ہے، چنانچہ اگر زائد رکعت کیلئے کھڑا ہونے کے بعد قراءت شروع کردی تو اب تشہد میں واپس بیٹھنا حرام ہے" یہ وہم غلط ہے، کیونکہ زائد رکعت مکمل کرنا بالکل بھی ممکن نہیں ہے، جیسے یاد آئے تو تشہد میں لوٹنا واجب ہے، تا کہ نماز میں زیادتی نہ ہو؛ کیونکہ اگر نمازی زائد رکعت پڑھتا ہی رہے تو یہ نماز میں عمداً زیادتی کا موجب ہے، اور یہ جائز نہیں ہے؛ اس سے نماز باطل ہوجائے گی۔

مؤلف کا قول:( فَتَشَهَّد إن لم يَكُنْ تَشَهَّدَ ) یعنی : نمازی کو زائد رکعت کا جیسے ہی علم ہو تو تشہد بیٹھ جائے، اور تشہد کی دعا پڑھے، اگر زائد رکعت کیلئے کھڑا ہونے سے پہلے تشہد پڑھ چکا تھا تو اب دوبارہ ضرورت نہیں۔ لیکن یہاں سوال ہے کہ: کیا تشہد پڑھنے کے بعد بھی نماز میں زیادتی ہوسکتی ہے؟

جواب: یہ ہے کہ جی ہاں! ہوسکتی ہے، وہ اس طرح کہ چوتھی رکعت کے تشہد کو دوسری رکعت کا تشہد سمجھ لے، اور اپنے گمان کے مطابق تیسری کیلئے کھڑا ہواجائے، اور کھڑا ہونے کے بعد نمازی کو یاد آئے کہ یہ تو پانچویں رکعت ہے، اور جو تشہد پڑھا تھا وہ آخری تشہد تھا ، درمیان والا نہیں۔

مؤلف کا قول: ( وسَجَدَ وسَلَّم ) ظاہری طور پر تو اسکا یہی مطلب ہے کہ سلام سے پہلے سجدہ سہو کریگا، [حنبلی مذہب]یہی ہے؛ کیونکہ [حنابلہ]کے ہاں سلام کے بعد سجدہ سہو ہے ہی نہیں، الا کہ نماز مکمل ہونے سے پہلے ہی سلام پھیر لے تو [بعد میں سجدہ سہو کرسکتا ہے] جبکہ اسکے علاوہ جتنی بھی سہو کی صورتیں ہیں سب میں سجدہ سہوسلام سے پہلے ہے۔

جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اختیارات کے مطابق، نماز میں زیادتی کی وجہ سے کیا جانے والا سجدہ سہو ہمیشہ اور مطلقا سلام کے بعد ہی ہوگا۔

مسئلہ : نمازِ فجر میں تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہوگیا تو اب کیا کریگا؟

جواب: قراءت شروع کر لے یا رکوع میں پہنچ جائے ہر حالت میں نمازی واپس تشہد میں بیٹھ کر تشہد پڑھے گا اور پھر سلام پھیر کر سجدہ سہو کریگا اور پھر دوبارہ سلام پھیرے گا، اس مسئلہ میں یہی راجح موقف ہے کہ یہاں سجدہ سہو سلام کے بعد ہوگا"انتہی

" الشرح الممتع " (3/342 - 343)

اور اگر نمازی کو نماز میں زیادتی کا علم نماز سے فراغت کے بعد ہی ہوا تو ایسی حالت میں اسکی نماز درست ہوگی، اور زیادتی کی وجہ سے سلام کے بعد سجدہ سہو کریگا۔

جیسے کہ " مجموع فتاوى ابن عثيمين " (14/31) میں ہے کہ:

"ایک ایسے آدمی کے بارے میں سوال ہے کہ جس نے ظہر کی نماز پانچ رکعت ادا کی اور اسے اس بات کا احساس تشہد ہی میں ہوا تو اسکا کیا حکم ہے؟

انہوں نے جواب دیا: اگر انسان نماز میں ایک رکعت زائد ادا کر لے اور اسے نماز سے فراغت کے بعد ہی احساس ہوتا ہے تو اسکے لئے سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا واجب ہے، اسکی دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار پانچ رکعتیں پڑھائیں تو سلام پھیرنے کے بعد آپکو اس بارے میں بتلایا گیا: تو آپ نے اسی وقت دو سجدہ سہو کئے۔۔۔، سلام کے بعد سجدہ سہو کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں زیادتی کے وقت سجدہ سہو کے وقت کا تعین نہیں کیا کہ یہ سلام سے پہلے ہوگا، چنانچہ اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں زیادتی کے وقت سلام کے بعد سجدہ سہو کیا جائے گا، اسکی ایک اور دلیل حدیث ذو الیدین بھی ہے"انتہی

واللہ اعلم .

اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
ایک اور سوال اگر نمازی نماز پڑھ چکا ہو اور اس علم بعد میں ہو تو اس صورت میں کیا ہو گا ؟
 
Top