• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترکی اور روس میں کشیدگی

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
روسی فوجی طیارہ مار گرانے کے بعد ترکی اور روس کے مابین

کشیدگی بڑھ گئی ھے ۔اور اب روس نے ترکی سے معافی کا بھی

مطالبہ کر دیا ھے
۔شام میں روسکی پوری دخل اندازی کے بعد اور

ترکی کےشامی مہاجرین کے ساتھ معاملات اور مفادات اور ترکی

کا معافی مانگنے سے انکار ،بلکہ اس بات کا اظھار کہ روس ترکی سے

اسکی سرحدی خلاف ورزی پر ندامت کا اظھار کرے


فورم کے ممبران اور ارباب علم و دانش بالا نکات پر اپنی رائے سے

آگاہ کریں کہ ترکی اور عالم اسلام باالخصوص پاکستان اور سعودی عرب

کا کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے۔


امید ھے کہ فاضل ممبران اپنے خیالات عالیہ سے مستفید فرمایئں گے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
انقرہ / ماسکو : جیٹ طیارے کے معاملے پر ترکی اور روس میں کشیدگی برقرار ہے، روس نے امریکا پر سازش کا الزام عائد کیا ہے جبکہ ترک صدر نے روسی الزامات کی تردید کردی۔

شام میں جاری فضائی آپریشن کے دوران روس کے جنگی طیاروں کی نقل و حرکت سے امریکا کو آگاہ کیا تھا، معلومات کے باوجود جیٹ طیارہ مار گرانا سوچی سمجھی سازش ہے۔

فرانسیسی صدر فرانسو اولاند سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے امریکا پر تشویش کا اظہار کیا۔


صدر ولادی میر کے مطابق فضائی حدود کی حفاظت کیلئے دیگر طریقوں کے باوجود ترکی نے طیارہ مار گرایا۔
دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان نے روس کا الزام بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر معلوم ہوتا کہ طیارہ روس کا ہے تو صورتحال مخلتف ہوتی، دہشتگرد تنظیم سے تیل خریدنے کے روسی الزام کی بھی مذمت کی۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ روس شام میں بشارالاسد کی حمایت میں لڑرہا ہے، داعش کیخلاف کارروائیوں میں شامل نہیں۔
صدر رجب طیب اردوان نے طیارہ مار گرانے پر معذرت سے انکار کرتے ہوئے روس سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سماء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ نوائے وقت
رکی معافی مانگے‘ پیوٹن: ہم نہیں روس معذرت کرے : اردگان

ماسکو+ انقرہ (نوائے وقت رپورٹ+ اے ایف پی+ رائٹر) روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے طیارہ مار گرائے جن پر ترکی سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی نے ابھی تک معافی نہیں مانگی، ترک حکومت دوطرفہ تعلقات کو بند گلی میں لے جارہی ہے۔ دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ طیارہ مار گرانے پر روس سے معافی نہیں مانگیں گے۔معافی حدود کی خلاف ورزی کرنے والوں کو مانگنی چاہیے۔ ہمارے پائلٹوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔ اردگان نے کہا ہے کہ ترکی روس کا لڑاکا طیارہ مار گرائے جانے کے بعد کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتا۔ ترکی نے اپنی سلامتی اور شام میں اپنے بھائیوں کے دفاع کے لئے اقدام کیا تھا۔ داعش کے خلاف ترکی کی مہم غیرمتنازعہ ہے انہوں نے داعش سے تیل خریدنے کی تردید کی۔ ترکی میڈیا کے مطابق صدر نے کہا ”روسی جیٹ کو ترکی کی فضائی حدود میں نشانہ بنایا گیا تھا لیکن وہ تباہ ہونے کے بعد شام کی حدود میں گرا تھا البتہ ان کا کہنا ہے کہ اس طیارے کے کچھ حصے ترکی کی حدود میں گرے جس سے دو شہری زخمی ہوگئے تھے۔ اردگان نے کہا کہ ہم صرف اپنی سکیورٹی اور اپنے بھائیوں کے حقوق کا دفاع کررہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد ترکی کی شام کے بارے میں پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، ہم شامی سرحد کے دونوں جانب انسانی امدادی سرگرمیاں جاری رکھیں گے۔ مہاجرین کی نئی لہر کو روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں گے۔ ترک صدر نے پیوٹن کے اس موقف کو مسترد کردیا ہے کہ روسی طیارے شام کی فضائی حدود میں پروازیں کررہے تھے اور صرف داعش کے جنگجووں پر بمباری کررہے تھے۔ اردگان نے کہاکہ یہ کہا جارہا ہے کہ روسی طیارے اس علاقے میں داعش کے خلاف جنگ کے لئے موجود تھے۔ پہلی بات یہ ہے کہ دہشت گرد تنظیم داعش اللاذقیہ اور ترکمانوں کے علاقے میں موجود ہی نہیں، ہمیں بے وقوف نہ بنایا جائے۔ روسی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ترکی کے خلاف تجارتی پابندیاں عائد کردی ہیں، پابندیوں کا اطلاق ترکی سے غذائی برآمدات پر بھی ہوگا۔ روس نے اعلان کیا ہے کہ ترکی کی جانب سے اس کا جنگی طیارہ مار گرانے کے واقعہ کے باوجود ترک سرحد سے متصل شامی علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف روس کی فضائی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ روسی حکومت کے ترجمان دیمتری پیسکووف نے ماسکو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کی سرحد سے متصل علاقوں میں شامی باغیوں کے ٹھکانے موجود ہیں جس کے باعث روسی طیارے سرحدی علاقے میں پروازیں کرنے پر مجبور ہیں۔ روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف نے کہا ترکی کی کارروائی روس کو اشتعال دلانے کی سوچی سمجھی کوشش لگتی ہے۔ روس کے مفتی اعظم طلعت تاج الدین نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روسی لڑاکا طیارے ایس یو 24 کو گرانے پر روس سے معافی مانگے۔ مفتی اعظم طلعت تاج الدین کے مطابق ترکی کا یہ غیر دوستانہ اقدام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ روسی پارلیمنٹ کے ایوان زیرین دوما کے سپیکر سرگئی ناریشکین نے شام کے نائب وزیر اعظم، وزیر خارجہ ولید معلم سے ملاقات میںکہا کہ روس اس بات کے قطعی خلاف ہے کہ کسی ملک کی حکومت میں غیر ملکی طاقتوں کی خواہش پر تبدیلی آئے۔ ضروری ہے کہ شام کے عوام خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں اور اپنی حکومت کا انتخاب کریں۔ روس سمجھتا ہے کہ شام میں امن کی بحالی کی خاطر تمام ملکی سیاسی قوتوں کے درمیان مذاکرات کیلئے زمین ہموار کرنا اہم ہے اور روسی قیادت اس میدان میں سرگرم کوششیں کر رہی ہے۔ روسی طےارے کو امرےکی توپ شکن مےزائل سے ما ر گرانے کا انکشاف ہوا ہے۔ غےر ملکی مےڈےا کے مطابق ترکی اور روس کے درمیان شدےد کشےدگی کا باعث بننے والے روسی طیارے کو گرانے کے واقعہ میں یہ نکشاف ہوا ہے کہ طیارے کو گرانے کے لئے امریکی توپ شکن میزائل کا استعمال کیا گیا تھا۔ شام کے فوجی ذرائع کے مطابق سعودی عرب نے امریکہ سے اس میزائل کو خریدا تھا اور ترکی کے راستے کچھ ہفتے پہلے ہی اسے شام لایا گیا تھا۔ پیوٹن کا کہنا ہے کہ ترک حکومت جان بوجھ کر تعلقات کو اس جانب لے جارہی ہے۔ روس نے ترکی سے غذائی اشیاءکی درآمدات پر کنٹرول سخت کردیا ہے۔ روسی وزیراعظم سے ترکی کے خلاف اقدامات کا حکم دیا جس کے تحت سرمایہ کاری کے کئی منصوبے متاثر ہوں گے۔روسی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ترکی سے ہاٹ لائن پر معلومات کے تبادلے سمیت تمام فوجی روابط معطل کردیئے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ اگر معلوم ہوتا جنگی طیارہ روس کا ہے تو مختلف ردعمل ظاہر کرتے طیارہ گرانے کے بعد سے روسی صدر فون کا جواب نہیں دے رہے۔ترکی نے مشنز، فرمز پر حملوں پر احتجاج کیلئے روسی سفیر کو طلب کیا ہے ۔پیوٹن نے کہا ہے کہ ترکی کی جانب سے طیارہ گرانا بے وفائی ہے۔سی این این کے مطابق ترکی میں دہشت گردی کے الزام میں معروف صحافی پکڑ لئے گئے۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ستنبول: طیارے مارگرانے پر روس اور ترکی کے درمیان کشیدگی برقرار ہے ۔ ترکی نے روسی پائلٹوں کو دی گئی وارننگ کی آڈیو ٹیپ جاری کردی ہے ۔ امریکا نے ماسکو پرزور دیا ہے کہ انقرہ کےساتھ کشیدگی کم کرکے داعش کے خلاف کارروائیاں کی جائیں۔
ترکی نے روس کے جھوٹ کا پول کھول دیا ۔ طیارہ مارگرانے سے پہلے دی گئی وارننگ کی آڈیو جاری کردی گئی ۔
ترک سرحد کےقریب ریسکیو کئے گئے روسی پائلٹ کا موقف ہے کہ اسے کوئی وارننگ نہیں دی گئی ۔
روس نے ترک سرحد کے قریب حملوں میں اضافہ کردیا ہے ۔ امدادی ایجنسیوں کے کئی ٹرکوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔
روسی وزیر دفاع نے ترکی کے ساتھ دفاعی تعلقات ختم کرنے اور وزیراعظم نے تجارتی تعلقات منقطع کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔
روسی وزیرخارجہ کا کہنا ہے کہ ترکی کےساتھ جنگ کا کوئی ارادہ نہیں ۔

امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے روسی ہم منصب کےساتھ ٹیلی فون پر بات کی اور ترکی کے ساتھ کشیدگی ختم کرکے داعش کے خلاف اتحاد میں شامل ہونے پر زور دیا ۔
ادھر ماسکو میں ترک سفارتخانے کے باہر روسی شہریوں نے مظاہرہ کیا ۔ اور ترک پرچم نذر آتش کیا ۔ سماء / ایجنسی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
یہ آخری جنگ ہو گی!
پیر 17 صفر 1437 ھ - 30 نومبر 2015
نازیہ مصطفیٰ
انسویں صدی کے آواخر میں یورپ میں سیاسی و علاقائی صورتحال تیزی سے بدلنے لگی تھی، جرمنی کی صنعتی ترقی نے اسے یورپ کی بڑی قوت بنادیا تھا اور جرمنی کے خوف سے یورپ کی دوسری بڑی قوت برطانیہ نے مختلف علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر آنے والے سالوں کیلئے پیش بندی کرنا شروع کردی تھی۔ یوں خطے میں مختلف قوتوں کے درمیان نئے علاقائی اتحاد بننے شروع ہوگئے۔ برطانیہ نے پہلا اتحاد جاپان کے ساتھ 1902 میں کیا، جس کے بعد 1904 میں برطانیہ اور فرانس کے مابین بھی ایک معاہدہ ہوگیا جو اگرچہ باقاعدہ اتحاد تو نہیں تھا تاہم قریبی تعلقات کے فروغ اور ایک دوسرے کی مدد کیلئے بے حد اہمیت کا حامل معاہدہ ضرور تھا۔ اسی طرح کا دوستی کا ایک معاہدہ برطانیہ، فرانس اور روس کے مابین 1907 میں (The Triple Entente) کے نام سے ہوا، جس سے یورپ دو گروپوں میں تقسیم ہوگیا تھا، اس تقسیم کے ایک طرف جرمنی، آسٹریا ، ہنگری، سربیا اور اٹلی جبکہ دوسری طرف روس، فرانس اور برطانیہ کھڑے تھے۔ بنیادی طور پر یہ پہلی عالمی جنگ کی پیش بندی تھی جو کسی بھی وقت چھڑ سکتی تھی۔

پہلی عالمی جنگ کو بیسویں صدی کا پہلا بڑا عالمی تنازعہ بھی قرار دیا جاتا ہے ، لیکن بنیادی طور پر یہ کسی عالمی تنازعہ سے زیادہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی عالمی سازش تھی جو اگرچہ اگست 1914 میں ہبزبرگ کے ایک شہزادے فرانز فرڈنینڈ کے قتل سے شروع ہوئی، لیکن اس جنگ کی بنیاد یورپ کی دو گروپوں میں تقسیم کی صورت میں انیسویں صدی کے اختتام پر رکھی جا چکی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحادی قوتوں (برطانیہ، فرانس، سربیا اور روس، جاپان، اٹلی، یونان، پرتگال، رومانیہ اور امریکہ) کا مقابلہ محوری قوتوں (جرمنی ، آسٹریا، ہنگری اور بلغاریہ) سے تھا۔ خوف اور طاقت کے نشے میں دنیا کے بیشتر ممالک بھی اس جنگ کا حصہ بنتے چلے گئے لیکن جنگ کا ابتدائی جوش و جذبہ اس وقت ماند پڑگیا جب لڑائی ایک انتہائی مہنگی اور خندقوں کی ہولناک جنگ کی شکل اختیار کر گئی کیونکہ مغربی محاذ پر خندقوں اور قلعہ بندیوں کا سلسلہ 475 میل تک پھیل گیا تھا۔

پہلی جنگ عظیم میں اپنے اتحادیوں کی مدد کیلئے روس کو بالکنز کے علاقے اور بحیرہ روم کو عبور کرکے آگے جانا تھا۔ روس کی جانب سے اپنے علاقوں اور سرحدوں کی خلاف ورزی پر سلطنت عثمانیہ کو مجبورااِس جنگ میں کودنا پڑا اور سلطنت عثمانیہ نے اپنے علاقے بچانے کیلئے محوری قوتوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا، پہلی عالمی جنگ کے دوران مشرقی محاذ پر وسیع تر علاقے کی وجہ سے بڑے پیمانے کی خندقوں کی لڑائی تو ممکن نہ ہوئی لیکن اس لڑائی کی شدت مغربی محاذ کے برابر ہی تھی۔ یہ چونکہ جنگ سے زیادہ ایک سازش تھی، اس لیے جنگ (سازش) آہستہ آہستہ کرکے یورپ کے دیگر علاقوں سے سمٹتی ہوئی سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں محدود ہوکر رہ گئی، مغربی محاذ پر بنیادی طور پر پہلی عالمی جنگ 11 نومبر 1918 کو صبح کے 11 بجے ختم ہو گئی، جرمنی کے جنگ سے نکلنے کے بعد محوری قوتوں کے اتحادیوں کو بھی شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا اور جنگ کے بنیادی مقصد کے تحت اتحادی قوتیں سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اسلامی دنیا پر اس معاہدہ کا بہت برا اثر پڑا۔ چونکہ سلطنت عثمانیہ جرمنی کی اتحادی تھی اس لیے اُسے اس جنگ کی بڑی بھاری قیمت چکانا پڑی۔

انگریزوں نے عربوں کو ترکوں کے خلاف جنگ پر اکسایا اور اِس طرح سلطنت عثمانیہ میں مسلمانوں کے مابین قومیت کی بنیاد پر جنگیں شروع ہوگئیں۔ اِن جنگوں میں بہت سے عرب علاقے ترک سلطان کے ہاتھ سے نکل گئے اور اسی جنگ کے اختتام پر مسلمانوں کی وحدت کی علامت عظیم خلافت عثمانیہ کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ 96 برس قبل 28 جون 1919 کو فریقین کے مابین معاہدہ ورسائی کے بعد عالمی جنگ تو رُک گئی لیکن اس کے اثرات بین الاقوامی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہے۔

پہلی عالمی جنگ ظلم و بربریت کی داستانوں کو بڑھاتی اور برداشت و رواداری کے جذبوں کو مزید کم سے کم تر کرتی چلی گئی۔ اتحادی اور محوری قوتوں سے شروع ہونے والی اس لڑائی میں آہستہ آہستہ کرکے دنیا کی بیشتر اقوام بھی حصہ بنتی چلی گئیں اور یوں پوری دنیا اس جنگ کی آگ جھلستی چلی گئی۔ پہلی جنگ عظیم جدید تاریخ کی سب سے زیادہ تباہ کن لڑائی تھی، جس میں دنیا میں پہلی بار جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی، پہلی بار دنیا نے کیمیائی اور زہریلی گیس کا استعمال دیکھا،یہ پہلی جنگ تھی جو سمندر کے علاوہ پہلی مرتبہ فضا میں بھی لڑی گئی۔ جنگ عظیم میں دونوں فریقوں کے تقریباًدو کروڑ سے زائد فوجی اور عام لوگ کام آئے اور دو کروڑ افراد کے لگ بھگ ہمیشہ کیلئے معذور یا ناکارہ ہوگئے۔

قارئین کرام!! پہلی جنگ عظیم کی وحشت اور درندگی ایک دفعہ پھر نظر آنے لگی ہے۔ وہ عالمگیر جنگ جس کا سبب اور محرک محض ایک شہزادے کا قتل تھا اور اس قتل کو بنیاد بنا کر ایک جانب دو کروڑ سے زیادہ لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا تو دوسری جانب جنگ سے گریز پا سلطنت عثمانیہ کو بھی جنگ میں گھسیٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ میں بھی روس نے ترکی کی سرحدوں کی خلاف ورزی کی اور ترکی کو جنگ میں گھسیٹ لیا اور پہلی عالمی جنگ کی طرح اب پھر ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے محض ایک روسی طیارہ کو گرائے جانے کے واقعہ کو بنیاد بنا کر نا صرف تیسری عالمی جنگ کی باتیں کی جا رہی ہیں بلکہ اسلامی دنیا کی اپنی قدموں پر کھڑی ہوتی ہوئی طاقت (ترکی) کو دوبارہ نیچے گرانے اور مزا چکھانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ایک سو سال پہلے یورپ کا مرد بیمار (ترکی) جنگ لڑنے کے بالکل بھی قابل نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ ترکی اتحادیوں کی سازشوں کا مقابلہ کر سکا نہ ہی اپنے علاقے بچا پایا، لیکن روس کو شاید معلوم نہیں کہ اب ترکی یورپ کا مرد بیمار نہیں ہے بلکہ جوہری طاقت نہ ہونے کے باوجود ترکی اپنی پالیسیوں اور معاشی استحکام کی وجہ سے اسلامی دنیا کا سرخیل ایک طاقتور ملک ہے۔ یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اب محض ایک واقعہ کو بنیاد بناکر تیسری عالمی جنگ نہیں چھیڑی جابسکتی، لیکن خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو یہ آخری جنگ ہوگی! بشکریہ روزنامہ 'نوائے وقت'
------------------------------------
(کالم نگار کے نقطہ نظر سے متفق ہونا ضروری نہیں)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
روس نے ترک سرحد کے قریب میزائل نصب کردیئے
ویب ڈیسک ہفتہ 28 نومبر 2015




ماحولیات کانفرنس کے دوران روسی صدر سے مل کر مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں، طیب اردوگان، فوٹو: فائل

استنبول: کئی روز سے جاری لفظی جنگ کو کم کرنے کے لیے ترک صدر طیب اردوگان نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے کہا ہے کہ روسی طیارے کو مار گرائے جانے پر وہ افسردہ ہیں اور خواہش ہے کہ آئندہ ایسا واقعہ رونما نہ ہو جب کہ دوسری جانب ترکی نے اپنے شہریوں کو روس کا غیر ضروری سفر کرنے سے محتاط رہنے کی ہدایت جاری کی ہے۔

استنبول میں اپنے حامیوں سےخطاب میں ترک صدر طیب اردوگان کا کہنا تھا کہ انہیں روسی طیارہ مار گرائے جانے پر افسوس ہے کیونکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا تاہم وہ چاہتے ہیں کہ آئندہ اس طرح کا واقعہ نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں اطراف سے اس مسئلے کو مثبت انداز میں لے کر آگے بڑھنا چاہیے اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے تحت پیرس میں ہونے والی ماحولیات کانفرنس کے دوران روسی صدر سے مل کر روبرو اس مسئلے پر بات کریں۔

اس سے قبل ترک وزارت خارجہ نے اپنے شہریوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ صورت حال بہتر اور واضح ہونے تک روس کا سفر نہ کریں۔ ادھر روس نے بحری جنگی جہاز پر نصب ایئر ڈیفنس نظام ایس 400 میزائل بھی شامی اڈے پر پہنچا دیئے ہیں جب کہ روس کا بحری جنگی جہاز فضائیہ کے جہازوں کی حفاظت کرے گا، اس جنگی جہاز میں اوسا نامی زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل نصب ہیں۔

واضح رہے کہ ترکی کی حدود کی خلاف ورزی پرترک فضائیہ نے روسی طیارہ مار گرایا تھا جس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں درمیان سخت کشیدگی پیدا ہوگئی اور ایک دوسرے کے خلاف لفظی جنگ جاری ہے جب کہ روس طیارہ مار گرانے پر ترکی سے بات چیت کا عمل اس کی معافی سے مشروط کردیا ہے۔
 
Top