• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترکی میں عسکری انقلاب ؟!

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ترکی میں ناکام بغاوت میں امریکہ کا کوئی کردار نہیں: کیری

ناکام بغاوت میں امریکہ کے کسی بھی طرح کے کردار کے بارے میں مبہم بیانات یا دعوے سراسر غلط اور دو طرفہ تعلقات کے لیے نقصان دہ ہیں جن لوگوں نے بغاوت کی منصوبہ بندی کی ہے ان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔" امریکی وزیر خارجہ جان کیری


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
ملا عمر صبح سے ہی یاد آگئے۔
جتنی منافقت مغرب میں پائی جاتی ہے ..اس کی مثال ملنا بھی مشکل ہے..اگلے روز چانکیہ کی کتاب دیکھ رہا تھا..لیکن اس کی چکا چوند اب ان کے آگے ماند پڑتی دکھائی دیتی ہے..
..رجب طیب اردگان نے امریکہ سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے....ان کا خیال ہے کہ بغاوت کے پیچھے گولن کا دماغ کام کر رہا تھا..امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ
"ترکی ثبوت پیش کرے"۔
.بجا کہا لیکن پھر سے کہیے ...
یہی بات ملّا عمر کہتے کہتے دنیا سے چلے گئے..جب امریکہ نے کہا کہ
"اسامہ بن لادن حملوں میں ملوث ہے اور اسے ہمارے حوالے کیا جایے.."
تب ملا عمر کا یہی کہنا تھا کہ شواہد پیش کریں.......لیکن امریکہ کے پلے کچھ ہوتا تو بتاتا...اس کے جواب میں ہر دن بہتری اور امن کی طرف جاتے ملک پر حملہ کر کے لاکھوں معصوم افراد کو قتل کردیا گیا....
..جان کیری کو کون بتائے کہ آپ نے ایک احمقانہ مطالبہ کیا ہے...اس کا جواب مہذب دنیا میں بمباری ہوتا ہے..ملک کو برباد کر دینا ہوتا ہے...معصوم انسانوں کا قتل ہوتا ہے..اور پھرآخر میں "سوری" بولا جاتا ہے............ابوبکرقدوسی


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی حکومت کسی ايسے شخص يا سياسی عنصر کو تحفظ فراہم کرنے يا اس کی حمايت کا ارادہ نہيں رکھتی ہے جو تشدد اور افراتفری کا محرک بنے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اس ضمن ميں بالکل واضح بيان ديا ہے۔

"يہ تاثر کہ امريکہ فتح اللہ گلين کی پشت پنائ کر رہی ہے، حقائق کے منافی ہے"

علاوہ ازيں يہ تاثر بھی بالکل غلط ہے کہ امريکی وزير خارجہ جان کيری نے کسی بھی طور اپنے بيانات ميں فتح اللہ گلين کا دفاع کيا ہے۔

اس ضمن ميں ان کا بيان من وعن پيش ہے

"ہميں جامع شواہد ديکھنے کی ضرورت ہے جو دنيا کے کسی بھی ملک کے حوالگی کے قوانين اور اس ضمن ميں رائج طريقہ کار اور ضوابط کے مطابق ہوں۔ اگر يہ شواہد اس معيار کے مطابق ہيں تو پھر اس ضمن ميں ترکی کے ساتھ ہمارے معاہدے کے عين مطابق ہميں ان کی حوالگی کے ضمن ميں کوئ اعتراض نہيں ہے اور ہم اس عمل ميں رکاوٹ نہيں بنيں گے"

نو گيارہ کے واقعے کے بعد اسامہ بن لادن کے خلاف مقدمے اور پھر اس کا موازنہ امريکہ ميں مقيم کسی ايسے فرد يا افراد سے کرنا جو ترکی ميں حکومت کا تختہ الٹانے کی کوشش کے ضمن ميں مبينہ طور پر ملوث ہو سکتا ہے، بالکل غير دانشمندانہ اور غير منطقی ہے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ امريکی حکام نے نيويارک ميں نو گيارہ کے اندوہناک واقعے کے بعد ذمہ دار افراد کے خلاف نا صرف يہ کہ تحقيقات کيں تھيں بلکہ شواہد بھی فراہم کيے تھے۔ صرف يہی نہيں بلکہ ان افراد کے خلاف بھی قانونی چارہ گوئ کی گئ جو کہ اگرچہ اس واقعے کے روز موقع پر موجود نہيں تھے ليکن منصوبہ بندی کے عمل ميں شامل تھے۔ امريکی حکومت کی جانب سے کی جانے والی جامع تفتيش اور اس کے بعد قانونی کاروائ کے نتيجے ميں ان ميں کئ افراد اب امريکہ کی جيلوں ميں لمبی قيد کاٹ رہے ہيں۔

اور آخر ميں يہ بھی واضح رہے کہ اسامہ بن لادن نے نا صرف يہ کہ سال 1996 ميں ہی امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کر ديا تھا بلکہ اس ضمن ميں کئ فتوے بھی جاری کيے اور پھر اپنی دھمکيوں پر عمل کرتے ہوۓ دنيا بھر ميں امريکی شہريوں، املاک اور مفادات پر کئ دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی بھی کی۔

نو گيارہ کے واقعے سے قبل اسامہ بن لادن اور القائدہ کی جانب سے امريکہ کے خلاف جرائم کی تاريخ اور اس ضمن ميں کچھ تاريخی حقائق اس ويب لنک پر موجود ہيں۔

http://www.heritage.org/research/projects/enemy-detention/al-qaeda-declarations

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
امریکہ نے ترکی سے فتح اللہ گولن کے خلاف ثبوت مانگا تو ترک وزیراعظم نے ایسا جواب دے دیا کہ امریکہ سمیت پوری دنیا کا منہ بند کروا دیا، کیا کہا؟ جان کر آپ داد دیئے بغیر نہ رہ پائیں گے
روزنامہ پاکستان، 21 جولائی 2016

انقرہ
(مانیٹرنگ ڈیسک) رجب طیب اردگان اور ان کی حکومت کے دیگر عمال فوجی بغاوت کا الزام خدمت تحریک کے سربراہ فتح اللہ گولن پر عائد کر رہے ہیں جو امریکہ میں سیاسی پناہ لیے ہوئے ہے۔ ترک حکومت اس سے قبل امریکہ سے مطالبہ کر چکی ہے کہ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کیا جائے جس پر امریکہ نے اسے فتح اللہ گولن کے بغاوت میں ملوث ہونے کے شواہد دینے کو کہا تھا۔ امریکہ کی اس بات پر ترک وزیراعظم نے اسے ایسا جواب دے دیا ہے کہ امریکہ سمیت پوری دنیا کا منہ بند ہو گیا ہے۔

ترک وزیراعظم نے امریکہ سے کہا ہے کہ
نائن الیون کے ملزموں پر مقدمات چلاتے وقت اور محض شک کی بنیاد پر لوگوں کو گوانتاناموبے میں قید کرتے وقت تم لوگوں کو ثبوتوں کی کوئی ضروت محسوس نہیں ہوئی؟“۔

دوسری طرف ترک حکومت نے امریکہ کو فتح اللہ گولن کی حوالگی کے لیے باضابطہ طور پر لکھ دیا ہے۔ ہیرالڈ ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے اعلان کیا ہے کہ
”فتح اللہ گولن کو امریکہ سے واپس لانے کے لیے ہم نے باضابطہ طور پر امریکہ کو لکھ دیا ہے اور دیگر ضروری اقدامات بھی اٹھا رہے ہیں۔“

رپورٹ کے مطابق بن علی یلدرم نے امریکہ کے فتح اللہ گولن کے خلاف ترکی سے ثبوت مانگنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ”میں نے اور صدر رجب طیب اردگان نے امریکہ سے ایک درخواست کے ذریعے فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے مگر وہ تاحال اس کے خلاف شواہد مانگ رہا ہے۔ اگرچہ ہم امریکہ کو فتح اللہ کے خلاف ثبوت بھیجیں گے مگر جب امریکہ نے نائن الیون کے ملزموں کے خلاف مقدمات چلائے تو اسے ان کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ ہوئی؟

اور کیا اس نے ’مشکوک‘ لوگوں کو گوانتاناموبے میں قید کرنے سے پہلے ان کے خلاف ثبوتوں کی تلاش کی تھی؟

ہمیں کوئی شک نہیں کہ فتح اللہ گولن ہی ناکام بغاوت کی کہانی کا مصنف ہے۔

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
استنبول سے براہ راست

ڈاکٹر خلیل طوقار
(ڈاکٹر خلیل طوقار نسلاً ترک ہیں۔ ان کی پیدائش استنبول (ترکی) میں ہوئی۔ ترکی میں ہی انھوں نے ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ فی الوقت وہ استنبول یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو ہیں۔ڈاکٹر طوقار کی تقریباً دو درجن کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔وہ ترکی سے شائع ہونے والے اردو کے واحد ادبی مجلہ”ارتباط” کے مدیر بھی ہیں۔ یورپین اردو رائٹرس سوسائٹی ، لندن نے سن 2000ء میںانھیں ”علامہ اقبال” ایوارڈ سے نوازا۔اس کے علاوہ عالمی اردو مرکز، لاس انجلس اور دیگر قومی وبین الاقوامی اداروں کی جانب سے انھیں اعزاز سے نوازا جا چکا ہے۔ )
۱۵ جولائی ۲۰۱۶ء روزِ جمعہ ہم سب کے لیے ایک معمولی دن تھا۔ ترکی کے تمام لوگ اپنے اپنے روزمرہ کے کاموں سے فارغ ہوکر اپنے اپنے گھروں میں واپس آئے۔ گھروں میں کچھ گھر بار کی بات ہوئی، کچھ مسائل کا حل ہوا اور شاید گلی کوچوں میں جوانوں کے بیچ جھگڑا لڑائی بھی ہوا۔ یعنی ۱۵ جولائی ترکی کے ہم سب لوگوں کے لیے ایک عام سا دن تھا اور ہم میں سے کسی کو ایک شبہ کا احساس تک نہیں تھا کہ اُس شام کو فوج کے ایک ٹولے کی غداری کی وجہ سے ترکی میں کس قدر دردناک واقعات ہونے والے ہیں۔ مگر اُس رات ترکی کی جمہوریت پر غداروں نے جو شب خون مارنا تھا اور ترک عوام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اپنی حکومت، اپنے ملک بلکہ اپنی عزت بچانی تھی یہ ترکی جمہوریت کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے والی ایک کم نظیر داستان تھی مگر اِس کااندازہ شام ڈھلنے تک کسی کو نہ تھاویسے بھی کس طرح ہوتا جن باغیوں نے ترکی کو خون خرابہ کا میدان بنایا اُن لوگوں نے اپنی اِس مہم کو بہت ہی خفیہ انداز میں چھپائے رکھا تھا۔
اُس شام اچانک خبر آئی کہ فوجیوں نے باسفورس برج کو ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں سے بند کئے رکھاہے۔ اِسی طرح استنبول میں آتاترک ائیرپورٹ پر بھی فوجیوں کے قبضہ کی خبر ملی ۔ پھر شام آٹھ نو بجے سے اگلے دن شام تک حوادثات کا جو خونین سلسلہ شروع ہوا اِس کو اگر بندہ بذات خود نہ دیکھے تو یقین ہی نہیں کرے گا بلکہ غلط فہمی کا بھی شکار ہوگا۔ خیر یہ تو ہوا بھی ہے اور کچھ لوگ اپنی غلط فہمیوں کی وجہ سے گمراہ ہوئے اور کچھ لوگ امریکہ، یورپ اور خود پاکستان میں مختلف بامقصد گروہوں کی پھیلائی ہوئی با مقصد افواہوں کی آڑ میں آکر اِس بغاوت کو ’’خلیفہ اردوگان کا تیار کردہ ڈرامہ‘‘ کہنے تک کی بے شرمی کا رویہ اختیار کرنے لگے۔ میں اِسی جھوٹی خبروں کو پھیلانے والوں کے لیے ’’بے شرمی‘‘ کا لفظ اِس لیے استعمال کرتا ہوں کہ اُن کی باتیں سن سن کر میں غصے میں آرہا ہوں۔میں غصے میں اِس لیے نہیں آرہا ہوں کہ وہ لوگ ہمارے صدر کے خلاف جھوٹی افواہیں پھیلا رہے ہیں، میں غصے میں اِس لیے آرہا ہوں کہ وہ لوگ اِس قوم کی قربانیوں کا اور ہمارے سیکڑوں شہیدوں جن کی نماز جنازہ پانچ دنوں سے ہم مسلسل پڑھ رہے ہیں وہ اُن کے خون کا مذاق اُڑارہے ہیں۔ اُن کو کیا پتہ کہ ترکی میں اُس رات کیا کیا ہوا اور اِس قوم نے اُن ملک و ملت دشمن باغیوں کوروکنے کے لیے کتنی عظیم قربانیاں دیں۔کیونکہ اِس خونی بغاوت کو ’’ڈرامہ‘‘ کہنے والے وہ حقیقت ناشناس لوگ یہ بات سمجھ ہی نہیں پارہے ہیں کہ نہتے عوام ایک مسلح فوج کو کس طرح روک سکتے ہیں وہ بھی چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر؟ اب میں تمام قارئین کرام کے لیے اُس رات کے کچھ واقعات پیش کروں گا جس سے ترکی میں ۱۵ جولائی ۲۰۱۶ء کی رات واقعتا کیا ہوا ہے اور ترکی مملکت اور ترکی میں جمہوریت غداروں کی گرفت سے کس طرح بال بال بچ گئی وہ سمجھ آجائے:
۱) اُس شام کثیر تعداد میں باغی فوجیوں پر مشتمل ایک ٹولہ اسلحہ سے لیس ترکی کے دارلحکومت انقرہ میں آرمی ہیڈکواٹرزمیںآکر آرمی چیف آف اسٹاف خلوصی آکارلر کے آفس میں زبردستی داخل ہوا۔ جب آرمی چیف کے گارڈز نے باغیوں کو روکنے کی کوشش کی تو باغیوں نے اُن پر گولی چلاکر آرمی چیف آف اسٹاف کے گارڈز کو شہید کردیا۔ اُن باغیوں نے خلوصی آکارلر صاحب سے یہ مطالبہ کیا کہ اُن کا ساتھ دے کر حکومت کی برطرفی کے الٹی میٹم پر دستخط کریں تو چیف آف آرمی نے اِس مطالبے سے صاف انکار کردیا۔ اِس پر اُن لوگوں نے خلوصی آکارلر صاحب کے ماتھے پر پستول لگاکر اُنھیں زبردستی اپنے گھٹنوں پر بیٹھنے پر مجبور کیا اور ایک باغی آفسر نے اپنی بیلٹ نکال کر اُن کا گلادبایا تاکہ وہ مجبور ہوکر اُلٹی میٹم پر دستخط کریں مگر اُنھوں نے اِس کے باوجود نہیں مانا تو اُن کو اور آرمی ہیڈکوارٹرز میں موجود دوسرے فورس کمانڈروں کو گرفتار کرکے ہیلی کاپٹر کے ذریعے کسی اور چھاؤنی میں لے گئے۔آرمی ہیڈگوارٹرز میں باغی فوجی ٹولے اور چیف آف آرمی اسٹاف کے حامی فوجیوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ اگلے دن دوپہر تک جاری رہا۔ اُس رات چیف آف اسٹاف خلوصی آکارلر کو موت کی دھمکی کے باوجود اُن کے مطالبے سے انکار اِن باغیوں کی شکست کا پہلا قدم تھا۔جب خلوصی آکارلر صاحب بغاوت کے خاتمہ کے بعد ٹی وی پر دکھائی دیئے تو اُن کے گردن پر اُس بیلٹ کا نشان واضح طور پر نمایاں تھا۔
۲) اُس وقت باغی فوجیوں کے ایک اور ٹولے نے ایک باغی جنرل کی قیادت میں آرمی اسپیشل فارسز کے ہیڈکوارٹر میں اسپیشل فارسزکے کمانڈر میجر جنرل ذکائی آق صاقاللی کو گرفتار کرکے ہیڈکوارٹر پر قبضہ کرنا چاہا تاکہ وہ لوگ اسپیشل فارسز کو اِس بغاوت میں استعمال کرسکیں۔مگر میجر جنرل ذکائی آق صاقاللی کے ایڈجوٹنٹ نے یہ سن کر ایک پل بھی تامل کئے بغیر اپنا پستول نکالا اور باغی جنرل کے ماتھے پر گولی چلائی اور اُسے ڈھیر کردیا ۔ یہ دیکھ کر باغی جنرل کے ساتھیوں نے بھی اُن پر گولیاں چلاکر اُنھیں شہید کردیا۔ یہ دوسرا قدم تھا جو اُس رات بغاوت کو ناکامی کی طرف لے جائے۔
۳) مارشل لاء اور بغاوت کی خبریں آنے پر ترکی پارلیمنٹ کے تمام پارٹیوں کے ممبران جو اُس وقت انقرہ میں تھے پارلیمنٹ میں جمع ہوئے تاکہ بغاوت کے خلاف ایک قرارداد پاس کرسکیں۔ اُس وقت رات کے اُس پہر میں ڈیڑھ سو سے زائد پارلیمنٹ کے ممبر مذاکرات کے ہال میں اکھٹے ہوئے جن میں ترکی کے سیکولر خیالات و تصورات کے علم بردار او ر رجب طیب ایردوغان کے سخت مخالف جمہوری خلق پارٹی کے ممبر بھی شامل تھے۔ اِس کی اطلاع ملتے ہی باغی فوج نے ایف ۱۶ بھیج کر ترکی کی پارلیمنٹ پر بمباری کرادی۔
۴) اِس اثناء میں صدر جناب رجب طیب ایردوغان چھٹیوں کے لیے ترکی کے مارماریس شہر کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے اُس ہوٹل سے ذرا جلدی نکلے۔ اُن کے ہوٹل سے الگ ہونے کے پندرہ منٹ بعد باغی فوج کے اسپیشل فورسز کے چالیس سپاہیوں نے ہوٹل میں بم بھی پھینکا اور فائرنگ بھی کی۔ بغاوت کی ناکامی کے بعد اِس سپیشل فورس کے چالیس سپاہی جنگل کی طرف بھاگ نکلے اور ابھی تک ترکی فوج اُن لوگوں کی تلاش میں ہے۔ صدر کی حفاظت پر مامورجنرل، جو اُس دوران انقرہ میں تھا،نے بار بار صدر مملکت کے ساتھیوں کو فون کرکے صدر کے ہوائی جہاز کا روٹ دریافت کرنا چاہا مگر اُن لوگوں نے معلومات دینے سے انکار کیا۔ پھر معلوم ہوا کہ وہ جنرل بھی اِس بغاوت کا حصہ ہے اور اب وہ گرفتار ہوا ہے۔
۵) اُسی رات آرمی ہیڈ کوارٹرز اور آرمی اسپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹرز کے ساتھ ساتھ باغیوں نے ترکی کے خفیہ سروس کے ہیڈکوارٹر میں ہیلی کاپٹرکے ذریعے اپنے فوجیوں کو اتارا اور باغیوں نے اترتے ہی خفیہ سروس کے اہلکاروں پر فائرنگ شروع کردی تو پولیس اہلکار بھی جوابی فائرنگ کرنے لگے۔ باغیوں کی پہلی فائرنگ میں کافی تعداد میں خفیہ سروس کے پولیس شہید ہوگئے مگر پھر بھی پولس فارسز نے باغیوں کو گرفتار کرنے تک لڑائی جاری رکھی۔ مزید بر آن باغیوں نے پولیس اسپیشل فورسز کے ہیڈکوارٹر پر ایف ۱۶ سے بمباری کی جس کی وجہ سے پولیس کے سینتالیس اہلکار جن میں خواتین بھی ہیں ایک ہی دم میں شہید ہوگئے۔
۶) فوج کی کچھ چھاؤنیوں میں باغی آفسروں نے بغاوت کے حکم سے انکار کی وجہ سے دوسرے سپاہیوں کو سبق سکھانے کی نیت سے انکار کرنے والے اپنے ہی سپاہیوں کے سروں کو گولیوں سے اڑادیا جن میں سے تین ہمارے ہمسایے کے بیٹے کی چھاؤنی میں تھے جہاں اُس کے سپاہی دوست اپنے کمانڈر کی گولیوں سے شہید ہوئے ہیں۔
خوشی کی بات ہے کہ اِس کے بر عکس کچھ آفسروں اور فوجی سپاہیوں نے باغی فوج کی نقل و حرکت کی اطلاع ملنے پر اُن پر چھاپہ مارا اور اُن سب کو گرفتار کرکے چھاؤنیوں سے نکلنے نہیں دیا۔
یہ چند ایک نمونے ہیں جو ترکی کے حق شناش فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے باغیوں کو روکنے کے لیے کیے جن کی وجہ سے فوجی بغاوت کو ناکامی کا سامنا ہوا۔
دوسری طرف ترکی کے عوام ہیں جنھوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اِس بغاوت کو ناکام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُس رات جب ہمارے صدر نے ٹی وی پر ترکی کے عوام کو سڑکوں پر آنے کی دعوت دی تو میں نے اپنی اہلیہ ثمینہ جو پاکستان کی بیٹی ہے سے کہا کہ ثمینہ میں نکل رہا ہوں، پہلے وہ کچھ شش و پنچ میں پڑی اور پھر اُس نے یہ کہہ کر مجھے روکنے کی کوشش کی کہ وہ لوگ بہت خطرناک ہیں براہ کرم آپ باہر نہ جائیں ۔ اِس پر میں نے کہا آج جو بھی ہونا ہے وہ ہوجائے مگر ہمیں انیس سو اسی کا خوفناک منظر دیکھنا پسند نہیں۔ واضح رہے کہ اُنیس سو اسی کے مارشل لاء کے بعد فوجی حکومت نے سیکڑوں بے گناہوں کو پھانسیوں میں لٹکایا تھا اور مجھے ابھی تک یاد ہے ایک لڑکا جو سترہ سال کا تھا اور قانون کی رو سے اُس کو پھانسی نہیں دی جاسکتی تھی تو اُن لوگوں نے اُس بے چارے کی عمر ایک سال بڑا کرکے اُسے دار میں چڑھایا۔ یہ سب کچھ میرے ذہن میں تھا۔ ثمینہ نے جب مجھے اس حالت میں دیکھا تو کہنے لگی کہ آپ جارہے ہیں تو میں بھی آرہی ہوں جو ہونا ہے تو ہم دونوں کو ہوجائے۔ اتنے میں ہماری ہمسائی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب ہم نے دروازہ کھول کر دیکھا تو وہ اپنی دونوں جوان سال بیٹیوں کو ساتھ لے کر باہر جارہی ہیں۔ اُس نے کہا کہ یہ گھر میں رکنے کا وقت نہیں چلو باہر۔ حالانکہ ہماری ہمسائی اور اُس کی بیٹیاں بالکل سیکولر قسم کی آزاد خیال لوگ ہیں۔ وہ چلی گئیں تو ہم بھی باہر نکلنے لگے تب ہمارے بیٹے محمد نے ڈر کے مارے ثمینہ سے چمٹ کر رونا شروع کیا کہ ہمیں نہ چھوڑیں ۔ پھر میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ تم گھر میں رہو اگر ہمیں کچھ ہوا تو بچوں کا کون خیال رکھے گا۔ کیونکہ چند ایک دور کے رشتہ دارکے علاوہ میرے رشتہ دار بھی نہیں ہیں۔ پھر میں گھر سے نکلا۔اُس وقت ثمینہ گھر میں تو رہی مگر محمد کو تسکین دے کر اُسے اپنی باجی کے پاس چھوڑ تے ہوئے میرے گھر سے نکلنے کے کچھ منٹ بعد وہ بھی اپنی کچھ سہیلوں کے ساتھ میرے پاس پہنچ گئی۔
ہمارے صدر کی دعوت سے میرے نکلنے تک پندرہ منٹ گزرگئے تھے مگر ہمارے گھر سے باسفورس برج تک کا گاڑی سے جو بیس منٹ کا راستہ ہے وہ انسانوں سے بھرا ہوا تھا اور آگے بڑھنا بہت مشکل تھا۔ اِس فاصلے کو بھرنے کے لیے تقریباً دس لاکھ انسان کی ضرورت ہوگی اور واقعی اُس وقت صرف ہمارے علاقے میں اِس تعداد میں لوگ جمع تھے اور باقی علاقوں کو آپ سوچئے۔ اِس مجتمع میں مرد بھی تھے خواتین بھی تھیں، جوان بھی تھے اور بوڑھے بھی۔ کچھ خواتین کے ساتھ اُن کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ سیکولر لوگ بھی تھے، مذہبی لوگ بھی تھے اور حکومت کے مخالف قوم پرست پارٹی کے کارکن بھی تھے۔ترک بھی تھے، کرد بھی تھے اور عرب بھی تھے۔ میں کہتا ہوں کہ وہاں تمام ترکی کے لوگ تھے بلکہ یہ کہئے تو بہتر ہوگا وہاں بذات خود ترکی موجود تھا۔ آگے بڑھتے ہوئے پیغامات ملنے لگے کہ باغی فوجیوں نے لوگوں کے اوپر فائرنگ شروع کردی ہے اور کافی تعداد میں شہید اور زخمی ہیں۔ مگر اِس خبر کے ملنے کے باوجود کسی نے بھی تامل نہیں کی نہ ہی واپس لوٹنے کے لیے سوچا۔ پھر خبریں آنے لگیں کہ باغی فوجیوں نے ٹینکوں کو لوگوں پر چلاکر بہت سے لوگوں کو کچل دیا ہے اور فوجی ہیلی کوپٹروں سے لوگوں پر فائرنگ کررہے ہیں۔ مگر نہ کوئی مرد نہ کوئی زن پیچھے ہٹی اور سب لوگ آگے بڑھتے چلے گئے۔ دوسری طرف تمام مساجد سے صلوٰۃ الشریفہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں تاکہ لوگوں کو سڑکوں پر بلایا جائے۔صلوٰۃ شریفہ تو یا جمعہ کی نماز یا جنازہ کی نماز کی دعوت دینے کے لیے مساجد سے بلند ہوتی ہے۔ اِس طرح سے مساجد سے یہ پیغام مل رہا تھا کہ آپ مرنے پر تیار ہوکر سڑکوں پر نکلیں۔
اُس رات ترکی عوام ، باغی فوجیوں کو روکنے کی خاطر گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہوگئے، اُس رات ٹینکوں کو روکنے کی خاطر لوگ ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے۔ اُس رات لوگوں نے باغی فوجیوں کو ناکام بنانے کی خاطر ٹرکوں، بسوں اور گاڑیوں کو لے کر چھاؤنیوں کے دروازے بند کئے۔ اُس رات ٹرک ڈرائیوروں نے فوجی لڑاکا طیاروں کو روکنے کے لیے فوجی ہوائی اڈوں میں اپنے ٹرکوں کو گھساکر فلائٹ ٹریکوں کو لاک کیا۔ اُس رات لوگوں نے دھواں پیداکرکے لڑاکا طیاروں کو ٹیک آف کرنے سے روکنے کے لیے فوجی ہوائی اڈوں کے آس پاس موجود اپنے کھیتوں کو آگ لگا دی۔اُس رات ترکی کے عوام نے نہ صرف اپنی منتخب حکومت کو بچانے کے لیے بلکہ اپنے ملک کو اور اپنی عزت کو بچانے کے لیے شہید ہوئے، بہت سے بچے یتیم ہوئے اور خواتین بیوہ ہوئیں۔ اُس رات ترکی میں شہیدوں کے خون نے جمہوریت کو بچایاگیا۔ اگر اُس رات ترکی میں کوئی جمہوریت پسند شش و پنج میں پڑتا یا اپنی جان و مال کی فکر میں تامل کرتا توآج ترکی میں باغیوں کی حکمرانی ہوتی اور وہ لوگ ہمارے صدر کو پھانسی دینے کے لیے قانونی تیاری کرتے جس طرح انیس سو ساٹھ کے مارشل لاء کے بعد ترکی کے ہر دل عزیز صدر عدنان مندیرس اور اُن کے ساتھیوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔
ہم یہاں پانچ دنوں سے شہیدوں کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں۔ لہٰذا وہ لوگ جو اِس خونی بغاوت کو ڈرامہ کہہ کر صورتحال کو کسی اور رنگ میں رنگانا چاہتے ہیں اُن سب سے میری گزارش ہے کہ اگر اُن لوگوں کے دلوں میں انسانیت کے نام سے کچھ باقی ہے اور اگر اُن کے دلوں میں انصاف کے نام کا کوئی احساس ہے تو کم از کم اپنی رجب طیب ایردوغان دشمنی کی وجہ سے ترکی پر حملہ کرکے ہمارے شہیدوں کے خون کا مذاق نہ اُڑائیں۔
۔۔۔۔۔۔
نوٹ : ترکی صدر کے نام کا آخری حصہ مختلف انداز میں دیکھنے میں آیا ہے ، اردگان ، اردوغان ، اردوان ، جبکہ صاحب تحریر نے اسے :’ ایردوغان ‘ لکھا ہے ۔ اللہ بہتر جانے صحیح کیا ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
’ترکی میں ہونے والی بغاوت اور اس کا خاتمہ ‘ والے حادثہ کو بہت سارے لوگ ’ جمہوریت کی جیت ‘ قرار دے رہے ہیں ، جبکہ ہمارے فورم کے معزز رکن @احسان الٰہی ظہیر صاحب کے مطابق یہ ’ اسلام پسندوں اور لبرلز ‘ کی ’ ٹکر ‘ تھی ، جس میں جیت ’ اسلامیوں ‘ کی ہوئی ، اور لبرلز ناکام و نامراد ہوئے ۔
اس حوالے سے ان کا کالم بعنوان ’ کون جیتا ؟ کون ہارا ؟‘ لائق مطالعہ ہے ، امید ہے ، وہ اس تحریر کو یہاں بھی پیش کریں گے ۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی حکومت کسی ايسے شخص يا سياسی عنصر کو تحفظ فراہم کرنے يا اس کی حمايت کا ارادہ نہيں رکھتی ہے جو تشدد اور افراتفری کا محرک بنے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اس ضمن ميں بالکل واضح بيان ديا ہے۔

"يہ تاثر کہ امريکہ فتح اللہ گلين کی پشت پنائ کر رہی ہے، حقائق کے منافی ہے"

علاوہ ازيں يہ تاثر بھی بالکل غلط ہے کہ امريکی وزير خارجہ جان کيری نے کسی بھی طور اپنے بيانات ميں فتح اللہ گلين کا دفاع کيا ہے۔

اس ضمن ميں ان کا بيان من وعن پيش ہے

"ہميں جامع شواہد ديکھنے کی ضرورت ہے جو دنيا کے کسی بھی ملک کے حوالگی کے قوانين اور اس ضمن ميں رائج طريقہ کار اور ضوابط کے مطابق ہوں۔ اگر يہ شواہد اس معيار کے مطابق ہيں تو پھر اس ضمن ميں ترکی کے ساتھ ہمارے معاہدے کے عين مطابق ہميں ان کی حوالگی کے ضمن ميں کوئ اعتراض نہيں ہے اور ہم اس عمل ميں رکاوٹ نہيں بنيں گے"

نو گيارہ کے واقعے کے بعد اسامہ بن لادن کے خلاف مقدمے اور پھر اس کا موازنہ امريکہ ميں مقيم کسی ايسے فرد يا افراد سے کرنا جو ترکی ميں حکومت کا تختہ الٹانے کی کوشش کے ضمن ميں مبينہ طور پر ملوث ہو سکتا ہے، بالکل غير دانشمندانہ اور غير منطقی ہے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے واضح کر دوں کہ امريکی حکام نے نيويارک ميں نو گيارہ کے اندوہناک واقعے کے بعد ذمہ دار افراد کے خلاف نا صرف يہ کہ تحقيقات کيں تھيں بلکہ شواہد بھی فراہم کيے تھے۔ صرف يہی نہيں بلکہ ان افراد کے خلاف بھی قانونی چارہ گوئ کی گئ جو کہ اگرچہ اس واقعے کے روز موقع پر موجود نہيں تھے ليکن منصوبہ بندی کے عمل ميں شامل تھے۔ امريکی حکومت کی جانب سے کی جانے والی جامع تفتيش اور اس کے بعد قانونی کاروائ کے نتيجے ميں ان ميں کئ افراد اب امريکہ کی جيلوں ميں لمبی قيد کاٹ رہے ہيں۔

اور آخر ميں يہ بھی واضح رہے کہ اسامہ بن لادن نے نا صرف يہ کہ سال 1996 ميں ہی امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کر ديا تھا بلکہ اس ضمن ميں کئ فتوے بھی جاری کيے اور پھر اپنی دھمکيوں پر عمل کرتے ہوۓ دنيا بھر ميں امريکی شہريوں، املاک اور مفادات پر کئ دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی بھی کی۔

نو گيارہ کے واقعے سے قبل اسامہ بن لادن اور القائدہ کی جانب سے امريکہ کے خلاف جرائم کی تاريخ اور اس ضمن ميں کچھ تاريخی حقائق اس ويب لنک پر موجود ہيں۔

http://www.heritage.org/research/projects/enemy-detention/al-qaeda-declarations

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
امریکیوں کے ثبوت امریکیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ثبوت طالبان نے مانگے تھے دئے مشرف کو تھے۔۔۔۔۔۔ وہ کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ امریکیوں نے ملاں ضعیف کو کیوں قید رکھا ؟؟؟؟ ان کے خلاف کوئی ثبوت ۔؟؟؟؟؟
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ترکی کے عوام کو سلام ۔ ان کے شہیدوں کو سلام ۔
ان کی اسلام سے محبت اور ان تمام صفات کو سلام جو اہل اسلام کا خاصہ ہیں ۔
معاملہ اظہر من الشمس ہیکہ یہ سب جو هوا ، اسلام کے خلاف ایک سوچی سمجهی دیرینہ منصوبہ بندی کا حصہ هے اور اللہ ہم سب کو آزمائشوں میں ثابت قدم رکهے ۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
امریکیوں نے ملاں ضعیف کو کیوں قید رکھا ؟؟؟؟ ان کے خلاف کوئی ثبوت ۔؟؟؟؟؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
امريکی حکومت نے افغانستان ميں کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی حمايت سے افغانستان ميں ہونے والی فوجی کاروائ کے بعد افغانستان ميں طالبان کی فعال حکومت کا کوئ وجود نہيں تھا۔

يہ بات نہيں بھولنی چاہيے کہ جس حکومت کی جانب سے کسی سفارت کار کی سفارتی حيثيت کا تعين يا منظوری دی جاتی ہے جب اس حکومت کا اپنا وجود ہی نہ رہے تو اس سفارتی حيثيت کی بھی کوئ اہميت باقی نہيں رہ جاتی۔

ايک جنگی صورت حال يا فوجی غلبے کی صورت ميں جينيوا کنونشن کے سفارتی استثنی سے متعلق قوانين ايک ايسا قانونی معاملہ ہوتا ہے جس پر عمل درآمد ايک سواليہ نشان بن جاتا ہے۔ جب سال 1990 ميں عراق نے کويت پر قبضہ کيا تھا تو کويت ميں موجود غیر ملکی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کے ليے اقدامات کيے گۓ تھے۔

جہاں تک ملا ضعيف کا تعلق ہے تو پاکستان ميں ان کی گرفتاری کے وقت انھيں سفارتی استثنی حاصل نہيں تھی کيونکہ افغانستان ميں طالبان کی وہ حکومت ہی موجود نہيں تھی جو انھيں يہ سہولت فراہم کر سکتی۔

ملا ضعيف ايک ايسی حکومت کے اعلی عہديداروں کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے تھے جو عالمی دہشت گردوں اور مجرموں کو پناہ دينے اور ان کی حمايت کرنے کے جرم ميں شامل تھے۔ يہ ايک ايسی حقيقت ہے جسے اقوام متحدہ نے نہ صرف يہ کہ تسليم کيا بلکہ سرکاری طور پو طالبان کی حکومت کو سيکورٹی کونسل کی کئ قراردادوں کے ذريعے باور بھی کروايا۔

"کومبيٹنٹ اسٹيٹس ريوو" ٹريبيونل کے سامنے الزامات کے حوالے سے جو دستاويز پيش کی گئ تھی اس کے مطابق

گرفتار ہونے والا طالبان کا رکن تھا۔

گرفتار ہونے والے شخص نے يہ خود تسليم کيا تھا کہ اس نے سال 1996 ميں طالبان میں شموليت اختيار کی تھی۔

طالبان کے لیڈر کی جانب سے گرفتار ہونے والے شخص کو افغانستان کے سنٹرل بنک کا صدر مقرر کيا گيا تھا۔

اس کے علاوہ طالبان کے ليڈر کی جانب سے گرفتار ہونے والے شخص کو افغانستان کی معدنيات اور انڈسٹری سے متعلق وزارت ميں ڈپٹی وزير کے عہدے پر فائز کيا گيا تھا۔

اس کے علاوہ گرفتار ہونے والے شخص کو طالبان حکومت نے کابل ميں ٹرانسپورٹ کی وزارت پر فائز کيا جہاں پر 3 ماہ کام کيا۔

گرفتار ہونے والے شخص کا آخری عہدہ پاکستان ميں طالبان حکومت کے سفير کی حيثيت سے تھا جہاں پر 18 ماہ تک دسمبر 2001 ميں اپنی گرفتاری تک کام کيا۔

طالبان کی تحريک کے ابتدائ دنوں میں طالبان اور القا‏ئدہ کے فعال کمانڈرز افغانستان کے شہر کابل اور گرد ونواح کے علاقوں سے گرفتار ہونے والے شخص کو طالبان کے "ڈپٹی ڈيفنس" کی حيثيت ميں رپورٹ کيا کرتے تھے۔

پاکستان ميں طالبان کے سفير کی حيثيت سے ان کے طالبان کی سينير ليڈرشپ کے ساتھ قريبی تعلقات تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 
Top