فتح اللہ گولن کون ہیں ؟
تحریر : حامد کمال الدین
زیر نظر تحریر کوئی ریسرچ پیپر نہیں ہے، جس میں ایک شخص کے افکار و آراء کے حق یا مخالفت میں جانے والے دلائل کا سیرحاصل تقابل کیا گیا ہو۔ نیز اس کی سرگرمی کے متنازعہ حصوں کو پوری دِقت اور تفصیل کے ساتھ سلجھایا گیا ہو۔ یہ ایک سرسری مضمون ہے جو ترکی میں حالیہ ناکام فوجی بغاوت کے پس منظر میں اٹھنے والے ایک سوال کو ایڈریس کرتا ہے۔ یہ سوال ہے: ترک صدر رجب اردگان کی جانب سے اس بغاوت کے پیچھے متحرک اصل کردار culprit قرار دی جانے والی شخصیت سے متعلق، کہ وہ کون ہے اور اس کا فکری و سیاسی پس منظر کیا ہے؟
ایک متنازع شخصیت کے بارے میں کچھ کہنا اس لیے آسان نہیں ہوتا کہ اس کے بارے میں کچھ بھی کہتے ہوئے خود آپ کو نزاع کا ایک فریق بن جانا ہوتا ہے۔ پھر بھی اِس معاملہ میں آپ کچھ ایسی بنیادیں اختیار کر سکتے ہیں جن کی بابت کم سے کم نزاع ہو سکے۔
اِس حوالہ سے جو نہایت سامنے کی بات ہے، وہ ہم عین شروع میں ذکر کرنا چاہیں گے:
عالم اسلام میں ’’معتدل اسلام‘‘ moderate Islam کی دعویدار جماعتیں اور تحریکیں اِس وقت شمار سے باہر ہیں۔ بلکہ کوئی جماعت یہاں ایسی نہیں جو اپنے فہم و ترجمانیِ اسلام کو ’’معتدل‘‘ نہ کہتی ہو۔ اپنی تعبیرِ اسلام کو ’’معتدل‘‘ ثابت کرنے کی کچھ مخصوص وجوہات بھی، حالیہ عالمی تناظر میں کسی سے روپوش نہیں! لیکن ’اپنے منہ معتدل‘ ہونے سے اِس تیزطرار دنیا میں اگر کام چل جاتاتو بھلا رونا کیا تھا! عربی کا ایک مشہور شعر ہے: كُلٌّ يَدَّعِيْ وَصْلاً بِلَيْلىٰ.. وَلَيْلىٰ لَا تُقِرُّ لَهُمْ بِذَاكَ ’’سبھی عاشق یہاں وصلِ لیلیٰ کے دعویدار ہیں۔ مگر لیلیٰ ہے جو ان میں سے کسی ایک کی بھی توثیق نہیں فرما رہی!‘‘۔ چنانچہ اصل مسئلہ دعوائے اعتدال نہیں بلکہ ’عالمی مبصر‘ سے اِس دعویٰ کی توثیق پانا ہے۔ یہ فی الحقیقت جان جوکھوں کا کام ہے۔ ہر مدعی کے واسطے یہ ’دار و رسن‘ کہاں! جناب فتح اللہ گولن وہ شخصیت ہوتے ہیں جنہیں خود مغرب ہی اپنے علمی ریفرینسز کے اندر ’’قدرے معتدل‘‘ مانتا ہے (’’مکمل معتدل‘‘ مغرب کی ڈکشنری کے اندر، ہمارے علم میں ابھی تک عالمِ اسلام کی کوئی تحریک نہیں)۔ نہ صرف ’قدرے معتدل‘ بلکہ عالم اسلام میں بسا غنیمت۔
فتح اللہ گولن کے تعارف میں اس بات کو ہمارے نزدیک مرکزی ترین حیثیت حاصل ہے۔ ان کے باقی مواقف اور سرگرمیوں، نیز ترکی کی اسلامی تحریکوں کے جانب سے ان کی بابت سامنے آنے والی شکایتوں اور اندیشوں کو، فتح اللہ گولن کی بابت بیان کیے گئے اِسی مرکزی نقطے کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔ یہ نقطہ چھوٹ جانا جا بجا ابہامات کا موجب اور اشیاء کو ’سمجھ سے بالاتر‘ رکھنے کا سبب بنے گا۔
آپ اندازہ کر سکتے ہیں، جہاں اسلامی تحریکیں مغرب کے ساتھ اپنی تہذیبی جنگ کے انتہائی جان لیوا اور فیصلہ کن معرکے لڑ رہی ہوں وہاں مغرب کے کاغذوں میں پاس ہو کر دکھانے والی تحریکوں کے ساتھ ان کو قدم قدم پر کیسےکیسے شکوے اور مسائل پیش نہ آئیں گے! اس چیز کو سمجھنے کےلیے فی الواقع کسی ریسرچ پیپر کی ضرورت نہیں!
مغرب سے ’معتدل‘ کی سند پانا کس قدر مشکل ہے، اس کا اندازہ آپ اس سے کر لیں کہ اخوان، نہضہ، رفاہ اور انصاف و ترقی پارٹی وغیرہ جو عالم اسلام میں جمہوریت کو بھی کھلے دل سے قبول کرتی ہیں (بلکہ مسلم ملکوں میں معیاری جمہوریت دستیاب نہ ہونے کا گلہ رکھتی ہیں)، مغرب کے دیے ہوئے نیشن سٹیٹ کو بھی سر تا سر تسلیم کرتی ہیں، آئین و قانون کی بالادستی کو بھی یہاں کی کسی بھی سیاسی جماعت سے بڑھ کر مانتی ہیں، پارلیمنٹ کی مرکزیت کو بھی، نیز اپنی پوری سیاسی مہم میں ’’شریعت‘‘ کا نام تک نہیں لیتیں… یہ سب کر لینے کے باوجود ’شدت پسندی‘ اور ’بنیاد پرستی‘ سے مغربی مبصر کے یہاں ان پارٹیوں کی جان نہیں چھوٹتی! مغربی مبصر کے یہاں یہ ’ریڈیکل اسلام‘ کے طعنے سے ہی نوازی جاتی اور ’جہانِ نو‘ کے حق میں برابر ایک خطرہ باور ہوتی ہیں! یہاں سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں معتدل کی ’اصلی وحقیقی‘ سند اِس جہانِ نو میں کیسی ایک نایاب سوغات ہے اور اگر کسی کو آج یہ حاصل ہے تو عالم اسلام میں اس کا شمار کن خوش قسمتوں کے اندر ہے؛ اور جوکہ ’بلاوجہ‘ نہیں ہو سکتا۔ جناب فتح اللہ گولن یہ اعزاز رکھنے والے سرفہرست ناموں میں آتے ہیں۔
اسی حقیقت کا ایک مظہر… جناب فتح اللہ گولن امریکی سیاسی ایلیٹ کے مسکن پنسلوانیا کے اندر چھبیس ایکڑ اراضی پر مشتمل ایک بلند فصیل کمپاؤنڈ کے اندر رہائش پزیر ہیں۔ یہ دیوہیکل کمپاؤنڈ آیا انہوں نے خود حاصل کیا یا ان کو ہدیہ ہوا، ایک ثانوی بحث ہے۔ اصل چیز امریکی ایلیٹ کے مسکن میں اس بڑے حجم اور اعزاز کے ساتھ وجود رکھنا ہے، جو اِس پوسٹ-نائن-الیون جہان میں کوئی معمولی بات نہیں۔ امریکہ میں اسلام کے داعیوں کے ساتھ ویسے کیا کچھ ہوتا ہے، اِس اعزاز کو اُس تناظر میں دیکھیں تو آپ پر معاملے کی اصل تصویر کھلتی ہے۔ (آپ اس سے اندازہ کر لیں شیخ قرضاوی ایسے کھلے ذہن، جمہوریت اور مکالمۂ ادیان کے سرگرم داعی پر امریکہ کے دروازے پچھلے ڈیڑھ عشرہ سے بند ہیں، کسی ایک کانفرنس میں شرکت کےلیے وزٹ ویزہ تک سے انکار ہو جاتا ہے)۔ مختصراً، فتح اللہ گولن ان اسلامی داعیوں میں آتے ہیں جو اِس پوسٹ نائن الیون دنیا میں اپنی اصلاحی سرگرمیوں کے ہیڈکوارٹر کے طور پر عالم اسلام کی بجائے امریکہ کو ہی اپنے حق میں سب سے محفوظ جگہ اور سب سے زیادہ قابل بھروسہ دوست اور پشت پناہ دیکھتے ہیں۔ اور خود امریکہ بھی ان کو، اور عالم اسلام میں ان کی اصلاحی کوششوں کو، قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
ابھی تک بات ’’امریکہ‘‘ سے متعلق ہوئی ہے جو عالم اسلام کی کئی ایک تحریکوں کا غیرمعمولی قدردان ہے (عالم اسلام میں صرف بم برساتا نہیں پھر رہا!)۔ ہر اسلامی ملک میں آپ کو اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو گا۔ امریکہ براہِ راست نہ سہی، تو یو-ایس-ایڈ سے غذا پانے والی ابلاغیات و ادبیات تو اس کا کچھ اندازہ آپ کو کروا ہی دیتی ہیں۔ (گو امریکہ کا براہِ راست کسی کا میزبان، اور بنفسِ نفیس اس کی خودساختہ جلاوطنی کےلیے جائےامان کے طور پر پیش ہونا اس کے سپیشل ہونے پر ایک دلیل ضرور ہے)۔
البتہ فتح اللہ گولن وہ شخصیت ہیں جن کے ملک کی اسلامی تحریکیں مسئلہ کو امریکہ تک نہیں رکھتیں بلکہ ان تعلقات کے تانےبانے اسرائیلی موساد تک پہنچاتی ہیں۔ بحث کرنے کو ظاہر ہے یہ ڈیبیٹ ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں جن مقامی قوتوں پر ’’بھارتی را‘‘ سے آشیرباد پانے کے حوالے سے انگلی اٹھائی جاتی ہے اور اس کے اچٹتے شواہد بھی کچھ جلتےبجھتے دکھائی دے جاتے ہیں، ان الزامات کی اصل حقیقت کیا ہے۔ ایک معقول مطالبہ تو بہرحال یہی ہے کہ کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو پہلے وہ اس کو عدالت میں ثابت کر کے دکھائے۔ ظاہر ہے عدالت میں پاکستانی سیاست کے اندر ملٹی پل باریاں لے چکے کسی ایک سیاستدان کو بھی ’کرپٹ‘ ثابت نہیں کیا جا سکا باوجود اس کے کہ ’کرپشن‘ اِس قوم کا صبح شام کا رونا ہے! عین جس طرح یہاں بیرونی ایجنسیوں کے مبینہ زیراشارہ چلنے والا ماردھاڑ کا عمل جو ملک کا اچھاخاصا ستیاناس کر چکا ہے، مگر عدالتی ثبوت یہاں کی کسی مخصوص شخصیت یا جماعت کے حوالہ سے ہر دو امر کے مفقود ہی چلے آتے ہیں۔ اس لحاظ سے ’ریسرچ میتھیڈالوجی‘ کے تو فی الواقع یہاں ہاتھ کھڑے ہیں: یہاں نہ کوئی کرپشن کنگ ہے اور نہ امن و امان کی اِس دگرگوں صورتحال میں بیرون کا کوئی ہاتھ! لہٰذا الزامات کے ثبوت کی یہ عدالتی سطح تو فی الواقع یہاں مفقود ہے۔ اور اس سطح کے یقین کے ساتھ الزامات لگانا تو فی الواقع ناممکن ہے۔ تاہم جس طرح کرپشن اور ماردھاڑ کے حوالے سے ملک میں ہر دم ڈولتی لرزتی صورتحال آپ کو عدالتی سطح سے کم کسی درجے میں ایک رائے بنانے پر مجبور کرتی ہے، کیونکہ مسئلہ آپ کے ملکی وجود اور بقاء کا ہے نہ کہ کسی ذہنی عیاشی کا، اسی طرح ترکی کی ڈولتی کشتی کو حالیہ خونخوار بیرونی و اندرونی لہروں سے نکالنے کےلیے پتوار تھامے ہوئے لوگ بھی اپنی اِس کشتی کو درپیش خطرات میں موساد کی جانب اشارے کرتے ہوئے فتح اللہ گولن کا کچھ ذکر خیر کر جاتے ہیں۔ تحقیق کاروں کے یہاں اس پر کچھ کہنا گو ابھی باقی ہے، عین جس طرح پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششوں کے حوالے سے ’بیرونی مداخلت‘ کی بابت کچھ کہنا یا یہاں کرپشن کے ’ذمہ دار عناصر‘ کی بابت یقین سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے!
فکری وسیاسی حدودِ اربعہ:
فکری و سیاسی سٹیچر کے لحاظ سے: مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنے یہاں کی دو شخصیات جناب جاوید غامدی اور جناب طاہر القادری کو جمع کر لیں تو کسی حد تک ترکی کے فتح اللہ گولن بنتے ہیں۔ مع کچھ اضافی خصوصیات، جن کےلیے کسی حد تک حسن بن صباح کی تشبیہ ذہن میں آتی ہے۔ خدانخواستہ قتل و غارت گری کے حوالے سے نہیں بلکہ انٹیلیکچولز میں اپنے فدائی تیار کرنے اور ایک کلٹ cult کے طور پر مقامی و عالمی سرگرمی رکھنے کے حوالے سے، جوکہ ایک باطنی نیٹ ورک کے طور پر ہر جا عمل پزیر ہے۔ یہ وجہ ہے، مخالفین کے یہاں ان کےلیے ’منظم سرطان‘ یا ’متوازی ریاست‘ یا ’ریاست کے اندر ریاست‘ ایسے الفاظ رائج ہیں۔ جوکہ صرف اردگان نہیں ترکی کی ہر حکومت کے ان سے خائف ہونے کی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔ اِس تیسرے حوالے سے، فتح اللہ گولن دورِحاضر میں اپنی مثال آپ ہیں، پاکستان کی ان دونوں شخصیات سے ان کا موازنہ درست نہ ہو گا۔
ترکی کی حالیہ اسلامی بیداری کا مردِ میدان، یا پھر وہ شخصیت جس نے اتاترک کے اٹھائے ہوئے اندھیروں اور آندھیوں میں بھی اسلام کی قندیل بجھنے نہ دی یہاں تک کہ ان جھکڑوں کے تھمنے کے ساتھ ہی اُس ایک مشعل سے بہت سی مشعلیں جل اٹھیں، جناب بدیع الزمان سعید نورسیؒ ہیں (تاریخ پیدائش 1877، تاریخ وفات 1960)۔ یہ ایک یگانہ روزگار عالم، صوفی، مجاہد اور متکلم تھے۔ (’’صوفیت‘‘ توعثمانی ماحول کا ایک ترکہ سمجھئے۔ آج ترکی کی جتنی اسلامی تحریکیں ہیں ’’صوفیت‘‘ سے ہر ایک نے ہی کچھ نہ کچھ حصہ پا رکھا ہے۔ خود اربکان اور اردگان کی بابت بھی یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ ’’صوفیت‘‘ کے معاملہ میں وہ مودودیؒ کی راہ پر ہیں۔ حق یہ ہے کہ یہ سبھی ایک درجہ میں صوفی ہیں اور سبھی بدیع الزمان نورسی کا تسلسل۔ خاص اِس حوالہ سے گولن اور اردگان کی فکری راہوں کا موازنہ کرنا یا ان کے راستے جدا ٹھہرانا ترکی ماحول سے ناواقفیت کی دلیل ہو گا)۔
کہا جاتا ہے سعید نورسیؒ سے علمی وروحانی جلا پانے والا ترکی مذہبی سیکٹر اب آگے پانچ بڑے دھاروں streams میں پایا جاتا ہے۔ ان میں سب سے بڑا اور سب سے منظم دھارا فتح اللہ گولن کا باور کیا جاتا ہے۔ تاہم بقیہ دھاروں کے لوگ شروع سے ہی فتح اللہ گولن کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں اور کچھ عمومی تاثر ان میں سے بہت سوں کے یہاں ایسا رہا ہے کہ جس طرح خلافت عثمانیہ کو ٹھکانے لگانے کےلیے فری میسن نے ترک معاشرے میں گہرا اتر کر کچھ دُوررَس کارنامے انجام دیے تھے… اسی طرح خلافت کو گرا لینے کے بعد اُس کے نظریاتی ورثاء (ترکی کے مذہبی صوفی سیکٹر) کو ڈی ٹریک کرنے کےلیے بھی فری میسن کچھ غیرمعمولی اقدامات زیرعمل لے کر آئی ہے، جن میں فتح اللہ گولن کو ایک غیرمعمولی شخصیت و راہنما کے طور پر آگے کرنا بھی شامل ہے۔ ظاہر ہے یہ ان کا دعویٰ یا ان کا تاثر ہے، اس کے شواہد کی تفصیل میں جانا ہمارے لیے یہاں ممکن نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ فتح اللہ گولن ایک نہایت ذہین اور محنتی شخصیت ہیں۔ ترکی میں دینداری کے عمل کو ’آسان‘ اور ’کم لاگت‘ بنانے ایسے اجتہادات سامنے لانے میں ان کا موازنہ پاکستان کے جاوید احمد غامدی صاحب سے کسی قدر ہوتا ہے۔ دینی سیکٹر میں تقریباً وہ پہلی آواز ہیں جس کا کہنا تھا کہ ’’شریعت‘‘ کا نفاذ ریاست کی سطح پر خاصی حد تک ایک غیرضروری امر ہے۔ شریعت کا بڑا حصہ انفرادی ہدایات پر مشتمل ہے لہٰذا شریعت کا معاملہ افراد ہی کے ساتھ مختص رکھنا چاہئے۔ عام دینی حلقوں میں ان کےلیے ناپسندیدگی اَسّی کی دہائی میں اُس وقت بڑھی جب حکومت کی جانب سے ’’سکارف‘‘ کے تیزی کے ساتھ مقبول ہوتے فنامنا کی مخالفت ہوئی تو فتح اللہ گولن کی طرف سے فتویٰ آیا کہ پردہ اور سکارف وغیرہ اسلام کے بنیادی مسائل میں نہیں آتے۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ سکارف کے بغیر تعلیم گاہوں میں جائیں۔ رفتہ رفتہ، معاملہ سکارف ایسے مظاہر تک نہ رہا۔ تقریباً کوئی ’اسلامی‘ قید ایسی نہ رہی جو روزمرہ حیات میں ایک مسلمان مرد یا عورت کی راہ کی رکاوٹ بنے، اور وہ بھی ترکی ایسے غیراسلامی ماحول کے اندر۔ جو چیزیں اس سے پہلے کسی مجبوری کے تحت ہو رہی تھیں وہ اب باقاعدہ ’دلیل‘ کے ساتھ ہونے لگیں۔ ایک ایسا ہلکاپھلکا اسلام ترکی کے اندر متعارف کرانے میں فتح اللہ گولن کو سب سے بڑا نام ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ غرض شریعت کا معاملہ ’ریاست‘ کی سطح پر ہی نہیں ’فرد‘ کی سطح پر بھی انتہائی ہلکاپھلکا کر دینا ،اور وہ بھی باقاعدہ اسلامی استدلال کے پراسیس سے، اور یوں بدیع الزمان کے روحانی ورثے کو ایک ایسی راہ دکھانا جو اس سے پہلے اس پر اوجھل رہی تھی اور اس کے کام کو کسی قدر دشوار کر رہی تھی، جناب گولن کا اصل فکری کونٹری بیوشن ہے۔
اس کے علاوہ کسی عالمی اسلامی وحدت ایسے تصور کو جناب فتح اللہ گولن بڑے زور سے رد کرتے ہیں۔ ترکی کےلیے عالم عرب کو اپنے ساتھ ملانے کو ایک غیرضروری اور ضرررساں چیز باور کرتے ہیں۔ عالم اسلام یا عالم عرب کے ساتھ یکجہتی کی بجائے وہ ’’تورانی وحدت‘‘ کا نام لیے بغیر ترکی جڑیں رکھنے والے خطوں کو ایک وحدت میں پرونے پر زور دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ترکی کو چاہئے کہ ترکی جڑیں رکھنے والے وسط ایشیائی ملکوں کا ایک بلاک سامنے لے کر آئے اور کسی اسلامی بلاک کے خواب دیکھنے سے احتراز کرے۔ اردگان پر اس حوالے سے یہی ان کا ایک بڑا اعتراض ہے۔ اردگان کے غزہ کےلیے فریڈم فلوٹیلا بھیجنے کے خلاف بھی وہ بہت کھل کر بولے تھے۔ ان کا کہنا تھا یہ اسرائیل کے داخلی معاملات میں ٹانگ اڑانے کے مترادف ہے۔ غزہ کےلیے کچھ کرنا ہے تو وہ اسرائیل کی اجازت کے دائرہ میں رہنا چاہئے تھا۔ تاہم یہ بات تسلیم کرنے کی ہے کہ ہماری یہاں کی المورد اور منہاج القرآن وغیرہ کے برعکس، فتح اللہ گولن کی جماعت فلسطین خصوصا غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بہرحال اٹھاتی رہی ہے۔ البتہ اس کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی یہ انسانی مدد (آٹا، ادویات اور ملبوسات وغیرہ تک بھیجنا) اسرائیلی مرضی و اجازت کے تابع رہنا چاہئے اور اِس معاملہ میں اسرائیل کو ناراض کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ جبکہ اردگان اس معاملہ میں اسرائیل کے خلاف شدید ترین لہجے اختیار کر لینے تک جانے کے قائل ہیں۔ گولن کا نقطہ نظر اس کے مقابلے پر یہ ہے کہ عربوں یا فلسطینیوں کی خاطر ترکوں کو یہودیوں اور مغربی قوتوں کے ساتھ بگاڑنے کی کیا ضرورت؟ اس کے مقابلے پر فارسی و عبرانی چیرہ دستیوں کے آگے عربوں کو ان کے حال پر چھو ڑ رکھنے کی قیمت ترکی کو یہ لینی چاہئے کہ ایک تورانی بلاک کا روحِ رواں بننے کے بھرپور مواقع حاصل کیے جائیں۔
ترکی کے کئی اسلامی حلقے فتح اللہ گولن کی جماعت کو ترکی قومیت (نیشنلزم) کا غیرمعمولی پرچارک دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، گولن کا عالمی تعلیمی نیٹ ورک اپنے زیرانتظام سکولوں میں افریقہ اور ایشیا کے دوردراز ممالک تک میں ترک میوزک، ترک ڈانس، اور ترک کلچر کی دیگر اشیاء کو خصوصی اہتمام کے ساتھ فروغ دلواتے ہیں۔ نیز ان کا سالانہ بنیادوں پر ’’ترک اولمپکس‘‘ کا اجراء کروانا، جس میں دنیا بھر سے لائے گئے ہونہار طالبعلموں کے مابین ترک میوزک اور ترک کلچر کے مظاہروں پر مبنی مقابلے کروائے اور بھاری انعامات دیے جاتے ہیں۔ عثمانی خلافت کے خلاف فری میسنری ورک پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ترکوں کے یہاں ’’تورانیت‘‘ کو جگانا وہاں کی ’سیکریٹ تنظیموں‘ کا ایک بڑا حربہ رہا ہے جو شاید اب ایک نیا رنگ دھارنے لگا ہے۔ ترکوں اور عربوں کے مابین وحدت کے عوامل کو ختم کرنا خطے میں قدیم رومن اور پرشین ایمپائرز کے ترکہ کو بحال کروانے کی جانب ایک زیرک اقدام ہو سکتا ہے۔ ’’تورانیت‘‘ (گریٹر ترکی نیشنلزم) اور ’’عروبۃ‘‘ (عرب نیشنلزم) کو زندہ کروانا ان کے خیال میں اس خطے کے اندر دورِ قديم کے یورپی اور فارسی اثر ور رسوخ ہی کو عود كروانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ فتح اللہ گولن سے قربت کے دنوں میں، اردگان نے بھی گولن سکولوں کے عالمی نیٹ ورک کی بابت اپنے اعجاب کا اظہار کرتے ہوئے بیان دیا تھا کہ: دنیا کے ہر ہر ملک میں ترک پرچم محض ترکی سفارتخانوں تک محدود تھا۔ لیکن گولن کی جماعت کی محنت ہے کہ میرے ملک کا پرچم دنیا میں اب شہر شہر نظر آتا ہے۔
خود بدیع الزمان نورسیؒ استعمار اور استشراق کے خلاف شمشیرِ بےنیام تھے۔ تاہم کمالسٹ ترکی میں ’’پولیٹیکل اسلام‘‘ کی سرے سے گنجائش نہ تھی، لہٰذا وہ عشرے تو تُرک ماحول میں ان سیاسی مباحث کے بغیر ہی گزرے۔ صرف مغربی یلغار کی فکری و سماجی جہتوں کے خلاف ایک جاندار ایمانی مزاحمت ہی سینوں کے اندر جگائی گئی اور اسی کی بھاری قیمت اُس تمام تر عرصے کے دوران دی جاتی رہی۔ البتہ ترکی کے کچھ اسلامی ذہن اُس عرصے میں دیگر اسلامی ملکوں کے اندر پزیرائی پانے والے اسلامی فکری رجحانات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔ یوں کمالسٹوں کی گرفت ملکی صورتحال پر جیسےجیسے ڈھیلی پڑتی گئی ویسےویسے مودودیؒ کا دیا ہوا ’پولیٹیکل اسلام‘ بھی ایک موہوم انداز میں ترکی کے اندر سر اٹھانے لگا۔ اِس تبدیلی کا سہرا ترک تاریخ میں نجم الدین اربکان کے سر ہے۔ ترک قوم میں نورسیؒ کی جگائی ہوئی جوت کو سیاسی عمل کی راہ دکھانا اربکان کا اصل کارنامہ ہے جو بعدازاں اردگان کی صورت مرحلۂ تمام کو پہنچا۔ خلافتِ عثمانیہ پر رونے اور رلانے والے نورسیؒ کا چھوڑا ہوا ورثہ اور جذبہ بعدازاں سامنے آنے والے اس (پولیٹیکل اسلام) کا یقیناً مؤید ہوتا اور ان نئے مواقع کو اسلام کے سیاسی پروگرام کےلیے بھرپور استعمال کرنے کی راہ نکالتا۔ تاہم اس کے مقابلے پر اسلام کو روحانی و سماجی جہتوں میں محصور رکھنے کا تھیسس فتح اللہ گولن کے ذریعے سامنے آیا۔ ان دونوں شخصیات (اربکان اور گولن) کے مابین ایک کشمکش پس ایک طبعی امر تھا۔ ہمارے ترک دوست بتاتے ہیں کہ نجم الدین اربکان اپنے دوستوں کو گولن کے زیرانتظام چلنے والے اسکولوں تک سے متنبہ کرتے اور کہا کرتے: یہاں اپنے بچوں کو پڑھاؤ گے تو وہ صرف یہود کے کام آئیں گے۔ دوسری جانب فتح اللہ گولن کے لوگ بھی نجم الدین اربکان کے مقابلے پر صدر ترگت اوزال کی نیشلسٹ پارٹی اور وزیر اعظم بلند ایجوت کی بائیں بازو کی ڈیموکریٹک پارٹی کے سرگرم سپورٹر رہے۔ ترک صحافی اسماعیل پاشا کے بقول: فتح اللہ گولن نے اس موقع پر (اپنی روحانی ساکھ کا ایک بےدریغ سیاسی استعمال کرتے ہوئے) فرمایا تھا: مجھے اگر شفاعت کا کوئی اخروی حق ملے تو وہ بھی میں بلندایجوت کے حق میں استعمال کر ڈالوں‘‘۔ بدیع الزمان نورسی کے روحانی ورثاء میں ایک نامور شخصیت پروفیسر آک غندوز اور ایک دیگر شخصیت محمد کیرکنجی، نجم الدین اربکان سے بڑھ کر فتح اللہ گولن کے ناقد رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ گولن دبستانِ نورسی کی صحیح نمائندگی نہیں کرتے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ اپنے تمام تر اختلافات کے علی الرغم نورسی سلسلہ کے یہ سب دھارے کم از کم الیکشن وغیرہ ایسے موقع پر ایک ہو جاتے رہے ہیں اور اسلامی آپشن کو سپورٹ کرنے میں اپنا پورا زور صرف کر دیتے رہے ہیں۔ سوائے فتح اللہ گولن کی جماعت کے جو اسلامی آپشن کو شکست دینے اور ملک میں اس کو بےاعتبار بنا رکھنے میں اپنا پورا زور صرف کر دیتی رہی ہے۔ (اردگان کی سپورٹ محض ایک استثناء ہے، اس پر ہم ذرا آگے چل کر بات کریں گے)۔
فتح اللہ گولن عالم اسلام کی ان ابتدائی شخصیات میں ہیں جنہوں نے تقاربِ ادیان کی داغ بیل ڈالی۔ بقول اسماعیل پاشا: یہ 1998 میں پوپ جان پال دوم کی زیارت کو ویٹی کن تشریف لے کر گئے۔ نیز ایک عالمی شہرت کی یہودی شخصیت ابراہام فوکس مین اور کچھ دیگر مذہبی شخصیات کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع فرما کر آئے۔ اس کے بعد پھر عالم اسلام میں یہ سلسلہ چل نکلا۔
مابین رجب اردگان و فتح اللہ گولن:
پیچھے ہم ذکر کر آئے کہ فتح اللہ گولن ہمیشہ سے ہی ترکی سیاست میں اسلامی جماعتوں کے مخالف کیمپ کے اندر اپنا وزن ڈالتے اور مغربی اسٹیبلشمنٹ میں اس کو اپنی نیک نامی کا ایک ذریعہ بناتے رہے ہیں۔ تاہم اردگان کے ساتھ ان کی قربت ایک استثناء کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ حیرت انگیز واقعہ کیسے ہوا، اس پر بات کرنے سے پہلے ہم گولن نیٹ ورک جو ’’خدمت‘‘ موومنٹ کے نام سے ترکی میں معروف ہے، کی بابت چند باتیں ذکر کریں گے:
جیسا کہ پیچھے بیان ہوا، ’’خدمت‘‘ موومنٹ کو متوازی ریاست کا نام دیا جاتا ہے۔ دورِحاضر میں ’ریاست کے اندر ریاست‘ کی یہ ایک قابل ذکر مثال ہے۔ اشرافیہ میں جڑیں بنانا اور ان کے ذریعے ریاست کے مؤثر شعبوں میں بہت اوپر تک جانا، جبکہ ان افراد کی وفاداریاں ریاست سے زیادہ جماعت کی قیادت کے ساتھ ہی وابستہ رہیں، اور جس کے اندر ایک کلٹ ذہنیت cult mentality کا بدرجۂ اتم استعمال کیا گیا ہو، گولن رفاہی نیٹ ورک کا ایک مخصوص طریقہ رہا ہے۔ قریب سے دیکھنے والے اس کے طریق عمل کو اکثر فری میسن کے طریق عمل سے تشبیہ دیتے ہیں۔ آدمی کو درجہ بدرجہ اپنے نیٹ ورک میں اوپر لے جایا جاتا ہے اور ’قیادت‘ کے ساتھ اس کی وفاداری دنیا کی ہر وفاداری سے بالاتر کروا دی جاتی ہے۔ حکومتوں کا ایسے کسی نیٹ ورک سے خائف یا متنبہ ہونا طبعی امر ہے۔ اس نیٹ ورک نے ترکی فوج، پولیس، عدلیہ، بیوروکریسی اور تعلیم و رائےسازی کے شعبوں میں حیرت انگیز حد تک قدم جمائے ہیں، اور یہ بات ترکی کے حالات سے باخبر ہر شخص جانتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں جماعت کی ناپسندیدہ شخصیت کو ناکام اور زچ کر کے رکھ دینا نیٹ ورک کےلیے بائیں ہاتھ کا کام ہوتا ہے۔ بڑےبڑے اس سے ٹکر لینے سے کتراتے اور اس کے ساتھ بنا کر رکھنا عقلمندی باور کرتے ہیں۔ قوت اور تاثیر کے تمام عوامل کو ایک غیررسمی انداز میں اپنے دھارے کے اندر لانا اور اپنی مٹھی میں کرنا اِس نیٹ ورک کی ایک بڑی ترجیح ہوتا ہے۔
ایک تو یہ بات تھی جو فتح اللہ گولن کو اردگان کی صورت میں ایک نئی ابھرتی ہوئی قیادت کو اپنے ’ارادتمندوں‘ میں جگہ دینے پر راغب کر گئی۔ یعنی تعلیم، فوج اور بیوروکریسی کے بعد اب سیاست میں بھی اپنے مہرے لے کر آنا۔
دوسرا، نوجوان اردگان کا گولن کے مسلّمہ حریف اربکان سے اپنے راستے الگ کر لینا بلکہ بظاہر اربکان سے بغاوت کر آنا بھی فتح اللہ گولن کی اردگان میں ایک خصوصی دلچسپی کا باعث بنا۔ اردگان کا اربکان سے علیحدہ ہونا اور اسلامی حوالے سے بھی اربکان کی نسبت ایک واجبی سا انداز اختیار کرنا عملاً ایک بہت بڑی ’گُگلی‘ تھی۔ چونکہ اردگان کا رخ اربکان کی نسبت ایک خاصے ’غیراسلامی‘ چہرے کے ساتھ سیاست میں آنے کی طرف تھا… لہٰذا اس سے بھی گولن کو یہ ترغیب ہوئی کہ ترکی میں اربکان کے ’پولیٹیکل اسلام‘ کے راستے مسدود کردینے اور جماعت کے ایک بڑے حصے کو (پولیٹیکل اسلام کی) یہ راہ چھڑوا دینے کی کچھ کامیاب صورتیں ہاتھ آ سکتی ہیں!
مختصراً، اردگان کے ذریعے اپنی ’متوازی ریاست‘ کو بامِ عروج تک پہنچانا اور اربکان کی چلائی ہوئی ’سیاسی اسلام‘ کی راہ سے اسلام پسندوں کے ایک بڑے حصے کو برگشتہ بھی کر ڈالنا، جس پر آخر میں مغرب کو گولن کا شکرگزار ہونا تھا!
مگر ہوا یوں کہ بظاہر سادگی سے استعمال ہونے والا، ہوشیاری سے استعمال کرنے والے کو، بڑے غیرمحسوس طریقے سے استعمال کر گیا!!!
موخر الذکر کو ہوش اُس وقت آیا جب سارا کھیل اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ بلاشبہ، اُس ابتدائی موقع پر گولن نیٹ ورک اگر اردگان کا ساتھ نہ دیتا تو اردگان کو سیاست میں یہ غیرمعمولی کامیابی لینے میں دشواری پیش آتی۔ البتہ گولن نے (خود ہی) اردگان کا ساتھ جس موقع پر چھوڑا، اُس وقت اردگان کو گولن کی بہت زیادہ ضرورت نہ رہی تھی!
حق یہ ہے، گولن کے علیحدگی اختیار کرنے سے پہلے ہی اردگان انتظامیہ نے ’’خدمت‘‘ نیٹ ورک پر گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا تھا، مگر خاصے اصولی طریقے سے۔ استادِ محترم کے ساتھ ایک بےنیازی والا معاملہ ہونے لگا تھا۔ ملک کے پورے تعلیمی نظام کو ایک کرنے اور اشرافیہ کےلیے بننے والے خصوصی اسکولوں کو ختم کرنے سے متعلق اردگان کے حکومتی اقدامات سامنے آنے لگے تو ’’خدمت‘‘ موومنٹ اردگان کی اس حرکت کو دیکھتی رہ گئی۔ جبکہ ’’خدمت‘‘ نیٹ ورک کے اسکول تو تھے ہی اشرافیہ کےلیے بنائے گئے اسکول جو بیک وقت کمائی بھی تھی اور اشرافیہ کو اپنے ہاتھ میں لینے کا ایک اہم ذریعہ بھی۔ اس موقع پر گولن کا پیمانۂ صبر لبریز ہوتا دیکھا گیا اور میڈیا نے صفائے نفس کے داعی ایک صوفی بزرگ کو جماعتِ اردگان کے خلاف بددعائیں کرتے سنا ’ان کا خانہ خراب، خدا کرے ان کے گھروں کو آگ لگے‘! شاید یہ بیداری کی حالت کا ایک کشف تھا جس کی تاب نہ لائی جا سکی: ایک طفل مکتب بزرگِ جہاندیدہ کے ساتھ ہاتھ کر گیا۔ ’پولیٹیکل اسلام‘ تھوڑی راہ بدل کر اور کچھ ناقابلِ تسخیر سا ہو کر سامنے آ کھڑا ہوا تھا!
اردگان کے ساتھ گولن کی قربت اور جدائی کی داستان دیکھیں تو آپ کو فاطمی (فی الحقیقت باطنی عبیدی) حکمران ’’العاضد‘‘ کا واقعہ یاد آ جاتا ہے جب اس نے اسد الدین شیرکوہ اور بعدازاں اس کے ہونہار بھتیجے صلاح الدین (ایوبی) کو عباسی خلیفہ کے وفادار شام کے سلطان نورالدین زنکی سے برگشتہ کرنے کےلیے مصر میں اپنا وزیر اعظم بننے کی پیش کش کر ڈالی تھی۔ البتہ اِس ’وزیراعظم‘ نے کچھ ہی عرصہ میں عوام کے اندر اپنی جڑیں بنا لینے کے بعد ’’العاضد‘‘ کو فارغ کیا اور ایک دو سو سالہ تعطل کے بعد مصر کو عباسی خلافت کی قلمرو میں واپس کروا لیا! (جس سے صلیبیوں کے خلاف عالم اسلام کا ایک بڑا محاذ تشکیل پایا، جو بعدازاں بیت المقدس کی فتح کی بنیاد بنا)۔
ہمارے ترک دوست بتاتے ہیں، پچھلے چند سالوں میں ترکی کے اندر ’متوازی ریاست‘ کو اچھا خاصا ہلکاپھلکا کر دیا گیا ہے۔ اِس بار مقابلے پر بھی باقاعدہ ایک تحریک ہے جس کے پاس باصلاحیت افراد کی کمی نہیں۔ معلوم ہوتا ہے ’متوازی ریاست‘ کے پاؤں تلے سے زمین جس تیزی کے ساتھ سرک رہی تھی، ’ابھی یا کبھی نہیں‘ کا موقع بڑی دیر سے آن پہنچا تھا۔ دسمبر 2013 میں بھی ایک ناکام کوشش ہوئی، مگر اس کا درجۂ تمام اب تھا۔ لیکن شاید یہ اپنی موت کو صاف صاف دعوت تھی (اگر اردگان کے الزام کو صحیح سمجھا جائے)۔ حالیہ بغاوت کی ناکامی نے ترکی کی تاریخ پر اور بہت پہلوؤں سے دُوررَس اثرات چھوڑے۔ ان میں ایک شاید یہ بھی ہو گا کہ ’متوازی ریاست‘ ترکی میں ایک قصۂ پارینہ بن جائے۔ صفائی کا ایک بڑا عمل یقیناً عمل میں آ چکا ہے۔ اِس بات کے شواہد پائے گئے ہیں کہ اردگان صاحب ’منظم سرطان‘ کی کمر توڑ دینے کےلیے اِس موقع کو کئی ایک انداز سے استعمال کریں گے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اِس عمل میں انصاف کے دائرہ سے باہر نہ نکلیں۔
یہ کہنا تو ابھی مشکل ہے کہ مدھم رفتار سے ’اسلام‘ کی جانب بڑھنے والا ترکی اِس واقعہ کے بعد خطرات سے باہر آگیا ہے۔ ایسا سمجھ لینا شاید اسلام کے دشمنوں اور بدخواہوں کی حقیقت سے ناواقفیت کی دلیل ہو۔ البتہ یہ بات قدرے آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ حالیہ بغاوت کی ناکامی کے بعد ترکی کے اسلامی مستقبل کے خلاف کوئی بڑا اقدام اٹھانے کےلیے عالمی قوتوں کو خاصا برہنہ ہو کر سامنے آنا ہو گا۔
آپ کو یاد ہوگا، کوئی عشرہ پیشتر رینڈ کارپوریشن کی جانب سے امریکی پالیسی سازوں کےلیے عالم اسلام کے حوالہ سے مشہورِ عام سفارشات آئی تھیں۔ جن میں سے ایک یہ کہ: ’’جہاد‘‘ اور ’’پولیٹیکل اسلام‘‘ کے خطرے سے نمٹنے کےلیے مسلم دنیا میں امریکہ کے جو کوئی طبعی حلیف ہو سکتے ہیں ان میں ’’صوفی اسلام‘‘ پر خصوصی دشتِ شفقت رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں یاد ہے امریکہ تا مشرقِ بعید ’رقصِ رومی‘ کی پھِرکی گھوم اٹھی تھی۔ نزار قبانی، حمزہ یوسف اور نوح حامیم کیلر وغیرہ پر وائٹ ہاؤس کے دروازے وا ہو گئے۔ بھارت میں صوفیہ کانفرنسوں کے میلے لگنے لگے جن کا مرکزی نقطہ عالم اسلام میں مغرب کو چبھنے والے عناصر کو اسلام سے عاق ٹھہرانا تھا۔ شام میں امریکی آشیرباد یافتہ صوفیہ کا گڑھ دیکھتے ہی دیکھتے مرجعِ خلائق بننے لگا (ہمیں یاد ہے ایک ’غیرمرئی‘ نیٹ ورک امریکی نو مسلم جوانوں کو ابتدائی پراسیسنگ کے بعد ’سیریا‘ روانہ کیا کرتا تھا، جہاں سے وہ نوجوان ایسی برین واشنگ کروا کر آتا کہ لوگ اس کے ساتھ بات چیت کرنا وقت کا ضیاع جانتے)۔ پاکستان سے طاہر القادری صاحب کےلیے ’مواقع‘ نے اپنے منہ کھول دیے اور اردو بولنے والی دنیا کےلیے ان کی قوالی شمالی امریکہ تا یورپ تا شام تا ہندوستان ہونے لگی۔ آپ نوٹ کریں گے، طاہرالقادری صاحب پر یہودونصاریٰ کےلیے خصوصی قربت و اپنائیت (عالمی تحریکِ تقاربِ ادیان کی ترویج) پر مبنی کچھ غیرمعمولی لہجے نائن الیون کے کہیں بعد جا کر طاری ہوئے۔ ایسا ہی معاملہ کچھ دیگر خطوں کے صوفیہ کے ساتھ رہا۔ یہ سست لوگ تھے جو بہت بعد میں جاگے اور قافلے کے اندر شامل ’ہوئے‘ نہیں بلکہ ’کئے‘ گئے۔ البتہ فتح اللہ گولن، نزار قبانی ایسے اُن بیدار مغزوں میں آتے ہیں جن کے دستِ ہنر نے یہ سب قافلہ تشکیل دیا۔ یہ باصلاحیت لوگ نائن الیون سے بہت پہلے عالم اسلام کے اندر اپنے ’فرائض‘ سے آگاہ تھے۔ ان کے ’اجتہادات‘ سن اَسّی اور نوّے کے عشرے سے ہی سامنے آنے اور ’پولیٹیکل اسلام‘ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے لگے تھے۔
(صوفیہ کا بڑا طبقہ بلاشبہ اسلام کا سچا محافظ اور استعمار کو للکارنے والے جہاد اور پولیٹیکل اسلام کا روحِ رواں رہا ہے، یہ بات ہم پر نہایت واضح ہے۔ یہاں بات صوفیہ کے اس طبقہ کی ہو رہی ہے جو خانقاہی نظام کا غلط استعمال کرتا آ رہا ہے، اور ایسے لوگ ہر طبقے میں ہیں۔ قاری ہماری کسی بات سے عمومِ صوفیہ سے متعلق کوئی رائے نہ بنائے)۔
فتح اللہ گولن عالم اسلام کی ان معدودےچند تحریکات میں ہیں جن سے ہمارے ہندوستان کے ایک بزرگ وحیدالدین خان ٹھنڈی ہوائیں پاتے رہے ہیں۔ اس پر آپ ان کا یہ کلپ دیکھ سکتے ہیں۔ وحیدالدین خان صاحب اپنی پسند و اطمینان کے معاملہ میں اسلامی تحریکوں کی بابت جس قدر سیلیکٹو selective ہیں وہ افکار کی دنیا سے شغف رکھنے والے اکثر لوگوں پر واضح ہے۔ فتح اللہ گولن کی بابت آپ اگر اور کچھ بھی نہیں جانتے تو اِسی ایک بات سے گولن کی خوش قسمتی اور عالم اسلام میں ان کے کردار کی اہمیت کا اچھاخاصا اندازہ کر سکتے ہیں۔
البتہ نظر یہ آتا ہے، حالیہ واقعہ کے بعد فتح اللہ گولن کا یہ کردار اچھا خاصا سکڑ جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر دلیل ڈاٹ کام سے لی گئی ہے ۔