• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترک رفع الیدین اور "تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ "

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مسند حمیدی کے اس جعلی نسخہ کی حقیقت جاننے کیلئے آپ ہمارے محسن محقق عالم شیخ زبیر علی زئیؒ کی کتاب نور العینین ملاحظہ فرمائیں،
اگر اقتباس مل جائے تو شکرگزار ہوں گا.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جزاک اللہ خیرا
علمی لحاظ سے ایک سوال ہے۔ نسخہ جات کی تحقیق کے اصول تحریر شدہ ہیں جن کے مطابق نسخوں کی تحقیق کی جاتی ہے اور اس تحقیق کو پرکھا جاتا ہے۔ کیا مجھے کوئی ان اصولوں کے مطابق بتائے گا کہ یہ نسخہ جعلی کیسے ہے؟
جو دلائل یہاں لکھے ہیں یہ اصول تحقیق تو نہیں ہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ترک رفع الیدین اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ،¤..سالم عن ابن عمر ان النبی صلی الله عليه وسلم كان يرفع يديه،اذاافتتح الصلاة،ثم لايعود.<خلافيات بيهقی قلمی صفحہ 179>سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سےمروی ہے،کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازشروع کرتےتو رفع یدین کرتےاس کےبعدنہیں کرتےتھے
یہ حدیث بالکل جھوٹی ،بناوٹی ہے ،
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ " المنار المنیف " میں لکھتے ہیں :
وحديث أورده البيهقي في الخلافيات من رواية عبد الله بن عون الخراز حدثنا مالك عن الزهري عن سالم عن ابن عمر "أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ثم لا يعود" ومن شم روائح الحديث على بعد شهد بالله أنه موضوع "
یعنی امام بیہقیؒ نے اپنی کتاب خلافیات میں جو روایت نقل کی ہے کہ :
سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سےمروی ہے،کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازشروع کرتے تورفع یدین کرتےاس کےبعدنہیں کرتےتھے "
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں : جس نے بھی علم حدیث کی بو دور سے بھی سونگھی ہو وہ اللہ کو گواہ بنا کر کہے گا کہ یہ حدیث موضوع ہے"
ـــــــــــــــــــــــــــ
علامہ ابن حجرؒ عسقلانی فرماتے ہیں :

وفي الباب عن ابن عمر: «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يرفع يديه إذا افتتح الصلاة ثم لا يعود» رواه البيهقي في الخلافيات وهو مقلوب موضوع "
یعنی یہ حدیث موضوع ہے "
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ترک رفع الیدین اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
¤ حدثنا ابوبکربن عیاش عن حصین عن مجاھد قال ما رایت ابن عمر یرفع یدیه الا فی اول ما یفتتح"<مصنف ابن ابی شیبہ جلد1صفحہ 268 سندہ صحیح>مشہورتابعی امام المفسرین امام مجاہد بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نےعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کو شروع نماز کے علاوہ رفع یدین کرتے نہیںدیکھا
یہ روایت بھی ناکارہ ہے کیونکہ امام بخاریؒ فرماتے ہیں :
قال البخاري: " قال يحيى بن معين حديث أبي بكر عن حصين إنما هو توهم منه لا أصل له "
(جزء رفع الیدین ) نیز دیکھئے : التلخیص الحبیر ج1
یعنی ابوبکر کی حصین سے یہ روایت اس کا وہم ہے ،جس کی کوئی اصل نہیں "
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ترک رفع الیدین اورعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ،¤حدثنا ابن ابی داؤد قال ثنا احمدبن یونس قال ثنا ابوبکربن عیاش عن حصین عن مجاھد قال صلیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیه الا فی التكبيرة الاولی من الصلاة"< شرح معانی الآثارجلد1صفحہ 163سندہ صحیح >مشہورتابعی امام مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نےعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کےپیچھے نمازپڑھی تو انہوں نےتکبیراولی کے علاوہ نمازمیں کہیں بھی رفع یدین نہیں کیا
اس روایت کے متعلق علامہ زبیر علی زئی ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں :
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ​
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!​
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!​
میرے علم کے مطابق ایک محدث بھی ایسا نہیں ہے جس نے اسے صحیح یا حسن کہا ہو۔ بلکہ امام بیہقی کے علاوہ دوسرے محدثین نے بھی اسے وہم 'لااصل لہ اور باطل کہا ہے ۔مثلا امام ابن معین ؒ( جو کہ عندالفریقین مستند اورقابل اعتماد محدث اور امام ہیں) نے فرمایا : یہ روایت ابوبکر بن عیاش کاوہم ہے،اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔( جزء رفع یدین ص56)​
امام احمد بن حنبل ؒ نے ( جو کہ ائمہ اربعہ میں سے ہیں ) اس روایت کے بارے میں فرمایا: ھو باطل" یعنی یہ روایت باطل ہے ۔( مسائل احمد روایۃ اسحاق بن ابراہیم بن ہافی النسیا بوری ج اص 50)​
فن حدیث اور علل کے ان ماہر محدثین کرام کے مقابلے میں ایسے لوگوں کی تصحیح وتحسین کا کیا اعتبار ہے جو بذات خود ایک فریق مخالف کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کی زندگیاں کذب بیانیوں ،افتراء پر دازیوں ۔ تناقضات اور مغالطوں سے بھری پڑی ہیں۔(ہفت روزہ الاعتصام لاہور 27 جون 1997)​
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب​

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ​

محدث فتویٰ​
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
جزاک اللہ خیرا
علمی لحاظ سے ایک سوال ہے۔ نسخہ جات کی تحقیق کے اصول تحریر شدہ ہیں جن کے مطابق نسخوں کی تحقیق کی جاتی ہے اور اس تحقیق کو پرکھا جاتا ہے۔ کیا مجھے کوئی ان اصولوں کے مطابق بتائے گا کہ یہ نسخہ جعلی کیسے ہے؟
جو دلائل یہاں لکھے ہیں یہ اصول تحقیق تو نہیں ہیں۔
مجھے ان اصولوں کے متعلق کسی کتاب کی طرف رہنمائی کر دیں.
جزاکم اللہ خیرا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مجھے ان اصولوں کے متعلق کسی کتاب کی طرف رہنمائی کر دیں.
جزاکم اللہ خیرا
قواعد تحقیق المخطوطات للمنجد
تحقیق النصوص لعبد السلام محمد ہارون
اصول نقد النصوص برجسترائر
اور کتب بھی ہیں لیکن یہ عمدہ معلوم ہوتی ہیں اور اس فن کی بنیادی کتب بھی ہیں۔ خصوصاً برجسترائر کی یہ کتاب (جو حقیقی کتاب کا عربی ترجمہ ہے) اس حوالے سے بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔ اس کا کافی کام ہے تحقیق مخطوطات میں۔
 
شمولیت
دسمبر 23، 2017
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
حضرت عبداللہ بن عمر ضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہﷺ نماز شروع فرماتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کندھوں کے برابر تک اٹھایا کرتے تھے اور جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس وقت بھی آپ اسی طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا کرتے اور فرماتے سمع اللہ لمن حمدہ بہیقی کی روایت میں الفاظ بھی ہیں کہ آپ کی نماز یہی کفیت رہی حتیٰ کے آپ اللہ تعالی کو پیارے ہو گے
سوال۔اس سند میں راوی عبدالراحمن بن قریش موجود ہیں جن کے بارے میں حدیث گڑھنے والا کہا گیا ہے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
سوال۔اس سند میں راوی عبدالراحمن بن قریش موجود ہیں جن کے بارے میں حدیث گڑھنے والا کہا گیا ہے؟
رفع الیدین کرنے کی یہ کوئی اکلوتی اور پہلی دلیل نہیں ، جس کوضعیف کہہ کر تقلید کے عشاق بھنگڑے ڈالیں ،
بلکہ
صحیح ترین اسناد اور مشہور ترین روایت میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نماز میں رفع الیدین کا ثبوت موجود ہے :

❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی صحیح اور مشہور روایت ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه، ‏‏‏‏‏‏إذا افتتح الصلاة وإذا كبر للركوع وإذا رفع راسه من الركوع رفعهما، ‏‏‏‏‏‏كذلك ايضا، ‏‏‏‏‏‏وقال:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ‏‏‏‏‏‏وكان لا يفعل ذلك في السجود .
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر دونوں ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے اور سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد کہتے، اورسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔“
[صحیح بخاری : 102/1، ح : 735، 738، 738، صحیح مسلم : 168، ح : 390]
ـــــــــــــــــــــــــ
اور نبی کریم ﷺ کے وفات کے بعد ایک صحابی جناب ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے مجمع میں بیان کرتے ہیں کہ :

أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِيَّ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ، قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: فَلِمَ فَوَاللَّهِ؟ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلَا أَقْدَمِنَا لَهُ صُحْبَةً، قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلَا يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلَا يُقْنِعُ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَيَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الْأَرْضِ فَيُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ وَيَسْجُدُ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَصْنَعُ فِي الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي بَقِيَّةِ صَلَاتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ "، قَالُوا: صَدَقْتَ، هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ کرام کے درمیان جن میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بھی تھے فرمایا:
میں آپ لوگوں میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں جانتا ہوں، لوگوں نے کہا: وہ کیسے؟ اللہ کی قسم آپ ہم سے زیادہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے تھے، نہ ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے۔
ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں یہ ٹھیک ہے (لیکن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز زیادہ یاد ہے) اس پر لوگوں نے کہا: (اگر آپ زیادہ جانتے ہیں) تو پیش کیجئیے۔ ابوحمید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے بالمقابل اٹھاتے، پھر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر سیدھی ہو جاتی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآت کرتے، پھر «الله أكبر» کہتے، اور دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے مقابل کر لیتے، پھر رکوع کرتے اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے، اور رکوع میں پیٹھ اور سر سیدھا رکھتے، سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ ہی پیٹھ سے بلند رکھتے، پھر اپنا سر اٹھاتے اور «سمع الله لمن حمده» کہتے، پھر اپنا دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ سیدھا ہو کر انہیں اپنے دونوں کندھوں کے مقابل کرتے پھر «الله أكبر» کہتے، پھر زمین کی طرف جھکتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں پہلووں سے جدا رکھتے، پھر اپنا سر اٹھاتے اور اپنے بائیں پیر کو موڑتے اور اس پر بیٹھتے اور جب سجدہ کرتے تو اپنے دونوں پیر کی انگلیوں کو نرم رکھتے اور (دوسرا) سجدہ کرتے پھر «الله أكبر» کہتے اور (دوسرے سجدہ سے) اپنا سر اٹھاتے اور اپنا بایاں پیر موڑتے اور اس پر بیٹھتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر واپس آ جاتی، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دوسری رکعت سے اٹھتے تو «الله أكبر» کہتے، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل لے جاتے جس طرح کہ نماز شروع کرنے کے وقت «الله أكبر» کہا تھا، پھر اپنی بقیہ نماز میں بھی اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب اس سجدہ سے فارغ ہوتے جس میں سلام پھیرنا ہوتا، تو اپنے بائیں پیر کو اپنے داہنے پیر کے نیچے سے نکال کر اپنی بائیں سرین پر بیٹھتے (پھر سلام پھیرتے) ۔ اس پر ان لوگوں نے کہا: آپ نے سچ کہا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے۔

سنن ابوداود،حدیث نمبر: 730 (قال الشيخ الألباني: صحيح )
صحیح البخاری/الأذان ۱۴۵ (۸۲۸)، سنن الترمذی/الصلاة ۷۸ (۳۰۴)، سنن النسائی/التطبیق ۶ (۱۰۴۰)، والسہو ۲ (۱۱۸۲)، ۲۹ (۱۲۳۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۵ (۱۰۶۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۹۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۲۴) سنن الدارمی/الصلاة ۷۰ (۱۳۴۶) (كلهم مختصرًا من سياق المؤلف، وليس عند البخاري ذكر رفع اليدين ما سوى عند التحريمة)
امام ابن قیم رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :

(قال الحافظ شمس الدين بن القيم رحمه اللَّه حَدِيث أَبِي حُمَيْدٍ هَذَا حَدِيث صَحِيح مُتَلَقًّى بِالْقَبُولِ لَا عِلَّة لَهُ ) تہذیب السنن "
یعنی جناب ابوحمید ساعدی کی یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور تلقی بالقبول حاصل ہے اور اس میں کوئی علت نہیں "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


❀ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
هل أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فكبّر ورفع يديه، ثمّ كبّر ورفع يديه للرّكوع، ثمّ قال : سمع الله لمن حمده، ثم قال: هكذا فاصنعوا ولا يرفع بين السجدتين .
”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں، آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا : اور رفع الیدین کیا، پھر اللہ اکبر کہا : اور رکوع کے لیے رفع الیدین کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا : اور رفع الیدین کیا، پھر فرمایا، تم ایسا ہی کیا کرو ! آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ [سنن الدار قطني : 292/1، ح : 1111، وسنده صحيح]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ورجاله ثقات ”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔“ [التلخيص الحبير : 219/1]
 
Top