• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترک رفع الیدین کی موضوع حدیث

شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
جوش سے نہیں ہوش سے کام لو، کئی بار ابن داؤد بھائی نے یہی لکھا ہے اردو زبان میں کہ تحریر مکمل ہونے تک بیچ میں ٹانگ نہ اڑائیں، لیکن فیس بکی محککین کے کیا کہنے :)

ہاہاہا جناب کیا ہو گیا آپکے عالم صاحب نے ہماری دلیل کو بڑی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس دلیل کو مجروح کرنے کی کوشش مکمل کر لی اب جب تک اس کا جواب نہیں دونگا تو بات آگے کیسے بڑھے گی ؟؟؟؟


یا یہ اتنی لمبی لمبی اصول سے خالی
اور علم جرح وتعدیل سے کوسوں دور باتیں لکھ کر صفحے کالے کرنے ہیں ؟؟؟؟؟

اگر یہ اتنا سار تحقیق سے خالی اپنے قیاس پر مبنی باتین ادھر ادھر کی چھیڑ کر لکھتے ہی رہنگے تو ہم جواب کب دینگے ؟؟؟؟

اصول تو یہی ہے کہ انہوں نے ہماری تو بنیادی دلیل ہے اسکو اتنے اوٹ پٹانگ طریقے سے باطل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تو پہلے تو اس دلیل کا دفاع ہوگا پھر جب اس پر بات ہو جائے گی
اسکے بعد آگے چلا جائے گا نہ ؟

یا یہ لکھتے رہینگے تو (جاری ہے ) کہہ کر قیاس گھماتے چلے جائیں گے تو بلترتیب جواب کیسے ہوگا ؟
:)
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
ہاہاہا جناب کیا ہو گیا آپکے عالم صاحب نے ہماری دلیل کو بڑی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس دلیل کو مجروح کرنے کی کوشش مکمل کر لی اب جب تک اس کا جواب نہیں دونگا تو بات آگے کیسے بڑھے گی ؟؟؟؟


یا یہ اتنی لمبی لمبی اصول سے خالی
اور علم جرح وتعدیل سے کوسوں دور باتیں لکھ کر صفحے کالے کرنے ہیں ؟؟؟؟؟

اگر یہ اتنا سار تحقیق سے خالی اپنے قیاس پر مبنی باتین ادھر ادھر کی چھیڑ کر لکھتے ہی رہنگے تو ہم جواب کب دینگے ؟؟؟؟

اصول تو یہی ہے کہ انہوں نے ہماری تو بنیادی دلیل ہے اسکو اتنے اوٹ پٹانگ طریقے سے باطل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تو پہلے تو اس دلیل کا دفاع ہوگا پھر جب اس پر بات ہو جائے گی
اسکے بعد آگے چلا جائے گا نہ ؟

یا یہ لکھتے رہینگے تو (جاری ہے ) کہہ کر قیاس گھماتے چلے جائیں گے تو بلترتیب جواب کیسے ہوگا ؟
:)
ہاہاہا جناب کیا ہو گیا آپکے عالم صاحب نے ہماری دلیل کو بڑی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اس دلیل کو مجروح کرنے کی کوشش مکمل کر لی
کہاں لکھا ہے ابن داؤد بھائی نے کہ تحریر مکمل کرلی ہے؟ صفحات کالے کرنے پر خود تلے جارہے ہو قیاسی گھوڑے خود دوڑا رہے ہو جبکہ اردو زبان میں کئی بار (جاری ہے) لکھا جارہا ہے، اسی لیے لکھا تھا جوش سے نہیں ہوش سے کام لو :)

ارے بھائی محکک یہ فیس بک نہیں ہے اگر بیچ میں ٹانگ اڑانی ہے تو فیس بک تک ہی رہیں جزاک اللہ خیرا

یہ علمی فورم ہے یہاں تحریر مکمل ہونے تک نہ لکھیں تو بہتر ہوگا وجہ یہ ہے کہ قاری کو دیکھنے میں آسانی ہوگی اور براہ کرم آپ اپنا اب یہ شوق پورا تحریر مکمل ہونے کے بعد کریں!

امید ہے اردو سمجھ آگئی ہوگی!!!!!
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
@عدیل سلفی بھائی چند سابقہ مراسلات کے اقتباسات دیکھیں:

بے شک اب آپ نے اصولی بات کی ہے جب میرے جوابات سامنے رکھ کر آپ اپنے اعتراضات پیش کرینگے ان شاءاللہ پھر بات بنے گی اور میں اپنے دلائل کا دفاع بھی اصول حدیث ہی سے آپکے سامنے رکھونگا
نہیں مجھے کوئی مسلہ نہیں اگر آپ اتنے دن لے رہے ہیں تو کوشش کریں ایک ہی بار سارا لکھ کر پوسٹ کیجیے گا تاکہ آپکی تحریر کا رد بھی ایک ہی بار میں کیا جا سکے
باقی آپکی مرضی ہے

اور آپ اپنی کہی ہوئی اس بات کو یاد رکھیے گا کہ حدیث کی تصحیح و تحسین اور حدیث کو باطل فقط کسی جرح مبہم کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا اس کے لیے بنیادی اصول جرح و تعدیل ہی مقدم ہوتا ہے
جی جزاک اللہ جاری رکھیں
ہم آپکی تحریر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں :)
معذرت میں نے پڑھنے سے پہلے سمجھا تھا کہ آپ نے اس بار مکمل لکھا ہوگا ۔۔ جواب دے دیا اوپر ۔۔
لیکن آپ نے جاری لکھا ہوا ہے
تو میری اس غلطی کو امید ہے نظر انداز کرینگے
اور ان شاءاللہ میں خاموش رہونگا جب آپ اختتام کرینگے تو تب جواب دونگا
شکریہ
جزاک اللہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
االسلام عليكم ورحمة الله وبركاته
أسد بهائى آپ ابھی "لطف اندوز" ہوں!
تحریر مکمل ہونے تک!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
۱۰.امام ابن مبارک کہتے ہیں میں ابن جابر کے پاس گیا مکہ میں وہ اپنی کتب سے بیان کر رہے تھے میں نے انکی کتب دیکھی وہ بالکل صحیح تھیں اور ان سے کہا کہ ان کتب سے روایت کیجیے
یہاں تو آپ عبد اللہ ابن مبارک کے قول کی کوئی عبارت پیش نہیں کی، ہاں نیچے اسکین صفحات میں کی ہیں، ان صفحات سے عبارت اور آپ کے مدعا کو نقل کرتے ہیں، پھر ان کا جائزہ لیں گے!
حَدَّثَنَا ابن حماد، حَدَّثَنا عَبد اللَّه بن أحمد، حَدَّثني أبي، قَال: حَدَّثَنا عتاب بن زياد قَالَ قدم عَبد الله بن المُبَارك عَلَى مُحَمد بن جابر، وَهو يحدث بمكة فِي سنة ثمان وستين ومِئَة فقال حدث يا شيخ من كتبك قَالَ من هذا قيل ابن المُبَارك فأرسل إليه بكتبه وكان عَبد الرحمن يسأله من حديث حماد، وَعَبد الله ساكت.
امام ابن مبارک مکہ میں محمد بن جابر کے پاس آئے وہ کتابوں سے روایت کر رہے تھے امام عبد الرحمن بن مھدی محمد بن جابر سے حماد کی روایتوں کے بارے سوال کر رہے تھ اور امام ابن مبارک خاموش تھے (اس سے معلوم ہوا کہ ابن مھدی محمد بن جابر سے حماد کی روایتیں لیتے تھے اور وہابی بھی مانتے ہیں ابن مہدی صرف اپنے نزدیک ثقہ سے روایت لیتے ہیں)
اول: مذکورہ بالا عربی عبارت میں تو یہ بات نہیں، کہ محمد بن جابر کتابوں سے روایت کر رہے تھے، بلکہ اس کے برعکس ہے۔
نوٹ: یہ وہابی وغیرہ کے کلمات کو میں درگزر کر دیتا ہوں، کہ یہ آپ کی فیس بک کی پرانی تحریر تھی! مگر یہ یہاں أسلوب کا خیال کیجیئے گا!
دوم: ابن مھدی کے اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت کا جو معاملہ ہے، وہ اس سے روایت کرنے کا معاملہ ہے، نہ کہ سماع کا!
اور اس عبارت میں ابن مھدی کے روایت کرنے کا معاملہ نہیں، بلکہ یہاں سماع ہی ثابت ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی ابن مھدی نے محمد بن جابر الیمامی سے روایت کرنا ترک کر دیا تھا۔ مستقل بحث ابن مھدی کے حوالہ سے آپ آگے آئے گی!
سوم: آپ کے اس ناقص ترجمہ سے بھی ابن المبارك سے محمد بن جابر الیمامی کی توثیق تو ثابت نہیں ہوتی!
اور اصل عربی عبارت سے تو تضعیف ثابت ہوتی ہے! اسے ابھی تفصیل سے بیان کیا جائے گا!
دوسری عبارت؛

وقال بن المبارك في تاريخه مررت به وهو بمنى يحدث الناس فرأيته لا يحفظ حديثه فقلت له أيها الشيخ إنك حدثتني بكذا وكذا قال فجاءني إلى رحلي ومعه كتابه فقال لي انظر فنظرت فإذا هو صحيح فقلت لا تحدث إلا من كتابك
امام ابن مبارک کہتے ہیں میرے پاس ابن جابر آیا اس نے مجھے کہا یہ کتاب دیکھیے میں نے اسکی کتاب دیکھی وہ صحیح تھیں میں نے کہا آپ اس کتاب سے روایت کیا کیجیے
یہ قطعی طور پر اس عبارت کا ترجمہ نہیں، اورنہ ہی عربی عبارت کا مستفاد ہے!
بلکہ یہ تو عربی عبارت پر اپنی خواہش کو زبردستی ٹھوسنے سے بھی زیادہ ہے!
اسے تحریف ضرور کہا جا سکتا ہے۔
ان عبارات ایک بار پھر ملاحظہ فرمائیں:


حَدَّثَنَا ابن حماد، حَدَّثَنا عَبد اللَّه بن أحمد، حَدَّثني أبي، قَال: حَدَّثَنا عتاب بن زياد قَالَ قدم عَبد الله بن المُبَارك عَلَى مُحَمد بن جابر، وَهو يحدث بمكة فِي سنة ثمان وستين ومِئَة فقال حدث يا شيخ من كتبك قَالَ من هذا قيل ابن المُبَارك فأرسل إليه بكتبه وكان عَبد الرحمن يسأله من حديث حماد، وَعَبد الله ساكت.

اس عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
ہمیں ابن حماد نے بیان کیا، کہا ہمیں عبد اللہ بن احمد نے بیان کیا، کہا مجھے میرے والد (احمد بن حنبل) نے بیان کیا، کہا ہمیں عتاب بن زیاد نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن المبارك، محمد بن جابر الیمامی کے پاس آئے، اور وہ
168 ہجری میں مکہ میں حدیثیں بیان کر رہے تھے، تو عبد اللہ بن المبارک نے کہا (محمد بن جابر الیمامی سے) اے شیخ! آپ اپنی کتاب سے روایت کریں! (محمد بن جابر اليمامی نے) کہا: یہ کون ہیں؟ کہا گیا (محمد بن جابر الیمامی سے) عبد اللہ بن المبارك، تو انہوں نے (محمدبن جابر الیمامی نے) عبد اللہ بن المبارک کو اپنی کتابیں بھجوائیں! اور عبد الرحمن بن مھدی ان سے (محمد بن جابر الیمامی سے) حماد کی حدیث کے متعلق پوچھتے تھے، اور عبد اللہ بن المبارك خاموش تھے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 329 جلد 07 الكامل في ضعفاء الرجال ۔ أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) – دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2158 جلد 06 الكامل في ضعفاء الرجال ۔ أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) – دار الفكر، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 122 جلد 09 الكامل في ضعفاء الرجال ۔ أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) – مكتبة الرشد، الرياض

اس عبارت میں یہ بیان ہوا کہ کہ
168 ہجری میں لوگوں کو حدیثیں بیان کر رہے تھے، جس پر ابن المبارك نے محمد بن جابرالیمامی کو کہا کہ آپ اپنی کتاب سے روایت کیجیئے، (اور کتاب کے علاوہ حافظہ سے روایت نہیں کریں)۔
یہ ہے اس عبارت کا مستفاد!
آپ کی اگلی پیش کردہ عبارت کو دیکھیں:

وقال بن المبارك في تاريخه مررت به وهو بمنى يحدث الناس فرأيته لا يحفظ حديثه فقلت له أيها الشيخ إنك حدثتني بكذا وكذا قال فجاءني إلى رحلي ومعه كتابه فقال لي انظر فنظرت فإذا هو صحيح فقلت لا تحدث إلا من كتابك
ابن المبارك نے اپنی تاریخ میں کئی بار اس معنی میں کہا کہ (محمد بن جابر الیمامی) لوگوں کو حدیثیں سنا تا تھا، تو انہوں نے (عبد اللہ بن المبارك نے) دیکھا کہ اس کو اپنی حدیثیں یاد نہیں، تو (عبد اللہ بن المبارك) نے اس سے (محمد بن جابر الیمامی سے) کہا اے شیخ آپ نے تو مجھے اس طرح اور اس طرح سنائی تھی! عبد اللہ بن المبارك نے کہا: پھر وہ میرے پاس اپنی کتاب کے ساتھ آئے، اور مجھے کہا کہ دیکھیں، (محمد بن جابر الیمامی کی کتاب کو) تو میں نے دیکھا، کہ وہ صحیح تھی، تو میں نے (محمد بن جابر الیمامی سے) کہا: حدیثیں بیان نہیں کیا کرو، سوائے اپنی کتاب سے!
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 512 جلد 05 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - وزارة الأوقاف السعودية، ودار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 528 جلد 03 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مؤسسة الرسالة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 89 جلد 09 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند
یہاں اس عبارت میں یہ واضح بیان موجود ہے کہ ابن المبارك نے خود یہ دیکھا کہ مکہ میں روایت کرتے ہوئے محمد بن جابر الیمامی احادیث درست یاد نہیں تھی، اور وہ اسے خلط کرتے ہوئے غلط روایت کر رہے تھے۔ جس پر ابن المبارك نے کہا:
کہ آپ نے تو مجھے اس طرح سنائی تھی! (اور ابھی اسے اس کے علاوہ سنا رہے ہو!
تو محمد بن جابر الیامی نے ابن المبارك کو اپنی کتاب دکھلائی!
جسے دیکھ کر ابن المبارك نے کہا، کہ صحیح تھی (جیسا کہ محمد بن جابر الیمامی نے ابن المبارك کو روایت کی تھی)۔
پھر ابن المبارك نے محمد بن جابر الیمامی کو کہا کہ حدیثیں بیان نہ کیا کرو، سوائے اپنی کتاب سے!
اس سے ثابت ہوا کہ ابن المبارك نے محمد بن جابر الیمامی کو ان کے منہ پر یہ کہا کہ ان کا حافظہ اس قابل نہیں کہ وہ کتاب کے علاوہ احادیث روایت کریں!
اور یہ بات ابن المبارك نے مکہ میں کہی ہے!
یہاں سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ مکہ سے میں بھی محمد بن جابر الیمامی احادیث روایت کرنے میں اختلاط کا شکار تھے!

ویسے کمال ہی ہے کہ یہاں سے جرح ثابت ہوتی ہے، اور '' لا تحدث إلا من كتابك'' ! کو ابن المبارك کی طرف سے توثیق میں پیش کیا جائے!
اس سے بھی بڑا کمال تو یہ ہے، کہ اس لیاقت کے باوجود، بندے کو گمان ہے کہ اس کے منہج کی بھی کوئی وقعت ہے!

ممکن ہے کہ کوئی یہ گمان کر بیٹھے کہ ''پھر بھی کتاب کو تو صحیح کہا ہے''
تو یہ بھی غلط فہمی ہے، کہ ابن المبارك نے محمد بن جابر الیمامی کی کتاب کو صحیح کہا!

أبو عبد الله علاء الدين مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي (المتوفى: 762هـ) فرماتے ہیں:
وفي تاريخ ابن المبارك قال عبد الله بن محمد بن جابر: هذا وهو الحديث الثاني من أبيه لا يحفظ جزئية، فقلت له: أيّها الشيخ إنك حدثتني بكذا وكذا، قال: فوثب أولئك على المسار للحديث فكفّهم محمّد عني قال: ثم جاءني محمد إلى رحلي ومعه كتابه فقال: انظر، فنظرت فإذا هو صحيح على ما حدثني فقلت: رحمه الله لا أحدِّث إلا من كتابه،
تاریخ ابن المبارك میں ابن المبارك نے کہا: یہ وہ دوسری حدیث ہے (محمد بن جابر الیمامی کی) اپنے والد سے جس کے جزئیات اسے درست یاد نہیں، میں نے (ابن المبارك) ان سے کہا: اے شیخ آپ نے تو مجھے اس طرح اور اس طرح بیان کیا تھا، درمیان میں موجود لوگ حدیث کے لئے (میری طرف) جھپکے، اور محمد بن جابر الیمامی نے انہیں روکا! پھر محمد بن جابر الیمامی میرے پاس اپنی کتاب لے کر آئے، اور کہا دیکھو! میں نے اسے دیکھا، تو وہ صحیح تھی، اس لحاظ سے جیسے انہوں نے مجھے بیان کیا تھا!
تو میں نے (ابن المبارك) نے (محمد بن جابر الیمامی سے کہا): اللہ آپ پر رحم کرے! آپ حدیثیں بیان نہیں کیا کیجیئے، سوائے اپنی کتاب سے!
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 434 جلد 01 شرح سنن ابن ماجه - الإعلام بسنته عليه السلام - مغلطاي بن قليج بن عبد الله البكجري المصري الحكري الحنفي، أبو عبد الله، علاء الدين (المتوفى: 762هـ) - مكتبة نزار مصطفى الباز – مكة المكرمة ۔ الرياض
معلوم ہوا کہ ابن المبارك کا یہ قول اسی اعتبار سے ہے کہ ان کی کتاب میں روایات کا صحیح ہونا اس اعتبار سے صحیح ہے، جیسا کہ محمد بن جابر الیمامی نے ابن المبارك کو روایت کی تھی!
یہاں ابن المبارك کا کتاب کو صھیح کہنا یہ معنی نہیں، ابن المبارك محمد بن جابر کی کتب کی روایات کی تصحیح کر رہے ہوں!
بلکہ اسکا معنی یہ ہے کہ اس لحاظ سے درست ہیں، کہ اس طرح محمد بن جابر الیمامی نے ابن المبارك کو روایت کیا تھا!
اس پر ابن المبارك کے الفاظ ''
فإذا هو صحيح على ما حدثني '' دال ہیں!

(جاری ہے)
 
Last edited:
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
جس طبقہ کی ہر بات خلاف سنت ہو اور مقصد ہی یہ ہو کہ لوگوں کو دھوکہ فریب اور دجل سے سنت راہ سے ہٹایا جائے ان کو سمجھانا ممکن نہیں ہاں البتہ ان کی دجل سے دوسروں کو بچانے کی کوشش میں لگے رہنا چاہیئے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
جس طبقہ کی ہر بات خلاف سنت ہو اور مقصد ہی یہ ہو کہ لوگوں کو دھوکہ فریب اور دجل سے سنت راہ سے ہٹایا جائے ان کو سمجھانا ممکن نہیں ہاں البتہ ان کی دجل سے دوسروں کو بچانے کی کوشش میں لگے رہنا چاہیئے۔
مجھے یقین تھا وقفہ ناقابل برداشت ھوگا ۔ اس بار بھی "جاری ھے" نظر انداز کیا گیا ، اگرچہ آئی ڈی مختلف ھے ۔
@عدیل سلفی
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
سنن أبي داود : بَابُ مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ
748 - حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ يَعْنِي ابْنَ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً "
قَالَ أَبُو دَاوُدَ: هَذَا حَدِيثٌ مُخْتَصَرٌ مِنْ حَدِيثٍ طَوِيلٍ وَلَيْسَ هُوَ بِصَحِيحٍ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ
[حكم الألباني] : صحيح

  1. وہ طویل حدیث کسی کے علم میں ہو تو لکھ دے؟
  2. کس لفظ کے ساتھ یہ صحیح نہیں اور صحیح کس لفظ کے ساتھ ہے اس کی نشاندہی لازم۔
کہیں یہ الفاظ تو نہیں جس کے ساتھ اس روایت کو صحیح کہا۔

سنن أبي داود : بَابُ مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ
751 - حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، وَخَالِدُ بْنُ عَمْرٍو، وَأَبُو حُذَيْفَةَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا قَالَ: «فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ» ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: «مَرَّةً وَاحِدَةً»
[حكم الألباني] : صحيح

سنن الترمذي : بَابُ رَفْعِ اليَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ
257 - حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: «أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ» . وَفِي البَابِ عَنْ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ. [ص:41] حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، [ص:42] وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ، [ص:43] وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الكُوفَةِ
[حكم الألباني] : صحيح

سنن النسائي : تَرْكُ ذَلِكَ (يعني رفع اليدين في الصلاة)
1026 - أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ»
[حكم الألباني] صحيح
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
لمبی چوڑی تحریر کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بات کو الجھا دیا جائے کہ قاری راہِ حق کا تعین ہی نا کرپائے۔
اسے ہی دھوکہ فریب اور دجل کہتے ہیں جس میں تم لوگ ماہر ہو۔
 
Top