• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترک رفع الیدین کی موضوع حدیث

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
محدث فورم اردو زبان کا منفرد اور معروف فورم ھے ، اسکی تحریریں ہی گواہی دیتی ہیں کہ اہل اردو کے یہاں اس فورم کی کیا اہمیت ہے۔ اس کے اراکین میں اس کا کیا مقام ھے اس سے قطع نظر جب بھی کوئی لاگ ان کرے تو "مہمان" کی تعداد دیکھنا نہیں بھولے ۔ یہ دعوی نہیں بلکہ محض تعارفی چند فقرے ہیں ، ویسے بھی نئے آنیوالوں کو ھلکا پھلکا تعارف کروا دینا انہیں خوش آمدید کہنے جیسا ھے ۔ کچھ مفید دے جائیں اور کچھ مفید لے جائیں ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ!
۷.امام ابن حجر عسقلانی تقریب میں لکھتے ہیں کہ محمد بن جابر فی نفسہ صدوق درجے کا ہے اور اسکی کتایبں (بعد) میں ضائع ہو گئی تھیں اور حافظہ بھی کمزور ہو گیا تھا

آپ کی اس اردو عبارت کا مستفاد یہ ہے کہ محمد بن جابر الیمامی پہلے ''صدوق'' تھا، اور بعد میں ''صدوق'' نہ رہا!
اسی لئے آپ نے ''صدوق'' کو ''صدوق درجہ'' بیان کیا ہے!
جبکہ حافظ ابن حجر العسقلانی نے یہاں محمد بن جابر الیمامی کی ثقاہت کا ''صدوق درجہ'' بیان نہیں کیا! بلکہ محمد بن جابر الیمامی کو فی نفسہ صدوق کہا ہے!
جیسا کہ ہم ابن ابي حاتم اور عمرو بن علي الفلاس سے بیان کر آئے ہیں!
اور محمد بن جابر الیمامی پہلے صدوق اور بعد میں کذاب نہیں ہو گیا تھا! بلکہ وہ کثیر الاختلاط اور تلقین قبول کرتے وقت بھی صدوق ہی تھا!
در اصل اہل الرائے کو محدثین کا کلام سمجھنے سے اکثر قاصر ہوتے ہیں!
دیکھیں، دور حاضر کے ایک حنفی محقق شعیب الأرنؤط کیا فرماتے ہیں:

أما الحافظُ ابنُ حجر، فقد حاول في مقدمة "التقريب" أن يجعلَهم اثني عشر صنفًا بما فيهم الصحابة، فإذا استثنيناهم، بقي عندنا أحدَ عشر صِنفًا، ولم يُبين غايتَه الواضحةَ من هذا التصنيف، وماذا تعد مرتبة حديثِ كل واحدٍ منهم، فضلًا عن اضطرابه اضطرابًا شديدًا في هذه الألفاظ وعدم التزامه الدِّقة، تارةً يُطلق لفظة "صدوق" على من هو ثقة، وتارة يطلقها على من هو حسنُ الحديث، وتارة يطلقها على مَنْ هو دُونَ ذلك. أما قولُه "صدوق يهم"، أو "صدوق يُخطئ" ونحوها، فهي عبارات غالبًا ما يطْلِقُها على المختلَفِ فيهم من غير دراسة وتدبرٍ لأقوال أئمة الجرح والتعديل، أو دراسةٍ لحديث الراوي.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 43 ۔ 44 جلد 01 تحرير تقريب التهذيب للحافظ أحمد بن علي بن حجر العسقلاني ۔ الدكتور بشار عواد معروف، الشيخ شعيب الأرنؤوط – مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت
اس بات سے قطع نظر کہ اضطراب کا شکار ابن حجر العسقلانی ہیں، یا شعیب الأرنؤوط خود امام ابن حجر العسقلانی کے کلام کو سمجھنے سے قاصر ہیں!
بہر حال اس عبارت سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے، ابن حجر العسقلانی ''صدوق'' کے لفظ کا اطلاق کبھی ثقہ کے لئے بھی کرتے ہیں، کبھی حسن الحدیث کے لئے بھی کرتے ہیں، اور کبھی ان کے دونوں کے علاوہ یعنی ضعیف کے لئے بھی کرتے ہیں!
اور یہ درست ہے! ابن حجر العسقلانی کب یہ کس ئے استعمال کرتے ہیں، یہ ابن حجر العسقلانی کے نقل کردہ اور کئے گئے دیگر کلام کو دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے!
اور محمد بن جابر الیمامی کے لئے ''صدوق'' کے لفظ کا اطلاق محمد بن جابر الیمامی کے درجہ ثقاہت بیان کرنے کے لئے نہیں!

شعيب الأرنؤوط کی بحث آگے تفصیلاً آئے گی، ان شاء اللہ!
امام ابن حجر العسقلانی کی
تقريب التهذيب کی عبارت درج ذیل ہے:
محمد ابن جابر ابن سيار ابن طارق الحنفي اليمامي أبو عبد الله أصله من الكوفة صدوق ذهبت كتبه فساء حفظه وخلط كثيرا وعمي فصار يلقن ورجحه أبو حاتم على ابن لهيعة من السابعة مات بعد السبعين د [ت] ق
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 471 تقريب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الرشيد، سوريا
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 831 تقريب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار العاصمة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 527 تقريب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - بيت الأفكار الدولية
أبو عبد الله، محمد ابن جابر ابن سيار ابن طارق الحنفي اليمامي اصلاً کوفہ سے ہے، صدوق ہے، اس کی کتابیں ضائع (گم) ہو گئیں تھیں، تو اس کا حافظہ ختم ہو گیا، اور بہت زیادہ اختلاط کرنے لگا! نابینا تھا، اور پھر تلقین بھی قبول کرنے لگا، أبو حاتم الرازي اسے ابن لهيعة پر فوقیت دیتے ہیں۔
اسی تقریب التهذیب میں ابن حجر العسقلانی أبو اسماعیل ابراہیم ابن عبد الرحمن السکسکی کو صدوق ضعیف الحفظ فرماتے ہیں!
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 61 تقريب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - بيت الأفكار الدولية
تو کیا کہیئے گا کہ یہاں ابن حجر العسقلانی نے صدوق کہہ کر أبو اسماعیل کی توثیق کی ہے؟
اور پھر یہ ضعیف الحفظ کے بارے میں کیا کہیئے گا؟ کہ ضعیف الحفظ ہونے سے راوی مجروح اور ضعیف قرار نہیں پاتا!
نہیں! قطعی نہیں! بلکہ ضعیف الحفظ سے راوی بالکل ضعیف قرار پاتا ہے، اور یہاں صدوق سے توثیق لازم آتی ہے،اور نہ ثات ہوتی ہے!
یہاں صدوق کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ راوی جھوٹا نہیں! یعنی داستہ غلط روایت نہیں کرتا، بلکہ اس کے حفظ کی کمزوری سے اس کا مرتکب ہوتا ہے! اس کی تفصیل اوپر گزری!


اس کی دو مثالیں اور دیکھ لیں!
إبراهيم ابن المختار التميمي أبو إسماعيل الرازي [يقال له حبويه] صدوق ضعيف الحفظ من الثامنة يقال مات سنة اثنتين وثمانين بخ ت ق
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 93 تقريب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الرشيد، سوريا
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 115 تقريب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار العاصمة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 64 تقريب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - بيت الأفكار الدولية

عبد الملك ابن حبيب الأندلسي أبو مروان الفقيه المشهور
صدوق ضعيف الحفظ كثير الغلط من كبار العاشرة مات سنة تسع وثلاثين تمييز

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 362 تقريب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الرشيد، سوريا
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 622 تقريب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار العاصمة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 393 تقريب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - بيت الأفكار الدولية

اب دیکھیں؛ ابن حجر العسقلانی کے قلم سے، کہ وہ خود ایک راوی کو ''صدوق'' کہنے کے باوجود اس کی توثیق ثابت نہیں کرتے! بلکہ اس کے ضعیف الحفظ ہونے کے باعث اس روایت کی سند حسن نہیں مانتے، بلکہ ضعیف ہی سمجھتے ہیں!
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا; أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: «الْمُسْلِمُ يَكْفِيهِ اسْمُهُ، فَإِنْ نَسِيَ أَنْ يُسَمِّيَ حِينَ يَذْبَحُ، فَلْيُسَمِّ، ثُمَّ لْيَأْكُلْ» أَخْرَجَهُ الدَّارَقُطْنِيُّ، وَفِي إِسْنَادِهِ مُحَمَّدُ بنُ يَزِيدَ بنِ سِنَانٍ، وَهُوَ صَدُوقٌ ضَعِيفُ الْحِفْظ.
وَأَخْرَجَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، مَوْقُوفًا عَلَيْهِ.
وَلَهُ شَاهِدٌ عِنْدَ أَبِي دَاوُدَ فِي «مَرَاسِيلِهِ» بِلَفْظِ: «ذَبِيحَةُ الْمُسْلِمِ حَلَالٌ، ذَكَرَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا أَوْ لَمْ يَذْكُرْ» وَرِجَالُهُ مُوَثَّقُونَ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 499 بلوغ المرام من أدلة الأحكام - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار القبس للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 456 ۔ 457 بلوغ المرام من أدلة الأحكام - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار ابن حزم، بيروت - دار أطلس الخضراء، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 344 بلوغ المرام من أدلة الأحكام - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الصديق، الجبيل
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 483 ۔ 484 بلوغ المرام من أدلة الأحكام - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مكتبة الرشد، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 390 ۔ 391 بلوغ المرام من أدلة الأحكام - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مؤسسة الرسالة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 412 بلوغ المرام من أدلة الأحكام - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الفلق، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 545 ۔ 555 بلوغ المرام من أدلة الأحكام - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار إحياء العلوم، بيروت
معلوم ہوا کہ ابن حجر العسقلانی نے يَزِيدَ بنِ سِنَانٍ، کو صَدُوقٌ ضَعِيفُ الْحِفْظ قرار دے، اس روایت کی سند کو ضعیف ہی قرار دیا، اور موقوف راویت کی سند کو صحیح قرار دیا!
جبکہ ضعیف سند سے مروی مرفوع روایت کے لئے ایک مرسل روایت کو شاہد بتلایا ہے!
معلوم ہوا کہ ابن حجر کا یہاں صدوق کہنا، راوی کی توثیق نہیں، بلکہ یہ بتلانا مقصود ہے کہ راوی فی نفسہ جھوٹا نہیں!

اب دیکھیں! ابن حجر العسقلانی نے محمد بن جابر الیمامی کو صریح الفاظ میں ضعیف قرار دیا ہے؛

جرج-
ذكره أبو نعيم فيما حكاه ابن بشكوال وأبو إسحاق بن الأمين، وذكر له حديث أسد بن وداعة أن رجلا يقال له جرج أتى رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه وسلم فقال: يا رسول اللَّه إن أهلي يعصونني.. الحديث.
وسيأتي في جزء- بفتح الجيم وسكون الزاي بعدها همزة- على الصّواب.
سدوس يقال له جرو، قال: أتينا النبي صلّى اللَّه عليه وسلم بتمر من تمر اليمامة، فقال: «أيّ تمر هذا؟ ... »
الحديث قال: هذا حديث غريب حسن المخرج.

قلت: محمد بن جابر هو اليمامي ضعيف. وقد أخرج أبو نعيم هذا الحديث عن ابن مندة، وكأنه لم يجده من غير طريقه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 579 جلد 01 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 216 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المكتبة العصرية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 184 ۔ 185 جلد 02 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مركز هجر للبحوث والدراسات العربية والإسلامية، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 240 ۔ 241 جلد 01 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المطبعة الشرفية، مصر ۔ دار الكتب العلمية، بيروت

أبو عريض
: قال أبو عمر: ذكره أبو حاتم الرازيّ عن محمد بن دينار الخراساني، عن عبد اللَّه بن المطلب، عن محمد بن جابر الحنفي، عن أبي مالك الأشجعي، عن أبي عريض، وكان دليل رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وسلّم من أهل خيبر، قال أعطاني رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وسلّم ...
فذكر حديثا منكرا. انتهى.
وهذا الحديث
ساقه الحاكم أبو أحمد في «الكنى» ، عن محمد بن المسيب، عن أبي حاتم. وتعقبه، قال: قلت: يا رسول اللَّه، أخاف ألا أعطى ما تقول، قال: «بلى سوف تعطاها» .
قلت: ومن يعطينيها يا رسول اللَّه؟ قال: «أبو بكر» . فلقيت عليا فأخبرته، فقال:
ارجع إليه، فقل له: من يعطينيها بعد أبي بكر؟ قال: «عمر» . قال: فبعد عمر؟ قال:
«عثمان» .
فلما رأى ذلك سكت.

ووجه ضعفه أن محمد بن جابر الحنفي والراويّ عنه ضعيفان، لكن رواه يعقوب بن عبد الرحمن الحنفي، عن محمد بن جابر.
أخرجه أبو موسى، من طريق عبد اللَّه بن موسى بن إسحاق الهاشمي، عن علي بن الأزهر بن سراج، عن أحمد بن عبد المؤمن النصري، عن يعقوب، ولفظه: كان لي على رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وسلّم آجال، فأتيته أتقاضاها فأعطاني وبقيت لي بقية، فقلت: يا رسول اللَّه، أرأيت إن لم أجدك. قال: «فأت أبا بكر» . فلقيني عليّ فقال: ارجع فسله إن لم أجد أبا بكر. قال: «فأت عمر» ، فلقيني عليّ. فقال: قل له فإن لم أجد عمر. قال: «فأت عثمان» .

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 227 جلد 07 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 1728 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المكتبة العصرية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 443 ۔ 444 جلد 12 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مركز هجر للبحوث والدراسات العربية والإسلامية، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 129 ۔ 130 جلد 07 الإصابة في تمييز الصحابة - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - المطبعة الشرفية، مصر ۔ دار الكتب العلمية، بيروت

یہاں ابن حجر العسقلانی نے اس روایت کے ضعف کی وجہ محمد بن جابر الیمامی کو ہی بتلایا، اور بتلایا کہ گو کہ اس سے روایت کرنے والے بھی ضعیف ہیں، لیکن يعقوب بن عبد الرحمن الحنفي نے بھی محمد بن جابر الیمامی سے یہ روایت کی ہے، جس کی سند محمد بن جابر الیمامی تک درست ہے، لہٰذا اس روایت کے ضعف کی وجہ محمد بن جابر الیمامی کو قرار دیا!
قَالَ مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ عن مرداس قال أَنَّ رَجُلًا رَمَى رَجُلًا بِحَجَرٍ فَقَتَلَهُ فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقَادَهُ مِنْهُ
مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ ضَعِيفٌ
وَرَوَاهُ حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ أَخْبَرَنَا أَشْيَاخُنَا الَّذِينَ أَدْرَكُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَهُ
وَحَجَّاجٌ فِيهِ مَقَالٌ
وَقَدْ تَابَعَهُ الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ عَنْ زِيَادٍ عن مرداس بن عُرْوَةَ قَالَ رَمَى رَجُلٌ مِنَ الْحَيِّ أَخًا لَهُ فَقَتَلَهُ وَفَرَّ فَوَجَدْنَاهُ عِنْدَ أبى بكرة رَضِيَ الله عَنْه فَانْطَلَقْنَا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقَادَ مِنْهُ أَخْرَجَهُ ابْنُ السَّكَنِ فِي الصَّحَابَةِ وَذَكَرَهُ الْبُخَارِيُّ فِي التَّارِيخِ قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حدثنا الْوَلِيدُ بِهِ
وَإِسْنَادُهُ جَيِّدٌ

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 121 ۔ 122 جلد 01 المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار العاصمة للنشر والتوزيع، الرياض ۔ دار الغيث للنشر والتوزيع، الرياض
یہاں بھی ابن حجر العسقلانی نے محمد بن جابر الیمامی کو صریح الفاظ میں ضعیف قرار دیا ہے!
اب بھی کوئی اس وہم کا شکار ہے، کہ ابن حجر العسقلانی نے محمد بن جابر کو یمامہ اور مکہ میں روایت کرنے میں ضعیف نہیں کہا، اور إسحاق بن ابي اسرائیل کا سمع یمامہ میں ہے، اس وقت تک ابن حجر العسقلانی کا اسے ''صدوق'' کہنا توثیق کا ''صدوق درجہ'' ہے!
تو اس وہم کو زائل کرنے کے لئے ابن حجر العسقلانی کی خاص إسحاق بن اسرائیل کی روایت میں محمد بن جابر کو ضعیف قرار دینا پیش خدمت ہے:
اس سے قبل ایک نفیس نکتہ ملاحظہ فرمائیں؛
ابن حجر العسقلانی نے
تهذيب التهذيب میں ابن المبارك سے مکہ میں، محمد بن جابر الیامی کی کتب کی موجودگی میں، ابن المبارك کی محمد بن جابر الیمامی کے حفظ پر جرح نقل کی ہے!
وقال بن المبارك في تاريخه مررت به وهو بمنى يحدث الناس فرأيته لا يحفظ حديثه فقلت له أيها الشيخ إنك حدثتني بكذا وكذا قال فجاءني إلى رحلي ومعه كتابه فقال لي انظر فنظرت فإذا هو صحيح فقلت لا تحدث إلا من كتابك
ابن المبارك نے اپنی تاریخ میں کئی بار اس معنی میں کہا کہ (محمد بن جابر الیمامی) لوگوں کو حدیثیں سنا تا تھا، تو انہوں نے (عبد اللہ بن المبارك نے) دیکھا کہ اس کو اپنی حدیثیں یاد نہیں، تو (عبد اللہ بن المبارك) نے اس سے (محمد بن جابر الیمامی سے) کہا اے شیخ آپ نے تو مجھے اس طرح اور اس طرح سنائی تھی! عبد اللہ بن المبارك نے کہا: پھر وہ میرے پاس اپنی کتاب کے ساتھ آئے، اور مجھے کہا کہ دیکھیں، (محمد بن جابر الیمامی کی کتاب کو) تو میں نے دیکھا، کہ وہ صحیح تھی، تو میں نے (محمد بن جابر الیمامی سے) کہا: حدیثیں بیان نہیں کیا کرو، سوائے اپنی کتاب سے!
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 512 جلد 05 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - وزارة الأوقاف السعودية، ودار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 528 جلد 03 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مؤسسة الرسالة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 89 جلد 09 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند
یہاں اس عبارت میں یہ واضح بیان موجود ہے کہ ابن المبارك نے خود یہ دیکھا کہ مکہ میں روایت کرتے ہوئے محمد بن جابر الیمامی احادیث درست یاد نہیں تھی، اور وہ اسے خلط کرتے ہوئے غلط روایت کر رہے تھے۔ جس پر ابن المبارك نے کہا:
کہ آپ نے تو مجھے اس طرح سنائی تھی! (اور ابھی اسے اس کے علاوہ سنا رہے ہو!
تو محمد بن جابر الیامی نے ابن المبارك کو اپنی کتاب دکھلائی!
جسے دیکھ کر ابن المبارك نے کہا، کہ صحیح تھی (جیسا کہ محمد بن جابر الیمامی نے ابن المبارك کو روایت کی تھی)۔
پھر ابن المبارك نے محمد بن جابر الیمامی کو کہا کہ حدیثیں بیان نہ کیا کرو، سوائے اپنی کتاب سے!
اس سے ثابت ہوا کہ ابن المبارك نے محمد بن جابر الیمامی کو ان کے منہ پر یہ کہا کہ ان کا حافظہ اس قابل نہیں کہ وہ کتاب کے علاوہ احادیث روایت کریں!
اور یہ بات ابن المبارك نے مکہ میں کہی ہے!
یہاں سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ مکہ سے میں بھی محمد بن جابر الیمامی احادیث روایت کرنے میں اختلاط کا شکار تھے!

اب دیکھیں: ابن حجر العسقلانی کی إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي إِسْرَائِيلَ کی روایت میں محمد بن جابر الیمامی کی تضعیف:
الحَدِيث السَّابِع وَالْعشْرُونَ من حرف الطَّاء عَن طلق بْن عَليّ
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَمَوِيّ ثمَّ الْمصْرِيّ بهَا قَالَ أَنا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الْعَطَّارُ أَنا الْحَافِظُ أَبُو أَحْمَدَ عَبْدُ الْمُؤْمِنِ بْنُ خَلَفٍ الدِّمْيَاطِيُّ أَنا الْحَافِظُ أَبُو الْحَجَّاجِ يُوسُفُ بْنُ خَلِيل أَنا نَاصِر بن مُحَمَّد الويري أَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ الأَخْشِيدِ أَنَا أَبُو طَاهِرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحِيمِ أَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ عمر الدَّارَقُطْنِيّ نَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ يُونُسَ بْنِ يَاسِينَ نَا
إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي إِسْرَائِيلَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ عَنْ أَبِيهِ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ يُؤَسِّسُونَ مَسْجِدَ الْمَدِينَةِ وَهُمْ يَنْقُلُونَ الْحِجَارَةَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلا نَنْقُلُ كَمَا يَنْقُلُونَ فَقَالَ (لَا يَا أَخَا الْيَمَامَة اخلطوا لَهُمُ الطِّينَ فَأَنْتُمْ أَعْلَمُ بِهِ) قَالَ فَجَعَلْتُ أَخْلِطُ لَهُمُ الطِّينِ وهم ينقلونه // حسن // هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ فِي سُنَنِهِ هَكَذَا ومُحَمَّدُ بْنُ جَابر لَكِن لَمْ يَنْفَرِدْ بِهِ فَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي صَحِيحِهِ مِنْ طَرِيقِ مُلازِمِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَدْرٍ عَنْ قيس بن طلق مثله

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 44 الإمتاع بالأربعين المتباينة السماع - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت
اس حدیث کو ابن حجر العسقلانی نے حسن قرار دیا! لیکن محمد بن جابر الیمامی کو پھر بھی ضعیف قرار دیا ہے!
ابن حجر العسقلانی نے محمد بن جابر کی سند سے مروی حدیث روایت کی، اور فرمایا کہ
الدَّارَقُطْنِي نے اپنی سنن میں اس طرح روایت کی ہے۔
پھر محمد بن جابر الیمامی کے متعلق فرماتے ہیں، کہ:
فِيهِ مقَال معلوم ہونا چاہیئے کہ جرح اور تضعیف ہے:
وللجرح مراتب:
أسوأُها الوَصْفُ بما دلَّ على المُبالَغَةِ فيهِ، وأصرح ذلك التعبير بأَفْعَلَ، كأكذب النَّاسِ، وكذا قولُهم: إِليهِ المُنْتَهى في الوضعِ، أو رُكْن الكذبِ، ونحوُ ذلك.
ثمَّ: دجَّالٌ، أو وَضّاع، أو كَذَّابٌ؛ لأنَّها وإِنْ كانَ فيها نوعُ مبالغةٍ، لكنها دون التي قبلها.
وأَسْهَلُها، أَي: الألفاظِ الدَّالَّةِ على الجَرْح = قولُهم: فلانٌ لَيِّنٌ، أو سَيِّءُ الحفظ، أو: فيه أدنى مقالٍ.
وبَيْنَ أسوأِ الجرح وأسهلِهِ مراتبُ لا تخفى.
قولهم: متروكٌ، أو ساقطٌ، أَو فاحشُ الغلطِ، أَو منكرُ الحديثِ، أشدُّ مِن قولهم: ضعيفٌ، أَو ليسَ بالقويِّ، أَو
فيهِ مقالٌ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 163 ۔ 164 نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ۔ أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) ۔ دار المأثور للنشر والتوزيع، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 168 ۔ 170 نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ۔ أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) ۔ مكتبة الملك فهد الوطنية، المدينة المنورة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 173 ۔ 176 نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ۔ أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) ۔ مكتبة الملك فهد الوطنية، المدينة المنورة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 133 نزهة النظر في توضيح نخبة الفكر في مصطلح أهل الأثر ۔ أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) ۔ مكتبة البشری، كراتشي

ابن حجر العسقلانی تهذيب التهذيب میں محمد بن جابر الیمامی کے ترجمہ کا اختتام اس طرح کرتے ہیں:
وأورد الخطيب في ترجمة القاسم العباسي من طريق إسحاق بن أبي إسرائيل عن محمد بن جابر عن الأعمش عن أبي الوداك عن أبي سعيد حديث منا السفاح والمنصور والقائم والمهدي الحديث وفيه وأما القائم فتأتيه الخلافة لا يهراق فيها محجمة دم الحديث وهو منكر جدا
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 513 جلد 05 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - وزارة الأوقاف السعودية، ودار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 528 جلد 03 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مؤسسة الرسالة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 90 جلد 09 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند

کہ خطیب بغدادی کی تاریخ بغداد سے إسحاق بن أبي إسرائيل کی محمد بن جابر الیمامی سے روایت کردہ ایک روایت نقل کرتے ہیں، اور اسے منكر جدا قرار دیتے ہیں!

پس ثابت ہوا کہ ابن حجر العسقلانی نے محمد بن جابر الیمامی کی توثیق نہیں کی، مجروح و ضعیف ہی قرار دیاہے! محمد بن جابر الیمامی کی کتب گم ہونے سے پہلے بھی اور بعد بھی!


(جاری ہے)
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ہاہاہاہا لگتا ہے 2021 میں یہ رام کہانی ختم ہوگی اور پھر ہم کو خدمت کا موقع ملے گا :)
کسی "اسلامی محقق" ، کسی "خادم الحدیث" کا یہ فقرہ قابل اعتراض ھونے کے ساتھ قابل گرفت تو ھے ہی ، قابل سزا بھی ھے ۔ یہ علمی فقدان ھے کہ جہاں اپنی ہی کہی بات میں اگر مثال دینی پڑ جائے تو عالم اسلام سے کوئی مثال پیش نہ کر سکے ؟

جس کے قول اور عمل میں فرق ھو اسے بریلی "شریف" والے کیا کہتے ھونگے ؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
۱۳.امام ابو الولید کہتے ہیں ہم نے محمد بن جابر کی حدیث نہ لے کر ان پر ظلم کرتے ہیں ٌ(یعنی قبل اختلاط محمد بن جابر ثقہ و صدوق تھے )
ویسے یہ کمال کا ''یعنی'' کشید کیا ہے!
کہ کسی راوی کا حال یہ بتلانا کہ اس کی روایت ، روایت کی جانی چاہیئے، اور اس سے روایت کرنے کا منع کرنا اس پر ظلم ہے، اس یہ اخذ کرنا کہ وہ راوی ''ثقہ و صدوق'' ہے!
اس طرح تو ہر راوی جس کے متعلق کہا جائے، کہ
''يكتب حديثه'' وہ ''ثقہ و صدوق'' قرار پاتا ہے!
کہ ''ثقہ وصدوق'' کے علاوہ ضعیف راوة بھی ہوتے ہیں، کہ جو ضعیف تو ہوتے ہیں، لیکن ان کی روایات شواہد و متابع کے تحت مقبول و حسن قرار پاتی ہیں، یا ان کی روایات دیگر کی روایات کے لئے شواہد و متابع کا کام دیتی ہیں!
لہذا کسی راوی کا یہ حال بتلانے سے کہ اس سے روایات کی جانی چاہیئے، اس کی ''توثیق'' لازم نہیں آتی! اور نہ وہ ''ثقہ وصدوق'' قرار پاتا ہے!
عبارت ملاحظہ فرمائیں:

نا عبد الرحمن نا محمد بن يحيى قال سمعت أبا الوليد الطيالسي وذكر محمد بن جابر فقال نحن نظلم ابن جابر بامتناعنا التحديث عنه (1) .
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 220 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 220 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية
أبو الولید الطیالسی کہا کہ محمد بن جابر الیمامی سے روایت کرنے سے منع کرنے میں ہم نے اس پر ظلم کیا!
کہ ان کے نزدیک محمد بن جابر المیامی اتنا گیاگزرا راوی بھی نہیں کہ اس سے کچھ روایت ہی نہ کیا جائے! یعنی کہ
''نحن'' کے صیغہ سے محدثین کے متعلق ہے کہ محدثین محمد بن جابر الیمامی سے روایت کرنے کو پسند نہیں کرتے، اور اس سے منع کرتے ہیں!
لطف کی بات تو یہ ہے کہ جس امر کو یہاں ظلم کہا گیا ہے، یعنی محمد بن جابر الیمامی سے روایت کرنے سے منع کرنا، اس امر میں صاحب قول نے خود کو بھی شامل رکھا ہے! اور پھر صاحب قول اس پر اپنی غلطی کا اظہار کرتا ہے!
اور اگر کہا جائے کہ صاحب قول اس امر سے پہلے بھی متفق نہیں، لیکن چونکہ صاحب قول کا تعلق محدثین سے ہے، لہذا اس نے ''نحن'' کے صیغہ سے محدثین کا امر بیان کیا ہے، تب بھی صاحب قول یعنی أبو الولید کی گواہی ثابت ہوتی ہے، کہ اکثر محدثین محد بن جابر الیمامی سے روایت کرنے سے منع کرتے تھے!
اگر کہا جائے کہ یہ خاص طبقہ محدثین سے متعلق ہے، جو محمد بن جابر الیمامی سے روایت کرنے سے منع کرتا ہے، تو پھر أبو الولید نے خود کو اسی طبقہ محدثین میں شمار کیا ہے!
لہذا أبو الولید کے اس قول سے محمد بن جابر الیمامی کی توثیق تو ثابت نہیں ہوتی، البتہ أبو الولید کی یہ گواہی ثابت ہوتی ہے کہ اکثر محدثین، یا کم از کم ایک خاص طبقہ محدثین جس میں أبو الولید خود شامل ہیں، محمد بن جابر الیمامی سے روایت کرنے سے بھی منع کرتا ہے، گو کہ أبو الولید کا اس امر سے رجوع ثابت ہوتا ہے!
مزید دیکھیں کہ یہی أبو الولید خود محمد بن جابر الیمامی کے متعلق کیا گواہی دیتے ہیں:

قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ: أَفَادَنِي ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرٍ أَرْبَعَةَ أَحَادِيثَ فَأَتَيْتُهُ فَسَأَلْتُهُ فَحَدَّثَنِي بِهَا عَنْ غَيْرِ الَّذِي أَفَادَنِي عَنْهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ فَرَجَعْتُ إِلَى ابْنِ الْمُبَارَكِ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: لَيْسَ بِشَيْءٍ غَلِطَ فِيهَا. قَالَ:
فَمَحَوْتُهُ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 121 جلد 02 المعرفة والتاريخ - يعقوب بن سفيان بن جوان الفارسي الفسوي، أبو يوسف (المتوفى: 277هـ) - مكتبة الدار بالمدينة المنورة

أبو الولید نے کہا: ابن المبارك نے مجھے محمد بن جابر کے واسطے سے چار حدیثیں سنائیں، تو میں ان کے پاس (محمد بن جابر الیمامی) کے پاس گیا، اور ان سے (محمد بن جابر الیمامی سے) پوچھا، تو انہوں نے (محمد بن جابر الیمامی نے) یہ حدیثیں مجھے وہ احادیث، ابن المبارك سے انہیں کے واسطے سے (جابر بن الیمامی کے واسطے سے) سنائی گئے کے برخلاف دیگر کے واسطے سے سنائی! تو میں پلٹ کر ابن المبارك کے پاس آیا۔ اور انہیں (ابن المبارك کو) اس کے متعلق بتلایا! تو کہا (ابن المبارك نے): اس میں (جو ابن المبارك نے روایات بیان کی تھی) کوئی غلطی نہیں تھی! (یعنی محمد بن جابر سے روایت کرنے میں عبد اللہ بن المبارک نے کوئی غلطی نہیں کی)، کہا: (أبو الولید نے) تو اسے مٹا دیا۔
اب دیکھیئے، یہاں تو أبو الولید خود محمد بن جابر الولید کی روایات کو مٹا رہے ہیں! یعنی خود اسے آگے روایت نہیں کرتے بلکہ مٹا دیتے ہیں!
اس معلوم ہوتا ہے کہ أبو الولید نے خود محمد بن جابر الیمامی کے بہت زیادہ اختلاط کے باعث روایت کرنا ترک کردی، اور بعد میں یہ خیال کیا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا!
لہٰذا أبو الولید کے زیر بحث قول محمد بن جابر الیمامی کی توثیق قطعی ثابت نہیں ہوتی، بلکہ محض اتنا بیان ہوتا ہے، کہ أبو الولید محمد بن جابر الیمامی کو اس قابل سمجھتے ہیں، کہ ان کی حدیث لکھی جانی چاہیئے!

(جاری ہے)
 
Last edited:

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
ہاہاہاہا لگتا ہے 2021 میں یہ رام کہانی ختم ہوگی اور پھر ہم کو خدمت کا موقع ملے گا :)
کسی کی تحقیق کو کاپی پیسٹ کرنا اور خود سے تحقیق کرنے میں فرق رکھو، لگتا ہے فیس بک پر اپنے ہی بریلوی اور دیوبندی بھائیوں سے خاطر تواضع کے بعد دماغی خلیوں نے کام کرنا چھوڑدیا ہے
جس کے قول اور عمل میں فرق ھو اسے بریلی "شریف" والے کیا کہتے ھونگے ؟
یہ چائنہ کے محکک قلابازیاں کھانا شروع کردیں گے!
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
54
کسی کی تحقیق کو کاپی پیسٹ کرنا اور خود سے تحقیق کرنے میں فرق رکھو، لگتا ہے فیس بک پر اپنے ہی بریلوی اور دیوبندی بھائیوں سے خاطر تواضع کے بعد دماغی خلیوں نے کام کرنا چھوڑدیا ہ
ابھی میں نے جوابات دینے شروع ہی نہیں کیے کہ الزام تراشی۔۔۔۔ کسی دیوبندی کو جرت تو نہیں ہوئی آج تک یہ کہنے کی کہ میری پوسٹ کاپی شدہ ہے البتہ آپکو ضرور تکلیف پہنچی ہے

خیر ابھی اور تکلیف کے لیے تیار رہیے گا جب آپکے محقق صاحب کا ۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔ والی کہانی ختم ہوگی کیونکہ آپ لوگ اتنے مجبور ہو چکے ہیں کہ جاری ہے لکھ کر اگلے بندے کو روکنے کی تمام کوشش میں لگے ہیں
وگرنہ ایک مسلے پر باہمی گفتگو ہوتی ہے پھر اگلے مسلے پر بات چلتی ہے آپکے محقق صاحب نے سارے دلائل کے جواب میں اکٹھی ساری رام کہانی لکھ کر قسطوں میں بانٹ دی کہ انکے باطل قیاس پر پکڑ نہ ہو سکے

جبکہ یہ انکی اور آپکی تو بہت بڑی بھول ہے
انکی ایک ایک فاحش خطاء پر پکڑ ہوگی چاہے یہ جتنا بھی ۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔ کر لیں :)
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
ابھی میں نے جوابات دینے شروع ہی نہیں کیے کہ الزام تراشی۔۔۔۔ کسی دیوبندی کو جرت تو نہیں ہوئی آج تک یہ کہنے کی کہ میری پوسٹ کاپی شدہ ہے البتہ آپکو ضرور تکلیف پہنچی ہے
اپنے منہ میاں مٹھو یہ جاہلانہ بچکانہ باتیں لپیٹ کر رکھو فیس بک پر کام آئیں گی، جس کو اصلیت نہیں معلوم اس کو یہ راگ دو :)
خیر ابھی اور تکلیف کے لیے تیار رہیے گا جب آپکے محقق صاحب کا ۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔ والی کہانی ختم ہوگی کیونکہ آپ لوگ اتنے مجبور ہو چکے ہیں کہ جاری ہے لکھ کر اگلے بندے کو روکنے کی تمام کوشش میں لگے ہیں
قصور آپ کا نہیں ہے چائنہ کے محکک جی قصور فیس بک کا، اتنے عرصے بعد کسی علمی فورم پر آئے ہو تو ایسی غلطیاں اور بچکانہ باتیں ہو ہی جاتی ہیں، ہم آپ کی ان بچکانہ حالتوں پر آپ کو معذور لاغر سمجھتے ہیں
وگرنہ ایک مسلے پر باہمی گفتگو ہوتی ہے پھر اگلے مسلے پر بات چلتی ہے آپکے محقق صاحب نے سارے دلائل کے جواب میں اکٹھی ساری رام کہانی لکھ کر قسطوں میں بانٹ دی کہ انکے باطل قیاس پر پکڑ نہ ہو سکے

جبکہ یہ انکی اور آپکی تو بہت بڑی بھول ہے
انکی ایک ایک فاحش خطاء پر پکڑ ہوگی چاہے یہ جتنا بھی ۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔۔ کر لیں :)
یہی وہی مثال ہے اپنے منہ میاں مٹھو، تھوڑا صبر سے کام لو فیس بکی محکک بھائی کئی بار کہا ہے یہ فیس بک نہیں ہے، کچھ سیکھو یا نہ سیکھو لیکن علمی مباحثہ کس طرح کیا جاتا ہے یہ ضرور سیکھ کر جاو گے اس فورم سے!

اور انتظار کرو جب تک تحریر مکمل نہیں ہوجاتی پھر جوابات دینا پھر اس کے بعد بھی آپ کے جوابات پر بھی اچھی دعوت ہوگی
ابتسامہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
۱۱.امام عبدالرحمن بن مھدی مکہ کے مقام پر امام محمد بن جابر سے حماد کی روایات کے بارے سوال کرتے تھے یعنی پوچھتے تھے حماد سے مروی روایات (اور وہابیہ کو بھی تسلیم ہے کہ ابن مھدی اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت لیتے ہیں نیز ابن مھدی سے جرح یا انکو ترک کرنا انکے حافظے میں اختلاط آنے کے بعد کا ہے )
امام عبد الرحمن بن مهدي کے متعلق آپ نے یہاں جس عبارت سے استدلال کرتے ہوئے، امام عبد الرحمن بن مهدي سے محمد بن جابر اليمامي کی توثیق کشید کرنے کی سعی کی ہے، اس عبارت میں تو عبد الرحمن بن مهدي سے محمد بن جابر اليمامي کی توثیق کا کوئی تعلق ہی نہیں!
اس عبارت میں صرف اتنا ہے کہ
عبد الرحمن بن مهدي ، محمد بن جابر اليمامي سے حماد کی روایات کے متعلق سوالات کر رہے تھے۔
اس میں یہ کہاں ہے کہ وہ روایات جو
محمد بن جابر اليمامي نے بتائی،یا سنائی انہیں عبد الرحمن بن مهدي نے آگے روایت کیاہے!
ایسی تو کوئی بات ہی نہیں، کہ
عبد الرحمن بن مهدي نے محمد بن جابر اليمامي سے روایت کی!
لہٰذا اس عبارت پر اس بات کا اطلاق کرنا کہ
محمد بن جابر اليمامي، عبد الرحمن بن مهدي سے توثیق ہے، اس لئے کہ عبد الرحمن بن مهدي صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں، بالکل باطل ہے! کہ اس عبارت میں عبد الرحمن بن مهدي کا محمد بن جابر اليمامي سے روایت کرنے کا کوئی تذکرہ نہیں!
جس عبارت میں یہ تذکرہ ہے، اس عبارت کا بیان آگے آئے گا!
زیر بحث عبارت کو ہم یہاں پیش کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا ابن حماد، حَدَّثَنا عَبد اللَّه بن أحمد، حَدَّثني أبي، قَال: حَدَّثَنا عتاب بن زياد قَالَ قدم عَبد الله بن المُبَارك عَلَى مُحَمد بن جابر، وَهو يحدث بمكة فِي سنة ثمان وستين ومِئَة فقال حدث يا شيخ من كتبك قَالَ من هذا قيل ابن المُبَارك فأرسل إليه بكتبه وكان عَبد الرحمن يسأله من حديث حماد، وَعَبد الله ساكت.
اس عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
ہمیں ابن حماد نے بیان کیا، کہا ہمیں عبد اللہ بن احمد نے بیان کیا، کہا مجھے میرے والد (
امام احمد بن حنبل) نے بیان کیا، کہا ہمیں عتاب بن زیاد نے بیان کیا کہ ابن مبارك ، محمد بن جابر اليمامي کے پاس آئے، اور وہ 168 ہجری میں مکہ میں حدیثیں بیان کر رہے تھے، تو ابن مبارك نے کہا (محمد بن جابر اليمامي سے) اے شیخ! آپ اپنی کتاب سے روایت کریں! (محمد بن جابر اليمامي نے) کہا: یہ کون ہیں؟ کہا گیا (محمد بن جابر اليمامي سے) ابن مبارك ، تو انہوں نے (محمد بن جابر اليمامي نے) ابن مبارك کو اپنی کتابیں بھجوائیں! اور عبد الرحمن بن مهدي ان سے (محمد بن جابر اليمامي سے) حماد کی حدیث کے متعلق پوچھتے تھے، اور ابن مبارك خاموش تھے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 329 جلد 07 الكامل في ضعفاء الرجال ۔ أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) – دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 2158 جلد 06 الكامل في ضعفاء الرجال ۔ أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) – دار الفكر، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 122 جلد 09 الكامل في ضعفاء الرجال ۔ أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) – مكتبة الرشد، الرياض
مندرجہ بالا عبارت میں ایک واقعہ بیان ہوا ہے، کہ جس میں ابن مبارك نے محمد بن جابر اليمامي پر تنقید وجرح کی، اس کا تفصیلی بیان کے ابن مبارك حوالہ سے کیا جا چکا ہے۔
اس کے بعد
ابن مبارك خاموش ہو گئے۔ اور کچھ نہ کہا!
ابن مبارك کی محمد بن جابر اليمامي پر تنقید وجرح کے بعد عبد الرحمن بن مهدي نے محمد بن جابر اليمامي سے حماد کی روایات کے متعلق سوالات کئے۔
اب سیاق و سباق تو یہی بتلاتاہے کہ
عبد الرحمن بن مهدي کا محمد بن جابر اليمامي سے حماد کی روایات کے متعلق سوالات کرنا حصول روایات کے لئے نہیں، بلکہ حماد سے ان کی روایات میں نقص کے حوالے سے تعریضاْ تھا!
کیونکہ اس سے قبل ہی
ابن مبارك بھی اسی مجلس میں عبد الرحمن بن مهدي کی موجودگی میں محمد بن جابر اليمامي پر تنقید وجرح کر چکے تھے، بلکہ کے حفظ وضبط کی خرابی ثابت کر چکے تھے۔ اسی حوالہ سے عبد الرحمن بن مهدي نے سوالات کئے!
عبد الرحمن بن مهدي کا سوالات کرنا اسی طرح معلوم ہوتا ہے، جیسے کہ جج یا وکیل استغاثہ کسی ملزم سے سوالات کرتا ہے! کہ اس کے بیان کا نقص سامنے لایا جائے!
اور اگر
عبد الرحمن بن مهدي نے محمد بن جابر اليمامي کی حماد سے روایات کو جاننے کے لئے بھی سوالات کئے ہوں، تب بھی عبد الرحمن بن مهدي نے محمد بن جابر اليمامي کی گئی روایات قابل روایت سمجھ کر آگے روایت کرنے کا یہاں کوئی ذکر نہیں!
بہر حال اس عبارت سے
عبد الرحمن بن مهدي کا محمد بن جابر اليمامي سے حماد کی روایات کے متعلق سوال کرنا محمد بن جابر اليمامي سے روایت کرنے کو مستلزم نہیں، کہ عبد الرحمن بن مهدي سے محمد بن جابر اليمامي کی توثیق اخذ ہو سکے!

عبد الرحمن بن مهدي کا محمد بن جابر اليمامي سے روایت کرنے کا جس عبارت میں ذکر ہے، وہ صرف روایت کرنے کو ہی نہیں بلکہ روایت کرنے کو ترک کرنے کو بھی بیان کرتی ہے: وہ عبارت درج ذیل ہے:
نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن محمد بن جابر فقال ذهب كتبه في آخر عمره وساء حفظه وكان يلقن وكان عبد الرحمن بن مهدي يحدث عنه ثم تركه بعد وكان يروى احاديث مناكير وهو معروف بالسماع جيد اللقاء رأوا في كتبه لحقا وحديثه عن حماد فيه اضطراب روى عنه عشرة من الثقات،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 219 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 219 جلد 07 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية
اس عبارت میں متعلقہ عبارت کا ترجمہ ہوں ہے:
عبد الرحمن بن مهدي ان سے (محمد بن جابر اليمامي سے) روایت کرتے تھے، پھر بعد میں اسے (محمد بن جابر اليمامي کو) ترک کر دیا۔
اول تو معلوم ہونا چاہیئے کہ جب کوئی شخص کسی کے متعلق کسی خوش گمان ہو، بعد میں اگر اسے اس شخص کے متعلق معلوم ہو جائے اور اپنے گمان کے باطل ہونے کا إحساس ہو جائے، تو اس کا رجوع کے بعد ہی اس کا موقف قرار پائے گا، نہ کہ رجوع سے قبل کا!
دوم کہ بعض أوقات روایت کرنے کا مقصد روایت کے عیب کی نشابدہی بھی ہوتا ہے، نہ کہ اسے قبول کرنا!

باب في رواية الثقة عن غير المطعون عليه أنها تقويه، وعن المطعون عليه أنها لا تقويه حدثنا عبد الرحمن قال سألت أبي عن رواية الثقات عن رجل
غير ثقة مما يقويه؟ قال إذا كان معروفا بالضعف لم تقوه روايته عنه وإذا كان مجهولا نفعه رواية الثقة عنه.
حدثنا عبد الرحمن قال سألت أبا زرعة عن رواية الثقات عن رجل مما يقوى حديثه؟ قال أي لعمري، قلت: الكلبي روى عنه الثوري، قال إنما ذلك إذا لم يتكلم فيه العلماء، وكان الكلبي يتكلم فيه، قال أبو زرعة حدثنا أبو نعيم نا سفيان نا محمد بن السائب [الكلبي] وتبسم الثوري [قال أبو محمد] قلت لأبي ما معنى رواية الثوري عن الكلبي وهو غير ثقة عنده؟
فقال كان الثوري يذكر الرواية عن الكلبي على الإنكار والتعجب فتعلقوا عنه روايته عنه و [ان] لم تكن روايته عن الكلبي قبوله [له] .

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 36 جلد 02 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 36 جلد 02 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية
قال ابن أبي حاتم: سألت أبي عن رواية الثقات عن رجل غير ثقة، مما يقويه؟.
قال: إذا كان معروفا (بالضعف) ، لم تقوه، روايته عنه، وإن كان مجهولا نفعه رواية الثقة عنه. قال: وسمعت أبي يقول: إذا رأيت شعبة يحدث عن رجل فاعلم أنه ثقة. إلا نفرا بأعيانهم.
وسألت أبا زرعة عن رواية الثقات عن الرجل، مما يقوي حديثه؟
قال: إي لعمري.
قلت: الكلبي روى عنه الثوري.
قال: إنما ذلك إذا لم يتكلم فيه العلماء، وكان الكلبي يتكلم فيه.
قلت: فما معنى رواية الثوري عنه، وهو غير ثقة عنده؟
قال: كان الثوري يذكر الرواية عن الرجل على الإنكار والتعجب، فيعلقون عنه روايته عنه. ولم تكن روايته عن الكلبي قبوله له.
وذكر العقيلي بإسناده له عن الثوري، قال:
إني لأروي الحديث على ثلاثة أوجه: أسمع الحديث من الرجل وأتخذه دينا، وأسمع الحديث من الرجل أوقف حديثه، وأسمع الحديث من الرجل لا أعبأ بحديثه وأحب معرفته.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 381 جلد 01 شرح علل الترمذي ۔ زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، السَلامي، البغدادي، ثم الدمشقي، الحنبلي (المتوفى: 795هـ)- مكتبة المنار، الزرقاء – الأردن
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 381 جلد 01 شرح علل الترمذي ۔ زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، السَلامي، البغدادي، ثم الدمشقي، الحنبلي (المتوفى: 795هـ)- مكتبة الرشد، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 86 ۔ 87 جلد 01 شرح علل الترمذي ۔ زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، السَلامي، البغدادي، ثم الدمشقي، الحنبلي (المتوفى: 795هـ)- دار الملاح للطباعة والنشر، دمشق
امام أبو زرعة اور اما ابن رجب نے یہاں بتلایا ہے کہ کسی بعض أوقات کسی ضعیف راوی سے روایت اس روایت اور اس راوی کے عیب کے بیان کے لئے بھی ہوتی ہے!
سوم کہ وہ محدثین جنہوں نے یہ التزام کیا ہے کہ وہ اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت کریں گے، اس میں بھی کچھ تفصیل ہے، ایسا نہیں کہ زندگی کے کسی بھی حصہ میں، کسی بھی اعتبار سے کسی سے بھی روایت کیا ہے، تو اس توثیق لازم آئے!
یاد رہے کہ یہ بات ہمیں در اصل
امام احمد بن حنبل سے معلوم ہوتی ہے، کہ عبد الرحمن بن مهدي صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں:
تهذيب التهذيب میں امام ابن حجر العسقلاني نقل فرماتے ہیں:

وقال الأثرم عن أحمد إذا حدث عبد الرحمن عن رجل فهو حجة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 139 جلد 04 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - وزارة الأوقاف السعودية، ودار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 557 جلد 03 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مؤسسة الرسالة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 281 جلد 06 تهذيب التهذيب - أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ) - مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند
یہ بات امام أبو داود السجستاني نے امام احمد بن حنبل سے روایت کی ہے:
سَمِعت أَحْمد قَالَ أبان بن خَالِد شيخ بَصرِي لَا بَأْس بِهِ كَانَ عبد الرَّحْمَن يحدث عَنهُ [وَكَانَ] لَا يحدث إِلَّا عَن ثِقَة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 338 ۔ 339 سؤالات أبي داود للإمام أحمد بن حنبل في جرح الرواة وتعديلهم ۔ أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السِّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ)- مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة
امام أبو داود السجستاني نے اس میں مزید ایک تفصیل کے ساتھ روایت کی ہے:
قلت لِأَحْمَد إِ [ذَا روى] يحيى أَو عبد الرَّحْمَن بن مهْدي عَن رجل مَجْهُول يحْتَج بحَديثه قَالَ [يحْتَج بحَديثه]
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 198 سؤالات أبي داود للإمام أحمد بن حنبل في جرح الرواة وتعديلهم ۔ أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السِّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ)- مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة
یہاں امام احمد بن حنبل نے رجل مجهول کے حوالہ سے عبد الرحمن بن مهدي کا یہ طرز بتلایا ہے، اور اس معاملہ میں بھی کافی تفصیی بحث ابن رجب اور امام سخاوی نے کی ہے، کہ عبد الرحمن بن مهدي اور اس طرح دیگر ائمہ حدیث جو صرف ثقہ سے روایت کرنے کا طرز اختیار کرتے ہیں، ان کے کسی مجھول راوی سے روایت کرنے پر ان راوی کی توثیق شمار ہو گی، یا متكلم فیه رواة کے متعلق بھی!
خیر! ابھی اس تفصیل سے صرف نظر کرتے ہوئے، صرف
عبد الرحمن بن مهدي کے حوالہ سے گفتگو جاری رکھتے ہیں!
أبو بكر الأثرم کی روایت ابن رجب نے بھی نقل کیا ہے:
"المسألة الأولى: "رواية الثقة عن رجل هل ترفع جهالته ومتى ترتفع الجهالة"؟
۔۔۔۔
۔۔۔۔
قال أحمد - في رواية الأثرم - إذا روى الحديث (عبد الرحمن) بن مهدي (عن) رجل، فهو حجة، ثم قال: كان عبد الرحمن أولا يتساهل في الرواية عن غير واحد، ثم تشدد بعد، وكان يروى عن جابر، ثم تركه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 377 جلد 01 شرح علل الترمذي ۔ زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، السَلامي، البغدادي، ثم الدمشقي، الحنبلي (المتوفى: 795هـ)- مكتبة المنار، الزرقاء – الأردن
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 377 جلد 01 شرح علل الترمذي ۔ زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، السَلامي، البغدادي، ثم الدمشقي، الحنبلي (المتوفى: 795هـ)- مكتبة الرشد، الرياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 80 جلد 01 شرح علل الترمذي ۔ زين الدين عبد الرحمن بن أحمد بن رجب بن الحسن، السَلامي، البغدادي، ثم الدمشقي، الحنبلي (المتوفى: 795هـ)- دار الملاح للطباعة والنشر، دمشق

امام احمد بن حنبل
سے أبو بكر الأثرم کی روایت خطیب بغدادی روایت کی ہے:

فَصْلٌ إِذَا قَالَ الْعَالِمُ: كُلُّ مَنْ أَرْوِي لَكُمْ عَنْهُ وَأُسَمِّيهِ فَهُوَ عَدْلٌ رِضًا مَقْبُولُ الْحَدِيثِ , كَانَ هَذَا الْقَوْلُ تَعْدِيلًا مِنْهُ لِكُلِّ مَنْ رَوَى عَنْهُ وَسَمَّاهُ , وَقَدْ كَانَ مِمَّنْ سَلَكَ هَذِهِ الطَّرِيقَةَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ
أَخْبَرَنَا بُشْرَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرُّومِيُّ، أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّاشِدِيُّ، ثنا
أَبُو بَكْرٍ الْأَثْرَمُ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ , يَقُولُ: " إِذَا رَوَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ رَجُلٍ , فَرِوَايَتُهُ حُجَّةٌ , قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: كَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ أَوَّلًا يَتَسَهَّلُ فِي الرِّوَايَةِ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ , ثُمَّ شَدَّدَ بَعْدُ , كَانَ يَرْوِي عَنْ جَابِرٍ يَعْنِي الْجُعْفِيَّ ثُمَّ تَرَكَهُ "
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 92 الكفاية في علم الرواية ۔ أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 298 جلد 01 الكفاية في علم الرواية ۔ أبو بكر أحمد بن علي بن ثابت بن أحمد بن مهدي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463هـ) ۔ دار الهدیٰ، ميت غمر ۔ مصر
ابن رجب اور الخطيب البغدادي نے اس روایت کے ساتھ ہی امام احمد بن حنبل کا یہ قول بھی روایت کیا ہے کہ عبد الرحمن بن مهدي پہلے روایت کرنے میں تساھل سے کام لیتے تھے، اور بعد میں روایت کرنے میں تشدد اختیار کیا!
یعنی
عبد الرحمن بن مهدي کااپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت کرنے کا طرز انہوں نے بعد میں اختیار کیا ہے، جبکہ پہلے وہ ان سے بھی روایت کرتے تھے، جو ان کے نزدیک ثقہ نہ تھے۔
اس کی مثال
امام احمد بن حنبل نے یہ پیش کی جیسے کہ عبد الرحمن بن مهدي پہلے جابر جعفی سے بھی روایت کرتے تھے، اور بعد میں اس سے روایت کرنا ترک کر دیا!

لہذا
عبد الرحمن بن مهدي کے پہلے عمل سے عبد الرحمن بن مهدي سے کسی کے لئے توثیق اخذ کرنا درست نہیں! بلکہ ان کا بعد کا عمل ہی اس کا مصداق ہو سکتا ہے!
لہذا جب یہ بات مسلم ہے کہ
عبد الرحمن بن مهدي نے محمد بن جابر سے روایت کرنا ترک کر دیا تھا، تو ان کے پہلے عمل سے محمد بن جابر اليمامي کی توثیق کشید کرنا بالکل درست نہیں!
امام السخاوي نے بھی یہ بتلایا ہے کہ عبد الرحمن بن مهدي کے اس طرز روایت کا اطلاق کہ وہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں، ان کے بعد کے عمل پر ہے، پہلے کے عمل پر نہیں؛
وَصُورَتُهُ: (نَحْوُ أَنْ يُقَالَا حَدَّثَنِي الثِّقَةُ) أَوِ الضَّابِطُ أَوِ الْعَدْلُ مِنْ غَيْرِ تَسْمِيَةٍ (بَلْ) صَرَّحَ الْخَطِيبُ بِأَنَّهُ (لَوْ قَالَا) أَيْضًا: (جَمِيعُ أَشْيَاخِي) الَّذِينَ رَوَيْتُ عَنْهُمْ (ثِقَاتٌ) ، وَ (لَوْ لَمْ أُسَمِّ) ، ثُمَّ رَوَى عَنْ وَاحِدٍ أَبْهَمَ اسْمَهُ (لَا يُقْبَلُ) أَيْضًا (مَنْ قَدْ أَبْهَمْ) لِلْعِلَّةِ الْمَذْكُورَةِ، هَذَا مَعَ كَوْنِهِ فِي هَذِهِ الصُّورَةِ أَعْلَى مِمَّا تَقَدَّمَ ; فَإِنَّهُ كَمَا نَقَلَ عَنِ الْمُصَنِّفِ إِذَا قَالَ: حَدَّثَنِي الثِّقَةُ، يُحْتَمَلُ أَنَّهُ يَرْوِي عَنْ ضَعِيفٍ، يَعْنِي عِنْدَ غَيْرِهِ، وَإِذَا قَالَ: جَمِيعُ أَشْيَاخِي ثِقَاتٌ، عُلِمَ أَنَّهُ لَا يَرْوِي إِلَّا عَنْ ثِقَةٍ، فَهِيَ أَرْفَعُ بِهَذَا الِاعْتِبَارِ، وَفِيهِ نَظَرٌ ; إِذِ احْتِمَالُ الضَّعْفِ عِنْدَ غَيْرِهِ قَدْ طَرَقَهُمَا مَعًا.
بَلْ تَمْتَازُ الصُّورَةُ الثَّانِيَةُ بِاحْتِمَالِ الذُّهُولِ عَنْ قَاعِدَتِهِ،
أَوْ كَوْنِهِ لَمْ يَسْلُكْ ذَلِكَ إِلَّا فِي آخِرِ أَمْرِهِ، كَمَا رُوِيَ أَنَّ ابْنَ مَهْدِيٍّ كَانَ يَتَسَاهَلُ أَوَّلًا فِي الرِّوَايَةِ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ بِحَيْثُ كَانَ يَرْوِي عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ، ثُمَّ شَدَّدَ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 38 جلد 02 فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي - شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن أبي بكر بن عثمان بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ) - مكتبة السنة، القاھرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 193 جلد 02 فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي - شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن أبي بكر بن عثمان بن محمد السخاوي (المتوفى: 902هـ) - مكتبة دار المنهاج، الرياض
مزید دیکھیں:
قَالَ أبي ترك يحيى جَابِرا الْجعْفِيّ حَدثنَا عَنهُ بن مهْدي قَدِيما عَن شَيبَان أَو سُفْيَان ثمَّ تَركه بعد

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 155 جلد 03 العلل ومعرفة الرجال ۔ أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) ۔ دار الخاني، الرياض
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَذْكُرُ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ حَدَّثَهُ عَنْ سُفْيَانَ أَوْ شَيْبَانَ عَنْ جَابِرٍ ثُمَّ تَرَكَهُ بِآخِرَةٍ فَتَرَكَ يَحْيَى حَدِيثَ جَابِرٍ
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 508 جلد 01 الضعفاء الكبير - أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) – مكتبة دار مجد الاسلام ۔ مکتبة دار ابن عباس
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 194 جلد 01 الضعفاء الكبير - أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) - دار المكتبة العلمية، بيروت
امام احمد بن حنبل، جابر جعفی کے متعلق فرماتے ہیں، کہ یحیی یعنی یحیی بن سعید القطان نے جابر جعفی کو ترک کردیا، ان سے عبد الرحمن بن مهدي نے پہلے شیبان یا سفیان سے روایت کی، پھر انہوں نے بھی اسے ترک کردیا!

حَدثنِي أبي قَالَ حَدثنَا عبد الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ قَيْسٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ رَجُلٍ عَنْ عَلِيٍّ لَيْسَ فِي الْخَضِرِ زَكَاةٌ الْبَقْلِ وَالْقِثَّاءِ وَالتُّفَّاحِ قَالَ أَبِي وَرَوَاهُ قَيْسٌ وَمَعْمَرٌ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ أَبِي وَتَرَكَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدِيثَ قَيْسٍ وَجَابِرٍ الْجُعْفِيِّ بَعْدُ

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 502 ۔ 503 جلد 01 العلل ومعرفة الرجال ۔ أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) ۔ دار الخاني، الرياض
یہاں دیکھیں! امام احمد بن حنبل، عبد الرحمن بن مهدي کی قیس سے ایک روایت بیان کرتے ہیں، پھر فرماتے کے اسے قیس اور معمر نے روایت کیا ہے، اورپھر اس کی سند پرکلام کرتے ہیں، کہ عبد الرحمن بن مهدي نے قیس اور جابر جعفی کو ترک کردیا تھا،
گو کہ اسے
عبد الرحمن بن مهدي نے خود قیس سے روایت کیا ہے، لیکن بعد میں عبد الرحمن بن مهدي کا قیس کو ترک کردینا اس امر کو ثابت کرتا ہے کہ قیس اور اسی طرح جابر جعفی عبد الرحمن بن مهدي کے نزدیک ثقہ نہیں!

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: كَانَ يَحْيَى وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ لَا يُحَدِّثَانِ عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ الْجُعْفِيِّ، وَكَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ يُحَدِّثُنَا عَنْهُ قَبْلَ ذَلِكَ ثُمَّ تَرَكَهُ

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 507 جلد 01 الضعفاء الكبير - أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) – مكتبة دار مجد الاسلام ۔ مکتبة دار ابن عباس
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 194 جلد 01 الضعفاء الكبير - أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) - دار المكتبة العلمية، بيروت
یہاں دیکھیں؛ عمرو بن علي الفلاس نے بھی یہ کہا ہے، کہ جابر جعفی سے یحیی بن سعید القطان اور عبد الرحمن بن مهدي روایت نہیں کرتے، اور پھر فرماتے ہیں، کہ عبد الرحمن بن مهدي پہلے جابر جعفی سے روایت کرتے تھے، بعد میں ترک کردیا، یعنی کہ عمرو بن علي الفلاس نے بھی عبد الرحمن بن مهدي کے آخری عمل کو ان کا طرز قرار دیا، کہ جس کے تحت وہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں!

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْمَيْمُونِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ يَقُولُ: كَانَ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ لَا يُحَدِّثَانِ عَنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ بِشَيْءٍ،

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 509 جلد 01 الضعفاء الكبير - أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) – مكتبة دار مجد الاسلام ۔ مکتبة دار ابن عباس
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 195 جلد 01 الضعفاء الكبير - أبو جعفر محمد بن عمرو بن موسى بن حماد العقيلي المكي (المتوفى: 322هـ) - دار المكتبة العلمية، بيروت
یہاں دیکھیں؛ امام احمد بن حنبل نے کہا کہ یحیی بن سعید القطان اور عبد الرحمن بن مهدي جابر جعفی سے کچھ روایت نہیں کرتے!
حالانکہ
امام احمد بن حنبل خود یہ بتلاتے ہیں کہ عبد الرحمن بن مهدي نے پہلے جابر جعفی سے روایت کی ہے، اور بعد میں اسے ترک کر دیا تھا!
مگر
امام احمد بن حنبل، عبد الرحمن بن مهدي کے آخری عمل کو ان کا موقف قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عبد الرحمن بن مهدي جابر جعفی سے روایت نہیں کرتے!
اسی بات کو
ابن ابي حاتم نے الجرح والتعدیل نقل کیا ہے؛
حدثنا عبد الرحمن قال سمعت ابن الجنيد يقول سمعت أبا حفص يعني عمرو بن علي يقول كان يحيى وعبد الرحمن لا يحدثان عن جابر الجعفي وكان عبد الرحمن يحدثنا عنه قبل ذلك ثم تركه.
حدثنا عبد الرحمن نا أحمد بن سنان قال ترك عبد الرحمن بن مهدي حديث جابر الجعفي.
حدثنا عبد الرحمن حدثني أبي قال سألت أحمد بن حنبل عن جابر الجعفي (94 م 2) فقال: تركه عبد الرحمن ويحيى.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 498 جلد 02 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - دار إحياء التراث العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 498 جلد 02 الجرح والتعديل ۔ أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدريس بن المنذر التميمي، الحنظلي، الرازي ابن أبي حاتم (المتوفى: 327هـ) - طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، بحيدر آباد الدكن، الهند - تصوير دار الكتب العلمية
اسی طرح ابن عدي الجرجاني نے بھی روایت کیا ہے:
كتب إلي مُحَمد بْنُ الْحَسَنِ، حَدَّثَنا عَمْرو بْنُ عَلِيّ قَالَ وَكَانَ يَحْيى، وَعَبد الرحمن لا يحدثنان عَن جَابِر الجعفي وَكَانَ عَبد الرَّحْمَنِ قبل ذلك يحدثنا عَنْهُ ثم تركه.
حَدَّثَنَا ابْن حَمَّاد، حَدَّثَنا عَبد اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، عَن أَبِيهِ قَالَ: ترك يَحْيى القطان جَابِر الجعفي وحدثنا عَنْهُ بن مهدي، حَدَّثَنا عن سفيان وشيبان عَن جَابِر ثم تركه بأخرة وترك يَحْيى حديث جَابِر بأخرة

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 330 جلد 02 الكامل في ضعفاء الرجال ۔ أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) – دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 539 جلد 02 الكامل في ضعفاء الرجال ۔ أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) – دار الفكر، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 29 ۔ 30 جلد 03 الكامل في ضعفاء الرجال ۔ أبو أحمد بن عدي الجرجاني (المتوفى: 365هـ) – مكتبة الرشد، الرياض


مزید دیکھیں؛

سمعته يَقُول كَانَ عبد الرَّحْمَن بن مهْدي ترك حَدِيث أبي صَالح باذام وَكَانَ فِي كتابي عَن السّديّ عَن أبي صَالح فَتَركه لم يحدثنا بِهِ عَنهُ وَترك بن مهْدي بِأخرَة جَابِرا الْجعْفِيّ

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 502 جلد 02 العلل ومعرفة الرجال ۔ أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) ۔ دار الخاني، الرياض
قَالَ أبي كَانَ فِي كتَابنَا لعبد الرَّحْمَن بن مهْدي عَن سُفْيَان عَن السّديّ عَن أبي صَالح فَلم يحدثنا عَنهُ ترك حَدِيثه وَكَانَ يحيى الْقطَّان يحدث عَنهُ يَعْنِي باذام أَبَا صَالح
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 155 جلد 03 العلل ومعرفة الرجال ۔ أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) ۔ دار الخاني، الرياض

امام احمد بن حنبل
فرماتے ہیں کہ ان کے پاس کتاب میں عبد الرحمن بن مهدي کی سفیان کے واسطے سے ابی صالح باذم کی روایت لکھی ہوئی ہے، مگر وہ اسے ابی صالح باذام سے روایت نہیں کرتے، اور بتلاتے ہیں کہ عبد الرحمن بن مهدي نے أبو صالح باذام کو بعد میں ترک کردیا تھا، اور اسی طرح جابر جعفی کو بھی بعد میں ترک کردیا تھا۔
قَالَ أبي كَانَ عبد الرَّحْمَن بن مهْدي لَا يحدث عَن يُونُس بن خباب وَلَا عَن باذام أبي صَالح

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 100 جلد 03 العلل ومعرفة الرجال ۔ أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ) ۔ دار الخاني، الرياض
یہاں امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ عبد الرحمن بن مهدي نہ یونس بن خباب سے روایت کرتے ہیں، اور نہ ہی ابی صالح باذام سے۔
معلوم ہوا کہ یہی
امام احمد بن حنبل، عبد الرحمن بن مهدي کے کسی راوی کو ترک کرنے کو، گو کہ پہلے اس سے روایت کی ہو، عبد الرحمن بن مهدي کے آخری عمل سے دلیل پکڑتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ عبد الرحمن بن مهدي ابی صالح باذام سے روایت نہیں کرتے تھے!
لہٰذا
عبد الرحمن بن مهدي کا پہلے کسی سے روایت کرنے اور پھر اسے ترک کردینے سے پہلے روایت کرنے کاعمل ، عبد الرحمن بن مهدي کے اس طرز عمل کا مصداق نہیں، کہ وہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں، بلکہ ان کے بعد کے عمل یعنی اس روایت سے روایت کرنے کو ترک کردینا، ہی اس طرز عمل کا مصداق قرار پاتا ہے، کہ وہ جسے ترک کر دیں اسے ثقہ قرارنہیں دیتے!

یہ کہنا کہ ''
ابن مھدی سے جرح یا انکو ترک کرنا انکے حافظے میں اختلاط آنے کے بعد کا ہے'' بلا دلیل ہے اور نہ ہی اس کا کوئی قرینہ ہے!
ایسی صورت میں لازم تھا، کہ
عبد الرحمن بن مهدي، محمدبن جابر الیمامی سے پہلے سماع کی ہوئی روایات کو محمد بن جابر اليمامي سے روایت کرتے رہتے، اور محمد بن جابر اليمامي کو ترک نہ کرتے، کہ پہلے سنی ہوائی روایت میں وہ ثقہ ہیں! مگر ایسا ہے نہیں!
بلکہ
عبد الرحمن بن مهدي، محمد بن جابر اليمامي سے روایات کرنا ترک کردیا، نہ اس سے پہلے سنی ہوئی روایات کو روایت کرتے تھے، نہ بعد میں سنی ہوئی روایات کو روایت کرتے تھے!
مذکورہ بالا تصریحات کے بعد بھی کوئی اس کا مدعی ہے کہ
عبد الرحمن بن مهدي کا محمد بن جابر اليمامي کو ترک کرنا، محمد بن جابر اليمامي کی ان روایات سے متعلق ہے، جو محمد بن جابر اليمامي کے حفظ وضبط میں انتہائی خرابی کے بعد کی ہیں، تو اس پر لازم ہے کہ وہ عبد الرحمن بن مهدي سے یہ ثابت کرے کہ مندرجہ بالا تفصیل کے برخلاف عبد الرحمن بن مهدي نے محمد بن جابر اليمامي ترک نہ کیا اور عبد الرحمن بن مهدي نے محمد بن جابر اليمامي کے حفظ وضبط کے انتہائی خرابی کے بعد بھی روایت کرتے رہے ہوں، جن کا سماع عبد الرحمن بن مهدي پہلے ہی محمد بن جابر اليمامي سے کر چکے تھے!

(جاری ہے)
 
Last edited:
Top