• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترک رفع الیدین کے متعلق حدیث ابن مسعود کا جائزہ

شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
جس راوی کی توثیق یا جرح کی گئی اور جس نے توثیق یا جرح کی ان کا ہم وطن، ہمعصر و مصاحبت ثابت ہو تب ان کی بات مانتے ہو کہ ویسے ہی؟؟؟

کیا اس بات کی تحقیق کرتے ہو ؛
توثیق کرنے والے نے کس بنیاد پر توثیق کی؟
جارح نے کس بنیاد پر جرح کی اور اس پر ثبوت مہیا کیئے؟

اگر کسی راوی پر سیئ الحفظ کی جرح ہو؛
تو کیا اس پر ثبوت دیا گیا؟
کیا اس پر یہ جرح ہر ہر حدیث کے لئے ہوگی یا جن میں احتمال ہو صرف ان تک محدود؟
جن روایات کو مرفوع کیا گیا ہو ان کو کس مد میں رکھا جائے گا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جھوٹی بات منصوب کرنا جہنم کو اپنے اوپر واجب کرنا ہے۔

اگر کسی راوی پر کذاب ہونے کا الزام ہو تو؛
تو کیا اس پر ثبوت دیا گیا؟
کیا اس پر یہ جرح ہر ہر حدیث کے لئے ہوگی یا جن میں احتمال ہو صرف ان تک محدود؟
جس حدیث میں کذاب راوی ہو، اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یا حکم بتایا گیا ہو، اس کو کوئی محدث لکھ کر کہے کہ اس میں فلاں راوی کذاب ہے تو اس محدث کو کیسا کہا جائے گا؟
ان سب کا جواب بہت آسان ہے
جارح کی بنیاد راوی کی مرویات ہوتی ہیں۔
مرویات کا استقراء کر کے ہی علماء محدثین یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں راوی سیء الحفظ ہے یا کثیر الخطا یا ثقہ یا کذاب متروک وغیرہ وغیرہ

یہ بات تق عام فہم طالب علم بھی جانتا ہے

Sent from my SM-J510F using Tapatalk
 
شمولیت
مارچ 04، 2019
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
29
امام ترمذی ایک بات لکھتے ہیں اور سند بیان نہیں کرتے تو وہ اپنی بات میں سچے ہوئے یا جھوٹے؟؟؟
منقطع روایت ہے

وہ اپنی بات میں تو سچے ہیں
لیکن جن سے انہوں نے سنا ہے وہ سچا ہے یا جھوٹا

یہ تو ہمیں معلوم نہیں ہے نا اسی وجہ سے اس کی سند بیان کریں

Sent from my SM-J510F using Tapatalk
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
جارح کی بنیاد راوی کی مرویات ہوتی ہیں۔
راوی کی مرویات سے اس کا سیئ الحفظ ہونا کسے ثابت ہوگا؟؟؟

مرویات کا استقراء کر کے ہی علماء محدثین یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں راوی سیء الحفظ ہے یا کثیر الخطا یا ثقہ یا کذاب متروک وغیرہ وغیرہ
مرویات کا استقراء کرنے والا ہی اگر غلطی کھائے تب؟؟؟

سب سے اہم بات کہ جارحین نے تو اپنے طور پر تحقیق کی ہو گی۔
ان کی تحقیق صحیح ہے یا غلط اس کے بارے کیسے معلوم ہو؟؟؟

آج ان کی تحقیق پر کس بنیاد پر اعتماد کیا جائے؟
ان کی بات بلا دلیل ماننا کیا تقلید نہیں کہلائے گی؟؟؟

خود تحقیق کرکے ثبوت کے ساتھ کیوں نہیں لکھتے کہ فلاں روایت فلاں راوی کی فلاں کمزوری کے سبب ضعیف ہے؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
وہ اپنی بات میں تو سچے ہیں
لیکن جن سے انہوں نے سنا ہے وہ سچا ہے یا جھوٹا
یعنی تمہیں ترمذی رحمہ اللہ پر شک ہے کہ انہوں نے کہیں بغیر تحقیق کے نا لکھ دیا ہو؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
لا تجد قط مبتدعاً إلا وهو يحب كتمان النصوص التي تخالفه ويبغضها، ويبغض إظهارها.
تمكوئی بدعتی نا پاؤ گے مگر وه ان نصوص کو چھپانا پسند اور ان کے اظهار سے بغض رکھتا هوگا جو اس کے مخالف هوں۔
میں نے نام نہاد اہلحدیثوں کی اکثریت کو ایسا ہی پایا۔
اپنے مطلب کی حدیث ضعیف بھی جادو کی ڈبیا سے صحیح ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کریں گے دوسروں کے موافق احادیہث اول تو بتائیں گے ہی نہیں اگر بتائیں گے تو ایسی جس کو خود مخافین صرف تائید میں لاتے ہیں۔
مخالفین کی صحیح احدیث کو حیلے بہانوں سے ٹھکراتے ہیں۔

مثال سامنے ہے؛

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
نا أبو موسى نا مؤمل نا سفيان عن عاصم بن كليب عن أبيه عن وائل بن حجر قال : " صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره "
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ کر سینے پر رکھ لیا
[دیکھیے صحیح ابن خزیمہ حدیث 479 ]
نام نہاد اہلحدیث محمد طلحہ نے اپنی پیش کردہ حدیث کو صاف شفاف کرنے کے لئے ناجانے کہاں کہاں سے واشنگ پاؤڈر حاصل کیئے اور اس کا سارا میل کچیل درج ذیل حدیث کو گندا کرنے میں استعمال کیا۔


حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ:
أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
جواب تقلیدی نا ہو بلکہ تحقیقی اور تعصب سے پاک آخرت کی جوابدہی کے ساتھ ہو۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
ڈاکٹر کی بات کہ صحیح البخاری کا درجہ بعد کتاب اللہ اصح کتاب کا ہے اس سے ویڈیو میں مبصر نے اتفاق کیا ، کیونکہ یہ قرار جملہ اہلسنت والجماعت کا ھے اور پھر بطور اعتراض یا پلٹ وار یوں کیا کہ تین طلاق والی حدیث بخاری پر اکثر اہلحدیث اتفاق نہیں کرتے ۔ یہاں ذرا سا وقفہ لے لینا ضروری ہے کیونکہ میں کسی پر تبصرہ نہیں کر رہا ھوں ، بلکہ وضاحت طلب کر رہا ہوں کہ وہ شیخ جو اعتراض فرما رہے ہیں ویڈیو میں یا وہ صاحب جنہوں نے اس ویڈیو کو یہاں لگا کر تبصرہ چاہا ھے ، دونوں ، بلا تأخیر یہ بتا دیں کہ کیا اہل حدیث کو ان دونوں نے اہل سنت والجماعت کا حصہ سمجھا ھے؟

اس کا جواب مل جائے تو بقیہ علمی گفتگو اہل علم کے ذمہ کی جا سکتی ، کیسا کلام تبصرہ کے قابل ھے اسکا فیصلہ بھی اہل علم ہی کرینگے ، ہر چیز قابل تبصرہ ہی ھو ایسا ضروری تو نہیں!
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
مذکورہ وڈیو میں رفع الیدین کے بارے جو کچھ بیان ہؤا اس پر تبصرہ فرمایا جائے کہ یہ تھریڈ رفع الیدین کے بارے ہے باقی سے یا تو احتراز کیا جائے یا الگ تھریڈ میں بات کی جائے۔ شکریہ
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
سنن النسائي ([حكم الألباني] صحيح):
1026 - أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ»

عبد اللہ ابن مبارک جب سفیان سے یہ حدیث لے رہے تھے تو کیا انہوں نے ان سے اس کی بابت بات نا کی ہوگی کہ یہ ثابت نہیں؟؟؟
اگر ان کے نزدیک ثابت نا تھی تو پھر یہ حدیث آگے بیان کیوں کی؟؟؟
انہوں نے یہاں اس حدیث کے متعلق کوئی اپنا موقف نہیں دیا
اسے کیا کہئیے؟؟؟
ایک راوی ایسی حدیث بیان کر رہا ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کیا جارہا ہے۔
اسی راوی کے بارے کہا جارہا ہے؛

لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ابن مبارک کے نزدیک یہ روایت ثابت ہے یا نہیں؟؟؟؟
یہ روایت ثابت تھی تبھی تو ابن مبارک رحمہ االلہ نے روایت کی۔

ابن مبارک نے بتا دیا کہ لم یثبت (یعنی یہ ثابت نہیں)
عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ نے جس روایت کو لم یثبت کہا وہ یہ کیسے ہو سکتی ہے؟
 
Top