• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ترک رفع الیدین

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
اگر رفع الیدین کرنے کے مقابلے میں عدم رفع الیدین کی روایت زیادہ مضبوط ثابت ہوں تو کہا جائے گا کہ رفع الیدین کرنا افضل اور راجح ہے ۔
؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
اگر رفع الیدین کرنے کے مقابلے میں عدم رفع الیدین کی روایت زیادہ مضبوط ثابت ہوں تو کہا جائے گا کہ رفع الیدین کرنا افضل اور راجح ہے ۔
اصل جملہ یوں ہے ۔
اگر رفع الیدین کرنے کے مقابلے میں عدم رفع الیدین کی روایت زیادہ مضبوط ثابت ہوں تو کہا جائے گا کہ رفع الیدین نہ کرنا افضل اور راجح ہے ۔
یہ صرف ٹائپنگ کی غلطی ہے
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
بھائی الگ تھریڈ بنانے کے لئيے معذرت ۔ اصل میں میری غیر حاضری میں پچھلا تھریڈ کلوز ہو گیا تھا ۔ اب یہ میری خطا ہے کہ میں آپ کو مطلع نہیں کیا ۔ کیوں کہ یہ خطا ایک اوپن جگہ ہوئی اس لئیے اس کی معذرت بھی اوپن جگہ پر ہی کرہا ہوں ۔ امید ہے معذرت قبول کریں گے
جزاک اللہ خیرا
ایک بات تک تو آپ پہنچے کہ اگر یہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو عدم رفع الیدین کےجواز کے قائل ہوجائیں گے۔
میں نے بطورتنزل ایک بات کہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ یہ استدلال کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کی صحت ثابت ہوجائے تو جواز الامرین کا ثبوت فراہم ہوجائے گا، کیونکہ صحت کے ثبوت کے باوجود بھی یہ روایت جواز الامر ین کی دلیل نہیں ہوگی ، جیساکہ بہت سے اہل علم نے اسے صحیح فرض کرنے کے باوجود بھی جواز الامرین کی دلیل نہیں مانا ہے کیونکہ دیگر کئی چیزوں کے احتمالات ہیں، مثلا:
  • ١:عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کرتے وقترفع الیدین کرنا بھول گئے ہوں جیسے اوربھی بہت سی چیزیں آپ رضی اللہ عنہ بھول گئے تھے، کیونکہ تمام صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی تر ک کی بات نہیں روایت کی ہے حتی کہ سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت کا شرف حاصل کرنے والے خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ایسی کوئی روایت نقل نہیں کی ہے بلکہ اس کے برعکس اثبات رفع کی روایت نقل کی ہے، بلکہ بعض اہل علم کے بقول خودا بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف اثبات رفع کی روایت بھی منسوب ہے امام ابن االملقن فرماتے ہیں:
قَالَ الْبَيْهَقِيّ فِي «خلافياته» ويعارضه بِأَنَّهُ قد رَوَى حَدِيثا مسلسلًا عَن عَلْقَمَة، عَن عبد الله، عَن النَّبِي - صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم - ذكر فِيهِ الرّفْع عِنْد الرُّكُوع وَالرَّفْع مِنْهُ [البدر المنير 3/ 492]
لیکن اس روایت تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی ، واللہ اعلم۔
  • ٢:عدم رفع سے سے مراد تکبیر تحریمہ کے وقت ایک سے زائد والا رفع ہو جیساکہ عیدین کی نماز میں ہوتاہے۔
  • ٣: عدم رفع کا یہ عمل اس وقت کا ہو جب تطبیق مشروع تھی اور تطبیق کے نسخ کے ساتھ ساتھ یہ کیفیت بھی منسوخ ہوئی اورابن مسعورضی اللہ عنہ ان دونوں سے لاعلم رہے جیساکہ اوربھی بہت سی چیزوں سے آپ واقف نہ ہوسکے۔
یہ دلیل ان سے طلب کی باتی ہے جن کا دعوی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی رفع الیدین ترک نہیں کیا ، اگر آپ کا بھی یہ دعوی ہے تو آپ سے بھی دلیل مانگی جائے گی۔
جن کا دعوی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی رفع الیدین ترک نہیں کیا آپ ان سے بھی یہ مطالبہ نہیں کرسکتے ، کیونکہ ان کا یہ بھی تو دعوی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیرتحریمہ والا رفع الیدین بھی کبھی ترک نہیں کیا ہے ، پھر آپ اس رفع الیدین سے متعلق یہی مطالبہ کیونکہ نہیں کرتے ؟؟؟ اسی طرح احناف کا بھی یہی دعوی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی تکبیر تحریمہ والا رفع الیدین ترک نہیں کیا ، پھر کیا احناف سے یہ مطالبہ درست ہوگا کہ وہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین سے متعلق تاحیاۃ کی صراحت دکھلائیں ؟؟؟
واضح رہے کہ خود کو مسلمان کہنے والا ایک فرقہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کو بھی منسوخ مانتا ہے اور اس مسئلہ پر ان کی طرف سے مستقل کتابیں لکھی جاچکی ہیں جو نیٹ کے متعدد صفحات پر موجود ہیں، بلکہ یہی بات بعض تابعین کی طرف بھی منسوب ہے اولطف تو یہ ہے کہ خود عبداللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ سے بھی تکبرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک کی ایک روایت منقول ہے ، اگر اس موقف کے حاملین آپ سے مطالبہ کریں کہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے دوام کی صراحت دکھلائیں تو کیا یہ مطالبہ درست ہے؟؟؟
لطف تو یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے تارکین بھی اس کے ترک پر وہی حدیث مسلم پیش کرتے ہیں جسے آپ پیش کررہے ہیں۔
تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین پر اختلاف سے متعلق ہم ایک الگ مضمون جلد ہی پیش کریں گے۔
نیزاسی طرح مالکیہ قیام میں ارسال یدین کے قائل ہیں اب اگر وہ وضع یدین کی احادیث سے متعلق یہ مطالبہ کریں کہ ان میں تاحیات کی صراحت دکھلاؤ تو کیا کہ مطالبہ درست ہے؟؟؟
محترم جو شخص اعمال صلاۃ میں سے کسی عمل کی بابت تاحیات کا قائل ہے اس کے لئے بس یہی کافی ہے کی کسی صحیح حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل پیش کردے ، تاحیاۃ کی صراحت پیش کرنا اس کے ذمہ نہیں ہے ، بلکہ جو ترک یا نسخ کا مدعی ہے اسی پر لازم ہے کہ ترک یا نسخ کی دلیل پیش کرے اور اگر نہ پیش کرسکے تو اعمال صلاۃ میں سے یہ عمل اصلا دائمی ہی تسلیم کیا جائے گا۔
مثال کے طور پر قیام نماز ، میں ارسال یدین کا مسئلہ ہے میرے ناقص علم کی حدتک کسی بھی حدیث میں اس عمل سے متعلق تاحیاۃ کی صراحت نہیں ہے ، تو کیا آپ اسے دائمی تسلیم نہیں کریں گے؟؟؟

اس مسئلہ پر میری پہلے سے تحقیق نہیں ۔ میں اپنی طرف سے کچھ کہنا نہیں چاہوں گا اور خواخواہ باتیں نہیں کروں گا ۔ کیوں کہ یہ پھر بحث برائے بـحث ہو گی ۔ کچھ کتب کے مطالعہ کے بعد ہی کچھ لکھوں گا۔ في الحال اس میں کچھ وقت لگے گا۔
کوئی بات نہیں ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے آپ اطمئنان سے تحقیق کریں اورجب بھی آپ کے سامنے کوئی موقف راجح قرار پائے اس سے آگاہ کریں، بارک اللہ فیک۔

کیا دلائل کے ساتھ تضعیف کا جواب یہی ہوتا ہے کہ فلاں نے اس کو صحیح کہا ہے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو بیسوں محدثین کے حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں جنہوں نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ایسی صورت میں آپ کیا کہیں گے۔
یہاں پھر وہی بات آئی جو میں کہ رہا ہوں ۔ اگر دو محدثین اگر دو مختلف بات کہ رہے تو ایک محقق کو جس کی بات راجح لگے اس کو قبول کرے اور اس کوافضل سمجھے ۔ حلال و حرام کا معاملہ نہ بنائے۔
محترم ہم یہاں ایک مسئلہ پر تحقیقی گفتگوکررہے ہیں ، کیا صحیح ہے اورکیا غلط ، اس لئے دلائل پر بات کریں تصحیح وتضعیف کسی دلیل کا نام نہیں ہے۔

اولا:
محترم امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو غیر حجت کسی نے نہیں کہا ہے وہ فی نفسہ ثقہ ہیں ، لیکن کبھی کبھار ثقہ سے بھی غلطی ہوجاتی ہے اصول حدیث میں یہ معروف بات ہے، اورجب اہل فن کسی خاص روایت کے بارے میں یہ مفسرجرح کردیں کہ یہاں اس ثقہ راوی کو وہم ہوا ہے تو اہل فن کی یہ بات حجت ہوگی، اسے اسی صورت میں نظر انداز کیا جاسکتا ہے جب دیگر محدثین اس جرح مفسر کی صراحت کے ساتھ تردید کردیں ، آپ کم از کم دو ایسے ثقہ محدثین کے حوالے پیش کریں جنہوں صراحت کے ساتھ یہ کہا ہوں کہ امام سفیان ثوری کو اس روایت میں وہم نہیں ہوا۔
جناب آپ نے مجھ سے تو صراحت کے ساتھ دو محدثین کے نام مانگے جنہوں نے یہاں کہا ہو کہ امام سفیان کو یہاں وہم نہیں ہوا لیکن خود ایک محدث کا نام بھی صراحت کے ساتھ نہ دیا کہ جس نے امام سفیان کی اس ورایت کے متعلق کہا ان کو وہم ہوا ہے ۔ابو حاتم کے بیان میں الفاظ ہیں "قال أبِي : ہذا خطأٌ ، يُقالُ : وہِم فیہا الثوری " يقال ۔ یہ کس کا قول ہے یقال سے ثابت ہوتا کہا جاتا ہے لیکں کون کہتا ہے یہ واضح نہیں ۔ یہ الفاظ مبہم ہیں ۔ آپ کس بنیاد پر اسے جرح مفسر کہ رہے میں جب کہ محدث کا نام تک معلوم نہیں۔
اولا:
میں نے جس چیز سے متعلق صراحت کی ہے وہ جرح کی تردید ہے ، یعنی کسی امام ناقد کا ایسا قول پیش کریں جس قول میں صراحت کے ساتھ مذکورہ جرح کا ازالہ ہو، اور آپ نے اس صراحت کے مطالبہ کو قائل کے نام سے جوڑ دیا !!!
ثانیا:
امام ابوحاتم رحمہ اللہ متاخرین میں سے کوئی عام امام نہیں ہیں ، بلکہ متقدمین میں سے امام ناقد اورامام حجت ہیں ، فن رجال میں امام حجت کا مطلب ہے جسے رواۃ پر جرح کی اٹھارٹی حاصل ہو ، اس پایہ کے ائمہ فن اگر برضاء رغب کسی کا قول نقل کریں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ امام اس قول سے متفق ہیں اب پیش رو قائل کوئی بھی ہو اس سے بحث نہیں کیونکہ ایک دوسرے امام حجت نے اسے برضاء رغبت نقل کیا ہے لہٰذا اس امام کی طرف سے بھی یہی جرح تسلیم کی جائے گی، اورمذکورہ عبارت پڑھ کرعام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ امام ابوحاتم نے مذکورہ بات سے متفق ہیں ۔
ثالثا:
میرا اقتباس دوبارہ ملاحظہ ہو:
وسألتُ أبِي عَن حدِيثٍ ؛ رواهُ الثّورِيُّ ، عن عاصِمِ بنِ كُليبٍ ، عن عَبدِ الرّحمنِ بنِ الأسودِ ، عن علقمة ، عن عَبدِ اللهِ أنَّ النّبِيّ صلى الله عليه وسلم قام فكبّر فرفع يديهِ ، ثُمّ لم يعُد.قال أبِي : هذا خطأٌ ، يُقالُ : ’’وهِم فِيهِ الثّورِيُّ‘‘.وروى هذا الحدِيث عن عاصِمٍ جماعةٌ ، فقالُوا كُلُّهُم : أنَّ النّبِيّ صلى الله عليه وسلم افتتح فرفع يديهِ ، ثُمّ ركع فطبّق وجعلها بين رُكبتيهِ ، ولم يقُل أحدٌ ما رواهُ الثّورِيُّ. علل الحديث [1 /96 رقم 258]
خط کشید الفاظ اور ملون بلون الاحمر الفاظ پر دھیان دیجئے اس کے بعد صدق دل سے بتائیے کہ یہ الفاظ کن کے ہیں ، محترم یقال کے ذریعہ جو بات نقل کی گئی ہے وہ بس اتنی ہے جتنی میں نے ہرے رنگ سے ملون اور واوین کے درمیان کیا ہے۔
ثالثا:
امام زیلعی فرماتے ہیں :
قال ابن أبي حاتم في " كتاب العلل ( ٨ ) " : سألت أبي عن حديث رواه سفيان الثوري عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة عن عبد الله أن النبي صلى الله عليه و سلم قام فكبر فرفع يديه ثم لم يعد فقال أبي : هذا خطأ يقال : وهم فيه الثوري فقد رواه جماعة عن عاصم وقالوا كلهم : إن النبي صلى الله عليه و سلم افتتح فرفع يديه ثم ركع فطبق وجعلهما بين ركبتيه ولم يقل أحمد ما روى الثوري انتهى . فالبخاري . وأبو حاتم جعلا الوهم فيه من سفيان [نصب الراية 1/ 293]
اب دیکھیں بعینہ اسی اقتباس کو نقل کرکے حنفیت کے ایک بہت بڑے امام یہ اقرار کررہے ہیں کہ امام ابوحاتم نے سفیان ثوری کو زیرنظر حدیث میں واہم قرار دیا ہے اور آپ کو اس اقتباس میں قائل کا نام ہی نظر ہی نہیں آتا، اب کس کی فہم عبارت کو درست سمجھے آپ کی یا آپ کے امام ذیلی امام زیلعی رحمہ اللہ کی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
رابعا:
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ امام ابوحاتم نے بھی زیر نظر حدیث کی روایت میں سفیان ثوری کو واہم قرار دیاہے، اگر اب بھی تسلی نہ ہو تو ’’یقال‘‘ کے قائلین سے بعض کے نام بھی سن لیں :
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
امام ابن آدم رحمہ اللہ
امام بخای رحمہ اللہ۔
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ قَالَ: نَظَرْتُ فِي كِتَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ لَيْسَ فِيهِ: ثُمَّ لَمْ يَعُدْ . فَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ .[رفع اليدين في الصلاة ص: 33]
مذکورہ عبارت کا مفاد یہی ہے کہ عاصم بن کلیب سے دیگر رواۃ نے سفیان ثوری کے برعکس روایت کیا ہے ، بالفاظ دیگر سفیان ثوری کو اپنی روایت میں وہم ہوا ہے۔

پہلے آپ نے سفیان کو مدلس کہا ۔ جب میں آمیں بالجہر میں آپ حضرات کی تحقیقی دکھائی تو آپ نے ان فی نفسہ ثقہ کہا
اولا:
تعجب ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں ، محترم بھائی کیا مدلس اور ثقہ میں تضاد ہے ؟ محترم کسی کو مدلس کہہ دینے سے اس کی ثقاہت کا انکار لازم نہیں آتا۔
ثانیا:
آپ کی اس عبارت سے لگتا ہے کہ آپ کی نظرمیں ہم نے سفیان کو مدلس ماننے سے رجوع کرلیا ہے ، اور انہیں مدلس کے بجائے ثقہ کہہ رہے ہیں۔
جناب ہم اب بھی اپنی پہلی بات پر قائم ہیں ، ہم اب بھی کہتے ہیں کہ سفیان مدلس ہیں ، اورساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ سفیان ثقہ بھی ہیں، اس باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
پھر آپ نے ان کے عن سے روایت کرنے پر اعتراض کیا ، آپ اپنے حضرات کی سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت دیکھ لیں ۔ وہاں اپ حضرات ان کی روایت سے حجت بھی پکڑ رہے ہیں اور سفیان عن سے روایت کررہے ہیں ۔ یہ کیوں ؟
نوٹ: ہمارے نزدیک راجح یہی قرار پایا ہے کہ سفیان ثوری کا عنعنہ عام حالات میں مقبول ہے الا یہ کہ تدلیس کی دلیل مل جائے ۔ اس بناپر سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت کو سفیان ثوری کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قراردینا درست نہیں ہے۔
البتہ جن مدلسین کا عنعنہ مقبول ہوتاہے ان کا بعض عنعنہ بھی قرائن کی بناپررد کیا جاتاہے ،چونکہ رفع الیدین والی یہ روایت متواتر روایت کے خلاف ہے اس لئے خاص اس جیسے مقام پر سفیان ثؤری کے عنعنعہ پر اعتراض بھی کیا جاسکتاہے۔
لیکن چونکہ یہ بنیادی علت نہیں ہے اس لئے ہم اس اعتراض سے صرف نظر کرتے ہیں۔


یہ ميں مثال سے کہ چکا ہوں فی الصلاہ اور الدخول في الصلاہ میں بہت فرق ہے ۔
اولا:
اورمیں واضح کرچکا ہوں کہ آپ کی مثال بے محل ہے۔
ثانیا:
بات فرق کی نہیں ہے بات یہ ہے یہ تکبیر تحریمہ والا رفع الیدین خواہ اس کی کیفیت کچھ بھی ہو ’’فی الصلاۃ‘‘ میں داخل ہے یا نہیں ؟ اگر داخل ہے تو حدیث مسلم کی زد میں یہ بھی آئے گا اور اگرداخل نہیں ہے تو اس کی دلیل دیں۔
آپ نے لفظ ٍ ’’فی الصلاۃ‘‘ سے استدلال کیا تھا ہم نے ایسی احادیث پیش کردیں جن میں تکبیر تحریمہ کے لئے بھی ’’فی الصلاۃ‘‘ کے الفاظ ہیں ، اب آپ فرق کی بات کررہے ہیں کیا فرق ثابت ہوجانے سے وہ یہ چیز نماز سے خارج ہوجائے گی۔
ثالثا:
حدیث مسلم میں ’’صرف فی الصلاۃ ‘‘ کے الفاظ ہیں ان میں ’’فی وسط الصلاۃ‘‘ کے الفاظ ہر گز نہیں ہیں، پھر آپ اسے درمیان صلاۃ کس دلیل کی بناپر لے رہے ہیں ۔
رابعا:
آپ یہ بتائیں کہ تکبر تحریمہ والا رفع الیدین اعمال نماز میں شامل ہے یا نہیں۔
خامسا:
آپ یہ بتائیں کہ سکون فی الصلاۃ کا حکم ہے تو کیا تکبر تحریمہ کے وقت اس پرعمل نہیں ہوگا بالفاظ دیگر کیاتکبرتحریمہ کے وقت سکون اپنانا ضروی نہیں ہے۔
سادسا:
بخاری کی یہ حدیث دیکھیں:
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عِيسَى هُوَ ابْنُ يُونُسَ عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ الحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، قَالَ: قَالَ لِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ: إِنْ كُنَّا لَنَتَكَلَّمُ فِي الصَّلاَةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ أَحَدُنَا صَاحِبَهُ بِحَاجَتِهِ، حَتَّى نَزَلَتْ: {حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ، وَالصَّلاَةِ الوُسْطَى، وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ} [البقرة: ٢٣٨] «فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ»
[صحيح البخاري 2/ 62 رقم 1200]
خط کشیدہ الفاظ پر غور کریں صحابی کہہ رہے ہیں کہ ہم ’’فی الصلاۃ‘‘ بات کرتے تھے اور پھر ہمیں خاموش رہنے کاحکم دیا گیا، تو کیا اس ’’فی الصلاۃ ‘‘ میں نماز کا ابتدائی حصہ اورآخری حصہ شامل نہیں ہے؟؟؟؟
سابعا:
ایک اورحدیث دیکھیں :
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا كَبَّرَ فِي الصَّلَاةِ، سَكَتَ هُنَيَّةً قَبْلَ أَنْ يَقْرَأَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَرَأَيْتَ سُكُوتَكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ، مَا تَقُولُ؟ قَالَ " أَقُولُ: اللهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللهُمَّ نَقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالثَّلْجِ وَالْمَاءِ وَالْبَرَدِ "
[صحيح مسلم 1/ 419 رقم (598)]
خط کشید الفاظ پر غور کریں اور بتلائیں کہ تکبر تحریمہ کے محل پر ’’فی الصلاۃ ‘‘ کا اطلاق کیسے ہوگیا؟؟؟؟
ثامنا:
جس حدیث میں یہ ہے کہ بوقت سلام صحابہ رفع الیدین کے کرتے تھے اس کے بھی کئی طرق میں’’ اسکنوا فی الصلاۃ ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں اوریہ سب کو معلوم ہے کہ سلام نماز کے اخیر میں ہوتا ہے جس طرح تکبیر تحرمہ نماز کے شروع میں ہوتا ہے ،پھرآپ بتلائیں کہ نماز کے اس اخیر حصہ کے لئے لئے ’’فی الصلاۃ ‘‘ کیسے کہہ دیا گیا۔
تاسعا:
لطف تو یہ ہے کہ مسلم کی مستدل حدیث میں بھی فی الصلاۃ سے مراد نماز میں بوقت سلام والا محل ہے جو کہ نماز کا آخری حصہ ہے اور اسے زبردستی وسط صلاۃ مراد لیا جارہاہے۔
عاشرا:
اگر کوئی سوال کرے کہ احناف حضرات ’’نماز میں‘‘ رفع الیدین کرتے ہیں کہ نہیں؟ تو کیا اس کا یہ جواب ہوگا کہ نہیں ؟

اگر کہا جائے گھر میں داخل ہو اور گھر میں بلا حرکت کھڑے رہو تو ایک شخص في الیبت تو بلا حرکت کھڑا ہوگا اور جب داخل ہو گا تو لازمی حرکت کرے گا لیکن اس کو کہا جائے گا دخل في البیت ۔ یہاں بھی فی کا لفظ ہے لیکن کوئی بھی یہ نہ کہے گا کہ اس نے گھرمیں کوئی حرکت کی ۔
مثال دینے سے پہلے حرکت کی نوعیت کا تعین کرلیں ، ورنہ آپ کی مثال بے محل ہوگی، زیر بحث حدیث میں حرکت سے مراد ہاتھ اٹھانا ہے ، اب اپنی مثال پر آئے کسی کو کہا جائے کہ’’ گھر میں‘‘ داخل ہوجاؤ اور’’گھر میں‘‘ ہاتھ مت اٹھانا پھر اگر وہ گھر کے ابتدائی حصہ میں ہاتھ اٹھائے تو کیا وہ ممنوعہ فعل کا مرتکب ہوگا کہ نہیں۔

جب کسی چیز سے مثال دی جاتی ہے تو اس کہ یہ مطلب نہیں کہ وہ چیز ہو بہو ویسے ہی ہو گی۔
یہ سب کو پتہ لیکن وجہ مماثلت میں تو یکسانیت ہونی چاہئے، لیکن آپ کی مثال میں یہ مفقود ہے۔

قرآن میں منافقین کے اعمال کی ایک مثال آگ جلانے والے سے دی گئی اس کی مذید تفصیل آپ تفاسیر میں دیکھ سکتے ہیں تو کیا منافقین کے لئیے سردیاں اچھی ہوتی ہیں اور معاذ اللہ ہر ایک کو سردیوں میں منافق ہوجانا چاہئیے۔
اولا:
وضاحت کی جاچکی ہے۔
ثانیا :
آپ کی یہ نئی مثال بھی بے محل ہے۔

ٹرین والی اس مثال سے بتانا مقصود ہے کہ ہر عمل کے ابتدائی بیچ اور آخری حصہ کی کیفیت الگ ہوتی ہے۔
اولا:
یہاں یہ بحث نہیں ہے کیفیت الگ الگ ہے بلکہ بحث یہ ہے کہ یہ تمام کیفیت نماز میں شامل ہے یا نہیں ۔
ثانیا:
آپ نے مثال میں ٹرین کی رفتار کی کمی وزیادتی سے استدلال کیا تھا جب کہ نماز میں اس رفتار کا کوئی وجود نہیں ۔

وتر کا رفع الیدین اس سے مستثنی ہے
عَنْ عَبْدِ اللہِ بن مسعود –رضي اللہ عنہ- : (( أَنّہُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْہِ فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ ))(رواه ابن أبي شيبہ (2/307) ، والبخاري في جزء رفع اليدين (91) ، وابن المنذر في الاوسط رقم (2671) ، والبيہقي في سننہ رقم (5062)
وتر کے رفع الیدین کے اثبات میں صحیح حدیث موجود ہے لیکن ترک میں کوئی صحیح حدیث میرے ناقص عمل کس مطابق نہیں تو یہ رفع الیدن کیا جائے گا ۔ اسکنوا في الصلاہ عام حکم ہے لیکن وتر کا استثناء حدیث میں مزکور ہے تو وتر میں رفع الیدین کیا جائے گا۔
چلئے آپ نے یہ تسلیم کرلیا کہ اس حکم سے استثنا ء بھی ہوسکتا ہے پھر تو سارامعاملہ ختم کیونکہ رکوع والے رفع الیدین کا استثناء بھی موجود ہے ، حدیث پہلے پیش کی جاچکی ہے۔

ثالثا:
محترم بھائی ! نماز میں رفع الیدین کرنا کیا ٹرین سے چھلانگ لگانے کی طرح ہے ، ابتسامہ مع استغفراللہ ۔
بھائی جی ٹرین سے چھلانگ لگانے کے بعد آدمی ٹرین سے الگ ہوجاتا ہے تو کیا آپ حضرات بھی پہلا رفع الیدین کرکے نماز سے الگ ہوجاتے ہیں ۔
میں بتاچکا ہوں کہ مثال کیوں پیش کی۔ اس کا جواب اوپر آچکا ہے۔
اولا:
میرے اس سوال کاجواب کہاں ہے کہ کیا آپ حضرات بھی پہلا رفع الیدین کرکے نماز سے الگ ہوجاتے ہیں ۔
ثانیا:
یہ بھی بتائیں کہ تکبرتحریمہ ولارفع الیدن ’’نماز میں‘‘ شامل ہے یا نہیں ؟ یاد رہے کہ مسلم کی حدیث میں ’’فی الصلاۃ ‘‘ کے الفاظ ہیں نہ کہ ’’فی وسط الصلاۃ ‘‘ کے الفاظ۔
اگر دو الگ واقعات کے بیان میں ایک جیسے الفاظ ہوں تو آپ کے نذیک وہ ایک واقعہ ہے۔ یہ عجیب دلیل سنی میں نے۔
یہ عجیب سمجھ ہے میں نے کہاں کہا ہے یہ دونوں ایک ہی واقعہ ہے میں نے بحث کو مختصر کرنے کے لئے بطور تنزل یہ کہہ رکھا ہے اگر دو واقعہ مان لیں تب بھی دوسرے واقعہ سے پہلے واقعہ کی توضیح ہوجاتی ہے، کیونکہ دونوں واقعات کی اصل نوعیت ایک ہی ہے، میری پوری بات پھر سے پڑھیں، اس کے بعد کچھ لکھیں۔

اگر آپ یہ کہتے تو زیادہ بہتر تھا کہ یہ احتمال ہے کہ دونوں حدیثیں سلام کے وقت والے رفع الیدین کی نہیں ہیں
ابھی تک صرف پہلی حدیث سلام سے متعلق یہ احتمال تھا کہ وہ سلام سے متعلق نہیں ہے اب دوسری حدیث سے متعلق بھی یہی کہا جانے لگا کہ اس کے سلام سے متعلق ہونے میں احتمال ہے۔ نصوص سے روگردانی کی یہ بہت بڑی مثال ہے کیونکہ دوسری حدیث میں بوقت سلام کی صراحت موجودہے اورکسی چیز کے صراحت مذکور ہونے کے بعد بھی اس کے عدم پر احتمال پیش کرنا معلوم نہیں کہاں کی سمجھ ہے۔

امام بخاری 194 ہجری میں پیدا ہو‎ئے اور امام یحیی بن معین 157 ہجری میں پیدا ہوئے ۔ امام یحیی بن معین کا قول امام بخاری تک کیسے پہنچا ۔ سند بتائیے ۔
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
آپ نے یہ سوال کرکے میرے خیال سے سب کو حیران کردیا ہے ، خط کشیدہ الفاظ پر دھیان دیں ، آپ نے دو اماموں کی تاریخ پیدا ئش الگ الگ پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ان دونوں کا زمانہ الگ الگ ہے؟؟؟
بھائی میں نے جتنے بھی اساتذہ سے کچھ سیکھا ہے سب کی تاریخ پیدائش میری تاریخ پیدائش سے الگ ہے تو کیا یہ بات پیش کرکے کہاجا سکتا ہے مجھ تک میرے اساتذہ کی تعلیمات کیسے پہنچیں؟؟؟
محترم بھائی ! امام یحیی بن معین امام بخاری کے استاذ ہیں اس میں کسی کا اختلاف نہیں ،پھر یہ مطالبہ کرنا کہ امام یحیی بن معین کا قول امام بخاری تک کیسے پہنچا ۔ سند بتائیے ۔ بہت ہی حیران کن ہے، آپ صرف صحیح بخاری دیکھ لیتے تو آپ کو معلوم ہوجاتا کہ امام یحیی بن معین سے امام بخاری کا سماع ثابت ہے یہ لیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
امام بخاری نے رحمہ اللہ نے خود کہہ رکھا ہے کہ میں نے یحیی بن معین سے سنا بخاری میں ہے:
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ
[صحيح البخاري 2/ 145]
صحیح بخاری ہی میں امام بخاری فرماتے ہیں :
حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، وَصَدَقَةُ، قَالاَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: «ارْقُبُوا مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَهْلِ بَيْتِهِ»
[صحيح البخاري 5/ 26 رقم 3751 ]
اس کے علاوہ متعدد ایسی سندیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے استاذ یحیی بن معین سے تحدیث وسماع کے صیغہ سے روایت کیا ہے۔

یہاں امام احمد کا باطل کہنا جرح مفسر نہیں ۔ کیوں انہوں نے باطل کہنے کی وجہ بیان نہیں کی ۔
امام احمد رحمہ اللہ کا پورا کلام یہ ہے :
رواه أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، عن ابن عمر، وهو باطل.
یعنی امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہنے سے پہلے اس کی متغیر سند پیش کی ہے یعنی سند کے اس سیاق کوباطل کہا ہے کیونکہ ابوبکر بن عیاش پہلے اسی روایت کو دوسرے انداز سے روایت کرتے تھے مگر اس سیاق میں ان سے وہم ہوا ہے اسی کو امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے۔

میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اس روایت کو جرح مفسر کے ساتھ بیان کرنے والے تین محدثین کے اقوال نقل کریں۔
یہ سوال آپ تب کریں جب کم از کم دو ائمہ ناقدین سے تعدیل مفسرثابت کردیں۔

مذید کیا ان راویوں میں کوئی ضعیف ہے ؟ کیا یہ بخاری کے راوی نہیں ؟
وہم ، شذوذ اورتدلیس کی بات ہو تو راوی کے ثقہ ہونے اوربخاری میں ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ، یہ عام اصول ہے معلوم نہیں کیونکہ آپ نظرپوشی کررہے ہیں ۔

اور دوسری روایت میں اسود کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی اور انہوں نے صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کیااس کا مطلب ہے عبداللہ بن عمر رفع الیدین ترک کرجکے تھے
یہ روایت میں کافی کوشش کے باوجود بھی مصنف ابن ابی شیبہ میں تلاش نہیں کرسکا اگر آپ الفاظ مع حوالہ نقل کردیں توبڑی مہربانی ہوگی۔
آپ نے میری اس بات کا جوا ب نہیں دیا !!!

ہم مذاق نہیں اڑاتے صرف حدیث کے الفاظ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْخَيْلِ الشُّمُسِ کا ترجمہ کرتے ہیں
رفع الیدین جیسی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے والوں پر منطبق کرتے ہوئے اس حدیث کا ترجمہ کرنا بھی کسی گستاخی سے کم نہیں ہے احناف سمیت پوری امت مسلمہ کو یہ تسلیم ہے کہ رکوع والے رفع الیدین پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عمل کیا ہے تو کیا جب جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سنت پر عمل کیا ہے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر بھی یہ الفاظ منطبق ہوں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟


برابھلا تو دور کی بات ہے ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ رفع الیدین کرنے والوں کو قتل تک کی دھمکی دی گئی ہے۔
ثبوت بیش کریں ۔ اورکسی شخص کے انفرادی عمل کو پوری جماعت پر چپپاں نہ کریں۔
ابن العربي المالكي فرماتے ہیں:
ولقد كان شيخنا أبو بكر الفهري يرفع يديه عند الركوع، وعند رفع رأسه منه، فحضر عندي يوماً بمحرس ابن الشوّاء بالثّغر، موضع تدريسي عند صلاة الظهر، ودخل المسجد من المحرس المذكور، فتقدّم إلى الصف الأول، وأنا في مؤخره قاعد على طاقات البحر، اتنسم الرّيح من شدّة الحر، ومعه في صف واحد أبو ثمنة رئيس البحر وقائده مع نفرٍ من أصحابه، ينتظر الصلاة.فلما رفع الشيخ يديه في الركوع وفي رفع الرأس منه، قال أبو ثمنة لأصحابه: ألا ترون إلى هذا المشرقي، كيف دخل مسجدنا؟! فقوموا إليه فاقتلوه، وارموا به البحر، فلا يّراكم أحد. فطار قلبي من بين جوانحي، وقلت: سبحان الله هذا الطُّرطُوشي، فقيه الوقت!!فقالوا لي: ولم يرفع يديه؟ فقلت: كذلك كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يفعل، وهو مذهب مالك في رواية أهل المدنية عنه ، وجعلت أسكنهم وأسكتهم حتى فرغ من صلاته، وقمت معه إلى المسكن من المحرس، ورأى تغير وجهي فأنكره، وسألني، فأعلمتُه، فضحك، وقال: من أين لي أن أقتل على سنة؟ فقلت له: لا يحل لك هذا، فإنك بين قومٍ إن قمت بها قاموا عليك، وربما ذهب دمك! فقال: دع هذا الكلام، وخذ في غيره
[أحكام القرآن: (4/1900) . ونقلها عنه: القرطبي في ((التفسير)) : (19/ 279) والشاطبي في ((الاعتصام)) : (1/295) . ]
 
Last edited:

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
صحیح مسلم کی حدیث کو بعض لوگ خواہ مخواہ رکوع والے مسنون رفع الیدین پر فٹ کرتے ہیں حالانکہ رکوع والے رفع الیدین میں ہاتھ اوپر نیچے اٹھائے جاتے ہیں جبکہ گھوڑ جب اپنی دم ہلاتا ہے تو دائیں اور بائیں ہلاتا ہے ، ثبوت کے لئے ذیل کی ویڈیو ملاحظہ فرمائیں:

 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
صحیح مسلم کی حدیث کو بعض لوگ خواہ مخواہ رکوع والے مسنون رفع الیدین پر فٹ کرتے ہیں
خواہ مخواہ نہیں میرے بھائی یہ تقلید کی بیماری ہے جس سے مجبور ہوکر قرآن و حدیث میں بھی تاویلات اور مغالطے پیدا کر دئے جاتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو کتاب و سنت پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین


تنبیہہ: جملے کا ڈھانچہ کچھ بدلا گیا ہے۔۔انتظامیہ
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
میں نے بطورتنزل ایک بات کہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ یہ استدلال کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کی صحت ثابت ہوجائے تو جواز الامرین کا ثبوت فراہم ہوجائے گا، کیونکہ صحت کے ثبوت کے باوجود بھی یہ روایت جواز الامر ین کی دلیل نہیں ہوگی
کبھی آپ کہ رہے ہیں کہ جواز الامرین کی دلیل ہو سکتی ہے اور اب کہ رہے ہیں کہ نہیں ہو گی ۔

، جیساکہ بہت سے اہل علم نے اسے صحیح فرض کرنے کے باوجود بھی جواز الامرین کی دلیل نہیں مانا ہے کیونکہ دیگر کئی چیزوں کے احتمالات ہیں، مثلا:
١:عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کرتے وقترفع الیدین کرنا بھول گئے ہوں جیسے اوربھی بہت سی چیزیں آپ رضی اللہ عنہ بھول گئے تھے، کیونکہ تمام صحابہ میں سے کسی ایک نے بھی تر ک کی بات نہیں روایت کی ہے حتی کہ سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت کا شرف حاصل کرنے والے خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ایسی کوئی روایت نقل نہیں کی ہے بلکہ اس کے برعکس اثبات رفع کی روایت نقل کی ہے، بلکہ بعض اہل علم کے بقول خودا بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف اثبات رفع کی روایت بھی منسوب ہے امام ابن االملقن فرماتے ہیں:
قَالَ الْبَيْهَقِيّ فِي «خلافياته» ويعارضه بِأَنَّهُ قد رَوَى حَدِيثا مسلسلًا عَن عَلْقَمَة، عَن عبد الله، عَن النَّبِي - صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم - ذكر فِيهِ الرّفْع عِنْد الرُّكُوع وَالرَّفْع مِنْهُ [البدر المنير 3/ 492]
لیکن اس روایت تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی ، واللہ اعلم۔
٢:عدم رفع سے سے مراد تکبیر تحریمہ کے وقت ایک سے زائد والا رفع ہو جیساکہ عیدین کی نماز میں ہوتاہے۔
٣: عدم رفع کا یہ عمل اس وقت کا ہو جب تطبیق مشروع تھی اور تطبیق کے نسخ کے ساتھ ساتھ یہ کیفیت بھی منسوخ ہوئی اورابن مسعورضی اللہ عنہ ان دونوں سے لاعلم رہے جیساکہ اوربھی بہت سی چیزوں سے آپ واقف نہ ہوسکے۔
یہ احتمال کن محدثین سے لیئے ہیں حوالہ دیں ۔ جو محدثین اس حدیث کو صحیح بھی کہ رہے ہوں اور عدم رفع الیدین کے قائل بھی نہ ہوں۔ ان کے نام ضرور بتائیں

یہ دلیل ان سے طلب کی باتی ہے جن کا دعوی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی رفع الیدین ترک نہیں کیا ، اگر آپ کا بھی یہ دعوی ہے تو آپ سے بھی دلیل مانگی جائے گی۔
جن کا دعوی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی رفع الیدین ترک نہیں کیا آپ ان سے بھی یہ مطالبہ نہیں کرسکتے ، کیونکہ ان کا یہ بھی تو دعوی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیرتحریمہ والا رفع الیدین بھی کبھی ترک نہیں کیا ہے ، پھر آپ اس رفع الیدین سے متعلق یہی مطالبہ کیونکہ نہیں کرتے ؟؟؟ اسی طرح احناف کا بھی یہی دعوی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی تکبیر تحریمہ والا رفع الیدین ترک نہیں کیا ، پھر کیا احناف سے یہ مطالبہ درست ہوگا کہ وہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین سے متعلق تاحیاۃ کی صراحت دکھلائیں ؟؟؟
واضح رہے کہ خود کو مسلمان کہنے والا ایک فرقہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کو بھی منسوخ مانتا ہے اور اس مسئلہ پر ان کی طرف سے مستقل کتابیں لکھی جاچکی ہیں جو نیٹ کے متعدد صفحات پر موجود ہیں، بلکہ یہی بات بعض تابعین کی طرف بھی منسوب ہے اولطف تو یہ ہے کہ خود عبداللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ سے بھی تکبرتحریمہ والے رفع الیدین کے ترک کی ایک روایت منقول ہے ، اگر اس موقف کے حاملین آپ سے مطالبہ کریں کہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے دوام کی صراحت دکھلائیں تو کیا یہ مطالبہ درست ہے؟؟؟
لطف تو یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کے تارکین بھی اس کے ترک پر وہی حدیث مسلم پیش کرتے ہیں جسے آپ پیش کررہے ہیں۔
تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین پر اختلاف سے متعلق ہم ایک الگ مضمون جلد ہی پیش کریں گے۔
نیزاسی طرح مالکیہ قیام میں ارسال یدین کے قائل ہیں اب اگر وہ وضع یدین کی احادیث سے متعلق یہ مطالبہ کریں کہ ان میں تاحیات کی صراحت دکھلاؤ تو کیا کہ مطالبہ درست ہے؟؟؟
محترم جو شخص اعمال صلاۃ میں سے کسی عمل کی بابت تاحیات کا قائل ہے اس کے لئے بس یہی کافی ہے کی کسی صحیح حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل پیش کردے ، تاحیاۃ کی صراحت پیش کرنا اس کے ذمہ نہیں ہے ، بلکہ جو ترک یا نسخ کا مدعی ہے اسی پر لازم ہے کہ ترک یا نسخ کی دلیل پیش کرے اور اگر نہ پیش کرسکے تو اعمال صلاۃ میں سے یہ عمل اصلا دائمی ہی تسلیم کیا جائے گا۔
مثال کے طور پر قیام نماز ، میں ارسال یدین کا مسئلہ ہے میرے ناقص علم کی حدتک کسی بھی حدیث میں اس عمل سے متعلق تاحیاۃ کی صراحت نہیں ہے ، تو کیا آپ اسے دائمی تسلیم نہیں کریں گے؟؟؟
اصل میں کئی متشدد یہ سوال کرتے ہیں کہ صحیح حدیث سے صراحت کے ساتھ دکھاؤ کہ امام ابو حنیفہ کی تقلید کرنی چاھئیے اس طرح کے سوالات کے جوابات میں کچھ حنفی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حدیث دکھاؤ جس میں صراحت کے ساتھ ذکر ہو کہ رکوع والا رفع الیدین ہمیشہ کرنا ہے ۔ میرے حساب سے دونوں اطراف کے یہ سوالات غلط ہیں۔

محترم ہم یہاں ایک مسئلہ پر تحقیقی گفتگوکررہے ہیں ، کیا صحیح ہے اورکیا غلط ، اس لئے دلائل پر بات کریں تصحیح وتضعیف کسی دلیل کا نام نہیں ہے۔
اگر کوئی محدث کسی حدیث کو بیان کرکے اس صحیح یا ضعیف کہے اور کوئی دلیل بیان نہ کرے تو آپ کے نذدیک اس کا حوالہ بطور دلیل کے نہیں دیا جاسکتا ۔ کیا میں صحیح سمجھا ؟

امام ابوحاتم رحمہ اللہ متاخرین میں سے کوئی عام امام نہیں ہیں ، بلکہ متقدمین میں سے امام ناقد اورامام حجت ہیں ، فن رجال میں امام حجت کا مطلب ہے جسے رواۃ پر جرح کی اٹھارٹی حاصل ہو ، اس پایہ کے ائمہ فن اگر برضاء رغب کسی کا قول نقل کریں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ امام اس قول سے متفق ہیں اب پیش رو قائل کوئی بھی ہو اس سے بحث نہیں کیونکہ ایک دوسرے امام حجت نے اسے برضاء رغبت نقل کیا ہے لہٰذا اس امام کی طرف سے بھی یہی جرح تسلیم کی جائے گی، اورمذکورہ عبارت پڑھ کرعام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ امام ابوحاتم نے مذکورہ بات سے متفق ہیں ۔
میں نے جب بھی کوئی ایسا قول پیش کیا جس میں امام نے کسی دوسرے محدث کا قول ذکر کیا تو آپ کے فورم پر حضرات نے مجھ سے اس امام تک اس محدث کے قول کی سند پوچھی اور یہ بات درست بھی ہے ۔اور آپ ایک نامعلوم محدث کے ذکر شدہ قول سے حجت پکڑ رہے ہیں ۔ حیرت ہے
۔

امام زیلعی فرماتے ہیں :
قال ابن أبي حاتم في " كتاب العلل ( ٨ ) " : سألت أبي عن حديث رواه سفيان الثوري عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة عن عبد الله أن النبي صلى الله عليه و سلم قام فكبر فرفع يديه ثم لم يعد فقال أبي : هذا خطأ يقال : وهم فيه الثوري فقد رواه جماعة عن عاصم وقالوا كلهم : إن النبي صلى الله عليه و سلم افتتح فرفع يديه ثم ركع فطبق وجعلهما بين ركبتيه ولم يقل أحمد ما روى الثوري انتهى . فالبخاري . وأبو حاتم جعلا الوهم فيه من سفيان [نصب الراية 1/ 293]
اب دیکھیں بعینہ اسی اقتباس کو نقل کرکے حنفیت کے ایک بہت بڑے امام یہ اقرار کررہے ہیں کہ امام ابوحاتم نے سفیان ثوری کو زیرنظر حدیث میں واہم قرار دیا ہے اور آپ کو اس اقتباس میں قائل کا نام ہی نظر ہی نہیں آتا، اب کس کی فہم عبارت کو درست سمجھے آپ کی یا آپ کے امام ذیلی امام زیلعی رحمہ اللہ کی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آپ کوان حنفی علماء کی تحقیق نظر کیوں نہ آئی جنہوں نے اسی حدیث پر سفیان انثوری کے "وہم " کا دفاع کیا ۔ میں نے بھی اہل حدیث حضرات کے قول بطور دلیل نقل کیے تھے تو آپ نے یکسر رد کرتے ہوئے کہا تھا ایسے دلائل ہم بھی دیسکتے ہیں تو اب جنفی علماء سے دلائل کیوں ؟

:
مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ امام ابوحاتم نے بھی زیر نظر حدیث کی روایت میں سفیان ثوری کو واہم قرار دیاہے، اگر اب بھی تسلی نہ ہو تو ’’یقال‘‘ کے قائلین سے بعض کے نام بھی سن لیں :
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
امام ابن آدم رحمہ اللہ
امام بخای رحمہ اللہ۔
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ قَالَ: نَظَرْتُ فِي كِتَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ لَيْسَ فِيهِ: ثُمَّ لَمْ يَعُدْ . فَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ .[رفع اليدين في الصلاة ص: 33]
مذکورہ عبارت کا مفاد یہی ہے کہ عاصم بن کلیب سے دیگر رواۃ نے سفیان ثوری کے برعکس روایت کیا ہے ، بالفاظ دیگر سفیان ثوری کو اپنی روایت میں وہم ہوا ہے۔
اس میں سفیان الثوری کے وہم کے متعلق کوئی صریح الفاظ نہیں ۔

پہلے آپ نے سفیان کو مدلس کہا ۔ جب میں آمیں بالجہر میں آپ حضرات کی تحقیقی دکھائی تو آپ نے ان فی نفسہ ثقہ کہا

تعجب ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں ، محترم بھائی کیا مدلس اور ثقہ میں تضاد ہے ؟ محترم کسی کو مدلس کہہ دینے سے اس کی ثقاہت کا انکار لازم نہیں آتا۔
وہاں پر بطور اعتراض اور روایت کی رد میں کہا تھا ۔ اگر آپ کے ہاں مدلس کی روایت مردود نہیں تو پھر روایت کے رد مین اس وقت مدلس کیوں کہا ۔ سفیان کو مدلس کہنے کی اس وقت کیا ضرورت تھی ۔

پ نے لفظ ٍ ’’فی الصلاۃ‘‘ سے استدلال کیا تھا ہم نے ایسی احادیث پیش کردیں جن میں تکبیر تحریمہ کے لئے بھی ’’فی الصلاۃ‘‘ کے الفاظ ہیں ، اب آپ فرق کی بات کررہے ہیں کیا فرق ثابت ہوجانے سے وہ یہ چیز نماز سے خارج ہوجائے گی۔
لفظ "‌في " میں ہماری بات چیت کجھ بحث برائے بحث میں داخل ہو گئی ۔ اس کا ذمہ دار کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر بات کو آکے بڑہاتے ہیں ۔ اسکنوا في الصلاہ سے تمام رفع الیدین مراد لے لیتے ہیں۔ تکبیرہ تحریمہ والا رفع الیدین اس لئيے استثناء ہے کے اس کے ترک پر کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ۔ تو کیا رکوع والس رفع الیدین کے استثناء پر بھی کوئی صحیح حدیث ہے۔

میں پہلا پوسث ورڈ میں ٹائپ کرتا ہوں پھر فورم پر کاپی کرتا ہوں ۔ امام بخاری اور یحیی بن معین والا سوال کچھ غلط انفارمیشن کی وجہ سے ٹائپ کیا لیکن ڈیلیٹ کرنا بھول گیا ۔ پھر بھی آپ نے مفصل و مدلل جواب دیا ۔ جزاک اللہ خیرا ۔

امام احمد رحمہ اللہ کا پورا کلام یہ ہے :
رواه أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، عن ابن عمر، وهو باطل.
یعنی امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہنے سے پہلے اس کی متغیر سند پیش کی ہے یعنی سند کے اس سیاق کوباطل کہا ہے کیونکہ ابوبکر بن عیاش پہلے اسی روایت کو دوسرے انداز سے روایت کرتے تھے مگر اس سیاق میں ان سے وہم ہوا ہے اسی کو امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے۔
" ابوبکر بن عیاش پہلے اسی روایت کو دوسرے انداز سے روایت کرتے تھے مگر اس سیاق میں ان سے وہم ہوا ہے اسی کو امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے۔" یہ کس کا قول ہے ؟ حوالہ دیں


اور دوسری روایت میں اسود کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی اور انہوں نے صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کیااس کا مطلب ہے عبداللہ بن عمر رفع الیدین ترک کرجکے تھے
یہ روایت میں کافی کوشش کے باوجود بھی مصنف ابن ابی شیبہ میں تلاش نہیں کرسکا اگر آپ الفاظ مع حوالہ نقل کردیں توبڑی مہربانی ہوگی۔
آپ نے میری اس بات کا جوا ب نہیں دیا !!!
انشاء اللہ کل تک دوں گآ


برابھلا تو دور کی بات ہے ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ رفع الیدین کرنے والوں کو قتل تک کی دھمکی دی گئی ہے۔
ثبوت بیش کریں ۔ اورکسی شخص کے انفرادی عمل کو پوری جماعت پر چپپاں نہ کریں۔
میں نے کہا بھی تھا کہ کچھ افراد کا عمل پورے مسلک پر نہ تھوپیں ۔ پھر بھی آپ نے ثبوت میں چند افراد کا قول پیش کیا
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
میں نے لکھا تھا کہ اسود سے روایت کو عبداللہ بن عمر کے عدم رفع الیدین کو بیان کیا تھا ۔ جب کتاب دوبارہ ملاحظہ کی تو دیکھا یہ حضرت عمر کے عدم رفع الیدین کے متعلق ہے۔ شائد اسی لئیے آپ کوحوالہ نہیں ملا

حدثنا يحيى بن آدم، عن حسن بن عياش، عن عبد الملك بن أبجر، عن الزبير بن عدي، عن إبراهيم، عن الأسود، قال: صليت مع عمر، فلم يرفع يديه في شيء من صلاته إلا حين افتتح الصلاة (أخرجه ابن أبي شيبة في مصنفه )
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
کبھی آپ کہ رہے ہیں کہ جواز الامرین کی دلیل ہو سکتی ہے اور اب کہ رہے ہیں کہ نہیں ہو گی ۔
میں پہلے وضاحت کرچکا ہوں کہ میں نے بطور تنزل یہ بات کہی تھی۔

یہ احتمال کن محدثین سے لیئے ہیں حوالہ دیں ۔ جو محدثین اس حدیث کو صحیح بھی کہ رہے ہوں اور عدم رفع الیدین کے قائل بھی نہ ہوں۔ ان کے نام ضرور بتائیں
ہم نے اہل علم کی طرف یہ بات منسوب کی تھی اور یقینا بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اگر اس حدیث کو صحیح بھی مان لیں جب بھی یہ روایت ترک رفع کی دلیل نہیں بن سکتی مثلا علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
ثُمَّ لَوْ سَلَّمْنَا صِحَّةَ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ وَلَمْ نَعْتَبِرْ بِقَدَحِ أُولَئِكَ الْأَئِمَّةِ فِيهِ فَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْأَحَادِيثِ الْمُثْبِتَةِ لِلرَّفْعِ فِي الرُّكُوعِ وَالِاعْتِدَالِ مِنْهُ تَعَارُضٌ لِأَنَّهَا مُتَضَمِّنَةٌ لِلزِّيَادَةِ الَّتِي لَا مُنَافَاةَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْمَزِيدِ، وَهِيَ مَقْبُولَةٌ بِالْإِجْمَاعِ لَا سِيَّمَا وَقَدْ نَقَلَهَا جَمَاعَةٌ مِنْ الصَّحَابَةِ وَاتَّفَقَ عَلَى إخْرَاجِهَا الْجَمَاعَةُ[نيل الأوطار 2/ 211]

اگر کوئی محدث کسی حدیث کو بیان کرکے اس صحیح یا ضعیف کہے اور کوئی دلیل بیان نہ کرے تو آپ کے نذدیک اس کا حوالہ بطور دلیل کے نہیں دیا جاسکتا ۔ کیا میں صحیح سمجھا ؟
جی ہاں ۔

میں نے جب بھی کوئی ایسا قول پیش کیا جس میں امام نے کسی دوسرے محدث کا قول ذکر کیا تو آپ کے فورم پر حضرات نے مجھ سے اس امام تک اس محدث کے قول کی سند پوچھی اور یہ بات درست بھی ہے ۔اور آپ ایک نامعلوم محدث کے ذکر شدہ قول سے حجت پکڑ رہے ہیں ۔ حیرت ہے
۔
اپنی وہی بات پھر مت دہرائے میں نے جو جواب دیا ہے اس کے بارے میں لب کشائی کریں ، جواب پھر سے نقل کرہا ہوں :


امام ابوحاتم رحمہ اللہ متاخرین میں سے کوئی عام امام نہیں ہیں ، بلکہ متقدمین میں سے امام ناقد اورامام حجت ہیں ، فن رجال میں امام حجت کا مطلب ہے جسے رواۃ پر جرح کی اٹھارٹی حاصل ہو ، اس پایہ کے ائمہ فن اگر برضاء رغب کسی کا قول نقل کریں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ امام اس قول سے متفق ہیں اب پیش رو قائل کوئی بھی ہو اس سے بحث نہیں کیونکہ ایک دوسرے امام حجت نے اسے برضاء رغبت نقل کیا ہے لہٰذا اس امام کی طرف سے بھی یہی جرح تسلیم کی جائے گی، اورمذکورہ عبارت پڑھ کرعام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ امام ابوحاتم نے مذکورہ بات سے متفق ہیں ۔
میرا اقتباس ایک بار پھر ملاحظہ ہو:
وسألتُ أبِي عَن حدِيثٍ ؛ رواهُ الثّورِيُّ ، عن عاصِمِ بنِ كُليبٍ ، عن عَبدِ الرّحمنِ بنِ الأسودِ ، عن علقمة ، عن عَبدِ اللهِ أنَّ النّبِيّ صلى الله عليه وسلم قام فكبّر فرفع يديهِ ، ثُمّ لم يعُد.قال أبِي : هذا خطأٌ ، يُقالُ : ’’وهِم فِيهِ الثّورِيُّ‘‘.وروى هذا الحدِيث عن عاصِمٍ جماعةٌ ، فقالُوا كُلُّهُم : أنَّ النّبِيّ صلى الله عليه وسلم افتتح فرفع يديهِ ، ثُمّ ركع فطبّق وجعلها بين رُكبتيهِ ، ولم يقُل أحدٌ ما رواهُ الثّورِيُّ. علل الحديث [1 /96 رقم 258]
خط کشید الفاظ اور ملون بلون الاحمر الفاظ پر دھیان دیجئے اس کے بعد صدق دل سے بتائیے کہ یہ الفاظ کن کے ہیں ، محترم یقال کے ذریعہ جو بات نقل کی گئی ہے وہ بس اتنی ہے جتنی میں نے ہرے رنگ سے ملون اور واوین کے درمیان کیا ہے۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

آپ کوان حنفی علماء کی تحقیق نظر کیوں نہ آئی جنہوں نے اسی حدیث پر سفیان انثوری کے "وہم " کا دفاع کیا ۔
ائمہ ناقدین کے مقابلہ میں حنفی علماء کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

میں نے بھی اہل حدیث حضرات کے قول بطور دلیل نقل کیے تھے تو آپ نے یکسر رد کرتے ہوئے کہا تھا ایسے دلائل ہم بھی دیسکتے ہیں تو اب جنفی علماء سے دلائل کیوں ؟
حنفی علماء کا کوئی قول میں دلیل میں نہیں پیش کررہا ہوں بلکہ ایک عربی عبارت ہے جسے سمجھنے میں آپ غلطی کررہے ہیں میں نے فہم عبارت میں امام زیلعی کا حوالہ پیش کیا تھا، عبارت سے جو مفہوم میں سمجھ رہا ہوں وہی مفہوم امام زیلعی نے بھی سمجھا ہے ، یہاں امام زیلعی کا کوئی قول نہیں پیش کیا گیا بلکہ قول تو امام ناقد کا ہے اور یہ قول عربی زبان میں ہے اور اس کا مفہوم سمجھانے کے لئے میں نے امام زیلعی کی عربی دانی کا حوالہ پیش کیا ہے۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ امام ابوحاتم نے بھی زیر نظر حدیث کی روایت میں سفیان ثوری کو واہم قرار دیاہے، اگر اب بھی تسلی نہ ہو تو ’’یقال‘‘ کے قائلین سے بعض کے نام بھی سن لیں :
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
امام ابن آدم رحمہ اللہ
امام بخای رحمہ اللہ۔
وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: عَنْ يَحْيَى بْنِ آدَمَ قَالَ: نَظَرْتُ فِي كِتَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ لَيْسَ فِيهِ: ثُمَّ لَمْ يَعُدْ . فَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّ الْكِتَابَ أَحْفَظُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا حَدَّثَ بِشَيْءٍ ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى الْكِتَابِ فَيَكُونُ كَمَا فِي الْكِتَابِ .[رفع اليدين في الصلاة ص: 33]
مذکورہ عبارت کا مفاد یہی ہے کہ عاصم بن کلیب سے دیگر رواۃ نے سفیان ثوری کے برعکس روایت کیا ہے ، بالفاظ دیگر سفیان ثوری کو اپنی روایت میں وہم ہوا ہے۔
اس میں سفیان الثوری کے وہم کے متعلق کوئی صریح الفاظ نہیں ۔
آپ ذرا اپنی یہ بات پڑھ لیں :
اصل میں کئی متشدد یہ سوال کرتے ہیں کہ صحیح حدیث سے صراحت کے ساتھ دکھاؤ کہ امام ابو حنیفہ کی تقلید کرنی چاھئیے اس طرح کے سوالات کے جوابات میں کچھ حنفی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حدیث دکھاؤ جس میں صراحت کے ساتھ ذکر ہو کہ رکوع والا رفع الیدین ہمیشہ کرنا ہے ۔ میرے حساب سے دونوں اطراف کے یہ سوالات غلط ہیں۔
یہی غلطی آپ یہاں کررہے ہیں اور لفظ ’’وہم ‘‘ کی صراحت تلاش کررہے ہیں ، جناب مذکورہ عبارت میں آپ کی مستدل روایت پر جرح ہے کی نہیں ؟ اگر نہیں تو دنیا میں پہلے شخص ہیں جو اس عبارت کا یہ مفہوم لے رہے ورنہ آپ کسی ایک عالم کا حوالہ دیں جس نے یہ کہا ہو کی اس عبارت میں آپ کی مستدل روایت پر جرح نہیں ہے۔
اور آپ اعتراف کریں کہ جرح ہے تو اسے وہم سے تعبیر کیا جائے یا خطاء سے بات ایک ہی ہے۔

پہلے آپ نے سفیان کو مدلس کہا ۔ جب میں آمیں بالجہر میں آپ حضرات کی تحقیقی دکھائی تو آپ نے ان فی نفسہ ثقہ کہا
کیا ان دونوں باتوں میں تضاد ہے؟؟؟
کیا کسی کو مدلس کہنا اس کی ثقاہت کا انکارہے ؟؟؟
محترم مؤدبانہ گذارش ہے کہ پہلے تدلیس کا مفہوم کسی سے سمجھ لیں۔

لفظ "‌في " میں ہماری بات چیت کجھ بحث برائے بحث میں داخل ہو گئی ۔ اس کا ذمہ دار کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر بات کو آکے بڑہاتے ہیں ۔ اسکنوا في الصلاہ سے تمام رفع الیدین مراد لے لیتے ہیں۔ تکبیرہ تحریمہ والا رفع الیدین اس لئيے استثناء ہے کے اس کے ترک پر کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ۔ تو کیا رکوع والس رفع الیدین کے استثناء پر بھی کوئی صحیح حدیث ہے۔
جی ہاں جس طرح تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کا اثبات موجود ہے اسی طرح رکوع والے رفع الیدین کا اثبات بھی موجود ہے ملاحظہ ہو:
عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ " إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ "، وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [صحيح البخاري 1/ 148]

میں پہلا پوسث ورڈ میں ٹائپ کرتا ہوں پھر فورم پر کاپی کرتا ہوں ۔ امام بخاری اور یحیی بن معین والا سوال کچھ غلط انفارمیشن کی وجہ سے ٹائپ کیا لیکن ڈیلیٹ کرنا بھول گیا ۔ پھر بھی آپ نے مفصل و مدلل جواب دیا ۔ جزاک اللہ خیرا ۔
اچھا یہ اعتراف کرنے کے بعد کیا بات ختم ہوگئی ؟؟؟
محتر م جب یہ ثابت ہوگیا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے امام یحیی بن معین سے سن رکھاہے تو اب امام ابن معین کا وہ قول بھی صحیح سند سے ثابت ہوا جسے میں نے پہلے پیش کیا تھا ، ملاحظہ ہو:
امام بخاری فرماتے ہیں :
قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ حُصَيْنٍ إِنَّمَا هُوَ تَوَهُّمٌ مِنْهُ لَا أَصْلَ لَهُ. [رفع اليدين في الصلاة ص: 20]
اب یہاں پر امام ناقد امام یحیی بن معین رحمہ اللہ پوری صراحت کے ساتھ جرح مفسر کرتے ہوئے مذکورہ روایت میں ابوبکر بن عیاش کے وہم کی صراحت کررہے ہیں ، اس جرح مفسر کا جواب کون دے گا؟؟؟؟؟؟؟؟

امام احمد رحمہ اللہ کا پورا کلام یہ ہے :
رواه أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، عن ابن عمر، وهو باطل.
یعنی امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہنے سے پہلے اس کی متغیر سند پیش کی ہے یعنی سند کے اس سیاق کوباطل کہا ہے کیونکہ ابوبکر بن عیاش پہلے اسی روایت کو دوسرے انداز سے روایت کرتے تھے مگر اس سیاق میں ان سے وہم ہوا ہے اسی کو امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے
۔
" ابوبکر بن عیاش پہلے اسی روایت کو دوسرے انداز سے روایت کرتے تھے مگر اس سیاق میں ان سے وہم ہوا ہے اسی کو امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے۔" یہ کس کا قول ہے ؟ حوالہ دیں
یہ قول امام بیہقی رحمہ اللہ کا ہے ملاحظہ ہو:
قال الشيخ أحمد ، وهذا الحديث في القديم كان يرويه أبو بكر بن عياش ، عن حصين ، عن إبراهيم ، عن ابن مسعود مرسلا . موقوفا ، ثم اختلط عليه حين ساء حفظه ، فروى ما قد خولف فيه ، فكيف يجوز دعوى النسخ في حديث ابن عمر بمثل هذا الحديث الضعيف ؟ [معرفة السنن والآثار للبيهقي 2/ 498، ]

ویسے تعجب ہے کہ بحث کو مختصر کرنے کی خاطر آپ نے اس روایت کو نظر انداز کیوں نہ کیا کیونکہ یہ روایت سرے سے مرفوع ہے ہی نہیں، اور ہم طریقہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بات کررہے ہیں۔

میں نے کہا بھی تھا کہ کچھ افراد کا عمل پورے مسلک پر نہ تھوپیں ۔ پھر بھی آپ نے ثبوت میں چند افراد کا قول پیش کیا
آپ نے سب سے پہلے کیا کہا تھا اسے ملاحظہ فرمالیں:
آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کسی حنفی نے رفع یدین کرنے والوں کو اس کے رفع یدین کرنے پر برا بھلا کہا ہو۔
آپ نے کسی کی بات کی تھی اور ہم نے کسی کاحوالہ پیش کردیا ہے۔
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
میں پہلے وضاحت کرچکا ہوں کہ میں نے بطور تنزل یہ بات کہی تھی۔
یعنی اگر یہ حدیث اگر صحیح ثابت ہوجائےتو بھی اپ اس میں مختلف احتمالات تلاش کریں گے ؟ یہ بات اگر کوئی حنفی کہتا تو کہا جاتا کہ یہ تقلید کی وجہ سے ہے ۔
کیا آپ صریح الفاظ چاہ رہے ہیں کہ حدیث میں ہوں کہ رفع الیدین کو ترک کیا گیا تھا ۔
یہی وہ وجہ جس کی وجہ سے احناف مطالبہ کرتے ہیں کہ صریح الفاظ میں دکھاؤ کہ رفع الیدین تاحیات کرنا ہے ۔ بہر جال میں بات کو آگے بڑہاتے ہوئے آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں آپ کے نذدیک رکوع والا رفع الیدین نماز کے ارکان میں سے ہے ؟ یعنی اگر کوئی نہ کرے تو کیا نماز ہوجائے گی ؟ آپ کا موقف کیا ہے ؟


امام ابوحاتم رحمہ اللہ متاخرین میں سے کوئی عام امام نہیں ہیں ، بلکہ متقدمین میں سے امام ناقد اورامام حجت ہیں ، فن رجال میں امام حجت کا مطلب ہے جسے رواۃ پر جرح کی اٹھارٹی حاصل ہو ، اس پایہ کے ائمہ فن اگر برضاء رغب کسی کا قول نقل کریں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ امام اس قول سے متفق ہیں اب پیش رو قائل کوئی بھی ہو اس سے بحث نہیں کیونکہ ایک دوسرے امام حجت نے اسے برضاء رغبت نقل کیا ہے لہٰذا اس امام کی طرف سے بھی یہی جرح تسلیم کی جائے گی، اورمذکورہ عبارت پڑھ کرعام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ امام ابوحاتم نے مذکورہ بات سے متفق ہیں ۔
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ذکر کرنے کے بعد امام ترمذی کا قول ديکھیں

باب ما جاء أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة
حدثنا هناد حدثنا وكيع عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة قال قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فلم يرفع يديه إلا في أول مرة قال وفي الباب عن البراء بن عازب قال أبو عيسى حديث ابن مسعود حديث حسن وبه يقول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين وهو قول سفيان الثوري وأهل الكوفة


ایک تو امام ترمذی یہ حدیث جس باب میں رکھی اس باب کا نام ہے
ما جاء أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة
یعنی امام ترمذی کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی رفع الیدین ترک کیا تھا ۔ یعنی یہ ابن مسعود کا بھولنا یا ان کی غلط فہمی کا نتیجہ نہ تھا ۔ اس لئیے باقی احتمالات رد ہوجاتے ہیں ۔


دوسری بات امام ترمذی کہ رہ ہیں کہ اس بارے میں کئی اہل علم صحابہ کا بھی یہی قول ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں راوی سفیان کو کوئی وہم نہیں ہوا ۔ کیوں کہ ان کی تائید میں کئی صحابہ کا قول ہے اور اس کی گواہی امام ترمذی دے رہے ہیں ۔
اگر آپ مجھ سے سند مانگیں کہ امام ترمذی تک صحابہ کا قول کیسے پہنجا تو میں آپ کے قول کے مطابق جواب دوں گا۔ امام ترمذی کوئی عام امام نہیں بلکہ حدیث میں ان کی ایک اتھارٹی ہے ۔ اگر وہ صحابہ کا قول بغیر سند کے نقل کرہے ہیں تو ان کے پاس کسی مستند دلیل سے پہنچا ہوگا ۔

میرا اقتباس ایک بار پھر ملاحظہ ہو:
وسألتُ أبِي عَن حدِيثٍ ؛ رواهُ الثّورِيُّ ، عن عاصِمِ بنِ كُليبٍ ، عن عَبدِ الرّحمنِ بنِ الأسودِ ، عن علقمة ، عن عَبدِ اللهِ أنَّ النّبِيّ صلى الله عليه وسلم قام فكبّر فرفع يديهِ ، ثُمّ لم يعُد.قال أبِي : هذا خطأٌ ، يُقالُ : ’’وهِم فِيهِ الثّورِيُّ‘‘.وروى هذا الحدِيث عن عاصِمٍ جماعةٌ ، فقالُوا كُلُّهُم : أنَّ النّبِيّ صلى الله عليه وسلم افتتح فرفع يديهِ ، ثُمّ ركع فطبّق وجعلها بين رُكبتيهِ ، ولم يقُل أحدٌ ما رواهُ الثّورِيُّ. علل الحديث [1 /96 رقم 258]
خط کشید الفاظ اور ملون بلون الاحمر الفاظ پر دھیان دیجئے اس کے بعد صدق دل سے بتائیے کہ یہ الفاظ کن کے ہیں ، محترم یقال کے ذریعہ جو بات نقل کی گئی ہے وہ بس اتنی ہے جتنی میں نے ہرے رنگ سے ملون اور واوین کے درمیان کیا ہے۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سفیان الثوری کو وہم ہوا ہے اور امام ابو حاتم کہ رہے ہیں تو اس کی تائید میں جو انہوں نے دلیل دی کہ
ولم يقُل أحدٌ ما رواهُ الثّورِيُّ
یعنی الثوری کے علاوہ کسی نے بھی ایسا رویات نہیں کیا ۔ یعنی بقول امام ابو حاتم السفیان الثوری اسے نقل کرنے میں میں منفرد ہیں ۔ نہیں بھائی ایسا نہیں ۔ اس روایت کے نقل کرنے میں تو سفیان الثوری منفرد ہوسکتے ہیں لیکن ان کی بات کی تصدیق میں کئی صحابہ کا قول بھی ہے (اوپر امام پرمذی کا قول دیکھين )
یعنی امام ابو حاتم کی وجہ علت غلط ہے ۔


آپ نے عبد اللہ بن عمر کی رفع الیدین والی روایت ذکر کي تھی اور میں نے عبد اللہ بن عمر کی مصنف ابی شیبہ کی ترک رفع الیدین والی روایت کی تھی جس پر آپ نے یہ اعتراضات کیے ۔

محتر م جب یہ ثابت ہوگیا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے امام یحیی بن معین سے سن رکھاہے تو اب امام ابن معین کا وہ قول بھی صحیح سند سے ثابت ہوا جسے میں نے پہلے پیش کیا تھا ، ملاحظہ ہو:
امام بخاری فرماتے ہیں :
قَالَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ حُصَيْنٍ إِنَّمَا هُوَ تَوَهُّمٌ مِنْهُ لَا أَصْلَ لَهُ. [رفع اليدين في الصلاة ص: 20]
اب یہاں پر امام ناقد امام یحیی بن معین رحمہ اللہ پوری صراحت کے ساتھ جرح مفسر کرتے ہوئے مذکورہ روایت میں ابوبکر بن عیاش کے وہم کی صراحت کررہے ہیں ، اس جرح مفسر کا جواب کون دے گا؟؟؟؟؟؟؟؟

امام احمد رحمہ اللہ کا پورا کلام یہ ہے :
رواه أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، عن ابن عمر، وهو باطل.
یعنی امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہنے سے پہلے اس کی متغیر سند پیش کی ہے یعنی سند کے اس سیاق کوباطل کہا ہے کیونکہ ابوبکر بن عیاش پہلے اسی روایت کو دوسرے انداز سے روایت کرتے تھے مگر اس سیاق میں ان سے وہم ہوا ہے اسی کو امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے
۔
" ابوبکر بن عیاش پہلے اسی روایت کو دوسرے انداز سے روایت کرتے تھے مگر اس سیاق میں ان سے وہم ہوا ہے اسی کو امام احمد رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے۔" یہ کس کا قول ہے ؟ حوالہ دیں
یہ قول امام بیہقی رحمہ اللہ کا ہے ملاحظہ ہو:
قال الشيخ أحمد ، وهذا الحديث في القديم كان يرويه أبو بكر بن عياش ، عن حصين ، عن إبراهيم ، عن ابن مسعود مرسلا . موقوفا ، ثم اختلط عليه حين ساء حفظه ، فروى ما قد خولف فيه ، فكيف يجوز دعوى النسخ في حديث ابن عمر بمثل هذا الحديث الضعيف ؟ [معرفة السنن والآثار للبيهقي 2/ 498، ]
يحی بن معین اور امام احمد بن حنبل کا یہاں اعتراض اصل میں راوی ابو بکر بن عیاش کی وجہ سے ہے ۔ جیسا کہ امام بہیقی کے قول سے بھی پتا چلتا ہے
۔ یہ اقوال اسی سند پر ہیں اور ابو ابکر بن عیاش کے متعلق ہیں ۔
ابو بکر بن عیاش صحیح بخاری کے راوی ہیں اور ان پر اعتراض اس وجہ سے ہے کہ آخری عمر میں کہا جاتا ہے کہ ان کا حافظہ خراب ہوگیا تھا لیکن اس اثریعنی عبد اللہ بن عمر کے عدم رفع الیدین کو نقل کرنے میں جیسا کہ طحاوی کی سند میں ہے ایک احمد بن يونس ہیں اور احمد يونس نے ابو بکر بن عیاش سے ان کے حافظے کمزور ہونے سے پہلا رویات کیا تھا کیوں امام بخاری نے احمد بن یونس عن ابو بکر بن عیاش کی سند سے کئی روایتیں ذکر کی ہیں ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top