کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
میں نے پہلے احتمال والی بات اہل علم کی طرف منسوب کی تھی اور آپ نے یہ سمجھا کہ یہ میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں اس لئے آپ نے اہل علم کا حوالہ طلب کیا، آپ کے مطالبہ پر حوالہ دے دیا گیا پھر بھی آپ اس کا ذمہ دار صرف مجھے بتلارہے ہیں !!!یعنی اگر یہ حدیث اگر صحیح ثابت ہوجائےتو بھی اپ اس میں مختلف احتمالات تلاش کریں گے ؟ یہ بات اگر کوئی حنفی کہتا تو کہا جاتا کہ یہ تقلید کی وجہ سے ہے ۔کیا آپ صریح الفاظ چاہ رہے ہیں کہ حدیث میں ہوں کہ رفع الیدین کو ترک کیا گیا تھا ۔
اورصریح الفاظ ترک پر نہیں رکوع والے رفع الیدین پر مطلوب ہیں، ازراہ کرم ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں۔
مارے گھٹنہ پھوٹے سر!یہی وہ وجہ جس کی وجہ سے احناف مطالبہ کرتے ہیں کہ صریح الفاظ میں دکھاؤ کہ رفع الیدین تاحیات کرنا ہے ۔
ہم ترک کے سلسلے میں ’رکوع والے رفع الیدین‘ کی صراحت مانگ رہے ہیں (نا کہ تاحیات کی صراحت) اب اگر آپ کو مقابلہ ہی کرنا تھا تو بطورمقابلہ آپ کو یہ مطالبہ کرنا تھا کہ آپ بھی اثبات والے رفع الدین میں’ رکوع کی صراحت‘ دکھاؤ۔
لیکن آپ تاحیاۃ جیسی صراحت کا مطالبہ کرکے خود اپنی متضاد سوچ کا ثبوت دے رہے ہیں ، یہ دکھانے کے لئے میں نے اصل تھریڈ شروع کیا تھا ، یعنی اگر دائمی رفع الیدین کے لئے تاحیاۃ کی صراحت ضروری تو آپ حضرات تکبیر تحریمہ والا رفع الیدین دائماً کرتے ہیں ، کیا اس میں تاحیاۃ کی صراحت ہے ؟؟؟؟
اسی طرح آپ حضرات نماز میں ہاتھ دائماً باندھتے ہیں تو کیا ہاتھ باندھنے والی احادیث میں تاحیاۃ کی صراحت ہے ؟؟؟
تاحیاۃ کا مطالبہ بالکل ہٹ دھرمی ہے کیونکہ فریقین میں یہ بات مسلم ہے کہ ترک کا ثبوت نہ ہو تو مسئلہ دائمی ہی ثابت ہو گا جیسا کہ رکوع وسجود وضع ید اور تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کا معاملہ ہے ۔
ایسی صورت میں آپ کی ذمہ داری صرف یہ ہونی چاہے کہ تاحیاۃ کا مطالبہ کرنے کے بجائے ترک ثابت کرنے پرہی اپنی کوششیں صرف کریں لیکن چونکہ اس بات سے علمائے احناف عاجز ہیں، اس لئے ’’تاحیاۃ ‘‘ کے فلسفہ کا سہارا لے عوام کو مغالطہ دے رہے ہیں ، لیکن کامیابی نہیں مل رہی ہے۔
بڑا پیارا سوال کیا ہے ، جزاک اللہ خیرا ۔بہر جال میں بات کو آگے بڑہاتے ہوئے آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں آپ کے نذدیک رکوع والا رفع الیدین نماز کے ارکان میں سے ہے ؟ یعنی اگر کوئی نہ کرے تو کیا نماز ہوجائے گی ؟ آپ کا موقف کیا ہے ؟
لیکن میں چاہوں گا کہ اس سوال کا جواب آپ ہی کے منہ سے نکلے ، تو محترم یہ بتادیں کہ آپ کے نزدیک تکبیر تحریمہ والا رفع الیدین نماز کے ارکان میں سے ہے؟ یعنی اگر کوئی نہ کرے تو کیا نماز ہوجائے گی ؟ آپ کا موقف کیا ہے ؟
اولا:باب ما جاء أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة
حدثنا هناد حدثنا وكيع عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة قال قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فلم يرفع يديه إلا في أول مرة قال وفي الباب عن البراء بن عازب قال أبو عيسى حديث ابن مسعود حديث حسن وبه يقول غير واحد من أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين وهو قول سفيان الثوري وأهل الكوفة
ایک تو امام ترمذی یہ حدیث جس باب میں رکھی اس باب کا نام ہے
ما جاء أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة
یہ صرف تبویب ہے اور ہر تبویب محدث کا مسلک نہیں ہوتی ، تبویب سے مقصود حدیث کا موضوع بتانا ہوتا ہے لیکن اس سے محدث کا متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے، اس کے لئے الگ سے قرائن کی ضرورت ہے ، اوریہاں کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے کہ امام ترمذی اس سے متفق ہیں۔
جو محدثین موضوع احادیث پر کتاب لکھتے ہیں وہ بھی تبویب قائم کرتے ہیں تو کیا وہ اس سے متفق ہوتے ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے :
باب تقبيل الرِّجْل [الأدب المفرد:ص: 542]۔
اب کیا بریلویوں کی طرح آپ بھی کہیں گے کہ امام بخاری پاؤں چومنے کے قائل تھے؟؟؟
ثانیا:
اگر بالفرض تسلیم کرلیں کہ امام ترمذی اس سے متفق تھے تو یہ امام ترمذی کا فقہی فیصلہ ہے اور ہم یہاں ایک حدیث کی صحت و ضعف کے دلائل پر بات کررہے ہیں ، ذرا کچھ تو غور کریں آپ کس وادی میں جارہے ہیں۔
امام ترمذی کی یہ رائے تسلیم کرلینے کی صورت میں اس کی وجہ صرف یہ ہوگی کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت حسن ہے ۔یعنی یہ ابن مسعود کا بھولنا یا ان کی غلط فہمی کا نتیجہ نہ تھا ۔ اس لئیے باقی احتمالات رد ہوجاتے ہیں ۔
اورمیں پہلے ہی واضح کرچکا ہوں کہ جب دلائل کے ساتھ کسی روایت پر جرح ہو تو تحسین تو دور کی بات ہے کسی کی تصحیح بھی نقل کرنا بے سود ہے۔
آپ سے ہوسکے تو جرح کا جواب پیش کریں ، امام ترمذی کی تحسین کو دلیل سمجھ کرآپ صرف اپنے حلقہ میں مگن ہوسکتے ہیں ، ہرجگہ اس خوش فہمی میں نہ رہا کریں۔
اورلطف کی بات یہ ہے کہ امام ترمذی تصحیح و تحسین میں تساہل کے شکار ہیں اور دلائل کے مقابل میں ان کی تحسین و تصحیح کو بریلویوں کے امام احمد رضا صاحب بھی بلا چوں چرا رد کردیتے ہیں معلوم نہیں آپ حقائق سے ناواقف ہیں یا اس غلط فہمی میں ہیں کہ مغالطہ والی پایسی ہر جگہ کا م آجائے گی۔
بے سند تو دور کی بات ہے امام ترمذی باسند کوئی قول پیش کریں تب بھی قابل قبول نہیں جب تک کہ سند صحیح ثابت نہ ہوجائے، یہ بات عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے معلوم نہیں آپ کو کیا ہوگیا ہے۔دوسری بات امام ترمذی کہ رہ ہیں کہ اس بارے میں کئی اہل علم صحابہ کا بھی یہی قول ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں راوی سفیان کو کوئی وہم نہیں ہوا ۔ کیوں کہ ان کی تائید میں کئی صحابہ کا قول ہے اور اس کی گواہی امام ترمذی دے رہے ہیں ۔
اگر آپ مجھ سے سند مانگیں کہ امام ترمذی تک صحابہ کا قول کیسے پہنجا تو میں آپ کے قول کے مطابق جواب دوں گا۔
ستم تو یہ ہے کہ آپ کی دوغلی پایسی ہے ورنہ اسی سنن ترمذی سے بعض ایسی احادیث میں پیش کروں جسے امام ترمذی نہ صرف یہ کہ نقل کریں بلکہ سند کے ساتھ نقل کریں بلکہ اسے حسن بھی کہیں تو کیا آپ ان احادیث کو قابل حجت سمجھیں گے؟؟؟
یادرہے آپ نے جو میرے جواب کی نقالی کرنے کی ناکام کوشش کی ہے تو آپ میرے طرزعمل میں یہ دوغلی پالسی کبھی نہیں دکھاسکتے ۔
حدیث میں اتھارٹی ہیں تو ان کے حوالے سے جرح وتعدیل کا کوئی ایسا قول پیش کریں جسے امام ترمذی نے برضاء رغب نقل کیا ہو، اس پرکوئی اشکال نہیں ہوگا ، لیکن آپ ایک دوسری وادی میں قدم رکھ رہے ہیں :امام ترمذی کوئی عام امام نہیں بلکہ حدیث میں ان کی ایک اتھارٹی ہے ۔ اگر وہ صحابہ کا قول بغیر سند کے نقل کرہے ہیں تو ان کے پاس کسی مستند دلیل سے پہنچا ہوگا ۔
اولا:
تو جرح و تعدیل کے اقوال کے بجائے فقہی اقوال پیش کررہے ہیں، جو انتہائی مضحکہ خیزہے۔
ثانیا:
اس بات کا بھی کوئی اشارہ نہیں ہے کہ امام ترمذی ان فقہی اقوال سے متفق بھی ہیں۔
ثالثا:
اب میں آپ کے سامنے امام ترمذی کی اصل اتھارٹی کا حوالہ دیتا ہوں ملاحظہ فرمائیں:
امام ترمذی فرماتے ہیں:
وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ المُبَارَكِ: قَدْ ثَبَتَ حَدِيثُ مَنْ يَرْفَعُ، وَذَكَرَ حَدِيثَ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ. [سنن الترمذي ت شاكر 2/ 38]۔
جی ہاں یہ ہے امام ترمذی رحمہ اللہ کے اپنے فن کی بات کہ وہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر امام ابن المبارک رحمہ اللہ کا قول برضاء و رغبت نقل کررہے ہیں، اس لئے آپ لائن پر آئیں اور امام ترمذی کی اتھارٹی کو تسلیم کریں اور زیربحث مردود حدیث سے امت کو دور رہنےکی تلقین کریں۔
اولا:اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سفیان الثوری کو وہم ہوا ہے اور امام ابو حاتم کہ رہے ہیں تو اس کی تائید میں جو انہوں نے دلیل دی کہ
ولم يقُل أحدٌ ما رواهُ الثّورِيُّ
یعنی الثوری کے علاوہ کسی نے بھی ایسا رویات نہیں کیا ۔ یعنی بقول امام ابو حاتم السفیان الثوری اسے نقل کرنے میں میں منفرد ہیں ۔ نہیں بھائی ایسا نہیں ۔ اس روایت کے نقل کرنے میں تو سفیان الثوری منفرد ہوسکتے ہیں لیکن ان کی بات کی تصدیق میں کئی صحابہ کا قول بھی ہے (اوپر امام پرمذی کا قول دیکھين )
یعنی امام ابو حاتم کی وجہ علت غلط ہے ۔
اوپر امام ترمذی کے نقل کردہ اقوال کی نوعیت واضح کی جاچکی ہے۔
ثانیا:
اصول حدیث کا یہ کون سا قائدہ ہے کوئی روایت اقوال صحابہ کی بنیاد پر صحیح قرار پاسکتی ہے اہل فن سے اس کی ایک مثال پیش کریں کہ کسی حدیث کو فقہی اقوال کی بنیاد پر صحیح قراردیا گیاہے۔
ثالثا:
یہ اقوال صحابہ کے ہیں اورحدیث ابن مسعود میں عدم رفع کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے؟؟ اب ذرا سوچ سمجھ کر جواب دیجئے کہ مرفوع روایت کیا موقوف روایت سے تائید پاکر صحیح قرار پاسکتی ہے ؟؟؟ تو اصول حدیث سے اس کا ثبوت پیش کریں۔
محترم! صحیح بخاری کی جن روایات کی طرف آپ اشارہ کررہے ہیں ان ساری روایات کے انتہائی مضبوط اور معتبر متابعات موجود ہیں ، اورشواہد ومتابعات کے آجانے کے بعد یہ ضعف مضرنہیں ہوتا ہے کہ وہ آخری زمانہ میں متغیر الحفظ ہوگئے تھے ، آپ بخاری سے احمد بن يونس عن ابی بکر بن عیاش کے طریق سے کوئی بھی روایت پیش کریں اس کا صحیح متابع یا شاہد پیش کرنا میری ذمہ داری ہے ۔يحی بن معین اور امام احمد بن حنبل کا یہاں اعتراض اصل میں راوی ابو بکر بن عیاش کی وجہ سے ہے ۔ جیسا کہ امام بہیقی کے قول سے بھی پتا چلتا ہے
۔ یہ اقوال اسی سند پر ہیں اور ابو ابکر بن عیاش کے متعلق ہیں ۔
ابو بکر بن عیاش صحیح بخاری کے راوی ہیں اور ان پر اعتراض اس وجہ سے ہے کہ آخری عمر میں کہا جاتا ہے کہ ان کا حافظہ خراب ہوگیا تھا لیکن اس اثریعنی عبد اللہ بن عمر کے عدم رفع الیدین کو نقل کرنے میں جیسا کہ طحاوی کی سند میں ہے ایک احمد بن يونس ہیں اور احمد يونس نے ابو بکر بن عیاش سے ان کے حافظے کمزور ہونے سے پہلا رویات کیا تھا کیوں امام بخاری نے احمد بن یونس عن ابو بکر بن عیاش کی سند سے کئی روایتیں ذکر کی ہیں ۔
اورمیری اس بات کا جواب نہیں آیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے متعلق بات کررہے ہیں ، پھر اس بیچ آپ اثر ابن عمررضی اللہ عنہ کو پیش کرکے کیوں خواہ مخواہ بحث کوطول دے رہے ہیں؟؟؟؟
ہم نے اثبات رفع الیدین میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث پیش کی ہے اس لئے اگر آپ کے پاس ترک کی کوئی مرفوع حدیث ہو تو پیش کریں ، آثار اوروہ بھی مردود شدہ سے کام نہیں چلے گا۔
اورتطبیق والی روایت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلق آپ کی تحقیق کا انتظار ہے ، کوئی جلدی نہیں جب بھی آپ کی تحقیق مکمل ہوجائے تو ناچیز کو ضرور آگاہ کریں۔