• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تسبیح کی شرعی حیثیت اور شیخ البانی پر اعتراضات!

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ،
منسلک کردہ لنک مولانا مجیب الرحمن قاسمی صاحب کی تحریر ہے۔
اس طرح کی تحاریر سے عوام الناس میں کس طرح کی الجھن پیدا کی جا رہی ہے، یہ بہر حال کسی مسئلے سے کم نہیں۔مخصوص مقاصد کی خاطر علمی میدان میں آنے والے اور نشرواشاعت کو ذریعہ بنا کر دین وایمان میں بگاڑ کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ایسی مختصر تحاریر پر ردعمل ہونا ضروری ہے۔جوابی تحریر چاہے مختصر ہو مگر مدلل ہونی چاہیئے۔ان اعتراضات پر اور تحریر کے متعلق جو اراکین بھی معلومات رکھتے ہیں ، وہ حصہ ضرور ڈالیں ، امید ہیں کہ جلد انھیں یہ ارسال کی جائے گی۔ان شاء اللہ
 

اٹیچمنٹس

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463

"مجموع فتاوی، جلد۔٢٢ص -٥٠٦- وَقَال شَيْخ الإسْلاَم أحْمَد بن تيمية رحمه اللّه‏:
وعد التسبيح بالأصابع سنة كما قال النبي صلى الله عليه وسلم للنساء‏:‏ ‏"‏سبحن واعقدن بالأصابع فإنهن مسؤولات مستنطقات‏"‏‏.‏ وأما عده بالنوى والحصى ونحو ذلك، فحسن‏.‏ وكان من الصحابة رضي الله عنهم من يفعل ذلك، وقد رأى النبي صلى الله عليه وسلم أم المؤمنين تسبح بالحصى، وأقرها على ذلك، وروي أن أبا هريرة كان يسبح به‏.‏
وأما التسبيح بما يجعل في نظام من الخرز، ونحوه، فمن الناس من كرهه، ومنهم من لم يكرهه، وإذا أحسنت فيه النية، فهو حسن غير مكروه، وأما اتخاذه من غير حاجة، أو إظهاره للناس مثل تعليقة في العنق، أو جعله كالسوار في اليد، أو نحو ذلك فهذا إما رياء للناس، أو مظنة المراءاة ومشابهة المرائين من غير حاجة‏.‏ الأول محرم، والثاني أقل أحواله الكراهة؛ فإن مراءاة الناس في العبادات المختصة كالصلاة والصيام والذكر وقراءة القرآن من أعظم الذنوب۔"


شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ انگلیوں پر تسبیح پڑھنا سنت ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے کہا تھا کہ اپنی انگلیوں پر تسبیح پڑھو کیونکہ ان انگلیوں سے بھی قیامت کے دن سوال ہو گا اور یہ کلام کریں گی۔ جہاں تک تسبیح کو گھٹلی یا کنکری وغیرہ پر پڑھنے کا تعلق ہے تو یہ بھی بہتر ہے کیونکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایسا کرنا مروی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین کو کنکریوں پر تسبیح پڑھتے دیکھا تو اس سے روکا نہیں۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ بھی کنکریوں پر تسبیح پڑھتے تھے۔
جہاں تک اس تسبیح کا تعلق ہے جو ایک دھاگے میں پرو کر تیار ہوتی ہے تو بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں اور بعض مکروہ نہیں سمجھتے ہیں۔ پس اگر تیری نیت اچھی ہو ( مثلا ہر وقت اپنی زبان کو ذکر سے تر رکھنا وغیرہ کی عادت ڈالنا ) تو ایسا کرنا بہتر ہے اور اس میں کراہت نہیں ہے۔ اور اگر ایسا بغیر کسی وجہ کے کیا جائے یا لوگوں کو دکھلانے کے لیے ہو کہ اس تسبیح کو گردن میں لٹکا لے یا ہاتھ میں گنگن کی طرح لپیٹ لے وغیرہ تو یہ عمل یا تو ریاکاری کے سبب سے کیا جاتا ہے یا ریاکاری اور ریاکاروں سے مشابہت کی صورت ہے۔ پہلی صورت یعنی ریاکاری کے لیے تسبیح پکڑنا حرام ہے جبکہ دوسری صورت یعنی ریاکاری یا ریاکاروں کے عمل سے مشابہت کا کم تر درجہ بھی کراہت ہے۔ مخصوص عبادات مثلا نماز، روزہ، ذکر اور تلاوت قرآن وغیرہ میں دکھلاوا کرنا عظیم ترین گناہوں میں سے ہے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ،
منسلک کردہ لنک مولانا مجیب الرحمن قاسمی صاحب کی تحریر ہے۔
اس طرح کی تحاریر سے عوام الناس میں کس طرح کی الجھن پیدا کی جا رہی ہے، یہ بہر حال کسی مسئلے سے کم نہیں۔مخصوص مقاصد کی خاطر علمی میدان میں آنے والے اور نشرواشاعت کو ذریعہ بنا کر دین وایمان میں بگاڑ کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ایسی مختصر تحاریر پر ردعمل ہونا ضروری ہے۔جوابی تحریر چاہے مختصر ہو مگر مدلل ہونی چاہیئے۔ان اعتراضات پر اور تحریر کے متعلق جو اراکین بھی معلومات رکھتے ہیں ، وہ حصہ ضرور ڈالیں ، امید ہیں کہ جلد انھیں یہ ارسال کی جائے گی۔ان شاء اللہ
جس حدیث پر تسبیح مروجہ کی بنیاد ہے اسے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے:سنن ابو داود، کتاب الوتر ، باب التسبیح بالحصی، حدیث ۱۵۰۰، مطبوعہ دار السلام
اور اس مجھے اس مسئلے میں امام ابن تیمیہ کی رائے درست معلوم ہوتی ہے،یعنی ضرورت کے تحت اس کا استعمال درست ہے ، واللہ اعلم بالصواب
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ،
منسلک کردہ لنک مولانا مجیب الرحمن قاسمی صاحب کی تحریر ہے۔
اس طرح کی تحاریر سے عوام الناس میں کس طرح کی الجھن پیدا کی جا رہی ہے، یہ بہر حال کسی مسئلے سے کم نہیں۔مخصوص مقاصد کی خاطر علمی میدان میں آنے والے اور نشرواشاعت کو ذریعہ بنا کر دین وایمان میں بگاڑ کا سبب بھی بن رہے ہیں۔ایسی مختصر تحاریر پر ردعمل ہونا ضروری ہے۔جوابی تحریر چاہے مختصر ہو مگر مدلل ہونی چاہیئے۔ان اعتراضات پر اور تحریر کے متعلق جو اراکین بھی معلومات رکھتے ہیں ، وہ حصہ ضرور ڈالیں ، امید ہیں کہ جلد انھیں یہ ارسال کی جائے گی۔ان شاء اللہ


 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ نے ایک شاندار کتاب تصنیف فرمائی ہے :
السبحة ، حكمها و تاريخها
جس میں وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سنت طریقہ انگلیوں پر گن کر ہی ذکر کرنا ہے ۔ اس کے علاوہ تعداد کے دیگر طریقے بدعت ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں ۔
بہر صورت اس بارے میں تو کوئی اختلاف نہیں کہ افضل طریقہ ’’ انگلیوں پر گننا ‘‘ ہی ہے ۔ اگر کسی کے نزدیک اس کے علاوہ دیگر طریقے جائز بھی ہیں تو پھر بھی افضل پر عمل کرنا چاہیے ۔
اس کتاب پر ابھی تک کوئی قابل ذکر رد میرے علم میں نہیں ہے ۔ البتہ کسی نے ایک مختصر رد لکھنے کی کوشش کی لیکن اسی جگہ ایک دوسرے شخص نے اس کا رد کردیا ہے ۔
اصحاب ذوق یہ مناقشہ یہاں دیکھ سکتے ہیں :
http://majles.alukah.net/t58049/
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
خضر حیات
بھائی! میں تسبیح صرف دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر پڑھتا ہوں، استنجا کرنے کی وجہ سے تسبیح بائیں ہاتھ پر نہیں کرتا۔ کیا میرا یہ فہم درست ہے؟
نیز
میں بائیں ہاتھ پر تسبیح نہ کرنے کی وجہ سے دائیں ہاتھ پر کی گئی تسبیح کی گنتی بائیں ہاتھ پر شمار کرتا ہوں۔ کیا تسبیح کی تعداد گننا بھی یوں درست ہے
؟
 

محمد شاہد

سینئر رکن
شمولیت
اگست 18، 2011
پیغامات
2,510
ری ایکشن اسکور
6,023
پوائنٹ
447
خضر حیات
بھائی! میں تسبیح صرف دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر پڑھتا ہوں، استنجا کرنے کی وجہ سے تسبیح بائیں ہاتھ پر نہیں کرتا۔ کیا میرا یہ فہم درست ہے؟
نیز
میں بائیں ہاتھ پر تسبیح نہ کرنے کی وجہ سے دائیں ہاتھ پر کی گئی تسبیح کی گنتی بائیں ہاتھ پر شمار کرتا ہوں۔ کیا تسبیح کی تعداد گننا بھی یوں درست ہے
؟
جی میرا طریقہ بھی بالکل یہی ہے۔
خضرحیات بھائی اس کےبارےمیں ضروربتائیےگا۔
میں جوجلد فتاوی راشدیہ کمپوزکی تھی اس میں راشدی صاحب کاموقف یہ تھا کہ تسبیح پرپڑھنےمیں کوئی حرج نہیں اب وہ کتاب میرےپاس موجود نہیں ورنہ حوالہ کوڈ کردیتا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ نے ایک شاندار کتاب تصنیف فرمائی ہے :
السبحة ، حكمها و تاريخها
جس میں وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سنت طریقہ انگلیوں پر گن کر ہی ذکر کرنا ہے ۔ اس کے علاوہ تعداد کے دیگر طریقے بدعت ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں ۔
بہر صورت اس بارے میں تو کوئی اختلاف نہیں کہ افضل طریقہ ’’ انگلیوں پر گننا ‘‘ ہی ہے ۔ اگر کسی کے نزدیک اس کے علاوہ دیگر طریقے جائز بھی ہیں تو پھر بھی افضل پر عمل کرنا چاہیے ۔
اس کتاب پر ابھی تک کوئی قابل ذکر رد میرے علم میں نہیں ہے ۔ البتہ کسی نے ایک مختصر رد لکھنے کی کوشش کی لیکن اسی جگہ ایک دوسرے شخص نے اس کا رد کردیا ہے ۔
اصحاب ذوق یہ مناقشہ یہاں دیکھ سکتے ہیں :
http://majles.alukah.net/t58049/
خضر بھائی ابو زید رحمہ اللہ نے کس جگہ مروجہ تسبیح کو بدعت قرار دیا ہے؟ اور اس کی وجہ بھی بیان کر دیں ،میرے علم کے مطابق ان کا یہ موقف بہت زیادہ کم زور ہے، اس کو بدعت کہنا مبالغہ آرائی ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
میں جوجلد فتاوی راشدیہ کمپوزکی تھی اس میں راشدی صاحب کاموقف یہ تھا کہ تسبیح پرپڑھنےمیں کوئی حرج نہیں اب وہ کتاب میرےپاس موجود نہیں ورنہ حوالہ کوڈ کردیتا۔
کوئی بات نہیں اگر آپ کے پاس فتاویٰ راشدیہ نہیں تو یہاں سے ڈونلوڈ کر لیں یا آن لائن پڑھ لیں​
 
Top