• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تسبیح کی شرعی حیثیت اور شیخ البانی پر اعتراضات!

شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
محترمی ومکرمی
جزاک اللہ خیرا.
۱
محترمی آپکی ذکر کردہ دونوں باتیں(زمان کا ادراک اور لقا ء کا ممکن ہونا) سعید کو میسر ھیں.
احادیث میں نزول وعلو کثرت سے پایا جاتا ھے.ھو سکتا ھے سعید نے پہلے خزیمہ سے روایت کی ھو پھر(جیسا کہ روا ة نازل سند کے ھوتے ھوئے عالی کو اھمیت دیتے تھے)
عائشہ سے ڈائریکٹ روایت کیا ھو.

۲
محترمی یہاں راوی کا تفرد نہیں کے اس میں شذوذ ھوجائے.
بلکہ اسکی متابعت موجود ھے.
جیسا اوپر کہا گیا.تو شذوذ کہاں.؟
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
محترمی ومکرمی
جزاک اللہ خیرا.
۱
محترمی آپکی ذکر کردہ دونوں باتیں(زمان کا ادراک اور لقا ء کا ممکن ہونا) سعید کو میسر ھیں.
احادیث میں نزول وعلو کثرت سے پایا جاتا ھے.ھو سکتا ھے سعید نے پہلے خزیمہ سے روایت کی ھو پھر(جیسا کہ روا ة نازل سند کے ھوتے ھوئے عالی کو اھمیت دیتے تھے)
عائشہ سے ڈائریکٹ روایت کیا ھو.

۲
محترمی یہاں راوی کا تفرد نہیں کے اس میں شذوذ ھوجائے.
بلکہ اسکی متابعت موجود ھے.
جیسا اوپر کہا گیا.تو شذوذ کہاں.؟
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
محترمی ومکرمی
جزاک اللہ خیرا.
۱


محترمی آپکی ذکر کردہ دونوں باتیں(زمان کا ادراک اور لقا ء کا ممکن ہونا) سعید کو میسر ھیں.
احادیث میں نزول وعلو کثرت سے پایا جاتا ھے.ھو سکتا ھے سعید نے پہلے خزیمہ سے روایت کی ھو پھر(جیسا کہ روا ة نازل سند کے ھوتے ھوئے عالی کو اھمیت دیتے تھے)
عائشہ سے ڈائریکٹ روایت کیا ھو.



۲
محترمی یہاں راوی کا تفرد نہیں کے اس میں شذوذ ھوجائے.
بلکہ اسکی متابعت موجود ھے.
جیسا اوپر کہا گیا.تو شذوذ کہاں.؟

1
مجھے علم تھا کہ یہی جواب ملے گا جزاکم اللہ خیرا۔۔۔۔
میں نے اسی وجہ سے لکھا تھا کہ امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک ایسا ہے۔۔۔۔۔۔ اور اس کے بارے میں اگر آپ کے پاس ابن رجب کی شرح علل الترمذی ہو تو اس میں سے عنعن کی بحث پڑھیں ایسی بیسیوں مثالیں دی گئی ہیں کہ ایک علاقہ ہے ادراک بھی ہے لیکن سماع نہیں۔۔۔۔۔۔۔ ضرور پڑھیں۔۔۔

http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=147824
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showpost.php?p=1203507&postcount=24



شیخ دو باتوں میں جب اختلاف آ گیا تو پھر کیا کیا جائے گا؟؟
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک ایسا ھے.کیا انکا مذہب درست نہیں؟
اس کا انکار نہیں.جن کا عدم سماع ثابت ہو.یعنی کسی امام سے ثابت ھو.سعید کے بارے میں کسی امام سے ثابت ھے؟.
اختلاف کو دیکھا جائیگا.
اگر نوعیت جمع وتطبیق کی ممکن ہو تو اسکو مقدم کیا جائگا.
کیونکہ ترجیح سے تطبیق بہر حال مقدم ہوتی ھے.
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
ارسال مطلق اور ارسال خفی کا تعلق قطعی ثبوت سے ھے.
اور یہ کسی امام سے ھی ثابت ھوگا.
اگر زمانے کا ادراک ھے اور لقاء بھی ممکن ھو تو اتصال ھی ھوگا.
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
ارسال مطلق کے ثبوط کا تعلق عدم ادراک سے ھے.اس میں کسی امام سے ثبوت ضروری نہیں.
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
تسبیح پر ذکر گنتے کا حکم
شروع از رانا ابو بکر بتاریخ : 28 April 2014 06:11 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیاتسبیح کےدانوں پر ذکر کرنا جائز اور جو ہاتھ کے پوروں پر اذکار گنتا ہے وہ افضل ہے تسبیح کے دانوں پر گننے والے سے ؟۔(آپ کا بھائی:اورنگ زیب ،ذوالقعدہ 1413ھ)

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہم کہتے ہیں کہ ذکر کرنے والے کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ تسبیح صرف داہنے ہاتھ سے گنے ۔ کیونکہ یہ ثابت ہے اس حدیث سے جو ابوداؤد (1؍210) باب التسیسح الحصی میں برقم :(1502) صحیح سند کے ساتھ لاتے ہیں عبد اللہ بن عمر ﷜ سے روایت ہے میں نے نبی ﷺکو تسبیحات دہنے ہاتھ سے گنتے ہوئے دیکھا ۔بیہقی (2؍187)
یہ حدیث امام ترمذی برقم : (3652) اس لفظ کے ساتھ لاتے ہیں ’’ میں نے نبی ﷺ کو تسبیحات گنتے ہوئے دیکھا ۔‘‘
دوسری احادیث بھی داہنے ہاتھ کے قید کے بغیر آئی ہیں ان میں سے ایک وہ ہے حو امام ترمذی برقم : (3651) صحیح سند کے ساتھ لاتے ہیں ابن ماجہ : (926) ،مشکوٰۃ :(1؍211) ،برقم :2406)، نسائی :برقم :(1277) ،احمد(2؍204) ،حاکم (1؍547)۔
عبد اللہ بن عمر و ﷜سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ دو خصلتیں ہیں جہنیں مسلمان شخص گن کر پورا کرتا رہے تو جنت میں داخل ہو وہ دونوں آسان ہیں کہ اس ﷩ر عمل پیر ا بہت کم ہیں ہر نماز کے بعد سبحان اللہ دس بار الحمد للہ ،دس بار او راللہ اکبر دس بار ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے ہاتھ سے گنتے ہوئے دیکھا ۔ تو یہ زبان سے کہنے میں ایک سو پچاس ہیں او رمیزبان میں پندرہ سو ہونگی او رجب بستر پر لیٹنے لگو تو سبحان اللہ ،الحمدللہ اللہ اکبر سو بار تو سہ زبان سے کہنے میں بار ہوئیں او رمیزبان ایک ہزار ہونگی تو ہم میں سے کون رات دن ڈھائی ہزار گنا کرتا ہے ؟
صحابہ نے فرمایا :ہم کیسے اس کی گنتی پوری نہیں کر سکتے تو فرمایا : نماز میں تمہارے پاس شیطان آکر کہتا ہے فلاں چیز یاد کرو یہاں تک کہ نماز سے توجہ ہٹا دیتا ہے تو شائد وہ نماز پوری نہ کر سکے ،او رشیطان بستر پر بھی آ حاضر ہوتا ہے او ر اسے سلاتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ ( تسبیحات کے بغیر یا پورا کئے بغیر )سو جاتا ہے ۔
او راسی میں وہ حدیث بھی ہے حیسے ابوداؤد (1؍220)رقم : (1501)میں ترمذی رقم : (3835) لاتے ہیں او ریہ مشکوٰۃ (1؍202)میں بھی سند حسن کیساتھ ہے ۔
یسیرۃ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ بنی ﷺنے انہوں حکم دیا کہ وہ تکیرو تقدیس و راو رتہلیل کا خیال رکھیں اور انہیں انگلیوں پر گنیں ان انگلیوں سے (تسبیحات کے بارے میں ) پرچھا جائے گا اوران سے نطق کرایا جائے گا۔
حاکم (1؍547) ابن ابی شیبہ (2؍390)
پہلی حدیث تسبیحات کا داہنے ہاتھ سے گننے کی سنت پراور مطلق حدیثیں دائیں او ربائیں دونوں ہاتھ سے تسبیحات کے جواز پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ ساری انگلیاں مسعو لات اور مستطقات ہیں (یعنی تسبیحات کے بارے میں پرچھا جائے گا او ران سے نطق کرایا جائے گا) جیسے کہ آخری حدیث میں ہے ۔ او راس کے ساتھ بعض علماء نے پہلی حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ۔
لیکن ظاہر بات ہے کہ عبداللہ بن عمر والی حدیث صحیح ہے او راس کی عائشہ رضی اللہ عنھا کی اس حدیث سے تائید ہوتی ہے آپ فرماتی ہیں ’’ کہ رسول اللہ ﷺکا داہنا ہاتھ صفائی اور کھانے کے لیے تھا او رآپ بایاں ہاتھ استنجاء او ردوسرا گندی چیزوں کو ہٹانے کے لیے تھا ۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے ۔
تو ہم دائیں ہاتھ سے تسبیحات کو ترجیح دیتے ہیں او ردونوں ہاتھوں سے تسبیحات کو بھی جائز سمجھتے ہیں ۔
تسبیح کے ساتھ ذکر کرنے کے جواز پر دلائل


رہا تسبیح کے ساتھ ذکر کرنا ہو ہم پہلے اس کے بارے میں آثار ذکر کریں گے او رپھر اس سے استنباط بیان کریں گے ۔
تو ہم کہتے ہیں کہ گٹھلیوں اور کنکروں کے ساتھ ذکر کے بارے میں کچھ حدیثیں آئی ہیں :
پہلی حدیث : ابو داؤد (1؍210)میں ہے سعد بن ابی وقاص ﷜سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ ایک عورت پر داخل ہوئے اس کے سامنے گٹھلیوں اور کنکرتھے جس پر وہ تسبیح کر رہی تھی ۔ تو آپ نے فرمایا میں تجھے آسان او رافضل طریقہ بتاتا ہوں ۔ الحدیث۔
یہ حدیث مشکوۃ (1؍201)میں بھی ہے ۔ شیخ البانی  نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے کیونکہ اس میں ’’ خزیمہ ‘‘ مجہول ہے میں کہتا ہوں کہ مستدرک کی حدیث میں خزیمہ نہیں ہے یہ ابوداؤد کی روایت ہے ۔
دوسری حدیث :کنانہ سے روایت ہے وہ روایت کرتے ہیں صفیہ رضی اللہ عنھا سے وہ وہ کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ مجھ پر داخل ہوئے اور میرے سامنے چار ہزار گٹھلیاں تھیں جن پر میں تسبیح کہتی تھی ۔ حاکم (1؍537) حاکم نے کہا یہ صحیح الا سناد ہے لیکن انہوں (بحاری ،مسلم) نے نہیں نکالا ۔ امام ذھبی  نے اس کی موافقت کی ہے لیکن اس کی سند ھاشمی بن سعد کنانہ کے ضعف کی وجہ سے محل نظر ہے جیسے السلسلہ الضعیفہ رقم : (73)کے تحت ہے او رنکالا اسے ترمذی نے (2؍195)میں ۔
تیسری حدیث : امام جرجانی تاریخ جرجان (68)میں لاتے ہیں ’’ ابوھریرہ سے روایت ہے مرفوعا کہ وہ کنکروں پر تسبیح پڑھتے تھے حدیث موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں القدامی ہے جیسے السلسلہ (3؍47)رقم :(1002) میں ہے ۔
چوتھی حدیث :دیلمی مسند فردوس میں بھی علی ﷜سے مرفوعا روایت کرتے ہیں ،’’تسبیحات اچھا یاد دلانے والا ہے ‘‘ اور اس کی سند بعض راویوں کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے السلسلہ (1؍110) رقم : میں ہے ۔
پانچویں حدیث : جو ابوداؤد نے (1؍295)رقم :اور ابن ابی شیبہ نے (2؍390) میں روایت کیا ہے ۔
ابو نضرہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں مجھے حدیث سنائی طفاوۃ کے شیح نے وہ کہتے ہیں میں ٹھہرا ابوھریرہ ﷜کے پاس مدینہ میں تو میں نے صحابہ ﷢ میں سے زیادہ اہتمام کرنے والا او رمہمانوں خیر گیری کے لیے کھٹرا ہونے والا نہیں دیکھا ، ایک دن میں ان کے پاس تھا اور وہ اپنی چار پائی پر بیٹھے تھے ان کے پاس ایک تیھلی تھی جس میں کنکریاں گٹھلیاں تھیں ان سے نیچے ان کی کالی لونڈی تھی او روہ ان ( کنکروں ) سے تسبیح کر رہے تھے یہاں تک کہ تھیلی میں جو کچھ تھا ختم کر دیا اسکی طرف پھینک دیا تو اس (لونڈی ) نے اکٹھی کرکے دوبارہ تھیلی میں ڈال کر انہیں دیدیں ،الحدیث ابوھریرہ سے روایت کرنے والے راوی کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
چھٹی حدیث: ابن ابی شیبہ : (2؍390)میں حکیم بن الدیلمی سے لاتے ہیں وہ سعد کی لونڈی سے روایت کرتے ہیں کہ سعد کنکروں اور گٹھلیوں کے ساتھ تسبیحات کرتے تھے ۔ لیکن یہ روایت سعد کی لونڈی کی جعالت کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
اور ابن سعد (2؍134)میں حکیم بن الدیلمی سے روایت کرتے ہیں کہ سعد کنکریوں کےساتھ تسبیح کرتے تھے او راس نے لونڈی کا ذکر نہیں کیا ہے ۔
ساتویں حدیث :ابن ابی شیبہ (2؍390)ابن اخنس سے روایت لاتے ہیں وہ کہتے ہیں مجھے حدیث سنائی ابو سعید کے مولیٰ نے ابوسعید سے کہ وہ تین مٹھیاں لیکر اپنی ران پر رکھ لیتے تھے پھر تسبیح کہتے او رایک رکھ دیتے ،پھر تسبیح کہتے او ردوسری رکھ دیتے پھر تسبیح کہتے او رتیسری رکھ دیتے پھر انہیں اٹھا کر اسی طرح کرتے ،لیکن مولا کی جہالت کی وجہ سے سند اس کی ضعیف ہے ۔
آٹھویں حدیث: ابن ابی شیبہ (2؍390)میں زاذان سے روایت لاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں ام یعفور سے ان کی تسبیح اٹھا لایا، جب علی ﷜کے پاس آیا تو مجھے تعلیم دی او ر کہا کہ اے ابو عمر ام یعفور کی تسبیح اسے لوٹا دے ۔
نویں حدیث:ابن ابی شیبہ (2؍391)میں کہتے ہیں کہ ہیں ہمیں حدیث سنائی ابن افضل نے وفاء سے انہوں نے سعد بن جبیر سے انہوں نے کہا ،دیکھا عمر بن خطاب ﷜نے ا یک شخص کو کہ اپنی تسبیح کے ساتھ ذکر کر رہا تھا تو عمر﷜نے فرمایا،کہ تیرا یہ کہنا کافی ہے کہ تو کہے ،سبحان اللہ باندازہ زمین و آسمانوں کے بھر نے کے او رۃاندازہ بھر نے اس چیز کے جو تو چاہے ان کے ‘‘ الحدیث۔
دسویں حدیث :وہ حدیث جو امام ذھبی  تذکرۃ الحافظ (1؍35)میں لاتے ہیں زید بن حباب روایت کرتے ہیں عبدالواحد بن موسیٰ سے کہ ابو نعیم بن المحر ربن ابی ھریرۃ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ان کا ایک دھاگہ تھا جس میں ہزار گرھیں تھیں وہ اس پر تسبیح پڑھ کرہی سوتے تھے ۔ نکالا اس کو عبد اللہ بن الا مام احمد نے زوائد الزھد میں اسی طرح الحاوی للفتاوٰی (2؍3)میں ہے اور نکالا ابونعیم نے الحلیہ (1؍383)میں
گیارھویں حدیث:وہ روایت جو ابن احمد نے کتاب الزھد (ص:175)میں ابو الدرداء کے زید کے بارے میں لاتے ہیں ہمیں حدیث سنائی عبداللہ نے انہوں نے کہا مجھے حدیث سنائی میرے والد نے انہوں نے کہا مجھے حدیث سنائی مسکین بن بکیر نے وہ کہتے ہیں انہیں خبر دی ثابت بن عجلان نے قاسم سے وہ روایت کرتے ہیں عبد الرحمٰن سے کہ انہوں نے کہا کہ ابوالدرداء کے پاس عجرہ کی گٹھلیاں تھیں میرا خیال ہے وہ دس تھیں ایک تھیلی میں او روہ جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو اپنے فرش پر بیٹھ جاتے او راس تھیلی میں سے ایک ایک نکالتے جاتے او رتسبیح کہتے جاتے جب ساری نکال لیتے تو پھرجایک ایک اس میں ڈالتے ڈالتے جاتے او رتسبیح کہتے جاتے یہاں تک کہ ام الدرداء ان کے پاس آکر کہتیں آپکا کھانا حاضر ہے او رکبھی کہتے اٹھا لیجاؤ میرا روزہ ہے ۔
بارھویں حدیث:وہ حدیث جسے امام بغوی او رابن کثیر البدایہ والنھایہ (5؍279) میں لاتے ہیں ابو القاسم بغوی کہتے ہیں ہمیں حدیث سنائی احمد بن مقدام نے وہ کہتے ہیں ہمیں حدیث سنائی معمر نے وہ کہتے ہیں سنائی ابو کعب نے اپنے دادا بقیہ سے وہ روایت کرتے ہیں نبی ﷺکے غلام ابو صفیہ سے ان کے لیے چمڑے کا دستر خوان بچھا دیا جاتا پھر کنکروں کی ایک زبیل لائی جاتی تو اس پر نصف النھار تک تسبیح کہتے پھر اٹھا لی جاتیں دب ظہر کی نماز پڑھ لیتے تو پھر شام تک تسبیح پڑھتے رہتے ،نکالا اس کو ابن سعد نے (7؍60)میں ،ابن حجر  نے الاصابہ (4؍109) میں او رنکالا ہے احمد نے الزھد میں اسی طرح حاوی (2؍2) میں دیکھیں ۔ کاندھلوی کی حیاۃ صحابہ :(3؍322)۔
تیرھویں حدیث:وہ حدیث جو محمد بن وضاح القرطبی ’’ کتاب البدع والنھی عنھا ‘‘ ص(10) باب کل ما احدث من الھمات فھی بدعہ یجب ازالتھا ‘‘ میں لاتے ہیں :
حدیث سنائی ہمیں اسد نے عبداللہ بن رجاء سے وہ روایت کرتے ہیں عبیداللہ بن عمر سے وہ روایت کرتے ہیں یسار بن ابی الحکم سے عبد اللہ بن مسعود کو بتایا گیا کہ کو فہ میں کچھ لوگ مسجد میں کنکریوں پر تسبیح پڑھتے ہیں وہ آئے تو ہر آدمی نے اپنے سامنے کنکروں کی ایک ڈھیری بنائی ہوئی تھی ابو الحکم کہتے ہیں کہ وہ انہیں کنکر مارتے رہے یہاں تک کہ انہیں مسجد سے نکال دیا او رکہتے تھے تم اندھیری بدعت نکال لاتے ہو یا تم محمد ﷺکے صحابہ سے علم میں بڑھ چکے ہو ۔ اسے او رصحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے ۔
چودھویں حدیث:
محمد بن الوضاحابان بن عباس سے روایت کرتے ہیں ،وہ کہتے ہیں میں نے حسن سے منکوں اور گٹھلیوں کی لڑی کے بارے میں پوچھا (دھاگہ جس میں موتی او رمنکے پروئے ہوئے ہوتے ہیں )جس پر تسبیح پڑھی جاتی ہیں تو انہوں نے کہا نبیﷺکی زرجات او ر مہاجرات میں سے کسی نے یہ نہیں کیا۔
پندرھویں حدیث:
حدیث جیسے ابن ابی شیبہ نے (2؍391)میں ابراہیم نخعی سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو منع کرتے تھے ،کہ وہ عورتوں کی تسبیح کے دھاگے کے بٹنے میں اعانت کرے ۔ جس پر تسبیح کی جاتی ہے ،سند اس کی اچھی ہے (مقطوع)یہی کچھ ہم جمع کر سکے ۔پس ہم تاویل پر محمدبن وضاح کی ذکر کردہ روایات دلالت کرتی ہیں ۔
اس لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ  نے مجموعہ الفتاوٰی (22؍506)میں کہا ہے ،’’ انگلیوں پر تسبیحات کا گننا سنت ہے جیسے کہ نبی ﷺنے عورتوں کو فرمایا تسبیحات پڑھو او رانہیں اپنی انگلیوں پر گنو ۔ ان سے پوچھا جائے گا او ران سے باتیں اگلوائی جائیں گی ۔
او ران کا گٹھلیوں او رکنکروں پر گنا وغیرہ اچھا ہے ،صحابہ ﷢میں سے بعض ایسا کیا کرتے تھے نبی ﷺنے ام المؤمنین کو کنکروں پر تسبیحات پڑھتے دیکھا اور برقرار رکھا ۔ او رابوھریرہ ﷜سے اس پر تسبیحات پڑھنا مروی ہے ،اور منکوں وغیرہ کی لڑی پر تسبیحات پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے ۔
بعض لوگ مکروہ سمجھتے ہیں اور بعض مکروہ نہیں سمجھتے ۔ اگر حسن نیت ہو تو اچھا ہے مکروہ نہیں ۔بلا ضرورت بنانا او رلوگوں کو اس کا اظہار مثال کے طور پر گلے میں لٹکانا ۔ہاتھ میں کنگن کی طرح ڈالنا تو یہ ریا کاری یا پھر ریا کاری کا مظنہ ہے بلا ضرورت ریاکاروں کی مشابہت ہے ،پہلی صورت حرام ہے او ردوسری صورت کا حال کم کراہت کا ہے ۔الخ۔
صاحب سنن والمبدعات (2؍255)میں یہی بات کہی ہے انہوں نے یہ فرق کیا ہے کہ ہاتھ کے ساتھ تسبیحات کا گننا سنت ہے اور تسبیح وغیرہ سے افضل ہے ،پھر کہا ہے اور گھٹلیوں اور کنکروں کے ساتھ تسبیحات پڑھنا جائز ہے ۔
پھر پہلے گزرے ہوئے آثار میں سے بعض ذکر کیۓ ہیں ۔ او رتسبیح کو ٹکٹکانے اور لوگوں کو ظاہر کرنے پر رد کیا ہے ،مزید وضاحت کیلے ٔ اس کی طرف رجوع کریں ۔
اور اسی طرح امام شوکانی نے نیل الاوطار (2؍258)باب جواز عقد التسبیح بالید وعد بالنوی ونحوہ ‘‘میں ذکر کیا ہے او رمسئلے کی تحقیق کی ہے ۔
تو

جو تسبیح کو بدعت قرار دیتے ہیں تو ان کی کلام حمل کی جائے گی کہ تسبیح تب بدعت ہوگی اسے دین بنا لیا جائے اور ہاتھوں پر تسبیحات گننے پر اسے فضیلت دی جائے ۔
لیکن جو جو تسبیح اس لیے رکھے کہ اسے یاد رہے جیسے تجربہ سے ثابت ہے تو یہ بدعت نہیں کیونکہ بدعت اسے کہا جاتا ہے جو کہ عبادت کے طور پر دین میں نئی چیز نکالی جائے اور اگر عبادت کے طور پر کوئی نئی چیز نکالی نہ جائے تو وہ بدعت نہ ہو گی

اس کے ساتھ گزرے ہوئے آثار سے گٹھلیوں اور کنکروں کے ساتھ تسبیحات پڑھنے کی اباحت معلوم ہوتی ہے ۔اور منکوں کی لڑی بھی اسی معنی میں ہے
۔ واللہ اعلم.
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب


ج1ص165
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
امام ابو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن الدارمی رحمہ اللہ (المتوفی 255) بیان کرتے ہیں:

أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا نَجْلِسُ عَلَى بَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ فَإِذَا خَرَجَ مَشَيْنَا مَعَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَجَاءَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ فَقَالَ أَخَرَجَ إِلَيْكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَعْدُ قُلْنَا لَا فَجَلَسَ مَعَنَا حَتَّى خَرَجَ فَلَمَّا خَرَجَ قُمْنَا إِلَيْهِ جَمِيعًا فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ آنِفًا أَمْرًا أَنْكَرْتُهُ وَلَمْ أَرَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ إِلَّا خَيْرًا قَالَ فَمَا هُوَ فَقَالَ إِنْ عِشْتَ فَسَتَرَاهُ قَالَ رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ قَوْمًا حِلَقًا جُلُوسًا يَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ فِي كُلِّ حَلْقَةٍ رَجُلٌ وَفِي أَيْدِيهِمْ حَصًى فَيَقُولُ كَبِّرُوا مِائَةً فَيُكَبِّرُونَ مِائَةً فَيَقُولُ هَلِّلُوا مِائَةً فَيُهَلِّلُونَ مِائَةً وَيَقُولُ سَبِّحُوا مِائَةً فَيُسَبِّحُونَ مِائَةً قَالَ فَمَاذَا قُلْتَ لَهُمْ قَالَ مَا قُلْتُ لَهُمْ شَيْئًا انْتِظَارَ رَأْيِكَ وَانْتِظَارَ أَمْرِكَ قَالَ أَفَلَا أَمَرْتَهُمْ أَنْ يَعُدُّوا سَيِّئَاتِهِمْ وَضَمِنْتَ لَهُمْ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِهِمْ ثُمَّ مَضَى وَمَضَيْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَى حَلْقَةً مِنْ تِلْكَ الْحِلَقِ فَوَقَفَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ مَا هَذَا الَّذِي أَرَاكُمْ تَصْنَعُونَ قَالُوا يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَصًى نَعُدُّ بِهِ التَّكْبِيرَ وَالتَّهْلِيلَ وَالتَّسْبِيحَ قَالَ فَعُدُّوا سَيِّئَاتِكُمْ فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِكُمْ شَيْءٌ وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ أَوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ قَالُوا وَاللَّهِ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ قَالَ وَكَمْ مِنْ مُرِيدٍ لِلْخَيْرِ لَنْ يُصِيبَهُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ وَايْمُ اللَّهِ مَا أَدْرِي لَعَلَّ أَكْثَرَهُمْ مِنْكُمْ ثُمَّ تَوَلَّى عَنْهُمْ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ سَلَمَةَ رَأَيْنَا عَامَّةَ أُولَئِكَ الْحِلَقِ يُطَاعِنُونَا يَوْمَ النَّهْرَوَانِ مَعَ الْخَوَارِجِ

ترجمہ: الحکم بن المبارک نے ہمیں خبر دی، کہا کہ عمرو بن یحیی اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا کا بیان نقل کرتے ہیں:
ایک مرتبہ ہم صبح کی نماز سے پہلے حضرت عبداللہ بن مسعود کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب عبداللہ باہر تشریف لاتے تو ہم ان کے ساتھ چلتے ہوئے مسجد تک آیا کرتے تھے اسی دوران حضرت ابوموسی اشعری وہاں تشریف لے آئے اور دریافت کیا:
"کیا حضرت ابوعبدالرحمن (حضرت عبداللہ بن مسعود) باہر تشریف لائے۔"
ہم نے جواب دیا: "نہیں"
تو حضرت ابوموسی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن مسعود باہر تشریف لائے جب وہ آئے تو ہم سب اٹھ کران کے پاس آگئے حضرت ابوموسی نے ان سے کہا:
"اے ابوعبدالرحمن آج میں نے مسجد میں ایک ایسی جماعت دیکھی ہے جو مجھے پسند نہیں آئی اور میرا مقصد ہر طرح کی حمد اللہ کے لیے مخصوص ہے صرف نیکی ہے۔"
حضرت عبداللہ بن مسعود نے دریافت کیا: "وہ کیا بات ہے"
حضرت ابوموسی نے جواب دیا: "شام تک آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ حضرت ابوموسی بیان کرتے ہیں میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ حلقے بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور نماز کا انتظار کر رہے ہیں ان میں سے ہر ایک حلقے میں ایک شخص ہے جس کے سامنے کنکریاں موجود ہیں اور وہ شخص یہ کہتا ہے سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو۔ تو لوگ سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ پھر وہ شخص کہتا ہے سو مرتبہ لاالہ الا اللہ پڑھو تو لوگ سو مرتبہ یہ پڑھتے ہیں پھر وہ شخص کہتا ہے سومرتبہ سبحان اللہ پڑھو تو لوگ سبحان اللہ پڑھتے ہیں۔"
حضرت عبداللہ بن مسعود نے ان سے دریافت کیا "آپ نے ان سے کیا کہا"۔
حضرت ابوموسی اشعری نے جواب دیا میں نے آپ کی رائے کا انتظار کرتے ہوئے ان سے کچھ نہیں کہا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا: "آپ نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں اور آپ نے انہیں ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔"
(راوی بیان کرتے ہیں) پھر حضرت عبداللہ بن مسعود چل پڑے ان کے ہمراہ ہم بھی چل پڑے یہاں تک کہ حضرت عبداللہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا: "یہ میں تمہیں کیا کرتے ہوئے دیکھ رہاہوں؟"
انہوں نے جواب دیا: "اے ابوعبدالرحمن یہ کنکریاں ہیں جن پر ہم لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ گن کر پڑھ رہے ہیں۔"
حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا: "تم اپنے گناہوں کو گنو میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ اے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تمہارا ستیاناس ہو تم کتنی تیزی سے ہلاکت کی طرف جا رہے ہو یہ تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تمہارے درمیان بکثرت تعداد میں موجود ہیں اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ہیں جو ابھی پرانے نہیں ہوئے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن ہیں جو ابھی ٹوٹے نہیں ہیں اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم ایسے طریقے پر ہو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے؟ یا پھر تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو۔"
لوگوں نے عرض کی: "اللہ کی قسم اے ابوعبدالرحمن ہمارا ارادہ صرف نیک ہے۔"
حضرت عبداللہ نے ارشاد فرمایا: "کتنے نیکی کے خواہش مند ایسے ہیں جو نیکی نہیں کرتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا اور اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم ہوسکتا ہے ان میں سے اکثریت تم لوگوں کی ہو۔"
پھر حضرت عبداللہ ان کے پاس سے اٹھ کر آگئے۔ عمرو بن سلمہ بیان کرتے ہیں ہم نے اس بات کا جائزہ لیا ان حلقوں سے تعلق رکھنے والے عام افراد وہ تھے جنہوں نے نہروان کی جنگ میں خوارج کے ساتھ مل کر ہمارے ساتھ مقابلہ کیا۔

(سنن الامام الدارمی: 1/286 ح 210، ورواہ ایضا الامام اسلم بن سہل الواسطی فی التاریخ الواسط: 1/198، واسنادہ صحیح)
لنک
 
Top