- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
بھائی جان پوری کتاب کا دھاگہ اسی وجہ سے لٹکایا ہے کہ تاکہ شیخ کے دلائل پڑھ لیں اگر واقعتا کمزور ہیں تو پھر ان کی پیروی ضروری نہیں ۔ لیکن اس کے لیے دلائل پڑھنے کی مصیبت جھیلنا پڑے گی ۔ بہر صورت تقریبا سو صفحات کی کتاب ہے جس کے آخر میں خلاصۃ التحقیق تقریبا 15صفحات میں ہے ۔ اسی خلاصہ تحقیق سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں :خضر بھائی ابو زید رحمہ اللہ نے کس جگہ مروجہ تسبیح کو بدعت قرار دیا ہے؟ اور اس کی وجہ بھی بیان کر دیں ،میرے علم کے مطابق ان کا یہ موقف بہت زیادہ کم زور ہے، اس کو بدعت کہنا مبالغہ آرائی ہے
أضيف هنا أمرين مهمين:
أولهما: أقول فيه: إن من وقف على تاريخ اتخاذ السبحة, وأنها من شعائر الكفار من البوذيين, والهندوس, والنصارى, وغيرهم وأنها تسربت إلى المسلمين من معابدهم؛ علم أنها من خصوصيات معابد الكفرة, وأن اتخاذ المسلم لها وسيلة للعبادة, بدعة ضلالة, وهذا ظاهر بحمد الله تعالى.
وهذا أهم مَدْرَكٍ لِلْحُكْم على السُّبْحَة بالبدعة, لم أر من تعرض له من المتقدمين سوى الشيخ محمد رشيد رضا - رحمه الله تعالى - فمن بعده من أصحاب دوائر المعارف فمن بعدهم, ولو تبين لهم هذا الوجه لما قرر أحد منهم الجواز, كما هو الجاري في تقريراتهم في الأحكام, التي تحقق مناط المنع فيها: التشبه.
وثانيها: قال الغلاة في اتخاذ السُّبْحَة: ((إن العقد الأنامل إنما يتيسر في الأذكار القليلة من ((المائة)) فَدُوْن, أما أهل الأوراد الكثيرة, والأذكار المتصلة, فلو عدوا بأصابعهم لدخلهم الغلط, واستولى عليهم الشغل بالأصابع, وهذه حكمة اتخاذ السُبحة)) (1).
أقول: ليس في الشرع المطهر أكثر من ((المائة)) في عدد الذكر المقيد بحال, أو زمان, أو مكان, وما سوى المقيد فهو من الذكر المطلق, والله سبحانه وتعالى يقول: ? يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ? [الأحزاب / 41]. إلى غيرها من الآيات, كما في: [آل عمران / 41, والأنفال / 45, والأحزاب / 35].
فتوظيف الإِنسان على نفسه ذكراً مقيداً بعدد لم يأمر الله به ولا رسوله - صلى الله عليه وسلم - هو: زيادة على المشروع, ونفس المؤمن لا تشبع من الخير, وكثرة الدعاء والذكر, وهذا الأمر المطلق من فضل الله على عباده في حدود ما شرعه الله من الأدعية والأذكار المطلقة, بلا عدد معين, كل حسب طاقته ووُسعِه, وفَرَاغه, وهذا من تيسير الله على عباده, ورحمته بهم.
وانظر: لَمَّا ألزم الطرقية أنفسهم بأعداد لا دليل على تحديدها؛ وَلَّدَ لَهُمْ هذا الإِحداث بِدَعاً من اتخاذ السُّبَح, وإلزام أنفسهم بها, واتخاذها شعاراً وتعليقها في الأعناق, واعتقادات متنوعة فيها رغباً, ورهباً, والغلو في اتخاذها, حتى ناءت بحملها الأبدان, فَعُلِّقَتْ بالسقوف, والجدران, وَوُقِّفَت الوقوف على العَادِّين بها, وانْقَسَمَ المتعبدون في اتخاذها: نوعاً وكيفيةً, وزماناً ومكاناً, وعدداً, ثم تطورت إلى آلة حديدية مصنعة, إلى آخر ما هنالك مما يأباه الله ورسوله والمؤمنون.
فعلى كل عبد ناصح لنفسه أن يتجرد من الإِحداث في الدين, وأن يقصر نفسه على التأسي بخاتم الأنبياء والمرسلين, وصحابته - رضي الله عنهم - فَدَع السُّبْحَة يا عبد الله, وتَأَسَّ بنبيك محمد - صلى الله عليه وسلم - في عدد الذكر المقيد, ووسيلة العد بالأنامل, وداوم على ذكر الله كثيراً كثيراً دون التقيد بعدد لم يدل عليه الشرع, واحرص على جوامع الذكر
, ۔۔ ( السبحة ص 101 و ما بعدہا )
عربی جاننے والے حضرات عربی پڑھ لیں اور جو نہیں سمجھ سکتے ہیں وہ اس عبارت کا خلاصہ میرے الفاظ میں سن لیں :
پہلی بات :
مروجہ تسبیح کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ یہود و نصاری اور بدھ مت جیسے مذاہب سے آئی ہوئی بدعت ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ، حتی کہ ایام جاہلیت میں دیگر عرب کے ہاں بھی ذکر نہیں ملتا ۔ لہذا اس کی ممانعت کی یہ بنیادی وجہ ہے کہ اس میں تشبہ بالکفار ہے ۔
دوسری بات :
آلہ تسبیح کے جواز کے قائلین کہتے ہیں کہ انگلیوں کے ذریعے کام اس وقت تک چل سکتا ہے جب عدد تھوڑا ہے مثلا 100 یا اس سے کم ۔ جب زیادہ تعداد میں ذکر شمار کرنا ہو تو لا محالہ تسبیح کی ضرورت پڑھتی ہے ۔
شیخ کہتے ہیں قرآن و سنت میں 100 سے زیادہ عدد اذکار کے لیے مروی ہی نہیں ۔ لہذا خود کو ایسے بڑے عدد کا پابند کرنا جو قرآن و سنت میں مروی ہی نہیں ، پھر اس کے لیے یہودیوں و نصاری کے شعار کو عاریتا لینا یہ کہاں کی عقلمندی ہے ۔۔؟ اللہ کا ذکر کرنے سے کون روکتا ہے ؟ زیادہ سے زیاد اللہ کا ذکر کریں ، ضرور کریں ، لیکن گننے کا اہتمام اسی حد تک کرنا چاہیے جہاں تعداد مسنون ہے ۔
آلہ تسبیح کے بارے میں اس سے پہلے ایک جگہ فرماتے ہیں :
وليس هناك حديث واحد يفيد الإِقرار على عد التسبيح بغير الأنامل, فإن غاية المرفوع أربعة أحاديث:
1 - حديث أبي هريرة أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يسبح بالحصى وهو موضوع, -2 - وحديث ((نعم المذكر السبحة)) وهو في حكم الموضوع,
3 - وحديث صفية, وقد استنكر النبي - صلى الله عليه وسلم - عملها فقال: ((ما هذا؟)) , ثم دلها على الذكر الجامع،
4 - وحديث سعد بن أبي وقاص، وهو دال على عدم المشروعية, وأن قوله - صلى الله عليه وسلم -: ((ألا أخبرك بما هو أيسر وأفضل؟)) جاءت فيه ((أفعل)) على غير بابها, هذا مع ما في سند الحديثين من مقال.
ولهذا انقرض زمن النبي - صلى الله عليه وسلم - ولا وجود للتسبيح بالحصى أو النوى, فضلاً عن وجود التسبيح بها منظومة في خيط. ( السبحة ص 96 ۔ 97 )
کہتے ہیں آلہ تسبیح کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چار احادیث مروی ہیں جن میں سے دو تو موضوع ( جھوٹی ) ہیں جبکہ دوسری دو کی اسانید میں کلام بھی ہے اور دوسرا آلہ تسبیح کےجواز پر ان کی دلالت بھی واضح نہیں ہے ۔
تھوڑا آگے پھر لکھتے ہیں :
وعلى هذا الهدي العام مضى عصر الصحابة - رضي الله عنهم - ولا يؤثر عن أَحَدٍ منهم حرف واحد يصح عنه بأنه خالف هدي النبي - صلى الله عليه وسلم - فَعَدَّ التسبيح والذكر بالحصى, أو النوى, فضلاً عن اتخاذه في خيط معقود, والمرويات في هذا لا تخلو من مقال كما تقدم.
وفي عصر التابعين, وأخريات عصر الصحابة - رضي الله عنهم - لَمَّا بَدَت في التابعين ظاهرة العد للأذكار بالحصى, أو النوى, منثوراً, أو منظوماً في خيط, ابتدرها الهداة من الصحابة والتابعين بالاستنكار, والإِنكار, فهذا ابن مسعود - رضي الله عنه - يقول لإِخوانه من التابعين: ((لقد أحدثتم بدعة ظلما, أَوْ قَدْ فَضَلْتُم أصحاب محمد - صلى الله عليه وسلم - عِلْماً)) , وابن مسعود - رضي الله عنه - يقطع خيط آخر, وابن مسعود - رضي الله عنه - يضرب آخر برجله لما رآه يَعُدُّ التسبيح بالحصى, ويعلن في الناس كراهيته للعد بالحصى, أ النوى, ويقول: ((أَيُمَنُّ على الله حسناته؟)).
وهكذا دفع - رضي الله عنه - في وجه الغلو, ونَهْى الغلاة؛ ولهذا قال عمرو بن سلمة - رحمه الله تعالى -: ((رأينا عامة أولئك الخلق - أي الذين نهاهم ابن مسعود عن التسبيح بالحصى - يطاعنونا يوم النهروان مع الخوارج)).
وهذا سيد التابعين في زمانه: إبراهيم بن يزيد النخعي المتوفى سنة 96 - رحمه الله تعالى - ينهى بناته عن فتْلِ الخيوط للتسابيح؛ لأَنها وسيلة إلى غير المشروع, وهذا نظير النهي عن بيع العنب لمن يتخذه خمراً, ونظائره كثيرة في تحريم الوسائل المفضية إلى محرم كالبدعة. ( السبحة ص 98۔ 99 )
صحابہ میں سے کسی سے صحیح سند سے ثابت نہیں کہ اس نے آلہ تسبیح کا استعمال کیا ہو ۔
صحابہ کے زمانہ کے اخیر میں اور تابعین کے ابتدائی دور میں بعض لوگوں نےجب اس بدعت کی ابتداء کی تو صحابہ کرام نے ان کو ڈانٹ ڈپٹ جیساکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سےمروی ہے انہوں نے کہا:
تم نے اس بدعت کو ایجاد کرتے ہوئے ظلم کیا ۔ یا تتم سمجھتے ہو کہ تم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ علم رکھتے ہو ۔
اسی طرح ابراہیم نخعی جلیل القدر تابعین میں سے ہے وہ اپنی بیٹیوں کو تسبیحوں کے لیے دھاگے بنانے سے منع کیا کرتے تھے ۔ تاکہ یہ ایک غیر مشروع کام میں تعاون نہ ہو ۔
اتنا وقت اور فرصت نہیں ورنہ شیخ بکر کی پوری کتاب اس لائق ہے کہ اسے اردو کے قالب میں ڈھالا جائے ۔