Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
تشریحات احکام رمضان
رمضان کا روزہ فرض ہے:
(۱) قرآن مجید میں ہے:
{یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمَ الصَّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلََّکُمْ تَتَّقُوْنَ}
’’اے ایمان والو! تم پر روزہ اس طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے (اگلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا) تاکہ تم (گناہوں) سے بچو۔‘‘
(۲) ایک دوسری جگہ پر فرمایا:
{شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِلنَّاسِ وَبَیِّنٰتِ مِّنْ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ}
’’رمضان وہ (مبارک) مہینہ ہے جس میں قرآن مجید اترا، جو لوگوں کو ہدایت کی راہ بتاتا ہے اور اس میں ہدایت کی کھلی کھلی دلیلیں ہیں۔ اور حق کو باطل سے پہچاننے کا طریقہ ہے۔ پھر جو تم میں سے یہ مہینہ پائے (یعنی تندرست اور مقیم ہو، بیمار اور مسافر نہ ہو) تو اس ماہ میں روزہ رکھے۔‘‘
بخاری۔ نسائی۔ منتقی۔ ابن جارود میں احادیث صحیحہ موجود ہیں۔ جن سے رمضان کے روزوں کا فرض ہونا ثابت ہے، جس سے کسی مسلمان کو انکار کی گنجائش نہیں۔
رمضان شریف کے فضائل:
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے فضائل رمضان کے بارہ میں رسول اللہ ﷺ کا حسب ذیل خطبہ نہایت معرکۃ الاراء اور معروف خطبہ ہے۔
((عن سلمان الفارسی قال خطبنا رسول اللہ ﷺ فی اٰخر یوم من شعبان فقال یٰایھا الناس قد اظللکم شھر عظیم، شہر مبارک، شھر فیہ لیلۃ خیر من الف شھر جعل اللہ صیامہ فعریضۃ وقیام لیلہ تطوعا من تقرب فیہ بخصلۃ من الخیر کان کمن ادّی سبعین فریضۃ فیما سواہ، فھو شھر الصبر ولاصبر ثوابہ الجنۃ، وشھر المواساۃ، وشھر یزاد فیہ رزق المؤمن، من فطر فیہ صائما کان لہٗ مغفرۃ لذنوبہ۔ وعتق رقبۃ من النار دکان لہٗ مثلا اجرہ من غیران ینقص من اجرہ شئی۔ قالنا یا رسول اللہ لیس کلنا یجد ما یفطر بہ الصائم فقال رسول اللہ ﷺ یعطے اللّٰہ ھٰذا الثواب من فطرف صائمان علی مذقۃ لبن او تمرۃ او شربۃ من مائٍ من اشبع صائما سقاہ اللّٰہ من حوضی شریۃ لا یظماء حتی یدخل الجنۃ وھو شھر اولہ رحمۃ واوسطہٗ مغفرۃ واٰخرہ عتق من النارو من خفف عن مملوکہ فیہ غفرلہ واعتقد من النار)) (مشکوٰۃ)
’’یعنی سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے ایک خطبہ سنایا۔ اے لوگو! تم پر ایک بہت ہی عظیم الشان بابرکت مہینہ آیا ہے، وہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں ایک رات ہے، جو ہزار ماہ سے افضل ہے۔ خدا نے اس ماہ میں روزے فرض کیے ہیں۔ اور رات کو قیام کرنا نفل قرار دیا ہے۔ جو کوئی اس ماہ میں نفلی نیکی کا کام کر لے۔ وہ ایسا ہو گا کہ اس نے اور دنوں میں گویا فرض عبادت کی۔ اور جو اس ماہ میں فرض ادا کر لے۔ وہ ایسا ہو گا کہ گویا اس نے اور دنوں میں ستر فرض ادا کیے۔ ماہ رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ وہ باہمی سلوک اور مروت کا مہینہ ہے۔ ایسا مہینہ ہے کہ مومن کا رزق اس میں بڑھ جاتا ہے۔ (یعنی روزہ دار اس مہینہ میں بھی حسب خواہش کھاتا ہے۔ اور قیامت کے روزہ بھی اس کی برکت سے بے حد نعمتیں پائے گا، جو کوئی اس مہینہ میں روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے گناہوں کی بخشش ہو گی۔ اور آگ سے نجات ملے گی۔ اور اس کو روزہ دار جتنا ثواب ملے گا۔ یہ نہیں کہ روزہ دار کی افطار کے لیے بہت کچھ سامان چاہیے۔ اس لیے ہم (صحابہ رضی اللہ عنہ) نے عرض کی۔ کہ حضور ﷺ! ہم میں سے ہر ایک تو طاقت نہیں رکھتا۔ کہ روزہ دار کو روزہ افطار کرا سکے۔ حضور ﷺ! نے فرمایا: کہ اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس کو بھی دے گا جو روزہ دار کو دودھ کا گھونٹ یا پانی پلا دے (کیونکہ خدا کے ہاں جنت کا اجر ہے) جو کوئی روزہ دار کو ٹھنڈا شربت یا دودھ پیٹ بھر کر پلا دے، خدا اس کو میرے حوض کوثر سے ٹھنڈا شربت پلائے گا۔ جس کی وجہ سے وہ میدان محشر میں جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہو گا۔ یہ ماہ رمضان ایسا ہے کہ اس کا شروع حصہ رحمت ہے۔ درمیان حصہ بخشش ہے۔ اور آخری حصہ جہنم کی آزادی کے لیے مخصوص ہے۔ جو کوئی اس مہینہ میں اپنے کاروندوں کے کام میں تخفیف کرے۔ یعنی معمول سے کم کام کرائے۔ خدا اس کو بخشش دے گا۔ اور اس کو جہنم کے عذاب سے نجات دے گا۔‘‘
بخاری، مسلم، نسائی اور دارمی میں ہے۔
((عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ اذا دخل رمضان فتحت ابواب السماء غلفقت ابواب النار سُلسلت الشیاطین))
’’حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان آتا ہے۔ تو آسمان کے دروازے کھل دئیے جاتے ہیں۔ اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ اور شیطان قید کر دئیے جاتے ہیں۔‘‘
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے رمضان شریف کے فضائل نہایت شرح و بسط کے ساتھ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں بیان فرمائے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ عدم گنجائش کی وجہ سے ہم ان کو درج نہیں کر سکے۔
روزہ کی فضیلت:
بخاری، مسلم اور نسائی میں ہے:
((عن ابی ھریرہ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ ﷺ قال اللّٰہ تعالیٰ کل عمل ابن اٰدم لہٗ الا الصیام فانہ لی وانا اجزی بہ والصیام جنۃ واذا کان یوم صوم احد کم فلا یرفث ولا یصخب فان سابہ احدا وقا قلہٗ فلیقل انی امر صائم والذی نفس محمد بیدہٖ لخلوفگ فم الصائم اطیب عند اللّٰہ من ریح المسک للصائم فرحتان یفرحھمأ اذا افطر فرح واذا لقی ربہ فرح بصومہٖ))
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان کا ہر ایک عمل اس کے لیے ہے، مگر روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کا بدلہ دوں گا۔ اور روزہ ڈھال ہے۔ (دوزح کے عذاب سے یا گناہوں سے) جو کوئی تم میں سے روزہ دار ہو۔ تو اس کو نہ بے ہودہ باتیں کر نی چاہیے۔ نہ شور و شغب اور نہ پکار کر بے ہودہ کلام کرنی چاہیے۔ اگرع کوئی اس کو برا کہے۔ یا کوئی اس سے لڑے۔ تو یہ کہہ دے۔ اِنِّیْ صَائَمٌ (میں روزہ دار ہوں) اس کو جواب نہ دے۔ جس طرح اس نے بات کی ہے۔ اور قسم ہے، اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے (فداہ ابی وامی) اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزہ دار کے منہ کی خوشبو مشک سے کہیں بڑھ کر ہے۔ روزہ دار کے واسطے دو خوشیاں ہیں، جو اس کو خوش کرتی ہیں۔ ایک افطاری روزہ کے وقت، دوسرے پروردگار سے (قیامت کے دن) ملاقات کے وقت اپنے روزہ کی وجہ سے!‘‘
(۲) مشکوٰۃ میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزہ دار اور قرآن مجید اللہ تعالیٰ سے بندہ کی سفارش کریں گے۔ روز ہ کہے گا: ’’اے پروردگار میں نے تیرے بندہ کو کھانے اور خواہش کی چیزوں سے دن میں روک دیا تھا۔ تو اس کے لیے میری شفاعت قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا۔ کہ میں نے تیرے بندہ کو نیند سے روک دیا۔ تو میری شفاعت قبول فرما۔ اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت قبول فرمائے گا۔‘‘
روزہ دار کی فضیلت:
بخاری، ابن ماجہ اور نسائی میں ہے۔
((عن سھل بن سعد ان النبی ﷺ قال ان فی الجنۃ باباً یقال لہ الریان یدعی یوم القیامۃ یقال این الصائمون فمن کان من الصائمین دخلہ ومن دخلہ لم یظماً ابدا))
’’سہل بن سعد سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک دروازہ ہے۔ جس کا نام ’’ریان‘‘ ہے۔ قیامت کے دن پکارا جائے گا۔ روزہ دار کہاں ہے؟ تو جو کوئی روزہ داروں میں سے ہو گا۔ وہ اس کے اندر جائے گا۔ اور جو اس دروازہ میں سے داخل ہو گا۔ وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔‘‘
بخاری، نسائی، ابن ماجہ اور ترمذی میں ہے۔
((عن ابی ہریرہ رضی اللہ عن عن النبی ﷺ من صام رمضان ایماناً واحتساباً غفرلہٗ ما تقدم من ذبنہٖ))
’’حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جو کوئی رمضان کے روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھے۔ اللہ تعالیٰ اس کے اگلے گناہ بخش دے گا۔‘‘
رمضان کے لیے ہلال شعبان کا خیال رکھنا چاہیے:
جامع ترمذی میں ہیـ:
((عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ احصوا ھلال شعبان رمضان))
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: کہ رمضان کی آدم کے لیے عرہ شعبان کا خیال رکھو۔ اور دن گنتے رہو۔‘‘
سُنن ابی دائود میں ہے:
((عن عبد اللہ بن ابی قیس قال سمعت عائشۃ رضی اللہ عنھا تقول کان رسول اللہ ﷺ یحتقط من شعبان مالا یتحفظ من غیرہٖ))
’’عبد اللہ بن ابی قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ام المومنین مائی عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ شعبان کی تاریخوں کو اچھی طرح یاد رکھتے کہ اس طرح دوسرے مہینوں کو یاد نہیں کرتے تھے۔‘‘
نصف شعبان کے روزے:
ابن ماجہ، ابو داؤد، ترمذی اور دارمی میں ہے:
((عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ اذا کان النصف من شعبان فلا صوم حتی یجئی رمضان))
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب شعبان آدھا گزر جائے۔ تو اب روزہ نہ رکھے۔ جب تک رمضان نہ آ جائے۔‘‘
ان روزوں سے… رمضان کی آمد کے اور سلامی کے روزے مراد ہیں۔ جو روزے کسی رمضان کے کسی کے ذمہ ہو۔وہ رکھ سکتا ہے۔
رمضان سے پہلے روزے:
بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، ترمذی، دارمی اور منتقیٰ میں ہے:
((عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ انہ قلا لا یتقد من احدکم رمضان بصوم یوم او یومین … الا ان یکون رجل کان یصوم صوما فلیصم ذالک الیوم))
’’حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: رمضان کے ایک دو روز پہلے سے روزہ رکھنا شروع نہ کرو۔ ہاں اگر کسی شخص کو روزہ رکھنے کی عادت ہے، اور وہ دن اسی جگہ آن پڑے۔ تو رکھ لے۔‘‘
شک کے روزہ کی ممانعت:
بخاری، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور دارمی میں ہے:
((عن صلۃ قال کناً عند عمار فی الیوم الذی یشک فیہ فاق بشاۃ فتنحیٰ بعض القوم فقال عمّار من صام ھذا الیوم فقد عصیٰ ابا القاسم ﷺ))
’’صلہ سے روایت کہ ہم عمار رضی اللہ عنہ کے پاس تھے۔ شک کے روزہ (یعنی یہ معلوم نہ تھا کہ ۳۰ شعبان ہے یا یکم رمضان ہے) ایک بکری کا گوشت آیا۔ بعض لوگوں نے کھانے سے پرہیز کیا۔ عمامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جس نے اس روز روزہ رکھا۔ اس نے ابو القاسم محمد ﷺ کی نافرمانی کی۔‘‘
(یعنی ۲۹ شعبان کو) جب کہ ابر وغیرہ ہو۔ اور یہ معلوم نہ ہو سکے کہ آج چاند ہوا ہے۔ یا نہیں۔ تو دوسرے روز روزہ نہ رکھنا چاہیے۔ بلکہ اس کو ۳۰ شعبان سمجھنا چاہیے۔
اگر ۲۹ شعبان کو ابر ہو:
بخاری، ابو داؤد، اور نسائی میں ہے:
((عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ یقول قال النبی ﷺ صوموا الرؤیتہٖ وافطر والرؤیتہٖ فان غمّ علیکم فاکملوا عدۃ شعبان ثلاثین۔))
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چاند دیکھ کر روزہ رکھو۔ اور چاند دیکھ کر روزہ بند کر دو۔ لیکن اگر ۲۹ شعبان کو ابر ہو۔ تو شعبان کے ۲۰ دن پورے کرو۔‘‘
بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، موطاً امام مالک،د ارمی اور منتقیٰ میں ہے۔
((عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ ﷺ ذکر رمضان فقال لا تصوموا حتی تروا الھلال واحرتی تودہ فان غم علیکم فاقدر روا لہٗ))
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا ذکر فرمایا کہ جب رمضان کا چاند نہ دیکھ لو۔ روزہ مت رکھو۔ اور جب تک شوال کا چاند نہ دیکھ لو۔ روزہ مت موقوف کرو۔ پس اگر تم پر آبر آ جائے تو (۲۰ روز کی گنتی پوری کرنے کے لیے) حساب کر لو۔‘‘
ہر شہر کی رویٔت اپنی اپنی ہے:
مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور نسائی میں ہے۔ کریب سے روایت ہے کہ ام الفضل بنت الحارث نے ان کو شام میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ کریب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں شام میں پہنچا۔ اور ام الفضل کا کام پورا کیا۔ اور پھر رمضان کا چاند ہو گا۔ اور میں وہیں تھا۔ ہم نے چاند جمعہ کی رات کو (ملک) شام میں دیکھا تھا۔ اور جب رمضان کے آکر میں مدینہ شریف آیا۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے چاند کا حال پوچھا۔ اور کہا کہ تم نے کب چاند دیکھا۔ میں نے کہا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو دیکھا۔ا بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ تم نے چاند اپنی آنکھ سے دیکھا۔ میں نے کہا: ہاں! اور لوگوں نے بھی دیکھا۔ میں نے روزے رکھے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ ابن عباس نے کہا کہ ہم نے تو چاند ہفتہ کی رات دیکھا۔ ہم اسی دن سے روزہ رکھ رہے ہیں اور رکھتے جائیں گے۔ جب تک کہ ۲۰ روزے پورے نہ ہو جائیں۔ یا شوال کا چاند دکھائی دے۔ میں نے کہا تم معاویہ کی رویٔت اور ان کے روزہ پر اعتبار نہیں کر سکتے۔ اس نے کہا: نہیں۔ کیونکہ ہم کو رسول اکرم ﷺ نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ (یعنی اپنی رویت پر عمل کرنے کا)۔
ہلال رمضان کے لیے ایک مسلمان کی گواہی کافی ہے:ـ
ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی، منتقیٰ اور ابن جارود میں ہے:
((عن ابن عباس قال قال جاء اعرابی النبی ﷺ فقال انی رأیت الھلال فقال اتشھد ان لا الٰہ الا اللہ اتشھد ان محمد رسول اللہ قال نعم قال یا بلال اذن فی الناس ان یصوموا غدا۔))
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک گنوار آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور کہنے لگا کہ میں نے چاند دیکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔ اور محمد رسول اللہ ﷺ اس کے رسول ہیں۔ وہ بولا کہ ہاں! آپ ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں میں منادی کر دو۔ کہ کل روزہ رکھیں۔‘‘
چاند کو دیکھ کر کون سی دعا پڑھنی چاہیے:
ترمذی اور دارمی میں ہے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ چاند دیکھ کر یہ دعا پڑھتے تھے:
((اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ رَبِّیْ وَرَبُّکَ اَللّٰہ ھِلَالُ رُشْدٍ وَخَیْرٍ))
سحری کی فضیلت:
سنن نسائی میں ہے:
((عن رجل من اصحاب النبی ﷺ قال دخلت علی النبی ﷺ وھو یتسخر فقال انھا برکۃ اعطاکم اللہ ایاھاً فَلَا تَدَعُوْہُ))
’’رسول اکرم ﷺ کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایسے وقت حاضر ہوا۔ جب کہ آپ ﷺ سحری تناول فرما رہے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: سحری کی برکت ہے، جو تم ہی کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔ (اور پہلے اہل کتاب کو حکم نہ فرمائی تھی، تم اس کو مت چھوڑو (یعنی سحری کھایا کرو)‘‘
سحری میں برکت:
بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی، منتقیٰ، ابن جارود میں ہے:
((عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال قال النبی ﷺ تسحروا فان فی السحور برکۃ))
’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: سحری کھائو، سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘
سحری کھانے میں دیر کرنی چاہیے:
سنن، نسائی اور ترمذی میں ہے:
((عن ابی عطیۃ قال قلت لعائشۃ فینا رجلان احدھما یعجل الافطار ویؤخر السحور والاخر یؤخر الافطار ویعجل السحور قالت ایھما الذی یعجل الافطار ویؤخر السحور قلت عبد اللہ بن مسعود قالت ھکذا کان رسول اللہ ﷺ یضع))
’’ابو عطیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: ہم میں دو آدمی ہیں۔ ایک تو ان میں افطار (روز کھولنے میں جلدی کرتے ہیں۔ اور سحری میں دیر، دوسرے صاحب افطار میں دیر اور سحری میں جلدی کرتے ہیں۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے استفسار فرمایا: وہ کون صاحب ہیں جو افطار میں جلدی، اور سحری میں دیر کرتے ہیں ؟ میں نے عرض کیا: وہ بزرگ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ ام المؤمنین نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ (یعنی روزہ جلدی کھولتے۔ اور سحری میں دیر کرتے)‘‘
سحری اور فجر کی نماز میں فرق:
بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور دارمی میں ہے:
((عن زید بن ثابت رضی اللہ عنہ قال تسحر نا مع رسول اللہ ﷺ ثم قمنا الی الصلوۃ قلت کم کان قدرما بینھما قال خمسین اٰیۃ))
’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کھائی۔ اور صبح کی نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔ راوی نے پوچھا کہ سحری کھانے اور نماز کے درمیان کتنی دیر گزاری؟ کہا: اتنی دیر کہ کوئی پچاس آیات قرآن کی پڑھ لے۔‘‘
سحری کس وقت کھانی چاہیے:
سنن ابی داؤد میں ہے:
((عن عبد اللہ بن مسعود قال قال رسول اللہ ﷺ لا یمغن احدکم اذان بلال من سحورہ فانہ یؤذن او قال ینادی لیرجع قائمکم وینتبہ نائمکم فلیس الفجر ان یقول ھکذا قال مسدد وجمع یحییٰ کفیہ حتی یقول ھکذا او مد یحییٰ باصبعیہ السابتین))
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی شخص کو سحری کھانے سے بلال کی اذان نہ روکے۔ کیونکہ وہ رات کے رہتے اذان دیتا ہے، تاکہ تم میں سے جو تہجد کی نماز پڑھتا ہو۔ وہ پڑھ لے۔ جو سحری کھانا چاہے۔ وہ اٹھ کر سحری کھا لے۔ اور فجر کا وہ وقت نہیں جو اس طرح ہو۔ (راوی نے اپنی دونوں ہتھیلیاں ملائیں اور اونچی کر کے کہا کہ جو لمبی اور اونچی روشنی ہوتی ہے۔ اس کا نام صادق نہیں ہے، حضرت نے فرمایا جب تک روشنی نہ پھیلے، اور حضرت نے اپنے کلمہ کی دونوں انگلیاں ملا کر پھیلایا۔ اور فرمایا کہ صبح کی روشنی چوڑی ہوتی ہے۔‘‘
جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد میں ہے:
((عن طلق رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ کلوا واثربوا لا یھدینکم الساطع المصعد فکلوا واشربوا حتی یعترض لکم الاحمرا))
’’حضرت طلق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کھائو اور پیئو۔ تم کو کھانے اور پینے سے وہ روشنی نہ روکے، جو چڑھتی چلی آتی ہے، (یعنی صبح کاذب) بلکہ کھائو اور پیٔو جب تک صبح صادق نہ نکلے (یعنی سرخی میں سفیدی نہ آ جائے)‘‘
بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی اور دارمی میں ہے، عدی بن حاتم نے کہا کہ جب قرآن کی یہ آیت اتری:
{حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ}
’’رمضان میں کھایا پیا کرو۔ جب تک کہ سفید ڈورا سیاہ ڈورے سے نمودار ہو۔‘‘
تو میں نے اونٹ کی رسی سیاہ اور دوسری سفید اپنے تکیے کے نیچے رکھی۔ پھر آخر رات میں ان کو دیکھا۔ مجھ کو وہ کچھ صاف نظر نہ آئیں۔ صبح کو میں نے رسول اکرم ﷺ سے عرض کیا۔ آپ نے ہنس کر فرمایا: تیرا تکیہ بہت لمبا چوڑا ہے۔ (یعنی تو نے سمجھا نہیں، قرآن کا مطلب سیاہ اور سفید ڈورے سے رات کی سیاہی اور دن کی سفیدی ہے۔
ان تینوں احادیث کا مطلب یہ ہے کہ صبح کاذب (جس کی روشنی لمبی ہوتی ہے) تک روزہ دار کو کھانا پینا حرام نہیں ہے۔البتہ صبح صادق (جس کی روشنی چوڑی چکلی یوں ہوتی ہے) میں کھانا پینا حرام ہے۔
سحری کھانا سنت ہے:
سنن نسائی میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے خادم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے انس رضی اللہ عنہ! میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں مجھے کچھ کھانا دو۔ (کہ میں ان سے سحری کر لوں) حضرت انس رضی اللہ عنہ کچھ کھجوریں اور ایک برتن لائے۔ جس میں پانی تھا۔ (اور یہ واقعہ اس وقت کا ہے۔ جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان دے چکے تھے) اس وقت جناب امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ذرا ان کو بھی بلا لو۔ جو میرے ساتھ کھانا کھایا کرتے ہیں۔ میں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ وہ آئے اور آنحضرت ﷺ سے کہنے لگے: میں نے تو ستو پی لیے ہیں۔ اور میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔ رسول اکر م ﷺ نے فرمایا: کہ میں بھی روزہ رکھوں گا۔ پھر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ سحری کھائی اور پھر دو رکعت نماز ادا کی۔ اور پھر جماعت کے لیے نکلے۔
اس احادیث سے اور دوسری احادیث سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے سحری کھائی ہے، اور سحری کھانا چاہیے۔ اگرچہ چند لقمے ہی کھا لیے جائیں۔
شکر گزار اور روزہ دار:
سنن ابن ماجہ میں ہے:
((عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال الطاعم الشاکر بمنزلۃ الصائم الصابر))
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: کھانا کھا کر شکر کرنے والا مثل روزے دار کے لیے جو صبر کرے۔ (کھانے سے)‘‘
روزہ کی نیت رات سے کرے:
سنن ابی داؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور دارمی میں ہے:
((عن حفصۃ زوج النبی ﷺ ان رسول اللہ ﷺ قال من لم یجمع الصیام قبل الفجر فلا صیام لہ))
’’ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہ سے مرو ی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے فجر ہونے سے پہلے (رات سے) روزہ (فرض) کی نیت نہ کی۔ اس کا روزہ (درست نہ ہو گا)۔‘‘
روزہ دار بحالت جنابت:
بخاری، مسلم، مؤطا، ابو داؤد، ابن ماجہ اور دارمی میں، ام المؤمنین سلمہ رضی اللہ عنہ اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ صبح کو اپنی بیوی کے پاس سے جنابت کی حالت میں اٹھتے تھے، پھر غسل فرماتے تھے، اور روزہ رکھتے تھے۔ ایک روایت میں ہے۔ اگر وقت تنگ ہو تو جنبی وضو کر کے کھانا کھا سکتا ہے پھر غسل کر کے نماز پڑھ لے۔ غسل نماز کے لیے ضروری ہے، سحری کھانے کے لیے ضروری نہیں۔
روزہ دار مسواک کر سکتا ہے:
حدیث میں ہے:
((عن عامر بن ربیعۃ قال رأیت النبی ﷺ یستاک وھو صائم ما لا احصی اوا عد۔))
’’عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں۔ میں نے رسول پاک کو روزہ کی حالت میں مسواک کرتے دیکھا ہے جس کا میں شمار نہیں کر سکتا۔‘‘
سنن ابی داؤد میں ہے:
((عن صبرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ بالغ فی الاستنشاق الا ان تکون صائما))
’’حضرت صبرہ سے روایت ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرو۔ مگر جب روزہ دار ہو۔ (تو مبالغہ نہ کرو۔ پانی حلق میں اتر جانے کا اندیشہ ہو۔ کیونکہ اگر پانی حلق میں اتر گیا تو روزہ ٹوٹنے کا خطرہ ہے)۔‘‘
کیا روزہ دار اپنی بیوی کا بوسہ لے سکتا ہے:
بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی اور متنقیٰ میں ہے:
((عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت ان کان رسول اللہ ﷺ یقبل بعض ازواجہ و ھو صائم ثم ضحک ام المؤمنین))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ روزہ میں اپنی کسی بیوی کا بوسہ لے لیتے۔ پھر (یہ کہہ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ہنس دیں)۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ اگر کوئی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکتا ہو۔ جوا ن میں ہو۔ تو نہ بیوی کا بوسہ لے۔ اور نہ بدن سے بدن ملائے۔ اجتناب بہتر ہے۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
((عن ابی ھریرہ ابن رجلا سال النبی ﷺ عن المباشرۃ للصائم فرخص لہ رسول اللہ ﷺ واٰتاہ اٰخرہ فسالہ فنھاہ فاذا الذی رخص لہ شیخ والذی نھاہ شأبٌ)) (ابو داؤد)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا۔ روزہ دار کو مباشرت کرنا (مباشرت کہتے ہیں۔ عورت کے بدن سے بدن ملائے۔ اور صرف بغل گیر ہونے کو) کیسا ہے؟ ّ آپ ﷺ نے اس کو اجازت دے دی۔ پھر دوسرا شخص آیا۔ اس نے بھی یہی سوال کیا۔ آپ نے اس کو منع فرمایا۔ کیونکہ ہو جوان تھا۔‘‘
روزہ دار اگر بھول کر کھا پی لے:
بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور دارمی میں ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے (بحالت روزہ) بھولے سے کھا پی لیا۔ وہ اپنا روزہ پورا کرے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہی اس کو کھلایا پلایا ہے۔ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ نہ بھول کر کھانے پینے سے گناہ لازم آتا ہے۔
اگر بحالت روزہ احتلام ہو جائے:
سنن ابی دائود میں ہے:
((عن رجل من اصحاب النبی ﷺ لا یفطر من قاء ولا من احتلم ولا من احتجم))
’’رسول پاک ﷺ کے اصحاب میں سے ایک صحابی روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو خود بخود قے ہو جائے یا سوتے وقت احتلام ہو جائے یا پچھنے لگائے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا۔‘‘
بخاری، ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ اور دارمی میں ہے۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین چیزوں سے روزہ نہیں ٹوٹتا (۱) پچھنے لگانے سے (۲) بلا ارادہ قے آ نے سے (۳) احتلام ہو جانے سے۔
اگر روزہ دار قصداً قے کر دے:
سنن ابی داؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور دارمی میں ہے:
((عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ من زرعۃ القئی وھو صائم فلیس علیہ قضاء وان استسقاء فلیقض))
’’حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس پر روزہ کی حالت میں قے غلبہ کرے۔ اس پر روزہ کی قضا نہیں (یعنی اس کا روزۃ نہیں ٹوٹتا) جس نے از خود قے کی۔ اس پر قضا ہے۔ یعنی اس کا روزہ ٹوٹ گیا۔ اسے روزہ کی قضا کرنی چاہیے۔‘‘
روزاہ دار کے لیے گرمی کا علاج:
موطا اور ابو داؤد میں ہے:
((عن بعض اصحاب النبی ﷺ لقد رأیت النبی ﷺ بالعرج یصیب علٰی راسہ الماء وھو صائم من العطش او من الحرّا))
’’آنحضرت ﷺ کے بعض صحابہ میں سے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو مقام عرج (ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے میں نے دیکھا کہ آپ گرمی اور پیاس رفع کرنے کے لیے سر پر پانی ڈال رہے ہیں۔‘‘
روزہ دار کسی کو گالیاں نہ دے:
بخاری، مسلم، موطأ، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے:
((عن ابی ہریرۃ ان النبی ﷺ قال الصیام جنۃ اذا کان احدکم صائم فلا یرفث ولا یجھل فان امرؤ قاتلہ او شتمۃ فلیقل انی صائم))
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو۔ تو اس کو چاہیے کہ وہ بیہودہ نہ بکے نہ گالیاں دے۔ اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا گالیاں دے تو کہہ دے انی صائمٌ ’’کہ میں روزہ دار ہوں۔‘‘
روزہ رمضان کا کفارہ:
بخاری، مسلم، مؤطا، ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں تو ہلاک ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ میں نے رمضان میں (یعنی روزہ کی حالت میں) اپنی بیوی سے جماع کیا ہے، آپ نے فرمایا کیا تیرے پاس کوئی غلام ہے کہ اسے آزاد کر دے؟ اس نے کہا مجھ میں اتنی طاقت نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ اس نے کہا مجھ میں اتنی طاقت نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: اچھا بیٹھ جا۔ا تنے میں نبی اکرم ﷺ کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا آیا۔ جس میں بہت سی کھجوریں تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ لے جائو اور غربا کو کھلا دو۔ اس شخص نے عرض کیا کہ حضرت اطراف مدینہ میں مجھ سے زیادہ اور کوئی شخص محتاج نہیں ہے۔
اس ر سول اکرم ﷺ کو ہنسی آ گئی۔ اور اتنا ہنسے کہ آپ ﷺ کے دانتوں کی کچلیاں کھل گئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا جب یہ حالت ہے تو لے جائو۔ اور اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد اور عورت کے لیے ایک ہی کفارہ دینا کافی ہے۔ یہ نہیں کہ عورت کے لیے علیٰحدہ کفارہ ہو۔ نیز جب عمداً روزہ توڑا جائے۔ تو ان تینوں کفاروں میں سے جو کفارہ بھی ادا کر سکے، اور جس کی طاقت رکھتا ہو وہ ادا کرے۔
روزہ کس وقت افطار کرنا چاہیے:
بخاری، مسلم، ابو داؤد اور ترمذی میں ہے:
((عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ اذا اقبل اللیل من ھٰھنا وادبر النھار من ھٰھنا وغابت الشمس فقد افطر الصائم))
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب (مشرق کی طرف سے) رات (کی سیاہی) نظر آ جائے، اور دن (پچھم کی طرف) جائے، اور سورج ڈوب جائے تو روزہ کھول دو۔‘‘
روزہ جلد افطار کرنا چاہیے:
بخاری، مسلم، ترمذی، مؤطا امام مالک، ابن ماجہ اور دارمی میں ہیـ:
((عن سہل بن سعد قال قال رسول اللہ ﷺ لا یزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر))
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: لوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں گے۔ جب افطار میں جلدی کریں گے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضٰ اللہ عنہ رسول پاک ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہمیشہ دین غالب رہے گا۔ جب تک لوگ روزہ جلدی افطار کرتے رہیں گے کیونکہ یہود و نصاریٰ روزہ افطار کرنے میں دیر کیا کرتے تھے۔
روزہ دار کی دعا:
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بن عاص سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں ہوتی۔
افطار کی دعائ:
سنن ابی دائود میں ہیـ:
((عن ابن عمر رضی اللہ عنہا قال کان النبی ﷺ اذا افطر قال ذَھَبَ نَّطْأُ وَابْتَلَّتَ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالیٰ))
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ جب روزہ افطار کرے تو فرماتے: ((ذھب الظماء وابتلت العروق وثبت الاجر انشاء اللہ تعالیٰ)) ’’یعنی پیاس چلی گئی، رگیں تر ہو گئیں، اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب بھی ثابت ہو گیا۔‘‘
ایک حدیث میں یہ دعا بھی آئی ہے:
((اللھم لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ))
’’الٰہی! میں نے تیرے لیے ہی روزہ رکھا اور اب تیرے ہی رزق سے افطار کرتا ہوں۔‘‘
روزہ کس چیز سے افطار کرنا چاہیے:
ترمذی، ابن ماجہ، دارمی اور ابو داؤد میں ہے:
((عن سلیمان بن عامر قال قال رسول اللہ ﷺ اذا افطر احدکم فلیفطر علٰی تمرۃ فان لم یجد فلیفطر علی الماء فانہ طھور))
’’حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جب کوئی تم میں سے روزہ افطار کر لے۔ تو کھجور سے کرے، اگر کھجور نہ ملے تو پانی سہی، وہ پاک کرنے والا ہے۔‘‘
دیگر اشیاء سے روزہ افطار کرنا بھی جائز ہے۔ مگر امام الانبیاء نے تکلفات کرنے کی بجائے سادگی کو ترجیح دی ہے۔
جو شخص کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرائے:
ترمذی، ابن ماجہ اور دارمی میں ہے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کسی روزہ دار کا روزہ کھلوا دے۔ تو اس کو روزہ دار کے برابر ہی ثواب ملے گا۔ اور روزہ دار کا ثاب کچھ کم نہ ہو گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ روزہ دار کو روزہ افطار کرانے میں بہت ثواب ملتا ہے اور صرف ثواب ہی نہیں۔ بلکہ محبت اور موانست بھی بڑھتی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو اس امر پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔
سنن ابن داؤد، ابن ماجہ، اور دارمی میں ہے:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس روزہ افطار کیا تو فرمایا:
((الابرار افطر عند کم الصائمون واکل طعامکم الابرار وصلت علیکم الملٰئکۃِ))
’’تمہارے پاس ر وزہ داروں نے روزہ افطار کیا۔ اور نیکیوں نے تمہارا کھانا کھایا۔ اور فرشتوں نے تمہارے لیے دعا کی۔‘‘
جب غلطی سے افطار ہو جائے:
سنن ابی داؤد اور ابن ماجہ میں ہے:
((عن اسماء بت ابی بکر قالت افطرنا یوما فی رمضان فی غیم فی عہد رسول اللہ ﷺ ثم طلعت الشمس قال ابو امامۃ قالت لھشام امردا بالقضاء قال ولا بد من ذلک))
’’حضرت اسماء بنت ابو بکر سے روایت ہے کہ رمضان میں ہم نے ایک دن بدلی اور ابر میں رسول پاک ﷺ کے عہد مبارک میں افطار کیا۔ پھر سورج نکل آیا۔ ابو اسامہ نے کہا: میں نے ہشام سے کہا: پھر فضاء کا حکم ہوا ہو گا: انہوں نے کہا: قضاء تو ضروری ہے۔‘‘
سفر میں روزہ:ـ
بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، موطا امام مالک اور دارمی میں ہے:
((عن عائشۃ قال ان حمزۃ بن عمر والاسلمی قال النبی ﷺ اصوم فی السفر وکان کثیر الصیام فقال ان شئت فافطر))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو الاسلمی نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ کیا سفر میں روزہ رکھوں؟ کیونکہ وہ بہت روزے رکھا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: چاہے رکھو۔ چاہے نہ رکھو۔ (تجھے اختیار ہے)۔‘‘
بے روز کے لیے وعید:
جامع ترمذی، ابو داؤد، ابن ماجہ اور دارمی میں ہے:
((عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ من افطر یوما من رمضان میں غیر رخصۃ رخصہا اللہ لہٗ لم یقض عنہ صیام الدھر))
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص رمضان کا ایک روزہ بغیر عذر شرعی چھوڑ دے۔ (جیسے بیماری یا سفر) تو ساری عمر کے روزے اس کو پورا نہ کر سکیں گے۔ یعنی اگر قیامت تک بھی روزے رکھے گا۔ تو وہ ثواب جو رمضان کے ماہ میں ایک روزہ کا ہے نہیں ملے گا۔‘‘
اس وعید سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہے۔ جو بلا عذر روزہ نہیں رکھتے اور تارک صوم ہو کر مجرم بنتے ہیں۔
رویت ہلال شہادت پر:
سنن ابن ماجہ، اور ابو داؤد میں ہے۔ ابو عمر رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے حدیث بیان کیا۔ میرے چچائوں نے انصار میں سے جو آنحضرت ﷺ کے صحابی تھے کہ شوال کا چاند بوجہ ابر چھپ گیا تو اس کی صبح کو ہم نے روزہ رکھا۔ پھر آخیر دن میں چند سوار آئے، انہوں نے گواہی دی کہ کل ہم نے چاند دیکھاتھا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ روزہ افطار کر ڈالیں۔ (کیونکہ وہ عید کا دن تھا) اور دوسرے دن عید کو جائیں (یعنی دوسرے دن عید کی نماز پڑھ لیں)۔
قضا روزوں کا حکم:
بخاری، مسلم، موطا، امام مالک، ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ہے:
((عن عائشۃ نقول ان کان لیکون علی الصیام من شھر رمضان فما اقضیہ حتی یحیٰ شعبان))
’’حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ کہتی تھیں کہ مجھ پر رمضان کے روزوں کی قضا ہوتی تھے۔ میں اس کو نہ رکھتی۔ یہاں تک کہ دوسرے سال کا شعبان آجا تا۔‘‘
اس لیے رسول اکرم ﷺ بھی اکثر شعبان میں روزہ رکھا کرتے۔ نیز اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ قضا شدہ روزے سال کے اندر اندر جا سکتے ہیں۔
میت کے روزوں کا حکم:
جامع ترمذی، اور ابن ماجہ میں ہے:
((عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ من مات وعلیہ صیام شہر فلیطعم عنہ مکان کل یوم مسکین))
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جو شخص مر جائے اور اس پر رمضان کے روزے (باقی ہوں) تو ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ (یہ فوت شدہ مرد اور عورت کی طرف سے کفار کی صورت ہے)۔‘‘
بیمار کے روزوں کا حکم:
قرآن مجید میں ہے:
{شَھْرُ رَمَٗضانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقّرْاٰنُ ھُدیً لَلنَّاسِ وَبَیَّنٰتِ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ}
’’رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید اترا۔ جو لوگوں کو ہدایت کی راہ بتاتا ہے، اور اس میں کھلی کھلی ہدایت کی دلیلیں ہیں۔ اور حق سے پہچاننے کا طریقہ ہے، پھر جو کوئی تم میں سے یہ مہینہ پائے تو وہ اس میں روزے رکھے۔ اور جو کوئی بیمار یا مسافر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں (قضاء روزوں) کی گنتی کو پورا کرے۔ (یعنی رمضان گزرنے کے بعد بقایا روزے رکھے)۔‘‘
عورتوں کے مسائل:
(۱) روزہ دار عورت کو اگر حیض آئے۔ تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے، روزہ پھر اسے رکھنا ہو گا۔ اس کا کفارہ نہیں پڑے گا۔
(۲) اگر کوئی عورت مرض استحاضہ (کثرت حیض) میں مبتلا ہو۔ تو اسے حیض کے گنتی کے دن پورے کر کے روزہ رکھ لینا چاہیے۔ کیونکہ یہ ایک بیماری ہے جس میں نماز بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ اور حیض کے دنوں میں نماز بھی معاف ہے۔
(۳) جس عورت کے جتنے روزے ایام نفاس یا حیض میں رہ جائیں وہ سال کے اندر اندر جب چاہے رکھ سکتی ہے۔
رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت:
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے:
((عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت کان رسول اللہ ﷺ اذا دخل العشراۃ الا خیرۃ من رمضان شد مئذرہٗ واجبا لیلۃء وایقظ اھلہ))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی ﷺ مستعدی سے تیار ہو کر عبادت فرماتے اور اپنے گھر والوں کو عبادت کی ترغیب فرماتے۔‘‘
اعتکاف:
(۱) صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے:
((عن عائشۃ رضی اللہ عنہا ان النبی ﷺ کان یعتکف العشر الاواخر من رمضان حتی توفاہ اللہ عزوجل واعتکف ازواجہ من بعدہٖ))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ وفات تک رمضان کے آخری عشرہ میں معتکف ہوتے اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی ازواج محترمات معتکف ہوتی رہیں۔ (عورتیں اپنے گھر میں اعتکاف کریں۔)‘‘
(۲) صحیح بخاری او رصحیح مسلم میں ہے:
((عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت کان النبی ﷺ اذا اراد ان یعتکف صلی الفجر ثم دخل معتکفہ))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے جب نبی ﷺ اعتکاف کا ارادہ فرماتے۔ تو (۲۱ رمضان کی صبح کو) فجر کی نماز پڑھ کر معتکف میں داخل ہو جاتے۔‘‘
سوائے قضا حاجت کے معتکف گھر نہیں جا سکتا:
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے:
((عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت ان کان رسول اللہ ﷺ لیدخل علی راسہ وھو فی المسجد فارجلہ وکان لا یدخل البیت الا لحاجۃ اذا اکان معتکفا))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ مسجد میں رونق افروز ہوتے۔ اور بحالت اعتکاف اپنا سر مبارک دھونے کے لیے باہر نکالتے اور میں سر مبارک دھو دیتی اور گھر میں صرف انسانی ضروریات (قضائے حاجت) کے لیے تشریف لے جاتے۔‘‘
معتکف کے لیے مزید ہدایات:
سنن ابی داؤد میں ہے:
((عن عائشۃ رضی اللہ عنہا السنۃ علی المعتکف ان لا یعود مریضا ولا یشہد جنازۃ ولا یمس امرأۃ ولا یبأ شرھا، ولا یخرج لحاجۃ الا لما کان لا بدلہ منہ ولا اعتکاف الا فی مسجد جامع))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ معتکف نہ مریض کی عیادت کرے، نہ جنازے میں شرکت کرے۔ اور نہ عورت کو ہاتھ لگائے۔ نہ عورت سے مباشرت (معانقہ وغیرہ) کرے۔ اور نہ سوائے قضا حاجت کے کسی دوسری ضرورت کے لے مسجد سے باہر نکلے۔ نیز بغیر روزہ کے اعتکاف نہیں ہوتا۔ اعتکاف جامع مسجد۔‘‘
لیلۃ القدر کی فضیلت:
قرآن مجید میں ہے:
{اِنَّا اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَمَا اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ لَیْلَہُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھَرَ}
’’ہم نے اس قرآن مجید کو لیلۃ القدر میں اتارا۔ (اور وہ رات کیسی ہے) وہ رات ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔‘‘
لیلۃ القدر ۲۷ رمضان کو ہوتی ہے:
سنن ابی دائود میں ہے:
((عن معاویۃ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما عن النبی ﷺ لیلۃ القدر لیلۃ سبع و عشرین))
’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، فرمایا کہ لیلۃ القدر ۲۷ رمضان کو ہے۔‘‘
لیلۃ القدر میں دعا:
مسند امام احمد، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں ہے:
((عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت قلت یا رسول اللہ ارایت ان علمت ای لیلۃ القدر ما اقول فیھا قال تولی اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوَّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے کہا کہ اگر میں لیلۃ القدر پائوں۔ تو اس میں کیا دعا کروں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دعا ((اللھم عفو تحب العفو فاعف عنی)) (اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، اور معافی کو پسند فرماتا ہے۔ مجھے معاف فرما)۔‘‘
حضرت مولانا حافظ محمد ابراہیم صاحب کبیر پوری، مدیر ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ و ناظم شعبہ نشر و تالیف مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان
جلد 06 ص 46-68
محدث فتویٰ