• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تشہد اولی (پہلے قعدہ ) میں وجوب درود پر دو حدیثوں کی تحقیق

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
@اشماریہ آپ کے باس کیا دلائل ہیں ۔تشہد اولی میں درود نہ پڑھنے کے
معذرت چاہتا ہوں۔ بندہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے ہر جگہ بحث شروع نہیں کر سکتا کیوں کہ بندہ نے کاپی پیسٹ نہیں کرنی ہوتی خود تحقیق بھی کرنی ہوتی ہے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اولاتویہ جاننااورمانناچاہئے کہ جمہوراہل علم قعدہ اولیٰ میں درود پڑھنے کے قائل نہیں ہیں؟ان جمہور میں صرف اہل تابعین اوربعد کے علماء ہی نہیں بلکہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اصل اباحت یاعموم کا تعلق معاملات اور امور دنیا کے تعلق سے ہوتاہے،عبادات میں معاملہ دوسراہے،یہاں اصل اباحت نہیں ہے۔ہمیں کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جس میں کہاگیاہوکہ حضورپاک نے کبھی قعدہ اولی میں تشہد پڑھاہے۔لہذاہم نہیں پڑھتے ہاں حضرت عائشہ کی حدیث سے پتہ چلتاہے کہ حضورپاک دورکعت کی نماز کے قعدہ میں تشہد،درود پڑھاکرتے تھے،اسی کو ہم چار رکعت کی نماز کے تعلق سے بھی کہتے ہیں کہ آخری قعدہ میں درود پڑھاجائے۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
معذرت چاہتا ہوں۔ بندہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے ہر جگہ بحث شروع نہیں کر سکتا کیوں کہ بندہ نے کاپی پیسٹ نہیں کرنی ہوتی خود تحقیق بھی کرنی ہوتی ہے۔
یعنی اس کا آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے
 
شمولیت
جنوری 23، 2015
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
31
پوائنٹ
79
ہمیں کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جس میں کہاگیاہوکہ حضورپاک نے کبھی قعدہ اولی میں تشہد پڑھاہے۔لہذاہم نہیں پڑھتے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قعدہ اولی میں درود پڑھنا ثابت ہے۔
ملاحظہ فرمائیے حدیث عائشہ ، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز وتر کے قعدہ اولی میں درود پڑھا کرتے تھے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنن الکبری للبیہقی میں
4308 - أنبأ أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ (ح) قَالَ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو الْوَلِيدِ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، ثنا قَتَادَةُ، ثنا زُرَارَةُ بْنُ أَوَفَى، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ قَالَ: انْطَلَقْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْوِتْرِ، فَقَالَ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَنْ؟ قَالَ: عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا فَأْتِهَا فَسَلْهَا، ثُمَّ أَعْلِمْنِي مَا تَرُدُّ عَلَيْكَ قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهَا فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ فَاسْتَصْحَبْتُهُ، فَانْطَلَقْنَا إِلَى عَائِشَةَ، فَاسْتَأْذَنَّا فَدَخَلْنَا، فَقَالَتْ: " مَنْ هَذَا؟ " قَالَ: حَكِيمُ بْنُ أَفْلَحَ، فَقَالَتْ: " مَنْ هَذَا مَعَكَ؟ " قُلْتُ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: " وَمَنْ هِشَامٌ؟ " قُلْتُ: ابْنُ عَامِرٍ، قَالَتْ: " نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرٌ، أُصِيبَ يَوْمَ أُحُدٍ " قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: " أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ " قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: " فَإِنَّ خُلُقَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ " قَالَ: فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي، فَقُلْتُ: " أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ " قَالَتْ: " أَلَسْتَ تَقْرَأُ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ؟ " قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: " فَإِنَّ اللهَ تَعَالَى افْتَرَضَ الْقِيَامَ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ، [ص:704] وَأَمْسَكَ اللهُ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا فِي السَّمَاءِ، ثُمَّ أَنْزَلَ اللهُ التَّخْفِيفَ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ " قَالَ: فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ فَبَدَا لِي وِتْرُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَنْبِئِينِي عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: " كُنَّا نُعِدُّ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ فَيَبْعَثُهُ اللهُ مَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ فَيَدْعُو رَبَّهُ وَيُصَلِّي عَلَى نَبِيِّهِ، ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يُصَلِّي التَّاسِعَةَ فَيَقْعُدُ، ثُمَّ يَحْمَدُ رَبَّهُ وَيُصَلِّي عَلَى نَبِيِّهِ وَيَدَعُو، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمَةً يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يَا بُنِيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَخَذَ اللَّحْمَ أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ، يَا بُنِيَّ، وَكَانَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَلَبَهُ قِيَامُ اللَّيْلِ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا قَامَ لَيْلَةً حَتَّى الصَّبَّاحِ، وَلَا صَامَ شَهْرًا قَطُّ كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ " فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَأَخْبَرْتُهُ بِحَدِيثِهَا، فَقَالَ: صَدَقْتَ وَكَانَ أَوَّلَ أَمْرِ سَعْدٍ، قَالَ ابْنُ بِشْرٍ: يَعْنِي أَوَّلُ أَمْرِهِ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَةً، ثُمَّ ارْتَحَلَ إِلَى الْمَدِينَةِ يَبِيعُ عَقَارًا لَهُ بِهَا وَيَجْعَلُهُ فِي السِّلَاحِ وَالْكُرَاعِ، ثُمَّ يُجَاهِدُ الرُّومَ حَتَّى يَمُوتَ فَبَلَغَ رَهْطًا مِنْ قَوْمِهِ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَهْطًا مِنْهُمْ سِتَّةً أَرَادُوا وَذَلِكَ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ، لَفْظُ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ. وَرَوَا
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جنوری 23، 2015
پیغامات
63
ری ایکشن اسکور
31
پوائنٹ
79
اولاتویہ جاننااورمانناچاہئے کہ جمہوراہل علم قعدہ اولیٰ میں درود پڑھنے کے قائل نہیں ہیں؟ان جمہور میں صرف اہل تابعین اوربعد کے علماء ہی نہیں بلکہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔


اسی طرح مندرجہ ذیل حدیث کے رنگین الفاظ پر غور فرمائیے ، صحابی رسول کے سوالیہ الفاظ اس بات پر دال ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز ہی کیلئے درود کا طریقہ دریافت کیا گیا تھا:-


ابو مسعود انصاری عقبہ بن عمر و رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

’’ أقبل رجل حتى جلس بين يدي رسول الله صلى الله عليه و سلم ونحن عنده فقال يا رسول الله أما السلام عليك فقد عرفناه فكيف نصلي عليك إذا نحن صلينا في صلاتنا قال فصمت رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى أحببنا أن الرجل لم يسأله ثم قال إذا صليتم علي فقولوا اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم وبارك على محمد النبي الأمي وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم إنك حميد مجيد‘‘
[ سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب ذکر وجوب الصلاۃ علی النبی فی التشھید (1339)]
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
پہلے تشہد میں درود

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کی فرماتے ہیں علمائے دین، مفتیان دین شرح متین کہ چار رکعت نماز، یعنی ظہر وعصر وغیرہ میں دو رکعت کے بعد قعدہ میں صرف تشہد ہی پڑھنا ہوتا ہے یا درود اور دعا وغیرہ بھی؟ جیسا کہ آخری قعدہ میں پڑھا جاتا ہے۔ بینوا وتوجروا
(سائل: مجیب الرحمٰن منگوئی۔ گوجرانوالہ)

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احادیث صحیحہ مرفوعہ کے عموم واطلاق کے مطابق پہلے قعدہ میں درود پڑھنا جائز ہے۔ وہ احادیث یہ ہیں:

۱۔ حضرت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ ہمیں آپ پر سلام پڑھنے کا طریقہ تو معلوم ہے، پس ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ تو آپ نے فرمایا: کہو
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔ الحدیث (صحیح مسلم: باب الصلوۃ علی النبیﷺ ج۱ص۱۷۵)

۲۔ حضرت ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ نُصَلِّی عَلَيْكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ،۔ الحدیث (صحیح البخاری: ج۱ص۴۷۷)

’’صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ فرمایا: کہو اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ۔ وزاد ابن خزیمۃ فکیف نصلی علیک إذا نحن صلینا علیک فی صلاتنا وھذہ الزیادۃ رواھا ابن حبان والدار قطنی والحاکم وأخرجھا أبوحاتم وابن خزیمۃ فی صحیحیھما۔ (سبل السلام: ج۱ص۱۹۳ والنووی: ج۱ص۱۷۵)

امام ابن خزیمہ نے مزید یہ بھی روایت کیا ہے کہ جب ہم نماز میں آپ پر درود پڑھیں تو کون سے الفاظ استعمال کریں، تو آپ نے فرمایا یوں کہا کر: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ الحدیث۔

امام محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی ارقام فرماتے ہیں:
الحدیث دلیل علی وجوب الصلاۃ علیه صلی اللہ علیه وسلم فی الصلاۃ بظاہر الامر (أعنی قولوا) وإلی ھذا ذھب جماعة من السلف والائمة والشافعی وإسحاق ودلیلھم الحدیث مع الزیادۃ الثابتة۔ (سبل السلام: ج۱ص۱۹۳)

’’یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز میں رسول اللہﷺ پر درود پڑھنا واجب ہے کہ قولوا (صیغہ جمع مذکر امر حاضر معروف) کا ظاہر اسی کا مقتضی ہے۔ صحابہ کی ایک جماعت اور ائمہ اسلام اور امام شافعی، امام اسحاق بن راہو کا یہی مذہب ہے۔‘‘
امام نووی فرماتے ہیں:
وذھب الشافعی وأحمد رحمھما اللہ إلی انھا واجبة لو ترکت لم تصح الصلوۃ وھو مروی عن عمر وابنه عبداللہ رضی اللہ عنہما وھو قول الشعبی۔ (نووی ج۱ص۱۸۵)

’’اگرچہ احناف اور جمہور کے نزدیک نماز میں درود پڑھنا سنت ہے تاہم) امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک واجب ہے ان کا کہنا یہ کہ اگر درود چھوڑ دیا جائے تو نماز صحیح نہ ہوگی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی کچھ مروی ہے اور امام شعبی کا بھی یہی قول ہے۔‘‘
امام شوکانی رحمہ اللہ وضاحت فرماتے ہیں کہ قولوا کے صیغہ سے استدلال کیا گیا ہے کہ نماز میں تشہد کے بعد درود پڑھنا واجب ہے۔ حضرت ابن عمر، ابن مسعود رضی اللہ عنہم، جابر بن زید، شعبی، محمد بن کعب ابو جعفر باقر، معادی وقاسم، الشافعی، احمد بن حنبل واسحق اور ابن مواز اسی طرف گئے ہیں اور ابو بکر ابن العربی مالکی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ (نیل الاوطار: ج۲ص۳۱۸)
ان احادیث سے بہرحال اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں تشہد کے بعد درود ضرور پڑھنا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ آخری تشہد کے بعد پڑھنا اور پہلے تشہد میں نہ پڑھنا تو گزارش ہے کہ اس تقسیم اور تخصیص کا ذکر کسی صحیح مرفوع حدیث میں موجود نہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ اگرچہ نماز میں درود کے وجوب کے قائل نہیں تاہم وہ اس تقسیم اور تخصیص کی تردیدفرماتے ہیں کہ درود کو آخری تشہد کے ساتھ مخصوص کر دینا اتنا کمزور مؤقف ہے کہ اس پر نہ کوئی صحیح حدیث دلالت کرتی ہے اور نہ ضعیف حدیث اور وہ تمام احادیث جن سے قائلین وجوب نے دلیل پکڑی ہے وہ بھی درود کے لیے آخری تشہد کی تخصیص نہیں کرتیں۔ (نیل الاوطار: ج۲ص۱۸)
محدث عصر الشیخ البانی رحمہ اللہ ارقام فرماتے ہیں:
’’یعنی نبی اکرمﷺ نے درود شریف کے لیے دونوں تشہدوں میں سے کسی ایک کو خاص نہیں کیا۔ لہٰذا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنا جائز ہے۔ امام شافعی کا یہ مذہب ہے جیسا کہ ان کی کتاب ’’الام‘‘ میں اس کی تصریح موجود ہے اور امام شافعی کے اصحاب کے نزدیک بھی یہی مسلک صحیح ہے، جیسا کہ امام نووی نے ’’المجموع‘‘ میں اس کی وضاحت کی ہے۔ مزید براں بہت ساری احادیث میں تشہد میں رسول اللہﷺ پر درود پڑھنے کا حکم ہے مگر اس مشار الیہ تخصیص کا اشارہ تک نہیں ملتا۔ بلکہ وہ عام اور ہر ایک تشہد کو شامل ہیں ار مانعین کے پاس حجت کے قابل کوئی دلیل موجود نہیں۔ (صفۃ الصلوۃ للشیخ الالبانی: ص۱۳۲،۱۴۳)
اسی طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی حدیث میں تشہد کے الفاظ کے بعد ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ، فَلْيَدْعُ بِهِ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ کے الفاط بھی موجود ہیں۔ (نیل الاوطار: باب الامر بالتشھد الاول وسقوطہ بالسھر ج۲ص۲۸۱) اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ کے بعد اپنی پسندیدہ دعا اپنے رب تعالی سے مانگتا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلے تشہد میں درود نہ پڑھنے والوں کے پاس کوئی صحیح مرفوع حدیث موجود نہیں۔ لہٰذا مذکورہ بالا احادیث کے عموم کے مطابق پہلے تشہد میں درود پڑھنا بلاشبہ جائز اور مشروع عمل ہے اور مانعین کے پاس صرف عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی دو روایتیں ہیں۔ ایک ضعیف ہے ، اور دوسری موقوف ہے یعنی ابن مسعود کا اپنا قول ہے۔ مرفوع حدیث نہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: عون المعبود ج۱ص۳۷۰تا۳۷۳)

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب


ج1ص362

محدث فتویٰ

: عورت نے تشھد ميں درود نہيں پڑھا چنانچہ كيا اس كى نماز باطل ہے ؟


ايك عورت نے مسجد حرام ميں نماز جمعہ ادا كى، اس كا خيال تھا كہ جمعہ كى چار ركعتيں ہيں، چنانچہ اس نے آخرى تشھد ميں پہلى تشھد ہى پڑھى اور خاموش ہو كر امام كے اٹھنے كا انتظار كرنے لگى، پھر امام نے سلام پھيرا تو عورت نے بھى ساتھ ہى سلام پھير ديا، كيا وہ عورت نماز لوٹائے گى يا نہيں ؟

Published Date: 2010-04-03



الحمد للہ:
تشھد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، حنابلہ تشھد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا ركن قرار ديتے ہيں، اور شافعيہ اسے واجب كہتے ہيں، اور امام احمد كى ايك روايت بھى وجوب كى ہے، اور احناف اور مالكى اسے سنت قرار ديتے ہيں.

تشھد ميں درود پڑھنے كے ركن ہونے پر كوئى صريح دليل نہيں ملتى جيسا كہ ابو مسعود انصارى رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں ہے:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اللہ سبحانہ وتعالى نے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے كا حكم ديا ہے تو ہم آپ پر درود كس طرح پڑھيں ؟ "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 405 ).

اس حديث ميں تشھد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے كے وجوب كى كوئى دليل نہيں، كيونكہ صحابہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے درود كى كيفيت كے متعلق دريافت كيا تھا، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم سے نماز ميں درود پڑھنے كى كيفيت كے متعلق دريافت نہيں كيا.

اسى ليے ابو ہريرہ رضى اللہ عنہ كى درج ذيل مرفوع حديث ميں درود پڑھنے كے مسنون ہونے كى دليل پائى جاتى ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم ميں سے كوئى آخرى تشھد سے فارغ ہو تو وہ اللہ تعالى سے چار اشياء كى پناہ كے ليے يہ دعاء پڑھے:

" اللهمّ إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن شر فتنة المسيح الدجال "

اے اللہ ميں جہنم كے عذاب سے تيرى پناہ ميں آتا ہوں، اور عذاب قبر سے اور زندگى اور موت كے فتنہ سے، اور مسيح الدجال كے فتنہ كے شر سے تيرى پناہ ميں آتا ہوں "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 588 ).

مندرجہ بالا سطور ميں بيان كردہ كى بنا پر زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ اس عورت نے جو ترك كيا تھا وہ واجب ہو گا، ليكن سنت والا قول زيادہ قوى ہے، ليكن اس ليے كہ اس عورت نے امام كے ساتھ مكمل نماز پائى ہے، اس ليے امام اس نقص كا متحمل ہو گا.

واللہ اعلم .
http://islamqa.info/ur/36610
 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
تشہد اول میں درود شریف پڑھنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا تشہد اول میں نمازی صرف تشہد ہی پر اکتفا کرے یا درود شریف بھی پڑھ لے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تین یا چار رکعتوں والی نماز کے تشہد اول میں صرف ان کلمات پر اکتفا کیا جائے:
«التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَکَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» صحيح البخاری، الاذان، باب التشهد فی الآخرة، ح:۸۳۱ وصحيح مسلم، الصلاة، باب التشهد فی الصلاة، ح: ۴۰۲۔

’’تمام قولی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں اور تمام فعلی عبادتیں اور مالی عبادتیں بھی اللہ ہی کے لیے ہیں، سلام ہو آپ پر اے اللہ کے نبی! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘
افضل یہی ہے کہ انہی کلمات پر اکتفا کیا جائے اور اگر یہاں یہ درود شریف پڑھ لیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں:
«اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ» صحيح البخاری، احاديث الانبياء، باب، ح: ۳۳۷۰ وصحيح مسلم، الصلاة، باب الصلاة علی النبی بعد التشهد، ح: ۴۰۵۔

’’اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد پر رحمت نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر رحمت نازل فرمائی ہے۔ بے شک تو ہی لائق حمد وثنا، بڑائی اور بزرگی کا مالک ہے۔ اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد پر برکتیں نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائی ہیں۔ بے شک تو ہی تعریف کے لائق، بڑائی اور بزرگی کا مالک ہے۔‘‘
کچھ علماء نے اس تشہد میں بھی درود شریف پڑھنے کو مستحب قرار دیا ہے لیکن میرے نزدیک زیادہ درست بات یہ ہے کہ صرف التحیات… ہی پر اکتفا کیا جائے اور اگر درود شریف بھی پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں، بالخصوص جب امام تشہد میں زیادہ دیر بیٹھے تو پھر درود شریف کو بھی پڑھ لیا جائے۔
وباللہ التوفیق
فتاویٰ ارکان اسلام

نماز کے مسائل


 
Last edited:

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
نماز میں تشہد اولیٰ میں دُرود شریف واجب ہے یا غیر واجب
شروع از بتاریخ : 21 March 2013 09:41 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز میں تشہد اولیٰ میں دُرود شریف واجب ہے ، یا غیر واجب۔ جو امام یا مقتدی قصداً پہلے تشہد میں دُرود نہ پڑھے تو نماز ہوجائے گی؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے: ﴿ صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾سلام تشہد ہے اور صلاۃ درود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا حکم دیا ہے۔ کتاب و سنت سے پہلے قعدہ میں دُرود کا نہ پڑھنا ثابت نہیں۔ آیت کریمہ اور احادیث کا تقاضا یہی ہے کہ تشہد سلام کے ساتھ صلاۃ دُرود بھی ہو۔ دیکھئے نماز کے علاوہ مختصر سلام کے ساتھ بھی صلاۃ ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

فتاوی احکام ومسائل

کتاب الصلاۃ ج 2 ص 248

محدث
 
Top