یعنی اس کا آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہےمعذرت چاہتا ہوں۔ بندہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے ہر جگہ بحث شروع نہیں کر سکتا کیوں کہ بندہ نے کاپی پیسٹ نہیں کرنی ہوتی خود تحقیق بھی کرنی ہوتی ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قعدہ اولی میں درود پڑھنا ثابت ہے۔ہمیں کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جس میں کہاگیاہوکہ حضورپاک نے کبھی قعدہ اولی میں تشہد پڑھاہے۔لہذاہم نہیں پڑھتے۔
اولاتویہ جاننااورمانناچاہئے کہ جمہوراہل علم قعدہ اولیٰ میں درود پڑھنے کے قائل نہیں ہیں؟ان جمہور میں صرف اہل تابعین اوربعد کے علماء ہی نہیں بلکہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں۔
پہلے تشہد میں درود
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کی فرماتے ہیں علمائے دین، مفتیان دین شرح متین کہ چار رکعت نماز، یعنی ظہر وعصر وغیرہ میں دو رکعت کے بعد قعدہ میں صرف تشہد ہی پڑھنا ہوتا ہے یا درود اور دعا وغیرہ بھی؟ جیسا کہ آخری قعدہ میں پڑھا جاتا ہے۔ بینوا وتوجروا
(سائل: مجیب الرحمٰن منگوئی۔ گوجرانوالہ)
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احادیث صحیحہ مرفوعہ کے عموم واطلاق کے مطابق پہلے قعدہ میں درود پڑھنا جائز ہے۔ وہ احادیث یہ ہیں:
۱۔ حضرت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ ہمیں آپ پر سلام پڑھنے کا طریقہ تو معلوم ہے، پس ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ تو آپ نے فرمایا: کہواللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ۔ الحدیث (صحیح مسلم: باب الصلوۃ علی النبیﷺ ج۱ص۱۷۵)
۲۔ حضرت ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ نُصَلِّی عَلَيْكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ،۔ الحدیث (صحیح البخاری: ج۱ص۴۷۷)
’’صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ فرمایا: کہو اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ۔ وزاد ابن خزیمۃ فکیف نصلی علیک إذا نحن صلینا علیک فی صلاتنا وھذہ الزیادۃ رواھا ابن حبان والدار قطنی والحاکم وأخرجھا أبوحاتم وابن خزیمۃ فی صحیحیھما۔ (سبل السلام: ج۱ص۱۹۳ والنووی: ج۱ص۱۷۵)
امام ابن خزیمہ نے مزید یہ بھی روایت کیا ہے کہ جب ہم نماز میں آپ پر درود پڑھیں تو کون سے الفاظ استعمال کریں، تو آپ نے فرمایا یوں کہا کر: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ الحدیث۔
امام محمد بن اسماعیل الامیر الصنعانی ارقام فرماتے ہیں:
الحدیث دلیل علی وجوب الصلاۃ علیه صلی اللہ علیه وسلم فی الصلاۃ بظاہر الامر (أعنی قولوا) وإلی ھذا ذھب جماعة من السلف والائمة والشافعی وإسحاق ودلیلھم الحدیث مع الزیادۃ الثابتة۔ (سبل السلام: ج۱ص۱۹۳)
’’یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز میں رسول اللہﷺ پر درود پڑھنا واجب ہے کہ قولوا (صیغہ جمع مذکر امر حاضر معروف) کا ظاہر اسی کا مقتضی ہے۔ صحابہ کی ایک جماعت اور ائمہ اسلام اور امام شافعی، امام اسحاق بن راہو کا یہی مذہب ہے۔‘‘
امام نووی فرماتے ہیں:
وذھب الشافعی وأحمد رحمھما اللہ إلی انھا واجبة لو ترکت لم تصح الصلوۃ وھو مروی عن عمر وابنه عبداللہ رضی اللہ عنہما وھو قول الشعبی۔ (نووی ج۱ص۱۸۵)
’’اگرچہ احناف اور جمہور کے نزدیک نماز میں درود پڑھنا سنت ہے تاہم) امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک واجب ہے ان کا کہنا یہ کہ اگر درود چھوڑ دیا جائے تو نماز صحیح نہ ہوگی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی کچھ مروی ہے اور امام شعبی کا بھی یہی قول ہے۔‘‘
امام شوکانی رحمہ اللہ وضاحت فرماتے ہیں کہ قولوا کے صیغہ سے استدلال کیا گیا ہے کہ نماز میں تشہد کے بعد درود پڑھنا واجب ہے۔ حضرت ابن عمر، ابن مسعود رضی اللہ عنہم، جابر بن زید، شعبی، محمد بن کعب ابو جعفر باقر، معادی وقاسم، الشافعی، احمد بن حنبل واسحق اور ابن مواز اسی طرف گئے ہیں اور ابو بکر ابن العربی مالکی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ (نیل الاوطار: ج۲ص۳۱۸)
ان احادیث سے بہرحال اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں تشہد کے بعد درود ضرور پڑھنا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ آخری تشہد کے بعد پڑھنا اور پہلے تشہد میں نہ پڑھنا تو گزارش ہے کہ اس تقسیم اور تخصیص کا ذکر کسی صحیح مرفوع حدیث میں موجود نہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ اگرچہ نماز میں درود کے وجوب کے قائل نہیں تاہم وہ اس تقسیم اور تخصیص کی تردیدفرماتے ہیں کہ درود کو آخری تشہد کے ساتھ مخصوص کر دینا اتنا کمزور مؤقف ہے کہ اس پر نہ کوئی صحیح حدیث دلالت کرتی ہے اور نہ ضعیف حدیث اور وہ تمام احادیث جن سے قائلین وجوب نے دلیل پکڑی ہے وہ بھی درود کے لیے آخری تشہد کی تخصیص نہیں کرتیں۔ (نیل الاوطار: ج۲ص۱۸)
محدث عصر الشیخ البانی رحمہ اللہ ارقام فرماتے ہیں:
’’یعنی نبی اکرمﷺ نے درود شریف کے لیے دونوں تشہدوں میں سے کسی ایک کو خاص نہیں کیا۔ لہٰذا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنا جائز ہے۔ امام شافعی کا یہ مذہب ہے جیسا کہ ان کی کتاب ’’الام‘‘ میں اس کی تصریح موجود ہے اور امام شافعی کے اصحاب کے نزدیک بھی یہی مسلک صحیح ہے، جیسا کہ امام نووی نے ’’المجموع‘‘ میں اس کی وضاحت کی ہے۔ مزید براں بہت ساری احادیث میں تشہد میں رسول اللہﷺ پر درود پڑھنے کا حکم ہے مگر اس مشار الیہ تخصیص کا اشارہ تک نہیں ملتا۔ بلکہ وہ عام اور ہر ایک تشہد کو شامل ہیں ار مانعین کے پاس حجت کے قابل کوئی دلیل موجود نہیں۔ (صفۃ الصلوۃ للشیخ الالبانی: ص۱۳۲،۱۴۳)
اسی طرح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی حدیث میں تشہد کے الفاظ کے بعد ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ، فَلْيَدْعُ بِهِ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ کے الفاط بھی موجود ہیں۔ (نیل الاوطار: باب الامر بالتشھد الاول وسقوطہ بالسھر ج۲ص۲۸۱) اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ کے بعد اپنی پسندیدہ دعا اپنے رب تعالی سے مانگتا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلے تشہد میں درود نہ پڑھنے والوں کے پاس کوئی صحیح مرفوع حدیث موجود نہیں۔ لہٰذا مذکورہ بالا احادیث کے عموم کے مطابق پہلے تشہد میں درود پڑھنا بلاشبہ جائز اور مشروع عمل ہے اور مانعین کے پاس صرف عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کی دو روایتیں ہیں۔ ایک ضعیف ہے ، اور دوسری موقوف ہے یعنی ابن مسعود کا اپنا قول ہے۔ مرفوع حدیث نہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: عون المعبود ج۱ص۳۷۰تا۳۷۳)
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
ج1ص362
محدث فتویٰ