• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تشہد میں اشارہ کرنا کیدانی حنفی کے نزدیک حرام ھے ؟؟؟!!!آخر کیوں ؟

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
کیدانی حنفی نے نماز کے محرمات کے بارے میں ایک باب باندھا ھے ،خلاصہ کیدانی کا مصنف لکھتا ہے: "الباب الخامس فی المحرمات والإشارة بالسبابة کأھل الحدیث" پانچواں باب محرمات (حرام چیزوں) میں اور شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کرنا جس طرح اہل حدیث کرتے ہیں۔ (ص۱۵،۱۶)دوسرا نسخہ (خلاصہ کیدانی ص:٢١مترجم فارسی و افغانی )
احناف کے ہاں خلاصہ کیدانی کا مقام
سوال: علاقۂ کشمیر ضلع مظفرآباد میں ایک شخص بدعویٰ پیری آیا ہوا ہے، اپنا سلسلہ نقشبندی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، علمی قابلیت میں عربی میں "خلاصہ کیدانی" بھی نہیں پڑھا ہے؛ البتہ اردو میں تحریر وتقریر جانتا ہے، وعظ ونصیحت کرتا ہے جو کہ مطابق شرع ہوتی ہے، لباس عالمانہ پہنتا ہے، صرف شملہ چھوڑتا ہے، داڑھی مطابق شرع ہے،(حوالہ )
قبلہ ایاز صاحب لکھتے ہیں :
درسِ نظامی کا موجودہ نصاب مختلف مراحل سے گزرا ہے اور علماء واساتذہ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مناسب تبدیلیاں کی ہیں۔ فقہی نصاب کے حوالے سے خلاصہ کیدانی، منیة المصلّی ، المختصر القدوری، نورالایضاح، کنزالدقائق، مختصر الحقائق، مستخلص،شرح الیاس، شرح وقایہ اور کتاب الہدایہ کو خاصی شہرت حاصل رہی ہے۔ اس وقت ان میں سے اول الذکر دوکتابیں اور مستخلص وشرح الیاس کو ہٹادیا گیا ہے۔ جبکہ باقی کتب کو التزام کے ساتھ پڑھایا جاتاہے۔ اِن کتب کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس نصاب سے گزر کر مدارس دینیّہ نے مختلف ادوار میں دینی وفقہی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے بڑے بڑے فقہاء پیدا کیے ہیں۔(حوالہ )
ایک مسنون عمل کو حرام قرار دینا ،کتنی بڑی جرات ھے ،اس طرح کی جسارت کرنے کی کیا وجوہات ھیں ان پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہر اہل علم حنفی طرز عمل سے واقف ہے کہ یہ کس طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاق کرتے ہیں ۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کےدلوں میں قرآن و حدیث سے محبت ڈال دے ۔اور بدعات وغیرہ سے نفرت ڈال دے ۔

عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں کہ "تشہد میں جو رفع سبابہ کیا جاتا اس میں تردد تھا کہ اس اشارہ کا بقاء کسوقت تک کسی حدیث میں منقول ہے یا نہیں حضرت قدس سرہ کے حضور میں پیش کیا گیا فوراً ارشاد فرمایا کہ "ترمذی کی کتاب الدعوات میں حدیث ہے کہ آپ نے تشہد کے بعد فلاں دعا پڑھی اور اس میں سبابہ سے اشارہ فرما رہے تھے، اور ظاہر ہے کہ دعا قریب سلام کے پڑھی جاتی ہے پس ثابت ہوگیا کہ اخیر تک اسکا باقی رکھنا حدیث میں منقول ہے" (تذکرة الرشید ۱۱۳/۱ ، حضرت سے رشید احمد گنگوہی مراد ہیں)

راقم اس ہر لکھنا چاہتا تھا دوران مطالعہ محترم کفایت اللہ بھائی کامضمون ملا وہ ہدیہ قارئین ہے
تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا،اوراسے مسلسل حرکت دینا
نمازکاپہلاتشہد ہویادوسرا اس میں سنت یہ ہے کہ پورے تشہد میں مسلسل شہادت کی انگلی سے اشارہ کیاجائے اورساتھ ہی ساتھ اسے مسلسل حرکت بھی دیا جائے،یہ دونوں عمل احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ،دلائل ملاحظہ ہوں:
انگلی سے مسلسل اشا رہ کرنے کی دلیل:
عَن نُمَیْرٍرضی اللہ عنہ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاضِعًا یَدَہُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی فِی الصَّلاَةِ ، وَیُشِیرُ بِأُصْبُعِہِ.
صحابی رسول نمیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:''میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں اپنے داہنے ہاتھ کواپنی دا ہنی ران پررکھے ہوئے تھے اورانگلی سے اشارہ کررہے تھے۔(نسائی:ـکتاب السھو:باب الاشارة فی التشھد،رقم1271،و ابن ماجہ :ـکتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا،رقم 911 والحدیث صحیح)۔

اس حدیث میں ''یشیر''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتاہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اورصحیح ابن خزیمہ کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں :''ثم حلق وجعل یشیر بالسباحة یدعو'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعدشہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے لگے،(صحیح ابن خزیمة :ج 1ص353حدیث نمبر713)۔
اس حدیث میں ''یشیر'' فعل مضارع پر''جعل'' داخل ہے اوریہ کسی عمل کوشروع سے مسلسل کرنے پردلالت کرتاہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعد اس عمل کوشروع سے لیکرتشہد کے اختتام تک مسلسل کرتے رہے۔
نیزابن خزیمہ کی اسی حدیث میں آگے ''یدعو''ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کے ذریعہ دعاکرنے لگے اورتشہد، پوراکا پورا دعاؤں پرمشتمل ہے، چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،اور اوپرکی حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں شہادت کی انگلی کے اشارہ کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں اشارہ بھی کیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل (اشارہ) دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل (اشارہ کرنا)بھی ہے۔

تشہدمیں انگلی سے مسلسل اشارہ کاثبوت ملاحظہ کرنے کے بعدمعلوم ہوناچاہے،اس اشارہ کے ساتھ ساتھ اسے مسلسل حرکت دینے کاثبوت بھی احادیث صحیحہ میں موجودہے،ملاحظہ ہو:
انگلی کومسلسل حرکت دینے کی دلیل:

عَنْ وَائِلَ بْنَ حُجْرصٍ قَالَ: قُلْتُ:لأَنْظُرَنَّ ا ِلَی صَلاَةِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ یُصَلِّی ؟ فَنَظَرْتُ ِلَیْہِ فَوَصَفَ ، قَالَ : ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَہُ الْیُسْرَی ، وَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِہِ الْیُسْرَی ، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِہِ الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَیْنِ مِنْ أَصَابِعِہِ ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً ، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا،
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہاکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکوضروردیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکودیکھا،پھرصحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکاطریقہ بیان فرمایااورکہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اوربایاں پاؤں بچھایا،اوربائیں ہتھیلی بائیں ران اورگھٹنے پررکھی اوردائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابرکی ،پھردوانگلی بند کرلی،اورایک حلقہ باندھ لیا،پھرانگلی اٹھائی تومیں میں نے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوہلاتے تھے اوراس سے دعاء کرتے تھے۔(نسائی :ـکتاب السھو:باب قبض الثنتین من أصابع الیدالیمنی وعقد الوسطی،رقم1268،صحیح ابن خزیمہ ،رقم714، صحیح ابن حبان،رقم1860،المعجم الکبیر:2235واسنادہ صحیح)۔

اس حدیث میں شہادت کی انگلی کے ساتھ دوعمل کاذکرہے،ایک اشارہ کرنے کا،چنانچہ اس کے لئے کہاگیا:'' ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی کواٹھایایعنی مسلسل اشارہ کرنے کے لئے جیساکہ آگے کے الفاظ اور اوپرکی احادیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے، اب اشارہ کاعمل ذکرہونے کے بعدآگے ایک اورعمل ذکرہے''فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے (مسلسل) حرکت بھی دے رہے تھے،اس حدیث سے ثابت ہواکہ تشہد میں انگلی سے مسلسل اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ،اسے مسلسل حرکت دینابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔
واضح رہے کہ اس حدیث میں بھی'' یُحَرِّکُہَا''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دے رہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دینے کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اوراسی حدیث میں آگے '' یَدْعُو بِہَا'' ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کوحرکت دے دے کر دعاکرنے لگے اورتشہد پوراکاپورادعاؤں پرمشتمل ہے،چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں انگلی کوحرکت بھی دیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل دعاؤں سے جڑاہوہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل(انگلی کوحرکت دینا) بھی ہے۔

غلط فہمیوں کاازالہ:
بعض حضرات کویہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ انگلی کوحرکت دینااس حدیث کے خلاف ہے جس میں اشارہ کرنے کی بات ہے۔
عرض ہے کہ حرکت دینااشارہ کرنے کے خلاف ہرگزنہیں ہے،بلکہ یہ اشارہ کے ساتھ ساتھ ایک دوسراعمل ہے،اوریہ دوسراعمل کرنے سے پہلے عمل کوچھوڑنالازم نہیں آتاکیونکہ یہ دونوں عمل ساتھ ساتھ ہورہاہے۔اوردیگرکئی ایسی مثالیں ہیں ،کہ اشارہ وحرکت پرساتھ ساتھ عمل ہوتاہے،مثلاہم روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی دورکھڑے ہوئے دوسرے شخص کوہاتھ کے اشارے سے بلاتاہے ہے تواس کی طرف انگلیاں اٹھاتاہے ہے یہ'' اشارہ'' ہے اورساتھ ہی ساتھ پنجہ کی انگلیوں کوہلاتابھی ہے یہ '' حرکت'' ہے۔
معلوم ہواکہ اشارہ اورحرکت یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں ،بلکہ دونوں پربیک وقت عمل ممکن ہے،اوراحادیث میں دونوں کاثبوت ہے لہٰذادونوں پرعمل کریں گے،چنانچہ جولوگ انگلی کوحرکت دیتے ہیں وہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،اشارہ بھی کرتے ہیں اورحرکت بھی دیتے ہیں ،لہٰذایہ کہنادرست نہیں کہ حرکت دینے والے اشارہ پرعمل نہیں کرتے ،کیونکہ بغیراشارہ کئے حرکت دیناممکن ہی نہیں ہے۔پس اہل توحید الحمدللہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،کیونکہ دونوں احادیث سے ثابت ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی روایت کرنے والے امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک مقام پرتشہدمیں انگلی سے اشارہ وحرکت ساتھ ساتھ کرنے کایہ باب قائم کیاہے:''باب موضع البصرعندالاشارة وتحریک السبابة''یعنی انگلی کواشارہ وحرکت دیتے وقت نگاہ کی جگہ کابیان، (سنن نسائی:کتاب السھو:باب39 قبل الرقم 1275)
اورامام احمدرحمہ اللہ کابھی یہی فتوی ہے کہ تشہد میں اشارہ وحرکت دونو ں پرعمل کیاجائے گا چنانچہ امام احمدرحمہ اللہ سے اس سلسلے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا ''شدیدا''شدت کے ساتھ اشارہ کیاجائے ،اورشدت کے ساتھ تبھی اشارہ ہوسکتاہے جب اسے حرکت بھی دیاجائے،(ملاحظہ ہو:مسائل ابن ہانی:ص80)۔

امام احمد رحمہ اللہ کایہ فتوی سامنے آجانے کے بعدان لوگوں کواپنی زبان بندکرلینی چاہئے،جویہ دعوی کرتے ہیں کہ چاروں اماموں کی تمام باتیں حق ہیں ،کیونکہ امام احمدرحمہ اللہ کاشماربھی انہیں چاروں میں سے ہوتاہے۔
بعض حضرات ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ہے ''لایحرکہا'' یعنی آپ حرکت نہیں دیتے تھے(ابوداؤد :رقم989) ۔
عرض ہے کہ اس کی سندمیں ابن عجلان مدلس ہے (طبقات المدلسین :ص149المرتبة الثالثہ) اور روایت عن سے ہے لہٰذا مردود ہے اس کے برخلاف صحیح حدیث میں حرکت دیناثابت ہے جیساکہ اوپرمذکورہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ تشہد میں انگلی کومسلسل حرکت دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
عرض ہے کہ تشہدمیں انگلی کوحرکت دینے کی دلیل توہم پیش کرچکے ،لیکن مخالفین کاجویہ کہناہے کہ ''أشھدأن لاالہ ''پراٹھاناچاہئے ،اور ''الااللہ'' پرگرالینا چاہئے ، یہ کہاں سے ثابت ہے، کیااس قوم میں کوئی ایک بھی ذمہ دارشخص نہیں ہے جواپنے علماء کوپکڑکوپوچھے کہ ہمارے عمل کی دلیل کس حدیث میں ہے؟ہمارادعوی ہے کہ کہ کسی صحیح تو درکنار کسی ضعیف اورمردود حدیث میں بھی اس کانام ونشان نہیں ہے۔
بعض حضرات تشہد میں حرکت سبابہ کی سنت کامذاق اڑاتے ہیں ۔
عرض ہے کہ ہم نے اس کاسنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوناتوثابت کردیامگرجوحضرات وضوکے بعد،کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پرکرکٹ کے امپائرو ں کے طرح انگلی اٹھاتے ہیں ،اس کاثبوت کون سی صحیح حدیث میں ہے،ان حضرات کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ تشہد میں حرکت سبابہ کامذاق اڑاناچھوڑیں پہلے وضو کے بعد اپنی بے موقع ومحل امپائرنگ کاثبوت تلاش کریں ،اوراچھی طرح معلوم کرلیں کہ یہ کس کی سنت ہے....؟
واضح رہے کہ تشہدمیں انگلی ہلانے کی سنت سے چڑنایہ مردوداورلعین شیطان کاکام ہے، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اس سنت پرعمل کرتے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ''لَہِیَ أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنَ الْحَدِیدِ یَعْنِی السَّبَّابَةَ''یعنی انگلی کایہ عمل شیطان کے لئے لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے،دیکھئے:مسندأحمد:ج2119رقم 6000۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطانی کاموں سے بچائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں پرعمل کرنے کی توفیق دے ،آمین۔
نیز دیکھیں البشارہ ڈاٹ کام
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
رأیتُ عمروا یضرب غلامَه
میں نے عمرو کو دیکھا (اس حال میں کہ) وہ اپنے غلام کو مار رہا تھا۔
اس میں کتنی بار مارنا ثابت ہوگا؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہمیشہ یا مسلسل مارتا رہا؟

لولی (پوپ نہیں) بھائی یہ آپ کی لائن کی بحث نہیں ہے۔
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
رأیتُ عمروا یضرب غلامَه
میں نے عمرو کو دیکھا (اس حال میں کہ) وہ اپنے غلام کو مار رہا تھا۔
اس میں کتنی بار مارنا ثابت ہوگا؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہمیشہ یا مسلسل مارتا رہا؟

لولی (پوپ نہیں) بھائی یہ آپ کی لائن کی بحث نہیں ہے۔
بات کتنی بار کی نہیں جناب بات تسلسل کی ہے۔
آپ یہ بتلائیں کہ آپ کے اس جملہ میں مار میں تسلسل کی دلیل ہے یانہیں ؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بات کتنی بار کی نہیں جناب بات تسلسل کی ہے۔
آپ یہ بتلائیں کہ آپ کے اس جملہ میں مار میں تسلسل کی دلیل ہے یانہیں ؟
جی نہیں بھائی جان۔
یہ یضرب غلامہ حال بن رہا ہے اور ضارباً غلامَہ کی طرح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب میں نے عمرو کو دیکھا تو اس وقت وہ اپنے غلام کو مار رہا تھا۔ اگر ایک بار مارا ہو تب بھی یہی کہا جاتا ہے اور زیادہ بار مارا ہو تب بھی۔ لیکن جملہ ایک بار مارنے کی وضاحت اور دلالت کرتا ہے زیادہ کا نہیں بتاتا۔
یہ بات کہ مضارع تسلسل اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے اول تو درست نہیں لگتی۔ میں کہوں اٰکل الأرز (میں چاول کھاتا ہوں) تو اس سے کون پاگل یہ سمجھے گا کہ میں ہمیشہ چاول کھاتا ہوں یا میں مسلسل پیدائش سے چاول ہی کھاتا چلا آرہا ہوں؟ ظاہر ہے اس خاص معنی کے لیے مقام دیکھا جائے گا۔
اور اگر اس بات کو درست بھی مان لیں تو بھی یہ اس وقت ہوگی جب مضارع فقط آئے۔ حال کی صورت میں تو مضارع ویسے ہی مفرد کے معنی دے رہا ہوتا ہے۔
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
جی نہیں بھائی جان۔ یہ یضرب غلامہ حال بن رہا ہے اور ضارباً غلامَہ کی طرح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب میں نے عمرو کو دیکھا تو اس وقت وہ اپنے غلام کو مار رہا تھا۔
جناب حال بننے سے یہ کہاں لازم آیا کا بات ایک ہی بار کی ہے۔کیا مار میں تسلسل والی بات حال نہیں بن سکتی ؟
اگر ایک بار مارا ہو تب بھی یہی کہا جاتا ہے اور زیادہ بار مارا ہو تب بھی۔ لیکن جملہ ایک بار مارنے کی وضاحت اور دلالت کرتا ہے زیادہ کا نہیں بتاتا۔
ایک بار اور زیادہ بار دونوں کا احتمال آپ خود بتلارہے اور پھر آگے لیکن کے ذریعہ ایک بار کی تخصیص کررہے ہیں اس کی دلیل ؟
یہ بات کہ مضارع تسلسل اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے اول تو درست نہیں لگتی۔ میں کہوں اٰکل الأرز (میں چاول کھاتا ہوں) تو اس سے کون پاگل یہ سمجھے گا کہ میں ہمیشہ چاول کھاتا ہوں یا میں مسلسل پیدائش سے چاول ہی کھاتا چلا آرہا ہوں؟ ظاہر ہے اس خاص معنی کے لیے مقام دیکھا جائے گا۔
آپ کی خود اسی مثال میں تسلسل کی بات ہے۔ ورنہ بتلائے اگر آپ نے کہا کہ ’’ میں چاول کھاتاہوں‘‘ تو اس سے کیا یہ سمجھا جائے کہ آپ نے پیدائش سے لیکر اب تک کی زندگی میں صرف ایک بار چاول کھایا ہے ؟ میرے خیال سے ایسا سمجھنا ہی پاگل پن ہے۔
اور اگر اس بات کو درست بھی مان لیں تو بھی یہ اس وقت ہوگی جب مضارع فقط آئے۔ حال کی صورت میں تو مضارع ویسے ہی مفرد کے معنی دے رہا ہوتا ہے۔
حال کی صورت میں مضارع مفرد کا معنی دیتاہے اس اصول کے لئے کوئی حوالہ عنایت فرمائیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جناب حال بننے سے یہ کہاں لازم آیا کا بات ایک ہی بار کی ہے۔کیا مار میں تسلسل والی بات حال نہیں بن سکتی ؟ ایک بار اور زیادہ بار دونوں کا احتمال آپ خود بتلارہے اور پھر آگے لیکن کے ذریعہ ایک بار کی تخصیص کررہے ہیں اس کی دلیل ؟ آپ کی خود اسی مثال میں تسلسل کی بات ہے۔ ورنہ بتلائے اگر آپ نے کہا کہ ’’ میں چاول کھاتاہوں‘‘ تو اس سے کیا یہ سمجھا جائے کہ آپ نے پیدائش سے لیکر اب تک کی زندگی میں صرف ایک بار چاول کھایا ہے ؟ میرے خیال سے ایسا سمجھنا ہی پاگل پن ہے۔ حال کی صورت میں مضارع مفرد کا معنی دیتاہے اس اصول کے لئے کوئی حوالہ عنایت فرمائیں ۔
مناسب یہ ہے کہ پہلے آپ اس کا حوالہ عنایت فرما دیں کہ مضارع ہمیشگی اور تسلسل پر دلالت کرتا ہے۔ تاکہ پھر میں یہ ڈھونڈ سکوں کہ مضارع جب حال ہو تو ان پر دلالت نہیں کرتا۔ ورنہ اگر مقدمہ ہی ثابت نہیں ہوگا تو میں آگے کیسے ڈھونڈوں گا۔
باقی چیزوں پر بات پھر کر لیں گے۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
دیگر بحث سے قطع نظر فاضل شیخ کی تحریر معتدل اور متوازن ہونے کے ساتھ شبہات کے ازالہ بھی لیئے ہوئے ہیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا !
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
مسئلہ نمبر ۴۰۱ ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ انگشتِ شہادت سے التحیات میں اشارہ کیسا ہے اور ہمارے فقہا سے ثابت ہے یا نہیں ؟ بینو ا تجروا
الجواب اخرج مسلم فی صحیحہ عن سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنھما قال فیہ کان اذاجلس فے الصلوٰۃ وضع(یرید رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ) کفہ الیمنی علی فخذہ الیمنی وقبض اصابعہ کلھا واشار باصبعہ التی تلی الابھام ۱؎۔یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے تشہد میں اپنا دہنا ہاتھ دہنی ران پر رکھا اور سب انگلیاں بند کرکے انگوٹھے کے پاس انگلی سے اشارہ فرمایا۔

(۱؎ صحیح مسلم باب صفۃ الجلوس فی صلوٰۃ الخ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۲۱۶)

واخرج ابن السکن فی صحیحہ عنہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الاشارۃ بالاصبع اشد علی الشیطان من الحدید۲؎۔یعنی فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے انگلی سے اشارہ کرنا شیطان پر دھار دار ہتھیار سے زیادہ سخت ہے۔

(۲؎ مسند احمد بن حنبل ازمسند عبداﷲ ابن عمر مطبوعہ دارلفکر بیروت ۲/۱۱۹)

وعنہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ایضاعن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال ھی مذعرۃ للشطان ۳؎۔یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا وہ شیطان کے دل میں خوف ڈالنے والا ہے۔

(۳؎ السنن الکبرٰی للبیہقی باب من روی انہ اشاربہا الخ مطبوعہ دار صادر بیروت ۲/۱۳۲)
واخرج اباداؤد والبیھقی وغیرھما عن سیدنا وائل بن حجر رضی اﷲ عنہ ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عقد فی جلوس التشھد الخنصر والبنصرثم حلق الوسطی بالابھام و اشار بالسبابۃ ۴؎۔یعنی نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے جلسہ تشہد میں چھوٹی انگلی اور اُس کی برابر والی کو بند کیا پھر بیچ کی انگلی کو انگوٹھے کے ساتھ حلقہ بنایا اور انگشت ِشہادت سے اشارہ فرمایا۔

(۴؎السنن الکبرٰی للبیہقی باب ماروی فی تحلیق الوسطی بالابہام مطبوعہ دار صادر بیروت ۲/۱۳۱)

وبمعناہ اخرج ابن حیان فی صحیحہ(ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے ۔ت)
اور اس باب میں احادیث و آثار بکثرت وارد، ہمارے محققین کا بھی مذہب صحیح و معتمد علیہ ہے صغیری میں ملتقط وشرح ہدایہ سے اس کی تصحیح نقل کی اور اسی پر علّامہ فہامہ محقق علی الاطلاق مولاناکمال الدین محمد بن الہمام و علامہ ابن امیرالحاج حلبی وفاضل بہنسی وباقانی و ملاخسرو وعلامہ شربنلالی وفاضل ابراہیم طرابلسی وغیرہم اکابر نے اعتماد فرمایا اور انھیں کا صاحب درمختا،فاضل مدقق علاء الدین حصکفی وفاضل اجل سیّد احمد طحطاوی وفاضل ابن عابدین شامی وغیرہم اجلّہ نے اتباع کیا ،علّامہ بدرالدین عینی نے تحفہ سے اس کا استحباب نقل فرمایا اور صاحب ِمحیط وملّا قہستانی نے سنّت کہاففی الدرالمختار(درمختار میں ہے ۔ت):
لکن المعتد ماصححہ الشراح ولاسیما المتاخرون کالکمال والحلبی والبھنسی والباقی وژیخ الاسلام الجد وغیرھم انہ یشیر لفعلہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ونسبوہ لمحمد ولامام بل فی متن دررالبحار وشرحہ غررالاذکار المفتی بہ عندنا انہ یشیر الخ افی الشرنبلالیۃ عن البرھان الصحیح انہ یشیر الخ واحتزر بالصحیح عماقیل لایشیر لانہ خلاف الدرایۃ والروایۃ الخ وفی العینی عن التحفۃ الاصح انھا مستجۃ وفی المحیط سنۃ انتھی ملتقطا ۱؎۔لیکن معتمد وہی ہے جسے شارحین نے صحیح کیا خصوصاً متاخرین علماء کمال،حلبی، بہنسی،باقانی اور شیخ الاسلام الجد وغیرہم نے اشارہ کرنے کو صحیح قرار دیا کیونکہ یہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا عمل ہے اور انھوں نے اس قول کی نسبت امام محمد اورامام صاحب کی طرف کی ہے، بلکہ متن دررالبحار اور اسکی شرح غررالاذکار میں ہے کہ اشارہ کرنا ہمارے نزدیک مفتی بہ قول ہے الخ اور شرنبلالیہ میں برہان سے منقول ہے کہ صحیح یہی ہے کہ نمازی اشارہ کرے الخ لفظِ صحیح کہہ کر متوجہ کیا ہے کہ وہ قول کہ اشارہ نہ کیا جائے کیونکہ وہ درایت و روایت دونوں کے خلاف ہے اور عینی میں تحفہ کے حوالے سے ہے کہ اشارہ کرنا مستحب ہے ، اور محیط میں ہے کہ سنّت ہے انتہی ملتقطا۔(ت)

(۱؎ درمختار باب صفۃ الصلوٰۃ مطبعہ مجتبائی دہلی ۱/۷۷)
؎اور اس مسئلہ میں ہمارے تینوں ائمہ کرام سے روایتیںوارد جس نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ سے اُس میں عدم روایت یا روایت عدم کا زعم کیا محض ناواقفی یا خطائے بشری پر مبنی تھا امام محمد رحمۃ اﷲ تعالٰی کتاب المشیخۃ میں دربارہ اشارہ ایک حدیث رسول اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کرکے فرماتے ہیں:
فنفعل مافعل النبی صلی اﷲعلیہ وسلم ونصنع ماصنعہ وھو قول ابی حنیفۃ وقولنا ۲؎۔ذکرہ العلامۃ الحلبی فی الحلیۃ عن البدائعیعنی پس ہم کرتے ہیں جو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے کیا اور عمل کرتے ہیں اس پر جو حضور کا فعل تھا اور وہ مذہب ہے امام ابو حنیفہ کا اور ہمارا۔اس کو علّامہ حلبی نے حلیہ میں بدائع سے نقل فرمایا ہے۔

(۲؎ بدائع الصنائع فصل فی سنن الصلوٰۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ۱/۲۱۴)

نوٹ: کتاب المشیخہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بدائع الصنائع سے حوالہ نقل کیا ہے۔

ویروی عنہ رحمۃ اﷲ تعالٰی ثم قال ھذا قولی وقول ابی حنیفۃ ۳؎۔اثرہ العلامۃ عن الذخیرۃ وشرح الزاھدی صاحب القنیۃاور انہی سے مروی ہے پھر امام محمد نے فرمایا اشارہ کرنا میرا قول ہے اور قول ابی حنیفہ رحمہ اﷲ کا ۔علامہ حلبی نے ذخیرہ اور شرح الزاہدی صاحب ِ قنیہ سے اسے نقل کیا۔

(۳؎ حلیۃ المحلی شرح منیہ المصلی)

وہ مذکورہ اور کبیری اور ردالمحتار میں اسے امام ابو یوسف رحمہ اﷲ سے روایت کیا یہاں تک کہ شامی نے اس حاشیہ میں تصریح کی:ھو منقول عن ائمتنا الثلثلۃ۔۱؎۔ (یہ ہمارے تینوں ائمہ سے منقول ہے۔ت)

(۱؎ و۲؎ ردالمختار ، باب صفۃ الصلوٰۃ ، مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۳۴۲)

اور اسی میں ہے:ھذا ما اعتمدہ المتأخرون لثبوتہ عن النبی صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم بالاحادیث اصحیحۃ والصحۃ نقلہ عن ائمتنا الثلثۃ فلذا قال فی الفتح ان الاول (یعنی عدم الاشارہ) خلاف الدرایۃوالروایۃ ، وفیہ عن القھستانی وعن اصحابنا جمیعا انہ سنۃ فیحلق ابھام الیمنی ووسطاھاملصقاراسھابراسہا ویشیر بالسبابۃ۲؎۔اسی پر متاخرین نے اعتماد کیا کیونکہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے احادیث صحیحہ کے ساتھ ثابت ہے اور ہمارے تینوں ائمہ سے اس کا منقول ہونا صحیح ہے اسی لئے فتح میں کہا پہلا(یعنی اشارہ نہ کرنا) وروایت سے ہے کہ ہما رے تمام احناف کے نزدیک یہ سنّت ہے لہذا دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور درمیان انگلی کے سروں کو ملا کے حلقہ بناکر سبابہ سے اشارہ کرے (ت)

(۱؎ و۲؎ ردالمختار باب صفۃ الصلوٰۃ مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۳۴۲)

کبیری میں ہے:قبض الاصابع عند الاشارۃ المروی عن محمد فی کیفیۃ الاشارۃ وعن کثیر من المشائخ (انہ) لایشیر اصلا وھوخلاف الدریۃ والروایۃ فعن محمد ان ما ذکرہ فی کیفیۃ الاشارۃ ھو قولہ وقولہ ابی حنیفۃ رحمۃ اﷲ تعالٰی ملخصاً ۳؎۔اشارہ کے وقت انگلیاں بند کرلے ، طریقہ اشارہ میں امام محمد سے یہی مروی ہے اور متعدد مشائخ کا قول ہے کہ اشارہً اصلاً نہ کیا جائے یہ درایت و روایت کے خلاف ہے۔امام محمد سے منقول ہے کہ کیفیتِ اشارہ میں کچھ ذکر کیا ہے یہ ان کا اور امام ابو حنیفہ رحمہاﷲ تعالٰی کا قول ہے ملخصاً(ت)

(۳؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی ، صفۃ الصلوٰۃ ، مطبوعہ سہیل اکیڈیمی لاہور ص ۳۲۸)

اور اسی طرح محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں فرمایا۔ بالجملہ اشارہ مذکورہ کی خوبی میں کچھ شک نہیں ، احادیثِ رسو ل اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اور اقوال ہمارے مجتہدین کرام کے اسی کو مفید ، بعد اس کے اگر کتبِ متاخرین مثل تنویر الابصار و ولوالجیہ وتجنیس وخلاصہ وبزازیہ و واقعات و عمدۃالمفتی ومنیتی المفتی وتبیین کبرٰی ومضمرات و ہندیہ وغیرہا عامہ فتاوٰی میں عدم اشارہ کی ترجیح وتصحیح منقول ہو تو قابلِ اعتماد نہیں ہوسکتی علماء نے ان اقوال پر التفات نہ فرمایا اور خلافِ عقل و نقل ٹھہرایا

کما سمعت مرارا، والحمد ﷲ لیلا و نھارا وجھرا واسرارا وﷲ تعالٰی اعلم
حوالہ
فتوی رضویہ سوفٹ ویئر :جلد 6 صفحہ 33



الجواب
وعلیکم السّلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ۔ اشارہ ضرور سنّت ہے۔محرر مذہب سیدنا امام محمد رحمہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا:صنعہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فنصنع کما صنعہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وھوقول ابی حنیفۃ و اصحابنا۱؎۔رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا تو ہم بھی اشارہ کرتے ہیں جس طرح رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے کیا اور یہی مذہب امام اعظم ابو حنیفہ اور ہمارے اصحاب کا ہے۔

(۱؎ بدائع الصنائع فصل فی سنن الصلٰوۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/ ۲۱۴)

امام ملک العلماء نے بدائع اورامام محقق علی الاطلاق نےفتح القدیر اور دیگر ائمہ کبار نے اس کی تحقیق فرمائی۔فقیر اور فقیر کے آباء و اساتذہ و مشائخ کرام قدست اسرارہم سب اس پر عامل رہے،
حوالہ: فتویٰ رضویہ سوفٹ ویئر : جلد 6 صفحہ 45
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
رأیتُ عمروا یضرب غلامَه
میں نے عمرو کو دیکھا (اس حال میں کہ) وہ اپنے غلام کو مار رہا تھا۔
اس میں کتنی بار مارنا ثابت ہوگا؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہمیشہ یا مسلسل مارتا رہا؟


لولی (پوپ نہیں) بھائی یہ آپ کی لائن کی بحث نہیں ہے۔
انگلی سے مسلسل اشا رہ کرنے کی دلیل:
«عَن نُمَیْرٍرضی الله عنه قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ الله صلی الله علیه وسلم وَاضِعًا یَدَہُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی فِی الصَّلاَة ، وَیُشِیرُ بِأُصْبُعِه»
صحابی رسول نمیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:''میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں اپنے داہنے ہاتھ کو اپنی داہنی ران پر رکھے ہوئے تھے اور انگلی سے اشارہ کررہے تھے۔(نسائی: کتاب السھو:باب الاشارة فی التشھد،رقم1271،و ابن ماجہ :کتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا،رقم 911 والحدیث صحیح)۔

اس حدیث میں ''یشیر''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتاہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔

اورصحیح ابن خزیمہ کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں :''ثم حلق وجعل یشیر بالسباحة یدعو'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعدشہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے لگے،(صحیح ابن خزیمة :ج 1ص353حدیث نمبر713)۔

اس حدیث میں ''یشیر'' فعل مضارع پر''جعل'' داخل ہے اوریہ کسی عمل کو شروع سے مسلسل کرنے پردلالت کرتاہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعد اس عمل کوشروع سے لیکرتشہد کے اختتام تک مسلسل کرتے رہے۔

نیزابن خزیمہ کی اسی حدیث میں آگے ''یدعو''ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کے ذریعہ دعاکرنے لگے اورتشہد، پوراکا پورا دعاؤں پرمشتمل ہے، چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،اور اوپرکی حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں شہادت کی انگلی کے اشارہ کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں اشارہ بھی کیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل (اشارہ) دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے تو پورے تشہد میں یہ عمل (اشارہ کرنا)بھی ہے۔

تشہد میں انگلی سے مسلسل اشارہ کاثبوت ملاحظہ کرنے کے بعد معلوم ہوناچاہے،اس اشارہ کے ساتھ ساتھ اسے مسلسل حرکت دینے کاثبوت بھی احادیث صحیحہ میں موجودہے،ملاحظہ ہو:

انگلی کومسلسل حرکت دینے کی دلیل:
«عَنْ وَائِلَ بْنَ حُجْرصٍ قَالَ: قُلْتُ:لأَنْظُرَنَّ ا ِلَی صَلاَةِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیه وسلم کَیْفَ یُصَلِّی ؟ فَنَظَرْتُ ِلَیْه فَوَصَفَ ، قَالَ : ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَه الْیُسْرَی ، وَوَضَعَ کَفَّه الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِه الْیُسْرَی ، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِه الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَیْنِ مِنْ أَصَابِعِه ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً ، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَه فَرَأَیْتُه یُحَرِّکُها یَدْعُو بِها»
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہاکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکوضروردیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکودیکھا،پھرصحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکاطریقہ بیان فرمایااورکہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اوربایاں پاؤں بچھایا،اوربائیں ہتھیلی بائیں ران اورگھٹنے پررکھی اوردائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابرکی ،پھردوانگلی بند کرلی،اورایک حلقہ باندھ لیا،پھرانگلی اٹھائی تومیں میں نے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوہلاتے تھے اوراس سے دعاء کرتے تھے۔(نسائی : کتاب السھو:باب قبض الثنتین من أصابع الیدالیمنی وعقد الوسطی،رقم1268،صحیح ابن خزیمہ ،رقم714، صحیح ابن حبان،رقم1860،المعجم الکبیر:2235واسنادہ صحیح)۔

اس حدیث میں شہادت کی انگلی کے ساتھ دو عمل کاذکرہے،ایک اشارہ کرنے کا،چنانچہ اس کے لئے کہاگیا:« ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَه»یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی کواٹھایایعنی مسلسل اشارہ کرنے کے لئے جیساکہ آگے کے الفاظ اور اوپرکی احادیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے، اب اشارہ کاعمل ذکرہونے کے بعدآگے ایک اورعمل ذکرہے«فَرَأَیْتُه یُحَرِّکُها یَدْعُو بِها»یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے (مسلسل) حرکت بھی دے رہے تھے،اس حدیث سے ثابت ہواکہ تشہد میں انگلی سے مسلسل اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ، اسے مسلسل حرکت دینابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔

واضح رہے کہ اس حدیث میں بھی'' یُحَرِّکُہَا''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دے رہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دینے کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔

اوراسی حدیث میں آگے '' یَدْعُو بِہَا'' ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کوحرکت دے دے کر دعاکرنے لگے اورتشہد پوراکاپورادعاؤں پرمشتمل ہے،چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں انگلی کوحرکت بھی دیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل(انگلی کو حرکت دینا) بھی ہے۔

غلط فہمیوں کاازالہ:
بعض حضرات کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ انگلی کو حرکت دینااس حدیث کے خلاف ہے جس میں اشارہ کرنے کی بات ہے۔

عرض ہے کہ حرکت دینا اشارہ کرنے کے خلاف ہرگز نہیں ہے،بلکہ یہ اشارہ کے ساتھ ساتھ ایک دوسراعمل ہے،اوریہ دوسراعمل کرنے سے پہلے عمل کو چھوڑنا لازم نہیں آتا کیونکہ یہ دونوں عمل ساتھ ساتھ ہو رہاہے۔اوردیگرکئی ایسی مثالیں ہیں ،کہ اشارہ وحرکت پرساتھ ساتھ عمل ہوتاہے،مثلاہم روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی دورکھڑے ہوئے دوسرے شخص کوہاتھ کے اشارے سے بلاتاہے ہے تواس کی طرف انگلیاں اٹھاتاہے ہے یہ'' اشارہ'' ہے اورساتھ ہی ساتھ پنجہ کی انگلیوں کوہلاتابھی ہے یہ '' حرکت'' ہے۔

معلوم ہواکہ اشارہ اورحرکت یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں ،بلکہ دونوں پربیک وقت عمل ممکن ہے،اوراحادیث میں دونوں کاثبوت ہے لہٰذا دونوں پرعمل کریں گے،چنانچہ جولوگ انگلی کو حرکت دیتے ہیں وہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،اشارہ بھی کرتے ہیں اورحرکت بھی دیتے ہیں ،لہٰذایہ کہنادرست نہیں کہ حرکت دینے والے اشارہ پرعمل نہیں کرتے ،کیونکہ بغیراشارہ کئے حرکت دیناممکن ہی نہیں ہے۔ پس اہل توحید الحمدللہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،کیونکہ دونوں احادیث سے ثابت ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی روایت کرنے والے امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک مقام پرتشہدمیں انگلی سے اشارہ وحرکت ساتھ ساتھ کرنے کایہ باب قائم کیاہے:''باب موضع البصرعندالاشارة وتحریک السبابة''یعنی انگلی کواشارہ وحرکت دیتے وقت نگاہ کی جگہ کابیان، (سنن نسائی:کتاب السھو:باب39 قبل الرقم 1275)

اور امام احمدرحمہ اللہ کابھی یہی فتوی ہے کہ تشہد میں اشارہ وحرکت دونو ں پرعمل کیاجائے گا چنانچہ امام احمدرحمہ اللہ سے اس سلسلے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا ''شدیدا''شدت کے ساتھ اشارہ کیاجائے ،اورشدت کے ساتھ تبھی اشارہ ہوسکتاہے جب اسے حرکت بھی دیاجائے،(ملاحظہ ہو:مسائل ابن ہانی:ص80)۔

امام احمد رحمہ اللہ کایہ فتوی سامنے آجانے کے بعدان لوگوں کواپنی زبان بندکرلینی چاہئے،جویہ دعوی کرتے ہیں کہ چاروں اماموں کی تمام باتیں حق ہیں ،کیونکہ امام احمدرحمہ اللہ کاشماربھی انہیں چاروں میں سے ہوتاہے۔

بعض حضرات ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ہے ''لایحرکہا'' یعنی آپ حرکت نہیں دیتے تھے(ابوداؤد :رقم989) ۔

عرض ہے کہ اس کی سندمیں ابن عجلان مدلس ہے (طبقات المدلسین :ص149المرتبة الثالثہ) اور روایت عن سے ہے لہٰذا مردود ہے اس کے برخلاف صحیح حدیث میں حرکت دیناثابت ہے جیساکہ اوپرمذکورہے۔

بعض حضرات کہتے ہیں کہ تشہد میں انگلی کومسلسل حرکت دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

عرض ہے کہ تشہدمیں انگلی کوحرکت دینے کی دلیل توہم پیش کرچکے ،لیکن مخالفین کاجویہ کہناہے کہ ''أشھدأن لااله ''پراٹھاناچاہئے ،اور ''الاالله'' پرگرالینا چاہئے ، یہ کہاں سے ثابت ہے، کیااس قوم میں کوئی ایک بھی ذمہ دارشخص نہیں ہے جواپنے علماء کوپکڑکوپوچھے کہ ہمارے عمل کی دلیل کس حدیث میں ہے؟ہمارادعوی ہے کہ کہ کسی صحیح تو درکنار کسی ضعیف اورمردود حدیث میں بھی اس کانام ونشان نہیں ہے۔

بعض حضرات تشہد میں حرکت سبابہ کی سنت کامذاق اڑاتے ہیں ۔

عرض ہے کہ ہم نے اس کاسنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوناتوثابت کردیامگرجوحضرات وضوکے بعد،کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پرکرکٹ کے امپائرو ں کے طرح انگلی اٹھاتے ہیں ،اس کاثبوت کون سی صحیح حدیث میں ہے،ان حضرات کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ تشہد میں حرکت سبابہ کا مذاق اڑانا چھوڑیں پہلے وضو کے بعد اپنی بے موقع ومحل امپائرنگ کاثبوت تلاش کریں ،اوراچھی طرح معلوم کرلیں کہ یہ کس کی سنت ہے....؟

واضح رہے کہ تشہدمیں انگلی ہلانے کی سنت سے چڑنایہ مردوداورلعین شیطان کا کام ہے، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اس سنت پرعمل کرتے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے «لَہِیَ أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنَ الْحَدِیدِ یَعْنِی السَّبَّابَةَ»یعنی انگلی کایہ عمل شیطان کے لئے لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے، دیکھئے: مسندأحمد:ج 2119 رقم 6000۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطانی کاموں سے بچائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں پرعمل کرنے کی توفیق دے ،آمین۔
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/6864/0/
 
Top