- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
کیدانی حنفی نے نماز کے محرمات کے بارے میں ایک باب باندھا ھے ،خلاصہ کیدانی کا مصنف لکھتا ہے: "الباب الخامس فی المحرمات والإشارة بالسبابة کأھل الحدیث" پانچواں باب محرمات (حرام چیزوں) میں اور شہادت کی انگلی کے ساتھ اشارہ کرنا جس طرح اہل حدیث کرتے ہیں۔ (ص۱۵،۱۶)دوسرا نسخہ (خلاصہ کیدانی ص:٢١مترجم فارسی و افغانی )
احناف کے ہاں خلاصہ کیدانی کا مقام
سوال: علاقۂ کشمیر ضلع مظفرآباد میں ایک شخص بدعویٰ پیری آیا ہوا ہے، اپنا سلسلہ نقشبندی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، علمی قابلیت میں عربی میں "خلاصہ کیدانی" بھی نہیں پڑھا ہے؛ البتہ اردو میں تحریر وتقریر جانتا ہے، وعظ ونصیحت کرتا ہے جو کہ مطابق شرع ہوتی ہے، لباس عالمانہ پہنتا ہے، صرف شملہ چھوڑتا ہے، داڑھی مطابق شرع ہے،(حوالہ )
قبلہ ایاز صاحب لکھتے ہیں :
درسِ نظامی کا موجودہ نصاب مختلف مراحل سے گزرا ہے اور علماء واساتذہ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مناسب تبدیلیاں کی ہیں۔ فقہی نصاب کے حوالے سے خلاصہ کیدانی، منیة المصلّی ، المختصر القدوری، نورالایضاح، کنزالدقائق، مختصر الحقائق، مستخلص،شرح الیاس، شرح وقایہ اور کتاب الہدایہ کو خاصی شہرت حاصل رہی ہے۔ اس وقت ان میں سے اول الذکر دوکتابیں اور مستخلص وشرح الیاس کو ہٹادیا گیا ہے۔ جبکہ باقی کتب کو التزام کے ساتھ پڑھایا جاتاہے۔ اِن کتب کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس نصاب سے گزر کر مدارس دینیّہ نے مختلف ادوار میں دینی وفقہی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے بڑے بڑے فقہاء پیدا کیے ہیں۔(حوالہ )
ایک مسنون عمل کو حرام قرار دینا ،کتنی بڑی جرات ھے ،اس طرح کی جسارت کرنے کی کیا وجوہات ھیں ان پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہر اہل علم حنفی طرز عمل سے واقف ہے کہ یہ کس طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاق کرتے ہیں ۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کےدلوں میں قرآن و حدیث سے محبت ڈال دے ۔اور بدعات وغیرہ سے نفرت ڈال دے ۔
عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں کہ "تشہد میں جو رفع سبابہ کیا جاتا اس میں تردد تھا کہ اس اشارہ کا بقاء کسوقت تک کسی حدیث میں منقول ہے یا نہیں حضرت قدس سرہ کے حضور میں پیش کیا گیا فوراً ارشاد فرمایا کہ "ترمذی کی کتاب الدعوات میں حدیث ہے کہ آپ نے تشہد کے بعد فلاں دعا پڑھی اور اس میں سبابہ سے اشارہ فرما رہے تھے، اور ظاہر ہے کہ دعا قریب سلام کے پڑھی جاتی ہے پس ثابت ہوگیا کہ اخیر تک اسکا باقی رکھنا حدیث میں منقول ہے" (تذکرة الرشید ۱۱۳/۱ ، حضرت سے رشید احمد گنگوہی مراد ہیں)
راقم اس ہر لکھنا چاہتا تھا دوران مطالعہ محترم کفایت اللہ بھائی کامضمون ملا وہ ہدیہ قارئین ہے
تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا،اوراسے مسلسل حرکت دینا
نمازکاپہلاتشہد ہویادوسرا اس میں سنت یہ ہے کہ پورے تشہد میں مسلسل شہادت کی انگلی سے اشارہ کیاجائے اورساتھ ہی ساتھ اسے مسلسل حرکت بھی دیا جائے،یہ دونوں عمل احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ،دلائل ملاحظہ ہوں:
انگلی سے مسلسل اشا رہ کرنے کی دلیل:
عَن نُمَیْرٍرضی اللہ عنہ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاضِعًا یَدَہُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی فِی الصَّلاَةِ ، وَیُشِیرُ بِأُصْبُعِہِ.
صحابی رسول نمیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:''میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں اپنے داہنے ہاتھ کواپنی دا ہنی ران پررکھے ہوئے تھے اورانگلی سے اشارہ کررہے تھے۔(نسائی:ـکتاب السھو:باب الاشارة فی التشھد،رقم1271،و ابن ماجہ :ـکتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا،رقم 911 والحدیث صحیح)۔
اس حدیث میں ''یشیر''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتاہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اورصحیح ابن خزیمہ کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں :''ثم حلق وجعل یشیر بالسباحة یدعو'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعدشہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے لگے،(صحیح ابن خزیمة :ج 1ص353حدیث نمبر713)۔
اس حدیث میں ''یشیر'' فعل مضارع پر''جعل'' داخل ہے اوریہ کسی عمل کوشروع سے مسلسل کرنے پردلالت کرتاہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعد اس عمل کوشروع سے لیکرتشہد کے اختتام تک مسلسل کرتے رہے۔
نیزابن خزیمہ کی اسی حدیث میں آگے ''یدعو''ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کے ذریعہ دعاکرنے لگے اورتشہد، پوراکا پورا دعاؤں پرمشتمل ہے، چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،اور اوپرکی حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں شہادت کی انگلی کے اشارہ کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں اشارہ بھی کیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل (اشارہ) دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل (اشارہ کرنا)بھی ہے۔
تشہدمیں انگلی سے مسلسل اشارہ کاثبوت ملاحظہ کرنے کے بعدمعلوم ہوناچاہے،اس اشارہ کے ساتھ ساتھ اسے مسلسل حرکت دینے کاثبوت بھی احادیث صحیحہ میں موجودہے،ملاحظہ ہو:
عَنْ وَائِلَ بْنَ حُجْرصٍ قَالَ: قُلْتُ:لأَنْظُرَنَّ ا ِلَی صَلاَةِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ یُصَلِّی ؟ فَنَظَرْتُ ِلَیْہِ فَوَصَفَ ، قَالَ : ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَہُ الْیُسْرَی ، وَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِہِ الْیُسْرَی ، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِہِ الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَیْنِ مِنْ أَصَابِعِہِ ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً ، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا،
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہاکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکوضروردیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکودیکھا،پھرصحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکاطریقہ بیان فرمایااورکہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اوربایاں پاؤں بچھایا،اوربائیں ہتھیلی بائیں ران اورگھٹنے پررکھی اوردائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابرکی ،پھردوانگلی بند کرلی،اورایک حلقہ باندھ لیا،پھرانگلی اٹھائی تومیں میں نے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوہلاتے تھے اوراس سے دعاء کرتے تھے۔(نسائی :ـکتاب السھو:باب قبض الثنتین من أصابع الیدالیمنی وعقد الوسطی،رقم1268،صحیح ابن خزیمہ ،رقم714، صحیح ابن حبان،رقم1860،المعجم الکبیر:2235واسنادہ صحیح)۔
اس حدیث میں شہادت کی انگلی کے ساتھ دوعمل کاذکرہے،ایک اشارہ کرنے کا،چنانچہ اس کے لئے کہاگیا:'' ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی کواٹھایایعنی مسلسل اشارہ کرنے کے لئے جیساکہ آگے کے الفاظ اور اوپرکی احادیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے، اب اشارہ کاعمل ذکرہونے کے بعدآگے ایک اورعمل ذکرہے''فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے (مسلسل) حرکت بھی دے رہے تھے،اس حدیث سے ثابت ہواکہ تشہد میں انگلی سے مسلسل اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ،اسے مسلسل حرکت دینابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔
واضح رہے کہ اس حدیث میں بھی'' یُحَرِّکُہَا''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دے رہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دینے کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اوراسی حدیث میں آگے '' یَدْعُو بِہَا'' ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کوحرکت دے دے کر دعاکرنے لگے اورتشہد پوراکاپورادعاؤں پرمشتمل ہے،چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں انگلی کوحرکت بھی دیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل دعاؤں سے جڑاہوہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل(انگلی کوحرکت دینا) بھی ہے۔
غلط فہمیوں کاازالہ:
بعض حضرات کویہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ انگلی کوحرکت دینااس حدیث کے خلاف ہے جس میں اشارہ کرنے کی بات ہے۔
عرض ہے کہ حرکت دینااشارہ کرنے کے خلاف ہرگزنہیں ہے،بلکہ یہ اشارہ کے ساتھ ساتھ ایک دوسراعمل ہے،اوریہ دوسراعمل کرنے سے پہلے عمل کوچھوڑنالازم نہیں آتاکیونکہ یہ دونوں عمل ساتھ ساتھ ہورہاہے۔اوردیگرکئی ایسی مثالیں ہیں ،کہ اشارہ وحرکت پرساتھ ساتھ عمل ہوتاہے،مثلاہم روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی دورکھڑے ہوئے دوسرے شخص کوہاتھ کے اشارے سے بلاتاہے ہے تواس کی طرف انگلیاں اٹھاتاہے ہے یہ'' اشارہ'' ہے اورساتھ ہی ساتھ پنجہ کی انگلیوں کوہلاتابھی ہے یہ '' حرکت'' ہے۔
معلوم ہواکہ اشارہ اورحرکت یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں ،بلکہ دونوں پربیک وقت عمل ممکن ہے،اوراحادیث میں دونوں کاثبوت ہے لہٰذادونوں پرعمل کریں گے،چنانچہ جولوگ انگلی کوحرکت دیتے ہیں وہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،اشارہ بھی کرتے ہیں اورحرکت بھی دیتے ہیں ،لہٰذایہ کہنادرست نہیں کہ حرکت دینے والے اشارہ پرعمل نہیں کرتے ،کیونکہ بغیراشارہ کئے حرکت دیناممکن ہی نہیں ہے۔پس اہل توحید الحمدللہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،کیونکہ دونوں احادیث سے ثابت ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی روایت کرنے والے امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک مقام پرتشہدمیں انگلی سے اشارہ وحرکت ساتھ ساتھ کرنے کایہ باب قائم کیاہے:''باب موضع البصرعندالاشارة وتحریک السبابة''یعنی انگلی کواشارہ وحرکت دیتے وقت نگاہ کی جگہ کابیان، (سنن نسائی:کتاب السھو:باب39 قبل الرقم 1275)
اورامام احمدرحمہ اللہ کابھی یہی فتوی ہے کہ تشہد میں اشارہ وحرکت دونو ں پرعمل کیاجائے گا چنانچہ امام احمدرحمہ اللہ سے اس سلسلے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا ''شدیدا''شدت کے ساتھ اشارہ کیاجائے ،اورشدت کے ساتھ تبھی اشارہ ہوسکتاہے جب اسے حرکت بھی دیاجائے،(ملاحظہ ہو:مسائل ابن ہانی:ص80)۔
امام احمد رحمہ اللہ کایہ فتوی سامنے آجانے کے بعدان لوگوں کواپنی زبان بندکرلینی چاہئے،جویہ دعوی کرتے ہیں کہ چاروں اماموں کی تمام باتیں حق ہیں ،کیونکہ امام احمدرحمہ اللہ کاشماربھی انہیں چاروں میں سے ہوتاہے۔
بعض حضرات ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ہے ''لایحرکہا'' یعنی آپ حرکت نہیں دیتے تھے(ابوداؤد :رقم989) ۔
عرض ہے کہ اس کی سندمیں ابن عجلان مدلس ہے (طبقات المدلسین :ص149المرتبة الثالثہ) اور روایت عن سے ہے لہٰذا مردود ہے اس کے برخلاف صحیح حدیث میں حرکت دیناثابت ہے جیساکہ اوپرمذکورہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ تشہد میں انگلی کومسلسل حرکت دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
عرض ہے کہ تشہدمیں انگلی کوحرکت دینے کی دلیل توہم پیش کرچکے ،لیکن مخالفین کاجویہ کہناہے کہ ''أشھدأن لاالہ ''پراٹھاناچاہئے ،اور ''الااللہ'' پرگرالینا چاہئے ، یہ کہاں سے ثابت ہے، کیااس قوم میں کوئی ایک بھی ذمہ دارشخص نہیں ہے جواپنے علماء کوپکڑکوپوچھے کہ ہمارے عمل کی دلیل کس حدیث میں ہے؟ہمارادعوی ہے کہ کہ کسی صحیح تو درکنار کسی ضعیف اورمردود حدیث میں بھی اس کانام ونشان نہیں ہے۔
بعض حضرات تشہد میں حرکت سبابہ کی سنت کامذاق اڑاتے ہیں ۔
عرض ہے کہ ہم نے اس کاسنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوناتوثابت کردیامگرجوحضرات وضوکے بعد،کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پرکرکٹ کے امپائرو ں کے طرح انگلی اٹھاتے ہیں ،اس کاثبوت کون سی صحیح حدیث میں ہے،ان حضرات کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ تشہد میں حرکت سبابہ کامذاق اڑاناچھوڑیں پہلے وضو کے بعد اپنی بے موقع ومحل امپائرنگ کاثبوت تلاش کریں ،اوراچھی طرح معلوم کرلیں کہ یہ کس کی سنت ہے....؟
واضح رہے کہ تشہدمیں انگلی ہلانے کی سنت سے چڑنایہ مردوداورلعین شیطان کاکام ہے، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اس سنت پرعمل کرتے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ''لَہِیَ أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنَ الْحَدِیدِ یَعْنِی السَّبَّابَةَ''یعنی انگلی کایہ عمل شیطان کے لئے لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے،دیکھئے:مسندأحمد:ج2119رقم 6000۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطانی کاموں سے بچائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں پرعمل کرنے کی توفیق دے ،آمین۔
نیز دیکھیں البشارہ ڈاٹ کام
احناف کے ہاں خلاصہ کیدانی کا مقام
سوال: علاقۂ کشمیر ضلع مظفرآباد میں ایک شخص بدعویٰ پیری آیا ہوا ہے، اپنا سلسلہ نقشبندی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، علمی قابلیت میں عربی میں "خلاصہ کیدانی" بھی نہیں پڑھا ہے؛ البتہ اردو میں تحریر وتقریر جانتا ہے، وعظ ونصیحت کرتا ہے جو کہ مطابق شرع ہوتی ہے، لباس عالمانہ پہنتا ہے، صرف شملہ چھوڑتا ہے، داڑھی مطابق شرع ہے،(حوالہ )
قبلہ ایاز صاحب لکھتے ہیں :
درسِ نظامی کا موجودہ نصاب مختلف مراحل سے گزرا ہے اور علماء واساتذہ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مناسب تبدیلیاں کی ہیں۔ فقہی نصاب کے حوالے سے خلاصہ کیدانی، منیة المصلّی ، المختصر القدوری، نورالایضاح، کنزالدقائق، مختصر الحقائق، مستخلص،شرح الیاس، شرح وقایہ اور کتاب الہدایہ کو خاصی شہرت حاصل رہی ہے۔ اس وقت ان میں سے اول الذکر دوکتابیں اور مستخلص وشرح الیاس کو ہٹادیا گیا ہے۔ جبکہ باقی کتب کو التزام کے ساتھ پڑھایا جاتاہے۔ اِن کتب کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس نصاب سے گزر کر مدارس دینیّہ نے مختلف ادوار میں دینی وفقہی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے بڑے بڑے فقہاء پیدا کیے ہیں۔(حوالہ )
ایک مسنون عمل کو حرام قرار دینا ،کتنی بڑی جرات ھے ،اس طرح کی جسارت کرنے کی کیا وجوہات ھیں ان پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہر اہل علم حنفی طرز عمل سے واقف ہے کہ یہ کس طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاق کرتے ہیں ۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کےدلوں میں قرآن و حدیث سے محبت ڈال دے ۔اور بدعات وغیرہ سے نفرت ڈال دے ۔
عاشق الٰہی میرٹھی دیوبندی لکھتے ہیں کہ "تشہد میں جو رفع سبابہ کیا جاتا اس میں تردد تھا کہ اس اشارہ کا بقاء کسوقت تک کسی حدیث میں منقول ہے یا نہیں حضرت قدس سرہ کے حضور میں پیش کیا گیا فوراً ارشاد فرمایا کہ "ترمذی کی کتاب الدعوات میں حدیث ہے کہ آپ نے تشہد کے بعد فلاں دعا پڑھی اور اس میں سبابہ سے اشارہ فرما رہے تھے، اور ظاہر ہے کہ دعا قریب سلام کے پڑھی جاتی ہے پس ثابت ہوگیا کہ اخیر تک اسکا باقی رکھنا حدیث میں منقول ہے" (تذکرة الرشید ۱۱۳/۱ ، حضرت سے رشید احمد گنگوہی مراد ہیں)
راقم اس ہر لکھنا چاہتا تھا دوران مطالعہ محترم کفایت اللہ بھائی کامضمون ملا وہ ہدیہ قارئین ہے
تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا،اوراسے مسلسل حرکت دینا
نمازکاپہلاتشہد ہویادوسرا اس میں سنت یہ ہے کہ پورے تشہد میں مسلسل شہادت کی انگلی سے اشارہ کیاجائے اورساتھ ہی ساتھ اسے مسلسل حرکت بھی دیا جائے،یہ دونوں عمل احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں ،دلائل ملاحظہ ہوں:
انگلی سے مسلسل اشا رہ کرنے کی دلیل:
عَن نُمَیْرٍرضی اللہ عنہ قَالَ : رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاضِعًا یَدَہُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی فِی الصَّلاَةِ ، وَیُشِیرُ بِأُصْبُعِہِ.
صحابی رسول نمیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:''میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں اپنے داہنے ہاتھ کواپنی دا ہنی ران پررکھے ہوئے تھے اورانگلی سے اشارہ کررہے تھے۔(نسائی:ـکتاب السھو:باب الاشارة فی التشھد،رقم1271،و ابن ماجہ :ـکتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا،رقم 911 والحدیث صحیح)۔
اس حدیث میں ''یشیر''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتاہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اورصحیح ابن خزیمہ کی ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں :''ثم حلق وجعل یشیر بالسباحة یدعو'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعدشہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے لگے،(صحیح ابن خزیمة :ج 1ص353حدیث نمبر713)۔
اس حدیث میں ''یشیر'' فعل مضارع پر''جعل'' داخل ہے اوریہ کسی عمل کوشروع سے مسلسل کرنے پردلالت کرتاہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد میں بیٹھنے کے بعد اس عمل کوشروع سے لیکرتشہد کے اختتام تک مسلسل کرتے رہے۔
نیزابن خزیمہ کی اسی حدیث میں آگے ''یدعو''ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کے ذریعہ دعاکرنے لگے اورتشہد، پوراکا پورا دعاؤں پرمشتمل ہے، چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،اور اوپرکی حدیث سے معلوم ہواکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعائیں شہادت کی انگلی کے اشارہ کے ساتھ ساتھ پڑھتے تھے،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں اشارہ بھی کیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل (اشارہ) دعاؤں سے جڑا ہوا ہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل (اشارہ کرنا)بھی ہے۔
تشہدمیں انگلی سے مسلسل اشارہ کاثبوت ملاحظہ کرنے کے بعدمعلوم ہوناچاہے،اس اشارہ کے ساتھ ساتھ اسے مسلسل حرکت دینے کاثبوت بھی احادیث صحیحہ میں موجودہے،ملاحظہ ہو:
انگلی کومسلسل حرکت دینے کی دلیل:
عَنْ وَائِلَ بْنَ حُجْرصٍ قَالَ: قُلْتُ:لأَنْظُرَنَّ ا ِلَی صَلاَةِ رَسُولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ یُصَلِّی ؟ فَنَظَرْتُ ِلَیْہِ فَوَصَفَ ، قَالَ : ثُمَّ قَعَدَ وَافْتَرَشَ رِجْلَہُ الْیُسْرَی ، وَوَضَعَ کَفَّہُ الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِہِ وَرُکْبَتِہِ الْیُسْرَی ، وَجَعَلَ حَدَّ مِرْفَقِہِ الأَیْمَنِ عَلَی فَخِذِہِ الْیُمْنَی ، ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَیْنِ مِنْ أَصَابِعِہِ ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً ، ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا،
صحابی رسول وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہاکہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکوضروردیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکودیکھا،پھرصحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازکاطریقہ بیان فرمایااورکہاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اوربایاں پاؤں بچھایا،اوربائیں ہتھیلی بائیں ران اورگھٹنے پررکھی اوردائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابرکی ،پھردوانگلی بند کرلی،اورایک حلقہ باندھ لیا،پھرانگلی اٹھائی تومیں میں نے دیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کوہلاتے تھے اوراس سے دعاء کرتے تھے۔(نسائی :ـکتاب السھو:باب قبض الثنتین من أصابع الیدالیمنی وعقد الوسطی،رقم1268،صحیح ابن خزیمہ ،رقم714، صحیح ابن حبان،رقم1860،المعجم الکبیر:2235واسنادہ صحیح)۔
اس حدیث میں شہادت کی انگلی کے ساتھ دوعمل کاذکرہے،ایک اشارہ کرنے کا،چنانچہ اس کے لئے کہاگیا:'' ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَہُ''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی کواٹھایایعنی مسلسل اشارہ کرنے کے لئے جیساکہ آگے کے الفاظ اور اوپرکی احادیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے، اب اشارہ کاعمل ذکرہونے کے بعدآگے ایک اورعمل ذکرہے''فَرَأَیْتُہُ یُحَرِّکُہَا یَدْعُو بِہَا''یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی سے اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے (مسلسل) حرکت بھی دے رہے تھے،اس حدیث سے ثابت ہواکہ تشہد میں انگلی سے مسلسل اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ،اسے مسلسل حرکت دینابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔
واضح رہے کہ اس حدیث میں بھی'' یُحَرِّکُہَا''(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دے رہے تھے)فعل مضارع استعمال ہواہے جوہمیشگی اورتسلسل کامعنی دیتا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرکت دینے کایہ عمل پور ے تشہد میں کرتے تھے۔
اوراسی حدیث میں آگے '' یَدْعُو بِہَا'' ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی انگلی کوحرکت دے دے کر دعاکرنے لگے اورتشہد پوراکاپورادعاؤں پرمشتمل ہے،چنانچہ پہلے ''التحیات ''کی دعاء پھر''درود'' کی دعاء پھردیگر دعائیں ہیں ،لہٰذا ثابت ہواکہ جس طرح پورے تشہد میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں ایسے ہی پورے تشہد میں انگلی کوحرکت بھی دیاجائے گا،کیونکہ یہ عمل دعاؤں سے جڑاہوہے،لہٰذاجب پورے تشہد میں دعاء ہے توپورے تشہد میں یہ عمل(انگلی کوحرکت دینا) بھی ہے۔
غلط فہمیوں کاازالہ:
بعض حضرات کویہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ انگلی کوحرکت دینااس حدیث کے خلاف ہے جس میں اشارہ کرنے کی بات ہے۔
عرض ہے کہ حرکت دینااشارہ کرنے کے خلاف ہرگزنہیں ہے،بلکہ یہ اشارہ کے ساتھ ساتھ ایک دوسراعمل ہے،اوریہ دوسراعمل کرنے سے پہلے عمل کوچھوڑنالازم نہیں آتاکیونکہ یہ دونوں عمل ساتھ ساتھ ہورہاہے۔اوردیگرکئی ایسی مثالیں ہیں ،کہ اشارہ وحرکت پرساتھ ساتھ عمل ہوتاہے،مثلاہم روزمرہ کی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی دورکھڑے ہوئے دوسرے شخص کوہاتھ کے اشارے سے بلاتاہے ہے تواس کی طرف انگلیاں اٹھاتاہے ہے یہ'' اشارہ'' ہے اورساتھ ہی ساتھ پنجہ کی انگلیوں کوہلاتابھی ہے یہ '' حرکت'' ہے۔
معلوم ہواکہ اشارہ اورحرکت یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں ،بلکہ دونوں پربیک وقت عمل ممکن ہے،اوراحادیث میں دونوں کاثبوت ہے لہٰذادونوں پرعمل کریں گے،چنانچہ جولوگ انگلی کوحرکت دیتے ہیں وہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،اشارہ بھی کرتے ہیں اورحرکت بھی دیتے ہیں ،لہٰذایہ کہنادرست نہیں کہ حرکت دینے والے اشارہ پرعمل نہیں کرتے ،کیونکہ بغیراشارہ کئے حرکت دیناممکن ہی نہیں ہے۔پس اہل توحید الحمدللہ دونوں پرعمل کرتے ہیں ،کیونکہ دونوں احادیث سے ثابت ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث کی روایت کرنے والے امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک مقام پرتشہدمیں انگلی سے اشارہ وحرکت ساتھ ساتھ کرنے کایہ باب قائم کیاہے:''باب موضع البصرعندالاشارة وتحریک السبابة''یعنی انگلی کواشارہ وحرکت دیتے وقت نگاہ کی جگہ کابیان، (سنن نسائی:کتاب السھو:باب39 قبل الرقم 1275)
اورامام احمدرحمہ اللہ کابھی یہی فتوی ہے کہ تشہد میں اشارہ وحرکت دونو ں پرعمل کیاجائے گا چنانچہ امام احمدرحمہ اللہ سے اس سلسلے میں پوچھاگیاتوآپ نے فرمایا ''شدیدا''شدت کے ساتھ اشارہ کیاجائے ،اورشدت کے ساتھ تبھی اشارہ ہوسکتاہے جب اسے حرکت بھی دیاجائے،(ملاحظہ ہو:مسائل ابن ہانی:ص80)۔
امام احمد رحمہ اللہ کایہ فتوی سامنے آجانے کے بعدان لوگوں کواپنی زبان بندکرلینی چاہئے،جویہ دعوی کرتے ہیں کہ چاروں اماموں کی تمام باتیں حق ہیں ،کیونکہ امام احمدرحمہ اللہ کاشماربھی انہیں چاروں میں سے ہوتاہے۔
بعض حضرات ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ہے ''لایحرکہا'' یعنی آپ حرکت نہیں دیتے تھے(ابوداؤد :رقم989) ۔
عرض ہے کہ اس کی سندمیں ابن عجلان مدلس ہے (طبقات المدلسین :ص149المرتبة الثالثہ) اور روایت عن سے ہے لہٰذا مردود ہے اس کے برخلاف صحیح حدیث میں حرکت دیناثابت ہے جیساکہ اوپرمذکورہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ تشہد میں انگلی کومسلسل حرکت دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
عرض ہے کہ تشہدمیں انگلی کوحرکت دینے کی دلیل توہم پیش کرچکے ،لیکن مخالفین کاجویہ کہناہے کہ ''أشھدأن لاالہ ''پراٹھاناچاہئے ،اور ''الااللہ'' پرگرالینا چاہئے ، یہ کہاں سے ثابت ہے، کیااس قوم میں کوئی ایک بھی ذمہ دارشخص نہیں ہے جواپنے علماء کوپکڑکوپوچھے کہ ہمارے عمل کی دلیل کس حدیث میں ہے؟ہمارادعوی ہے کہ کہ کسی صحیح تو درکنار کسی ضعیف اورمردود حدیث میں بھی اس کانام ونشان نہیں ہے۔
بعض حضرات تشہد میں حرکت سبابہ کی سنت کامذاق اڑاتے ہیں ۔
عرض ہے کہ ہم نے اس کاسنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوناتوثابت کردیامگرجوحضرات وضوکے بعد،کھلاڑیوں کے آؤٹ ہونے پرکرکٹ کے امپائرو ں کے طرح انگلی اٹھاتے ہیں ،اس کاثبوت کون سی صحیح حدیث میں ہے،ان حضرات کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ تشہد میں حرکت سبابہ کامذاق اڑاناچھوڑیں پہلے وضو کے بعد اپنی بے موقع ومحل امپائرنگ کاثبوت تلاش کریں ،اوراچھی طرح معلوم کرلیں کہ یہ کس کی سنت ہے....؟
واضح رہے کہ تشہدمیں انگلی ہلانے کی سنت سے چڑنایہ مردوداورلعین شیطان کاکام ہے، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ اس سنت پرعمل کرتے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ''لَہِیَ أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنَ الْحَدِیدِ یَعْنِی السَّبَّابَةَ''یعنی انگلی کایہ عمل شیطان کے لئے لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے،دیکھئے:مسندأحمد:ج2119رقم 6000۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطانی کاموں سے بچائے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں پرعمل کرنے کی توفیق دے ،آمین۔
نیز دیکھیں البشارہ ڈاٹ کام