• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تصورِدین اور قرآن

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
دین کا بنیادی تصور
دین کے بنیادی تصور سے مراد اسکا وہ مرکزی نقطہ نگاہ ہے ، جس کے مطابق وہ اپنے پیرووں کی فکری وفطری اور علمی وعملی زندگی کو ڈھلا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔
دین کے بنیادی تصور کی اہمیت و ضرورت
کسی دین کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے یہ ایک ضروری شرط ہے کہ اُس کا بنیادی تصور واضح تعین کے ساتھ معلوم کر لیا جائے۔ورنہ اس کی صحیح اور حقیقی شکل شکل ہرگز سامنے نہ آسکے گی۔اسی تصور کی صحیح اور واضح معرفت ہی پورے دین کی معرفت ہوگی۔
انسان کے ذہنی تصورات اور فکری زاویے ہی اُس کے قائد ہوتے ہیں اور اُس کے ایک ایک عمل کی صورت گری اِنہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔تصورات کی حیثیت گاڑی کے انجن کی سی اور اعمال کی حیثیت ڈبوں جیسی سمجھنی چاہیے۔گاڑی کے ڈبے اپنی حرکت ، اپنی سمتِ سفر ، اپنی رفتار اور اپنی منزل ، ہر چیز میں انجن کے تابع ہوتے ہیں۔انجن اگر ٹھہرا ہوا ہو تو وہ بھی اپنی جگہ جمے کھڑے رہیں گے،وہ سست رفتار ہو تو ان کے پہیے بھی اس سست رفتاری سے گھومیں گے۔وہ جس رخ پر چل رہا ہو،وہ بھی اسی رخ پر دوڑتے دکھائی دیں گے اور وہ جس منزل پر پہنچ رہا ہو وہ بھی اسی منزل پر جا پہنچنے کے لیے مجبور ہونگے۔
ٹھیک اسی طرح انسان کے اعمال بھی سر تا سر اس کے ذہنی تصورات کے تابع ہوتے ہیں ، وہ جس بات کا تصور اپنے ذہن میں قائم کرے گا اُسی کے عین مطابق عمل بھی اُس سے صادر ہوگا۔اس لیے کسی شخص کو اپنے مقصد میں کامیابی اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب کہ وہ اپنے ذہن میں اسکا اور اس کے حصول کا صحیح تصور بھی قائم کر چکا ہو۔ وہ شخص اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا،جس کا ذہن اس کے صحیح تصور سے خالی ہو،چاہے وہ اس کے لیے کتنی ہی جاں فشانیاں کیوں نہ دکھائے۔
کسی بھی کام کو شروع کرنے کے لیے اسکا تصور قائم کرنا نہایت ضروری ہے،وہ کام چاہے دین اور خدا پرستی جیسے اعلیٰ مقاصد سے متعلق ہوں یا دولت و شہرت جیسے معمولی مقاصد سے متعلق ہوں۔تصور ایک سانچہ ہے جس سے ہمارا مستقبل ڈھلتا ہے۔کوئی شک نہیں کہ کسی دین کی صحیح پیروی ہی نہیں ، اس سے صحیح واقفیت بھی اس کے بنیادی تصور کی صحیح معرفت کے بغیر بالکل ناممکن ہے۔اگر دین کا صحیح تصور ٹھیک طور سے ذہن نشین رہا اور انسانی عمل کی باگیں ا س کے ہاتھ میں رہیں تو نتیجے میں انسان یقینی طور پر وہی کچھ بن جائے گا جو اسکا دین اس کو بنانا چاہتا ہے۔اس تصور کی بے پناہ طاقت اسے ٹھیک اسی منزل کی طرف رواں دواں رکھے گی جو اس کی حقیقی منزل ہے۔اس تصور کے سانچے میں اس کا مستقبل ڈھلتا چلا جائے گا اور وہ ڈھل کر وہ بن جائے گا جو اس کے دین کو فی الواقع مطلوب ہے۔لیکن اگر اس تصور میں کوئی بگاڑ پیدا ہو گیا اور اس طرح اس کی قوت غلط رخ پر صرف ہونے لگی تو اسے خطرناک اور نا مطلوب نتائج پیدا کرنے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔اسی لیے کسی بھی دین کے معاملے میں بنیادی عقائد کے بعد سب سے زیادہ جس چیز کی اہمیت و ضرورت ہو وہ اس کا یہی بنیادی تصور ہے۔
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
تصور الہٰ کے مختلف تصورات

کسی مذہب کا بنیادی تصور دراصل اُس کے بنیادی عقیدے کا ہی ثمرہ اور مقتضیٰ ہوا کرتا ہے۔جیسا کچھ یہ عقیدہ ہوگا ، ٹھیک اُسی کے مطابق دین داری اور مذہبیت کا مفہوم و مدعا متعین ہوگا۔یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے جس پر کسی دلیل کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔مختصراً یہ کہ مختلف مذاہب میں مذہبیت اور دین داری کے تصورات بھی مختلف ہونگے۔
تصور الہٰ کے لحاظ سے دنیا میں تین قسم کے مذاہب پائے جاتے ہیں:
  • وہ مذاہب جن کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ ایک ہی ہے۔
  • وہ مذاہب جن کا کہنا یہ ہے کہ اللہ یعنی خدا ایک ہی نہیں بلکہ بہت سے خدا ہیں۔
  • وہ مذاہب جو سرے سے خدا کے وجود کے ہی منکر ہیں اور صرف انسانی روح کے وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
ان سب کے تصوراتِ دین داری کا ایک جیسا ہونا نا ممکن ہے۔البتہ ایک ہی طرح کا بنیادی عقیدہ رکھنے والے مذاہب کا معاملہ اس سے مختلف ضرور ہے۔ بنیادی عقیدے کی طرح ان کے بنیادی تصوراتِ دین بھی ایک جیسے ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات صرف امکان کی حد تک ہی مانی جاسکتی ہے اُسے ضروری اور لازمی نہیں کہا جاسکتا ، کیونکہ کسی بنیادی عقیدے یا اصولی نظرئیے پر اتفاق عموماً اُس کے اجمالی مفہوم تک ہی محدود رہتا ہے اور اجمال سے گزر کر تفصیل کی نوبت آتے ہی اختلاف بھی آ نمودار ہوتا ہے۔یہی ایک معروف حقیقت ہے۔
توحیدی مذاہب بھی اس عمومی صورتِ حال سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے یہ صحیح ہے کہ ان مذاہب کے اساسی عقیدے کی وحدت کو دیکھ کر خیال بظاہر یہی ہوتا ہے کہ اُن کا بنیادی تصورِ دین بھی ایک ہوگا اور خدائے واحد کی عبادت کے مفہوم و مدعا میں اُن میں کوئی اختلاف نہ ہوگا۔لیکن یہ خیال فی الواقع بھی صحیح اُس وقت ہوسکتا ہے جب کہ عقیدہِ توحید کے اجمالی مفہوم کی طرح اُس کے تفصیلی مفہوم اور بنیادی تقاضوں میں بھی یہ سارے مذاہب یک زبان ہوں ، اور خدا کی ذات وصفات ، اُس کی اصل حیثیت اور اُس سے انسان کے حقیقی تعلق کی نوعیت متعین کرنے میں بھی اُن کی راہیں الگ الگ نہ ہوں۔
تو کیا تاریخ کی شہادت یہی ہے؟

ظاہر ہے کہ نہیں بلکہ ٹھیک اُس کے برعکس ہے۔ایسی حالت میں یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ عقیدہ توحید میں متفق ہونے کے باوجود دین و خدا پرستی کے بنیادی تصورات اُن مذاہب کے بھی مخالف ہو سکتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ یہ اختلاف نظری طور پر کیا ہو سکتا ہے اور عملی طور کیا ہو سکتا ہے؟
یعنی عقیدہ توحید رکھتے ہوئے دین و خدا پرستی کے کون کون سے تصورات اختیار کیے جا سکتے ہیں اور اُن میں سے کون کون سے فی الواقع اختیار کیے بھی گئے ہیں
اس سوال کا نظری جواب معلوم کرنے کے لیے جو چیز بنیاد کا کام دے سکتی ہے وہ تصورِ خدا کی تحقیق ہے۔کیونکہ دین کا بنیادی تصور اور خدا پرستی کا مفہوم متعین کرنے والی اصل چیز یہی تصورِ خدا ہے۔انسان کے ذہن میں جیسا کچھ خدا کا تصور ہوگا ٹھیک اُسی کے مطابق اُس کا تصورِ دین بھی ہوگا۔لہذا اپنے مندرجہ بالا سوال کا جواب پانے کے لیے ہمیں یہ جائزہ لینا ہوگا کہ خدا کو ایک ماننے والے گروہوں کے ذہن میں اس کے کتنے تصور رہے ہیں اور وہ تصور کیا ہیں۔اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خدا کو ایک تصور کرنے والوں کے بنیادی طور پر دو تصورات رہے ہیں۔
  1. خدا کی مکمل اور والہانہ اطاعت
    [*]خدا سے مکمل اور سچا عشق
خدا کی مکمل اور والہانہ اطاعت

اس تصور کے مطابق خدا ساری جمالی اور جلالی صفات سے کمال کی حد تک متصف ہے۔یعنی وہ پوری کائنات جس کا ایک حصہ یہ انسان بھی ہے ، کا خالق اور پروردگار ہے۔سارے جہانوں کا مدبر و منتظم ہے ، علیم وخبیر ہے ، سمیع وبصیر ہے ، رحمان و رحیم ہے ، منعم و محسن ہے ، قادر مطلق اور مقتدر اعلیٰ ہے ، ولی و کارساز ہے ، ہدایت دینے اور شریعت وقانون عطا کرنے والا ہے ، آمر اور حاکم ہے ، عادل ہے ، حساب لینے اور جزاو سزا دینے والا ہے۔
اس لیے اُس کی حیثیت انتہائی محبوب آقا اور انتہائی عظیم فرماں روا کی ہے اور اُس کے مقابلے انسان کا حال چونکہ یہ ہے کہ وہ اُس کا پیدا کیا ہوا اورپروردہ ہے ، اسکا سب کچھ اُسی کا عطا کیا ہوا ہے ، اُس کا نفع اور نقصان اسکی راحت و کلفت ، اُس کی خوش کلامی اور بد انجامی ، اُس کی زندگی اور موت ، اُس کی دنیا اور آخرت ، سب کچھ اُسی کے ہاتھ میں ہے۔اِس لیے انسان کی حیثیت اسکے پیدائشی محکوم ، مملوک اور غلام ہونے کی ہے۔اس تصور کا تقاضا ہے کہ خدا اور انسان ، دونوں کی بالمقابل حیثیتوں کو سامنے رکھ کر مجموعی فیصلہ یہ ہے کہ اُن کے درمیان اصل تعلق آقائے کل اور غلامِ وفا شعار کا ، مطاعِ مطلق اور مطیع کامل کا تعلق ہے۔دوسری کوئی بھی چیز اصل اور بنیادی تعلق کے لوازم میں سے تو ہو سکتی ہے ، اصل تعلق نہیں ہو سکتی۔
خدا کا مکمل اور سچا عشق

اس تصور کے مطابق خدا ہر طرح کی صفاتِ کمال سے متصف ہے مگر جہاں تک انسان کا تعلق ہے اُس کے لیےاُس کی جمالی صفتیں ، خصوصٍاً اس کا حسنِ مطلق ہونا ہی اصل اہمیت کی چیز ہے۔اِس لیے خدا کی اصل حیثیت مطلوبِ حقیقی اور معشوقِ مطلق کی ہے اور اُس کے مقابلے میں انسان کی حیثیت اُس کے طالبِ صادق اور عاشقِ محض کی ہے۔ان دونوں حیثیتوں کا مشترک تقاضا اور مجموعی فیصلہ یہ ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان اصل تعلق معشوقِ حقیقی اور عاشقِ مطلق کا تعلق ہے۔دوسری کوئی بھی چیز اصل اور بنیادی تعلق کے لوازم میں سے تو ہو سکتی ہے ، اصل تعلق نہیں ہو سکتی۔

عملی اور واقعاتی جواب بھی ، اِس سوال کا ، اِس نظری جواب کے عین مطابق ہی ہے۔مذاہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ عقیدہِ توحید جن لوگوں اور جن قوموں کا بنیادی عقیدہ رہا ہے ، انہوں نے دین کے یہی دو تصورات اپنائے ہیں۔ کچھ نے اگر دین و خدا پر ستی کا بنیادی تصور اللہ تعالیٰ کی مکمل اور والہانہ اطاعت کو ٹھیرایا ہے تو کچھ نے اُس کے سچے اور کامل عشق کو۔
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
قرآنی تصور دین کی تحقیق

توحیدی مذاہب میں اسلام ہر اعتبار سے سرِفہرست ہے ، اپنے عقیدہِ توحید کی غیر معمولی بلندیوں اور بے مثل پاکیزگیوں کے اعتبار سے بھی ، اور اپنے مقام و منصب کی امتیازی خصوصیتوں کے اعتبار سے بھی۔ایک طرف تو اُس کا تصور توحید اتنا اونچا اور اتنا بےآمیز ہے کہ دوسرا کوئی بھی مذہب اُس کی ہمسری نہیں کر سکتا۔دوسری طرف ہمہ گیر حیثیت کا مالک ہونے کے باعث وہ صرف اپنے ماننے والوں کا ہی دین نہیں بلکہ فی الاصل اُن لوگوں کا بھی دین ہے جو کسی وجہ سے اُسے نہیں مانتے۔ایسی حالت میں اُس کے تصورِ دین کی تحقیق و تعین کا مسئلہ قدرتی طور پر کوئی معمولی مسئلہ نہیں رہ جاتا بلکہ ایک عظیم تریں عالمی مسئلہ بن جاتا ہے۔ایسا عالمی مسئلہ جس سے عالمِ انسانیت کے حال اور مستقبل کی کلی فلاح وابستہ ہے۔لیکن اگر اسلام کی اِ س عالمی حیثیت کو قابلِ بحث قرار دے کر نظرانداز کر دیا جائے تو بھی اس تحقیق کی ضرورت اور اہمیت کا انکار نہ کیا جا سکے گا۔کیونکہ اُس صورت میں بھی یہ تحقیق ، جہاں اُس دین کے بے شمار پیروؤں کے لیے ہر حال میں ایک عملی اہمیت کی چیز ہوگی ، وہاں دوسرے لوگوں کے لیے بھی کم از کم ایک کارآمد علمی بحث تو ضرور ہی قرار پائے گی۔کیونکہ اِس سے وہ جان سکیں گے کہ جس قرآن اور اسلام کے بارے میں وہ بہت کچھ سُنتے آئے ہیں وہ فی الواقع کس قسم کا دین ہے اور اسلام کو خدا پرستی کے کس سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے؟
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
تحقیق کے بنیادی نکات

اسلام نے دین کا کون سا تصور پیش کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ کی مکمل اور والہانہ اطاعت کا یا اُس کے مکمل عشق کا؟
اس سوال کا جواب اسلام کے اصل ماخذ قرآن و سنت سے حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم ان نکات کو سامنے رکھ لیں جن کو مد نظر رکھ کر ہم اس تحقیق کو موزوں اور معقول صورت میں پیش کر سکیں۔
بحث ونظر کے یہ بنیادی سوالات اور اصولی نکتے درج ذیل ہیں:
  1. اسلام نے اللہ تعالیٰ کو کن کن صفات سے متصف قرار دیا ہے؟
  2. اسلام نے انسان کا مقصدِ پیدائش کیا بتایا ہے؟
  3. کیا اسلام کے نزدیک نوعِ انسانی دوسری مخلوقات کے مقابلے میں اپنی کوئی مخصوص حیثیت بھی رکھتی ہے؟ اگر رکھتی ہے تو کیا اور کون سی ؟
  4. انسان کے فطری جذبات اور مطالبات ، اور اُس کی قوتوں اور صلاحیتوں کے بارے میں اسلام کا نقطہِ نظر کیا ہے اور وہ اُنہیں کس سلوک کا سزاوار سمجھتا ہے؟
  5. اسلام نے دین داری اور خدا پرستی کے فرض سے عہدہ برآ ہونے کے لیےاپنے پیروؤں کو جو ہدایات دی ہیں اور جن احکامات کی تلقین کی ہے ، وہ کیا ہیں اور کس نوعیت کے ہیں؟
ان باتوں کا تصورِ دین سے جو گہرا تعلق ہے وہ کسی خاص وضاحت کا محتاج نہیں چند لمحوں کا غورو فکر بھی اُسے ایک کھُلی ہوئی حقیقت بنا دے گا:
  1. اللہ تعالیٰ کی صفات یعنی صفاتِ الہٰ ہی کسی دین کی تعلیمات اور اُس کے تصورات کا حقیقی سر چشمہ ہوتے ہیں اور دین تمام تر دراصل اِنہی صفات کا عکس اور ثمرہ ہوتا ہے۔دوسرےالفاظ میں یہ کہ تصورِ دین ٹھیک وہی ہوگا جن کا یہ صفات تقاضا کرتی ہیں۔ان صفات سے الہٰ کی واضح حیثیت کا تعین ہوتا ہے اور الہٰ کی یہ متعینہ حیثیت اس امر کا فیصلہ دے دیتی ہے کہ الہٰ اور انسان کے درمیان اصل تعلق کس نوعیت کا ہے؟
  2. اِسی طرح ایک مذہب انسان کے مقصدِ پیدائش کے بارے میں جو کچھ کہتا ہے، سمجھنا چاہیے کہ اپنے ان لفظوں میں اُس مذہب نے صرف انسانی وجود کی غایت ہی نہیں بتائی ہے بلکہ اپنے تصورِ دین کی کی وضاحت بھی کردی ہے۔
  3. یہی معاملہ نوعِ انسانی کی مخصوص حیثیت کا بھی ہے کہ اُسے بھی کوئی خاص حیثیت حاصل ہو۔کیونکہ انسان کی اِس مخصوص پیدائشی حیثیت سے اُس خدا پرستی کے معنی و مفہوم کا ، جس کا وہ مکلف ٹھہرایا گیا ہے،پوری طرح ہم آہنگ ہونا عقل کا اک بدیہی تقاضا ہوگا۔
  4. انسان کے فطری جذبات و مطالبات اور اسکی پیدائشی قوتوں اور صلاحیتوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں ۔ان چیزوں کے بارے میں کسی بھی مذہب کا نقطہِ نظر اور عملی رویہ واضح طور پر اُس مذہب کے تصورِ دین و خدا پرستی پر ہی مبنی ہوگا۔
  5. اب رہ گئی مذہب کے اُن احکام و ہدایات کی بات جن کی اُ س نے اپنے پیروؤں کو تلقین کی ہو ۔ تو کوئی شک نہیں کہ یہ احکام وہدایات بھی اُ سکے تصورِ دین کے بہترین شارح اور ترجمان ہوتے ہیں اور اُن کی نوعیت دیکھتے ہی ایک سوجھ بوجھ والا ذہن یہ بات محسوس کر لیتا ہے کہ جس مذہب کے یہ احکام ہیں اس کا تصورِ دین اور خدا پرستی کیا ہے؟
مندرجہ بالا نکات کی اِس مختصر وضاحت کے بعد اب ہم قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام کے تصورِ دین کی تلاش کرتے ہیں اور ان سوالات کے جوابات ڈھونڈ تے ہیں تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ قرآنی تصورِ دین و خدا پرستی کیا ہے؟
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
اسلام اور صفاتِ الہٰ

قرآن کے بیانات صفات الہٰ کے بارے میں اصولی نوعیت کے بھی ہیں اور تفصیلی نوعیت کے بھی۔اصولی نوعیت کا بیان تو یہ ہے:-
وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ (الاعراف 180)
ترجمہ: اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کیلئے ہیں۔
یعنی انسانی عقل اور علم جن اچھی صفات کا بھی تصور کر سکتے ہیں وہ ایک ایک کر بھی ذات باری تعالیٰ کے اندر کمال درجے میں موجود ہیں اور پھر صرف اُسی کے لیے مخصوص بھی ہیں۔
تفصیلی نوعیت کے بیان میں قرآن نے جن صفات کا نام لے کر ذکر کیا ہے اُن میں نمایاں تر اور بنیادی قسم کی صفات درج ذیل ہیں:
ہر چیز کا خالق
اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا،جس کا ایک حصہ یہ انسان بھی ہے،خالق(پیدا کرنے والا) ہے۔
اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ (الزمر 62)
ترجمہ: اللہ ہرچیز کا پیدا کرنے والا ہے۔
ہر چیز کا رب
اللہ تعالیٰ اس کائنات کی ہر چیز کا رب (پالنے والا) بھی ہے۔
قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ (الانعام 164)
ترجمہ: آپ فرما دیجئے کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کو رب بنانے کے لئے تلاش کروں حالانکہ وہ پالنے والا ہے ہرچیز کا۔
کائنات کا نگرانِ اعلیٰ
اللہ تعالیٰ ہی اس پوری کائنات کا مدبر و منتظم اور نگرانِ اعلیٰ ہے۔
وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (الزمر 62)
ترجمہ: اور وہی ہرچیز پر نگہبان ہے۔
اور بھی بہت سی صفات ہیں جو قرآن میں مذکور ہیں۔
ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں :
کہ اللہ تعالیٰ:
  • عزیز (سب پر غالب )ہے۔
  • قدیر(ہرکام کی قدرت رکھنے والا) ہے۔
  • علیم(ڈھکی اور چھپی ہر بات کا جاننے والا) ہے۔
  • حکیم ہے جس کا کوئی فعل حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوتا۔
  • حمید(بالذات ستودہ صفات)ہے۔
  • قدوس(ہر عیب سے پاک) ہے۔
  • رحمٰن و رحیم (انتہائی مہربان) ہے۔
  • محسن(اپنی مخلوق پر مسلسل احسان کرنے والا) ہے۔
  • منعم(اپنی نعمتوں کی بارش کرنے والا) ہے۔
  • محب(اپنے نیکوکار بندوں سے محبت کرنے والا) ہے۔
  • مالک الملک (پوری کائنات کامالک اور آقا) ہے۔
  • مَلِک (شہنشاہِ کل) ہے۔
  • مقتدر(اقتدارِ اعلیٰ رکھنے والا)ہے۔
  • ہادی(راستی اور سلامتی کی راہ دکھانے والا) ہے۔
  • آمر(حکم دینے والا) ہے۔
  • شارع(قانون بنانے اور عطا کرنے والا) ہے۔
  • حاکم(فیصلے کرنے والا) ہے۔
  • معبود(اطاعت اور پرستش کا حقیقی مرجع) ہے۔
  • قائم بالقسط (عادل) ہے جس کی ہر بات حق و انصاف پر مبنی اور ہر فیصلہ سر تا سر عادلانہ ہوتا ہے۔
  • محاسب(بندوں کے اعمال کا حساب لینے والا) ہے۔
  • مجازی(اعمال کا بدلہ دینے والا) ہے۔
  • منتقم(اپنے باغیوں سے انتقام لینے والا) ہے۔
  • تواب(خطا کاروں کی توبہ قبول کرنے والا) ہے۔
  • اور غفور (معاف کر دینے والا) ہے۔
وہ ایسی ذات ہے جس کا کوئی مثل نہیں:
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ (الشوریٰ 11)
ترجمہ:اس جیسی کوئی چیز نہیں۔
اور سب سے آخری اور اہم بات یہ کہ اُلوہیت میں اُس کا کوئی شریک نہیں یعنی دوسرا کوئی نہیں جسے الہٰ و معبود مانا جاسکے بلکہ الہٰ و معبود صرف وہی ہے کوئی دوسرا نہیں۔
ان صفات کے بیان کرنے کے لیے بھی قرآن نے جو انداز اختیار کیا وہ بھی ایک خاص معنویت لیے ہوئے ہے۔یہ اندازِ بیاں عام علوم و فنون کی کتابوں کی طرح نہیں کہ تمام صفات کو ایک عنوان کے تحت ایک ہی جگہ پر تفصیل سے بیان کر دیا جاتا بلکہ قرآن حکیم کا اندازِ کلام یہ ہے اُس نے صفاتِ الہی کو تمام کا تمام ایک ہی جگہ پر مرتب شکل میں بیان کرنے کی بجائے انہیں الگ الگ اور مختلف واقع پر بیان کیا ہے۔یعنی ضرورت کے مطابق اور موقع کی مناسبت سے اُن میں کسی کو کہیں اور کسی کو کہیں رہ رہ کر دہراتا گیا ہے۔تاکہ انسان کے ذہن میں معبودِ بر حق کا ہر پہلو سے جامع اور مکمل تصور اتر جائے اور وہ اس حقیقت کو یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ کی جن صفات پر وہ ایمان لایا ہے اُن میں سے ہر صفت کچھ تقاضے بھی رکھتی ہے۔اب ان صفات میں سے چند ہی کو اللہ کی صفاتِ حقیقی مان کر اللہ کا کوئی یک رُخا تصور قائم کرنا بھی ناقابل قبول ہے اور نہ یہ لائق تسلیم ہے کہ اُن صفات کے تقاضوں میں کوئی تفریق کی جائے۔راست فکری اور حق صف یہ ہے اللہ تعالیٰ کے اندر ان صفات ، اور اُن میں ایک ایک صفت کو موثر ، اور ہر ایک کے تقاضوں کو پوری طرح کار فرما یقین کیا جائے۔
 

ندیم محمدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 29، 2011
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,279
پوائنٹ
140
قرآن اور انسان کا مقصدِ پیدائش

انسان کس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور اُس کے وجود کی غرض و غایت کیا ہے؟؟
اس سوال کا جواب قرآن پاک ان الفاظ میں دیتا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات 56)
ترجمہ:میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔
یہ الفاظ اپنے مفہوم میں آئینہ سے بھی ذیادہ روشن ہیں،یہ اس حقیقت کا صریح اعلان ہیں کہ قرآن نے انسان کا مقصدِ پیدائش اللہ کی "عبادت" بتایا ہے۔
لیکن اللہ کی عبادت کا ٹھیک ٹھیک مفہوم و مدعا کیا ہے؟
جب تک یہ وضاحت سے نہ جان لیا جائے زیرِ بحث مسئلے کا یہ قرآنی جواب صاف و صریح ہونے کے باوجود مجمل ہی رہے گا اور انسان کا مقصدِ وجود اپنے فکری اور عملی حدود کے پورے تعین کے ساتھ واضح نہ ہو سکے گا۔اس لیے بہت ضروری ہے کہ یہاں عبادت کا مفہوم بھی روشنی میں آجائے۔
اہلِ لغت اور علماءِ شریعت نے عبادت کے معنی اس طرح بیان کیے ہیں :۔
العبادۃ غایۃ التذلل (مفرداتِ راغب)
"عبادت انتہائی تذلل (کسی کے حضور پوری طرح پست ہوجانے)کا نام ہے۔"
معنی العبادۃ فی اللغۃ الطاعۃ مع الخضوع (زجاج، لسان العرب جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 273)
"لغت میں عبادت کے معنی اُس اطاعت کے ہیں جس میں خضوع (جھکاؤ) پایا جاتا ہو۔"
العبادۃ الطاعۃ (قاموس جلد اول صفحہ نمبر 192 ،لسان العرب جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 272)
"عبادت کے معنی اطاعت کے ہیں۔"
مولانا وحید الزمان قاسمی کیرانوی ؒ بھی اپنی لغت میں عبادت معنی یوں لکھتے ہیں:
"1-بطورِ تعظیم ، معبود کے لیے انکساری و اطاعت ، بندگی ، پرستش ، پوجا۔
2- مذہبی رسومات" (قاموس الوحید صفحہ نمبر 1038)
العبادۃ الطاعۃ مع خضوع (النووی ،شرح مسلم جلد اول صفحہ نمبر 29)
"عبادت ، جذبہِ خضوع رکھنے والی اطاعت کو کہتے ہیں۔"
العبادۃ ھی القیاہ بالفعل المطلوب شرعا (رسالہ قشیریہ صفحہ نمبر 91)
"عبادت ان کاموں کی بجا آوری کا نام ہے جو شریعت کی رو سے مطلوب ہیں۔"
عبد اللہ یعبدہ عبادۃ تالۃ لہ (لسان العرب جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 272)
"اُس نے اللہ کی عبادت کی یعنی اُس نے یکسو ہو کر اللہ کی عبادت کی۔"
اِن بیانوں اور لغوی تشریعوں میں بظاہر کچھ اختلاف ہے مگر فی الواقع یہ اختلاف نہیں بلکہ ایک جامع معنی وحقیقت کے مختلف اہم پہلوؤں کی وضاحت ہے۔چنانچہ خود قرآن مجید نے بھی اس لفظ عبادت کو اِن سبھی مفہوموں میں استعمال کیا ہے جس میں ساری باتیں اکٹھی موجود ہیں۔
مندرجہ بالا تمام بحث جو بات حقیقت بن کر سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ عبادتِ الہیٰ اللہ تعالیٰ کے حضور ظاہراً اور باطناً ہر حیثیت سے پوری طرح جھک جانے کا نام ہے۔یعنی قرآن نے ظاہری اور باطنی دونوں ہی قسم کے جھکاؤ کو عبادت سے تعبیر کیا ہے۔
مندرجہ بالا اقوال میں خضوع اور تذلل کے الفاظ سے کوئی غلط فہمی ہر گز نہ ہونی چاہیے کیونکہ خضوع ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے جھکاؤ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ذیادہ صحیح تو یہ ہے کہ اس لفظ کے ظاہری جھکاؤ کا تصور باطنی جھکاؤ کے مقابلے میں غالب ہے۔اسی لیے اس لفظ کا استعمال قلب(باطن) کے مقابلے میں جوارح(ظاہر) کے لیے ذیادہ ہوتا ہے۔جیسا کہ امام راغب ؒ نے اپنی مفردات میں صراحت کی ہے۔یہی حال تذلل کے لفظ کا بھی ہے۔اس کے مفوم میں بھی کوئی ایسی تخصیص نہیں ہے کہ اُس کا اطلاق ظاہر کو جھکاؤ پر نہ ہو سکے اور باطن تک ہی محدود رہے۔چنانچہ اہل لغت نے تذلل کے معنی بھی خضوع ہی بتائے ہیں(لسان العرب جلد نمبر 45 ص 257)۔نیز اُس کے مادے سے بننے والے دوسرے الفاظ کے معانی میں بھی ظاہری پستی کا مفہوم ہی ذیادہ عام اور نمایاں ہے۔اُس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تذلل کے معنی میں ظاہر کی پستی اور جھکاؤ نہ صرف یہ کہ موجود ہے بلکہ باطن کے جھکاؤ کے مقابلے میں بدرجہ اولیٰ موجود ہے۔غرض اہلِ لغت اور علمائےِ شریعت نے عبادت کے معنی بیان کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا ہے۔اس کے پیشِ نظر عبادت صرف باچن کا کوئی عمل نہیں خیال کی جاسکتی اُسے ظاہر کا عمل ماننا بھی بہر حال ضروری ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top