ندیم محمدی
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 29، 2011
- پیغامات
- 347
- ری ایکشن اسکور
- 1,279
- پوائنٹ
- 140
دین کا بنیادی تصور
دین کے بنیادی تصور سے مراد اسکا وہ مرکزی نقطہ نگاہ ہے ، جس کے مطابق وہ اپنے پیرووں کی فکری وفطری اور علمی وعملی زندگی کو ڈھلا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔
دین کے بنیادی تصور کی اہمیت و ضرورت
کسی دین کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے یہ ایک ضروری شرط ہے کہ اُس کا بنیادی تصور واضح تعین کے ساتھ معلوم کر لیا جائے۔ورنہ اس کی صحیح اور حقیقی شکل شکل ہرگز سامنے نہ آسکے گی۔اسی تصور کی صحیح اور واضح معرفت ہی پورے دین کی معرفت ہوگی۔
انسان کے ذہنی تصورات اور فکری زاویے ہی اُس کے قائد ہوتے ہیں اور اُس کے ایک ایک عمل کی صورت گری اِنہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔تصورات کی حیثیت گاڑی کے انجن کی سی اور اعمال کی حیثیت ڈبوں جیسی سمجھنی چاہیے۔گاڑی کے ڈبے اپنی حرکت ، اپنی سمتِ سفر ، اپنی رفتار اور اپنی منزل ، ہر چیز میں انجن کے تابع ہوتے ہیں۔انجن اگر ٹھہرا ہوا ہو تو وہ بھی اپنی جگہ جمے کھڑے رہیں گے،وہ سست رفتار ہو تو ان کے پہیے بھی اس سست رفتاری سے گھومیں گے۔وہ جس رخ پر چل رہا ہو،وہ بھی اسی رخ پر دوڑتے دکھائی دیں گے اور وہ جس منزل پر پہنچ رہا ہو وہ بھی اسی منزل پر جا پہنچنے کے لیے مجبور ہونگے۔
ٹھیک اسی طرح انسان کے اعمال بھی سر تا سر اس کے ذہنی تصورات کے تابع ہوتے ہیں ، وہ جس بات کا تصور اپنے ذہن میں قائم کرے گا اُسی کے عین مطابق عمل بھی اُس سے صادر ہوگا۔اس لیے کسی شخص کو اپنے مقصد میں کامیابی اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب کہ وہ اپنے ذہن میں اسکا اور اس کے حصول کا صحیح تصور بھی قائم کر چکا ہو۔ وہ شخص اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا،جس کا ذہن اس کے صحیح تصور سے خالی ہو،چاہے وہ اس کے لیے کتنی ہی جاں فشانیاں کیوں نہ دکھائے۔
کسی بھی کام کو شروع کرنے کے لیے اسکا تصور قائم کرنا نہایت ضروری ہے،وہ کام چاہے دین اور خدا پرستی جیسے اعلیٰ مقاصد سے متعلق ہوں یا دولت و شہرت جیسے معمولی مقاصد سے متعلق ہوں۔تصور ایک سانچہ ہے جس سے ہمارا مستقبل ڈھلتا ہے۔کوئی شک نہیں کہ کسی دین کی صحیح پیروی ہی نہیں ، اس سے صحیح واقفیت بھی اس کے بنیادی تصور کی صحیح معرفت کے بغیر بالکل ناممکن ہے۔اگر دین کا صحیح تصور ٹھیک طور سے ذہن نشین رہا اور انسانی عمل کی باگیں ا س کے ہاتھ میں رہیں تو نتیجے میں انسان یقینی طور پر وہی کچھ بن جائے گا جو اسکا دین اس کو بنانا چاہتا ہے۔اس تصور کی بے پناہ طاقت اسے ٹھیک اسی منزل کی طرف رواں دواں رکھے گی جو اس کی حقیقی منزل ہے۔اس تصور کے سانچے میں اس کا مستقبل ڈھلتا چلا جائے گا اور وہ ڈھل کر وہ بن جائے گا جو اس کے دین کو فی الواقع مطلوب ہے۔لیکن اگر اس تصور میں کوئی بگاڑ پیدا ہو گیا اور اس طرح اس کی قوت غلط رخ پر صرف ہونے لگی تو اسے خطرناک اور نا مطلوب نتائج پیدا کرنے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔اسی لیے کسی بھی دین کے معاملے میں بنیادی عقائد کے بعد سب سے زیادہ جس چیز کی اہمیت و ضرورت ہو وہ اس کا یہی بنیادی تصور ہے۔
دین کے بنیادی تصور سے مراد اسکا وہ مرکزی نقطہ نگاہ ہے ، جس کے مطابق وہ اپنے پیرووں کی فکری وفطری اور علمی وعملی زندگی کو ڈھلا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔
دین کے بنیادی تصور کی اہمیت و ضرورت
کسی دین کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے یہ ایک ضروری شرط ہے کہ اُس کا بنیادی تصور واضح تعین کے ساتھ معلوم کر لیا جائے۔ورنہ اس کی صحیح اور حقیقی شکل شکل ہرگز سامنے نہ آسکے گی۔اسی تصور کی صحیح اور واضح معرفت ہی پورے دین کی معرفت ہوگی۔
انسان کے ذہنی تصورات اور فکری زاویے ہی اُس کے قائد ہوتے ہیں اور اُس کے ایک ایک عمل کی صورت گری اِنہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔تصورات کی حیثیت گاڑی کے انجن کی سی اور اعمال کی حیثیت ڈبوں جیسی سمجھنی چاہیے۔گاڑی کے ڈبے اپنی حرکت ، اپنی سمتِ سفر ، اپنی رفتار اور اپنی منزل ، ہر چیز میں انجن کے تابع ہوتے ہیں۔انجن اگر ٹھہرا ہوا ہو تو وہ بھی اپنی جگہ جمے کھڑے رہیں گے،وہ سست رفتار ہو تو ان کے پہیے بھی اس سست رفتاری سے گھومیں گے۔وہ جس رخ پر چل رہا ہو،وہ بھی اسی رخ پر دوڑتے دکھائی دیں گے اور وہ جس منزل پر پہنچ رہا ہو وہ بھی اسی منزل پر جا پہنچنے کے لیے مجبور ہونگے۔
ٹھیک اسی طرح انسان کے اعمال بھی سر تا سر اس کے ذہنی تصورات کے تابع ہوتے ہیں ، وہ جس بات کا تصور اپنے ذہن میں قائم کرے گا اُسی کے عین مطابق عمل بھی اُس سے صادر ہوگا۔اس لیے کسی شخص کو اپنے مقصد میں کامیابی اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب کہ وہ اپنے ذہن میں اسکا اور اس کے حصول کا صحیح تصور بھی قائم کر چکا ہو۔ وہ شخص اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا،جس کا ذہن اس کے صحیح تصور سے خالی ہو،چاہے وہ اس کے لیے کتنی ہی جاں فشانیاں کیوں نہ دکھائے۔
کسی بھی کام کو شروع کرنے کے لیے اسکا تصور قائم کرنا نہایت ضروری ہے،وہ کام چاہے دین اور خدا پرستی جیسے اعلیٰ مقاصد سے متعلق ہوں یا دولت و شہرت جیسے معمولی مقاصد سے متعلق ہوں۔تصور ایک سانچہ ہے جس سے ہمارا مستقبل ڈھلتا ہے۔کوئی شک نہیں کہ کسی دین کی صحیح پیروی ہی نہیں ، اس سے صحیح واقفیت بھی اس کے بنیادی تصور کی صحیح معرفت کے بغیر بالکل ناممکن ہے۔اگر دین کا صحیح تصور ٹھیک طور سے ذہن نشین رہا اور انسانی عمل کی باگیں ا س کے ہاتھ میں رہیں تو نتیجے میں انسان یقینی طور پر وہی کچھ بن جائے گا جو اسکا دین اس کو بنانا چاہتا ہے۔اس تصور کی بے پناہ طاقت اسے ٹھیک اسی منزل کی طرف رواں دواں رکھے گی جو اس کی حقیقی منزل ہے۔اس تصور کے سانچے میں اس کا مستقبل ڈھلتا چلا جائے گا اور وہ ڈھل کر وہ بن جائے گا جو اس کے دین کو فی الواقع مطلوب ہے۔لیکن اگر اس تصور میں کوئی بگاڑ پیدا ہو گیا اور اس طرح اس کی قوت غلط رخ پر صرف ہونے لگی تو اسے خطرناک اور نا مطلوب نتائج پیدا کرنے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔اسی لیے کسی بھی دین کے معاملے میں بنیادی عقائد کے بعد سب سے زیادہ جس چیز کی اہمیت و ضرورت ہو وہ اس کا یہی بنیادی تصور ہے۔