• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعارُف علم قراء ات… اہم سوالات وجوابات--قسط اوّل

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
تعارُف علم قراء ات… اہم سوالات وجوابات--قسط اوّل
حافظ حمزہ مدنی
ماخذ: ماہنامہ رشد: علم قراءت نمبر: حصہ اول

نوٹ

ماہنامہ رشد علم قراءت نمبر حصہ اول کی فہرست پر جانے کےلیے یہاں کلک کریں​
زیرنظر مضمون قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ کے تلمیذ رشید، مدیر کلِّیۃ القرآن الکریم، جامعہ لاہور الاسلامیہ اور مجلس التحقیق الاسلامی کے انچارج ڈاکٹرقاری حمزہ مدنی حفظہ اللہ کی ان علمی نگارشات پر مشتمل ہے، جو متعدد نشستوں میں طلبہ وفضلاء کلِّیۃ القرآن الکریم کی طرف سے اٹھا ئے گئے سوالات و شبہات کا علمی جواب ہے۔ قاری صاحب کو جہاں اللہ تعالیٰ نے خوش الحانی کی دولت اور عالمی تعارف سے نوازا ہے، وہاں علم تجوید و قراء ات کی علمی مباحث کے ساتھ ساتھ دینی علوم کی اَساسات اُصول الدین (عقیدہ)، اُصول فقہ، اُصول حدیث اوراُصول تفسیر کے فنی مباحث کابھی اعلیٰ ذوق ودیعت فرمایاہے۔ یاد رہے کہ مضمون ہذا فضلائے قراء ات کے صرف علمی شبہات کے جوابات پر مشتمل ہے، چنانچہ اس میں عام سوالات کے بجائے صرف الجھے ہوئے فنی مسائل ہی پر بحث پیش کی جائے گی۔ [ادارہ]
سوال نمبر۱: اختلافِ قراء ات کاشرعی مقام کیا ہے اور کیا قرآن کریم میں ثبوتِ قراءات کی کوئی بنیاد موجود ہے ؟
جواب: بنیادی بات جوہرمسلمان کے پیش نظر رہنی چاہئے اور جو اسلام کا بنیادی تقاضا ہے، وہ وحی کی پابندی ہے۔جو مسلمان وحی کو نہیں مانتا وہ گویا وحی بھیجنے والی ہستی یعنی اللہ کو نہیں مانتا اور جو اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے وہ یہ بھی ضرور مانے گا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کوبلا مقصد پیدا نہیں فرمایا،بلکہ کسی مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس مقصد کے بیان کی اب دو ہی شکلیں ہوسکتی ہیں : ایک یہ کہ خالق خود آکرمخلوق کو مقصدِتخلیق بتائے، دوسرا یہ کہ وہ کسی کو نمائندہ بنا کر بھیج دے۔ہر دو صورت میں اس نے جو بات کہنی ہے وہ اس کا مطالبہ کہلائے گا۔ اللہ رب العزت اگر اپنا مطالبہ براہ راست بیان کرنے کے بجائے کسی واسطہ سے مخلوق سے کریں تو عموما وحی اس کو کہا جاتا ہے اور یہ بات متعین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بات وحی کے ذریعے سے مخلوق کو بیان کی ہے، چنانچہ عقائدِ اہل سنت میں یہ بنیادی بات ہے کہ ثابت شدہ وحی میں اگر ایک بات آجائے تومسلمان کو اس سے بہرحال انکار نہیں ہوسکتا۔

وحی کے دو ماخذ ہیں : قرآن اور سنت۔ دونوں قسموں کی وحی کی بنیاد رسول ہوتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر ایک بات ثابت ہو جائے تو کسی شے کے شرعی ہونے کے لیے یہی کافی ہے، اگرچہ وہ قرآن کریم میں بظاہر بیان نہ بھی ہوئی ہو۔اس کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ثبوتِ قراءات کا مسئلہ دونوں قسموں کی وحی سے ثابت ہے۔

قرآن مجیدمیں قراء ات کی حقیقت کے بارے میں جوبحث موجود ہے ،میرے مطابق وہ قرآن مجید کی اُن آیات میں ہے، جن میں اُمت کے ساتھ آسانی اور مشقت کے خاتمے کی بات کی گئی ہے۔ ایسی آیات کافی ساری ہیں ۔ چند آیات یوں ہیں ، فرمایا:
{ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ}[الحج:۷۸]
اور
{یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ}[البقرۃ:۱۸۵]

اور اس طرح کی دیگر آیات۔ اب دین میں ’یسر‘کے حوالے سے اورمشقت کے خاتمے کے سلسلہ میں بے شمار قسم کے احکامات موجود ہیں ، وہ سارے ’یسر‘ ہی کی تشریحات کے ذیل میں آتے ہیں ۔ اس پہلو سے دیکھیں توہمارے کاروبار میں ’یسر‘ کی رعایت کی گئی ہے، ہمارے معاملات میں ’یسر‘ کی سہولت ہے، نکاح و بیاہ کے معاملات میں ’یسر‘ کو مد نظر رکھا گیا ہے، تمام امور دین میں ’یسر‘ کی بحث موجود ہے۔ اسی طرح ہمارے دین کے اندر اگر کوئی چیز پڑھنے سے متعلق ہے اس میں بھی ’یسر‘ہے۔ دین کا کوئی ایسا عضو نہیں ہے جس میں ’یسر‘نہ ہو ۔ تلاوتِ قرآن بھی دین کا ایک حصہ ہے، لہٰذا اس میں بھی ’یسر‘ کا پہلو ملحوظ رہنا چاہئے۔ اس پہلو سے اگرچہ متن قرآن میں بظاہر قراء ات کا وجود موجود نہیں ہے، لیکن ’یسر‘ کے عمومات کے تحت لازما موجود ہے۔ اس کو آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے أقیموا الصلوٰۃ میں ’صلوۃ‘کے عموم میں صلوۃ (دعا) کے ہر قسم کے افراد داخل ہیں ۔ صلوۃ (دعا )کی ہزاروں شکلیں ہو سکتی ہیں ، آپ لیٹ کر بھی دعا کرتے ہیں ، بیٹھ کر بھی دعا کرتے ہیں ، کھڑے ہوکر بھی دعا کرتے ہیں ، اسی طرح دس منٹ کھڑے ہوکر دعا کرنا، دو منٹ کھڑے ہوکر دعا کرنا، رکوع وسجدہ میں دعا کرنا، تشہد میں دعا کرنا وغیرہ یہ سارے دعا کے ہی افراد ہیں ۔ شرعی صلوۃ کی جو بھی کیفیت ہو،وہ بھی دعا ہی ہے، چنانچہ
{أقیموا الصلوۃ} [الانعام:۷۲]
سے مراد اللہ تعالیٰ کی مخصوص قسم کی صلوۃ ہے جس کا ذکر کتب حدیث میں کتاب الصلوۃکے ضمن میں ملتا ہے۔ صلوۃ کا سنت سے کوئی ایسا معنی متعین کرناجو بظاہر قرآن کی عبارت سے سامنے نہ آرہا ہو، تو وہ معنی چونکہ قرآن ہی سے اَخذ شدہ ہوگا، کیونکہ بقول امام شافعیؒ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ قرآن مجید ہی سے اخذ کرکے بیان فرمایا ہے، چنانچہ اسے خارج از قرآن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر اللہ کے رسول
{ أقیموا الصلوۃ }[الانعام:۷۲]
کہہ کردعا کا کوئی فرد متعین کردیں ( جیساکہ پرویز اور دیگر منکرین حدیث بھی صلوۃ کا کوئی معنی اس کے عمومات میں سے متعین کرتے ہیں ) تو وہ قرآن کے خلاف نہیں ہوگا۔ اس پہلو سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ

{یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ}[البقرۃ:۱۸۵]

کہہ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر ’یسر‘ کا کوئی عملی نظام ہمیں دیاہے تو وہ قرآن مجید سے خارج نہیں ہے۔ جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی نماز { أقیموا الصلوۃ }[الانعام:۷۲] کے اندر داخل ہے، اسی طرح یسر کے ذیل میں رسول اللہ نے جو قراء تیں ذکر فرمائی ہیں وہ بھی عمومات قرآن میں ہی داخل ہیں ۔ میرے خیال میں بحث کا ارتکاز اس نکتہ پر رہنا چاہیے کہ سنت کاکوئی حکم قرآن سے باہر نہیں ہے۔ اگر سنت کا کوئی حکم قرآن سے باہر نہیں ہے تواس کامطلب یہ ہوا کہ قراء ات کے بارے میں وارد شدہ آپ کا فرمان
( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف) [صحیح البخاري:۴۹۹۲]
بھی قرآن مجید ہی میں کسی آیت کے عموم میں موجود ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق وہ {یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ}[الانعام:۷۲] کے عموم میں داخل ہے، جیسے نماز کا یہ نظام أقیموا الصلوٰۃ کے عموم میں نظر آتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مجھ سے پوچھے کہ إسبال الازار (ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانا)کی ممانعت قرآن میں کہاں وارد ہوئی ہے؟ تو میں اسے کہوں گا کہ قرآن مجید میں تکبر کی ممانعت کی گئی ہے اور اِسبال ازار بھی تکبر کی قبیل سے ہے۔ لغوی اعتبار سے تکبر کے متعددا فراد ہوسکتے تھے، اس کا ایک فرد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کردیاہے۔تو رسول اللہ کا ارشاد
(من جرَّ ثوبہ خیلاء لا ینظر اﷲ إلیہ یوم القیٰمۃ ) [صحیح البخاري:۵۳۳۸]
قرآن مجید کی تکبر والی آیات کی تشریح وتبیین کے ضمن میں وارد ہوا ہے۔ چنانچہ یہ حکم بھی قرآن کریم سے خارج نہ ہوا، بلکہ اس کے عموم میں داخل ہے۔

ان تمام باتوں سے قطع نظر اگرقراء ات صرف صحیح حدیثوں سے ثابت ہوجائیں ، تو چونکہ حدیث بھی مثل قرآن وحی ہے،چنانچہ تعدد قراء ات کے شرعی استناد کے لیے صرف یہی کافی ہے۔ (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)[صحیح البخاري:۴۹۹۲]اور اس قسم کی دیگر حدیثیں بتاتیں ہیں کہ قرآنِ مجید کی تلاوت میں متنوع اَسالیب تلاوت موجود ہیں۔ یہاں اتنا ذکر کرکے بات ختم کرتے ہیں کہ جب میں نے قراء ات کے بارے میں روایات کے حوالے سے تحقیق کی تو قراء ات کے بارے میں کمپیوٹر پر صرف ایک دفعہ کلک کرنے سے ساڑھے سات سو روایات سامنے آگئیں ۔ جس مسئلے کے بارے میں ایک سطحی جائزے میں کم از کم ساڑھے سات سو روایات سامنے آگئیں تو اس مسئلہ کے شرعی ہونے کے بارے میں دو رائے کیسے ہوسکتی ہیں ؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
سوال نمبر2: قرآن تمام زمانوں اور تمام اقوا م کے لیے ہدایت ہے، تو قراء توں میں صرف اہل عرب کی رعایت کیوں ؟
جواب: یہ بات اُصولی طور پر ٹھیک ہے کہ دین کی آسانیاں قیامت تک کے لوگوں کو سامنے رکھ کر دی گئی ہیں ، لیکن جو آسانی قراء ت(پڑھنے)سے متعلقہ ہے، وہ عربوں کے ساتھ مخصوص اس لئے ہے کیونکہ قرآن مجید کی تلاوت فارسی، اُردو یا انگریزی وغیرہ میں نہیں ہوسکتی،لہٰذا تلاوت میں اقوام عالم کے بجائے اہل عرب کی لسانی مشکلات کی رعایت رکھی گئی ہے۔

تمام اقوامِ عالم کی زبانوں کا ایک عالمی قاعدہ ہے کہ ہر ۳۰ میل بعد زبان کا لہجہ بدل جاتاہے اور اسی طرح بسا اوقات لہجہ کے ساتھ ساتھ ایک بڑی لغت میں متعدد چھوٹی چھوٹی لغات معرض وجود میں آجاتی ہیں ۔ یہ ارتقاء تقریبا ہر زبان میں موجود ہے، مثلا اُردو زبان لے لیں یاپنجابی، فارسی لے لیں یا عربی، ہر زبان میں ۳۰ میل بعد لہجہ بدل جاتاہے۔اور اس حقیقت کاکوئی آدمی انکار نہیں کرسکتا۔ ابتداء اً نزولِ قرآن لغت قریش میں ہوا تھا، دیگر زبانوں کی طرح اس وقت عربی زبان بولنے والوں کی مشکل بھی یہی تھی کہ جس طرح آج کی عربی جدید میں ہر۳۰ میل بعد عربوں کے لہجے بدلتے ہیں اُس دور میں بھی بدلتے تھے۔
الغرض عربی زبان ہی کے حوالے سے لوگوں کو یہ مشکل پیدا ہوئی تھی اور یہ مشکل تاقیامت اہل عرب کے لیے ہی باقی ہے ۔اب میرے اور آپ جیسے لوگوں کے لیے تو عربی کا کوئی بھی لہجہ ہو تو وہ ہم نے غیرفطری طور پر ہی سیکھنا ہے۔ اگر عرب شروع سے ہمزہ قطعی میں تسہیل کرتے ہوتے،تو ہم بھی تسہیل سیکھ لیتے،اور اگر وہ شروع میں امالہ صغری کرتے توہم بھی امالہ ہی سیکھتے، چنانچہ ہمارے لیے توکوئی لہجہ بھی مشکل یا آسان نہیں ہے، بلکہ تمام لہجے برابر ہیں ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
سوال نمبر3: شریعت میں آسانی جب بھی دی گئی ہے تو اشیاء میں کمی کرکے دی گئی ہے، جبکہ قراء توں کے باب میں اضافہ کرکے آسانی کیسے ہوسکتی ہے۔ اس سے تو بظاہر مزید مشکل پیداہوئی ہے؟
جواب: اس کی دلیل کیاہے کہ آسانی کسی چیز میں کمی کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ دین میں جن مسائل میں آسانی کمی کرکے دی گئی ہے وہاں آسانی اسی طرح سے ہوسکتی تھی، مثلا مسافر کے لیے نماز کو قصر کردیا، لیکن جہاں کمی کرنے سے مشکل پیداہوتی تھی وہاں آسانی زیادتی کرکے پیدا کی گئی ہے، مثلا قرآن مختصر تھا اس کی توضیح کی ضرورت تھی تو آسانی کی خاطر اس کا تفصیلی بیان بھی وحی کی صورت میں بصورت سنت مزید اُتار دیا گیا،حالانکہ آسانی تو یہ تھی کہ قرآن کو اس سے بھی مختصر کر دیا جاتا۔ علم بلاغت میں بحث ہے کہ کلام میں اختصار اور تفصیل مخاطب کے لحاظ سے کی جاتی ہے، بسا اَوقات مختصر کلام بلیغ ہوتا ہے اور بسا اَوقات تفصیل کے ساتھ بیان بلیغ ہوتا ہے۔

اہل عرب کا مسئلہ یہ تھا کہ ان کے لیے ایک ہی لہجہ میں پڑھنا مشکل تھا اور ان کی آسانی یہ تھی کہ وہ مزید اجازت چاہتے تھے کہ دیگر لہجوں میں پڑھنے کی گنجائش دی جائے، چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں کرکر کے ان لہجوں کی اجازت طلب فرمائی تو قرآن کریم سات لغات میں اتر آیا۔ آسانی کے سلسلہ میں کمی وزیادتی کا تعین نوعیت معاملہ کو دیکھ کر ہوگا کہ جہاں آسانی زیادتی کرنے میں ہو وہاں آسانی زیادتی کرکے دی جائے گی اور جہاں آسانی کمی کرنے میں ہو وہاں کم کرکے دی جائے گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو ایک سے زائد حرفوں پر پڑھنے کی اجازت مانگ رہے ہیں ، جیساکہ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا:

’’إن أمتی لا تطیق ذلک‘‘ [صحیح مسلم:۸۲۱]
’’میری اُمت ایک حرف پر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔‘‘

بعض لوگ کہتے ہیں کہ قراء ات نازل نہ ہوتیں تو آسانی رہنی تھی۔اصل میں مغالطہ اس لیے پیداہوا ہے کہ ہم نے عرب اور غیر عرب کو سامنے رکھاہوا ہے۔ غیر عرب کے لیے تو ایک ہی حرف کافی تھا۔یہاں اصل میں بات اہل عرب کی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس پہلو سے عرب کو اہمیت دی گئی ہے کہ قرآن ان کی زبان میں اترا ہے۔ اب جو عربی سے متعلقہ پیچیدگیاں ہیں ان میں تو اہل عرب کی رعایت ہے، ہماری کوئی رعایت نہیں ۔ اوربسا اوقات ایساہوتا ہے کہ بعض خاص افراد کے اعتبار سے خاص لحاظ رکھ لیے جاتے ہیں ،اوران کو سہولت دے دی جاتی ہے، مثلاجب بیماروں کی بات آئے گی تو اس وقت بیماروں کے طبقے کو سہولت دی جائے گی، یہ تو نہیں کہ ہر ایک مکلف کو سہولت مل جائے، جو بیمار ہوگا اسے ہی سہولت ملے گی۔

اگر آپ یہ کہیں کہ آسانی ایسی ہونی چاہئے جو جمیع طبقات کو شامل ہو تو کچھ آسانیاں ایسی بھی ہیں جو جمیع طبقات کو شامل ہیں ۔جبکہ کچھ آسانیاں ایسی ہیں جو جمیع طبقات کے بجائے مختلف طبقات کی مشکلات کے لحاظ سے منقسم ہیں ۔ المختصر اہل عرب کے لیے آسانی اسی میں ہے کہ ان کو متعدد ومتنوع لہجوں میں پڑھنے کی اجازت دی جائے اور ہمارے لیے یہ گنجائش ہے کہ ہم کوئی ایک حرف پڑھ لیا کریں ، ہمیں کون سا پابند کیا گیا ہے کہ ہم ساری ہی قراء ات پڑھیں ۔ اگر آپ ایک حرف ولہجہ بھی پڑھ لیں تو ’’کلھن شافٍ کافٍ‘‘[سنن النسائي:۹۴۱]کے بمصداق تلاوت قرآن مجیدکا حق ادا ہوگیا اور قرآن مجید کا اجر پورا مل گیا ، نیز تلاوت کا مقصد بھی پورا ہوگیا۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
سوال نمبر4: قراء ات سات نازل ہوئیں ، جبکہ قراء کرام کے مطابق دس یا سترہ قراء ات کیسے بن گئیں ؟
جواب: قراء ات سات نازل ہوئیں ، اصطلاحِ قراء کی رو سے یہ جملہ صحیح نہیں ہے،کیونکہ اصطلاح قراء میں قراء ات اپنی لغوی معنی میں مستعمل نہیں ۔یہ بڑا اہم نقطہ ہے اس پر غور کرنا چاہیے۔ جیسے لغت میں فقہ کا مطلب ہے گہری سمجھ بوجھ، لیکن اصطلاحِ فقہاء میں صرف گہری سمجھ بوجھ کوفقہ نہیں کہتے،بلکہ عمل سے متعلقہ احکامات شرعیہ کی گہری سمجھ بوجھ کو فقہ کہتے ہیں ۔ اگر قراءت اور قرآن کافرق سمجھ لیا جائے تو سوال اورپیش کردہ اشکال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ اصل سوال یہ ہے کہ قراء ات اور قرآن میں کیا فرق ہے؟
قراء کے ہاں قراء ات اور قرآن میں وہی فرق ہے جو محدثین کے ہاں حدیث اور سنت میں ہے۔ محدثین کے ہاں سنت کہتے ہیں قرآن کے علاوہ منزل من اللہ وحی کو، جوکہ امت کو آپ سے اقوال، اعمال اور تقریرات کی صورت میں ملی ہے، جبکہ حدیث سنت کی خبر کو کہتے ہیں ، جو صحابہ بیان کرتے ہیں ۔ اسی لیے محدثین نے حدیث کی تعریف یوں کی ہے:
ہو ما أضیف إلی رسول اﷲ
’’حدیث وہ شے ہے جو رسول اللہ کی طرف منسوب کی جائے۔‘‘

اس سنت کو بطورِ خبر بیان کرنے والا صحابی ہوتا ہے اورجس چیز کو وہ آگے بیان کرے گا وہ سنت ہوگی۔ ایک مثال سے بات کھولتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(إنما الأعمال بالنیات)[بخاری:۱]

جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اِرشاد فرمایا اس وقت یہ قولی سنت تھی، لیکن جب صحابہ ؓ نے اس کو آگے بیان کیا اس وقت یہ حدیث بن گئی۔ صحابہ کرام جس بات کو بیان کرتے ہیں ،اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ چیزجس کوبیان کیاجارہاہے دو علیحدہ چیزیں نہیں ہوتیں ۔ اس اعتبار سے محدثین کے ہاں سنت اور حدیث دونوں مترادف ہیں یعنی قریب المعنی ہیں ۔ اسی طرح قرآن و قراء ات میں فرق ہے ۔ قرآن کہتے ہیں ان الفاظ وحی کو جو منزل من اللہ ہے اور قراء ات اسی قرآن کی خبر کو کہتے ہیں ، جب اس کو آگے روایت کیا جاتاہے۔

اب (إنما الاعمال بالنییات) [بخاری:۱]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک قولی سنت ہے، لیکن اس کی مرویات زیادہ ہوسکتی ہیں ۔بعض محدثین نے اس سنت کی روایات ۷۰۰ تک نقل کی ہیں ۔ اسی لیے محدثین جب کہتے ہیں کہ مجھے ایک لاکھ صحیح اور دو لاکھ ضعیف حدیثیں یاد ہیں تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات یاافعال یا تقریرات سے متعلقہ مجھے اتنی نصوص یاد ہیں ، کیونکہ محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ نفس سنن یہ ۳۵ ،۴۰ ہزارسے زیادہ نہیں ہیں ، توپھر یہ لاکھوں حدیثیں کیسے بن گئیں ؟ در اصل یہ روایات کی زیادتی ہوئی ہے۔ اور یاد رہے کہ روایات کے زیادہ ہونے سے ثبوتِ روایت میں قوت زیادہ آتی ہے۔جتنی روایتیں اور سندیں زیادہ ہوں گی اتنی ہی روایت میں قطعیت پیدا ہوگی۔ حتی کہ اس ضمن میں اگر دو لاکھ ضعیف روایتیں بھی ہوں تو بھی متابعات اور شواہد میں کام دے جاتی ہیں ، چنانچہ قوت بڑھانے میں ان کا بھی کردار ہوتا ہے۔منکرین حدیث کی یہ بات فنِ حدیث سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری کا انتخاب تین لاکھ حدیثوں سے ہوا، اگر ان میں سے ایک لاکھ صحیح احادیث بھی شمار کریں ،تو ساڑھے سات ہزارکا انتخاب یہ بتاتا ہے (جوکہ بارہواں یاتیرھواں حصہ بنتا ہے ) کہ حدیث میں ۱۲ ،۱۳ حصے ظن کا امکان ہوتا ہے اور صرف ایک حصہ امکان صحت کا ہوتا ہے۔ تو ہم جواب میں کہا کرتے ہیں کہ انہیں اتنا بھی نہیں علم کہ روایت اور سنت میں کیافرق ہے؟

اسی طرح جو قرآن مجید آسمانوں سے اترا ہے وہ صرف سات لہجات میں اترا ہے۔جیساکہ آپ کا ارشاد گرامی ہے:
(أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف) [بخاری:۴۹۹۲]

ان سات اسالیب کو آگے نقل کیا گیا تو آگے نقل کرنیوالے اگر ایک لاکھ تھے تو اب ایک لاکھ قراء تیں بنیں گی۔ واضح رہے کہ روایات کی اتنی کثرت دیکھ کر گھبرانے کے بجائے مطمئن ہونے کی ضرورت ہے، کیونکہ تواتر کے لیے روایات کی اتنی کثرت کم ازکم ضرور ہونی چاہئے، کیونکہ متواتر وہی ہوتا ہے، جسے عدد کثیر نقل کرے۔ المختصر اصطلاح قراء میں قراء ات،روایت قرآن کوکہتے ہیں ، جیسے حدیث روایت سنت کو کہتے ہیں ، چنانچہ آپ اگر قراء ات کی جگہ اخبار لگا دیں تب بھی لفظ صحیح ہے اور اگر قراء ات کی جگہ روایات لگا دیں تب بھی لفظ صحیح ہے۔ ہم عام طور پر بولتے ہیں کہ قراء ات متواترہ ، اور خبر کی دو قسمیں ہیں : خبر متواتر اور خبرآحاد۔ تو اسی طرح قراء ات کی بھی دو قسمیں ہیں : قراء ات آحادہ اور قراء ات متواترہ۔ اسی طرح شذوذ اور عدم شذوذ یہ سب خبر کی بحثیں ہیں اورقراء ات بھی تو خبر ہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قراء کے ہاں رائج ایک اور استعمال کے مطابق اگر وہ روایت امام کی ہو تو اس کو قراء ات کہتے ہیں اور اگر وہی روایت امام کے شاگرد کی ہو تو اس کو روایت کہتے ہیں اور اگر امام کے شاگرد کے شاگرد کی ہو تو اس کو طریق کہتے ہیں ۔ اب طریق ہو یا روایت ہو یا قراء ات ہو تو تینوں میں خبر کا معنی موجود ہے، چنانچہ ہم معنی لفظ ہیں ۔ اسی وجہ سے روایت حفص کو بسااوقات قراء ات حفص بھی کہہ دیتے ہیں اور امام نافع کی بات، اگرچہ قراء ات نافع ہے، لیکن اس کے باوجودوہ روایتِ نافع ہے۔اس پہلو سے قراء ات سات نازل ہوئی ہیں اور روائتیں کرنے والے ہزاروں تھے۔ ان ہزاروں میں سے جو معروف لوگ ہوئے ہیں تووہ دس ہیں یا دس کے آگے ان کے شاگردوں میں بیس ہیں اور پھران بیس کے آگے ان کے ۸۰ شاگرد ہیں ۔ اب آپ ان کو۸۰ قراء اتیں کہہ لیں تو سبعہ احرف سے ان کا تضاد نہیں ہوگا، کیونکہ روایت اور مروی میں اس قسم کا فرق فطری ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
سوال نمبر5: قرآن مجید میں سبعہ احرف کا اختلاف آپ کے بقول روایات میں موجود ہے، سوال یہ ہے کہ یہ اختلاف روایات میں کہاں موجود ہے؟
جواب: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے:
(أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)[بخاری:۴۹۹۲]
مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم سات حروف پر اترا ہے اور ان میں سے کوئی ایک پڑھ لیں یا ساروں کو ملا کر پڑھ لیں سب طریقے کافی شافی ہیں ، کیونکہ مقصد آسانی ہے ۔ اسی لیے اس روایت کے بعض طرق میں مزید یوں ہے کہ: ’’فاقرء وا ماتیسر‘‘ کہ آپ کو جو آسان لگے پڑھ لیں ، کیونکہ مقصد تیسیر ہے۔ اب تیسیر کا تقاضا یہ ہے کہ جس کو جو آسان لگتا ہے وہ پڑھ لے۔ اگریوں کہاجاتا ہے کہ بندے کو صرف اتنی گنجائش ہے کہ سات میں سے وہ کسی ایک کو پڑھ لے تو یہ تیسیر کا کامل مفہوم نہ ہوتا، کمالِ تیسیر یہ ہے کہ پڑھنے والے کو ساتوں حروف میں سے ہر طرح سے پڑھنے کی اجازت دی جائے، برابر ہے کہ ساتوں میں سے کوئی ایک پڑھے یا ساتوں ہی میں سے کچھ یہاں سے اور کچھ وہاں سے اختیار کرکے پڑھے۔ فاقرء وا ما تیسر کے متعلق ہماری رائے یہی ہے کہ تیسیر کامطلب یہ ہے کہ وہ ساتوں میں سے جو آسان سمجھتا ہے پڑھ لے یعنی ایک حرف یہاں سے آسان سمجھتا ہے یہاں سے پڑھ لے،دوسرا وہاں سے، تیسرا وہاں سے پڑھ لے۔ اس طرح قاری قرآن ایک نشست میں اس شکل پر اگرآدھا پارہ پڑھ لے تو قاری کی تلاوت تمام سبعہ احرف سے اپنے اختیار کردہ ایک نئی ترتیب پر مشتمل ہوگی۔اس طرح مختلف حروف کو ملا جلاکر ایک نیا ترتیب تلاوت بنا لیا جائے تو بھی کوئی حرج کی بات نہیں ، کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فاقـرء وا ما تیسَّر‘‘[مؤطا:۴۶۷]۔ یہ بات صرف ہماری تشریح نہیں بلکہ باقاعدہ روایات میں اس کی وضاحت بھی آئی ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کی الجامع الصحیح میں ہشام ابن حکیم بن حزام والی روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ
’’یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف کثیرۃ‘‘[بخاری:۴۹۹۲]
’’یعنی ہشام بن حکیم کے پڑھنے کے اسلوب میں سبعہ احرف کے کافی سارے حروف شامل تھے۔‘‘
اس بات کی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ صحابہ اور تابعین نے تلاوتِ قرآن میں ان سات حروف کو آپس میں ملا جلا کر پڑھا۔اس ملانے جلانے سے مختلف افراد نے اپنے مختلف انداز تلاوت اختیار کرلیے۔ اب اگر آپ اس طرح کرکے اپنے اپنے ذوق کے موافق پڑھنا شروع کریں توکتنے ہی سیٹ بن سکتے ہیں ۔اسی طرح بے شمار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سینکڑوں ، ہزاروں ، بلکہ لاکھوں اندازوں میں سبعہ اَحرف کی تلاوت کی۔الغرض اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ سبعہ احرف میں یہ اختلاط ہواہے۔

معروف بات ہے کہ جب لوگوں کی ہمتیں کم ہو جاتی ہیں اور ممتاز لوگ تھوڑے ہو جاتے ہیں تو کم علم لوگ اساتذہ، اہل علم اور آئمہ پراعتماد کرکے ان کی طرف علوم کی نسبت کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ مثلا آج ہم قراء ات میں نسبت کرتے ہیں تو اپنے مشائخ قاری محمد ابراہیم میر محمدی، قاری ادریس العاصم اور قاری احمد میاں تھانوی کی طرف نسبت کرتے ہیں ۔ یہ نسبت اس لیے کرتے ہیں کہ ہم ان کو جلیل القدر سمجھتے ہیں ، تو اسی طرح قراء ات سمیت تمام علوم وفنون میں لوگوں کی ہمتیں جب کم ہوگئیں تو نئے اسالیب تلاوت کی روایت کاخاتمہ ہوگیا۔یہ تبع تابعین اور ان کے اتباع کے دور کی بات ہے۔ لوگوں نے عموما اس کے بعد جرأت ہی نہیں کی کہ تلاوت قرآن میں نئے ترتیباتِ تلاوت تشکیل دیتے۔نہ کوئی اپنے آپ کو اس قدر فائق سمجھتا تھا کہ ان آئمہ کے اندازوں کی طرح ایک نیا انداز بناتا، بلکہ ان کے اندازوں پر ہی تلاوت کرنے کو سعادت کا باعث سمجھا گیا۔ بعض اہل معرفت نے اگرچہ نئے انداز اختیار کیے بھی، لیکن امت میں آئمہ عشرہ کے علاوہ ان اہل علم کے اختیارات کو پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ اکثر کو تو محفوظ نہیں کیا گیا اور جو محفوظ کیے گئے وہ قبولیتِ عامہ حاصل نہیں کرسکے۔ تیرہ صدیوں سے اُمت کے علماء وعوام اب آئمہ عشرہ اور ان کے بیس رواۃ کی قراء ات پر بالاتفاق عمل کرتے چلے آرہے ہیں ۔جب لوگوں میں اس قسم کا زمانہ آجاتا ہے تو معروف بات ہے کہ مکاتب فکر اور مدارس فکر وجود میں آجاتے ہیں ، مثلا کوفہ میں فقہ کا مدرسہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے۔ مدرسہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بلڈنگ بنائی ہوئی ہے، بلکہ مطلب یہ ہوتاہے کہ ایک شخصیت کے گرد اکٹھ ہوا اور پھر وہی مرکز بن گیا۔ اس طرح سے قراء ات میں بھی مدارس فکر وجود میں آگئے، اُس وقت جو شخصیات اس سلسلہ میں نمایاں تھیں وہ دس تھیں ۔ بعد میں لوگوں نے ان کے ساتھ ہی التزام کرلیا۔پھر لوگوں نے انہیں کے طے شدہ اندازوں کو اختیارکرلیاجو اب اُمت میں آپ کے سامنے موجودہیں ۔

یہاں دس ائمہ ہیں ، ان کے بھی اختیارات مختلف تھے اور ان کے شاگردوں نے بھی اختیارات میں فرق کیا تھا،لہٰذا شاگردوں میں دو، دو اختیار بن گئے یا اماموں نے دو دو طرح پڑھایا۔ اس کے بعد شاگردوں نے آگے پڑھایا تو چار چار شاگردوں کے اختیارات نیچے بن گئے یا معاملہ یوں تھا کہ اماموں نے آٹھ آٹھ اندازوں سے پڑھایا تھا۔خلاصہ یہ ہے کہ یہ دس آئمہ، ان کے بیس تلامذہ اور پھر ان کے اسی شاگردوں کے اعتبار سے ۱۰سیٹ (قراء ات)، ۲۰ سیٹ (روایات) اور ۸۰ سیٹ ( طرق)، جو قراء ات عشرہ صغری وکبری کے نام سے موسوم ہیں وجود میں آگئے۔ بعض اَزاں بعض آئمہ نے انہی قراء ات کے بیان میں کتب لکھی، جن کی وجہ سے بعض نئی تقسیمات رو نما ہوئیں ۔ مثلا امام دانی رحمہ اللہ اور امام شاطبی رحمہ اللہ نے مذکورہ شخصیات میں سے سات آئمہ اور ان کے چودہ تلامذہ اور پھر ان کے ۴، ۴ شاگردوں میں سے ایک ایک شاگرد لے کر اپنی کتب تصنیف فرمائیں ، چنانچہ التیسیر للدانی اور الشاطبیۃ میں سات قراء کی سات متواتر قراء تیں ، چودہ روایات اور چودہ طرق موجود ہیں ۔ بعد ازاں باقی تین بڑے آئمہ اور چھ رواۃ کی تکمیل دانی وشاطبی کے ہی اسلوب پر کرتے ہوئے حافظ ابن جزری نے التحبیراور الدرۃ تصنیف فرمائی، جس میں قراء ثلاثہ، ان کے چھ رواۃ اور پھر تیسیروشاطبیۃ کی طرز پر ایک ایک شاگرد لیا گیا۔ اس انداز سے کتب تصنیف پانے سے ایک نیا رنگ پیدا ہوا۔ وہ یہ کہ شاطبیہ اور درّہ وغیرہ میں موجود اختلافات چونکہ تمام معروف اَئمہ اور ان کے تلامذہ کی مرویات پر مشتمل ہیں اس لیے عشرہ قراء ات تو پوری ہوگئیں ، لیکن چونکہ ۸۰ طرق میں سے تقریبا ۶۰ باقی تھے اس لیے انہیں عشرہ صغری کہا گیا۔بعدازاں امام جزری وغیرہ نے عشرہ قراء اور بیس رواۃ کے ۲۰ سمیت باقی ماندہ۶۰روایات پر مشتمل کتب لکھیں ۔ان کتب میں بیان کردہ قراء ات عشرہ کو پہلی کتب میں بیان کردہ قراء ات عشرہ کے بالمقابل عشرہ کبریٰ کہتے ہیں ۔

المختصر یہ ۱۰، ۲۰ یا ۸۰ تمام قراء ات’’ سبعہ احرف ‘‘ سے ماخوذ ہیں یا منزل من اللہ سات اَسالیب تلاوت (سبعہ احرف)خلط ملط ہوکر منتشر انداز میں ۸۰ سیٹوں کی صورت میں موجود ہیں ، لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ سیٹ سبعہ احرف کے منافی نہیں ہیں ، ان اسی اندازوں میں جو بھی چیز لی گئی ہے وہ سبعہ احرف سے لی گئی ہے، البتہ جو سیٹ بنے ہیں وہ نئے بنے ہیں ۔شایدہی کسی سیٹ کے بارے میں دعویٰ کیا جاسکے کہ کسی ایک سیٹ میں سبعہ احرف میں سے ایک حرف پورا لیا گیا ہو۔خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ قراء ا ت میں تمام سبعہ اَحرف خلط ملط صورت میں موجود ہیں ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
سوال نمبر6: کیا یہ دینی رخصت صرف خیر القرون کے ساتھ خاص ہے یا مابعد لوگوں کے لیے بھی اس کی گنجائش ہے؟
جواب : قرآن وسنت کے احکام و تسہیلات قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہیں اور کسی دینی معاملہ کو بغیر دینی خصوصیت کے کسی بھی زمانہ یا شخصیت کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا۔یہ بات ٹھیک ہے کہ اس مشقت کے حوالے سے آسانی کی وجہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بنے،لیکن اب وہ آسانی صرف صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے نہیں ہے بلکہ قیامت تک کے تما م لوگوں کے لیے ہے۔ دینی مسائل میں سہولت دینے کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ بسا اوقات بیمار ایک بندہ ہوتا ہے، وہ اپنا مسئلہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آتا ہے۔ اس کی وجہ سے دین کاایک حکم آجاتاہے اور اب وہ حکم اس بیمارکے علاوہ قیامت تک کے تمام بیماروں کے لیے ہوتا ہے۔اسی پہلو کی طرف علمائے اصول نے اس ضابطے کے ساتھ اشارہ کیا ہے کہ العبرۃ لعموم اللفظ لا بخصوص السبب اسی طرح قراء توں کے نزول کی وجہ اہل عرب بنے ہیں ، ان کی زبان کی پیچیدگیاں تھیں ، لیکن اب قراء ات کے نزول کے بعدیہ رخصت قیامت تک کے لوگوں کے لیے باقی ہے۔ اس پہلو سے اگردیکھا جائے تو ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کا سورۃ الفرقان کو ’حروفِ کثیرہ‘کے ساتھ پڑھنا ہو یا فاقرء وا ماتیسَّرکی روشنی میں صحابہ اور تابعین کا مختلف حروفِ سبعہ کو باہم خلط کرکے پڑھنا، جس طرح متقدمین کے لیے اس کی گنجائش تھی اسی طرح متاخرین کے لیے یہ گنجائش بھی تا قیامت موجود ہے۔ علمائے اُصول کا قاعدہ ہے کہ عذر الماضین حُجَّۃ للباقین ۔اس مسئلہ پرحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں بڑی نفیس بحث فرمائی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اہل قراء ات کے حوالے سے دو ٹوک فرماتے ہیں کہ اہل قراء ات نے خواہ مخواہ ہی ایک بحث کو پیدا کردیا ہے کہ خلط جائز ہے یا ناجائز؟ حلال وحرام قراء کا میدان بحث نہیں ، بلکہ فقہاء کا موضوع ہے، چنانچہ قراء کو اس مسئلہ میں حساسیت کی زیادہ ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ فقہاء کی رائے میں اختلاط قراء ات بالکل جائز ہے اور اس کے ناجائز ہونے کی کوئی بنیاد نہیں ہے،کیونکہ جس بنیاد پر صحابہ کے لیے اختلاط جائز تھا، مابعد والوں کے لیے بھی اسی بنیاد پر یہ جائز ہے۔
اب مسئلہ تو یوں ہی ہے لیکن اس میں کچھ باتیں ملحوظ خاطر رکھ لی جائیں :

پہلی بات یہ ہے کہ خلط کی اجازت ان قراء ات میں ہیں ، جہاں اختلاط سے عبارت کی غلطی اور معنوی خرابی لازم نہیں آتی۔ اس قسم کے اختلاط کی حرمت پر تمام علماء متفق ہیں ۔ مثلا فتلقی ٰادم من ربہ کلمات[البقرہ:۳۷] میں ایک قرا ء ت میں آدم فاعل، دوسری میں مفعول ہے اور کلمات اسی ترتیب سے ایک قراء ات میں فاعل، دوسری میں مفعول ہے۔ اب دونوں کو فاعل یا دونوں کو مفعول بنا دینا ناجائز ہے۔

دوسری بات یہ کہ اگر آپ نے کسی روایت کا التزام کیا ہے کہ میں اس روایت کے ساتھ پڑھوں گا تو آپ کوخلط نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ ورشؒ یا حفصؒ کا نام لے کر دیگر روایات کو پڑھنا غلط ہوگا۔ اس کو اہل فن کے ہاں کذب في الروایۃ کہتے ہیں اور یہ چیز بشمول حدیث کے ہر فن میں ناجائز ہے۔ اہل قراء ات میں سے بھی جن حضرات نے یہ فرمایا ہے کہ خلط علی سبیل الروایہ ناجائز ہے تو وہ ایسی صورت ہی کے بارے میں ہے کہ جب آپ نے کسی روایت کا التزام کیا ہو۔ مثلا اگر آپ کہیں کہ میں سنن ابوداؤد کی روایت بیان کرنے لگا ہوں اور بیان آپ بخاری کی روایت کر دیں یا کئی مجموعہ ہائے احادیث میں ایک واقعہ سے متعلق متفرق احادیث کو جمع کرکے بیان کردیں ۔ اب ایسی روایت اللہ کے رسول کا ارشاد تو ہوگا، لیکن اسے امام ابو داؤد رحمہ اللہ کی نسبت سے بیان کرنا غلط ہوگا۔ عین اسی طرح اگر آپ نے کہا کہ میں امام قالون رحمہ اللہ کی روایت سے ابونشیط رحمہ اللہ کا طریق پڑھوں گا تو آپ کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ آپ اس کے اندر کوئی دوسرا طریق داخل کریں ۔

اس بات کو ایک اور مثال سے یوں سمجھیں کہ امام شاطبی رحمہ اللہ اور امام جزری رحمہ اللہ دونوں نے اَئمہ سبعہ اور ان کے چودہ تلامذہ کی مرویات اپنی کتب میں بیان کی ہیں ، لیکن ان کی روایت میں فرق یہ ہے کہ جن طرق کا التزام امام شاطبی رحمہ اللہ نے کیا ہے، امام جزری رحمہ اللہ نے اس کے علاوہ بھی بعض طرق کا التزام کیا ہے۔ اب اگر آپ نے کہا کہ میں طریق شاطبی سے پڑھوں گا توطریق شاطبی میں طریق جزری کا اختلاط جائز نہیں ہوگا، البتہ طریق جزری کے التزام کے صورت میں طریق شاطبی کو اس میں خلط کرکے پڑھ سکتے ہیں ، کیونکہ طریق شاطبی خود طریق جزری کا ایک حصہ ہے۔ واضح ہوا کہ جب آپ نے کہا کہ میں روایت ورش پڑھوں گا تو روایت کے ورش کے نیچے جو طرق ہیں ان کو آپ خلط ملط کرسکتے ہیں کیونکہ آپ نے ان کی پابندی کا دعوی نہیں کیا۔

3۔ قراء ات اور حدیث کا دارومدار استاد سے پڑھنے پر ہے اور حدثنا، أخبرنا کتابوں سے نہیں ہوتا۔ ہمارا دین حدثنا،أخبرناکے بغیر مقبول نہیں اور حدثنا،أخبرنا صرف استاد سے ہوتا ہے۔ قرآن کی طرح حدیث کے بارے میں بھی یہی بات ہے۔ اسی لیے محدثین کرام کا مشہور مقولہ ہے: لا تأخذوا الحدیث عن الصُّحفِیِّ ولا تاخذوا المصحف عن المُصْحَفِیِّ یعنی مصحف مصحفی سے نہ لو یعنی جو مصحف سے پڑھ کرقاری بنا بیٹھا ہو اور حدیث اس سے نہ لو جس نے صحیفوں سے پڑھ کر اخذ کر لی ہو۔ ایسے آدمی کا علم اس لیے مقبول نہیں ، کیونکہ اس کاعلم محدثین کے ہاں منقطع السند ہے۔

قراء ات اور قرآن کے اندر ایک خاص چیز جو حدیث سے زیادہ ہے وہ یہ ہے کہ قراء ات کی ادا بالاولیٰ بدون استاد مصحف سے اخذ نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لیے تلقِّی بڑی ضروری ہے۔ الغرض خلط قراء ات کے ضمن میں دوسری ضروری بات یہ ہے کہ خلط قراء ات عالم کے لیے جائز ہے، جاہل کے لیے نہیں ۔ جاہل کے لیے اس وجہ سے ناجائز نہیں کہ وہ خلط کررہا ہے بلکہ اس لیے کہ اس نے پڑھا ہی نہیں ۔

ان باتوں کے ساتھ خلط کے خواہشمند حضرات کے سامنے یہ حقیقت بھی رہنی چاہیے کہ قدیم وجدید علماء کے اختلاط قراء ات کو جائز کہنے کے باوجود عملاً تمام لوگوں کے ہاں نیا اختیاربنانے کا حوصلہ افزا رویہ نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہمتیں کم ہوگئی اور لوگوں نے علوم کی نسبت آئمہ کی طرف کردی تو بڑوں کے ہی اسالیب تلاوت پر اکتفا کرلیا گیا۔ نیا اختیار بنانے کی ان کو نہ ضرورت پیش آئی اور نہ انہوں بالعموم اس کی حوصلہ افزائی کی بلکہ اسے ایک طرح کی جرأت سمجھا۔ مسئلہ کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ فقہ میں آئمہ اربعہ سے نسبت کے بعد روایتی فکر میں تقلید کی پابندی اور نئے اجتہادات کو انتہائی قبیح سمجھا جاتا ہے۔بڑے بڑے اصحاب علم تقلید آئمہ ہی پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں ۔ بہت تھوڑے لوگ ہیں جو فقہ کی نسبت آئمہ کی طرف کر دینے کے باوجودنئے ادوار اور نئی ضروریات کے تحت نئے اجتہادات فرماتے ہیں ، لیکن آئمہ کے ساتھ تمسک کے سلسلہ میں احتیاط ان کے ہاں بھی ہے۔ اب اپنے اسلاف سے ایسی وابستگی کے حاملین قراء ات کے اندر نیا اختیار بنانے کی حوصلہ افزائی بالعموم کس طرح کریں گے؟ خلاصہ یہ ہے کہ شرعاً خلط قراء ات میں کوئی قباحت نہیں ہے اوراس میں کوئی گناہ والی بات بھی نہیں ہے، اس کے باوجود بارہ صدیوں سے عملاًایسا کیا نہیں جارہا، کیونکہ جس کے سامنے اکابرین کی بات کی کوئی عظمت ہوتی ہے، وہ عام طور پر بڑوں کے ساتھ التزام کرلینے میں زیادہ خیر سمجھتے ہیں ۔ قرآن مجید کے حوالے سے نئے اختیارات اور سیٹ متعین کرنا کرنا پر اعتماد آدمی کا کام ہے، لیکن اپنے اسلاف کے بالمقابل ایسااعتماد بڑے بڑے اساتذہ نہیں رکھتے۔اس کی وجہ علم میں پختگی اور اہل علم کی عقیدت ہے ، لیکن چونکہ جاہل میں یہ اعتماد زیادہ ہوتا ہے، اس لیے بالعموم ایسے مسائل کی حساسیت ان میں زیادہ ہے ۔

سوال نمبر7: قرآن اور قراء ت میں کیا مناسبت ہے اور کیا یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یا دو مختلف چیزیں ہیں ؟
جواب :لغوی اعتبار سے قرآن اور قراء ت میں کوئی فرق نہیں ہے،کیونکہ قرأ یقرأ کا مصدر قرآنا بھی آتا ہے اور قراء ۃً بھی۔ اسی لیے اہل عقیدہ نے مسئلہ ’خلق قرآن‘کے ضمن میں واضح کیا ہے کہ قرآن کا لفظ بول کر بسا اوقات قراء تِ قرآن مراد ہوتی ہے اور بسااوقات نفس قرآن مراد ہوتا ہے۔ قرآن بول کر مراد تلاوت قرآن کی مثالوں میں امام ابن ابی العز حنفیؒ نے شرح عقیدہ طحاویہ میں قرآن مجید سے آیت:
{اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ إنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا}[الاسرائ:۷۸] اور احادیث میں وارد آپ کے ارشاد: ( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)[بخاری:۴۹۹۲] کو ذکر کیا ہے۔

اس پہلو سے قرآن اور قراء ت میں کوئی فرق نہیں ہے، لیکن جب فنون تدوین پاجاتے ہیں تو بعد میں لفظ اپنے لغوی معنی کے بجائے اصطلاحی معنوں میں رواج پذیرہوتے ہیں ۔اسی طرح قراء ات کا لفظ بعد از تدوین فن بعض مخصوص معانی میں بولا جانے لگا۔ اس ضمن میں متاخرین کے ہاں قراء ات کی تین تعریفیں بیان کی جاتی ہیں :

1۔ بعض اہل فن علم قراء ت کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ قرآن کے اختلافی کلمات کا وہ اختلاف،جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے منقول ہو اور عقل و رائے کا اس میں دخل نہ ہو تو ایسا علم، جس میں ان مختلف فیھا کلمات کے بارے میں بحث کی جائے، کو قرء ات کا علم کہا جاتاہے۔

اس تعریف کی رو سے قراء ات سے مراد قرآنِ کریم کے تمام کلمات کے بجائے صرف وہ مختلف فیہ کلمات مراد ہیں ، جن میں ایک سے زیادہ پڑھنے کے اسالیب وانداز ہیں ۔ چنانچہ اس تعریف کی رو سے الحمدُ ﷲ ربِّ العالمین،الرحمن الرحیم [الفاتحہ:۱،۲] کا تعلق قرآن کریم سے تو ہے، لیکن علم القراء ات سے نہیں ، لیکن مٰلک کا تعلق قرآن کے ساتھ ساتھ قراء ا ت سے بھی ہوگا۔ اس تعریف کی رو سے ہر قراء ت کے ہر کلمہ کا تعلق قرآن سے ضرور ہے، لیکن ہر کلمہ ٔ قرآنی کا تعلق علم القراء ات سے نہیں ۔ علم القراء ت کی وہ کتابیں ، جن میں قراء ات کے متعلق بحث کی گئی ہے، ان میں قراء ات کی یہی تعریف زیر بحث ہے۔ مثلاً قراء ت کی مشہور کتب شاطبیہ، درہ ، طیبہ یا التیسیر وغیرہ ہیں اور ان کتابوں کے اندر وہ چیزیں ، جن میں قراء عشرہ کے مابین اختلاف نہیں ہے، زیر بحث نہیں آتے،بلکہ صرف وہ موضوعات زیربحث آتے ہیں جس میں قراء کے مابین اختلاف ہوا ہے۔

2۔ قراء عشرہ کے اختیارات کے قرا ر پاجانے کے بعد علم القراء ات کی جو تعریفیں سامنے آتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قراء ات کا تعلق منقولات وخبر کے قبیل سے ہے یعنی قرآن مجید اور قراء ت میں وہی فرق ہے، جو سنت اور حدیث میں فرق کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید وہ شئے ہے جو قراء ت کے اندر روایت کی جاتی ہے، جبکہ قراء ات قرآن کریم کی روایات کا نام ہیں ۔ جیسے قرآن کریم الحمدﷲ رب العالمین کو کہا جائے گا ،لیکن جب اس کو آگے نقل کیا جائے تو جس علم میں اس کو بطورروایت نقل کیا جائے گا تو اس علم کو علم قراء ات کہیں گے۔ اسی تعریف کی رو سے عام استعمالات میں قرآن مجید کے حوالے سے متفق کلمات ہوں مختلف فیہ کلمات، ناقلین سے جو کچھ روایت کیا گیا ہے اسے علم القراء ت کہا جاتا ہے۔ مروج قراء ات عشرہ ،جن میں قرآن کریم کو آئمہ عشر نے متفق فیہ اور مختلف فیہ کلمات ہر دو اعتبار سے بیان کیا ہے، کو عام طور قراء ات عشرہ متواترہ کے نام سے بیان کیا جاتاہے اور یہ بات ہم جانتے ہیں کہ تواترکا تعلق علمِ خبر اور علمِ روایت سے ہے، چنانچہ قراء ت عشرہ متواترہ کا مطلب ہے: روایاتِ عشرہ متواترہ ۔ الغرض اس تعریف کی رو سے قراء ت، روایتِ قرآن کو کہتے ہیں اور قرآن مروی (نفس قرآن) کوکہتے ہیں ، جو اس روایت کے اندر نقل ہورہا ہوتا ہے۔

3۔ دوسری اور تیسری تعریف ایک ہی ہے، لیکن تیسری تعریف میں کچھ مزید تفصیل بھی ہے اور وہ یہ کہ اس تعریف کی رو سے اہل فن کے ہاں قراء ت کا تعلق روایت کی ایک خاص قسم سے ہے۔ علمائے قراء ات کے ہاں قرآن کی روایات تین قسموں پر مشتمل ہیں ۔ اگر وہ روایت آئمہ عشر کی نسبت سے بیان کی جائے تواسے ’قراء ت‘، ان آئمہ کے بیس رواۃ کی نسبت سے بیان کی جائے تو ’روایت‘ اور اگر ان کے ذیلی اسی طرق کی نسبت سے بیان کی جائے تو ’طریق‘کہتے ہیں ، جیسے کہ امام نافع رحمہ اللہ یا امام عاصم رحمہ اللہ کی مرویات کی بات ہو تو’قراء ت‘ کہلائے گی اور اگر امام ورش رحمہ اللہ یا امام حفص رحمہ اللہ کی بات ہو تو ’روایت‘ کہلائے گی اورجب ان کے شاگرد مثلا ازرق یا اصبہانی کی طرف اختلاف کی نسبت ہو تواس کو’ طریق‘ کہیں گے۔ قراء ت، روایت اور طریق اگرچہ تینوں لغوی اعتبار سے روایت کے ہم معنی ہیں ، لیکن اہل فن کی اصطلاحات میں ورشؒ کی روایت کو قراء ت ورش نہیں کہا جائے گا بلکہ روایتِ ورش کہا جائے گا اور قالونؒ کی روایت کو قراء تِ قالون نہیں ، بلکہ روایت قالون کہا جائے گا، جبکہ امام نافع کی روایت کو قراء تِ نافع کہا جائے گا ۔اسی طرح سیدنا قالونؒ وغیرہ کے نیچے جوطرق ہوں گے اس میں سیدنا ابونشیط رحمہ اللہ کے طریق کو قراء تِ ابن نشیط یا روایتِ ابی نشیط نہیں کہا جائے گا بلکہ طریقِ ابن نشیط کہا جائے گا۔

سوال نمبر8: آپ کے بقول قراء اتاختیاراتِ ائمہہیں ، اس ضمن میں کچھ مزید وضاحت کردیں ؟
جواب: سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اختیارات کا مفہوم واضح کرلیں ۔اختیار کا لغوی معنی کسی شے کو چننا اور پسند کرکے اپنے لیے طے کرلینے کے ہیں ہے۔ جیسے کسی آدمی کو اگر دس کھانے والی چیزیں پیش کی جائیں اوروہ اپنے لیے کسی ایک چیز کو پسند کرکے اٹھا لے تو یہ اس کا ماکولات میں اختیار ہوگا۔ اسی طرح محدثین کرام نے بھی اختیارات فرمائے ہیں۔

جیسے امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کے اندرقبولیت حدیث کے معیار سے قطع نظر جو ایک اضافی معیارِ قبولیت اپنی پسند وذوق کے حوالے طے کیا اور اس معیار کے حوالے سے ایک لاکھ صحیح احادیث میں سے تقریباً ساڑھے سات ہزار احادیث پر مشتمل ایک ذخیرہ تیار کرلیا، تو عام بات کے مطابق اس کو اختیارِ بخاری قرار دیا جائے گا۔
مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں قبولیت حدیث کے ضمن میں رواۃ کی ثقاہت کے حوالے سے عام معیارِ ثقاہت سے بڑھ کر اہتمام کیا یا اتصال سند کے حوالے سے صرف دو افراد، جوآپس میں استاد شاگرد ہوں ،ان کی معاصرت کو کافی نہ سمجھنا،بلکہ ملاقات کے تحقُّق کو شرط کے طورپرپیش کرنا، جبکہ صحتِ روایت کے عام معیارمیں یہ شرط موجود نہیں ہے۔ تو اس قسم کی خصوصی شرائط کو ملحوظ رکھ کر امام صاحب رحمہ اللہ نے ایک مخصوص ذخیرہ حدیث اپنے اختیار سے ترتیب دیا ۔

اسی طرح امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنا ایک اختیار ترتیب دیاہے، مثلاً امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے لیے جو شرط ذاتی طور پر اختیار کی اور جو محدثین کے معیارِصحت سے بالعموم اضافی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اپنے مجموعہ احادیث میں صرف ان صحیح حدیثوں کو نقل نہیں فرمائیں گے جو ان کے ہاں صحیح ہوں یا دیگر آئمہ کے ہاں صحیح ہوں ، بلکہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنے ذوق کے مطابق ایسا ذخیرہ احادیث تیار کرنے کی خواہش ظاہر کی کہ وہ تمام حدیثیں جو تمام محدثین کے ہاں بالاتفاق صحیح تھیں ،امام مسلم رحمہ اللہ نے یہ پسند کیا کہ ایسا ذخیرہ حدیث ترتیب دیا جائے جس میں تمام متفق علی الصحۃ اَحادیث کو اکٹھا کردیا جائے، چنانچہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس طرح سے جو ذخیرہ اَحادیث ترتیب دیا اوربعض دیگر شرطیں بھی انہوں نے اپنے پسند اور اختیار سے اپنے مجموعے میں ابتدا ہی سے ملحوظ خاطر رکھیں ان کی روشنی میں جو ذخیرہ حدیث سامنے آتا ہے وہ امام مسلم ؒکا صحیح احادیث میں انکا ذاتی اختیار ہے۔اس کی ایک مثال اور لے لیں ، مثلاً آج بھی مصنّفین نئی طے کردہ ایسی شرائط جو صحت حدیث کی شرائط سے متعارض نہ ہوں ، متعین کرکے بعض نئے ذخیرہ اَحادیث بھی مرتب کرسکتے ہیں ، مثلاً امام ابن حجر رحمہ اللہ نے جو متاخرین کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے اَحکام کی حدیثوں کو موضوع بناکراپنا ایک اختیار بلوغ المرام کی صورت میں اُمت کے سامنے پیش کیا ہے۔اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ نے فضائل اعمال یا سلف صالحین کے ہاں زہد و تقویٰ کے حوالے سے جو ایک شوق پایا جاتا تھا،اس کے حوالے سے ایک خاص اختیار ترتیب دے کرریاض الصالحین کی صورت میں پیش کیا ہے۔آج کے دور میں بعض لوگ ایک سوچ اور رکھتے ہیں کہ تمام ذخیرہ حدیث میں سے تمام صحیح احادیث اور تمام ضعیف روایات پر ایک ذخیرہ ترتیب دے دیا جائے تاکہ قرآن کی مثل حدیث سے بھی استفادہ عام آدمی کے لیے آسان ہو۔ اس ضمن مین شیخ البانی رحمہ اللہ کا سلسلہ احادیث صحیحہ اور سلسلہ اَحادیث ضعیفہ ایک مثال کے طور پر موجود ہے۔ اسی طرح ایک سوچ ایک نئے مجموعہ حدیث کی یہ ہو سکتی ہے کہ امام مسلم رحمہ اللہ کے اہتمام کی مثال سنن اربعہ، موطا، دار قطنی، بیہقی وغیرہ معروف کتب حدیث سے ان اَحادیث کو نکال کر ایک نیا ذخیرہ (اختیار) پیش کرنا چاہیے جو کہ بالاتفاق محدثین ہو۔ امام حاکم کی المستدرک شروطِ بخاری ومسلم کے معیار پر رہ جانے والی احادیث کا نیا مرتب مجموعہ حدیث ہے۔

بالکل اسی طرح قراء ات کے اندر اختیارات کی بحث ہے۔ آئمہ قراء ات نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کلُّھا شاف کاف فا قرء وا ما تیسَّر) [بخاری:۴۹۹۲] کے پیش نظر اِن منزَّل من اﷲ قراء ات میں سے جس چیز کو آسان سمجھا اوراپنی ذات کے لیے پسند کیا، انہوں نے قرآن مجید کی تلاوت کے لیے اپنے متعین اَسالیب اختیار کررکھے تھے، اس وجہ سے ائمہ سے قبل صحابہ کی طرف بھی قراء ات کی نسبت ہوئی ، چنانچہ قراء ت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مراد، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا وہ اختیار ہے جو انہوں نے سبعہ احرف کو باہم ملا جلا کر فاقرؤا ماتیسَّر کی روشنی میں شرعی تسہیل کے مطابق اپنی پسند کے مطابق ترتیب دیا اور اس کے مطابق وہ پڑھا ،پڑھایا کرتے تھے۔ اسی طرح قراء اتِ اُبی بن کعب سے مراد ابی بن کعب کا اختیار ہے۔ اسی طرح بعض دیگر صحابہ کے اختیارات سامنے آتے ہیں اور وہ ہمیں حدیث کی کتابوں میں ان کی قراء ات کے نام سے ملتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح بعد کے ادوار میں آئمہ عشرہ نے اپنے اختیارات ترتیب دیئے ۔

آئمہ میں اپنے ذوق تلاوت کے موافق اختیار کی دو صورتیں رائج رہی ہیں :

ایک صورت ان اختیارات کی یہ تھی کہ موجود روایات جو چلتی آرہی ہیں ان میں سے ہوبہو کسی ایک روایت کو بطورِ طبعی ذوق کے اختیارکرلیاجائے، جیسا کہ قراء ات عشرہ میں جو بیس رواۃ موجود ہیں ، بعض آئمہ فقہاء نے کسی ایک مکمل روایت کو اپنے اختیار کاحصہ بنا لیا، مثلا امام مالک رحمہ اللہ کا میلان قراء تِ نافع کی طرف تھا، کیونکہ انہوں نے مدینہ میں امام نافع سے براہ راست ان کے اختیار کو اخذ کیا تھا، چنانچہ مغربی وافریقی ممالک، جہاں فقہ مالکی کا رواج ہے، وہاں سیدنا ورش رحمہ اللہ یا سیدنا قالون رحمہ اللہ کا اختیار مقروء ہے۔ کوفہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو امام عاصم سے تلمذ حاصل رہا چنانچہ برصغیر وغیرہ میں ان کی فقہ کے رائج ہونے کے ساتھ ساتھ امام حفص رحمہ اللہ کا اختیار مقبول ومعمول بہ ہے۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے حوالے سے ذکر کیاجاتاہے کہ وہ سیدنا حمزہ زیات الکوفی رحمہ اللہ کے اختیار کو مدود اور وقفی وجوہ وغیرہ کی وجہ سے اپنی ذاتی پسند کے اعتبار سے زیادہ پسند نہیں فرماتے تھے، جبکہ دیگر بعض روایات کی طرف ان کا ذوقِذاتی زیادہ تھا۔ بعض لوگ امام احمد رحمہ اللہ کے حوالے سے اس قسم کی باتوں کو قراء ات کے انکار کی بنیاد بناکر پیش کرتے ہیں ، حالانکہ وہ ذاتی اختیار کے اعتبار قراء ت حمزہ کی طرف میلان نہیں رکھتے تھے۔ یہ اسی طرح ہے کہ آج کے زمانے میں کوئی بندہ روایت خلف عن حمزہ کو اپنا معمولِ تلاوت بنالیتا ہے، تو گویا کہ یہ اس کا اختیار ہے۔ اسی طرح آج کل ماہرین قراء ات، جو تمام قراء ات اور روایات کو ہی جانتے ہیں ، ان کے ہاں بسا اوقات اپنی تلاوتوں کے اندر بعض لہجات زیادہ پسندیدہ ہوتے ہیں ، مثلاً مروجہ محافل قراء ات میں عام قراء روایت خلف، جبکہ بعض روایت ورش کو زیادہ پڑھتے ہیں ۔

اختیار کادوسرا مفہوم یہ ہے کہ آپ مختلف روایات کو ملا جلا اور جمع کرکے ایک نیا اختیار ترتیب دے دیں۔ آئمہ عشرہ نے عام طور پر دوسری قسم کے اسالیبِ تلاوت اختیار فرمائے ہیں ، البتہ امام ورش رحمہ اللہ جب امام نافع رحمہ اللہ کے پاس مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے جوقراء ات پہلے سے اپنے وطن مصر میں پڑھ رکھی تھی، وہ امام نافع رحمہ اللہ پر پیش فرمائی۔ چونکہ امام نافع رحمہ اللہ نے اپنے بعض مشائخ سے یہ اختیار پہلے ہی پڑھا ہوا تھا، چنانچہ ان کو اجازت دے دی۔المختصر امام ورش رحمہ اللہ کی جو روایت ہے وہ امام نافعؒ کا نیا ترتیب شدہ اختیار نہیں تھا بلکہ پہلی قسم کا اختیار تھا، جبکہ امام قالون رحمہ اللہ نے امام نافع رحمہ اللہ کا نیا ترتیب شدہ اختیار نقل فرمایا ہے۔

اختیارات کی تعریف واضح ہوجانے کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع پر بحث کرلی جائے کہ ان آئمہ کویہ حق اختیار کس نے دیا اور کیا ہم بھی آئمہ متقدمین کی طرح کوئی نیا اختیار بنا سکتے ہیں ؟

پہلے سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ یہ حقِ اختیار ان کو قرآن مجید اور احادیث رسول نے دیا۔ قرآن مجید کے حوالے سے میں نے یہ بات اس لیے کی کہ پہلے گذر چکا ہے کہ آیت:یرید اﷲ بکم الیسر کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی مختلف قراء ات نازل فرمائیں ،چنانچہ اَحادیث نبویہ میں اسی پس منظر میں آپ نے ارشاد فرمایا: أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کلُّھا شاف کاف فاقروا ماتیسَّر[بخاری:۴۹۹۲] ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ کو اجازت دی تھی کہ منزل من اللہ حروف وقراء ات میں سے جو صحابی جس طرح چاہئے اپنے سہولت اور ذوق وپسند کے مطابق انداز تلاوت اختیار کرسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کے زمانے میں سینکڑوں ترتیباتِ تلاوت (اختیارات) وجود میں آچکے تھے۔ تابعین کے دور میں بھی اسی طرح نئے نئے سیٹ (اختیارات) وجود میں آتے رہے، حتیٰ کہ آئمہ عشرہ اور تبع تابعین کا دور آگیا۔ آئمہ عشرہ کے زمانہ میں بھی بے شمار انداز تلاوت موجود تھے، لیکن اس دور میں ہمتیں جب کم ہوگئیں اور لوگوں نے دیگر علوم کی طرح علم قراء ات کو بھی بعض اشخاص کی نسبت سے ہی اخذ کرنا اور پڑھنا شروع کردیا تو بعدازاں آئمہ عشرہ کے اختیارات ہی امت میں رائج ہوگئے اور اب پچھلی بارہ صدیوں سے امت میں یہی اسالیبِ تلاوت رائج ہیں ۔

اب سوال کے تیسرے حصے پر بحث کرتے ہیں کہ ہماری رائے کے مطابق یہ بات ٹھیک ہے کہ اگر آئمہ قراء ات کو حقِ اختیار نصوص شریعت نے دیا تھا تو نصوصِ شریعت چونکہ ابدی ہیں ، اس لیے بعد کے زمانوں میں بھی خلط قراء ات کرتے ہوئے نیا اختیارِقراء ات بنانے کی بہرطور گنجائش ہے، جسے سلفِ امت سے کسی صورت خاص نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس اجازت کے باوجود ہم عرض کریں گے کہ یہ بات تو روز اَزل سے طے تھی کہ شرعی تسہیلات کو کسی زمانہ سے خاص نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس سوال کے سامنے کی کیا وجوہات ہیں ۔ دراصل اس قسم کے سوالات کے پیدا ہونے کا ایک پس منظر ہے اور وہ یہ کہ آئمہ عشرہ کے بعد لوگوں نے بالعموم قراء ات کے اندر وابستگی اور توجہ نہیں رکھی،بلکہ تساہل اور طبعی کسولت کی بنا پر آئمہ قراء ات کی قراء ات پر ہی اکتفاء کرلیا اور یہی وجہ ہے کہ بعد ازاں اللہ نے قرآن سے وابستگی کے انعام کے طور پر انہی آئمہ کو مقام امامت پر فائز فرماتے ہوئے ان کے اختیارات اور طے کردہ ترتیباتِ تلاوت کو امت میں جاری فرمایا کہ امت پچھلے کئی سو سال سالوں سے بالاتفاق انہی اختیارات پر اکتفا کیے بیٹھی ہے، چنانچہ اگر کوئی آدمی ان آئمہ عشرہ کی طرح قرآن کریم میں کمال پیداکرتاہے اور علم قراء ات کے ساتھ انتہائی وابستگی اختیار کرتاہے تو اس کے لیے کوئی ایسی ممانعت نہیں ہے کہ وہ اپنا نیا اختیار ترتیب نہ دے ، لیکن یہ بات قطعاً مناسب نہیں ہوگی کہ وہ لوگ جو قرآن مجید کے ساتھ ادنیٰ تعلق رکھتے ہوں اور اس کے علوم کے ساتھ ان کی وابستگی انتہائی محدود ہو اور قرآن مجید کی تلاوت واداء اور درس و تدریس میں انہوں نے معمولی حصہ صرف کیا ہو توانہیں بہرحال نیا اختیار بنانے سے بچنا چاہئے،کیونکہ انہیں قرآن مجید کی تلاوت واَداء میں وہ کمال حاصل نہیں کہ جو اس قسم کی تسہیلات سے مستفید ہونے کے لیے بہرحال ایک ضروری امر ہے۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ پہلے سے اختیار شدہ اختیارات کومعمول بنائیں ۔

اس بات کی مثال یوں سمجھیں کہ فقہ میں تقلیدِآئمہ کے معمول بن جانے کا ایک پس منظر ہے۔اجتہاد کے حوالے سے یہ بحث کہ کیا اجتہاد کا دروازہ آج بھی کھلا ہوا ہے؟یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کہ متاخرین نے بالعموم متقدمین کے طرح شریعت اور اس کے علوم سے جب وابستگی اختیار نہیں کی تو جمہور اہل علم نے اجتہاد کے دروازے کے بند ہونے کا فتوی جاری کردیا، لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں تھاکہ نبوت کی طرح منصبِ اجتہاد کا خاتمہ بھی ان آئمہ فقہاء پر ہوگیا۔یہ علوم چونکہ کسبی ہیں اور ان کا ایک نصاب موجود ہے، چنانچہ جس شے کا نصاب ہو تو کسب کی کمی کا اِزالہ کرتے ہوئے اگر محنت ولگن کے ساتھ متقدمین کی طرح علم میں کمال حاصل کرلیا جائے تو تمام آئمہ کے اجتہاد کرنے کی اجازت ہے۔ بس یہی معاملہ قراء ات کے سلسلہ میں سمجھنا چاہیے۔نیا اختیار بنانا جائز ہے یا نہیں اس پر نظر کرنے کے بجائے اس پر توجہ ہونی چاہیے کہ ہمارا علم قراء ات سے تعلق اور وابستگی کس قدر مضبوط ہے؟

سوال نمبر9: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی قراء ات (اختیارات) کون کون سی تھیں ؟ مثلاً عبداللہ بن مسعود، اُبی بن کعب، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم صحابہ میں بہت بڑے قاری تھے، لیکن یہ کون سی قراء ا ت پڑھا کرتے تھے؟
جواب: صحابہ کی قراء ات، بنیادی طور پر صحابہ کے اختیارات ہیں ۔ جس صحابی اور جس امام نے اپنی سہولت اور ذوق کے مطابق جس انداز کو اپنی تلاوت کے لیے اختیار فرمایا، بعدمیں اس کی نسبت اسی کی طرف ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود ، ابی بن کعب ، سعد بن ابی وقاص یا حضرت عائشہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم وغیرہ صحابہ کے ہاں جو جو اندازِ تلاوت رائج تھا، بعد ازاں وہ انہی کی نسبت سے قراء ۃ عبداللہ بن مسعود، قراء ۃ ابی بن کعب، قراء ۃ سعد بن ابی وقاص، قراء ۃ عائشہ اور قراء ۃ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کے نام سے معروف ہوا۔ صحابہ کے ان اختیارات کو معلوم کرنے کا ہمارے پاس ذریعہ وہ اَحادیث اور بعض کتب قراء ات ہیں ، جن میں بعض صحابہ کی نسبت سے بعض حروف و قراء ات منقول ہیں ۔ اُمت میں جو قراء ات متواترہ چلی آرہی ہیں ، وہ آئمہ عشرہ کی قراء ات ہی ہیں ۔ آئمہ عشرہ کے اختیارات تو درس و تدریس کے اندر معمول بھی ہیں اور معروف بھی ہیں ، جبکہ صحابہ، تابعین اور بعض دیگر اصحابِ اختیار کے اختیارات آج بھی ان کتب میں موجود ہیں جو صرف لائبریریوں کی زینت ہیں ۔ ان میں کافی ساری تصنیفات ایسی بھی ہیں ، جو برسہا برس سے تو جہ نہ ملنے کی وجہ سے مخطوطات کی صورت میں محفوظ ہیں ۔ان مخطوطات کی حفاظت کا اہتمام بھی عام مکتبات میں موجود نہیں ، بلکہ صرف بعض انٹرنیشنل لائبریریوں اور ماہرینِ فن کے ذاتی کتب خانوں میں ملتا ہے۔ان مخطوطات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض قراء صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذاتی اختیار کے بارے میں بھی بعض کتب موجودہیں ۔ قراء ات کے مشہور امام ابو عمر حفص الدوری رحمہ اللہ ، جن کی روایت سوڈان، صومالیہ وغیرہ میں آج کل بھی رائج ہے، کی تصنیفِ خاص ، جو حال ہی میں مطبوع ہوکر منظر عام پر آئی ہے،میں مؤلف موصوف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازِتلاوت کو موضوعِ بحث بنا کر آپ کے مجموعہ ہائے اختلافاتِ تلاوت کو حتی المقدور جمع کرنے کی سعی فرمائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام دوری رحمہ اللہ نے اس کتاب کا نام جزء فیہ قراء ات النبيﷺ تجویز فرمایا ہے۔ امام دوری رحمہ اللہ نے اس تصنیفِ انیق میں وہ تمام قراء ات جمع فرمائی ہیں ، جو انہوں نے اپنی ذاتی سند کے ساتھ، اپنے اساتذہ سے اَخذ کی ہیں ۔

سوال نمبر10 :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ( اقروا کما عُلِّمتم )[ابن حبان:۷۴۳] کا مطلب تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا حکم یہ تھا کہ ہر صحابی اسی طرح پڑھے جس طرح اس کا استاد پڑھائے، تو قراء ات اختیارات کیسے ہوئیں ؟
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اقرؤا کما عُلِّمتم[ابن حبان:۷۴۳] کا جب تک پس منظرسامنے نہ رہے، تب تک اس کی تفسیر اور وضاحت کے اندر اختلاف ہوتا رہے گا۔ جو بات ہم اس فرمان سے سمجھتے ہیں وہ یہ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ مبارک کا ایک پس منظر ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ متعدد روایات میں صحابہ کے مابین مختلف قراء ات کی قبولیت کے سلسلہ میں جو اختلاف سامنے آیا تو اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر ارشادات کے ہمراہ جو ایک اُصولی راہنما ارشاد فرمایا وہ یہ تھاکہ ہر آدمی بجائے اس کے کہ اس بحث میں پڑے کہ کون سی قراء ۃ زیادہ بہترہے اور کون سی کم بہتر ہے یا کونسی قراء ت صحیح ہے اور کون سی غلط ، وہ اس بحث میں پڑنے کے بجائے اپنے استاد سے جس طرح پڑھا ہے اسی کے مطابق تلاوت کرتا رہے۔چنانچہ اقروا کما عُلِّمتم[ابن حبان:۷۴۳] سے بنیادی طور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ تھی کہ لوگ ایک دوسرے کے اندازِ تلاوت میں پڑنے کے بجائے اپنے اساتذہ سے اَخذ شدہ اسلوب کے مطابق پڑھیں ۔ اس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعدازاں علم قراء ات کے آئمہ کبار نے اپنے بے شمار اساتذہ سے جو کچھ پڑھا اسی کے پابندی کرتے ہوئے اپنے انداز تلاوت ترتیب دئیے۔ مثلاً امام نافع رحمہ اللہ کے قراء ات میں ستر اساتذہ تھے اور امام نافع نے اقرء وا کما عُلِّمتم [ابن حبان:۷۴۳] کی رعایت کرتے ہوئے اپنے ستر کے ستر اَساتذہ سے جو کچھ پڑھا، اسی میں سے تمام کو لیتے ہوئے اپنا ایک اندازِ تلاوت متعین کیا اور وہ اس انداز کے مطابق ہی اپنے تلامذہ کو پڑھایا کرتے تھے۔ ان کا جو انداز تلاوت تھا اس میں کسی بھی جگہ اپنے اساتذہ اور مشائخ سے حاصل کردہ قراء ات سے انحراف نہیں تھا، ماسوائے اس کے تمام کو ملا کر ایک نیا اختیار وجود میں آیا۔

مزید برآں واضح رہے کہ قرآنِ مجید کے حوالے سے یہ سوال جو کیاگیا ہے کہ اگر قراء ات میں عملاً خلط ہوا ہے تو کیا قرآن مجید اپنی اصلی شکل میں موجود ہے؟ تو اس کا جواب ہماری پیچھے گزری گفتگو کی روشنی میں یہ ہے کہ قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اُترا تھا اور آپ نے اپنے صحابہ تک اسے پہنچایا، صحابہ نے اپنے شاگردوں اور پھر ان کے تلامذہ نے اسے آگے پہنچایا۔ قرآن مجید توحتمی طور پر اس ساری روایت کے اندر موجود ہے۔ البتہ ہمارے علم کی حد تک یہ بات متعین کرنا مشکل ہے کہ نزول کے وقت قرآن کریم کے جو سات اسلوب سبعہ احرف کی صورت میں موجود تھے، بدون اختلاط وہ اپنی اصلی صورت میں کہاں ہیں ؟ لیکن چونکہ ان سات اندازوں کی بعینہٖ حفاظت مقصود بھی نہ تھی، کیونکہ تمام حروفِ سبعہ محفوظ صورت میں قراء ات میں موجود ہیں اور شرعی سہولت کے موافق آپ جس طرح آسانی خیال کریں پڑھ لیں ، بھی موجود ہے، چنانچہ ان حروفِ سبعہ کو تو محفوظ کیاگیا ہے لیکن ان کی داخلی تعیین کی حفاظت کا اہتمام نہیں کیا جا سکا۔ بلکہ جس طرح رسول اللہ پر نازل شدہ سبعہ اسالیب قراء ات کا علم نہیں ، اسی طرح بعد ازاں صحابہ وتابعین اور آئمہ عشرہ کے اساتذہ تبع تابعین کے ترتیبات تلاوت کو بھی متعین کرنا شائد بہت مشکل ہو، کیونکہ جب تک امت میں نئے اختیارات کا سلسلہ جاری رہا ، تب تک ہرنئے آنے والے نے اپنا نئے انداز کو جب ترتیب دیا تو پچھلے کو محفوظ نہیں کیا۔ البتہ جب ان اَئمہ عشرہ کے اختیارات کو اُمت نے قبول کرلیا اور پھرمتاخرین میں ان کا متفقہ تعامل جاری ہوگیا، تو اب صرف ان ائمہ عشرہ کے اختیارات کی تعیین ممکن ہے۔ بہرحال ہم خلاصۃً کہہ سکتے ہیں کہ منزل من اللہ قرآن مجید کے تمام اسالیب توبنیادی طور پر ان موجودہ قراء ات عشرہ میں مکمل طور پرمحفوظ ہیں اور کوئی ایک حرف یا حصہ بھی حذف یا آگے پیچھے نہیں ہوا ،البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ سبعہ احرف کا ہر ہر حرف مفصل اور متعین طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
سوال نمبر11: تحریرات کیا ہیں ؟ قراء اتِ عشرہ سے ان کی مناسبت کیا ہے؟ نیز فن قراء ات میں ان کا مقام کیا ہے؟
جواب:قراء ات عشرہ کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ یہ قراء ات آئمہ عشرہ کے اختیارات ہیں ، جو بارہ صدیوں سے اُمت میں بطورِتلاوت متفقہ طور رائج ہیں ، نیز بطورِ تلاوت ان کو قبولیت عامہ حاصل ہوجانے کے سبب بعد ازیں نئے اختیارات کا سلسلہ انتہائی محدود ہوگیا۔یہ قراء ات بعد کے زمانوں میں پچھلے ایک ہزار سالوں سے بدون اختلاط روایت کے ذریعے منتقل ہورہی ہیں ۔ علم تحریرات اس چیز کا نام ہے کہ آئمہ عشرہ کی نسبت سے جو چیزیں آج قراء ات کی کتابوں میں بیان کی جاتی ہیں ، ان کے متعلق یہ نکھار اور وضاحت کی جائے کہ روایات میں کہاں کہاں اختلاطِ طرق ہوگیا ہے، چنانچہ تحریرات کے ضمن میں تقریبا تمام محررین اس بات پر متفق ہیں کہ تحریرات بنیادی طور پر روایات و طرق میں ترکیب واختلاط کے نکھار کا نام ہے۔ خلطِ قراء ات کے حوالے سے بعض اہل علم نے یہاں یہ بحث پیدا کی ہے کہ اگر تحریرات بنیادی طور پر قراء اتِ آئمہ میں اختلاط کے حوالے سے نکھارکے اوپربحث کرتی ہیں تو پھر اس کو کوئی علم قرار دینا قطعی طور پر صحیح نہیں ہونا چاہیے،کیونکہ دین میں خلط قراء ات کی صراحۃً اجازت ہے۔ ہماری رائے میں اس حوالے سے دو نوں رویوں میں افراط وتفریط موجودہے۔

وہ اہل علم جو اختیاراتِ قراء کے ضمن میں خلطِ قراء ات کو جائز قرار دیتے ہیں اور اس کی روشنی میں نئے اختیارات بنانے کی گنجائش دیتے ہیں ، ان کی نظر میں علم تحریرات میں بنیادی طور پر خلط قراء ات سے منع کرنا محل نظر ہواہے اور انہوں نے کہا کہ اس پہلو سے علم تحریرات کا موضوع بالکل غیر صحیح ہے،کیونکہ تاقیامت نیا اختیار بنانا اور مختلف قراء توں کو ملا جلا کر پڑھنا جائز ہے۔ان لوگوں کے بقول علم تحریرات کو ایک مقام دینا تو کجا، تحریرات بذات خود اختیارات ہی کے قبیل کی ایک چیز ہے۔ ان لوگوں کے دعوے کے مطابق مدارس میں قراء ات کے سلسلہ میں جو معروف کتابیں یعنی شاطبیہ ، درہ اور طیبہ وغیرہ کو بغیر تحریرات کے پڑھاناچاہئے۔ اس کے بالمقابل وہ حضرات، جن کے ہاں اختیارات قراء کی بحث سے قطع نظر مسئلہ خلطِ قراء ۃ کے سلسلہ میں شدت پسندانہ موقف پایا جاتاہے، وہ علم تحریرات کے بارے میں شدید رائے رکھتے ہیں ۔ ہماری رائے میں مسئلہ خلطِ قراء ات کی وضاحت مثبت طور پر ہونا ضروری ہے۔ خلط قراء ات کے مسئلہ کی دو جہتیں ہیں ۔ ایک جہت کا تعلق مسئلہ اختیارات سے ہے اور دوسری جہت کا تعلق مسئلہ علم تحریرات سے ہے۔ مسئلہ اختیارات کی حد تک تو خلط قراء ات میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ جب تک خلط قراء ات کی گنجائش نہیں دی جائے گی تب تک نئے اختیار کی اجازت دی ہی نہیں جاسکتی،چنانچہ اگر کوئی آدمی نئے اختیارات بنانے کے حوالے سے مختلف قراء توں کو خلط کرکے ایک نیااختیار ترتیب دیتا ہے تو اس میں کسی قسم کے حرج کی بات نہیں ہے، البتہ اس بارے میں ہم نے پیچھے اپنا رجحان یہ پیش کیا تھاکہ نیا اختیار بنانے کی عوام الناس کے لیے تو قطعا کوئی گنجائش نہیں ، جبکہ اہل فن کے لیے بھی نئے اختیار کی ہم حوصلہ افزائی نہیں کرتے، لیکن خلط کے جواز میں بلا شک وشبہ کوئی کلام نہیں ۔ رہا علم تحریرات کے اندر خلط قراء ات کا مسئلہ، تو یہاں خلط انتہائی غیر مناسب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم تحریرات کا اختیارات قراء کی بحث سے کوئی تعلق نہیں ،کیونکہ قراء عشر کے بعد بالعموم اختیارات کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔ اب لوگ انہی قراء عشر کی مرویات کو بالاتفاق نقل کررہے ہیں ۔ علم تحریرات بنیادی طور پر ان قراء عشرہ کی مرویات میں طرق کے نکھار کا نام ہے، چنانچہ اگر کوئی آدمی ان قراء عشر کی قراء ات وروایات کا التزام کرکے پڑھ رہاہے،مثلاً وہ روایت ورش یا روایت حفص یا روایت قالون کا التزام کرتاہے اورکہتا ہے کہ میں امام حفص رحمہ اللہ کی روایت پڑھوں گا، اب اگر وہ امام حفص رحمہ اللہ کی روایت میں کسی ایسی شے کو داخل کرکے پڑھے جو ان سے ثابت نہ ہو تو یہ کذب فی الروایہ کی وجہ سے ناجائز ہے۔اس مسئلے میں اگر زیادہ بے احتیاطی ہو تو اس کو اہل علم انتہائی معیوب قرار دیتے ہیں ،لیکن اگر یہ زیادہ اساسی چیزوں پرمبنی نہ ہو، بلکہ تفصیلات میں جاکر ذیلی چیزوں میں جاکر اختلاط کیا جائے اہل فن کے ہاں یہ چیز بھی بہرحال عیب کی بات ہے کہ وہ ایک مسئلے کے اندر بغیر تحقیق کے کوئی روایت پڑھیں ، البتہ عوام الناس یا مبتدی طلبہ کے لیے اس کی گنجائش ہے۔خلاصہ ہم دوبارہ ذکر کیے دیتے ہیں کہ مسئلہ اختیارات کے ضمن میں تو عوام الناس کے لیے نیا اختیار بنانے یا خلط قراء ات کرنے کی سرے سے کوئی گنجائش موجود نہیں ہے، البتہ اہل علم کے لیے نیا اختیار بنانا جائز ہے اور اس پہلو سے خلط کرنے کی کوئی قباحت نہیں ہے۔ رہا مسئلہ علم تحریرات کا تو اس بارے میں خلط قراء ات کی وضاحت یہ ہے کہ اَئمہ عشرہ کی روایات یا ان کے ذیلی طرق کے حوالے سے ہم کوئی چیز اگر پڑھنا چاہیں تو بغیر اختلاط کے پڑھنا اہل علم اور محققین کے لیے ایک زیور کے مانند ہے اور ان کا اُن لوگوں سے جو اس علم کے اندر تحقیقی مقام نہیں رکھتے سے امتیاز ہونا چاہیے ، جبکہ جو لوگ اس فن میں مبتدی ہیں ان کے لیے بہرحال یہ چیز عیب دار نہیں ہے۔ ماہنامہ’ رشد‘ کے زیر نظر شمارے میں اس موضوع پر ایک مستقل مضمون بعنوان مسئلہ خلط قراء ات اور علم تحریرات کا فنی مقام‘ شامل اشاعت ہے، تفصیل کے شائقین اس طرف رجوع کرسکتے ہیں ۔

سوال نمبر12: کیا کلام الٰہی میں اختلاف ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں توقراء اتِ قرآنیہ میں اختلاف کیوں ہے؟
جواب: قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرَا}[النساء:۸۲]

اس اختلاف سے مراد تضاد کا اختلاف ہے، جو منزل من اللہ میں ہو نہیں سکتا اور جو اختلاف منزل من اللہ ہوتا ہے وہ تو وحی پرمبنی ہوتاہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔ فقہ واُصول فقہ میں محکوم فیہ کے تعین کے اعتبار سے واجب کی اقسام یعنی واجب معین اور واجب مخیر کے تحت دی جانے والی تمام امثلہ اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں ۔ واجب مخیریا واجب غیر معین کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ کی طرف سے مکلف کو دو دو ، تین تین اختیارات دیئے گئے ہوتے ہیں ،
مثلاً کہا جاتاہے کہ قسم کے کفارہ میں تین چیزوں میں سے کوئی کرلی جائے تو اس کا اختیار ہے۔ اب اس قسم کا اختلاف تو اللہ تعالی نے خود دین میں رکھا ہے، چنانچہ یہ اختلاف وہ والا اختلاف نہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: { وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْرَا}[النساء:۸۲] بلکہ اسے تواختلاف کہنا ہی نہیں چاہیے،کیونکہ اس اختلاف کو تواللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے وحی کی صورت میں اتارا ہے اور ایسا اختیار تو شارع عام طور پر سہولت کے لیے دیتا ہے۔
اس آیت سے مراد وہ اختلاف ہے جوکہ ایک عاقل آدمی کی کلام میں تضاد کے قبیل سے تعلق رکھتا ہے، رہا ایک متکلم اگر اپنی بات کو مختلف اَسالیب اور الفاظ کے متعدد چناؤ کے ساتھ ذکر کرتا ہے اور ان تمام اَسالیب والفاظ میں اختلاف محض لفظی ہے تو اسے عقلاء قطعا اختلاف نہیں کہتے۔ ایسا اختلاف کلام کرنے والوں کی زبانوں میں عام ہے۔ علم الروایہ میں عام طور پر اس قسم کی روایت بالمعنی شمار ہوتی ہے، جس کے الفاظ میں تھوڑا بہت اختلاف فطری طور موجود ہوتا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے اپنی مبارک کلام میں متعدد مقامات پر الفاظ کے فرق کے ساتھ کلام کی ہے، لیکن تمام اَسالیب والفاظ کے اختلاف باوجود معنی میں کوئی فرق نہیں ، جیسے قصہ موسی۔

اللہ تعالیٰ کی کلام یعنی قرآن اور قراء ات قرآنیہ میں اختلاف تضاد ممکن نہیں اور یہی اس کلام کی حقانیت کی اعلیٰ دلیل ہے۔البتہ انسانوں کے کلام میں بسا اوقات تضاد ہوتا ہے، جسے انسان اپنی کمزوری کے باعث محسوس نہیں کرپاتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب منزل من اللہ حروف وقراء ات میں لوگوں نے بحث ومباحث اور اختلاف کیا تو امام بخاری کی عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور غصے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا، آپ نے فرمایا:
( فإنما ہلک من کان قبلکم بالاختلاف ) [مسند احمد:۱؍۴۰۱]
’’یعنی اختلاف مت کرو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ اسی اختلاف کی وجہ سے تباہ ہوئے۔‘‘
صحابہ میں قراء توں کے ضمن میں جو اختلاف ہوا وہ ایسا تھا کہ جس کی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے پچھلی قوموں کی تباہی کی بنیادیوں بیان فرمائی:
{أفَتُؤمِنُونَ بِبَعْضِ الْکِتَابِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ}[البقرہ:۸۵]
کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نازل کرتے تو بنی اسرائیل ان کے ماننے میں اختلاف کربیٹھتے۔ایسا اختلاف گناہ کبیرہ ہے،بلکہ اگر شعور کے ساتھ ہو توکفر ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے قراء توں کی قبولیت کے سلسلہ میں فرمایا:
(فإن المُرَائَ فیہ القرآن کفر)[مسند احمد:۴؍۲۰۴،۲۰۵]
یعنی اگر تم ایسا اختلاف کرو گے تو یہ کفر اکبر ہے ۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

مَنْ کَفَرَ بِحَرْفٍ منہ فَقَدْ کَفَرَ بِہٖ کُلَّہٗ[تفسیر الطبری:۱؍۵۴]

یعنی جس نے حروف سبعہ میں اختلاف کرتے ہوئے ایک بھی حرف کا انکار کیا اس نے تمام کا انکار کیا۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان کے زمانہ میں جب لوگوں میں قراء ات قرآنیہ میں اس قسم کا اختلاف ظہور پذیر ہوا توحضرت عثمان نے اسی اختلاف کو ختم کرنے کے لیے مصاحف حکومتی نگرانی میں لکھواکر مختلف علاقوں میں بھجوائے تاکہ اختلافِ منزل کا درست تعین ہوسکے اور لوگوں میں مذکورہ قبیل کے اختلاف کا خاتمہ ہوسکے، چنانچہ عثمانی مصاحف سبعہ احروف کے تمام اختلاف کو شامل تھے اور ان مصاحف کے سامنے آنے کے بعد امت میں بالاتفاق قرآن یا قراء ات قرآنیہ کے ثابت ہونے کے ضابطہ میں طے ہوگیا کہ جو اختلافِقراء ات رسم عثمانی کے مطابق نہ ہو وہ غیر نازل شدہ ہے، جس سے احتراز واجب ہے۔الغرض قراء ات قرآنیہ کا اختلاف تیسیر کی غرض سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے اتارا۔اسی فقہی اصطلاح میں واجب مخیرکی طرح اختلاف مخیر بھی کہا جاسکتا ہے۔

واجب مخیر یااختلاف مخیرکے قبیل کے احکام کے بارے میں بعض لوگوں نے ایک بڑی عجیب بات اٹھائی ہوئی ہے کہ اللہ کی طرف سے جو چیز بطور سہولت نازل ہوئی ہے ان میں اصل حکم ایک ہی ہوتا ہے، باقی رخصت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اصل قرآن کریم ایک ہی تھا باقی چھ اسالیب تلاوت کی اجازت در اصل بطور رخصت دی گئی تھی، چونکہ یہ رخصت تھی اس لیے اب مشکل باقی نہیں رہی چنانچہ یہ رخصت بھی ختم ہوگئی۔

یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے، مثلا پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث سبعہ احرف میں صراحت ہے کہ(أنزل القرآن)یعنی قرآن مجید میں یہ ساتوں اَسالیب منزل من اللہ ہیں ۔ اسی طرح صحابہ میں قراء توں کے ضمن میں پیش آنے والے اختلافات کو آپ نے
ہکذا أنزلت،ہکذا أنزلت [بخاری:۴۹۹۲]
کے الفاظ ارشاد فرماکر اسے نازل شدہ بھی قرار دیا اور بطور دین قبول کرلیا۔ دوسری بات یہ کہ اب چونکہ مشکل ختم ہوگئی ہے، چنانچہ اب چھ رخصتوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ختم کردیا یا ہمیں ختم کردینا چاہیے۔ یہ بات اس لیے غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رخصت بطورِ قرآن اتری ہے ،اس کو قیامت تک کوئی ختم نہیں کرسکتا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو ختم نہ کرے۔ اس بات کی دلیل کے لیے واجب مخیرکو بطور مثال سمجھ لیں کہ اگر قسم کے کفارہ میں تین باتوں کی رخصت اللہ کی طرف سے دی گئی ہے تو اگر ساری اُمت بالاتفاق کہے کہ اب ہمیں دو رخصتوں کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے ہم قرآن وحدیث سے دو کو ختم کردیتے ہیں یا دین سے نکال دیتے ہیں ، تو کیا خیا ل ہے کہ اس کی کوئی گنجائش ہے؟ تو جب اس کی گنجائش نہیں ہے تو سات حروف جو اللہ کی طرف سے اترے ہیں ،اگر یہ اختلاف منزل من اللہ ہے اور

{وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ}[النساء:۸۲]

کے قبیل سے نہیں ہے تو پھر اس اختلاف میں سے تو ایک لفظ ختم کرنا اُمت کے کسی آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ پوری امت بھی اس رخصت کو ختم نہیں کرسکتی،جو دین نے باقی رکھی ہے ۔ نسخ تو اللہ کے رسول بھی خود نہیں کرسکتے بلکہ جو شریعت بھیجنے والا ہے اسی کی طرف سے آپ نسخ کا حکم لاتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
{وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِنْ ہُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُوْحٰی}[النجم:۳]

اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چیز کانسخ نہیں کرسکتے تو سارے صحابہؓ بھی مل کر کیسے کر سکتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں ہمیں سمجھانے کے لیے اللہ تعالی نے انتہائی انداز اختیار کرتے ہوئے اپنے رسول کی زبان سے کھلوایا:

{وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الاَقَاوِیْلَ، لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ، ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ، فَمَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنَ}[الحاقہ:۴۴]

مزید برآں یاد رہے کہ نسخ کے بارے میں علمائے اصول کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد نسخ نہیں ہوسکتا، کیونکہ نسخ کا تعلق وحی سے ہے اور آپ کے اس دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد وحی کا انقطاع ہوچکا ہے۔ کتب اُصول میں صراحت ہے کہ والاجماع لیس بناسخ یعنی ساری اُمت بھی مل جائے تو کسی شرعی حکم کا نسخ نہیں کرسکتی۔ البتہ کسی حدیث کے مفہوم کے خلاف اجماع اُمت اگر ثابت ہو جائے تو اُصولیوں کے ہاں اس کی توجیہ یوں کی جاتی ہے کہ اجماع کسی ناسخ نص کی موجودگی کا قرینہ ہوتا ہے،جو بظاہر ہمارے سامنے نہیں ہوتی، لیکن اجماع خود ناسخ بہرحال کبھی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عثمان یا صحابہ کرام کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ رکھنا کہ منزل من اللہ اختلاف قراء ات قرآنیہ کو انہوں نے ختم کردیا تھا، انتہائی بد عقیدتی پر مبنی ہے، بلکہ اس پہلو سے تو یہ نظریہ کفر پر مبنی ہے کہ اللہ تعالی حفاظت قرآن کے مدعی ہیں اور ان کی صفت ’شہید‘ اور صفت ’المومن‘ کے باوجود ہمارے یہ کرم فرما ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہوگیا اور نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کو علم بھی نہ ہوسکا۔ یاد رہنا چاہیے کہ یہی الزام تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں نے ان پر لگا کر ان کو شہید کیا تھا۔

المختصر اختلافِ قراء ات سے مراد تنوع کااختلاف ہے، تضاد کا نہیں ہے اور اگر کہیں نصوص شرعیہ بشمول قراء ات قرآنیہ میں آپ کو اختلاف تضاد محسوس ہو تو بشرطِ صحت ایسا اختلاف ہمارے نقصِ فہم کی وجہ سے ہوگا، کیونکہ دین میں حدیث، قرآن یا قراء ات قرآنیہ کا باہمی اختلاف تضاد کا ہو ہی نہیں سکتا۔ دلیل اس کی ہے:
{ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفا کَثِیْرَا}[النساء:۸۲]
چنانچہ ایسی صورت میں ہمارا انکار کرنا یا قبولیت میں پس وپیش کرنا انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اس قسم کے اختلاف سے رسول اللہ نے اُمت کو ڈرایا ہے۔

سوال نمبر13: کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے کہ مختلف لوگوں کو آپ نے مختلف طرح سے ایک چیز بتائی ہو؟
جواب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات خود اپنی ذات کی طرف سے کبھی بھی مختلف نہیں ہوتیں ۔ آسمان سے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی جائے گی ویسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتاناہے۔ آپ رسول ہیں ، آپ کاکام اپنی طرف سے اِضافہ کرنانہیں ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو بتایاجاتاہے وہی کام آپ نے آگے کرناہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

{ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی اِنْ ہُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُوْحٰی }[النجم:۳]

اگر آسمان سے ایک چیز میں رخصت اترے اور آپ کو کہا جائے کہ آپ کی اُمت کے لیے اس کو سات طرح پڑھنا جائز ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کو سات چیزیں پہنچانے کے پابند ہیں ، نہ کہ ہر بات ہر آدمی کوپہنچانے کے پابند ہیں ۔ یہ نکتہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حکم ہر آدمی کو نہیں پہنچایا، بلکہ صورتِ حال یہ درپیش رہی کہ جس کو جومسئلہ درپیش ہوا اس کو بتا دیا۔بعض لوگوں کو کئی اہم چیزوں کا علم نہیں ہوسکا، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو لوگوں کو بعد اَزاں کئی احکامات کا علم ہوا۔ آپ کی ذمہ داری قرآن کے الفاظ میں یوں تھی:

{یٰاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ}[المائدہ:۶۷]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حقِ رسالت اَدا فرما دیا۔آپ کی تعلیمات میں اگر اللہ کی طرف سے کوئی اختلاف (اختلاف سے مراد اختلاف مخیر ہے) کی گنجائش تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی گنجائش بھی لوگوں تک پہنچائی ہے۔ چنانچہ قراء ات قرآنیہ کی گنجائش میں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو ایک انداز، دوسرے کو دوسرا، تیسرے کو تیسرا اور چوتھے کو چوتھا انداز سیکھایا تو اس میں حرج کی کیا بات ہے؟

یہاں تو افضل و غیر اَفضل کی بحث بھی نہیں ہے۔قراء توں کے اختلاف کے ضمن فرمایا:
( کلھن شافٍ کافٍ ) [نسائی:۹۴۱ ]

یعنی جو مرضی پڑھ لو ، بطورِ قرآن کفایت کرجائے گا۔ الغرض آپ نے مختلف لوگوں کو مختلف اندازوں سے پڑھایا۔ اگر آپ تمام کوایک طرح پڑھاتے تب قراء توں کا اختلاف اُمت تک منتقل نہ ہوپاتا اور اگر ساروں کو سارے اندازوں سے پڑھاتے تو حرج واقع ہوتا۔ البتہ آپ نے جس طرح بھی پڑھایا دیگرلوگوں کے لیے بمصداق (فاقرء وا ما تیسَّر ) اِجازت موجود تھی کہ وہ منزل من اللہ اَسالیب میں سے کسی طرح بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ الغرض یہ سارے پہنچانے کے مختلف انداز ہیں اور آپ نے حقِ رسالت اَدا فرما دیا۔ دین کے آگے منتقل کرنے اور پہنچانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سا انداز اختیارکرنا ہے اس میں آپ اللہ کی طرف سے مکلف نہیں تھے کہ آپ نے کس کو کیا سکھانا اور کسی دوسرے کو کیا۔ آپ نے بس پہنچا دیا، کیونکہ اصل کام آپ کا پہنچانا تھا۔ باقی رہا معاملہ یہ کہ عمر اور ہشام بن حکیم دونوں قریشی تھے اور دونوں کو دو مختلف انداز کیوں سکھائے، جبکہ نزول قراء ات کابنیادی مقصد قبائل کے لہجے کے مطابق گنجائش دینا تھا تو اس میں کوئی حکمت ہوسکتی ہے، لیکن اگر کوئی حکمت نہ بھی ہو تو بھی کوئی حرج کی بات نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاکام صرف پہنچاناہے جو آپ نے بدرجۂ اتم پورا کیا ہے۔

ا س قسم کے اعتراضات کے کئی جواب ہو سکتے ہیں مثلااس اشکال کی وضاحت بعض لوگوں نے یوں بھی کی ہے کہ سبعہ اَحرف یعنی سبعہ لغات کے ضمن میں مرادفاتِ لغات، جیسے حَتّٰی وَعَتّٰی، متنوع لہجات جیسے امالہ، ابدال، تسہیل وغیرہ اور بلاغت کے متعدد اَسالیب ووجوہ، جیسے اختلافاتِ غیب وخطاب وغیرہ تمام شامل ہیں اور روایت میں الفاظ یوں ہیں کہ ہشام بن حکیم بن حزام سورۃ الفرقان کو’’حروفٍ کثیرۃ‘‘ میں پڑھ رہے تھے تواس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ متعدد حروف پرمشتمل ان کی تلاوت سبعہ احرف میں موجود بلاغت کے متعدد اسالیب کے اختلاف پر مشتمل ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ وجوہ ہشام رضی اللہ عنہ کوسکھا دی ہوں اورکچھ عمر رضی اللہ عنہ کو سکھادی ہوں ، چنانچہ کوئی تعارض باقی نہ رہا۔ وہ حضرات جو قراء ات قرآنیہ کے داخلی اختلافات کی متنوع نوعیتوں سے واقف نہیں ہیں انہیں اس بات کو سمجھنے کے لیے سورۃ الفرقان میں موجود ’فرشی اختلافات‘کا مطالعہ کرنا چاہیے، جس سے اس اختلاف کی نوعیت سمجھنا ممکن ہوسکے گا۔

سوال نمبر14: سبعہ اَحرف سے کیا مراد ہے؟ نیز بتائیں کہ دین تو واضح ہے تویہ مسئلہ اس قدر معرکۃ الاراء کیوں ہے؟
جواب :اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب دُنیا سے تشریف لے گئے تو اس سے قبل دین وہدایت سے متعلقہ ہر بات کی مکمل وضاحت پیش فرما کر ہی گئے۔اور اللہ تعالیٰ نے جس دین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے بھیجا اس کی کیفیت قرآن کے الفاظ میں یہ تھی:
{کِتَابٌ أحْکِمَتْ اٰیٰتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ}[ھود:۱]
یعنی اللہ نے جو دستور اتارا اس کی صفت یہ ہے کہ وہ بالکل دوٹوک ہے ، ثم فصلت کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف دو ٹوک ہی نہیں ہے، بلکہ مفصل بھی ہے۔ دو ٹوک کا مطلب ہے: Clearcut اور مفصل کا مطلب ہے کہ اس میں وضاحت کا کوئی پہلو باقی نہیں رہا۔نیز ’من لدن حکیم خبیر‘ میں غور کریں تو واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مِنْ نہیں فرمایا، بلکہ من لدن کہا۔ لدُن میں من کی بہ نسبت اختصاص کا مفہوم پایاجاتاہے ۔

اس دین میں ایسا دو ٹوک بیان اورتفصیلی وضاحت اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ تھا کہ اپنے بندوں کو جس چیز کامکلف کرنا چاہتے ہیں وہ بندوں تک ایسی نوعیت اور کیفیت کے ساتھ پہنچے کہ اتمام حجت ہو جائے۔
{لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اﷲِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ}[النساء:۱۶۵]
تو حجت رسول کے بجائے اللہ تعالیٰ کی لوگوں پر قائم ہونی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذمہ داری کو بہت خوب پیش فرمایا کہ رسول کوجو شریعت بطورِ دین دے کر بھیجی وہ أحکمت ٰایٰتہ ثم فصِّلت سے متصف ہے۔ پھر کلام میں مزید زور دیتے ہوئے اپنی ذات کی ذمہ داری کے پہلو کے بیان کے لیے فرمایا: من لَّدن حکیمٍ خبیرٍ کہ اس شریعت میں اَحکام وتفصیل میں کمال اس لیے ہے کہ جس خالق کی طرف سے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے اسے بھیجا گیا ہے وہ خالق اپنی صفت خبیر کی وجہ سے مخلوق کے شخصی، طبعی، نفسیاتی ہر قسم کے تقاضوں سے روزِ ازل سے بھی واقف ہے اور اپنی صفت حکیم کی وجہ سے حالات کی تبدیلی کے اعتبار سے بھی بات کس طرح بیان کی جانی چاہیے کہ مخاطب کو بات سمجھ آئے سے بھی باخبر ہے۔ ہربندے کے طبیعت وعادت کے الجھاؤ اللہ تعالیٰ کے سامنے تھے اور اس الجھاؤ کا اللہ نے اپنا دین بھیجنے سے پہلے ہی اپنے علم کے اعتبارسے لحاظ کرلیا۔ اور یہ سارا کام کیوں تھا، اس کے حوالے سے فرمایا:ألا تعبدوا إلا اﷲ،کیونکہ اگر یہ دین ان صفات سے متصف نہ ہوتا تو پھر اِتمام حجت نہ ہوتی۔ اگر یہ دین واضح نہ ہوتا تو مقصد توعبادت کروانا ہے، جس بات پر بندگی بجا لانے کا تقاضا ہے اگروہ واضح ہی نہ ہو، تو اللہ کی حجت کیسے قائم ہوگی۔

اس تناظر میں اب
( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف )[بخاری:۴۹۹۲]

کا مفہوم سمجھتے ہیں ۔رسول اللہ کے بجائے اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری تھی کہ جب اس بات کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اپنی مخلوق تک پہنچایا تواس کا مفہوم بھی واضح کرے۔ صحابہ میں اس حدیث کا مفہوم اتنا واضح تھا کہ کبھی یہ اشکال پیدا نہیں ہوا کہ سبعہ احرف کا مفہوم کیا ہے، حتیٰ کہ آپ روایات دیکھ لیں کہ صحابہ کا حروف وقراء ات کے ضمن میں باہمی اختلاف ہوا اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تصفیہ نزاع کے لیے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)[بخاری:۴۹۹۲]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کے اس اختلاف کی بابت( ہکذا أنزلت،ہکذا أنزلت ) [بخاری:۴۹۹۲ ] فرما کر اس سب کو ’سبعہ احرف‘ میں شامل کردیا اور صحابہ کو سمجھ آگیا کہ سبعہ احرف سے مراد قراء توں اور تلاوت کے متعدد اَسالیب کا اختلاف ہے اور یہ منزل من اللہ ہے۔اس قسم کی تمام روایات میں ایک شے بالکل قطعی ہے کہ سبعہ اَحرف میں زیر بحث اختلاف کا تعلق اداء وتلاوت سے ہے، ناکہ معانی ومفاہیم دین سے متعلق اور صحابہ کو اس بارے میں کوئی اِشکال نہیں تھا۔آج ہم بھی جب حدیثیں پڑھتے ہیں تو کبھی دل میں اشکال پیدا نہیں ہوتا کہ ( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف )[بخاری:۴۹۹۲] کا مفہوم قراء توں کے اختلاف کے علاوہ کچھ اور ہے۔ ان روایتوں کے سیاق وسباق اور پس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں معانی قرآن اور بیانِ دین سے قطع نظر تلاوتِ قرآن کے ضمن میں یہ اختلافات سامنے آئے، یہی وجہ ہے کہ جب آپ صحابہ کو وضاحت فرماتے کہ ( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف ) [بخاری:۲۹۹۴] تو ساتھ ہی یہ فرماتے: ( کلّھن شافٍ کافٍ، فاقرء وا ما تیسَّر )[نسائی:۹۴۱] ۔ فاقرؤا کا مطلب ہے کہ پیچھے بحث قراء ات کے اختلاف کی چل رہی تھی اور اس ضمن میں آپ کا قرآن کو سبعہ اَحرف پر نازل ہونے کی اطلاع دینے کا تعلق بھی قراء ات کا بیان ہی تھا۔

در اصل سبعہ احرف کے الفاظ مختلف النوع مسائل کے ضمن میں مختلف اَحادیث سے وارد ہوئے ہیں ، جن میں سے بعض روایات میں سبعہ أحرف کے ذکر کے بعد سات قسم کے معانی کا بھی ذکر ہے، لیکن ان روایات کا کوئی تعلق قراء توں کے ضمن میں وارد شدہ سبعہ اَحرف سے نہیں ۔ سبعہ اَحرف بمراد سبعہ معانی کے اعتبار سے بعض لوگوں نے سبعہ اَحرف کا مفہوم بیان کیا ہے، لیکن جب بعض متاخرین نے سبعہ احرف کی تشریحات کو اکٹھا کیا تو تمام اَنواع کی اَحادیث میں وارد شدہ سبعہ احرف کی جمیع تشریحات کو ایک مسئلہ کے ضمن میں پیش کردیا، جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سبعہ اَحرف کی تفسیر میں علماء کے مابین بہت اختلاف ہے، حالانکہ امر واقعہ میں ایسا نہیں ۔اس لیے سبعہ احرف سے متعلقہ احادیث کی تشریح سے قبل اس بات کو ضرور جان لینا چاہیے کہ سبعہ اَحرف کے ضمن میں وارد شدہ روایات پانچ مختلف النوع مسائل سے متعلق ہیں ، جن کو پانی پتی سلسلہ کے مایہ ناز قاری وعالم شیخ القراء مولانا قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ نے علیحدہ علیحدہ نکھار کر اپنی تصانیف میں بیان کردیا ہے، چنانچہ جن سبعہ اَحرف کا تعلق سبعہ معانی سے ہے، وہ ان سبعہ احرف سے الگ ہیں جن کا تعلق اختلافِ قراء ات سے ہے۔ وہ احادیث علیحدہ ہیں اور یہ علیحدہ ہیں ۔ پھر واضح رہے کہ سبعہ احرف بمراد سبعہ معانی سے متعلق روایات استنادی اعتبار سے پایۂ ثبوت کو بھی نہیں پہنچتیں ،اس لیے قراء کرام یا محدثین عظام کو کبھی بھی سبعہ اَحرف بمعنی قراء ات کو سمجھنے میں اشکال نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں جب بھی سبعہ احرف کے ابواب قائم کیے تو سبعہ احرف بمراد سبعہ قراء ات جیسی احادیث ہی لے کر آئے ہیں ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
یہ مسئلہ الجھاؤ کاباعث کیوں بنا؟
سبعہ اَحرف موجودہ قراء ات کے اندر موجود ہیں تو سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ قراء ات میں کہاں موجود ہیں ؟ اس موضوع پر پیچھے مفصل بحث ہوچکی ہے کہ آپ کے ارشاد: ( فاقرؤا ماتیسر ) کے مطابق اور ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کا اسی اجازت کی روشنی میں قرآن کریم کو ’’حروف کثیرۃ‘‘ پر پڑھنا کی روشنی میں بعد ازاں سبعہ احرف آپس میں خلط ملط ہو کر اب نئے سینکڑوں اندازِ تلاوتوں (sets) میں ڈھل گئے ہیں ، البتہ یہ تمام سیٹ منزل من اللہ سات اَسالیبِ تلاوت سے باہر نہیں اور اب سبعہ احرف کو صرف انہی اَسالیب میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اختلاف اس میں نہیں ہے کہ حروف کی تفسیر قراء ات سے کی جائے یا معانی سے، بلکہ اہل علم کے ہاں سبعہ اَحرف میں صرف سات اَسالیب کے تعین میں اختلاف ہے کہ وہ سبعہ اَسالیب کون کون سے ہیں ؟


سبعہ اَحرف جب مروجہ قراء ات میں ڈھلے ہیں تو اب سینکڑوں سیٹ بن گئے ہیں ، اب جو مابعد اختلاط موجود قراء توں کو سامنے رکھ کر سبعہ احرف کی تشریح کرنے کی کوشش کررہے ہیں انہیں اس کا مفہوم سمجھنے وسمجھانے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔ سینکڑوں ترتیبات تلاوت میں موجود بنیادی سبعہ احرف کے سات اَسالیب سے قطع نظر غور ہو رہا ہے کہ سبعہ احرف کون کون سے ہیں ، حالانکہ مشکل یہ ہے کہ بہرحال مروجہ قراء ات قرآنیہ متواترہ سات اَسالیب سے زیادہ ہیں ۔ متاخرین میں یہ اختلاف بہت ہی پھیلا ہے۔ اس سلسلہ میں امام الفن ابن جزری رحمہ اللہ کا ایک معروف قول یوں ہے کہ میں تیس سال اس حدیث میں غور کرتارہا، حتی کہ ان اَحادیث کا ایک معنی مجھ پر اللہ تعالیٰ نے منکشف فرمادیا۔ امام جزری رحمہ اللہ ، جو قراء حضرات کے مسلمہ امام ہیں ، ان کے اس قسم کے انداز سے یہ عام طور پربہت ہی الجھی کہ حدیث سبعہ احرف اتنی ’مشکل‘ ہے کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ تیس سال کے عرصہ کے بعد ایک مناسب توجیہ سمجھ جان پائے۔ ہماری رائے میں امام ابن جزری رحمہ اللہ سمیت عام اہل فن کی طرف سے دی گئی وضاحت در اصل بنیادی سبعہ احرف کے بجائے ان قراء توں کے تناظر میں سبعہ احرف کی تشریح ہے، جوخیرالقرون ہی میں خلط ملط ہوکر سینکڑوں قراء اتوں میں ڈھل گئیں تھیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سبعہ احرف کی تعریف میں یہ الجھاؤ دین وشریعت کا نہیں ہے، بلکہ یہ الجھاؤ سبعہ احرف کوخلط ملط کرنے سے پیدا ہوا ہے۔


امام ابن جزری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تیس سال تک میرے غورکے نتیجہ جو معنی مجھ پر منکشف ہوا وہ یہ ہے کہ سبعہ احرف سے مراد اختلافِ قراء ات کی سات وجوہ ہیں ۔ ان کے مطابق مروّجہ قراء ات کے مجموعہ اختلاف میں غور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ یہ تمام قراء ات سات وجوہ اختلافات سے باہر نہیں ۔ پھر انہوں نے اپنے تیس سال کے حاصل استقراء کو پیش کرتے لغات ولہجات کو ایک حرف اورچھ قسم کے مزید اختلافات کو چھ حروف قرار دیا ہے۔ امام ابن جزری رحمہ اللہ کی طرح جو لوگ سبعہ احرف سے مراد سبعہ اوجہ لیتے ہیں ، ان میں سے بعض لوگوں کا حافظ ابن جزری رحمہ اللہ کی سات وجوہ قراء ات سے اگرچہ تعبیر کا کچھ فرق ہے، لیکن اس معمولی اختلاف سے قطع نظر اپنے موقف کے اعتبار سے یہ تمام لوگ ایک ہی تشریح پر متفق ہیں ۔


دیگر کئی اہل علم کو اس تشریح سے اتفاق نہیں ، لیکن ان کا یہ اختلاف تضاد کا نہیں ،بلکہ محض تعبیر بیان کاہے، کیونکہ موجودہ قراء ات عشرہ کے بارے میں سارے ہی اس بات پر متفق ہیں کہ سبعہ احرف کا مصداق یہ قراء تیں ہیں ، اختلاف صرف سبعہ اَحرف کے تعین میں ہے۔جبکہ ابن جزریؒ اور دیگر اہل علم کی خدمات اپنی جگہ پر، لیکن یہ سارے لوگ سبعہ احرف کے حوالے سے بعد میں جو کہانی بنی ہے اس کو دیکھ رہے ہیں ، حالانکہ سبعہ احرف کی تشریح کا یہ الجھاؤ تو پیدا ہی بعد میں ہوا اور اگر شروع میں خلط قراء ات ہوا ہی نہ ہوتا تو یہ الجھاؤ یا سوال بھی کبھی نہ ہوتاکہ سبعہ احرف سے مراد کیا ہے؟ اب بھی اگر اس الجھاؤ کو ختم کرنا ہے، تو بالکل ابتداء میں چلے جائیں ،حل مل جائیگا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ میں اس سلسلہ میں کبھی الجھاؤ پیدانہیں ہوا کہ سبعہ احرف کی تعیین کی جائے۔


اب ہم سبعہ احرف کی تعیین اَساس سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جو رائے ہم بیان کریں گے وہ بھی غیر معروف نہیں اور اس کے قائلین کو اہل علم واہل فن کے ہاں نمایاں ترین مقام حاصل ہے، بلکہ اس رائے کا امتیاز ہی یہ ہے کہ اس کے قائلین مثلاً ابو محمد مکی ابن طالب القیسی، امام ابو عمرو دانی، امام طبری رحمہم اللہ وغیرہ بالعموم ابتدائی دور کے لوگ ہیں ۔البتہ پہلے قول کی طرح ان لوگوں کی آراء میں بھی ذیلی طور پر معمولی اختلاف ہے، لیکن بالعموم یہ تمام لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ سبعہ احرف سے مراد سبعہ لغات ہیں ۔ہماری رائے میں بھی یہ توجیہ ورائے ہی قوی ہے۔ اس کے دلائل ہم ذیل میں ذکر کیے دیتے ہیں :


1۔ اقوام عالم کی تمام زبانوں کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ ہر تیس میل کے بعد زبان کا لہجہ بدل جاتا ہے۔ اسی طرح عربوں میں بے شمار قبائل تھے اور ان میں لہجوں کا فرق موجود تھا۔ ان قبائل کے اعتبار سے ان کے لہجے ایک نہیں تھے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے فریاد کی کہ

( إن أمَّتی لا تطیق ذلک ) [مسلم:۸۲۱]
یعنی میری امت ایک لہجے وحرف پر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ سبعہ وجوہ کے قائلین کے متعین کردہ لہجات ولغات کے ایک حرف کے ماسوا باقی چھ حروف ، مثلا حذف و زیارت، تقدیم وتاخیر، غیب وخطاب، تذکیر وتانیث، حرکات وسکنات وغیرہ کے اختلاف میں تو ایسی کوئی مشکل نہیں کہ ان کو پڑھنے میں اہل عرب کو کئی مشکل ہوتی۔عربوں کو سَارِعُوْا کو وَسَارِعُوْا اور فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ کو وَیُقْتَلُوْنَ فَیَقْتُلُوْنَ یا یَعْلَمُوْنَ کو تَعْلَمُوْنَ وغیرہ پڑھنے میں کونسی دشواری ہوسکتی ہے، جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرکر کے حروف وقراء ات کے اختلاف کو مانگ رہے ہیں ۔ اُمت اس چیز کی کسی طرح طاقت نہیں رکھتی کہ ایک حرف کو مؤخر اوردوسرے کو مقدم کرکے پڑھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں بچے، عورتیں اور بوڑھے لوگ ہیں ،یہ تمام لوگ اپنی متعدد مشکلات کے باعث ایک حرف یعنی ایک لہجہ پر توقرآن کو پڑھ نہیں سکتے، حالانکہ یہ لوگ مذکورہ قسموں کے اختلاف کو توبغیر کسی دشواری کے پڑھ سکتے تھے۔

میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اصل مسئلہ لغتوں اور لہجوں کا تھا۔ اصل میں مشکل یہ تھی جیسے دیہاتی شہر آتے ہیں تو اردو والا لہجہ بڑی مشکل سے اختیار کرناممکن ہوتا ہے، اسی طرح اردو دان طبقہ کے لیے انگریزی سٹائل میں انگریزی بولنا بہت محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔ اور پھر لہجے کے اسلوب کو اگر ۱۰۰ فیصدلحونِ عرب کے مطابق ادا کرنا بھی شرط ہو تو یہ اور بھی مشکل ہے۔ سات حرفوں کے نازل ہونے کی اصل وجہ یہی تھی کہ بچے اس لیے نہیں پڑھ سکتے کہ وہ ابھی چھوٹے ہیں ۔ماں کی گود سے جو انہوں نے لہجہ سیکھا ہے وہ لہجہ ان کے لیے آسان ہے۔ بوڑھے اس لیے نہیں کہ وہ ساری زندگی گزار چکے ہیں ،اب وہ کیسے صحیح کریں ۔عورتیں اس لیے نہیں کہ عورتوں نے گھروں میں رہنا ہے، انہیں اس سارے معاملہ کے لیے وقت درکار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا: ( إنَّ أمَّتی لا تطیق ذلک ) [مسلم:۸۲۱ رضوان اللہ علیہم اجمعین واضح ہوا کہ جس بنیادی وجہ سے سبعہ احرف اترے، اس کا اصل تعلق لغات یا لہجات سے ہے۔


2۔ سبعہ احرف کی جو تشریح سبعہ اوجہ والے لوگ کرتے ہیں اس پر بنیادی اعتراض یہ لازم آتا ہے کہ سبعہ احرف بمراد سبعہ اوجہ کی تعبیر کے مطابق ہر ہر حرف اختلافِ قراء ات کے ایک ایک جوڑے پر مشتمل ہے اور کوئی ایک حرف بھی ایسا نہیں جس کو اگر پڑھا جائے تو تلاوت قرآن کا ایک انداز مکمل ہو۔ یعنی اس تعبیر میں مخصوص کلمات کو متعدد طرح پڑھنے کا تذکرہ تو ہے لیکن کوئی ایک حرف بھی تلاوتِ قرآن کا مکمل سیٹ نہیں بن سکتا،بلکہ ہم تو کہیں گے کہ تمام حروف بھی ملا لیے جائیں تو بھی قرآن کی تلاوت کا ایک مکمل انداز سامنے نہیں آتا۔ مثلاًہم سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرنا چاہتے ہیں تو کسی ایک حرف یا تمام حروف کو بھی ملا لیں تو ان میں سورۃ الفاتحہ کے مختلف فیہ مقامات کا ذکر تو آجاتا ہے، لیکن سورۃ کے متفق فیہ کلمات کا تذکرہ ہی نہیں آتا۔

جب ہم اس بات کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں کہ قرآن مجیدکا نزول تومکہ میں ہوا اور عام شہرت کے مطابق اس وقت قرآن لغت قریش کے مطابق تھا، جبکہ قراء توں کا اختلاف مدینہ میں اترا ہے، کیونکہ حدیث جبریل ومیکائیل اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا ان سے مکالمہ بنی غفار کے تالاب کے پاس ہوا تھا اور بنی غفار مدینہ میں بسنے والے ایک قبیلہ کا نام ہے۔اسی طرح قراء توں کے ضمن میں صحابہ میں جو اختلاف ہوا وہ مسجد میں ہوا تھا، جبکہ مسجدیں مکہ میں نہیں تھیں ۔ مکہ مکرمہ میں صحابہ کرام تیرہ سال قرآن کریم پڑھتے رہے، تو وہ قرآن کے کسی نہ کسی حرف کی تلاوت توتھی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حروف کی تفسیر سبعہ اوجہ سے کی جائے تو امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کے مطابق کوئی ایک حرف بھی لے لیں تو ثابت ہوتا ہے کہ مکہ میں ابتدائے نزولِ قرآن ہی سے صحابہ متعدد قراء توں میں پڑھتے تھے۔ مکہ میں قرآن کریم کے پڑھنے کا انداز کوئی ایک حرف لے لیں تو وہ یاتو تقدیم وتاخیر کا حرف بنتا ہے یا حذف واثبات کا حرف بنتا ہے یا تبدیلی حرکات کا حرف بنتا ہے یا متعدد لہجوں کا حرف بنتا ہے، قرآن کریم کا کوئی ایک سیٹ بہرحال نہیں بنتا۔ مکہ میں قرآن کریم تو اس طرح سے پڑھا جاتا تھا کہ جب قرآن پڑھیں تو وہ قرآن کی پوری سورت بننی چاہئے، مثلاً سورۃ الفرقان مکی ہے تو مکہ میں سورۃ الفرقان پڑھی جاتی تھی تو اس وقت یہ ایک حرف پر پڑھی جاتی تھی۔ وہ ایک حرف کون سا تھا؟ اگر آپ ان سات میں سے کوئی ایک حرف لے لیں تو سورۃ الفرقان نہیں بنتی، کیونکہ سات حرفوں میں سے کوئی حرف پورے قرآن کے اعتبار سے حرف کی تشریح نہیں ہے۔ اس ضمن میں حدیث سبعہ احرف میں وارد الفاظ

( کلّہن شاف کاف )[نسائی:۹۴۱]

بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ، کیونکہ ان سے مقصود یہ ہے کہ حروف سبعہ میں سے ہر حرف تلاوتِ قرآن سے کفائت کرتا ہے۔ جب ہم حروف کی تفسیر ایک مکمل سیٹ کے اعتبار سے نہیں کرتے تواعتراض پیدا ہوتا ہے کہ( کلہن شاف کاف ) [نسائی:۹۴۱] کا معنی کیا ہوگا؟ بات کو سمجھانے کے لیے عملی اعتبار سے کچھ مزید وضاحت کرتا ہوں کہ مثلا اگر سبعہ اوجہ والا قول سبعہ احر ف کی تشریح مانیں تومکہ میں تو بہرحال ایک حرف پر قرآن پڑھا جاتا تھا۔ اب اگر آپ وہ حرف غیب وخطاب والا لے لیں تو یہ بات بہرحال قطعی ہے کہ یعلمون،تعلمون دونوں مکہ کے اندر نہیں تھے، مکہ میں تو صرف ایک تھا۔ اسی طرح اگر آپ حرکات وسکنات کے اختلاف کا حرف لے لیں تو یَکْذِبون، یُکَذِّبُون دونوں میں سے کوئی ایک مکہ میں مقروء تھی دوسری نہیں ۔اسی طرح اگر آپ متعدد لہجات والا ایک حرف مراد لہجات لیتے ہیں ، تو لہجات میں تسہیل و تحقیق ، امالہ و عدم امالہ، ادغام واظہار وغیرہ لہجات شامل ہیں ۔اب مکہ میں پڑھے جانے والے قرآن میں یہ سارے لہجات قطعی طور پر مقروء نہیں تھے۔

سبعہ احرف بمراد سبعہ دراصل سبعہ احرف کی تشریح نہیں بلکہ پورے قرآن کے اندر استقصاء واستقراء کے بعد اضافی طور پر متنوع اختلافات کی ایک توجیہہ ہے۔

صحیح بات یہ ہے کہ حروفِ سبعہ سے اصل مراد لغات ولہجات کا اختلاف تھا، جن میں ضمنی طور پر لغات ہی کے قبیل سے بلاغت سے متعلق بعض دیگر اختلافات بھی آگئے تھے اور مکہ میں جس حرف کے مطابق قریشی ودیگر قرآن کی تلاوت کرتے تھے وہ لغت قریش تھا، ناکہ سبعہ اوجہ میں سے کوئی وجۂ اختلاف۔

3۔ اہل علم جانتے ہیں کہ ابتداءً قرآن کریم میں اختلاف قراء ت موجود نہیں تھا بلکہ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں سے نازل کیا گیا۔ اس سلسلہ میں معروف روایت حدیث جبریل ومکائیل ہے کہ وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی غفار کے تالاب کے پاس تشریف لائے۔ حضرت میکائیل نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ تعالیٰ سے اپنی اُمت کی آسانی کے لیے ایک حرف سے زائد پر قرآن کریم کو پڑھنے کی دعا کیجیے۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ دعا کرکے ان حروف کو لیا۔اب دوسرا حرف آیا،پھر تیسرا آیا اور چوتھا آیا، پھر پانچواں ، پھر چھٹا اور پھر ساتواں حرف آیا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سات حروف جو ایک ایک کرکے اترے ہیں ، یہ ایک ایک مکمل قرآن کے حروف تھے یا سات حروف ان شکلوں پر اتر ے، جو سبعہ اوجہ کے قائلین بیان کرتے ہیں ۔ اگر یہاں مراد یہ سات اوجہ والی تفسیر لی جائے توغیر مناسب معلوم ہوتی ہے، کیونکہ یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حدیث جبریل ومکائیل تقاضا کرتی ہے کہ ہر ایک حرف آسمانوں سے منفصل نازل ہوا ہے۔منفصل کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی دعا پر پہلے ایک حرف پر پوراقرآن اترا، پھر دوسرا اترا، پھر تیسرا اترا۔ یہ نہیں ہوا کہ پہلی باردعا کی: ( إن أمتی لاتطیق ذلک) [مسلم:۸۲۱] توحذف و زیادت کا حرف اتر آیا۔ آپ نے پھر کہاکہ امت ابھی بھی طاقت نہیں رکھتی تو اس کے بعد تقدیم و تاخیر کا حرف اتر آیا، مزیدکہا کہ طاقت نہیں رکھتی توحرکات کے اختلاف کا حرف اتر آیا۔

اگرروایات کو دیکھیں تو وہ بیان کرتیں ہیں کہ سبعہ احرف کا ہر حرف مکمل قرآن کی تلاوت کا ایک کامل سیٹ ہے اور ہر ایک حرف دوسرے سے منفصل حالت میں اترا ہے اور آپ کی بار بار دعا کے نتیجہ میں ایک ایک کرکے حروف کی بالآخر سات تک پہنچ گئی تو آپ نے مزید دعا نہیں کی۔ یہ سات انداز تلاوت قرآن مجید کے سات مستقل اسلوبِ تلاوت تھے، یہ نہیں کہ تمام کو ملا کر ایک اندازِتلاوت بنتا تھا یا تمام کو ملاکر دو اندازِ تلاوت بنتے تھے وغیرہ۔ سبعہ احرف بمراد سبعہ اوجہ کی تعبیر کے مطابق بنیادی حرج ہی یہ واقع ہوتا ہے کہ جب تک تمام وجوہ سبعہ کو ملایا نہ جائے، قرآن کا ایک مکمل سیٹ بھی نہیں بن پاتا۔ قراء ات عشرہ متواترہ کی بیس کی بیس روایات ہوں یا ان کے ذیلی اسی طرق، ان تمام اوجہ کو یک مشت ملائے بغیر کوئی ایک کامل حرف بھی تلاوت قرآن کا ایک مکمل سیٹ نہیں بنتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے سبعہ احرف سے سبعہ اوجہ کو مراد لیا ہے انہوں نے دراصل اختلاط کے بعد وجود میں آنے والی روایات کا تجزیہ کرتے ہوئے مجموعہ روایات کے اختلاف کااستقراء کرتے ہوئے سات قسم کی وجوہ قراء ات کی توجیہ کی، جبکہ قبل از اختلاط نازل ہونے والے سبعہ اَحرف میں سے ہر ایک حرف تلاوت قرآن کا ایک مکمل سیٹ تھا۔


لوگ جب ہم سے سوال کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ سبعہ احرف کہاں ہیں ؟ ہم کہتے ہیں کہ وہ موجودہ قراء ات عشرہ متواترہ میں ہیں ۔دوبارہ سوال ہوتاہے کہ قراء ات تو سات سے زیادہ ہیں تو سبعہ احرف قراء ات میں کیسے ہیں ؟ ہم کہتے ہیں کہ وہ تو خلط ملط حالت میں قراء ات میں موجود ہیں ، ایک ایک منفصل حالت میں موجود نہیں اور اب وہ سات حروف سات نہیں رہے، بلکہ خلط ملط ہوکر کئی بن گئے ہیں اور وہ خلط ملط ہونے سے قبل سات تھے اور وہ آسمانوں سے اسی طرح منفصلاً کامل قرآن کی صورت میں اترے تھے کہ ان میں سے ایک حرف مکہ میں پڑھا جاتا رہا، جبکہ باقی مزید چھ حروف مدینہ میں آکر نازل ہوئے۔

4۔ سبعہ احرف بمراد سبعہ لغات یا سبعہ لہجات کی تفسیر سبعہ اَحرف کے شان نزول سے ثابت ہے، جبکہ سبعہ احرف بمراد سبعہ اوجہ استقرائی تشریح ہے۔اُصول تفسیرپڑھنے پڑھانے والے جانتے ہیں کہ شان نزول سے آیت کی تشریح تفسیر کا ایک مسلمہ اُسلوب ہے۔ اسی بنیاد پر سلف کے ہاں تفسیر صحابہ تفسیر بالماثور میں داخل ہوتی ہے، کیونکہ شان نزول اگرچہ حدیث نہیں ہوتا، لیکن نزول قرآن کا عرف ہوتا ہے جو فہم قرآن یا فہم حدیث میں انتہائی مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے مقدمہ اصول تفسیر میں واضح کیا ہے کہ علمائے اصول کا اتفاق ہے کہ جب کسی آیت کی تشریح میں دو مختلف باتوں کا امکان ہو تو شان نزول کے ذریعے جو معنی متعین ہوگا اسے بہرحال ترجیح ہوگی۔امام صاحب رحمہ اللہ نے مثال پیش کی ہے کہ اگر کسی جگہ قسم کے بارے میں کوئی اختلاف ہوجائے اور قسم کی نوعیت کا تعین نہ ہورہا ہو کہ قسم کھانے والے نے کس نوعیت سے قسم کھائی ہے اور قاضی کے سامنے اس کا فیصلہ چلا جائے تو قاضی اس نوعیت کا فیصلہ اس سے کرے گا کہ قسم کھانے کی تحریک کس وجہ سے واقع ہوئی تھی اور جس وجہ سے قسم کھانے کی تحریک واقع ہوگی اس تناظر میں قسم کی نوعیت کا تعین کیا جائے گا اور اس کی روشنی میں قاضی فیصلہ کرے گا۔ سبعہ احرف یا قراء توں کے شان نزول کے سلسلہ میں اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ نزولِ سبعہ احرف کا سبب مختلف قبائلِ عرب کے بولنے کے متنوع اَسالیب کا فرق بنا تھا۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ سبعہ احرف کی تشریح میں موجود مختلف اقوال سبعہ احرف کی مراد کے سلسلہ میں معنوی احتمالات کے قبیل سے تعلق رکھتے ہیں ، چنانچہ جس تشریح کو شان نزول کی تائید حاصل ہے اسے ہی بہرحال ترجیح ہونی چاہیے۔


اہل علم نے قبائل عرب میں سے ان بڑے قبائل کا تعین کرنے کی کوشش بھی کی ہے ، جن کی رعائت رکھتے ہوئے سات لغات اتریں ۔ اسی طرح موجودہ قراء ات عشرہ میں موجود لہجوں سے متعلق اختلافات ، جنہیں اہل فن اختلاف قراء ات کے اصولی اختلافات کا نام دیتے ہیں ،کے بارے میں محنت کی ہے کہ واضح کریں کہ کونسا کونسا اختلاف کس کس قبیلہ کی لغت سے تعلق رکھتا تھا ۔

المختصر سبعہ احرف کامصداق موجودہ قراء ات عشرہ ہیں ، کیونکہ سبعہ احرف انہی قراء ات و روایات میں ڈھل کر ہم تک پہنچے ہیں ۔ امام ابو محمد مکی رحمہ اللہ اور امام دانی رحمہ اللہ وغیرہ کا قول عام فہم اور سمجھنے کے اعتبار سے زیادہ سہل ہے اور اس میں الحمد للہ بے جاتکلف بھی نہیں ہے۔

کیا سبعہ احرف میں صرف لہجات سے متعلق اختلاف ہی ہے؟
عام اہل فن کی طرف سے سبعہ احرف بمعنی سبعہ لغات پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ موجودہ قراء ات عشرہ میں لہجات کے علاوہ اور بھی کئی نوعیتوں کے اختلافات ہیں ۔ سبعہ اوجہ کے قائلین کے ہاں بھی ان دیگر اختلافات کوچھ حروف کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے، جبکہ لہجات ان کے صرف ایک حرف میں شامل ہیں ۔

اس اشکال کا بڑاسادہ جواب یہ ہے کہ نزول قراء ات کا اصل سبب تو عربی زبان میں لہجوں کا اختلاف تھا، لیکن دین وشریعت میں یہ اُسلوب عام ہے کہ ایک مشکل لوگوں کو در پیش ہوتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جب اس کے حل کے لیے وحی بھیجتے ہیں تو اس مشکل کے ضمن میں بعض ایسی دیگر مشاکل بھی حل کردیتے ہیں جو لوگوں نے مانگی نہیں ہوتی اور اللہ کا اپنے بندوں سے یہ معاملہ احسان، فضل وکرم اور محبت کے قبیل سے ہوتا ہے۔
اس بارے میں تو سب متفق ہیں کہ نزول سبعہ احرف کا اصل پس منظر تولہجات کی مشکل تھی، لیکن جب لہجات اترے تو اس کے ضمن میں اللہ نے فہم قرآن کے سلسلہ میں کچھ تفسیری مشکلات کو بھی حل کردیا۔ اب لہجات کے علاوہ جو دیگر اختلافات ہیں وہ در اصل بلاغت کے متعدد اَسالیب ہیں اوریہ بات طے ہے کہ متعدد اَسالیب میں بات کو سمجھایا جائے تو مخاطب کو بات بہتر سمجھ آتی ہے۔ تو ہماری رائے کے مطابق (امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کے استقراء میں لہجات کے علاوہ پیش کردہ ) دیگرچھ نوعیتوں کے اختلافات سات لہجات کے ضمن میں متفرق طور پر شامل ہیں ۔ بعض اہل فن نے ان چھ نوعیتوں کو بھی جب بلاغت کے متعدد اسالیب کے تناظر میں جمع کیا تو عملاً انہیں چھ کے بجائے سات قرار دیا ہے اوریہ ہم بات جانتے ہیں کہ ہر لغت لہجہ، مترادف کلمات اور متعدد اسالیب بلاغت کو شامل ہوتی ہے ، چنانچہ ہم نے سبعہ احرف کی تشریح میں بار بار لہجات یا لغات کے الفاظ اکٹھے بولے ہیں ،کیونکہ ہماری رائے میں سبعہ احرف سے بنیادی طور پر لہجات مراد ہیں ، البتہ ان کے ضمن میں لغات کے قبیل سے بلاغت کے متعدد اسالیب کا اختلاف بھی شامل ہے۔ اس لیے سبعہ احرف کی تشریح یا تو صرف لغات سے کرنی چاہیے اور لغات میں لہجات، مرادفات اور اسالیب بلاغت سب شامل ہوں گے یا لغات ولہجات کو باہمی مترادف کے طور پر بولنا چاہیے۔ رہے مرادفات جیسے حتّٰی، عتّٰی وغیرہ تو ان کے بارے میں اہل علم متفق ہیں کہ عرضۂ اخیرہ میں یہ سب منسوخ ہوگئے تھے۔ اس پس منظر میں سبعہ احرف کی تشریح جب ہم کرتے ہیں تو یوں کرتے ہیں :
یُرَادُ بہم سبعۃُ لہجاتٍ من لغاتِ العرب وسبعۃُ أوجہٍ من أسالیبِ البلاغۃ۔

شیخ القراء مولانا قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ نے اپنی گرانقدر تصنیف’دفاع قراء ات‘‘ کے صفحہ ۱۱۰ پر ہمارے مذکورہ موقف کے موافق رائے پیش فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ علم قراء ات کے اصولی اختلافات سات معروف قبائل عرب کے لہجات سے ماخوذ ہیں ، جبکہ وہ مخصوص کلمات جن میں بطور قاعدہ اختلاف نہیں یعنی قراء ات کے فرشی اختلافات، وہ سات متعدد اسالیب بلاغت سے ماخوذ ہیں ۔پھر قاری صاحب نے ان سات اسالیب بلاغت کی مکمل وضاحت بھی پیش فرمائی ہے۔

ایک بات بالکل واضح ہے کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کے ہاں ساتوں حروف بمعنی سبعہ اوجہ امام دانی رحمہ اللہ وغیرہ کے ہاں بھی مسلم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ سات لہجوں کو ایک حرف میں اور دانی رحمہ اللہ وغیرہ سات حرف مانتے ہیں ، پھر جزری رحمہ اللہ وغیرہ اَسالیب بلاغہ سے متعلق اختلافاتِقراء ات کو چھ حروف کے طور پر اوردانی رحمہ اللہ وغیرہ سات لہجات کے ذیل میں شامل مانتے ہیں ۔ سبعہ اَحرف کے اندر اللہ کی طرف سے لہجات کااختلاف بھی اترا تھا اور اسالیبِ بلاغت کا بھی، فرق صرف اتنا ہے کہ بعض لہجات کو ایک حرف، باقی اختلافات کو چھ حروف بناتے ہیں اوربعض دیگر قراء ات کو سات لغات یا لہجات قرار دے کر اس کے ضمن میں اسالیب بلاغت کو بھی شامل کرتے ہیں ۔ اختلاف صرف اتنا ہے کہ تعبیر ہم کون سی کریں ۔

ہماری رائے میں امام دانی رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے حدیثوں کے زیادہ قریب ہیں ، نیز متقدمین بالعموم اس رائے پر ہیں ، کیونکہ یہ مسئلہ کی اساس کے اعتبار سے زیادہ قرین از قیاس ہے۔ یہ سارا مسئلہ خلط قراء ات کی وجہ سے اصل میں الجھاؤ کا باعث بنا ہے اور جب یہ اختلاط نہیں ہوا تھا تو اس وقت یہ الجھاؤبھی نہیں تھا ۔

سوال نمبر15 : سبعہ احرف سے معین عدد مراد ہے یا کثرت؟ نیز اس سلسلہ میں کثرت اقوال بہت تشویشناک ہے۔
جواب: شریعت میں جب کسی جگہ پر کوئی عدد بول کر شارع کوئی حکم بیان کرے تو اُصولیوں کا موقف یہ ہے کہ اس عدد سے مراد پھر قطعی طور پر وہی متعین عدد مراد ہوگا، جیسے دین کہتا ہے کہ غیر شادی شدہ اگر زناکرے تو
{ فاجلدوا کل واحد منھا مائۃ جلدۃ…}[النور:۲]
تو یہاں مائۃ سے مراد سو سے کم یا زیادہ کوڑے نہیں بلکہ مائۃ کی دلالت سو کے عدد پر قطعی ہے۔ یہ لفظ اِصطلاحی طور پر’خاص ہے اور خاص کی دلالت اپنے مفہوم پر بالاتفاق اصولیین قطعی ہوتی ہے۔ اسی طرح اُصولیوں کے ہاں کسی لفظ سے مجازی معنی مراد لینے کے لیے دلیل صارف ضروری ہے،جو تقاضا کرے کہ یہاں لفظ سے حقیقی معنی مراد لینے کے بجائے مجازی معنی مراد لیے جائیں اور چونکہ یہاں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ، اس لیے
( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف ) [بخاری:۴۹۹۲]
سے مراد سات کا عدد ہی ہے۔ سات سے مراد ستریاکثرت کسی صورت میں مرادنہیں ہوسکتا،بلکہ دلیل یعنی حدیثِ جبریل ومکائیل تو اس کے خلاف صراحۃً دلالت کر رہی ہے کہ اس میں واضح طور پر موجود ہے کہ ایک ایک کرکے عد دسات تک جا پہنچا اور پھر آپ نے مزید کا تقاضا نہیں کیا۔

یہ مسئلہ اچھا خاصا معرکۃ الاراء بنا ہواہے، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کے ہمراہ تشریف لائے ، آپ کا کام صرف دین پہنچانا نہیں تھا، بلکہ آپ کا کام بمصداق قرآن:

{وَأنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ}[النحل:۴۴]

دین کی تبیین بھی تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ذمہ داری کو مکمل اداء فرما کر گئے۔ آپ نے دنیا سے رحلت فرماکر جانے سے قبل فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ، اگر تم ان دونوں پر تمسُّک کرلو توکبھی گمراہ نہیں ہوسکتے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ واضح نہیں ہیں تو کسی طور پربھی اس کے ساتھ تمسّک کا معنی متعین نہیں ہوتا۔اب مسئلہ صرف اِتنا ہے کہ بسا اوقات تبدیلی حالات کے اندربعض ایسے اِشکالات پیدا ہو جاتے ہیں جو دین کے اشکالات نہیں ہوتے، بلکہ ہمارے اپنے کچھ فقہی یا تشریحی مسائل ہوتے ہیں ۔ بعد ازاں کچھ اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اس کی وجہ سے اِبہام پیدا ہوجاتاہے۔ اسی طرح ’ سبعہ اَحرف‘ کے سلسلے میں کچھ ابہام پیداہوئے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ

{فَاقْرَؤا مَا تَیَسَّر مِنَ الْقُرآن} [المزمل:۲۰]

کے تحت مختلف قراء ات کو آپس میں ملا جلاکر پڑھنے کی دین میں جو اجازت دی گئی تھی اورجس کے مطابق صحابہ اور تابعین نے پڑھناشروع کیا توہم جانتے ہیں کہ سینکڑوں کی تعداد میں قرآن مجید کے انداز نئے ترتیبات تلاوت اور سیٹ تشکیل پاگئے۔ اب سبعہ احرف کی تشریح کا جو مسئلہ پیداہوا ہے تو اس بارے میں اگرچہ اس بارے میں امام زرکشی رحمہ اللہ اور امام سیوطی رحمہ اللہ وغیرہ نے ۳۵ ،۴۰ کے قریب اقوال نقل کئے ہیں ، لیکن اَقوال کی کثرت سے ہمیں پریشان نہیں ہوناچاہئے، کیونکہ اَقوال کی کثرت کی بنیاد پر اگر قرآن کی کسی آئت یا کسی حدیث میں تشکیک پیدا ہوجائے تو سبعہ احرف کی تشریح میں وارد اَقوال سے زیادہ اقوال بعض مقامات پر ملتے ہیں ، مثلاً

اگر ہم تفاسیر دیکھیں تو ایک ایک آیت کی تفسیر میں بسااوقات ۷۰،۷۰ تفاسیر موجود ہیں ۔
اسی طرح معروف مسئلہ کہ جمعہ کے اندر ایک گھڑی آتی ہے جس میں جو بھی دعا کی جائے وہ قبول کی جاتی ہے،اس کے بارے میں امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں علماء کے چالیس قول نقل کئے ہیں کہ یہ گھڑی کون سی ہے۔ اب چالیس اَ قوال سے یہ بات تولازم نہیں آئے گی کہ اس حدیث کے اندر شکوک پیداہوجائیں ۔

عام طور پر علماء کے اختلافات کو حل کرنے کے لیے عام اسلوب یہی ہے کہ دلائل کے اعتبار سے کسی بھی قول کو ترجیح دی جاتی ہے۔یہاں جب ہم اَقوال کا جائزہ لیتے ہیں تو اَقوال کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں ۔کچھ اقوال ایسے ہیں جو سبعہ احرف سے مراد معانی کی سات اَقسام مراد لیتے ہیں اورکچھ اقوال ایسے ہیں جو سبعہ احرف سے مراد پڑھنے کے اسالیب کی سات قسمیں مراد لیتے ہیں ۔ جو لوگ سبعہ احرف سے مراد معانی کی سات اقسام لیتے ہیں ،ان کے سامنے کچھ ایسی روایات موجود ہیں جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکرملتا ہے کہ سبعہ احرف کا مفہوم آپ نے امر، نہی وغیرہ بیان کی ہیں ، لیکن اوّل تو یہ روایات ضعیف ہیں ، لیکن اگر یہ ثابت ہوں بھی تو، جیساکہ علماء نے لکھا ہے کہ، اس کا محل اور ہے ۔ بہرحال سبعہ احرف بمعنی سبعہ معانی سے متعلق تمام اقوال کا کوئی تعلق سبعہ احرف بمعنی سبعہ اسالیب قراء ات سے نہیں ۔ اب جوباقی اَقوال رہ گئے ہیں ، ان میں غور کریں توباقی اقوال بنیادی طور پر دو بنیادی قولوں میں شامل ہیں ، جن کے بارے میں مکمل تجزیہ پیش ذکر کیا جاچکا ہے، لیکن ایک بات ضرور قابل توجہ ہے کہ جتنے بھی اقوال سبعہ احرف بمعنی سبعہ اَسالیب قراء ات کے سلسلہ میں مروی ہیں ، اگرچہ ذیلی طور پر ان میں کافی اراء ہیں لیکن سب کاایک بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے پڑھنے میں متنوع اسالیب موجود ہیں ۔ ساروں کا ایک بات پر اتفاق ہے قرآن مجید کے پڑھنے کاایک اسلوب نہیں ہے۔ اس کو اصولیوں کی اصطلاح میں اجماعِ مرکب کہتے ہیں اور اجماعِ مرکب کے بارے میں ہمارا موقف ہے کہ اس سے انحراف جائز نہیں ۔ خاص طور پرکثرتِ اقوال کی بنا پر اس حدیث کو متشابہات کہنا تو بالکل صحیح نہیں ۔

دوسری بات بڑی اہم یہ بھی سامنے رہنی چاہئے کہ یہ جو ۴۰ قول پیش کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں عام ذہنیت یہی ہے کہ یہ چالیس افراد کے چالیس اقوال ہیں ، لیکن جب امام سیوطی رحمہ اللہ کی الاتقان وغیرہ کو کھولتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ اقوال کئی افراد کی نسبت سے بیان نہیں کئے، بلکہ یہ اقوال صرف چند افراد کے غور وفکر کے احتمالات ہیں ۔اس کی وضاحت حافظ محمد زبیر حفظہ اللہ کے جاوید غامدی کے قراء ات سے متعلقہ نظریات کے رد پر لکھے گئے مضمون میں دیکھی جاسکتی ہے۔ایک آدمی کے مختلف اقوال بطورِ احتمالات پیش کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچ نہیں پارہا اور اگر وہ کسی نتیجے پر پہنچ جائے تو ایک ہی قول پیش کرتا ہے۔

کسی آیت یا حدیث کا مفہوم متعین کرنا دراصل فقہاء ومفسرین کا میدان ہے، قراء بھی اس سلسلہ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ، لیکن جن کا یہ میدان ہے کہ وہ سبعہ احرف کا مفہوم لہجوں ولغتوں سے متعین کرتے ہیں ۔

مفسرین کا یہ ضابطہ ہے کہ تعبیر کے اختلاف کو اختلافِ تنوع پر محمول کیا جائے گا۔ اگر ہم سبعہ احرف کی تشریح کے ضمن میں موجود اختلاف کو بھی اختلاف تضاد محمول کرنا شروع کردیں گے، تو پھرخیر القرون کی تفاسیر میں بھی ایسے ایسے اختلافات سامنے آئیں گے، جنہیں تنوع کا اختلاف کہہ سکنا ممکن نہ رہے گا۔ اسی طرح امام جزری رحمہ اللہ کا قول ہو یا امام دانی رحمہ اللہ کا، ہر ایک میں اختلافِ تضاد نہیں ہے، فقط تعبیر کا اختلاف ہے، کیونکہ سبعہ احرف کے بارے میں اتفاق ہے کہ وہ موجودہ قراء ات میں موجود ہیں ، نیز مروجہ قراء ات کے جمیع اختلافات کے بارے میں اتفاق ہے کہ وہ سبعہ احرف کے اختلاف سے باہر نہیں ہیں ۔

سوال نمبر16: اگر قراء ا ت احادیث کی طرح آئمہ کی مرویات کا نام ہے، تو حدیث کی طرح اس کی اَسانید کیوں نہیں ؟
جواب: یہ بات غلط فہمی اور کم علمی پر مبنی ہے کہ قرآن اور اسی کی قراء ات بدون سند سینہ بہ سینہ اُمت میں منتقل ہورہی ہیں ۔یہ مغالطہ ہمارے ہاں سکالرز حضرات کے ہاں عام ہے کہ قرآن خبر کے طریقہ سے اُمت میں منتقل نہیں ہوا۔ فرقہ فراہیہ نے تو اسی غلط بنیاد پر ایک نیا فلسفہ گھڑ لیا ہے کہ حدیثیں چونکہ خبر کے ذریعے سے اُمت تک منتقل ہوئیں چنانچہ وہ مجموعہ رطب ویابس ہیں ، اسی لیے وہ سنت وحدیث میں یوں فرق کرتے ہیں کہ سنت تو دین کی وہ روایت ہے جو اسانید سے قطع نظر مثل قرآن کے اُمت کے اتفاقی تعامل (نام نہاد تواتر عملی)سے ہمیں موصول ہوئی، جبکہ حدیث مجموعہ اخبار ہے۔ بہرحال یہ جہالت پر مبنی مغالطہ آمیز بات ہے۔ اگر اس کی بنیاد یہ چیز بنی ہے کہ قرآن مجید کے حوالے سے عام طور پر اسانید عوام الناس یا عام اہل علم میں معروف نہیں ، تو اس طرح تو کئی احادیث اور کتب احادیث کی سندیں اہل فن کے علاوہ لوگوں میں معروف نہیں ہیں ،

مثلاً مشکوٰۃ المصابیح اور بلوغ المرام کے اندر حدیثوں کی اسانید موجود نہیں ہیں ، تو کسی چیز کی سند ذکر نہ کرنے کا قطعی معنی یہ نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے سند ہے نہیں ۔مختلف وجوہات کی بنیاد پر بسا اوقات اسانید نقل نہیں کی جاتیں ۔ مثلاً بلوغ المرام اور مشکوٰۃ میں مؤلفین نے جو اسانید بیان ہیں کیں تو اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کتابوں کو بطورِ روایت کے وہ نقل نہیں کر رہے ۔جب مقصود روایت ہوگا تو بتانا پڑے گا کہ میں نے یہ روایت کہاں سے لی ہے اور اسے بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ثابت کرنا پڑے گا۔ عام طور پر صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ یا دیگر کتبِ حدیث کو مؤلفین نے بطورِ روایت نقل کیا ہے اوراسی لیے ان میں اسانید کا بھی ذکر ہے۔ البتہ جب روایت مقصود نہ ہو توسند کا ذکر ضروری نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح بخاری میں موجود معلق روایات ہیں ۔ معلق راویتیں امام بخاری رحمہ اللہ نے عام طور پر ترجمۃ الباب میں ذکر کی ہیں ۔ مقصود ان سے راویت نہیں ،بلکہ استدلال ہے۔جب مقصود استدلال ہو، جیسے میں اور آپ بحث کررہے ہیں اورمیں نے حدیث سبعہ احرف کوکئی دفعہ ذکرکیا ہے لیکن سند، حتی کہ راوی تک کا ذکر نہیں کیا، لیکن اس سے ہماری بحث پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ البتہ جب میں راویت کروں گا، تو آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس روایت کا استناد کیاہے اور اس کی اسنادی حیثیت کیاہے؟اسی طرح مشکوٰۃ اور بلوغ المرام کا معاملہ ہے۔ بلوغ المرام اور مشکوٰۃ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اورخطیب تبریزی رحمہ اللہ نے حدیثیں بطورِ روایت نقل نہیں کیں ،بلکہ انہوں نے ان مجموعوں کو صرف مطالعہ حدیث کے لیے تیار کیا ہے۔


بالکل اسی طرح قرآن مجید کا بھی معاملہ ہے۔ جب قرآن مجید کے بارے میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کس سند سے یہ قراء ات وروایات ہم تک پہنچیں اور ان کی سند کیا ہے تو ہم اپنے پاس موجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل اسانید ذکر کردیتے ہیں اور ان میں موجود رجال کے لیے معرفۃ القرّآء الکِبار از امام ذہبی رحمہ اللہ اورطبقات القراء از امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کو پیش کرتے ہیں ، لیکن اگر قرآن مجید سے مقصود راویت نہ ہو ،بلکہ بطورِ عبادت تلاوت کی غرض سے اس کو پڑھا جائے تو اَسانید کے ذکر کی ضرورت نہیں ۔عام طور پرجس طرح مساجد میں قرآن کریم پڑے ہوتے ہیں اور لوگ اَذانوں ونمازوں کے وقفہ میں قرآن اٹھا کرپڑھنا شروع کردیتے ہیں تواس وقت ان کا مقصود روایت نہیں ہوتا، چنانچہ تلاوت کی غرض سے کروڑوں کی تعداد میں جو قرآن عموما مطبوع ہیں ان کے شروع یاآخر میں بطورِ خاص سند کا اہتمام نہیں ہوتا، البتہ بعض علمی وتحقیقی سطح کے مطبوع قرآنوں کے آخر میں متعلقہ روایت کی صاحب روایت سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک سند موجود ہوتی ہے، لیکن صاحب روایت امام کے بعد سے لے کر عصر حاضر تک اسانید کا اہتمام عام قرآنوں کے بجائے اہل فن کے پاس موجود ہیں ۔ عوام الناس جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو اس سے ان کا مقصود روایت نہیں ،بلکہ تلاوت ہوتی ہے اور روایت کے سلسلہ میں وہ اہل فن ہی پر اعتماد کرتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کریم کو راویت کے طور پر محفوظ انداز میں نقل کردیا ہے، ہمیں ان پر اعتماد ہے اور ہمیں ان کی راویت سے کوئی غرض نہیں ہے ہم کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ قرآن کی محفوظ روایت متعین کردیں تاکہ ہم اسے پڑھ سکیں ۔جن لوگوں کو اس کی راویت میں کوئی شک ہے تو ان سے بحث کی جاسکتی ہے اور ان کو روایات واسانید دیکھائی جاسکتی ہیں ۔

قرآن مجیدمیں بھی حدیثوں کی طرح اَسانید کا اہتمام اہل فن میں شروع سے رہا ہے، لیکن جس طرح حدیث کی کتابیں جب مدون ہوگئیں تو اہل علم جانتے ہیں کہ اس کے بعد اَسانید کے اہتمام کی کوئی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور بعض حضرات جنہوں علمی روایت کے طور پر اگر سند کا اہتمام کیا بھی ہے تواس کی بنیاد پرحدیث پر حکم لگانے کا معاملہ بہرحال موقوف ہوچکا ہے، بالکل اسی طرح آٹھویں صدی ہجری میں النشرالکبیر وغیرہ کے منظر عام پر آنے کے بعد قراء ات کی اسانید کامعاملہ سمیٹ دیاگیا۔اہل فن کے ہاں امام ابن جزری رحمہ اللہ کو اسی اعتبار سے خاتمۃ المحقّقین بھی کہا جاتاہے کہ انہوں نے اسانید کے حوالے سے پوری جانچ پڑتال کرکے النشر کو ترتیب دے دیا۔اب النشر میں جو کچھ ہے اس سے باہر قرآن کریم کی کوئی قراء ت موجود نہیں اور جو کچھ نشر میں موجود ہے اس کی عمومی صحت پر اہل فن کا اتفاق ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کے النشر الکبیرکی تصنیف کے بعد قرآء ات قرآنیہ کی تدوین کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ اس کے بعد ہی سے اسانید کے ساتھ روایت کے معاملہ کو اضافی سمجھ لیا گیا۔ اب اہل فن کے ہاں قراء ات کی تلاوت یا علم قراء ات میں کسی کتاب کی تصنیف سے قبل سندوں کو پیش کرنے کا التزامی اہتمام موجود نہیں ، بعض کبار مشائخ ،جن میں آج بھی روایت واجازت کا اہتمام موجود ہے، وہ بہرحال اپنی تصانیف کے آغاز میں اپنی اسانیدِ قراء ات ذکر کردیتے ہیں ، لیکن عام اساتذہ وطلبہ، جو مدارس میں قراء ت سبعہ و عشرہ پڑھتے پڑھاتے ہیں ، ان میں کتنے لوگوں کے ہاں قراء ات کی سندیں موجود ہیں ۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں کتنے لوگ بخاری شریف پڑھتے پڑھاتے ہیں لیکن وہ سندوں کا اہتمام نہیں کرتے۔ قراء ات کی طرح احادیث کے علماء میں سے بہت تھوڑے لوگ ایسے ہیں جو اسانید کا بطورِ تبرک اہتمام کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں علم قراء ات کی درس وتدریس کے سینکڑوں مدارس موجود ہیں ۔ ان تمام مدارس سے ہزاروں لوگ بطور علم اور بطور روایت ان قراء ات کو پڑھ رہے ہیں ، لیکن ان میں سے بہت ہی تھوڑے لوگوں کے پاس اَسانید موجود ہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آٹھویں صدی ہجری میں تدوین علم کے بعد اب اَسانید کے اہتمام کا معاملہ اضافی ہوچکا ہے۔ اب سندوں کے اہتمام کی اُسی طرح ضرورت نہیں سمجھی جاتی جس طرح صحیحین اور دیگر مجموعہ ہائے حدیث کی ترتیب و تدوین کے بعد سندوں کا اہتمام ختم ہوگیا ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
سوال نمبر17: کیاقرآن مجید کے ایک ایک حرف ، ایک ایک آیت اور ایک ایک سورت کی سند موجود ہے یا مکمل قرآن کی سند ہوتی ہے کہ شروع میں ایک سند ذکر کی جائے اور پھرمکمل قرآن ذکر کردیا جائے؟
جواب: حدیث نبوی اجزاء کی صورت میں اُمت کو ملی ہے اور صحابہ کو بھی اجزاء کی صورت میں ہی موصول ہوئی۔ اگرچہ قرآن بھی حدیث کی طرح ابتداء ً تیئس سالہ عرصہ میں آہستہ آہستہ مختلف واقعات کے تناظر میں اجزاء کی صورت میں اترتا رہا، لیکن اس کا معاملہ حدیث سے دو طرح سے فرق رہا:

1۔ پہلا فرق تو یہ ہے کہ جب قرآن کی کوئی آیت اترتی تو آپ اس کے بارے میں فرمادیتے کہ اس کو فلاں سورۃ اور فلاں مقام پررکھا جائے اوراس طرح سے متفرق طور پر نازل ہونے والی آیات ایک نظام میں پروئی جاتیں ۔ اُمت کا اس مسئلہ میں اتفاق ہے کہ آج قرآن کی آیات وسورتوں کی جو ترتیب ہے ، جسے آج کل کی اصطلاح میں نظم بھی کہتے ہیں ، وہ توقیفی ہے۔نظم قرآن کی اسی توقیفی حیثیت کے پیش نظر لوگوں نے اس کی بنیاد پرقرآن کی تفسیریں لکھی ہیں ۔ حدیث میں چونکہ نظم کا مسئلہ ہی نہیں اس لیے وہاں نظم کی بنیاد پر استدلال ہی نہیں ہوتا۔

2۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ قرآن اللہ تعالی کی کلام کے الفاظ ہونے کی ناطے متعبّد بالتلاوۃ ہے، جبکہ حدیث چونکہ مراد الٰہی ہے چنانچہ اس کی تلاوت نہیں کی جاتی۔ اب چونکہ قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے اس لیے قرآن اجزاء کے بجائے بالاخر ایک مسلسل کلام میں ڈھل کر امت کو منتقل ہوا۔ حتی کہ عرضۂ اخیرہ میں قرآن کریم کی سور کی بھی ایک حتمی ترتیب متعین کردی گئی۔ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباري میں ذکر فرمایا ہے کہ جو بات قرآن کی آیات وسورتوں کی ترتیب پاجانے کے بعد دلائل کی روشنی میں اہل علم کے ہاں طے ہے وہ یہ ہے کہ اب قرآن کو موجودہ ترتیب سے ہٹ کر پڑھنا سور کی حد تک تو راجح قول کے مطابق جائز ہے، البتہ آیات کے معاملہ میں تمام اہل علم کے نزدیک بالاجماع حرام ہے۔

اس پس منظر میں اب ہم مذکورہ سوال کے جواب کی طرف آتے ہیں ۔ سائل کے ذہن میں یہ شبہ موجود ہے کہ جیسے حدیث میں ایک ایک چیز کی سند موجود ہے، اسی طرح ایک ایک آیت کی سند ہونی چاہئے یا قرآن مجید کے ایک ایک کلمے کی سند ہونی چاہئے، جب کہ یہ ذہنیت سطحی غورو فکر اور قرآن و حدیث کی روایت کے باہمی فرق سے ناآشنائی کا نتیجہ ہے۔اس سلسلہ میں پیچھے جوبات ذکر کی گئی ہے اس کے مطابق آج جب ہم حدیث کو پڑھتے ہیں تومختلف محدثین کی دی گئی ترتیب کے مطابق پڑھتے ہیں اوروہ ترتیب محدثین نے نظم کلام کے لحاظ سے ترتیب نہیں دی، بلکہ متعدد دینی موضوعات کی اہمیت وغیرہ کو مد نظر رکھ دی ہے۔

اہل قراء ات کے ہاں شروع سے اُسلوب رہا ہے کہ اگر وہ کسی استاد سے مکمل قرآن کو پڑھنے کے بجائے چند سورتوں تک پڑھتے ہیں تو اِجازہ قراء ات میں استاد صراحت کرتا ہے کہ فلاں طالب علم نے مجھ سے فلاں روایت یا تمام قراء ات میں مثلا سورۃ الفاتحہ سے سورۃ آل عمران کے آخر تک پڑھا اور جب طالب علم مکمل قرآن استاد سے پڑھے تو وہ مکمل قرآن کا ذکر کرکے اِجازت مرحمت کرتا ہے۔ عام طور پر اہل قراء ات میں قرآن کریم کو آیۃ آیۃ یا کلمہ کلمہ کرکے پڑھانے کا رواج ہی نہیں ۔ مشرقی ممالک میں روایت حفص اور مغربی ممالک میں رائج روایت ورش وغیرہ کے سلسلہ میں اَساتذہ کا اُسلوب یہ ہے کہ وہ مکمل قرآن سنے بغیر طالب علم کو روایت آگے نقل کرنے کی اجازت کبھی نہیں دیتے، البتہ تدریس قراء ات کے سلسلہ میں بعض اہل فن میں تساہل پایا جاتا ہے کہ وہ قراء ات کی اجازت عموما چند پارے اور مخصوص سورتیں سن کر دے دیتے ہیں کہ طلبہ میں طبعی کسولت بڑھ گئی ہے، جبکہ کبار مشائخ کی عادت آج بھی یہ نہیں کہ وہ طالبعلم کو بغیر مکمل قرآن سنے قراء ات عشرہ یا قراء ات سبعہ یا کسی مخصوص روایت کی اجازتِ روایت دیں ۔ تحریک کلیہ القرآن الکریم اور اس سے منسلک اداروں کا بالعموم معمول بھی یہی ہے کہ وہ مکمل قرآن سنے بغیر طالب علم کو اجازت یا سند عطا نہیں کرتے۔

سوال نمبر18: اہل فن کے ہاں ثبوتِ قراء ات کا ضابطہ کیا ہے؟ کیا قراء ات قرآنیہ متواترۃً ثابت ہیں ؟
جواب: سب سے قبل یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ قراء ات قرآنیہ کا ثبوت صرف قطعی ذریعہ سے ہوا ہے، جبکہ حدیث قطعی ذریعہ سے بھی ثابت ہوتی ہے اور ظنی ذریعے سے بھی۔ قطعی ذریعہ کا مطلب یہ ہے کہ روایت اتنے محفوظ طریقے سے ہو کہ اس میں غلطی کا اِمکان ختم ہوجائے اور مزید تحقیق کی ضرورت باقی نہ رہے، جبکہ ظنی ذریعے کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی بات بطورِ خبر پہنچتی ہے تو چونکہ جملہ خبریہ میں سچ و جھوٹ دونوں پہلو کا اِمکان ہوتا ہے، اس لیے ہم تحقیق کرکے کسی ایک پہلو کو متعین کرتے ہیں ۔ ظنی ذریعے سے ثابت خبر کی تحقیق کے اصول ’ علم مصطلح الحدیث‘ میں ذکر کیے جاتے ہیں ۔ خبر متواتر کے بارے میں تمام اہل علم متفق ہیں کہ اس سے علم قطعی کا حصول ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ خبر متواتر اُصول حدیث کا موضوع نہیں ہے۔ قرآن کے بارے میں ایک بات شروع ہی سے ذہن نشین کرلیں کہ اہل علم میں اس بات میں معمولی سا بھی اختلاف نہیں کہ قرآن مجید کا ثبوت ظنی ذریعہ سے نہیں ہوتا، صرف قطعی ذریعہ سے ہوتا ہے۔

مسئلہ زیر بحث پر بات کرنے سے قبل ایک اُصولی بات ابتداء ہی سے ذہن نشین کرلیں کہ جب دوسری صدی ہجری میں فلسفہ یونان کے عربی میں ترجمہ ہونے کے بعد دینیات کے باب میں فلسفیانہ نظریات کی امیزش ہوئی تو اہل سنت و اہل بدعت کے دو بنیادی مکاتب فکر وجود میں آگئے۔ جیسے جیسے زمانہ آگے آتا گیا، اس فلسفیانہ ذہن کی کارستانی میں اضافہ ہی ہوا۔ اس ضمن میں بدعتوں فرقوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حدیث تھی اور حدیث چونکہ بالعموم منقول ہی آحاد کے طریق سے ہے، چنانچہ اہل سنت کے بالمقابل انہوں نے قبولِ خبر واحد (بالفاظ دیگر حدیث نبوی) کے سلسلہ میں تشکیک کا رویہ اختیار کیا، جبکہ ان کے بالمقابل اہل سنت ومحدثین کرام نے بھرپور مزاحمت کا سامنا کیا۔ اسی کشاکشی میں معتزلہ سے متاثر ہوتے ہوئے بعض اہل سنت میں بھی قبول حدیث کے بارے میں یہ انتہائی غلط نظریہ پیدا ہوگیا کہ ثبوتِ روایت میں اصل بحث تواتر یا آحاد کی ہے، جبکہ قبول ورد حدیث کے ضمن میں فن حدیث میں طے کردہ معیارات یعنی راوی کا کردار ( عدالت) ، روایت کے معاملہ میں راوی کی مطلوبہ صلاحیت (ضبط) اور اتصال سند وغیرہ تحقیق روایت میں ’اضافی‘ مقام رکھتے ہیں ۔ حالانکہ معاملہ اس کے سراسر برعکس ہے۔ دین وشرع میں کسی جگہ یہ بات موجود نہیں ،بلکہ ثبوتِ روایت کے معاملہ میں ہر جگہ متعین طور پر معیار راوی کی عدالت وضبط اور اتصال سند وغیرہ ہی کو بتایا گیاہے اورکثرتِ روایت یا روایت میں ثبوت کی قطعیت وغیرہ مباحث حدیث میں اضافی طور پر قوت پیدا کرتی ہیں ۔ خبر مقبول و خبر مردود کا یہ معیار ہرگز نہیں کہ روایت آنے کے بعد فن حدیث کے اصولوں کو تو ایک رکھ دیا جائے اور تواتر وآحاد یا قطعیت وظنیت کی مباحث کو اصل بنالیا جائے۔ یہ بدعتی طرز فکر ہے، جس کا اہل فن میں سے پچھلے ایک ہزار سالہ تاریخ میں کوئی چھوٹا یا بڑا محدث قائل نہیں ۔ عصر حاضر میں کئی اہل علم نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، جن میں سے میں دو اہل علم کی کتب کا بطور خاص تذکرہ کروں گا کہ اس سلسلہ میں انہیں ضرور دیکھا جائے۔ پہلی کتاب تو ایم فل یا پی ایچ ڈی سطح کا ایک مقالہ ہے،جو مدینہ یونیورسٹی میں لکھا گیااور مطبوع ہے، اس کا نام ہے:المنہج المقترح فی علم المصطلح، جبکہ دوسری کاوش معروف عالم دین مولانا ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ نے فرمائی ہے اور انہوں نے نور الانوار شرح المنار از ملا جیون رحمہ اللہ کی دوسری وچوتھی جلد کے حاشیہ وتعلیق میں تفصیلاً اس موضوع پر بحث کی ہے ۔

اس تمہید کے بعد اب ہم آتے ہیں نفس مسئلہ کی طرف تو واضح رہے کہ علمائے اُصول کا تقریبا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید بطریق تواتر منقول ہے۔ہماری رائے میں بھی قراء ات کا ثبوت تواترسے ہوا ہے، البتہ تواتر کے مفہوم کے بارے میں اہل فن کا اختلاف ہے کہ تواتر کی تعریف کیا ہے؟ اس بارے میں اگر پہلے اہل فن میں موجود اس اختلاف کو حل نہ کیا جائے تو ہم یہ بات طے نہیں کرسکتے کہ قرآن مجید کس تعریفِ تواتر سے ثابت ہے۔ اس سلسلہ میں علماء کے دو اقوال ہیں :

1۔ عام اُصولیوں کے ہاں تواتر کی تعریف یوں ہے:
ما رواہ عددٌ کثیرٌ یستحیل العادۃ تواطئَہم علی الکَذِب۔
اس تعریف کی روسے متواتر حدیث ایسی روایت کو کہتے ہیں جسے اتنا بڑا جم غفیر نقل کرے کہ جھوٹ کا احتمال ختم ہوجائے۔

2۔ دوسرا قول یہ ہے کہ:
ما أفاد القطعی فھو متواتر
یعنی وہ خبرجو علم قطعی کے ذریعے سے ہم تک پہنچتی ہے، اس کو متواتر کہتے ہیں ۔یہ متقدمین محدثین کا موقف ہے، جبکہ کتب مدون نہیں ہوئیں تھیں ۔ اس دور میں جبکہ ابھی اِصطلاح سازی کا تصور سامنے نہیں آیا تھا، اس وقت کے علماء دو ہی چیزوں سے واقف تھے کہ روایت دو قسم کے ذریعوں سے ثابت ہوتی ہے: قطعی ذریعہ، ظنی ذریعہ۔جب علوم تدوین پاگئے تو بعد از تدوین فن حدیث بھی بعض اہل علم میں یہ رجحان پایا جاتا رہا کہ تواتر کی تعریف میں اصل چیز ’قطعیت‘ ہے، ناکہ کافی سارے رواۃ کی روایت۔ متقدمین اہل علم کے اس تصور کی توضیح اور وضاحت پر فن حدیث کی قدیم وجدید کتب میں بہت کچھ چھپ چکا ہے۔ ابھی پیچھے جن دوکتب کا میں حوالہ دے چکا ہوں ، اس ضمن میں ان میں انتہائی مفید بحثیں موجود ہیں ۔ ان لوگوں نے اپنی کتب میں اس موضوع بہت ہی خوب بحث کی ہے کہ تواترکی تعریف میں متاخر محدثین میں معتزلہ اور ان سے متاثر بعض فقہاء کی وجہ سے فلسفیانہ رنگ آگیا ہے، جس کے مصداق کا تعین کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اسی طرح امام مصطلح الحدیث، حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ اور تمام شارحینِ مقدمہ نے بھی متواتر حدیث کی عام تعریف، جس کا تعلق تواتر اسنادی سے ہے، پر خوب ہی کلام فرمائی ہے کہ مروجہ تعریفِ تواتر میں محدثین کے بجائے بعض متاخرین اصولیوں نے رنگ امیزی کی ہے، کیونکہ جو تعریف عام طور پر ’تواتر الاسناد‘ کی ذکر کی جاتی ہے اس کا مصداق تلاش کرنا امر واقعہ میں انتہائی مشکل، بلکہ ناممکن ہے۔ اس تعریف کے مطابق اگرانتہائی تلاش کیا جائے توزیادہ سے زیادہ تواتر الاسناد کا مصداق صرف ایک حدیث:
(من کذب علیَّ متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار) [بخاری:۱۰۷]
شائد بن سکے۔ مقدمہ ابن صلاح کے شارحین مثلا حافظ عراقی رحمہ اللہ وغیرہ نے وضاحت کی ہے کہ حافظ صاحب رحمہ اللہ اور عام محدثین امام حاکم، حافظ ابن عبد البر، امام سیوطی رحمہم اللہ وغیرہ جس تواتر کو مانتے ہیں وہ اسنادی یا بالفاظ دیگر عددی تواتر نہیں ،بلکہ تواترالاشتراک ہے۔ ایسا تواتر مختلف ’اخبار آحاد‘کے مجموعہ میں الفاظ یا معانی کے اعتبار سے موجود قدر مشترک سے حاصل ہوتا ہے، چنانچہ تواتر الاسناد تو اولا محدثین کی کوئی مسلمہ اصطلاح ہی نہیں اور جس اصطلاح کو محدثین کرام کے تواتر کے نام سے بیان کیا جاتا ہے وہ دراصل اخبار آحاد میں قدر مشترک سے حاصل شدہ علم قطعی ہے۔ثابت ہوا کہ محدثین کے ہاں خبر متواتر میں اصل چیز عددی یا اسنادی تواتر نہیں بلکہ تواتر الاشتراک ہے، جو روایت وخبر کے پہلوسے درحقیقت خبر واحد اور نتیجہ کے اعتبار سے ایسی روایت ہوتی ہے جس میں موجود شے علم قطعی سے ثابت ہوتی ہے ۔

ان تمام باتوں کے ساتھ اگر مزید یہ غور بھی کرلیا جائے کہ تواتر الاسناد کے حوالے سے محدثین میں مزید یہ بھی اختلاف ہے کہ روایت میں کتنے عدد افراد ہوں توجھوٹ کا احتمال محال قرار پاتا ہے۔ اس سلسلہ میں بھی عام محدثین کے بالمقابل محققین کا موقف یہ ہے کہ تواتر الاسناد میں بھی اصل چیز عدد نہیں ، بلکہ وہ قطعیت ہے جو درحقیقت روحِ تواتر ہے اور وہ قطعیت زیادہ کے بجائے چند افراد سے بھی حاصل ہوسکتا ہے، جیساکہ اس موضوع پر صاحبِ سبل السلام امیر صنعانی رحمہ اللہ نے توضیح الافکار میں اور حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموع فتاوی کی اٹھارویں جلد میں انتہائی مفید بحث فرمائی ہے۔

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ تواتر صرف عددی اکثریت سے حاصل ہوتا ہے وہ غلطی پر ہیں ، تواتر (یعنی روایت میں قطعیت) بسا اوقات راویوں کی کثرت سے اور بسا اوقات راویوں میں پائے جانے والی صفات عدل وضبط میں کثرت سے حاصل ہوتا ہے یعنی بسا اوقات راوی ایک ہی ہوتا ہے، لیکن وہ کئی آدمیوں کی مثل قوت رکھتا ہے، جیسے امام بخاری رحمہ اللہ ہیں ۔ حافظ صاحب رحمہ اللہ کی بات کے مدلول میں چار یا اس سے زائد رواۃ کی کثرت بھی شامل ہے،جسے عموما تواتر الاسنادکہتے ہیں ، اور چار سے کم رواۃ میں پائے جانے والی صفات کی قوت بھی شامل ہے،جسے اصطلاح محدثین میں خبر واحد محتف بالقرائن کہتے ہیں ۔ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر جھوٹ کااحتمال تین یا اس سے کم رواۃ میں ختم ہوجاتا ہے تو محدثین کے بالاتفاق ایسی شے بھی علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے۔ اس مثال میں ہم صحیح بخاری کیسلسلۃ الذھب کو پیش کرسکتے ہیں ۔ سلسلۃ الذھب سے مراد سونے کی وہ سند ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ ،اپنے استاد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اوروہ نقل کریں امام شافعی رحمہ اللہ سے اور وہ نقل کریں اپنے استاد امام مالک رحمہ اللہ سے اور وہ روایت کریں نافع رحمہ اللہ یا سالم رحمہ اللہ سے اور وہ روایت کریں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے۔ اس سند میں موجود تمام افراد کو امیرالمومنین فی الحدیث کا لقب حاصل ہے اور ہر ہر آدمی اپنی ثقاہت میں متعدد ثقہ راویوں کے برابر قوت رکھتا ہے۔

مذکورہ باتوں سے معلوم ہوا کہ محدثین کے ہاں خبر واحد کی بھی دوقسمیں ہیں :

۱۔ ایک خبر واحد وہ ہے جو علم نظری و ظنی کا فائدہ دیتی ہے، یعنی ایسا علم جس میں تحقیق ونظر کی ضرورت ہوتی ہے اور تحقیق کے بعد اس میں بھی سچ وجھوٹ میں سے ایک پہلو قطع ہوجاتا ہے۔
۲۔ دوسری خبر واحد وہ ہے جو صحت سند سے ثابت ہو اور متواتر خبر کی طرح علم قطعی کا فائدہ دیتی ہو۔ ایسی خبر کو محدثین کرام کی اصطلاح میں الخبر الواحد المحتف بالقرائن کہتے ہیں ۔ اس کے بارے میں امام ابن حجر رحمہ اللہ نے شرح نخبۃ اور النکت علی ابن الصلاح وغیرہ میں وضاحتاً لکھا ہے کہ اہل الحدیث کے ہاں ایسی خبر متواتر حدیث کی طرح علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے یا بالفاظ دیگرایسی خبر سے جوعلم حاصل ہوتا ہے، اسے متاخرین کی اِصطلاحات میں اگرچہ تواتر تو قرار نہیں دیا جاتا،کیونکہ تواتر اسنادی کے لیے کم از کم چار افراد کا ہر طبقے میں پایا جانا ضروری ہے،لیکن اس کے باوجود یہ قسم تواتر کی طرح ہے، کیونکہ قرائن اسے ایسی قوت بخش دیتے ہیں کہ یہ قطعیت کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔اہل الحدیث کے ہاں یہ قرائن کافی قسم کے ہوتے ہیں ، جن کی تفصیل کتب مصطلح میں موجود ہے۔ ان میں سے ایک قرینہ، جسے تقریبا تمام فقہی مکاتب فکر کے ہاں مقبولیت حاصل ہے، یہ ہے کہ ایسی صحیح روایت، جس کی صحت پر جمیع اہل فن کا اتفاق ہوجائے ، جسے اِصطلاحات میں تلقی بالقبول کہتے ہیں ، تو یہ اتفاق اسے قطعیت کے مقام پر فائز کردیتا ہے۔ صحیحین کو دیگر کئی قرائن کے ساتھ صرف اسی ایک قرینہ نے اُمت کے ہاں قطعیت کے مقام پر فائز کردیا ہے۔ عام طور پر علمائے احناف خبر واحد کی بنا پر واجب اور فرض میں ، حرام اور مکروہ تحریمی میں اور تخصیصِ عام اور تقییدِ اطلاق وغیرہ کی مباحث میں جمہور سے مختلف ہیں اور اس کی وجہ وہ یہی قرار دیتے ہیں کہ خبر واحد ظنی ہوتی ہے ، جبکہ خبر متواتر علم قطعی کا فائدہ دیتی ہے، لیکن علمائے احناف میں سے امام سرخسی رحمہ اللہ اور علامہ کشمیری رحمہ اللہ وغیرہ صحیحین کے قطعی الثبوت ہونے کے قائل ہیں ۔

الغرض قراء ات کے ثبوت میں چار قسم کا تواتر پایا جاتا ہے، جس کی تفصیل ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:

۱۔ خبرمتواترکی قسم تواتر الاسناد کی تعریف کے اعتبار سے اگر قراء ات کو دیکھا جائے تو قراء ات میں آئمہ عشرہ کے بعد سے عصر حاضر تک تواترالاسناد پایا جاتا ہے، البتہ آئمہ عشرہ سے قبل چونکہ ہر دم اختلاط ہورہا تھا چنانچہ تواتر الاسناد وہاں معدوم ہے۔

۲۔ آئمہ قراء ات کے ہاں ثبوتِ قراء ات کا عام ضابطہ یہ ہے کہ جو قراء ت صحتِ سند سے ثابت ہو اور مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک مصحف کے رسم کے موافق ہو، نیز لغات عرب کے خلاف نہ ہو تو اسے الخبر الواحد المحتف بالقرائن کے قبیل سے قرار دے کر قطعیت کے ساتھ قبول کرلیا جائے گا۔

امام ابن جزری رحمہ اللہ نے ان تین شرطوں پر ایک بات کا مزید اضافہ بھی فرمایا ہے کہ متعدد قرائن کے ساتھ ثابت شدہ اس قسم کی قراء ات پر اہل فن کا تلقّی بالقبول بھی حاصل ہونا چاہیے۔ اس بات کو دیگر اہل علم نے بھی قبول کیا ہے۔ ثبوت قرآن کے اس ضابطہ میں حافظ ابن جزری رحمہ اللہ کی طرف سے پیش کردہ اس اضافے کو میں بہت اہمیت کی نظر سے دیکھتا ہوں ۔ یہی وہ ضابطہ ہے جس نے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو قطعیت کے مرحلہ تک پہنچا دیا، کیونکہ صحیحین پر اہل فن یعنی محدثین کے اور قراء ات قرآنیہ پر اہل فن یعنی قراء کرام کے اتفاق کا معنی یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی تمام تر تحقیقات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ مرویات قطعی الثبوت ہیں ۔ یہاں ہم جاہلوں کے اتفاق کی بات نہیں کررہے، بلکہ ان لوگوں کی بات کررہے ہیں ،جو بغیر تحقیق کیے اتفاق نہیں کرتے،بلکہ مکمل جانچ پڑتال کرنے کے بعد ہی اتفاق کرتے ہیں ۔صحیحین پرماہرین فن کے اتفاق کے بعد ہی انہیں ما جاوز القنطرۃ کے مقام پر فائز کیا گیا ہے۔ اگر اسی قسم کا اتفاق موجودہ قراء ت عشرہ کو حاصل ہو تو اہل فن انہیں قراء ات میں شمار کرتے ہیں ورنہ نہیں ، بلکہ صحیحین کی صحت پر تو بعض لوگوں نے علمی اختلافات بھی کیے ہیں ، لیکن موجودہ قراء ات قرآنیہ عشرہ متواترہ کے ثبوت میں پچھلی بارہ صدیوں میں کسی ایک عالم نے بھی انکار نہیں کیا، بلکہ علامہ تاج الدین سبکی رحمہ اللہ کے بقول تو کلمہ طیبہ پڑھنے والے کسی عامی نے آج تک معمولی شبہ کا اظہار نہیں کیا۔

۳۔ ثبوت قراء ات کے سلسلہ میں ایک تیسرا تواتر وہ ہے جوکہ حدیث میں عام طور پر نہیں پایا جاتا۔ اسی لیے عام اہل الحدیث اس سے واقف بھی نہیں ۔ اسے اہل قراء ات کی اصطلاحات میں ’تواتر طبقہ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن کریم متعبّد بالتلاوۃ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ خواص میں پڑھا پڑھایا جاتا رہا،چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھایا تو صحابہ میں سے ہر شخص کا قرآن سے تعلق رہا، یہی حال تابعین و تبع تابعین میں رہا، حتیٰ کہ آج تک امت میں سے ہر آدمی قرآن کو پڑھتا ہے، جبکہ حدیث کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ عام لوگوں کا علم حدیث سے صرف اتنا تعلق رہا کہ اہل علم سے مسائل پوچھتے رہے اور حدیث کے باقی علم کو اہل الحدیث کے سپرد کرکے اپنے دنیاوی مشغول ہو رہے۔ اس اعتبار سے اگر جائزہ لیا جائے تو قرآن کریم صحابہ، تابعین، تبع تابعین سے لے کر آج تک ہردور میں پڑھا جارہا ہے اور مختلف ممالک میں ہمیشہ سے مختلف قراء ات رائج رہی ہیں ، چنانچہ وہ لوگ جو مدارس میں قراء اتِ قرآنیہ کے محافظین ہیں اگر وہ ہر دور میں ہزاروں میں رہے ہیں تو معاشرہ میں انہی قراء ات کو پڑھنے والے عوام الناس ہر زمانہ میں لاکھوں ، کروڑوں رہے ہیں ۔ اب مثلا مدارس میں روایتِ حفص سینکڑوں لوگ اَسانید سے اَخذ کر کے آگے نقل کررہے ہیں ، جبکہ صرف پاکستانی معاشرہ میں سولہ کروڑ عوام بھی اسی روایت پر بلا اختلاف اتفاقی تعامل سے عمل پیرا ہے۔ یہ مدارس میں پڑھائی جانے والی روایت حفص کا انتہائی قوی قرینہ ہے۔ اسے اہل قراء ات ’تواتر طبقہ‘ کے نام سے بیان کرتے ہیں ، جس کا حدیث میں سرے سے وجود نہیں ۔یہ کتنا مضبوط قرینہ ہے کہ اس کی بنیاد پر خبرواحد کو وہی تقویت مل جاتی ہے، جو تلقّی بالقبول کے ذریعے سے قراء ت کو ملی ہے۔ آج اگر اُمت میں ساری قراء تیں متداول نہیں ہیں ، توبھی اس قسم کے تواتر کا بڑا فائدہ ہے کیونکہ قراء عشر تک تو اہل فن کے ہاں بھی تواتر اسنادی موجود ہے، معاملہ اس کے بعد کا ہے اور قراء عشر کے دور میں تمام سبعہ احرف عوام وخواص میں متداول تھے، چنانچہ آئمہ عشر تا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تواتر طبقہ موجود ہے۔

۴۔ یہاں ثبوتِ قراء ات کا ایک چوتھا ذریعہ بھی ہے جو تواتر کی ایک مخصوص قسم ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید کا ایک ایک کلمہ، ایک ایک آیت اور ایک ایک سورت کو بھی تواتر حاصل ہے، لیکن یہ تواتر سندو عدد والا تواتر نہیں بلکہ وہ تواتر ہے جسے محدثین ’ تواتر‘ کے مطلق نام کے مصداق کے طور پر پہنچانتے وبیان کرتے ہیں ۔ تواتر اسنادی کے بارے میں تو پیچھے واضح ہوچکا ہے کہ محدثین اس کے انکاری ہیں ،انہوں نے زیادہ سے زیادہ اس کی اگر کوئی مثال تسلیم کی بھی ہے تو وہ صرف ایک حدیث (من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار) [بخاری:۱۰۷] ہے۔ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ یہ حدیث بھی تواترِاسنادی کی تعریف پر پوری نہیں اترتی، کیونکہ دیگر روایات کی طرح اس روایت کے بھی ہر طبقہ میں کثرتِعدد موجود نہیں ، بلکہ متعدد اَخبار آحاد میں اس حدیث کے مذکورہ الفاظ مشترک طور پر وارد ہوئے ہیں ، چنانچہ تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ یہ روایت ان مشترکہ الفاظ کے اتفاق کے ساتھ درجہ یقین کو پہنچتی ہے۔ اس وضاحت کی رو سے یہ روایت بھی تواتر اسنادی کے بجائے تواتر اشتراکی ہی ہے۔ بعض لوگوں نے مکمل روایت میں الفاظ کے اشتراک کی بناپر حاصل ہونے والے تواتر کو تواتر لفظی اور روایات میں معنوی قدر اشترک کی بنا پر حاصل ہونے والے تواتر کو یہ لوگ تواتر معنوی کا نام دیتے ہیں ۔ بعض لوگوں نے مذکورہ تصور کی بنا پر اخبار احاد کی رو سے ثابت ہونے والی پانچ دیگر روایات کو بھی متواتر لفظی قرار دیا ہے، جن میں ایک روایت أنزل القرآن علی سبعہ أحرف [بخاری:۴۹۹۲ ] بھی ہے۔ ان روایات کی تفصیل کے لیے الوجیز فی أصول الفقہ از ڈاکٹر عبد الکریم زیدان کے اردو ترجمہ جامع الاصول از ڈاکٹر احمد حسن رحمہ اللہ میں بحث سنت کا مطالعہ فرمائیں ۔

اسی طرح متعدد طرق میں مشترکہ طور پر ( إنما الأعمال بالنیات )[بخاری:۱] کے الفاظ موجود ہیں ، اگرچہ یہ روایت اپنی اصل کے اعتبار سے خبر غریب ہے، اسی اشتراکِ الفاظ کی بنا پر بعض حضرات نے اس روایت کو بھی ( من کذب علیَّ متعمدًا فلیتبوأ مقعدہ من النار )[بخاری:۱۰۷] کی طرح متواتر لفظی بتایا ہے اور بعض لوگ اس روایت کو متواتر معنوی شمار کرتے ہیں کیونکہ اس روایت میں وارد’ نیت‘ کا مضمون متعدد روایات میں آیا ہے، جن میں الفاظ کے اختلاف سے قطع نظر نیت کی فرضیت مشترک ہے۔بعض محدثین تواتر اشتراکی کو تواتر معنوی بھی کہتے ہیں ، لیکن صحیح یہی ہے کہ قدرِمشترک کا معاملہ کسی مضمون میں بھی ہوسکتا ہے اور متعدد روایات میں ثابت الفاظ میں بھی۔

اس تناظر میں اگر ہم قراء ات عشرہ متواترہ صغری وکبری کا جائزہ لیں تو یہ تمام قراء ات قرآنیہ تواتر الاشتراک فی الالفاظ اور تواتر الاشتراک فی الآیات کے اعتبار سے متواتر ہیں ۔ مثال سے بات یوں سمجھیں کہ قرآن کے کسی لفظ کو بھی اہل قراء ات کے ہاں چھ سے زائداندازوں سے نہیں پڑھا گیا، جب کہ قراء ات قرآنیہ متواترہ اَسی طرق کے ساتھ مروی ہیں ، گویا قرآن کریم آج امت کے پاس سبعہ احرف سمیت اَسی اسانید کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی مجموعہ قراء ت اگر اسی طرق سے ثابت ہیں تو ۹۵ فیصد متفق علیہ کلمات اسی روایات میں مشترک الفاظ کے اتفاق کے ساتھ متواتر لفظی کے طور پر ثابت ہوئے۔ اور جن کلمات میں دو دو قراء ات ہیں وہ اندازا چالیس چالیس اسانید میں موجود مشترک الفاظ کے اتفاق سے متواتر لفظی بنے۔ علی ہذا القیاس جو کلمہ چھ اندازوں سے پڑھا گیا تو وہ تقریبا تیرہ تیرہ اَخبار آحاد میں موجود مشترک الفاظ کی بنا پر متواتر لفظی میں شامل ہوئے۔ یاد رہے کہ چھ اندازوں سے جن کلمات کو پڑھا گیا ہے وہ صرف ایک دو ہیں ، جنہیں پانچ طرح سے پڑھا گیا ہے وہ اس سے کچھ زیادہ ہیں ، چار طرح سے پڑھے جانے والے کلمات مزید کچھ زیادہ ہیں ۔ اکثر کلمات میں دو یا تین طرح ہی سے پڑھنے کا اختلاف مروی ہے۔ الغرض اس اعتبار سے دیکھیں تو مروجہ قراء ت قرآنیہ عشرہ متواترہ میں موجود تمام آیات، کلمات اور سور متواترۃً ثابت ہیں اور محدثین کے ہاں تواتر سے بالعموم تواتر الاشتراک ہی مراد ہوتا ہے، چنانچہ محدثین کے معیار تواتر پر قرآن بہرحال ثابت ہے۔

المختصر قرآن کریم کے ثبوت میں پانچ طرح کے تواتر اورقطعیت کے ذرائع موجودہیں :

۱۔ تواتر اسنادی: قرآن مجید کے ثبوت میں اسنادی تواتر موجود ہے، البتہ آئمہ عشرہ تک ہے۔اگرچہ اس سے آگے تواتر اسنادی و تواتر عددی موجودنہیں ، کیونکہ آئمہ عشر سے قبل اختلاط روایات کا دور دورہ تھا۔

۲۔ تواترِطبقہ : اس قسم کا تواتر آئمہ عشرہ سے قبل تو تمام قراء ات کو حاصل رہا، البتہ عصر حاضر میں یہ تواتر صرف متداول چار قراء ات وروایات کو حاصل ہے۔ نیز تواتر کی یہ قسم صرف قرآن کریم کے ساتھ خاص ہے۔

۳۔ تلقِّی بالقُبول:اس اعتبار سے قرآن مجید قطعی الثبوت طریقہ سے ثابت ہے، جسے بعض لوگ تواتر سے ہی تعبیر کرتے ہیں ۔قراء اتِ عشرہ متواترہ کو جمیع فنون کے ماہرین نے ہر دور میں بالاتفاق قبولیت سے نوازا ہے۔ پوری دنیا کے جمیع مدارس اور جمیع اہل علم جو قرآن یا قراء ات قرآنیہ کو نقل کرنے والے ہیں وہ تمام اس بات پر متفق ہیں کہ مروّجہ قراء ات عشرہ قرآن ہیں ۔

۴۔ الخبر الواحد المحتف بالقرائن المفید للعلم القطعی: چوتھی بات جو ہم بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر ایک قراء ت صحتِ سند سے ثابت ہو اور اس میں رسم عثمانی کی موافقت اور لغات عرب کی مطابقت کی شروط بھی پائی جائیں تو ایسی روایت خبر واحد مقرون بالقرائن کے قبیل سے ہوکر علم قطعی کا فائدہ دے گی۔



۵۔ تواتر الاشتراک:تواتر اِسنادی کا تصور چونکہ آئمہ محدثین کے ہاں صرف خیالی تصور ہے، جس کی مثال محدثین کے بقول عملاً موجود نہیں اور یہ تصورِ تواتر بقول حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ بعض متاخر اُصولیوں کی طرف سے پیش کردہ ہے، جسے صرف خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اصولیوں سے متاثر ہوکر فن حدیث میں پیش کردیا، چنانچہ علم مصطلح الحدیث میں تواتر کے جس تصور سے محدثین مانوس ہیں وہ تواتر الاشتراک ہی ہے۔ تواتر اس تصور کی رو سے جمیع قراء ات قرآنیہ حتمی طور پر متواترۃ ثابت ہیں ۔


سوال نمبر19: اگر قراء ا ت منزل من اللہ ہیں ، تو پھر ان کی نسبت رجال کی طرف کیوں ہے؟
جواب : اس سے پہلے اس حوالے سے ایک سوال گذر چکا ہے کہ قراء ت سات نازل ہوئیں تو سات سے دس یا بیس قراء ا ت کیسے بن گئیں ؟ ہم نے وہاں یوں جواب دیا تھاکہ اس شبہ کی بنیادی وجہ اس بنیادی مسئلے سے ناآشنائی ہے کہ قراء ات کی تعریف کیا ہے۔ اس ضمن میں دو باتیں ضرور یاد رہنی چاہئیں :

۱۔ موجودہ قراء اتِ عشرہ حروف سبعہ میں باہمی تداخل کے سبب وجود میں آنے والے اَئمہ فن کے اختیارات ہیں ، جنہیں انہی اصحاب کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، جنہوں نے وہ اندازِتلاوت اپنے لیے اختیار ومتعین کیا ہو۔ اس نسبت سے قراء ات کی نسبت قبل ازیں صحابہ کی طرف بھی ہوتی رہی، پھر تابعین اور تبع تابعین کی طرف بھی رہی، تا آنکہ ان آئمہ عشرہ اور ان کے تلامذہ کا زمانہ آگیا تو انہوں نے اپنے لیے جو ترتیبات تلاوت (sets) اِختیار کیے ان کی نسبت انہی آئمہ مختارین کی طرف کی گئی۔ اب چونکہ بارہ صدیوں سے اُمت انہی اَئمہ کے اختیارات پر متفق ہے چنانچہ ان کے مختار اسالیب تلاوت ان کی طرف منسوب ہیں ۔
۲۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان قراء ات میں موجود اتفاقی واختلافی کلمات چونکہ ان آئمہ عشرہ کی روایات کے ذریعے ہم تک پہنچ رہے ہیں اس لیے مثل حدیث کے ان کی نسبت صاحب روایات ہی کی طرف کی جاتی ہے۔ اہل فن کے ہاں بنیادی طور پر قراء ات روایاتِ قرآن کو کہتے ہیں ۔ اسی نسبت سے قراء ات قرآنیہ عشرہ کو قراء ات متواترہ کہا جاتاہے اور یہ بات معلوم ہے کہ تواتر خبر کی قسم ہے،چنانچہ قراء ات عشرہ متواترہ کا مطلب قراء ات عشرہ متواترہ یا راویات عشرہ متواترہ ہے۔

اس پس منظر میں زیر بحث سوال کا جواب یہ سامنے آتا ہے کہ ’سبعہ احرف‘کی نسبت تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے، کیونکہ اللہ کی طرف سے جو قرآن اترا وہ ’سبعہ احرف‘ پرمشتمل تھا، لیکن بعداَزاں جب رجال نے ان احرف کو آپس میں خلط ملط کرکے اپنے نئے انداز تلاوت اختیار کرلیے تو اب ان اختیار کردہ ترتیبات تلاوت کی نسبت انہی رجال کی طرف ہونے لگی۔اسی طرح جب قراء عشرہ کا زمانہ آیا تو لوگوں نے ان کے اختیارات کو اپنالیا اور پھر انہیں کے ہو کر رہ گئے۔ اب گذشتہ کئی صدیوں سے انہی دس قراء ات کو (بدونِ خلط)بطورِ روایت اُمت میں منتقل کیا جارہا ہے۔اب جس طرح جو حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی نسبت سے بیان ہو اسے بخاری کی حدیث اور جو حدیث امام مسلم رحمہ اللہ سے روایت ہو اسے مسلم کی حدیث کہا جاتا ہے، عین اسی طرح موجودہ قراء ات قرآنیہ بھی جن آئمہ کی نسبت سے اُمت میں رائج ہیں ان قراء ات کی نسبت بھی ان اَئمہ کی طرف کی جائے گی۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک قراء ت اختیار تو سیدنا نافع رحمہ اللہ کا ہو یا ان کے شاگر امام ورش رحمہ اللہ کا ہو، لیکن اس کی نسبت ان کی بجائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جائے۔ اگر ایسا کیا جائے تو یہ کذب بیانی ہوگا۔ المختصر جان لینا چاہیے کہ اہل فن کے ہاں سبعہ قراء ات سے مراد سات مشہور اَئمہ کی قراء ات ہیں اور قراء ات عشرہ سے مراد دس مشہور اَئمہ کی قراء ات ہیں ،جبکہ حدیث میں وارد سبعہ احرف،جنہیں عرف عام میں سبعہ قراء ات بھی کہہ دیا جاتا ہے، وہ ان سبعہ قراء ات سے مختلف ہیںجو سبعہ قراء کی قراء ات ہیں۔ سبعہاحرفوالی سبعہ قراء اتکی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف،جب کہ مروّجہ سبعہ قراء ات کی نسبت سات معروف اَئمہ کی طرف ہے۔


 

فیصل ناصر

مبتدی
شمولیت
نومبر 09، 2011
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
0
سلام علیکم
اوپر دئے ہوئے مراسلات کو فلحال پورا پڑھنا ممکن نہیں وقت کے ساتھ ساتھ پڑھتا رہونگا

سب سے پہلے یہ بتائیں
سبعہ احرف قرات
کیا ان مختلف قرآت میں صرف لہجہ ہی تبدیل ہوتا ہے یا معافی بھی میں بھی کچھ فرق آتا ہے ؟

یہ بنیادی سوال ہے دیگر کچھ اور بھی سوالات اس کے بعد
 
Top