یہ مسئلہ الجھاؤ کاباعث کیوں بنا؟
سبعہ اَحرف موجودہ قراء ات کے اندر موجود ہیں تو سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ قراء ات میں کہاں موجود ہیں ؟ اس موضوع پر پیچھے مفصل بحث ہوچکی ہے کہ آپ کے ارشاد: (
فاقرؤا ماتیسر ) کے مطابق اور ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کا اسی اجازت کی روشنی میں قرآن کریم کو ’’حروف کثیرۃ‘‘ پر پڑھنا کی روشنی میں بعد ازاں سبعہ احرف آپس میں خلط ملط ہو کر اب نئے سینکڑوں اندازِ تلاوتوں (sets) میں ڈھل گئے ہیں ، البتہ یہ تمام سیٹ منزل من اللہ سات اَسالیبِ تلاوت سے باہر نہیں اور اب سبعہ احرف کو صرف انہی اَسالیب میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ اختلاف اس میں نہیں ہے کہ حروف کی تفسیر قراء ات سے کی جائے یا معانی سے، بلکہ اہل علم کے ہاں سبعہ اَحرف میں صرف سات اَسالیب کے تعین میں اختلاف ہے کہ وہ سبعہ اَسالیب کون کون سے ہیں ؟
سبعہ اَحرف جب مروجہ قراء ات میں ڈھلے ہیں تو اب سینکڑوں سیٹ بن گئے ہیں ، اب جو مابعد اختلاط موجود قراء توں کو سامنے رکھ کر سبعہ احرف کی تشریح کرنے کی کوشش کررہے ہیں انہیں اس کا مفہوم سمجھنے وسمجھانے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔ سینکڑوں ترتیبات تلاوت میں موجود بنیادی سبعہ احرف کے سات اَسالیب سے قطع نظر غور ہو رہا ہے کہ سبعہ احرف کون کون سے ہیں ، حالانکہ مشکل یہ ہے کہ بہرحال مروجہ قراء ات قرآنیہ متواترہ سات اَسالیب سے زیادہ ہیں ۔ متاخرین میں یہ اختلاف بہت ہی پھیلا ہے۔ اس سلسلہ میں امام الفن ابن جزری رحمہ اللہ کا ایک معروف قول یوں ہے کہ میں تیس سال اس حدیث میں غور کرتارہا، حتی کہ ان اَحادیث کا ایک معنی مجھ پر اللہ تعالیٰ نے منکشف فرمادیا۔ امام جزری رحمہ اللہ ، جو قراء حضرات کے مسلمہ امام ہیں ، ان کے اس قسم کے انداز سے یہ عام طور پربہت ہی الجھی کہ حدیث سبعہ احرف اتنی ’مشکل‘ ہے کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ تیس سال کے عرصہ کے بعد ایک مناسب توجیہ سمجھ جان پائے۔ ہماری رائے میں امام ابن جزری رحمہ اللہ سمیت عام اہل فن کی طرف سے دی گئی وضاحت در اصل بنیادی سبعہ احرف کے بجائے ان قراء توں کے تناظر میں سبعہ احرف کی تشریح ہے، جوخیرالقرون ہی میں خلط ملط ہوکر سینکڑوں قراء اتوں میں ڈھل گئیں تھیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سبعہ احرف کی تعریف میں یہ الجھاؤ دین وشریعت کا نہیں ہے، بلکہ یہ الجھاؤ سبعہ احرف کوخلط ملط کرنے سے پیدا ہوا ہے۔
امام ابن جزری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تیس سال تک میرے غورکے نتیجہ جو معنی مجھ پر منکشف ہوا وہ یہ ہے کہ سبعہ احرف سے مراد اختلافِ قراء ات کی سات وجوہ ہیں ۔ ان کے مطابق مروّجہ قراء ات کے مجموعہ اختلاف میں غور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ یہ تمام قراء ات سات وجوہ اختلافات سے باہر نہیں ۔ پھر انہوں نے اپنے تیس سال کے حاصل استقراء کو پیش کرتے لغات ولہجات کو ایک حرف اورچھ قسم کے مزید اختلافات کو چھ حروف قرار دیا ہے۔ امام ابن جزری رحمہ اللہ کی طرح جو لوگ سبعہ احرف سے مراد سبعہ اوجہ لیتے ہیں ، ان میں سے بعض لوگوں کا حافظ ابن جزری رحمہ اللہ کی سات وجوہ قراء ات سے اگرچہ تعبیر کا کچھ فرق ہے، لیکن اس معمولی اختلاف سے قطع نظر اپنے موقف کے اعتبار سے یہ تمام لوگ ایک ہی تشریح پر متفق ہیں ۔
دیگر کئی اہل علم کو اس تشریح سے اتفاق نہیں ، لیکن ان کا یہ اختلاف تضاد کا نہیں ،بلکہ محض تعبیر بیان کاہے، کیونکہ موجودہ قراء ات عشرہ کے بارے میں سارے ہی اس بات پر متفق ہیں کہ سبعہ احرف کا مصداق یہ قراء تیں ہیں ، اختلاف صرف سبعہ اَحرف کے تعین میں ہے۔جبکہ ابن جزریؒ اور دیگر اہل علم کی خدمات اپنی جگہ پر، لیکن یہ سارے لوگ سبعہ احرف کے حوالے سے بعد میں جو کہانی بنی ہے اس کو دیکھ رہے ہیں ، حالانکہ سبعہ احرف کی تشریح کا یہ الجھاؤ تو پیدا ہی بعد میں ہوا اور اگر شروع میں خلط قراء ات ہوا ہی نہ ہوتا تو یہ الجھاؤ یا سوال بھی کبھی نہ ہوتاکہ سبعہ احرف سے مراد کیا ہے؟ اب بھی اگر اس الجھاؤ کو ختم کرنا ہے، تو بالکل ابتداء میں چلے جائیں ،حل مل جائیگا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ میں اس سلسلہ میں کبھی الجھاؤ پیدانہیں ہوا کہ سبعہ احرف کی تعیین کی جائے۔
اب ہم سبعہ احرف کی تعیین اَساس سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جو رائے ہم بیان کریں گے وہ بھی غیر معروف نہیں اور اس کے قائلین کو اہل علم واہل فن کے ہاں نمایاں ترین مقام حاصل ہے، بلکہ اس رائے کا امتیاز ہی یہ ہے کہ اس کے قائلین مثلاً ابو محمد مکی ابن طالب القیسی، امام ابو عمرو دانی، امام طبری رحمہم اللہ وغیرہ بالعموم ابتدائی دور کے لوگ ہیں ۔البتہ پہلے قول کی طرح ان لوگوں کی آراء میں بھی ذیلی طور پر معمولی اختلاف ہے، لیکن بالعموم یہ تمام لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ سبعہ احرف سے مراد سبعہ لغات ہیں ۔ہماری رائے میں بھی یہ توجیہ ورائے ہی قوی ہے۔ اس کے دلائل ہم ذیل میں ذکر کیے دیتے ہیں :
1۔ اقوام عالم کی تمام زبانوں کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ ہر تیس میل کے بعد زبان کا لہجہ بدل جاتا ہے۔ اسی طرح عربوں میں بے شمار قبائل تھے اور ان میں لہجوں کا فرق موجود تھا۔ ان قبائل کے اعتبار سے ان کے لہجے ایک نہیں تھے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے فریاد کی کہ
(
إن أمَّتی لا تطیق ذلک ) [مسلم:۸۲۱]
یعنی میری امت ایک لہجے وحرف پر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ سبعہ وجوہ کے قائلین کے متعین کردہ لہجات ولغات کے ایک حرف کے ماسوا باقی چھ حروف ، مثلا حذف و زیارت، تقدیم وتاخیر، غیب وخطاب، تذکیر وتانیث، حرکات وسکنات وغیرہ کے اختلاف میں تو ایسی کوئی مشکل نہیں کہ ان کو پڑھنے میں اہل عرب کو کئی مشکل ہوتی۔عربوں کو
سَارِعُوْا کو
وَسَارِعُوْا اور
فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ کو
وَیُقْتَلُوْنَ فَیَقْتُلُوْنَ یا
یَعْلَمُوْنَ کو
تَعْلَمُوْنَ وغیرہ پڑھنے میں کونسی دشواری ہوسکتی ہے، جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرکر کے حروف وقراء ات کے اختلاف کو مانگ رہے ہیں ۔ اُمت اس چیز کی کسی طرح طاقت نہیں رکھتی کہ ایک حرف کو مؤخر اوردوسرے کو مقدم کرکے پڑھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں بچے، عورتیں اور بوڑھے لوگ ہیں ،یہ تمام لوگ اپنی متعدد مشکلات کے باعث ایک حرف یعنی ایک لہجہ پر توقرآن کو پڑھ نہیں سکتے، حالانکہ یہ لوگ مذکورہ قسموں کے اختلاف کو توبغیر کسی دشواری کے پڑھ سکتے تھے۔
میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اصل مسئلہ لغتوں اور لہجوں کا تھا۔ اصل میں مشکل یہ تھی جیسے دیہاتی شہر آتے ہیں تو اردو والا لہجہ بڑی مشکل سے اختیار کرناممکن ہوتا ہے، اسی طرح اردو دان طبقہ کے لیے انگریزی سٹائل میں انگریزی بولنا بہت محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔ اور پھر لہجے کے اسلوب کو اگر ۱۰۰ فیصدلحونِ عرب کے مطابق ادا کرنا بھی شرط ہو تو یہ اور بھی مشکل ہے۔ سات حرفوں کے نازل ہونے کی اصل وجہ یہی تھی کہ بچے اس لیے نہیں پڑھ سکتے کہ وہ ابھی چھوٹے ہیں ۔ماں کی گود سے جو انہوں نے لہجہ سیکھا ہے وہ لہجہ ان کے لیے آسان ہے۔ بوڑھے اس لیے نہیں کہ وہ ساری زندگی گزار چکے ہیں ،اب وہ کیسے صحیح کریں ۔عورتیں اس لیے نہیں کہ عورتوں نے گھروں میں رہنا ہے، انہیں اس سارے معاملہ کے لیے وقت درکار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا: (
إنَّ أمَّتی لا تطیق ذلک ) [مسلم:۸۲۱ رضوان اللہ علیہم اجمعین واضح ہوا کہ جس بنیادی وجہ سے سبعہ احرف اترے، اس کا اصل تعلق لغات یا لہجات سے ہے۔
2۔ سبعہ احرف کی جو تشریح سبعہ اوجہ والے لوگ کرتے ہیں اس پر بنیادی اعتراض یہ لازم آتا ہے کہ سبعہ احرف بمراد سبعہ اوجہ کی تعبیر کے مطابق ہر ہر حرف اختلافِ قراء ات کے ایک ایک جوڑے پر مشتمل ہے اور کوئی ایک حرف بھی ایسا نہیں جس کو اگر پڑھا جائے تو تلاوت قرآن کا ایک انداز مکمل ہو۔ یعنی اس تعبیر میں مخصوص کلمات کو متعدد طرح پڑھنے کا تذکرہ تو ہے لیکن کوئی ایک حرف بھی تلاوتِ قرآن کا مکمل سیٹ نہیں بن سکتا،بلکہ ہم تو کہیں گے کہ تمام حروف بھی ملا لیے جائیں تو بھی قرآن کی تلاوت کا ایک مکمل انداز سامنے نہیں آتا۔ مثلاًہم سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرنا چاہتے ہیں تو کسی ایک حرف یا تمام حروف کو بھی ملا لیں تو ان میں سورۃ الفاتحہ کے مختلف فیہ مقامات کا ذکر تو آجاتا ہے، لیکن سورۃ کے متفق فیہ کلمات کا تذکرہ ہی نہیں آتا۔
جب ہم اس بات کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں کہ قرآن مجیدکا نزول تومکہ میں ہوا اور عام شہرت کے مطابق اس وقت قرآن لغت قریش کے مطابق تھا، جبکہ قراء توں کا اختلاف مدینہ میں اترا ہے، کیونکہ حدیث جبریل ومیکائیل اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا ان سے مکالمہ بنی غفار کے تالاب کے پاس ہوا تھا اور بنی غفار مدینہ میں بسنے والے ایک قبیلہ کا نام ہے۔اسی طرح قراء توں کے ضمن میں صحابہ میں جو اختلاف ہوا وہ مسجد میں ہوا تھا، جبکہ مسجدیں مکہ میں نہیں تھیں ۔ مکہ مکرمہ میں صحابہ کرام تیرہ سال قرآن کریم پڑھتے رہے، تو وہ قرآن کے کسی نہ کسی حرف کی تلاوت توتھی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حروف کی تفسیر سبعہ اوجہ سے کی جائے تو امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کے مطابق کوئی ایک حرف بھی لے لیں تو ثابت ہوتا ہے کہ مکہ میں ابتدائے نزولِ قرآن ہی سے صحابہ متعدد قراء توں میں پڑھتے تھے۔ مکہ میں قرآن کریم کے پڑھنے کا انداز کوئی ایک حرف لے لیں تو وہ یاتو تقدیم وتاخیر کا حرف بنتا ہے یا حذف واثبات کا حرف بنتا ہے یا تبدیلی حرکات کا حرف بنتا ہے یا متعدد لہجوں کا حرف بنتا ہے، قرآن کریم کا کوئی ایک سیٹ بہرحال نہیں بنتا۔ مکہ میں قرآن کریم تو اس طرح سے پڑھا جاتا تھا کہ جب قرآن پڑھیں تو وہ قرآن کی پوری سورت بننی چاہئے، مثلاً سورۃ الفرقان مکی ہے تو مکہ میں سورۃ الفرقان پڑھی جاتی تھی تو اس وقت یہ ایک حرف پر پڑھی جاتی تھی۔ وہ ایک حرف کون سا تھا؟ اگر آپ ان سات میں سے کوئی ایک حرف لے لیں تو سورۃ الفرقان نہیں بنتی، کیونکہ سات حرفوں میں سے کوئی حرف پورے قرآن کے اعتبار سے حرف کی تشریح نہیں ہے۔ اس ضمن میں حدیث سبعہ احرف میں وارد الفاظ
(
کلّہن شاف کاف )[نسائی:۹۴۱]
بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ، کیونکہ ان سے مقصود یہ ہے کہ حروف سبعہ میں سے ہر حرف تلاوتِ قرآن سے کفائت کرتا ہے۔ جب ہم حروف کی تفسیر ایک مکمل سیٹ کے اعتبار سے نہیں کرتے تواعتراض پیدا ہوتا ہے کہ(
کلہن شاف کاف ) [نسائی:۹۴۱] کا معنی کیا ہوگا؟ بات کو سمجھانے کے لیے عملی اعتبار سے کچھ مزید وضاحت کرتا ہوں کہ مثلا اگر سبعہ اوجہ والا قول سبعہ احر ف کی تشریح مانیں تومکہ میں تو بہرحال ایک حرف پر قرآن پڑھا جاتا تھا۔ اب اگر آپ وہ حرف غیب وخطاب والا لے لیں تو یہ بات بہرحال قطعی ہے کہ
یعلمون،
تعلمون دونوں مکہ کے اندر نہیں تھے، مکہ میں تو صرف ایک تھا۔ اسی طرح اگر آپ حرکات وسکنات کے اختلاف کا حرف لے لیں تو
یَکْذِبون،
یُکَذِّبُون دونوں میں سے کوئی ایک مکہ میں مقروء تھی دوسری نہیں ۔اسی طرح اگر آپ متعدد لہجات والا ایک حرف مراد لہجات لیتے ہیں ، تو لہجات میں تسہیل و تحقیق ، امالہ و عدم امالہ، ادغام واظہار وغیرہ لہجات شامل ہیں ۔اب مکہ میں پڑھے جانے والے قرآن میں یہ سارے لہجات قطعی طور پر مقروء نہیں تھے۔
سبعہ احرف بمراد سبعہ دراصل سبعہ احرف کی تشریح نہیں بلکہ پورے قرآن کے اندر استقصاء واستقراء کے بعد اضافی طور پر متنوع اختلافات کی ایک توجیہہ ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ حروفِ سبعہ سے اصل مراد لغات ولہجات کا اختلاف تھا، جن میں ضمنی طور پر لغات ہی کے قبیل سے بلاغت سے متعلق بعض دیگر اختلافات بھی آگئے تھے اور مکہ میں جس حرف کے مطابق قریشی ودیگر قرآن کی تلاوت کرتے تھے وہ لغت قریش تھا، ناکہ سبعہ اوجہ میں سے کوئی وجۂ اختلاف۔
3۔ اہل علم جانتے ہیں کہ ابتداءً قرآن کریم میں اختلاف قراء ت موجود نہیں تھا بلکہ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں سے نازل کیا گیا۔ اس سلسلہ میں معروف روایت حدیث جبریل ومکائیل ہے کہ وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی غفار کے تالاب کے پاس تشریف لائے۔ حضرت میکائیل نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ تعالیٰ سے اپنی اُمت کی آسانی کے لیے ایک حرف سے زائد پر قرآن کریم کو پڑھنے کی دعا کیجیے۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ دعا کرکے ان حروف کو لیا۔اب دوسرا حرف آیا،پھر تیسرا آیا اور چوتھا آیا، پھر پانچواں ، پھر چھٹا اور پھر ساتواں حرف آیا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سات حروف جو ایک ایک کرکے اترے ہیں ، یہ ایک ایک مکمل قرآن کے حروف تھے یا سات حروف ان شکلوں پر اتر ے، جو سبعہ اوجہ کے قائلین بیان کرتے ہیں ۔ اگر یہاں مراد یہ سات اوجہ والی تفسیر لی جائے توغیر مناسب معلوم ہوتی ہے، کیونکہ یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حدیث جبریل ومکائیل تقاضا کرتی ہے کہ ہر ایک حرف آسمانوں سے منفصل نازل ہوا ہے۔منفصل کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی دعا پر پہلے ایک حرف پر پوراقرآن اترا، پھر دوسرا اترا، پھر تیسرا اترا۔ یہ نہیں ہوا کہ پہلی باردعا کی: (
إن أمتی لاتطیق ذلک) [مسلم:۸۲۱] توحذف و زیادت کا حرف اتر آیا۔ آپ نے پھر کہاکہ امت ابھی بھی طاقت نہیں رکھتی تو اس کے بعد تقدیم و تاخیر کا حرف اتر آیا، مزیدکہا کہ طاقت نہیں رکھتی توحرکات کے اختلاف کا حرف اتر آیا۔
اگرروایات کو دیکھیں تو وہ بیان کرتیں ہیں کہ سبعہ احرف کا ہر حرف مکمل قرآن کی تلاوت کا ایک کامل سیٹ ہے اور ہر ایک حرف دوسرے سے منفصل حالت میں اترا ہے اور آپ کی بار بار دعا کے نتیجہ میں ایک ایک کرکے حروف کی بالآخر سات تک پہنچ گئی تو آپ نے مزید دعا نہیں کی۔ یہ سات انداز تلاوت قرآن مجید کے سات مستقل اسلوبِ تلاوت تھے، یہ نہیں کہ تمام کو ملا کر ایک اندازِتلاوت بنتا تھا یا تمام کو ملاکر دو اندازِ تلاوت بنتے تھے وغیرہ۔ سبعہ احرف بمراد سبعہ اوجہ کی تعبیر کے مطابق بنیادی حرج ہی یہ واقع ہوتا ہے کہ جب تک تمام وجوہ سبعہ کو ملایا نہ جائے، قرآن کا ایک مکمل سیٹ بھی نہیں بن پاتا۔ قراء ات عشرہ متواترہ کی بیس کی بیس روایات ہوں یا ان کے ذیلی اسی طرق، ان تمام اوجہ کو یک مشت ملائے بغیر کوئی ایک کامل حرف بھی تلاوت قرآن کا ایک مکمل سیٹ نہیں بنتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے سبعہ احرف سے سبعہ اوجہ کو مراد لیا ہے انہوں نے دراصل اختلاط کے بعد وجود میں آنے والی روایات کا تجزیہ کرتے ہوئے مجموعہ روایات کے اختلاف کااستقراء کرتے ہوئے سات قسم کی وجوہ قراء ات کی توجیہ کی، جبکہ قبل از اختلاط نازل ہونے والے سبعہ اَحرف میں سے ہر ایک حرف تلاوت قرآن کا ایک مکمل سیٹ تھا۔
لوگ جب ہم سے سوال کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ سبعہ احرف کہاں ہیں ؟ ہم کہتے ہیں کہ وہ موجودہ قراء ات عشرہ متواترہ میں ہیں ۔دوبارہ سوال ہوتاہے کہ قراء ات تو سات سے زیادہ ہیں تو سبعہ احرف قراء ات میں کیسے ہیں ؟ ہم کہتے ہیں کہ وہ تو خلط ملط حالت میں قراء ات میں موجود ہیں ، ایک ایک منفصل حالت میں موجود نہیں اور اب وہ سات حروف سات نہیں رہے، بلکہ خلط ملط ہوکر کئی بن گئے ہیں اور وہ خلط ملط ہونے سے قبل سات تھے اور وہ آسمانوں سے اسی طرح منفصلاً کامل قرآن کی صورت میں اترے تھے کہ ان میں سے ایک حرف مکہ میں پڑھا جاتا رہا، جبکہ باقی مزید چھ حروف مدینہ میں آکر نازل ہوئے۔
4۔ سبعہ احرف بمراد سبعہ لغات یا سبعہ لہجات کی تفسیر سبعہ اَحرف کے شان نزول سے ثابت ہے، جبکہ سبعہ احرف بمراد سبعہ اوجہ استقرائی تشریح ہے۔اُصول تفسیرپڑھنے پڑھانے والے جانتے ہیں کہ شان نزول سے آیت کی تشریح تفسیر کا ایک مسلمہ اُسلوب ہے۔ اسی بنیاد پر سلف کے ہاں تفسیر صحابہ تفسیر بالماثور میں داخل ہوتی ہے، کیونکہ شان نزول اگرچہ حدیث نہیں ہوتا، لیکن نزول قرآن کا عرف ہوتا ہے جو فہم قرآن یا فہم حدیث میں انتہائی مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے مقدمہ اصول تفسیر میں واضح کیا ہے کہ علمائے اصول کا اتفاق ہے کہ جب کسی آیت کی تشریح میں دو مختلف باتوں کا امکان ہو تو شان نزول کے ذریعے جو معنی متعین ہوگا اسے بہرحال ترجیح ہوگی۔امام صاحب رحمہ اللہ نے مثال پیش کی ہے کہ اگر کسی جگہ قسم کے بارے میں کوئی اختلاف ہوجائے اور قسم کی نوعیت کا تعین نہ ہورہا ہو کہ قسم کھانے والے نے کس نوعیت سے قسم کھائی ہے اور قاضی کے سامنے اس کا فیصلہ چلا جائے تو قاضی اس نوعیت کا فیصلہ اس سے کرے گا کہ قسم کھانے کی تحریک کس وجہ سے واقع ہوئی تھی اور جس وجہ سے قسم کھانے کی تحریک واقع ہوگی اس تناظر میں قسم کی نوعیت کا تعین کیا جائے گا اور اس کی روشنی میں قاضی فیصلہ کرے گا۔
سبعہ احرف یا قراء توں کے شان نزول کے سلسلہ میں اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ نزولِ سبعہ احرف کا سبب مختلف قبائلِ عرب کے بولنے کے متنوع اَسالیب کا فرق بنا تھا۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ سبعہ احرف کی تشریح میں موجود مختلف اقوال سبعہ احرف کی مراد کے سلسلہ میں معنوی احتمالات کے قبیل سے تعلق رکھتے ہیں ، چنانچہ جس تشریح کو شان نزول کی تائید حاصل ہے اسے ہی بہرحال ترجیح ہونی چاہیے۔
اہل علم نے قبائل عرب میں سے ان بڑے قبائل کا تعین کرنے کی کوشش بھی کی ہے ، جن کی رعائت رکھتے ہوئے سات لغات اتریں ۔ اسی طرح موجودہ قراء ات عشرہ میں موجود لہجوں سے متعلق اختلافات ، جنہیں اہل فن اختلاف قراء ات کے اصولی اختلافات کا نام دیتے ہیں ،کے بارے میں محنت کی ہے کہ واضح کریں کہ کونسا کونسا اختلاف کس کس قبیلہ کی لغت سے تعلق رکھتا تھا ۔
المختصر سبعہ احرف کامصداق موجودہ قراء ات عشرہ ہیں ، کیونکہ سبعہ احرف انہی قراء ات و روایات میں ڈھل کر ہم تک پہنچے ہیں ۔ امام ابو محمد مکی رحمہ اللہ اور امام دانی رحمہ اللہ وغیرہ کا قول عام فہم اور سمجھنے کے اعتبار سے زیادہ سہل ہے اور اس میں الحمد للہ بے جاتکلف بھی نہیں ہے۔
کیا سبعہ احرف میں صرف لہجات سے متعلق اختلاف ہی ہے؟
عام اہل فن کی طرف سے سبعہ احرف بمعنی سبعہ لغات پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ موجودہ قراء ات عشرہ میں لہجات کے علاوہ اور بھی کئی نوعیتوں کے اختلافات ہیں ۔ سبعہ اوجہ کے قائلین کے ہاں بھی ان دیگر اختلافات کوچھ حروف کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے، جبکہ لہجات ان کے صرف ایک حرف میں شامل ہیں ۔
اس اشکال کا بڑاسادہ جواب یہ ہے کہ نزول قراء ات کا اصل سبب تو عربی زبان میں لہجوں کا اختلاف تھا، لیکن دین وشریعت میں یہ اُسلوب عام ہے کہ ایک مشکل لوگوں کو در پیش ہوتی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جب اس کے حل کے لیے وحی بھیجتے ہیں تو اس مشکل کے ضمن میں بعض ایسی دیگر مشاکل بھی حل کردیتے ہیں جو لوگوں نے مانگی نہیں ہوتی اور اللہ کا اپنے بندوں سے یہ معاملہ احسان، فضل وکرم اور محبت کے قبیل سے ہوتا ہے۔
اس بارے میں تو سب متفق ہیں کہ نزول سبعہ احرف کا اصل پس منظر تولہجات کی مشکل تھی، لیکن جب لہجات اترے تو اس کے ضمن میں اللہ نے فہم قرآن کے سلسلہ میں کچھ تفسیری مشکلات کو بھی حل کردیا۔
اب لہجات کے علاوہ جو دیگر اختلافات ہیں وہ در اصل بلاغت کے متعدد اَسالیب ہیں اوریہ بات طے ہے کہ متعدد اَسالیب میں بات کو سمجھایا جائے تو مخاطب کو بات بہتر سمجھ آتی ہے۔ تو ہماری رائے کے مطابق (امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کے استقراء میں لہجات کے علاوہ پیش کردہ ) دیگرچھ نوعیتوں کے اختلافات سات لہجات کے ضمن میں متفرق طور پر شامل ہیں ۔ بعض اہل فن نے ان چھ نوعیتوں کو بھی جب بلاغت کے متعدد اسالیب کے تناظر میں جمع کیا تو عملاً انہیں چھ کے بجائے سات قرار دیا ہے اوریہ ہم بات جانتے ہیں کہ ہر لغت لہجہ، مترادف کلمات اور متعدد اسالیب بلاغت کو شامل ہوتی ہے ، چنانچہ ہم نے سبعہ احرف کی تشریح میں بار بار لہجات یا لغات کے الفاظ اکٹھے بولے ہیں ،کیونکہ ہماری رائے میں
سبعہ احرف سے بنیادی طور پر لہجات مراد ہیں ، البتہ ان کے ضمن میں لغات کے قبیل سے بلاغت کے متعدد اسالیب کا اختلاف بھی شامل ہے۔ اس لیے سبعہ احرف کی تشریح یا تو صرف لغات سے کرنی چاہیے اور لغات میں لہجات، مرادفات اور اسالیب بلاغت سب شامل ہوں گے یا لغات ولہجات کو باہمی مترادف کے طور پر بولنا چاہیے۔ رہے مرادفات جیسے
حتّٰی،
عتّٰی وغیرہ تو ان کے بارے میں اہل علم متفق ہیں کہ عرضۂ اخیرہ میں یہ سب منسوخ ہوگئے تھے۔ اس پس منظر میں سبعہ احرف کی تشریح جب ہم کرتے ہیں تو یوں کرتے ہیں :
یُرَادُ بہم سبعۃُ لہجاتٍ من لغاتِ العرب وسبعۃُ أوجہٍ من أسالیبِ البلاغۃ۔
شیخ القراء مولانا قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ نے اپنی گرانقدر تصنیف’دفاع قراء ات‘‘ کے صفحہ ۱۱۰ پر ہمارے مذکورہ موقف کے موافق رائے پیش فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ علم قراء ات کے اصولی اختلافات سات معروف قبائل عرب کے لہجات سے ماخوذ ہیں ، جبکہ وہ مخصوص کلمات جن میں بطور قاعدہ اختلاف نہیں یعنی قراء ات کے فرشی اختلافات، وہ سات متعدد اسالیب بلاغت سے ماخوذ ہیں ۔پھر قاری صاحب نے ان سات اسالیب بلاغت کی مکمل وضاحت بھی پیش فرمائی ہے۔
ایک بات بالکل واضح ہے کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کے ہاں ساتوں حروف بمعنی سبعہ اوجہ امام دانی رحمہ اللہ وغیرہ کے ہاں بھی مسلم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ سات لہجوں کو ایک حرف میں اور دانی رحمہ اللہ وغیرہ سات حرف مانتے ہیں ، پھر جزری رحمہ اللہ وغیرہ اَسالیب بلاغہ سے متعلق اختلافاتِقراء ات کو چھ حروف کے طور پر اوردانی رحمہ اللہ وغیرہ سات لہجات کے ذیل میں شامل مانتے ہیں ۔ سبعہ اَحرف کے اندر اللہ کی طرف سے لہجات کااختلاف بھی اترا تھا اور اسالیبِ بلاغت کا بھی، فرق صرف اتنا ہے کہ بعض لہجات کو ایک حرف، باقی اختلافات کو چھ حروف بناتے ہیں اوربعض دیگر قراء ات کو سات لغات یا لہجات قرار دے کر اس کے ضمن میں اسالیب بلاغت کو بھی شامل کرتے ہیں ۔ اختلاف صرف اتنا ہے کہ تعبیر ہم کون سی کریں ۔
ہماری رائے میں امام دانی رحمہ اللہ وغیرہ کی رائے حدیثوں کے زیادہ قریب ہیں ، نیز متقدمین بالعموم اس رائے پر ہیں ، کیونکہ یہ مسئلہ کی اساس کے اعتبار سے زیادہ قرین از قیاس ہے۔ یہ سارا مسئلہ خلط قراء ات کی وجہ سے اصل میں الجھاؤ کا باعث بنا ہے اور جب یہ اختلاط نہیں ہوا تھا تو اس وقت یہ الجھاؤبھی نہیں تھا ۔
سوال نمبر15 : سبعہ احرف سے معین عدد مراد ہے یا کثرت؟ نیز اس سلسلہ میں کثرت اقوال بہت تشویشناک ہے۔
جواب: شریعت میں جب کسی جگہ پر کوئی عدد بول کر شارع کوئی حکم بیان کرے تو اُصولیوں کا موقف یہ ہے کہ اس عدد سے مراد پھر قطعی طور پر وہی متعین عدد مراد ہوگا، جیسے دین کہتا ہے کہ غیر شادی شدہ اگر زناکرے تو
{ فاجلدوا کل واحد منھا مائۃ جلدۃ…}[النور:۲]
تو یہاں
مائۃ سے مراد سو سے کم یا زیادہ کوڑے نہیں بلکہ
مائۃ کی دلالت سو کے عدد پر قطعی ہے۔ یہ لفظ اِصطلاحی طور پر’خاص ہے اور خاص کی دلالت اپنے مفہوم پر بالاتفاق اصولیین قطعی ہوتی ہے۔ اسی طرح اُصولیوں کے ہاں کسی لفظ سے مجازی معنی مراد لینے کے لیے دلیل صارف ضروری ہے،جو تقاضا کرے کہ یہاں لفظ سے حقیقی معنی مراد لینے کے بجائے مجازی معنی مراد لیے جائیں اور چونکہ یہاں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ، اس لیے
(
أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف ) [بخاری:۴۹۹۲]
سے مراد سات کا عدد ہی ہے۔ سات سے مراد ستریاکثرت کسی صورت میں مرادنہیں ہوسکتا،بلکہ دلیل یعنی حدیثِ جبریل ومکائیل تو اس کے خلاف صراحۃً دلالت کر رہی ہے کہ اس میں واضح طور پر موجود ہے کہ ایک ایک کرکے عد دسات تک جا پہنچا اور پھر آپ نے مزید کا تقاضا نہیں کیا۔
یہ مسئلہ اچھا خاصا معرکۃ الاراء بنا ہواہے، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کے ہمراہ تشریف لائے ، آپ کا کام صرف دین پہنچانا نہیں تھا، بلکہ آپ کا کام بمصداق قرآن:
{وَأنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ}[النحل:۴۴]
دین کی تبیین بھی تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ذمہ داری کو مکمل اداء فرما کر گئے۔ آپ نے دنیا سے رحلت فرماکر جانے سے قبل فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ، اگر تم ان دونوں پر تمسُّک کرلو توکبھی گمراہ نہیں ہوسکتے اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ واضح نہیں ہیں تو کسی طور پربھی اس کے ساتھ تمسّک کا معنی متعین نہیں ہوتا۔اب مسئلہ صرف اِتنا ہے کہ بسا اوقات تبدیلی حالات کے اندربعض ایسے اِشکالات پیدا ہو جاتے ہیں جو دین کے اشکالات نہیں ہوتے، بلکہ ہمارے اپنے کچھ فقہی یا تشریحی مسائل ہوتے ہیں ۔ بعد ازاں کچھ اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اس کی وجہ سے اِبہام پیدا ہوجاتاہے۔ اسی طرح ’ سبعہ اَحرف‘ کے سلسلے میں کچھ ابہام پیداہوئے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ
{فَاقْرَؤا مَا تَیَسَّر مِنَ الْقُرآن} [المزمل:۲۰]
کے تحت مختلف قراء ات کو آپس میں ملا جلاکر پڑھنے کی دین میں جو اجازت دی گئی تھی اورجس کے مطابق صحابہ اور تابعین نے پڑھناشروع کیا توہم جانتے ہیں کہ سینکڑوں کی تعداد میں قرآن مجید کے انداز نئے ترتیبات تلاوت اور سیٹ تشکیل پاگئے۔ اب سبعہ احرف کی تشریح کا جو مسئلہ پیداہوا ہے تو اس بارے میں اگرچہ اس بارے میں امام زرکشی رحمہ اللہ اور امام سیوطی رحمہ اللہ وغیرہ نے ۳۵ ،۴۰ کے قریب اقوال نقل کئے ہیں ، لیکن اَقوال کی کثرت سے ہمیں پریشان نہیں ہوناچاہئے، کیونکہ اَقوال کی کثرت کی بنیاد پر اگر قرآن کی کسی آئت یا کسی حدیث میں تشکیک پیدا ہوجائے تو سبعہ احرف کی تشریح میں وارد اَقوال سے زیادہ اقوال بعض مقامات پر ملتے ہیں ، مثلاً
اگر ہم تفاسیر دیکھیں تو ایک ایک آیت کی تفسیر میں بسااوقات ۷۰،۷۰ تفاسیر موجود ہیں ۔
اسی طرح معروف مسئلہ کہ جمعہ کے اندر ایک گھڑی آتی ہے جس میں جو بھی دعا کی جائے وہ قبول کی جاتی ہے،اس کے بارے میں امام ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں علماء کے چالیس قول نقل کئے ہیں کہ یہ گھڑی کون سی ہے۔ اب چالیس اَ قوال سے یہ بات تولازم نہیں آئے گی کہ اس حدیث کے اندر شکوک پیداہوجائیں ۔
عام طور پر علماء کے اختلافات کو حل کرنے کے لیے عام اسلوب یہی ہے کہ دلائل کے اعتبار سے کسی بھی قول کو ترجیح دی جاتی ہے۔یہاں جب ہم اَقوال کا جائزہ لیتے ہیں تو اَقوال کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں ۔کچھ اقوال ایسے ہیں جو سبعہ احرف سے مراد معانی کی سات اَقسام مراد لیتے ہیں اورکچھ اقوال ایسے ہیں جو سبعہ احرف سے مراد پڑھنے کے اسالیب کی سات قسمیں مراد لیتے ہیں ۔ جو لوگ سبعہ احرف سے مراد معانی کی سات اقسام لیتے ہیں ،ان کے سامنے کچھ ایسی روایات موجود ہیں جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکرملتا ہے کہ سبعہ احرف کا مفہوم آپ نے امر، نہی وغیرہ بیان کی ہیں ، لیکن اوّل تو یہ روایات ضعیف ہیں ، لیکن اگر یہ ثابت ہوں بھی تو، جیساکہ علماء نے لکھا ہے کہ، اس کا محل اور ہے ۔ بہرحال سبعہ احرف بمعنی سبعہ معانی سے متعلق تمام اقوال کا کوئی تعلق سبعہ احرف بمعنی سبعہ اسالیب قراء ات سے نہیں ۔ اب جوباقی اَقوال رہ گئے ہیں ، ان میں غور کریں توباقی اقوال بنیادی طور پر دو بنیادی قولوں میں شامل ہیں ، جن کے بارے میں مکمل تجزیہ پیش ذکر کیا جاچکا ہے، لیکن ایک بات ضرور قابل توجہ ہے کہ جتنے بھی اقوال سبعہ احرف بمعنی سبعہ اَسالیب قراء ات کے سلسلہ میں مروی ہیں ، اگرچہ ذیلی طور پر ان میں کافی اراء ہیں لیکن سب کاایک بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے پڑھنے میں متنوع اسالیب موجود ہیں ۔ ساروں کا ایک بات پر اتفاق ہے قرآن مجید کے پڑھنے کاایک اسلوب نہیں ہے۔ اس کو اصولیوں کی اصطلاح میں اجماعِ مرکب کہتے ہیں اور اجماعِ مرکب کے بارے میں ہمارا موقف ہے کہ اس سے انحراف جائز نہیں ۔ خاص طور پرکثرتِ اقوال کی بنا پر اس حدیث کو متشابہات کہنا تو بالکل صحیح نہیں ۔
دوسری بات بڑی اہم یہ بھی سامنے رہنی چاہئے کہ یہ جو ۴۰ قول پیش کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں عام ذہنیت یہی ہے کہ یہ چالیس افراد کے چالیس اقوال ہیں ، لیکن جب امام سیوطی رحمہ اللہ کی الاتقان وغیرہ کو کھولتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ اقوال کئی افراد کی نسبت سے بیان نہیں کئے، بلکہ یہ اقوال صرف چند افراد کے غور وفکر کے احتمالات ہیں ۔اس کی وضاحت حافظ محمد زبیر حفظہ اللہ کے جاوید غامدی کے قراء ات سے متعلقہ نظریات کے رد پر لکھے گئے مضمون میں دیکھی جاسکتی ہے۔ایک آدمی کے مختلف اقوال بطورِ احتمالات پیش کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچ نہیں پارہا اور اگر وہ کسی نتیجے پر پہنچ جائے تو ایک ہی قول پیش کرتا ہے۔
کسی آیت یا حدیث کا مفہوم متعین کرنا دراصل فقہاء ومفسرین کا میدان ہے، قراء بھی اس سلسلہ میں اپنی رائے دے سکتے ہیں ، لیکن جن کا یہ میدان ہے کہ وہ سبعہ احرف کا مفہوم لہجوں ولغتوں سے متعین کرتے ہیں ۔
مفسرین کا یہ ضابطہ ہے کہ تعبیر کے اختلاف کو اختلافِ تنوع پر محمول کیا جائے گا۔ اگر ہم سبعہ احرف کی تشریح کے ضمن میں موجود اختلاف کو بھی اختلاف تضاد محمول کرنا شروع کردیں گے، تو پھرخیر القرون کی تفاسیر میں بھی ایسے ایسے اختلافات سامنے آئیں گے، جنہیں تنوع کا اختلاف کہہ سکنا ممکن نہ رہے گا۔ اسی طرح امام جزری رحمہ اللہ کا قول ہو یا امام دانی رحمہ اللہ کا، ہر ایک میں اختلافِ تضاد نہیں ہے، فقط تعبیر کا اختلاف ہے، کیونکہ سبعہ احرف کے بارے میں اتفاق ہے کہ وہ موجودہ قراء ات میں موجود ہیں ، نیز مروجہ قراء ات کے جمیع اختلافات کے بارے میں اتفاق ہے کہ وہ سبعہ احرف کے اختلاف سے باہر نہیں ہیں ۔
سوال نمبر16: اگر قراء ا ت احادیث کی طرح آئمہ کی مرویات کا نام ہے، تو حدیث کی طرح اس کی اَسانید کیوں نہیں ؟
جواب: یہ بات غلط فہمی اور کم علمی پر مبنی ہے کہ قرآن اور اسی کی قراء ات بدون سند سینہ بہ سینہ اُمت میں منتقل ہورہی ہیں ۔یہ مغالطہ ہمارے ہاں سکالرز حضرات کے ہاں عام ہے کہ قرآن خبر کے طریقہ سے اُمت میں منتقل نہیں ہوا۔ فرقہ فراہیہ نے تو اسی غلط بنیاد پر ایک نیا فلسفہ گھڑ لیا ہے کہ حدیثیں چونکہ خبر کے ذریعے سے اُمت تک منتقل ہوئیں چنانچہ وہ مجموعہ رطب ویابس ہیں ، اسی لیے وہ سنت وحدیث میں یوں فرق کرتے ہیں کہ سنت تو دین کی وہ روایت ہے جو اسانید سے قطع نظر مثل قرآن کے اُمت کے اتفاقی تعامل (نام نہاد تواتر عملی)سے ہمیں موصول ہوئی، جبکہ حدیث مجموعہ اخبار ہے۔ بہرحال یہ جہالت پر مبنی مغالطہ آمیز بات ہے۔ اگر اس کی بنیاد یہ چیز بنی ہے کہ قرآن مجید کے حوالے سے عام طور پر اسانید عوام الناس یا عام اہل علم میں معروف نہیں ، تو اس طرح تو کئی احادیث اور کتب احادیث کی سندیں اہل فن کے علاوہ لوگوں میں معروف نہیں ہیں ،
مثلاً مشکوٰۃ المصابیح اور بلوغ المرام کے اندر حدیثوں کی اسانید موجود نہیں ہیں ، تو کسی چیز کی سند ذکر نہ کرنے کا قطعی معنی یہ نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے سند ہے نہیں ۔مختلف وجوہات کی بنیاد پر بسا اوقات اسانید نقل نہیں کی جاتیں ۔ مثلاً بلوغ المرام اور مشکوٰۃ میں مؤلفین نے جو اسانید بیان ہیں کیں تو اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کتابوں کو بطورِ روایت کے وہ نقل نہیں کر رہے ۔جب مقصود روایت ہوگا تو بتانا پڑے گا کہ میں نے یہ روایت کہاں سے لی ہے اور اسے بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ثابت کرنا پڑے گا۔ عام طور پر صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ یا دیگر کتبِ حدیث کو مؤلفین نے بطورِ روایت نقل کیا ہے اوراسی لیے ان میں اسانید کا بھی ذکر ہے۔ البتہ جب روایت مقصود نہ ہو توسند کا ذکر ضروری نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح بخاری میں موجود معلق روایات ہیں ۔ معلق راویتیں امام بخاری رحمہ اللہ نے عام طور پر ترجمۃ الباب میں ذکر کی ہیں ۔ مقصود ان سے راویت نہیں ،بلکہ استدلال ہے۔جب مقصود استدلال ہو، جیسے میں اور آپ بحث کررہے ہیں اورمیں نے حدیث سبعہ احرف کوکئی دفعہ ذکرکیا ہے لیکن سند، حتی کہ راوی تک کا ذکر نہیں کیا، لیکن اس سے ہماری بحث پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ البتہ جب میں راویت کروں گا، تو آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس روایت کا استناد کیاہے اور اس کی اسنادی حیثیت کیاہے؟اسی طرح مشکوٰۃ اور بلوغ المرام کا معاملہ ہے۔ بلوغ المرام اور مشکوٰۃ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اورخطیب تبریزی رحمہ اللہ نے حدیثیں بطورِ روایت نقل نہیں کیں ،بلکہ انہوں نے ان مجموعوں کو صرف مطالعہ حدیث کے لیے تیار کیا ہے۔
بالکل اسی طرح قرآن مجید کا بھی معاملہ ہے۔ جب قرآن مجید کے بارے میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کس سند سے یہ قراء ات وروایات ہم تک پہنچیں اور ان کی سند کیا ہے تو ہم اپنے پاس موجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل اسانید ذکر کردیتے ہیں اور ان میں موجود رجال کے لیے معرفۃ القرّآء الکِبار از امام ذہبی رحمہ اللہ اورطبقات القراء از امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کو پیش کرتے ہیں ، لیکن اگر قرآن مجید سے مقصود راویت نہ ہو ،بلکہ بطورِ عبادت تلاوت کی غرض سے اس کو پڑھا جائے تو اَسانید کے ذکر کی ضرورت نہیں ۔عام طور پرجس طرح مساجد میں قرآن کریم پڑے ہوتے ہیں اور لوگ اَذانوں ونمازوں کے وقفہ میں قرآن اٹھا کرپڑھنا شروع کردیتے ہیں تواس وقت ان کا مقصود روایت نہیں ہوتا، چنانچہ تلاوت کی غرض سے کروڑوں کی تعداد میں جو قرآن عموما مطبوع ہیں ان کے شروع یاآخر میں بطورِ خاص سند کا اہتمام نہیں ہوتا، البتہ بعض علمی وتحقیقی سطح کے مطبوع قرآنوں کے آخر میں متعلقہ روایت کی صاحب روایت سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک سند موجود ہوتی ہے، لیکن صاحب روایت امام کے بعد سے لے کر عصر حاضر تک اسانید کا اہتمام عام قرآنوں کے بجائے اہل فن کے پاس موجود ہیں ۔ عوام الناس جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو اس سے ان کا مقصود روایت نہیں ،بلکہ تلاوت ہوتی ہے اور روایت کے سلسلہ میں وہ اہل فن ہی پر اعتماد کرتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کریم کو راویت کے طور پر محفوظ انداز میں نقل کردیا ہے، ہمیں ان پر اعتماد ہے اور ہمیں ان کی راویت سے کوئی غرض نہیں ہے ہم کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ قرآن کی محفوظ روایت متعین کردیں تاکہ ہم اسے پڑھ سکیں ۔جن لوگوں کو اس کی راویت میں کوئی شک ہے تو ان سے بحث کی جاسکتی ہے اور ان کو روایات واسانید دیکھائی جاسکتی ہیں ۔
قرآن مجیدمیں بھی حدیثوں کی طرح اَسانید کا اہتمام اہل فن میں شروع سے رہا ہے، لیکن جس طرح حدیث کی کتابیں جب مدون ہوگئیں تو اہل علم جانتے ہیں کہ اس کے بعد اَسانید کے اہتمام کی کوئی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور بعض حضرات جنہوں علمی روایت کے طور پر اگر سند کا اہتمام کیا بھی ہے تواس کی بنیاد پرحدیث پر حکم لگانے کا معاملہ بہرحال موقوف ہوچکا ہے، بالکل اسی طرح آٹھویں صدی ہجری میں النشرالکبیر وغیرہ کے منظر عام پر آنے کے بعد قراء ات کی اسانید کامعاملہ سمیٹ دیاگیا۔اہل فن کے ہاں امام ابن جزری رحمہ اللہ کو اسی اعتبار سے خاتمۃ المحقّقین بھی کہا جاتاہے کہ انہوں نے اسانید کے حوالے سے پوری جانچ پڑتال کرکے النشر کو ترتیب دے دیا۔اب النشر میں جو کچھ ہے اس سے باہر قرآن کریم کی کوئی قراء ت موجود نہیں اور جو کچھ نشر میں موجود ہے اس کی عمومی صحت پر اہل فن کا اتفاق ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کے النشر الکبیرکی تصنیف کے بعد قرآء ات قرآنیہ کی تدوین کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ اس کے بعد ہی سے اسانید کے ساتھ روایت کے معاملہ کو اضافی سمجھ لیا گیا۔ اب اہل فن کے ہاں قراء ات کی تلاوت یا علم قراء ات میں کسی کتاب کی تصنیف سے قبل سندوں کو پیش کرنے کا التزامی اہتمام موجود نہیں ، بعض کبار مشائخ ،جن میں آج بھی روایت واجازت کا اہتمام موجود ہے، وہ بہرحال اپنی تصانیف کے آغاز میں اپنی اسانیدِ قراء ات ذکر کردیتے ہیں ، لیکن عام اساتذہ وطلبہ، جو مدارس میں قراء ت سبعہ و عشرہ پڑھتے پڑھاتے ہیں ، ان میں کتنے لوگوں کے ہاں قراء ات کی سندیں موجود ہیں ۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں کتنے لوگ بخاری شریف پڑھتے پڑھاتے ہیں لیکن وہ سندوں کا اہتمام نہیں کرتے۔ قراء ات کی طرح احادیث کے علماء میں سے بہت تھوڑے لوگ ایسے ہیں جو اسانید کا بطورِ تبرک اہتمام کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں علم قراء ات کی درس وتدریس کے سینکڑوں مدارس موجود ہیں ۔ ان تمام مدارس سے ہزاروں لوگ بطور علم اور بطور روایت ان قراء ات کو پڑھ رہے ہیں ، لیکن ان میں سے بہت ہی تھوڑے لوگوں کے پاس اَسانید موجود ہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آٹھویں صدی ہجری میں تدوین علم کے بعد اب اَسانید کے اہتمام کا معاملہ اضافی ہوچکا ہے۔ اب سندوں کے اہتمام کی اُسی طرح ضرورت نہیں سمجھی جاتی جس طرح صحیحین اور دیگر مجموعہ ہائے حدیث کی ترتیب و تدوین کے بعد سندوں کا اہتمام ختم ہوگیا ہے۔