سوال نمبر(١): اختلافِ قراء ات کاشرعی مقام کیا ہے اور کیا قرآن کریم میں ثبوت ِقراء ات کی کوئی بنیاد موجود ہے ؟
جواب: بنیادی بات جوہرمسلمان کے پیش نظر رہنی چاہئے اور جو اسلام کا بنیادی تقاضا ہے، وہ وحی کی پابندی ہے۔جو مسلمان وحی کو نہیں مانتا وہ گویا وحی بھیجنے والی ہستی یعنی اللہ کو نہیں مانتا اور جو اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے وہ یہ بھی ضرور مانے گا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کوبلا مقصد پیدا نہیں فرمایا،بلکہ کسی مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس مقصد کے بیان کی اب دو ہی شکلیں ہوسکتی ہیں: ایک یہ کہ خالق خود آکرمخلوق کو مقصد ِتخلیق بتائے، دوسرا یہ کہ وہ کسی کو نمائندہ بنا کر بھیج دے۔ہر دو صورت میں اس نے جو بات کہنی ہے وہ اس کا مطالبہ کہلائے گا۔ اللہ رب العزت اگر اپنا مطالبہ براہ راست بیان کرنے کے بجائے کسی واسطہ سے مخلوق سے کریں تو عموما وحی اس کو کہا جاتا ہے اور یہ بات متعین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بات وحی کے ذریعے سے مخلوق کو بیان کی ہے، چنانچہ عقائد ِ اہل سنت میں یہ بنیادی بات ہے کہ ثابت شدہ وحی میں اگر ایک بات آجائے تومسلمان کو اس سے بہرحال انکار نہیں ہوسکتا۔
وحی کے دو ماخذ ہیں: قرآن اور سنت۔ دونوں قسموں کی وحی کی بنیاد رسول ہوتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ سے اگر ایک بات ثابت ہو جائے تو کسی شے کے شرعی ہونے کے لیے یہی کافی ہے، اگرچہ وہ قرآن کریم میں بظاہر بیان نہ بھی ہوئی ہو۔اس کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ثبوت ِقراء ات کا مسئلہ دونوں قسموں کی وحی سے ثابت ہے۔
قرآن مجیدمیں قراء ات کی حقیقت کے بارے میں جوبحث موجود ہے ،میرے مطابق وہ قرآن مجید کی اُن آیات میں ہے، جن میں اُمت کے ساتھ آسانی اور مشقت کے خاتمے کی بات کی گئی ہے۔ ایسی آیات کافی ساری ہیں۔ چند آیات یوں ہیں، فرمایا:
’’ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ‘‘(الحج:۷۸) اور
’’یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ‘‘(البقرۃ:۱۸۵) اور اس طرح کی دیگر آیات۔ اب دین میں
’یسر‘کے حوالے سے اورمشقت کے خاتمے کے سلسلہ میں بے شمار قسم کے احکامات موجود ہیں، وہ سارے
’یسر‘ ہی کی تشریحات کے ذیل میں آتے ہیں۔ اس پہلو سے دیکھیں توہمارے کاروبار میں
’یسر‘ کی رعایت کی گئی ہے، ہمارے معاملات میں
’یسر‘ کی سہولت ہے، نکاح و بیاہ کے معاملات میں
’یسر‘ کو مد نظر رکھا گیا ہے، تمام امور دین میں
’یسر‘ کی بحث موجود ہے۔ اسی طرح ہمارے دین کے اندر اگر کوئی چیز پڑھنے سے متعلق ہے اس میں بھی
’یسر‘ہے۔ دین کا کوئی ایسا عضو نہیں ہے جس میں
’یسر‘نہ ہو ۔ تلاوت ِقرآن بھی دین کا ایک حصہ ہے، لہٰذا اس میں بھی
’یسر‘ کا پہلو ملحوظ رہنا چاہئے۔ اس پہلو سے اگرچہ متن قرآن میں بظاہر قراء ات کا وجود موجود نہیں ہے، لیکن
’یسر‘ کے عمومات کے تحت لازما موجود ہے۔ اس کو آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے
أقیموا الصلوٰۃ میں
’صلوۃ‘کے عموم میں صلوۃ (دعا) کے ہر قسم کے افراد داخل ہیں۔ صلوۃ (دعا )کی ہزاروں شکلیں ہو سکتی ہیں، آپ لیٹ کر بھی دعا کرتے ہیں، بیٹھ کر بھی دعا کرتے ہیں، کھڑے ہوکر بھی دعا کرتے ہیں، اسی طرح دس منٹ کھڑے ہوکر دعا کرنا، دو منٹ کھڑے ہوکر دعا کرنا، رکوع وسجدہ میں دعا کرنا، تشہد میں دعا کرنا وغیرہ یہ سارے دعا کے ہی افراد ہیں۔ شرعی صلوۃ کی جو بھی کیفیت ہو،وہ بھی دعا ہی ہے، چنانچہ
’’أقیموا الصلوۃ‘‘ (الانعام:۷۲)سے مراد اللہ تعالیٰ کی مخصوص قسم کی صلوۃ ہے جس کا ذکر کتب حدیث میں کتاب الصلوۃکے ضمن میں ملتا ہے۔ صلوۃ کا سنت سے کوئی ایسا معنی متعین کرناجو بظاہر قرآن کی عبارت سے سامنے نہ آرہا ہو، تو وہ معنی چونکہ قرآن ہی سے اَخذ شدہ ہوگا، کیونکہ بقول امام شافعیؒ آپ ﷺنے کچھ بیان کیا ہے وہ قرآن مجید ہی سے اخذ کرکے بیان فرمایا ہے، چنانچہ اسے خارج از قرآن قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر اللہ کے رسول
’’ أقیموا الصلوۃ ‘‘(الانعام:۷۲) کہہ کردعا کا کوئی فرد متعین کردیں( جیساکہ پرویز اور دیگر منکرین حدیث بھی صلوۃ کا کوئی معنی اس کے عمومات میں سے متعین کرتے ہیں ) تو وہ قرآن کے خلاف نہیں ہوگا۔ اس پہلو سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
’’یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ‘‘(البقرۃ:۱۸۵)کہہ کر اللہ کے رسول ﷺ نے اگر
’یسر‘ کا کوئی عملی نظام ہمیں دیاہے تو وہ قرآن مجید سے خارج نہیں ہے۔ جیسے اللہ کے رسول ﷺ کی بتائی ہوئی نماز
’’ أقیموا الصلوۃ ‘‘ (الانعام:۷۲) کے اندر داخل ہے، اسی طرح یسر کے ذیل میں رسول اللہ نے جو قراء تیں ذکر فرمائی ہیں وہ بھی عمومات قرآن میں ہی داخل ہیں۔ میرے خیال میں بحث کا ارتکاز اس نکتہ پر رہنا چاہیے کہ سنت کاکوئی حکم قرآن سے باہر نہیں ہے۔ اگر سنت کا کوئی حکم قرآن سے باہر نہیں ہے تواس کامطلب یہ ہوا کہ قراء ات کے بارے میں وارد شدہ آپ کا فرمان
( أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف) (صحیح البخاري:۴۹۹۲)بھی قرآن مجید ہی میں کسی آیت کے عموم میں موجود ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق وہ
’’یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُ الْیُسْرَ‘‘(الانعام:۷۲) کے عموم میں داخل ہے، جیسے نماز کا یہ نظام
أقیموا الصلوٰۃ کے عموم میں نظر آتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مجھ سے پوچھے کہ
إسبال الازار (ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانا)کی ممانعت قرآن میں کہاں وارد ہوئی ہے؟ تو میں اسے کہوں گا کہ قرآن مجید میں تکبر کی ممانعت کی گئی ہے اور اِسبال ازار بھی تکبر کے قبیل سے ہے۔
لغوی اعتبار سے تکبر کے متعددا فراد ہوسکتے تھے، اس کا ایک فرد اللہ کے رسولﷺ نے متعین کردیاہے۔تو رسول اللہ کا ارشاد
(من جرَّ ثوبہ خیلاء لا ینظر اﷲ إلیہ یوم القیٰمۃ ) (صحیح البخاري:۵۳۳۸) قرآن مجید کی تکبر والی آیات کی تشریح وتبیین کے ضمن میں وارد ہوا ہے۔ چنانچہ یہ حکم بھی قرآن کریم سے خارج نہ ہوا، بلکہ اس کے عموم میں داخل ہے۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر اگرقراء ات صرف صحیح حدیثوں سے ثابت ہوجائیں ، تو چونکہ حدیث بھی مثل قرآن وحی ہے،چنانچہ تعدد قراء ات کے شرعی استناد کے لیے صرف یہی کافی ہے۔ (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)(صحیح البخاري:۴۹۹۲)اور اس قسم کی دیگر حدیثیں بتاتیں ہیں کہ قرآنِ مجید کی تلاوت میں متنوع اَسالیب تلاوت موجود ہیں۔یہاں اتنا ذکر کرکے بات ختم کرتے ہیں کہ جب میں نے قراء ات کے بارے میں روایات کے حوالے سے تحقیق کی تو قراء ات کے بارے میں کمپیوٹر پر صرف ایک دفعہ کلک کرنے سے ساڑھے سات سو روایات سامنے آگئیں۔ جس مسئلے کے بارے میں ایک سطحی جائزے میں کم از کم ساڑھے سات سو روایات سامنے آگئیں تو اس مسئلہ کے شرعی ہونے کے بارے میں دو رائے کیسے ہوسکتی ہیں؟