ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
سوال نمبر(١٠) :نبی اکرمﷺ کے ارشاد ( اقروا کما عُلِّمتم )(ابن حبان:۷۴۳) کا مطلب تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا حکم یہ تھا کہ ہر صحابی اسی طرح پڑھے جس طرح اس کا استاد پڑھائے، تو قراء ات اختیارات کیسے ہوئیں؟
جواب: نبی کریمﷺ کے ارشاد اقرؤا کما عُلِّمتم(ابن حبان:۷۴۳) کا جب تک پس منظرسامنے نہ رہے، تب تک اس کی تفسیر اور وضاحت کے اندر اختلاف ہوتا رہے گا۔ جو بات ہم اس فرمان سے سمجھتے ہیں وہ یہ بات ہے کہ رسول اللہﷺ کے اس ارشاد ِ مبارک کا ایک پس منظر ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ متعدد روایات میں صحابہ کے مابین مختلف قراء ات کی قبولیت کے سلسلہ میں جو اختلاف سامنے آیا تو اس سلسلہ میں آپﷺ نے دیگر ارشادات کے ہمراہ جو ایک اُصولی راہنما ارشاد فرمایا وہ یہ تھاکہ ہر آدمی بجائے اس کے کہ اس بحث میں پڑے کہ کون سی قراء ۃ زیادہ بہترہے اور کون سی کم بہتر ہے یا کونسی قراء ت صحیح ہے اور کون سی غلط ، وہ اس بحث میں پڑنے کے بجائے اپنے استاد سے جس طرح پڑھا ہے اسی کے مطابق تلاوت کرتا رہے۔چنانچہ اقروا کما عُلِّمتم(ابن حبان:۷۴۳) سے بنیادی طور اللہ کے رسولﷺ کی مراد یہ تھی کہ لوگ ایک دوسرے کے انداز ِ تلاوت میں پڑنے کے بجائے اپنے اساتذہ سے اَخذ شدہ اسلوب کے مطابق پڑھیں۔ اس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعدازاں علم قراء ات کے آئمہ کبار نے اپنے بے شمار اساتذہ سے جو کچھ پڑھا اسی کے پابندی کرتے ہوئے اپنے انداز تلاوت ترتیب دئیے۔ مثلاً امام نافع رحمہ اللہ کے قراء ات میں ستر اساتذہ تھے اور امام نافع نے اقرء وا کما عُلِّمتم (ابن حبان:۷۴۳) کی رعایت کرتے ہوئے اپنے ستر کے ستر اَساتذہ سے جو کچھ پڑھا، اسی میں سے تمام کو لیتے ہوئے اپنا ایک اندازِ تلاوت متعین کیا اور وہ اس انداز کے مطابق ہی اپنے تلامذہ کو پڑھایا کرتے تھے۔ ان کا جو انداز تلاوت تھا اس میں کسی بھی جگہ اپنے اساتذہ اور مشائخ سے حاصل کردہ قراء ات سے انحراف نہیں تھا، ماسوائے اس کے تمام کو ملا کر ایک نیا اختیار وجود میں آیا۔
مزید برآں واضح رہے کہ قرآنِ مجید کے حوالے سے یہ سوال جو کیاگیا ہے کہ اگر قراء ات میں عملاً خلط ہوا ہے تو کیا قرآن مجید اپنی اصلی شکل میں موجود ہے؟ تو اس کا جواب ہماری پیچھے گزری گفتگو کی روشنی میں یہ ہے کہ قرآن مجید رسول اللہﷺ پر اُترا تھا اور آپ نے اپنے صحابہ تک اسے پہنچایا، صحابہ نے اپنے شاگردوں اور پھر ان کے تلامذہ نے اسے آگے پہنچایا۔ قرآن مجید توحتمی طور پر اس ساری روایت کے اندر موجود ہے۔ البتہ ہمارے علم کی حد تک یہ بات متعین کرنا مشکل ہے کہ نزول کے وقت قرآن کریم کے جو سات اسلوب سبعہ احرف کی صورت میں موجود تھے، بدون اختلاط وہ اپنی اصلی صورت میں کہاں ہیں؟ لیکن چونکہ ان سات اندازوں کی بعینہٖ حفاظت مقصود بھی نہ تھی، کیونکہ تمام حروف ِسبعہ محفوظ صورت میں قراء ات میں موجود ہیں اور شرعی سہولت کے موافق آپ جس طرح آسانی خیال کریں پڑھ لیں، بھی موجود ہے، چنانچہ ان حروف ِسبعہ کو تو محفوظ کیاگیا ہے لیکن ان کی داخلی تعیین کی حفاظت کا اہتمام نہیں کیا جا سکا۔ بلکہ جس طرح رسول اللہ پر نازل شدہ سبعہ اسالیب قراء ات کا علم نہیں، اسی طرح بعد ازاں صحابہ وتابعین اور آئمہ عشرہ کے اساتذہ تبع تابعین کے ترتیبات تلاوت کو بھی متعین کرنا شائد بہت مشکل ہو، کیونکہ جب تک امت میں نئے اختیارات کا سلسلہ جاری رہا ، تب تک ہرنئے آنے والے نے اپنا نئے انداز کو جب ترتیب دیا تو پچھلے کو محفوظ نہیں کیا۔ البتہ جب ان اَئمہ عشرہ کے اختیارات کو اُمت نے قبول کرلیا اور پھرمتاخرین میں ان کا متفقہ تعامل جاری ہوگیا، تو اب صرف ان ائمہ عشرہ کے اختیارات کی تعیین ممکن ہے۔ بہرحال ہم خلاصۃً کہہ سکتے ہیں کہ منزل من اللہ قرآن مجید کے تمام اسالیب توبنیادی طور پر ان موجودہ قراء ات عشرہ میں مکمل طور پرمحفوظ ہیں اور کوئی ایک حرف یا حصہ بھی حذف یا آگے پیچھے نہیں ہوا ،البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ سبعہ احرف کا ہر ہر حرف مفصل اور متعین طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا۔
جواب: نبی کریمﷺ کے ارشاد اقرؤا کما عُلِّمتم(ابن حبان:۷۴۳) کا جب تک پس منظرسامنے نہ رہے، تب تک اس کی تفسیر اور وضاحت کے اندر اختلاف ہوتا رہے گا۔ جو بات ہم اس فرمان سے سمجھتے ہیں وہ یہ بات ہے کہ رسول اللہﷺ کے اس ارشاد ِ مبارک کا ایک پس منظر ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ متعدد روایات میں صحابہ کے مابین مختلف قراء ات کی قبولیت کے سلسلہ میں جو اختلاف سامنے آیا تو اس سلسلہ میں آپﷺ نے دیگر ارشادات کے ہمراہ جو ایک اُصولی راہنما ارشاد فرمایا وہ یہ تھاکہ ہر آدمی بجائے اس کے کہ اس بحث میں پڑے کہ کون سی قراء ۃ زیادہ بہترہے اور کون سی کم بہتر ہے یا کونسی قراء ت صحیح ہے اور کون سی غلط ، وہ اس بحث میں پڑنے کے بجائے اپنے استاد سے جس طرح پڑھا ہے اسی کے مطابق تلاوت کرتا رہے۔چنانچہ اقروا کما عُلِّمتم(ابن حبان:۷۴۳) سے بنیادی طور اللہ کے رسولﷺ کی مراد یہ تھی کہ لوگ ایک دوسرے کے انداز ِ تلاوت میں پڑنے کے بجائے اپنے اساتذہ سے اَخذ شدہ اسلوب کے مطابق پڑھیں۔ اس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعدازاں علم قراء ات کے آئمہ کبار نے اپنے بے شمار اساتذہ سے جو کچھ پڑھا اسی کے پابندی کرتے ہوئے اپنے انداز تلاوت ترتیب دئیے۔ مثلاً امام نافع رحمہ اللہ کے قراء ات میں ستر اساتذہ تھے اور امام نافع نے اقرء وا کما عُلِّمتم (ابن حبان:۷۴۳) کی رعایت کرتے ہوئے اپنے ستر کے ستر اَساتذہ سے جو کچھ پڑھا، اسی میں سے تمام کو لیتے ہوئے اپنا ایک اندازِ تلاوت متعین کیا اور وہ اس انداز کے مطابق ہی اپنے تلامذہ کو پڑھایا کرتے تھے۔ ان کا جو انداز تلاوت تھا اس میں کسی بھی جگہ اپنے اساتذہ اور مشائخ سے حاصل کردہ قراء ات سے انحراف نہیں تھا، ماسوائے اس کے تمام کو ملا کر ایک نیا اختیار وجود میں آیا۔
مزید برآں واضح رہے کہ قرآنِ مجید کے حوالے سے یہ سوال جو کیاگیا ہے کہ اگر قراء ات میں عملاً خلط ہوا ہے تو کیا قرآن مجید اپنی اصلی شکل میں موجود ہے؟ تو اس کا جواب ہماری پیچھے گزری گفتگو کی روشنی میں یہ ہے کہ قرآن مجید رسول اللہﷺ پر اُترا تھا اور آپ نے اپنے صحابہ تک اسے پہنچایا، صحابہ نے اپنے شاگردوں اور پھر ان کے تلامذہ نے اسے آگے پہنچایا۔ قرآن مجید توحتمی طور پر اس ساری روایت کے اندر موجود ہے۔ البتہ ہمارے علم کی حد تک یہ بات متعین کرنا مشکل ہے کہ نزول کے وقت قرآن کریم کے جو سات اسلوب سبعہ احرف کی صورت میں موجود تھے، بدون اختلاط وہ اپنی اصلی صورت میں کہاں ہیں؟ لیکن چونکہ ان سات اندازوں کی بعینہٖ حفاظت مقصود بھی نہ تھی، کیونکہ تمام حروف ِسبعہ محفوظ صورت میں قراء ات میں موجود ہیں اور شرعی سہولت کے موافق آپ جس طرح آسانی خیال کریں پڑھ لیں، بھی موجود ہے، چنانچہ ان حروف ِسبعہ کو تو محفوظ کیاگیا ہے لیکن ان کی داخلی تعیین کی حفاظت کا اہتمام نہیں کیا جا سکا۔ بلکہ جس طرح رسول اللہ پر نازل شدہ سبعہ اسالیب قراء ات کا علم نہیں، اسی طرح بعد ازاں صحابہ وتابعین اور آئمہ عشرہ کے اساتذہ تبع تابعین کے ترتیبات تلاوت کو بھی متعین کرنا شائد بہت مشکل ہو، کیونکہ جب تک امت میں نئے اختیارات کا سلسلہ جاری رہا ، تب تک ہرنئے آنے والے نے اپنا نئے انداز کو جب ترتیب دیا تو پچھلے کو محفوظ نہیں کیا۔ البتہ جب ان اَئمہ عشرہ کے اختیارات کو اُمت نے قبول کرلیا اور پھرمتاخرین میں ان کا متفقہ تعامل جاری ہوگیا، تو اب صرف ان ائمہ عشرہ کے اختیارات کی تعیین ممکن ہے۔ بہرحال ہم خلاصۃً کہہ سکتے ہیں کہ منزل من اللہ قرآن مجید کے تمام اسالیب توبنیادی طور پر ان موجودہ قراء ات عشرہ میں مکمل طور پرمحفوظ ہیں اور کوئی ایک حرف یا حصہ بھی حذف یا آگے پیچھے نہیں ہوا ،البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ سبعہ احرف کا ہر ہر حرف مفصل اور متعین طور پر بیان نہیں کیا جاسکتا۔