ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
سوال نمبر(١٦): اگر قراء ا ت احادیث کی طرح آئمہ کی مرویات کا نام ہے، تو حدیث کی طرح اس کی اَسانید کیوں نہیں؟
جواب: یہ بات غلط فہمی اور کم علمی پر مبنی ہے کہ قرآن اور اسی کی قراء ات بدون سند سینہ بہ سینہ اُمت میں منتقل ہورہی ہیں۔یہ مغالطہ ہمارے ہاں سکالرز حضرات کے ہاں عام ہے کہ قرآن خبر کے طریقہ سے اُمت میں منتقل نہیں ہوا۔ فرقہ فراہیہ نے تو اسی غلط بنیاد پر ایک نیا فلسفہ گھڑ لیا ہے کہ حدیثیں چونکہ خبر کے ذریعے سے اُمت تک منتقل ہوئیں چنانچہ وہ مجموعہ رطب ویابس ہیں، اسی لیے وہ سنت وحدیث میں یوں فرق کرتے ہیں کہ سنت تو دین کی وہ روایت ہے جو اسانید سے قطع نظر مثل قرآن کے اُمت کے اتفاقی تعامل (نام نہاد تواتر عملی)سے ہمیں موصول ہوئی، جبکہ حدیث مجموعہ اخبار ہے۔ بہرحال یہ جہالت پر مبنی مغالطہ امیز بات ہے۔ اگر اس کی بنیاد یہ چیز بنی ہے کہ قرآن مجید کے حوالے سے عام طور پر اسانید عوام الناس یا عام اہل علم میں معروف نہیں، تو اس طرح تو کئی احادیث اور کتب احادیث کی سندیں اہل فن کے علاوہ لوگوں میں معروف نہیں ہیں، مثلاً مشکوٰۃ المصابیح اور بلوغ المرام کے اندر حدیثوں کی اسانید موجود نہیں ہیں، تو کسی چیز کی سند ذکر نہ کرنے کا قطعی معنی یہ نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے سند ہے نہیں۔مختلف وجوہات کی بنیاد پر بسا اوقات اسانید نقل نہیں کی جاتیں۔ مثلاً بلوغ المرام اور مشکوٰۃ میں مؤلفین نے جو اسانید بیان ہیں کیں تو اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کتابوں کو بطورِ روایت کے وہ نقل نہیں کر رہے ۔جب مقصود روایت ہوگا تو بتانا پڑے گا کہ میں نے یہ روایت کہاں سے لی ہے اور اسے بالآخر رسول اللہﷺتک ثابت کرنا پڑے گا۔ عام طور پر صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ یا دیگر کتب ِحدیث کو مؤلفین نے بطورِ روایت نقل کیا ہے اوراسی لیے ان میں اسانید کا بھی ذکر ہے۔ البتہ جب روایت مقصود نہ ہو توسند کا ذکر ضروری نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح بخاری میں موجود معلق روایات ہیں۔ معلق راویتیں امام بخاری رحمہ اللہ نے عام طور پر ترجمۃ الباب میں ذکر کی ہیں۔ مقصود ان سے راویت نہیں،بلکہ استدلال ہے۔جب مقصود استدلال ہو، جیسے میں اور آپ بحث کررہے ہیں اورمیں نے حدیث سبعہ احرف کوکئی دفعہ ذکرکیا ہے لیکن سند، حتی کہ راوی تک کا ذکر نہیں کیا، لیکن اس سے ہماری بحث پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ البتہ جب میں راویت کروں گا، تو آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس روایت کا استناد کیاہے اور اس کی اسنادی حیثیت کیاہے؟اسی طرح مشکوٰۃ اور بلوغ المرام کا معاملہ ہے۔ بلوغ المرام اور مشکوٰۃ میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ اورخطیب تبریزی رحمہ اللہ نے حدیثیں بطورِ روایت نقل نہیں کیں،بلکہ انہوں نے ان مجموعوں کو صرف مطالعہ حدیث کے لیے تیار کیا ہے۔
بالکل اسی طرح قرآن مجید کا بھی معاملہ ہے۔ جب قرآن مجید کے بارے میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کس سند سے یہ قراء ات وروایات ہم تک پہنچیں اور ان کی سند کیا ہے تو ہم اپنے پاس موجود رسول اللہﷺتک متصل اسانید ذکر کردیتے ہیں اور ان میں موجود رجال کے لیے معرفۃ القرّآء الکِباراز امام ذہبی رحمہ اللہ اورطبقات القرائاز امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کو پیش کرتے ہیں، لیکن اگر قرآن مجید سے مقصود راویت نہ ہو ،بلکہ بطورِ عبادت تلاوت کی غرض سے اس کو پڑھا جائے تو اَسانید کے ذکر کی ضرورت نہیں۔عام طور پرجس طرح مساجد میں قرآن کریم پڑے ہوتے ہیں اور لوگ اَذانوں ونمازوں کے وقفہ میں قرآن اٹھا کرپڑھنا شروع کردیتے ہیں تواس وقت ان کا مقصود روایت نہیں ہوتا، چنانچہ تلاوت کی غرض سے کروڑوں کی تعداد میں جو قرآن عموما مطبوع ہیں ان کے شروع یاآخر میں بطورِ خاص سند کا اہتمام نہیں ہوتا، البتہ بعض علمی وتحقیقی سطح کے مطبوع قرآنوں کے آخر میں متعلقہ روایت کی صاحب روایت سے اللہ کے رسولﷺ تک سند موجود ہوتی ہے، لیکن صاحب روایت امام کے بعد سے لے کر عصر حاضر تک اسانید کا اہتمام عام قرآنوں کے بجائے اہل فن کے پاس موجود ہیں۔ عوام الناس جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو اس سے ان کا مقصود روایت نہیں،بلکہ تلاوت ہوتی ہے اور روایت کے سلسلہ میں وہ اہل فن ہی پر اعتماد کرتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کریم کو راویت کے طور پر محفوظ انداز میں نقل کردیا ہے، ہمیں ان پر اعتماد ہے اور ہمیں ان کی راویت سے کوئی غرض نہیں ہے ہم کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ قرآن کی محفوظ روایت متعین کردیں تاکہ ہم اسے پڑھ سکیں۔جن لوگوں کو اس کی راویت میں کوئی شک ہے تو ان سے بحث کی جاسکتی ہے اور ان کو روایات واسانید دیکھائی جاسکتی ہیں۔
قرآن مجیدمیں بھی حدیثوں کی طرح اَسانید کا اہتمام اہل فن میں شروع سے رہا ہے، لیکن جس طرح حدیث کی کتابیں جب مدون ہوگئیں تو اہل علم جانتے ہیں کہ اس کے بعد اَسانید کے اہتمام کی کوئی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور بعض حضرات جنہوں علمی روایت کے طور پر اگر سند کا اہتمام کیا بھی ہے تواس کی بنیاد پرحدیث پر حکم لگانے کا معاملہ بہرحال موقوف ہوچکا ہے، بالکل اسی طرح آٹھویں صدی ہجری میں النشرالکبیروغیرہ کے منظر عام پر آنے کے بعد قراء ات کی اسانید کامعاملہ سمیٹ دیاگیا۔اہل فن کے ہاں امام ابن جزری رحمہ اللہ کو اسی اعتبار سے خاتمۃ المحقّقین بھی کہا جاتاہے کہ انہوں نے اسانید کے حوالے سے پوری جانچ پڑتال کرکے النشر کو ترتیب دے دیا۔اب النشر میں جو کچھ ہے اس سے باہر قرآن کریم کی کوئی قراء ت موجود نہیں اور جو کچھ نشر میں موجود ہے اس کی عمومی صحت پر اہل فن کا اتفاق ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کے النشر الکبیرکی تصنیف کے بعد قرآء ات قرآنیہ کی تدوین کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ اس کے بعد ہی سے اسانید کے ساتھ روایت کے معاملہ کو اضافی سمجھ لیا گیا۔ اب اہل فن کے ہاں قراء ات کی تلاوت یا علم قراء ات میں کسی کتاب کی تصنیف سے قبل سندوں کو پیش کرنے کا التزامی اہتمام موجود نہیں، بعض کبار مشائخ ،جن میں آج بھی روایت واجازت کا اہتمام موجود ہے، وہ بہرحال اپنی تصانیف کے آغاز میں اپنی اسانید ِ قراء ات ذکر کردیتے ہیں، لیکن عام اساتذہ وطلبہ، جو مدارس میں قراء ت سبعہ و عشرہ پڑھتے پڑھاتے ہیں، ان میں کتنے لوگوں کے ہاں قراء ات کی سندیں موجود ہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں کتنے لوگ بخاری شریف پڑھتے پڑھاتے ہیں لیکن وہ سندوں کا اہتمام نہیں کرتے۔ قراء ات کی طرح احادیث کے علماء میں سے بہت تھوڑے لوگ ایسے ہیں جو اسانید کا بطورِ تبرک اہتمام کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں علم قراء ات کی درس وتدریس کے سینکڑوں موجود ہیں ۔ ان تمام مدارس سے ہزاروں لوگ بطور علم اور بطور روایت ان قراء ات کو پڑھ رہے ہیں ، لیکن ان میں سے بہت ہی تھوڑے لوگوں کے پاس اَسانید موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آٹھویں صدی ہجری میں تدوین علم کے بعد اب اَسانید کے اہتمام کا معاملہ اضافی ہوچکا ہے۔ اب سندوں کے اہتمام کی اُسی طرح ضرورت نہیںسمجھی جاتی جس طرح صحیحین اور دیگر مجموعہ ہائے حدیث کی ترتیب و تدوین کے بعد سندوں کا اہتمام ختم ہوگیا ہے۔
جواب: یہ بات غلط فہمی اور کم علمی پر مبنی ہے کہ قرآن اور اسی کی قراء ات بدون سند سینہ بہ سینہ اُمت میں منتقل ہورہی ہیں۔یہ مغالطہ ہمارے ہاں سکالرز حضرات کے ہاں عام ہے کہ قرآن خبر کے طریقہ سے اُمت میں منتقل نہیں ہوا۔ فرقہ فراہیہ نے تو اسی غلط بنیاد پر ایک نیا فلسفہ گھڑ لیا ہے کہ حدیثیں چونکہ خبر کے ذریعے سے اُمت تک منتقل ہوئیں چنانچہ وہ مجموعہ رطب ویابس ہیں، اسی لیے وہ سنت وحدیث میں یوں فرق کرتے ہیں کہ سنت تو دین کی وہ روایت ہے جو اسانید سے قطع نظر مثل قرآن کے اُمت کے اتفاقی تعامل (نام نہاد تواتر عملی)سے ہمیں موصول ہوئی، جبکہ حدیث مجموعہ اخبار ہے۔ بہرحال یہ جہالت پر مبنی مغالطہ امیز بات ہے۔ اگر اس کی بنیاد یہ چیز بنی ہے کہ قرآن مجید کے حوالے سے عام طور پر اسانید عوام الناس یا عام اہل علم میں معروف نہیں، تو اس طرح تو کئی احادیث اور کتب احادیث کی سندیں اہل فن کے علاوہ لوگوں میں معروف نہیں ہیں، مثلاً مشکوٰۃ المصابیح اور بلوغ المرام کے اندر حدیثوں کی اسانید موجود نہیں ہیں، تو کسی چیز کی سند ذکر نہ کرنے کا قطعی معنی یہ نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے سند ہے نہیں۔مختلف وجوہات کی بنیاد پر بسا اوقات اسانید نقل نہیں کی جاتیں۔ مثلاً بلوغ المرام اور مشکوٰۃ میں مؤلفین نے جو اسانید بیان ہیں کیں تو اس کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کتابوں کو بطورِ روایت کے وہ نقل نہیں کر رہے ۔جب مقصود روایت ہوگا تو بتانا پڑے گا کہ میں نے یہ روایت کہاں سے لی ہے اور اسے بالآخر رسول اللہﷺتک ثابت کرنا پڑے گا۔ عام طور پر صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ یا دیگر کتب ِحدیث کو مؤلفین نے بطورِ روایت نقل کیا ہے اوراسی لیے ان میں اسانید کا بھی ذکر ہے۔ البتہ جب روایت مقصود نہ ہو توسند کا ذکر ضروری نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح بخاری میں موجود معلق روایات ہیں۔ معلق راویتیں امام بخاری رحمہ اللہ نے عام طور پر ترجمۃ الباب میں ذکر کی ہیں۔ مقصود ان سے راویت نہیں،بلکہ استدلال ہے۔جب مقصود استدلال ہو، جیسے میں اور آپ بحث کررہے ہیں اورمیں نے حدیث سبعہ احرف کوکئی دفعہ ذکرکیا ہے لیکن سند، حتی کہ راوی تک کا ذکر نہیں کیا، لیکن اس سے ہماری بحث پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ البتہ جب میں راویت کروں گا، تو آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس روایت کا استناد کیاہے اور اس کی اسنادی حیثیت کیاہے؟اسی طرح مشکوٰۃ اور بلوغ المرام کا معاملہ ہے۔ بلوغ المرام اور مشکوٰۃ میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ اورخطیب تبریزی رحمہ اللہ نے حدیثیں بطورِ روایت نقل نہیں کیں،بلکہ انہوں نے ان مجموعوں کو صرف مطالعہ حدیث کے لیے تیار کیا ہے۔
بالکل اسی طرح قرآن مجید کا بھی معاملہ ہے۔ جب قرآن مجید کے بارے میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کس سند سے یہ قراء ات وروایات ہم تک پہنچیں اور ان کی سند کیا ہے تو ہم اپنے پاس موجود رسول اللہﷺتک متصل اسانید ذکر کردیتے ہیں اور ان میں موجود رجال کے لیے معرفۃ القرّآء الکِباراز امام ذہبی رحمہ اللہ اورطبقات القرائاز امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کو پیش کرتے ہیں، لیکن اگر قرآن مجید سے مقصود راویت نہ ہو ،بلکہ بطورِ عبادت تلاوت کی غرض سے اس کو پڑھا جائے تو اَسانید کے ذکر کی ضرورت نہیں۔عام طور پرجس طرح مساجد میں قرآن کریم پڑے ہوتے ہیں اور لوگ اَذانوں ونمازوں کے وقفہ میں قرآن اٹھا کرپڑھنا شروع کردیتے ہیں تواس وقت ان کا مقصود روایت نہیں ہوتا، چنانچہ تلاوت کی غرض سے کروڑوں کی تعداد میں جو قرآن عموما مطبوع ہیں ان کے شروع یاآخر میں بطورِ خاص سند کا اہتمام نہیں ہوتا، البتہ بعض علمی وتحقیقی سطح کے مطبوع قرآنوں کے آخر میں متعلقہ روایت کی صاحب روایت سے اللہ کے رسولﷺ تک سند موجود ہوتی ہے، لیکن صاحب روایت امام کے بعد سے لے کر عصر حاضر تک اسانید کا اہتمام عام قرآنوں کے بجائے اہل فن کے پاس موجود ہیں۔ عوام الناس جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو اس سے ان کا مقصود روایت نہیں،بلکہ تلاوت ہوتی ہے اور روایت کے سلسلہ میں وہ اہل فن ہی پر اعتماد کرتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کریم کو راویت کے طور پر محفوظ انداز میں نقل کردیا ہے، ہمیں ان پر اعتماد ہے اور ہمیں ان کی راویت سے کوئی غرض نہیں ہے ہم کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ قرآن کی محفوظ روایت متعین کردیں تاکہ ہم اسے پڑھ سکیں۔جن لوگوں کو اس کی راویت میں کوئی شک ہے تو ان سے بحث کی جاسکتی ہے اور ان کو روایات واسانید دیکھائی جاسکتی ہیں۔
قرآن مجیدمیں بھی حدیثوں کی طرح اَسانید کا اہتمام اہل فن میں شروع سے رہا ہے، لیکن جس طرح حدیث کی کتابیں جب مدون ہوگئیں تو اہل علم جانتے ہیں کہ اس کے بعد اَسانید کے اہتمام کی کوئی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور بعض حضرات جنہوں علمی روایت کے طور پر اگر سند کا اہتمام کیا بھی ہے تواس کی بنیاد پرحدیث پر حکم لگانے کا معاملہ بہرحال موقوف ہوچکا ہے، بالکل اسی طرح آٹھویں صدی ہجری میں النشرالکبیروغیرہ کے منظر عام پر آنے کے بعد قراء ات کی اسانید کامعاملہ سمیٹ دیاگیا۔اہل فن کے ہاں امام ابن جزری رحمہ اللہ کو اسی اعتبار سے خاتمۃ المحقّقین بھی کہا جاتاہے کہ انہوں نے اسانید کے حوالے سے پوری جانچ پڑتال کرکے النشر کو ترتیب دے دیا۔اب النشر میں جو کچھ ہے اس سے باہر قرآن کریم کی کوئی قراء ت موجود نہیں اور جو کچھ نشر میں موجود ہے اس کی عمومی صحت پر اہل فن کا اتفاق ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کے النشر الکبیرکی تصنیف کے بعد قرآء ات قرآنیہ کی تدوین کا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ اس کے بعد ہی سے اسانید کے ساتھ روایت کے معاملہ کو اضافی سمجھ لیا گیا۔ اب اہل فن کے ہاں قراء ات کی تلاوت یا علم قراء ات میں کسی کتاب کی تصنیف سے قبل سندوں کو پیش کرنے کا التزامی اہتمام موجود نہیں، بعض کبار مشائخ ،جن میں آج بھی روایت واجازت کا اہتمام موجود ہے، وہ بہرحال اپنی تصانیف کے آغاز میں اپنی اسانید ِ قراء ات ذکر کردیتے ہیں، لیکن عام اساتذہ وطلبہ، جو مدارس میں قراء ت سبعہ و عشرہ پڑھتے پڑھاتے ہیں، ان میں کتنے لوگوں کے ہاں قراء ات کی سندیں موجود ہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں کتنے لوگ بخاری شریف پڑھتے پڑھاتے ہیں لیکن وہ سندوں کا اہتمام نہیں کرتے۔ قراء ات کی طرح احادیث کے علماء میں سے بہت تھوڑے لوگ ایسے ہیں جو اسانید کا بطورِ تبرک اہتمام کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں علم قراء ات کی درس وتدریس کے سینکڑوں موجود ہیں ۔ ان تمام مدارس سے ہزاروں لوگ بطور علم اور بطور روایت ان قراء ات کو پڑھ رہے ہیں ، لیکن ان میں سے بہت ہی تھوڑے لوگوں کے پاس اَسانید موجود ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آٹھویں صدی ہجری میں تدوین علم کے بعد اب اَسانید کے اہتمام کا معاملہ اضافی ہوچکا ہے۔ اب سندوں کے اہتمام کی اُسی طرح ضرورت نہیںسمجھی جاتی جس طرح صحیحین اور دیگر مجموعہ ہائے حدیث کی ترتیب و تدوین کے بعد سندوں کا اہتمام ختم ہوگیا ہے۔