• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تعریف شرک پر ایک شبہ کا اذالہ

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
شرک کی تعریف یہ ہے کہ شرک تب ہوگا جب کسی کو اللہ کے سوا واجب الوجود مانا جائے یا مستحق العبادت مانا جائے۔
یہ معیار الوہیت ہیں۔اس پر اعتراض کرتے ہوئے جناب عمر صدیق اور مبشر ربانی صاحب فرماتے ہیں کہ اس اصول پر تو مکے کے مشرک بھی مشرک نہیں رہتے کیوں کہ وہ بھی اپنے بتوں کو قدیم واجب الوجود نہیں مانتے تھے کیوں اپنے ہاتھ سے جو ان کو بناتے تھے۔
جواب اس کا یہ ہے کہ تعریف میں لفظ یا ہے۔اسے کا مطلب ہے دونوں یا دونوں میں سے ایک کام بھی پایا جائے تو شرک ثابت ہوگا۔دیکھو ایک آدمی کہے کہ اگر کوئی جماع کرے یا کھانا کھائے تو روزہ ٹوٹ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اگر دونوں میں سے ایک بھی کام کرے گا تو روزہ ٹوٹ جائے گا ایسے ہی اگر کوئی کسی کو واجب وجود مانے اور مستحق العبادت نہ جانے پھر بھی مشرک اور کسی کو واجب الوجود تو نہ مانے مگر مستحق العبادت جانے پھر بھی مشرک اور مشرکین کمہ اپنے بتوں کی عبادت کرتے تھے۔لہذا مشرک تھے۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
شرک کی تعریف یہ ہے کہ شرک تب ہوگا جب کسی کو اللہ کے سوا واجب الوجود مانا جائے یا مستحق العبادت مانا جائے۔
یہ معیار الوہیت ہیں۔اس پر اعتراض کرتے ہوئے جناب عمر صدیق اور مبشر ربانی صاحب فرماتے ہیں کہ اس اصول پر تو مکے کے مشرک بھی مشرک نہیں رہتے کیوں کہ وہ بھی اپنے بتوں کو قدیم واجب الوجود نہیں مانتے تھے کیوں اپنے ہاتھ سے جو ان کو بناتے تھے۔
جواب اس کا یہ ہے کہ تعریف میں لفظ یا ہے۔اسے کا مطلب ہے دونوں یا دونوں میں سے ایک کام بھی پایا جائے تو شرک ثابت ہوگا۔دیکھو ایک آدمی کہے کہ اگر کوئی جماع کرے یا کھانا کھائے تو روزہ ٹوٹ جائے تو اس کا مطلب ہے کہ اگر دونوں میں سے ایک بھی کام کرے گا تو روزہ ٹوٹ جائے گا ایسے ہی اگر کوئی کسی کو واجب وجود مانے اور مستحق العبادت نہ جانے پھر بھی مشرک اور کسی کو واجب الوجود تو نہ مانے مگر مستحق العبادت جانے پھر بھی مشرک اور مشرکین کمہ اپنے بتوں کی عبادت کرتے تھے۔لہذا مشرک تھے۔
شرک کی تعریف یہ ہے کہ جو صفات اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں ان صفات کو اسی کیفیت کے ساتھ غیراللہ (مخلوق) کے لئے ثابت کرنایعنی ان صفات میں مخلوق میں سے کسی کو اللہ کے برابر مانناشرک ہے اور اس کامرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
شرک کی کئی اقسام ہیں مثلا: شرک فی الذات،،،شرک فی الصفات،،،،شرک فی العبادات،،،،شرک فی الحکم،،،،شرک فی العلم والقدرۃ وغیرہ،
'''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
مجمع الأنهر - (ج 4 / ص 399)
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
شریعت اللہ سے انکار کون کر سکتا هے؟ شرک کو حرام کون قرار دے سکتا هے؟ یہی تو حد فاصل هے اسلام اور کفروشرک کے درمیاں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اس پر اعتراض کرتے ہوئے جناب عمر صدیق اور مبشر ربانی صاحب فرماتے ہیں کہ اس اصول پر تو مکے کے مشرک بھی مشرک نہیں رہتے کیوں کہ وہ بھی اپنے بتوں کو قدیم واجب الوجود نہیں مانتے تھے کیوں اپنے ہاتھ سے جو ان کو بناتے تھے۔
جواب اس کا یہ ہے کہ تعریف میں لفظ یا ہے۔اسے کا مطلب ہے دونوں یا دونوں میں سے ایک کام بھی پایا جائے تو شرک ثابت ہوگا۔
اگر آپ ان کا مکمل جواب نقل کرتے تو یقینا آپ اس زحمت سے بچ جاتے ، اہل حدیث حضرات نے واجب الوجود اور مستحق عبادت دونوں کی وضاحت کر رکھی ہے ، ملاحظہ فرمائیں :

اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
{وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ} (الانعام:۱۲۱)
''بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے بحث کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے۔'' (ترجمہ از غلام رسول سعیدی صاحب، تبیان القرآن:۳؍۶۳۶)
(ہـ)جسٹس ریٹائرڈ پیر کرم شاہ ازہری صاحب راقم ہیں:
''اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال یقین کرتاہے وہ مشرک ہوجاتا ہے۔'' (ضیاء القرآن:۱؍۵۹۷)
(و) نعیم الدین مراد آبادی صاحب اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
''کیونکہ دین میں حکم الٰہی کو چھوڑ دینا اور دوسرے حکم کا ماننا اللہ کے سوا اور کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔'' (خزائن العرفان، حاشیہ سورئہ انعام ، آیت :۱۲۱)
(ز) کوئی مسلمان، شیطان یا اس کے اولیا کو واجب الوجود مانتا ہے، نہ ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانتا ہے اور نہ ان کو مستحق عبادت قرار دیتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ''اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے۔'' (الانعام:۱۲۱)
تومعلوم ہوا کہ شرک کے پائے جانے یا کسی کے مشرک ہونے کے لیے یہ شرط لگانا غلط ہے اور قرآنِ پاک کے خلاف ہے۔
مکمل مضمون کے مطالعہ کے لیے :
امت مسلمہ میں شرک کا وجود
امت مسلمہ میں وجود شرک پر شبہات کا ازالہ
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
اگر آپ ان کا مکمل جواب نقل کرتے تو یقینا آپ اس زحمت سے بچ جاتے ، اہل حدیث حضرات نے واجب الوجود اور مستحق عبادت دونوں کی وضاحت کر رکھی ہے ، ملاحظہ فرمائیں :

اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
{وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ} (الانعام:۱۲۱)
''بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تاکہ وہ تم سے بحث کریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے۔'' (ترجمہ از غلام رسول سعیدی صاحب، تبیان القرآن:۳؍۶۳۶)
(ہـ)جسٹس ریٹائرڈ پیر کرم شاہ ازہری صاحب راقم ہیں:
''اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال یقین کرتاہے وہ مشرک ہوجاتا ہے۔'' (ضیاء القرآن:۱؍۵۹۷)
(و) نعیم الدین مراد آبادی صاحب اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
''کیونکہ دین میں حکم الٰہی کو چھوڑ دینا اور دوسرے حکم کا ماننا اللہ کے سوا اور کو حاکم قرار دینا شرک ہے۔'' (خزائن العرفان، حاشیہ سورئہ انعام ، آیت :۱۲۱)
(ز) کوئی مسلمان، شیطان یا اس کے اولیا کو واجب الوجود مانتا ہے، نہ ان کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانتا ہے اور نہ ان کو مستحق عبادت قرار دیتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ''اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو تم مشرک ہوجاؤ گے۔'' (الانعام:۱۲۱)
تومعلوم ہوا کہ شرک کے پائے جانے یا کسی کے مشرک ہونے کے لیے یہ شرط لگانا غلط ہے اور قرآنِ پاک کے خلاف ہے۔
مکمل مضمون کے مطالعہ کے لیے :
امت مسلمہ میں شرک کا وجود
امت مسلمہ میں وجود شرک پر شبہات کا ازالہ
یہاں فی الحال صرف اتنا عرض ہے کہ یہاں اطاعت سے مراد کفر و شرک والی اطاعت ہے نہ معصیت والی اس کا تفصیلی جواب جلالی صاحب نے دیا ہے وہ ویڈیو بھی پیسٹ کر دی جاتی ہے۔اگر کوئی اور اشکال ہو تو پیش فرمائے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یہاں فی الحال صرف اتنا عرض ہے کہ یہاں اطاعت سے مراد کفر و شرک والی اطاعت ہے نہ معصیت والی اس کا تفصیلی جواب جلالی صاحب نے دیا ہے وہ ویڈیو بھی پیسٹ کر دی جاتی ہے۔اگر کوئی اور اشکال ہو تو پیش فرمائے
جلالی صاحب وغیرہ شرک کی جو تعریف بیان کرتے ہیں ، اس پر کئی ایک اشکالات ہیں ، آپ نے بھی وہی تعریف کی ہے
شرک کی تعریف یہ ہے کہ شرک تب ہوگا جب کسی کو اللہ کے سوا واجب الوجود مانا جائے یا مستحق العبادت مانا جائے۔
اس پر ہمارے اشکالات نوٹ فرمائیں :
پہلا اشکال : اس تعریف میں توحید ربوبیت اور توحید أسماء و صفات کو نظر انداز کردیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ان دو چیزوں کو نظر انداز کرے تو مشرک نہیں ہوگا حالانکہ یہ بات قرآن وسنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے ، توحید کی ان دونوں اقسام پر کئی آیات دلالت کرتی ہیں ۔
دوسر اشکال : اس تعریف کے مطابق تو حضور کے دور کے مشرکین بھی مشرک ثابت نہیں ہوتے حالانکہ قرآن مین جگہ جگہ اللہ نے ان کو مشرک قراردیا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے بتوں کو واجب الوجود یامستحق عبادت نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ تو ان کو اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ مانتےتھے
چنانچہ قرآ ن مجید میں مشرکین کا موقف یوں بیان کیا گیا ہے :
ما نعبدہم إلا لیقربونا إلی اللہ زلفی
تیسرا اشکال : اس تعریف پر تیسرا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ اس تعریف کے ذریعے یہ بات ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امت مسلمہ میں شرک پایا ہی نہیں جا سکتا ہے (کیونکہ بقول آپ حضرات کہ کوئی بھی مسلمان غیر اللہ کو واجب الوجود ، مستحق عبادت وغیرہ نہیں سمجھتا )
اور یہ بات قرآن وحدیث کی ان واضح نصوص کے خلاف ہے جن میں اس امت کے اندر وجود شرک پر واضح دلالت ہے ۔
مثلا حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
«وإنما أخاف على أمتي الأئمة المضلمين وإذا وضع السيف في أمتي لم يرفع عنها إلىٰ يوم القيامة ولا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشركين وحتى يعبدوا الأوثان وانه سيكون في أمتي ثلاثون كذابون كلهم يزعم انه نبي وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي ولا تزال طائفة من أمتي على الحق»
''مجھے اپنی امت پر گمراہ کن ائمہ کا خوف ہے اور جب میری امت میں ایک بار تلوار چل پڑی تو قیامت تک اُٹھائی نہیں جائے گی، اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک میری اُمت میں سے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں اور یہاں تک کہ وہ بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں اور عنقریب میری اُمت میں تیس کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا یہی گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری اُمت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔'' ( حوالہ )
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
جلالی صاحب وغیرہ شرک کی جو تعریف بیان کرتے ہیں ، اس پر کئی ایک اشکالات ہیں ، آپ نے بھی وہی تعریف کی ہے

اس پر ہمارے اشکالات نوٹ فرمائیں :
پہلا اشکال : اس تعریف میں توحید ربوبیت اور توحید أسماء و صفات کو نظر انداز کردیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ان دو چیزوں کو نظر انداز کرے تو مشرک نہیں ہوگا حالانکہ یہ بات قرآن وسنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے ، توحید کی ان دونوں اقسام پر کئی آیات دلالت کرتی ہیں ۔
دوسر اشکال : اس تعریف کے مطابق تو حضور کے دور کے مشرکین بھی مشرک ثابت نہیں ہوتے حالانکہ قرآن مین جگہ جگہ اللہ نے ان کو مشرک قراردیا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے بتوں کو واجب الوجود یامستحق عبادت نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ تو ان کو اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ مانتےتھے
چنانچہ قرآ ن مجید میں مشرکین کا موقف یوں بیان کیا گیا ہے :
ما نعبدہم إلا لیقربونا إلی اللہ زلفی
تیسرا اشکال : اس تعریف پر تیسرا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ اس تعریف کے ذریعے یہ بات ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امت مسلمہ میں شرک پایا ہی نہیں جا سکتا ہے (کیونکہ بقول آپ حضرات کہ کوئی بھی مسلمان غیر اللہ کو واجب الوجود ، مستحق عبادت وغیرہ نہیں سمجھتا )
اور یہ بات قرآن وحدیث کی ان واضح نصوص کے خلاف ہے جن میں اس امت کے اندر وجود شرک پر واضح دلالت ہے ۔
مثلا حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
«وإنما أخاف على أمتي الأئمة المضلمين وإذا وضع السيف في أمتي لم يرفع عنها إلىٰ يوم القيامة ولا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشركين وحتى يعبدوا الأوثان وانه سيكون في أمتي ثلاثون كذابون كلهم يزعم انه نبي وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي ولا تزال طائفة من أمتي على الحق»
''مجھے اپنی امت پر گمراہ کن ائمہ کا خوف ہے اور جب میری امت میں ایک بار تلوار چل پڑی تو قیامت تک اُٹھائی نہیں جائے گی، اور اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک میری اُمت میں سے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائیں اور یہاں تک کہ وہ بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں اور عنقریب میری اُمت میں تیس کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا یہی گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور میری اُمت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔'' ( حوالہ )
آپ نے یوں علمی طریقے سے اشکالات کئے خوشی ہوئی اور امید ہے کہ آگے بھی یہی انداز اپنایا جائے گا۔
حضرت آپ نے کہا کہ مشرکین اپنے بتوں کو مستحق العبادت نہیں مانتے تھے۔جناب اس سلسلہ میں عرض ہے کہ جو آیت آپ نے پیش کی اس میں یہ بات موجود ہے کہ وہ بتوں کی عبادت کرتے تھے ۔اب آپ کے حکیم صادق سیالکوٹی صاحب فرماتے ہیں جن کو ہم اس کی عبادت میں شریک کریں گے۔ان کو گویا ہم خدا کے مقابل اور معبود بنائیں گے،اگرچہ زبان سے ہم ان کے خدا اور معبود ہونے کا اقرار نہ کریں۔(انوارالتوحیدص141)
ذیل میں مبشر ربانی صاحب کی ویڈیو پیش خدمت ہے جس میں وہ کہتے کہ مشرکین بتوں کو معبود و الہ مان کر انکی عبادت کرتے تھے۔
جہاں تک صفات کی بات تو اللہ کی تمام صفات ذاتی ہیں اور وہ اپنی صفات میں کسی کا محتاج نہیں۔اور واجب الوجود بھی وہی ہے جو اپنی ذات کو قائم رکھنے میں کسی کا محتاج نہ ہو۔جب اس کی ذات ذاتی ہے تو صفات بھی ذاتی ہیں ۔لہذا کسی میں اگر اللہ کی طرح اللہ کی صفات مانی جائیں تو شرک۔
جہاں تک آپ کی پیش کردہ حدیث کا تعلق ہے تو اس کی وضاحت مسلم شریف کی دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ نے اس پر سوال کیا کہ میں وت یہ سمجھی ہوئی تھی کہ یہ دین آخر تک ہے ۔تو رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ جب تک چاہے گا اس کو عروج بخشے گا پھر ایک پاکیزہ ہوا بھیجے گا اور جس میں ارءی کے دانے برابر بھی ایمان ہوگا وہ فوت ہوجائیں گئے اور پیچھے برے لوگ رہ جائے گئے جو اپنے آبا کے دین کی طرف پھر جائیں گئے۔لہذا کوئی تعارض نہیں۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ بقول اسماعیل دہلوی صاحب یہ ہوا چل چکی ہے۔
مزید کوئی اشکال ہو تو وہ اسی طریقہ سے پیش کر کے شکریہ کا موقع دیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میری نظر میں آپ نے اشکال نمبر 1 کا بالکل بھی جواب نہیں دیا ، دوسرے کا الزامی جواب دیا ہے ، تیسرے کا جواب گول مول کرگئے ہیں ۔
گزارش ہے کہ جس طرح اشکال بالکل واضح ہیں ، ان کے سامنے جواب بھی بالکل واضح انداز میں عنایت فرمادیں ۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
سبحان اللہ جناب دوبارہ کچھ عرض ہے اگر سمجھنے کی کوشش فرمائے
1۔واجب الوجود کا مطلب ہوتا ہے جس کا وجود ذاتی ہو اور وہ اپنے وجود کے قائم رکھنے میں کسی کا محتاج نہ ہو۔(یہ تعریف مبشر ربانی صاحب نے کی ہے)
اب اس میں دو باتیں ہیں ایک وجود ذاتی اور ایک صمدیت ۔تو واجب الوجود کی زات کی صفات بھی ذاتی اور کسی کی محتاج نہیں۔لہذا کسی اور میں ایسی صفات ماننا شرک ہے
2۔دوسری بات کا جواب آپ کے مسلمہ لوگوں سے نقل کیا تھا مگر چلیں اس کے بعد فی الحال عر ض ہے اللہ نے مشرکیں کے عقیدے کو رد کرتے ہوئے بار بار کہا کہ کیا اللہ سوا بھی کوئی الہ ہے(سورت نمل)اس کا صاف مطلب ہے کہ انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنائے ہوئے تھے۔
3۔تیسری بات کا جواب گول مول نہیں بہت سیدھا تھا کہ اس حدیث کی تشریح صحیح مسلم کی دوسری حدیث کرتی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ۔اور اس پر میں نے آپ پر ایک اعتراض کیا تھا کہ تقویۃ الایمان کے مطابق وہ ہوا چل چکی ہے تو کیا اب سارے لوگ مشرک ہیں بشمول اہلحدیث(المعروف وہابی غیر مقلدین)
 
Top