ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
تعلیم قرآن کے لئے چند بنیادی علوم:
معلم قرآن(مرد یا عورت) کی شخصیت میں ذیلی علمی صلاحیت اور خصوصیات کا ہونا بہت ضروری ہے۔
۱…قرآن پاک کو بخوبی تلاوت کرنا جانتا ہو نیز اس کے معانی ومفاہیم کو سمجھتا ہو۔ وہ قرآن کے اخلاق سے مزین ہواور سنت پرعمل کا اہتمام کرنے والا ہو۔وہ جسمانی اور عقلی اعتبار سے قوی ہو۔ دانا، پختہ اور صاحب جمال ہو۔ یہ وہ صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے جبریل امین میں رکھی ہیں۔ جنہوں نے اپنی اصل شخصیت کو رسول اکرم ﷺ کے سامنے ظاہر کیا تھاتاکہ وہ آپﷺ کو قرآن مجید وحی کرسکیں اور سکھاسکیں۔حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتا ہو ۔ متعصب غیر مسلم یا ان سے متأثرین کی تحریروں پر اس کی گہری نظر ہو۔ــــمذہبی عصبیت سے پاک اور دینی حمیت والا ہو۔ورنہ وہ اپنے مذہب کی مدد ونصرت کو آیات میں تلاش کرتا پھرتا رہے گا اور حق کو الٹی طرف پھیر دے گا۔ سیرت رسول ﷺ اور سیرت صحابہ کا بھی بخوبی علم رکھتا ہو۔اسے معلوم ہو کہ ان کے دین ودنیا کے بارے میں خیالات ونظریات اور اعمال کیا تھے ؟ اور انہوں نے اپنے دینی ودنیاوی معاملات میں ان کا تصرف کس طرح کیا۔ معلم خود باعمل ، باحوصلہ اور باوقار ہو۔ قرآنی تعلیم میں اس کی شخصیت ایک نمونہ بنے تاکہ طلبہ عملاً استاذ کو بطور نمونہ دیکھ لیں۔ اور اعتماد کے ساتھ قرآنی احکام پر عمل کرسکیں۔ محنتی طلبہ سے ہرگز نہ اکتائے بلکہ ان کی راہنمائی کے لئے ہمہ وقت تیار رہے اور ان پر نظر بھی رکھے۔
۲۔ وہ عربی لغت کا ماہر ہو تاکہ قرآنی کلمات کی وضاحت کرسکے کیونکہ قرآن مجید میں غریب، مترادف، اور اضداد بکثرت ہیں۔ان تمام اسالیب محاورہ کا عمیق مطالعہ رکھتا ہو۔اس لئے کہ قرآن عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔ امام مجاہدؒ فرمایا کرتے: لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ یُّؤمِنُ بِاللہِ وَبِالْیَومِ الآخِرِ أَنْ یَّتَکَلَّم فِی کِتَابِ اللہِ إِذَا لَمْ َیکُنْ عَالِمًا بِلُغَاتِ الْعَرَبِ۔ جو اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں گفتگو کرے جب وہ لغات عرب کو نہ جانتا ہو۔ اسی طرح امام مالک ؒفرمایا کرتے: لَا أُوْتٰی بِرَجُلٍ غَیْرَ عَالِمٍ بِلُغَۃِ الْعَرَبِ یُفَسِّرُ کِتَابَ اللہِ إِلَّا جَعَلْتُہٗ نَکَالًا۔ میرے پاس کوئی ایسا شخص نہ لایا جائے جو لغت عرب سے ناآشناہو اور وہ اللہ کی کتاب کی وضاحت کرتا ہو ورنہ میں اسے عبرت کا نمونہ بنا دوں گا۔
ان الفاظ کی وضاحت میں ان معانی کو پیش نظر رکھے جو زمانہ نزول کے وقت متعین کئے گئے پھر قوانین اعراب و بلاغت سے اس کے ترکیبی معنی پر غور کرے اور سیاق و سباق پر نظر ڈال کر سیاق کلام سے مقصود معنی کو متعین کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ اس کوشش کے باوجود بھی یہ معنی اجتہادی ہوگا جس میں اور معنی کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ایسی وضاحت طلبہ میں مزید شوق ودل چسپی اور تدبر وتاثیر کا سبب بنے گی۔
۳… عربی زبان میں اہم علوم علم نحو وعلم صرف ہیں تاکہ اعرابی وصرفی کیفیت کو جان کر صحیح مفہوم اخذ کیا جاسکے۔ ورنہ محض حرکت کی تبدیلی سے معنی ایمان سے کفر اور کفر سے ایمان کی طرف پلٹ سکتا ہے۔قرآن تو عربی قواعد کا بھی نگران ہے اس لئے اس سے اغماض نہیں برتا جاسکتا۔اسی طرح علم صرف میں لفظ کی بناء اور صیغہ کا علم بھی بہت ضروری ہے ورنہ بقول ابن فارس: مَنْ فَاتَہٗ عِلْمُہٗ فَاتَہُ الْمُعْظَمُ۔جس سے یہ علم رہ گیا اس سے بہت کچھ رہ گیا۔ کیونکہ جب ہم وَجَدَ کو ایک مبہم لفظ کہتے ہیں تو اسے ذرا بدلنے سے مزید اس کی وضاحت ہوتی جاتی ہے۔ جیسے: وُجدًا سے مراد مال اور گم شدہ کے لئے : وِجدان اور غضب کے لئے مَوجِدَۃ اور حزن کے لئے وَجْدًا۔ مثلاً: قرآن مجید میں ہی ایک ہی لفظ کو پھیرنے سے دیکھئے معنی عدل سے ظلم کی طرف چلا گیا ہے۔ جیسے: سورہ الحجرات میں ہے: {وَاَقْسِطُوْا اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ} انصاف کرو اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتاہے۔ اور یہی لفظ سورہ الجن میںظلم وجور کے معنی میں ہے {وَاَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَكَانُوْا لِجَہَنَّمَ حَطَبًا} رہے ظالم تو وہ جہنم کا ایندھن ہی بنے۔
۴…علم صرف ونحو سے لاعلمی بدعت وخطأ کا ارتکاب بھی کرادیتی ہے جیسے: اس آیت {يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍؚ بِـاِمَامِہِمْ} میںلفظ امام کا واحد کسی معلم نے أمّ (ماں) لیا ہے کہ لوگ روز قیامت اپنی ماؤں کے ساتھ نہ کہ باپوں کے ساتھ پکارے جائیںگے تاکہ ولد الزنا اس روز رسوا نہ ہو۔ اب اس مفسر کو کون بتائے کہ أمّ کی جمع أمہات ہوا کرتی ہے اور امام کی ائمہ۔
۵…علم الاشتقاق کا علم بھی معلم کے لئے انتہائی علم ہے جب کوئی اسم دو مختلف مادوں سے تو ظاہر ہے اس کا معنی بھی مختلف ہوگا ۔ جیسے: لفظ مسیح ہے کیا وہ سیاحۃ سے ہے یا مسح سے۔ نیز دونوں کا مطلب بھی مختلف ہے۔
۶۔ معلم کو تعلیم قرآن کے لئے اپنے پیش نظر لغات میں ابن دریدکی الجمہرۃ فی اللغۃ، جوہری کی الصحاح، ابومنصور کی تہذیب اللغۃ، ابن قتیبہ کی غریب القرآن والحدیث، ابن فارس کی معجم مقاییس اللغۃ، راغب اصفہانی کی مفردات جیسی بنیادی کتب کا مطالعہ کرنا چاہئے۔لغت ومحاورات عرب سے تو صحابہ رسول بھی مستفید ہوتے رہے۔سیدنا ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
اَلشِّعْرُ دِیْوَانُ الْعَرَبِ، فَإِذَا تَعَاجَمَ عَلَیْنَا شَیْءٌ مِنَ الْقُرآنِ رَجَعْنَا إِلَیْہِ۔شاعری تو عربوں کا دیوان ہے جب ہم پر کوئی قرآنی لفظ مشکل ہوجاتا ہے تو ہم اسی شاعری کی طرف ہی حل کے لئے پلٹتے ہیں(مقدمہ اصول التفسیر از امام ابن تیمیہؒ: ۳۰)
بہرحال لغت یا محاورہ عرب سے جو بھی تعلیم دے اس پر بار بار نظر ثانی کرے کہ آیا یہ مفہوم ووضاحت رسول کریم ﷺ کی سیرت اور راہنمائی کے مطابق ہے؟ کیا کہیں آپ ﷺ کے اقوال، افعال اور تفسیر صحابہ کے منافی تو نہیں؟ نیز اجتماعی قواعد اور تاریخی حقائق سے یہ لغت کس حد تک مناسبت رکھتی ہے۔
۷ـ…معلم بطور خاص علوم قرآن سے بھی واقف ہو۔ تاکہ وہ قرآن کریم کا صحیح ادراک کرسکے۔ ان کے بغیر ذِلت اور ضلالت ہی اس کا مقدر ہوگی۔ان علوم میں علم القراءت جو کیفیت نطق اور قراءت کی مختلف وجوہ کا علم ہیں کیونکہ تغیر حرکات سے معنی مختلف ہوجاتا ہے۔نیز دیگر علوم قرآن میں اسباب نزول، الناسخ والمنسوخ اور علم القصص بھی اہمیت کے حامل ہیں۔علم القصص بھی اسے ازبر ہو جس سے مراد یہ ہے کہ ایک ہی واقعہ مختلف مقامات پر بیان شدہ ہے اگر کہیں وہ واقعہ اجمال میں بیان ہوا ہے تو دوسرے مقام پر اسے تفصیل سے بیان کردیا گیا ہے۔اس طرح اس کا فہم متعین ہوجاتا ہے۔ علم القراءت پر بہترین کتاب الإِقْناعُ فی القِراء اتِ السَّبْعِ از ابوجعفر ابن الباذش کے ہے اور قرآة عشرہ میں کتاب المِصْباح ہے جو ابو الکرم الشہرزوری کی ہے۔
۸ـ…درج ذیل علمی طریقہ اپنے پیش نظر رکھے :
… بغیر کسی طوالت اور انوکھی باتوں کے قرآن کی تعلیم قرآن سے دے۔
…احادیث صحیحہ سے بھی مدد لے اور انہیں ہی حجت بنائے۔
…اگر ضرورت ہو تو اسباب نزول، ناسخ ومنسوخ اور احکام کو بھی بیان کرے۔
… جلیل القدر ائمہ مجتہدین کے بھی استدلال لے۔
۹۔ معلم کبھی کبھی اپنے طلبہ سے عبارات یا الفاظ کے معانی اور مفاہیم کے متعلق سوال بھی کرے۔ انہیں قرآنی عبارت کی روشنی میںکوئی تحقیقی کام دے۔ جو پڑھائے اس پر طلبہ سے کھل کر بحث کرے اور ان کے خیالات وافکار سنے۔ان کا تحریری امتحان لے۔ طلبہ کے پاس جدید معلومات کا جو خزانہ ہے اس سے بھی استفادہ کرے۔ کتب، تحقیقی مقالہ جات ، اخبارات وانٹر نیٹ میں آئے دن عجیب و غریب مصدقہ خبریں ان سب کی معلومات جمع کرکے اپنے علم میں مزید اضافہ کرے۔آیت سے کوئی سنہری اصول نکلتا ہو تو اس سے طلبہ کو آگاہ کرے۔ نئے حوادث وواقعات پر تبصرہ کرتے وقت قرآنی آیات کا خوب استعمال کرے تاکہ طلبہ کے دماغ میں قرآنی مفہوم گڑ جائے اور اسے ایک زندہ وتابندہ کتاب وہ سمجھیں۔۔تجوید وقراءت کو بھی قرآنی تعلیم کا باقاعدہ حصہ بنائے تاکہ طلبہ میں قرآن دانی کے ساتھ حسن قراءت کا ملکہ وذوق بھی ہو۔
۱۰… اسی طرح حدیث اور علوم حدیث کا علم تو بنیادی نوعیت کا ہے ۔ معلم کے لئے ان دونوں علوم سے آراستہ ہونا اس لئے بھی بہت ضروری ہے کہ وہ صحیح مطالب کی حدود میں رہتے ہوئے غلط رجحانات یا مخصوص مذہبی وفکری رجحانات کی طرف نہیں بدکتا۔اور صحیح وحسن احادیث سے وہ اپنی تفسیر کو دوآتشہ کرلیتا ہے اور ضعیف وموضوع روایات سے اپنے آپ کو باز رکھتا ہے۔
۱۱… تفسیر صحابہ کا علم بھی اس لئے ضروری ہے تاکہ بعض اہم مسائل پر رائے زنی سے بچا جائے۔ ایسے مسائل پر ان کی اجماعی رائے حدیث مرفوع اور حجت کی حیثیت رکھتی ہے۔قرآن وحدیث میں بے شمار دلائل ایسے ملتے ہیں جن میں انہی کی اتباع کا کہا گیا ہے۔کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے بلاواسطہ شاگرد ہیں اور نور نبوت سے ان کے سینے مستنیر ہوئے ہیں۔
۱۲… اصول فقہ کا علم بھی تعلیم قرآن کا ایک اساسی علم ہے۔ تاکہ معلم استنباط احکام میں استدلال کی وجوہات سے واقف ہو۔امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے تعلیم قرآن سے متعلق کچھ اہم اصولی قاعدے اپنی کتاب بدائع الفوائد میں ذکر کئے جن سے واقفیت معلم قرآن کی علمی صلاحیت کو دوبالا کردے گی۔جس پر مزید حاشیہ آرائی شیخ ابن العثیمین رحمہ اللہ نے اپنی کتاب القواعد الحِسان میں کی ہے۔ مثلاً:
منفی یا مثبت کلام میں نکرہ کا عام ہونا: مثلاًنکرہ اگر نفی کے سیاق میں ہو تو وہ عام کا فائدہ دیتا ہے۔جیسے:
{۔۔۔وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا}، {فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْيُنٍ۔۔}
…استفہام میں بھی اگر نکرہ ہو تو عمومیت کا فائدہ دیتا ہے۔ جیسے: {۔۔۔ہَلْ تَعَلَمُ لَہٗ سَمِیًّا}
…یا شرط میں نکرہ ہو۔ جیسے: {۔۔فَإِمَّا تَرَین مِنَ الْبَشَرٍ أحَدَا} {وَإنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ}
…اور نہی میں نکرہ ہو جیسے:{۔۔ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ۔۔}
…اسی طرح اگر نکرہ سیاق اثبات ہو تو عموم کا فائدہ دیتا ہے ۔ مثلاً {عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ} اسی طرح جب اس کی طرف مضاف ہو تو بھی جیسے:{وَجَآئَ تْ کُلُّ نَفْسٍ}۔
…مقتضی عام ہونے پر نکرہ بھی عام ہوتا ہے۔ جیسے:{ وَنَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰہَا}۔
مفرد اور جمع کا عام ہونا: مفرد اسم، الف لا م سے مزین ہو تو وہ بھی عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ مثلاً: {اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسَرٍ}۔اور {وَسَیَعْلَمُ الْکُفَّارُ}
…مفرد عام ہو اور مضاف ہو مثلاً : {{وَہٰذَا کِتَابُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ}۔ اس سے مراد وہ تمام کتب ہیں جن میں ان کے اعمال درج ہیں۔
… جمع اگر الف لام سے آراستہ ہو تو اس کا عام ہونا جیسے: {وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ} یا { وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَہُمْ} یا یہ ارشاد { إِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ}۔
…اسی طرح جمع مضاف ہو تو وہ بھی عموم کا فائدہ دیتی ہے جیسے: {کُلٌّ آمَنَ بِاللہِ وَمَلٰئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ}۔
…ایسے حروف شرط جو اسماء ہیں وہ بھی عموم کا فائدہ دیتے ہیں۔جیسے: {وَمَنْ يَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَہُوَمُؤْمِنٌ۔۔} یا {اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ}، یا {وَاِذَا جَاءَكَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِاٰيٰتِنَا۔۔} یہ عموم اس صورت میں ہوگا جب جواب کا مطالبہ ہو۔ لیکن اگر ماضی کی خبر ہو تو پھر عموم ضروری نہیں جیسے: {وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَا۔۔} یا {اِذَا جَاۗءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا ۔۔} اور اگر خبر مستقبل کی ہو تو اس کی اکثر باتیں عموم کی ہوا کرتی ہیں جیسے: {وَاِذَا كَالُوْہُمْ اَوْوَّزَنُوْہُمْ يُخْسِرُوْنَ} یا {وَاِذَا رَاَيْتَہُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُہُمْ}۔
امر مطلق ہو تو وجوب کا معنی ہوگا اس کی مخالفت مذموم ہے۔ نافرمانی کی صورت میں جلد یا بدیر اس کی سزا بھی مقرر کی جائے گی۔ امر کا وجوب کبھی صریح الفاظ سے ثابت ہوتا ہے۔ جیسے ایجاب یا فرض اور کتب کے الفاظ ہوں۔ یا لفظ علی ہو یا حَقٌ عَلَی الْعِبَاد اور عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ۔ وغیرہ کے الفاظ ہوں۔
…اسی طرح نہی سے تحریم ثابت ہوتی ہے جو اس کا مرتکب ہو یا اس کی مخالفت کرے وہ بھی مذموم ہے۔ ایسی صورت میں اس کا مرتکب سزا کا مستوجب ہوگا۔ اس کے صریح الفاظ سے بھی، مثلاً حرام ہے یا پابندی ہے یا کسی فعل کے بجالانے پر وعید کے الفاظ ہوں۔ یا فاعل کی مذمت ہو، یا کسی فعل کے کرنے پرکفارہ بتایا گیاہو، یا لفظ لایحل ہو، یا فعل کو فساد بتایا گیا ہو، یایہ کہا گیا ہو کہ شیطان نے اس عمل کو خوبصورت بنادیا ہے یا اللہ تعالیٰ اسے پسند نہیں فرماتا یا اللہ تعالیٰ اسے اپنے بندوں میں دیکھ کر خوش نہیں ہوتا۔یا اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو کبھی پاک نہیں کرے گا اس سے بات نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کی طرف دیکھے گا۔
…مباح کے قاعدے بھی قرآن کریم میں موجود ہیں جیسے تخییر کی اجازت، تنبیہ کے بعد حکم، کوئی گناہ نہیں ، کوئی حرج نہیں یا کوئی مؤاخذہ نہیں کے الفاظ، اور یہ بتانا کہ اس نے معاف کردیا ہے یا زمانہ وحی میں کسی فعل کو برقرار رکھنا، یا کسی شے کو کسی نے حرام کیا تو اسے ناپسند کرنا یا یہ اطلاع دینا کہ اللہ نے اسے ہمارے لئے پیدا کیا ہے۔اسی طرح اور بے شمار قاعدے واصول بھی مذکور ہیں جو ہر طالب قرآن کے لئے اور بالخصوص مفسر کے لئے بہت ضروری ہیں۔بعض مفسرین نے اپنی تفاسیر میں ان اصولوں کا خوب استعمال کیا ہے جن میں:
ابوبکر الجصاص (م: ۳۷۰ھ) کی تفسیر أحکام القرآن، فخر الدین رازی (م: ۶۰۶ھ)کی تفسیر مفاتیح الغیب، قاضی ناصر الدین بیضاوی(م: ۷۹۱ھ) کی تفسیر أنوار التنزیل وأسرار التأویل اور جلال الدین سیوطی (م:۹۱۱ھ) کی تفسیر الدُّرُّ المَنْثُور یا امام شوکانی(م: ۱۲۵۰ھ) کی تفسیر فَتْحُ القدیر ۔
۱۳…تعلیم قرآن میں سلف صالحین کے منہج اور طریقہ کا رکا معلم پابند رہے۔ اصول دین سے ایسا واقف ہو کہ آیات کی تفسیر سے صحیح عقیدہ کا ادراک کرسکے۔توحید، اسما ء وصفات، رسالت اور رسول کی اتباع، ختم نبوت سے اس کا تعلق، تقدیر کے خیر وشر ہونے پر ، خروج دجال اور نزول مسیح ،عذاب قبر ،یا بعث بعد الموت جیسے عقائد پر اسلاف میں بالخصوص صحابہ کرام کے عقائد کو خوب اجاگر کرے۔ ورنہ اس میدان میں بہت سے پھسل کر دنیا وآخرت میں خسران مبین کے مستحق بن چکے ہیں۔
۱۴…جس کا عقیدہ بگڑا ہوا ہو وہ پھر اپنی رائے وسوچ پر ہی اعتقاد رکھتا ہے پھر الفاظ قرآن کو اپنی رائے پر دے مارتا ہے اور ایسا مفہوم کو بیان کرتا ہے جو سلف صالحین ۔۔جو صحابہ وتابعین ہیں۔۔ میں کسی سے ثابت نہیں ہوتا۔ آیات جو اس کے باطل مذہب کو رگیدتی ہیں ان کی تفسیر کرتے وقت وہ ان کی ایسی تاویل کرتا ہے کہ انہیں اپنی رائے یا سوچ کے مطابق بنالیتا ہے۔ایسا شخص جب حق کا طالب نہیں تو اس سے حق کیسے لیا جاسکتا ہے؟
۱۵…معلم،تعلیم قرآن دیتے وقت اپنے آپ کو یہی سجھائے کہ میں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کلام کا صرف مترجم ہوں اور جو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں چاہا ہے اس کا گواہ ہوں۔ اس شہادت کو وہ بہت بھاری ذمہ داری سمجھے اورہمیشہ اس بات سے ڈرتا رہے کہ قرآن کریم سے متعلق کوئی بات بغیر علم کے نہ کہہ دے اور نہ اپنے رجحانات کی تائید کے لئے تعلیم کا رخ موڑدے۔ ورنہ وہ وہیں جاگرے گا جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور روز قیامت ذلیل ورسوا بھی ہوگا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۳۳} (الاعراف:۳۳) کہہ دیجئے میرے رب نے تو تمام ظاہری اور مخفی فحش کو حرام قرار دیا ہے نیز گناہ اور بغاوت ناحق کوبھی ، اور یہ بھی کہ تم اللہ کے ساتھ اسے شریک بناؤ جس کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نہیں اتاری، اور یہ بھی کہ تم اللہ تعالیٰ پر وہ وہ باتیں کہو جسے تم جانتے نہ ہو۔
اسی طرح یہ ارشاد بھی اس کے پیش نظر رہے:
{وَيَوْمَ الْقِيٰمَۃِ تَرَى الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلَي اللہِ وُجُوْہُہُمْ مُّسْوَدَّۃٌ۰ۭ اَلَيْسَ فِيْ جَہَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِيْنَ۶۰} ( الزمر:۶۰ ) اور روز قیامت تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں کو دیکھوگے کہ ان کے چہروں پر کلونس چھائی ہوئی ہے۔ کیا ایسے متکبروں کا بسیرا جہنم نہیں ہوگا؟
۱۶۔ مشکل قرآن یعنی وہ مقامات یا عبارات جہاں قرآن مجید کی مراد سمجھنا اور سمجھاناضروری ہوان کا بھی علم رکھتا ہو۔اگر وہ حافظ قرآن ہو تو ان ملتے جلتے مقامات کو بیان کرنے میں بہت سا وقت بچ سکتا ہے۔ جیسے{ ریب المنون} کا جو معنی ہے کیا وہی ہے جو ان الفاظ کا ہے یا اس سے مراد کچھ اور ہے؟ اسی طرح{والبحر المسجور} میں سَجْرٌ کیا ہے؟ ان معانی کا عقدہ تب ہی بہتر طور پر کھل سکتا ہے اگر عصری علوم سے معلم آراستہ ہو۔اور طلبہ میں ان الفاظ کی حقیقت تک ڈدبنے اور معانی کو معلوم کرنے کا شوق تدبر ابھار دے۔
۱۷۔تعلیم قرآن کے دوران طلبہ اگر محسوس کریں کہ قرآن کریم میں تضاد ہے یا معلم خود دیکھتا ہے کہ اس کی دو آیات کا مفہوم ایک دوسرے سے مختلف ہے۔اسی طرح ایک ہی واقعہ میں لفظی اختلاف ہے۔ جیسے واقعہ تخلیق آدم میں مٹی کے لئے کہیں تراب، اور کہیں طین، کہیں صلصال، تو کہیں فخار کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اسے تَعَارُض کہتے ہیں۔اس کے علم سے بھی آراستہ ہونا معلم کے لئے بہت ضروری ہے۔اور یہ ثابت کرنا ہے کہ کلام اللہ تضاد نہیں۔اور طلبہ کے ذہن میں یہ بات ایمانی اعتبار سے اور علمی اعتبار سے گاڑنی ہے کہ اولاً ہمارا ایمان ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے مقدس کلام میں کہیں کوئی تعارض نہیں ۔ اور اس بظاہر اختلاف کو سمجھنے کے لئے ہمیں اپنے قرآنی علم کو بڑھانا چاہئے۔ کیونکہ اختلاف محسوس ہونے کی ایک بڑی وجہ آیات قرآنیہ میں غور وفکر کی عدم صلاحیت ، کجی، کم علمی یا سوء فہمی بھی ہوسکتی ہے۔ تعارض کا یہ واہمہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا شیطان احادیث میںتضاد تلاش کرواتا ہے۔ علماء نے اخبار واحکام کے بارے میں ہمیشہ یہ دو اصول پیش نظر رکھنے کا کہا ہے:
پہلا اصول: اخبار میں تعارض نہیں ہوتا: قرآن کریم میں بیان شدہ امم ماضیہ کی خبروں میں کوئی تعارض نہیںہوتا۔ مثلاً ھبوط آدم اورسبت کے واقعے میں یا قوم عاد وثمود کے واقعات بلا تعارض ہیں۔ تعارض ہوا تو یقیناً ایک واقعہ پھر جھوٹ ہوگا جو کلام اللہ میںنا ممکن ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیْثًا} (النساء:۸۷) اللہ سے بڑھ کر بات میں اور کون سچا ہوسکتا ہے؟ یا {وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ قِیْلًا}(النساء:۱۲۲)اللہ سے بڑھ کر بات میں اور کون سچا ہوسکتا ہے؟
دوسرا اصول: احکام میں تعارض نہیں ہوتا:اسی طرح قرآن مجید میں احکام وشرائع کے بارے میں دو مختلف باتیں نہیں ہوسکتیں ۔گو ان احکام کا نزول تدریجی ہوا مگر پھر بھی ان میں باہمی ٹکراؤ نہیں۔
رہاظاہری تعارض تو اسے سمجھنے اور اسے ختم کرنے کے لئے علماء نے یہ اصول بیان فرمائے ہیں:
أ۔ دو آیات میں جب تعارض محسوس ہو تو انہی آیات کے سیاق وسباق(Context) کو پڑھئے اور سمجھئے۔ ان کے مابین جمع وتطبیق یا ترجیح کی کوئی صورت نکل آئے گی ورنہ توقف کیجئے اور کسی ماہر عالم قرآن سے رجوع کیجئے۔
ب۔ دونوں متعارض آیات کے نزول کی تاریخ معلوم کیجئے اس طرح بعد والا حکم ناسخ ہو گا اور پہلا منسوخ۔ قرآن کریم میں نسخ کا اصول بھی یہی ہے۔اس لئے جب نسخ ثابت ہوجائے تو پہلا حکم باقی نہیں رہے گا اور نہ ہی پہلا حکم آخری حکم کے معارض ہوگا۔
علماء نے ان مثالوں کا تذکر ہ کیا ہے جو تعارض کا شائبہ دیتی ہیں اورپھر ان کے مابین جمع کی صورت بھی نکالی ہے۔مثلاًقرآن مجید کے بارے میںہے: {ہدی للمتقین} یہ متقین کے لئے کتاب ہدایت ہے۔ مگر ایک اور مقام پر یوں فرمادیا :
{ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاس۔۔۔} (البقرۃ : ۱۸۵) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لئے باعث ہدایت ہے۔یہ سب لوگوں کے لئے کتاب ہدایت ہے۔
پہلی آیت میں ہدایت، متقین کے ساتھ مخصوص ہے اور دوسری میں عام۔ کیوں؟ اس بظاہر تعارض کو یوں حل کیا گیا کہ پہلی آیت میں ہدایت سے مستفید ہونے کی توفیق کا ہونا ہے جو اللہ تعالیٰ متقین کو نوازتا ہے۔یہ پیاسے ہوتے ہیں کنویں پہ چل کے آتے ہیں اور دوسری آیت میں کتاب کی ہدایت سے مراد عام لوگوں کو راہ دکھانے کے ہیں کہ اگر انہیں طلب ہے تو کنویں پہ چل کے آئیں ورنہ کنواں ان کے پاس نہیں آئے گا۔
اسی طرح اس سے ملتی جلتی یہ دو آیات بھی ہیں جن میں رسو ل اللہ ﷺ کو فرمایا:
{اِنَّكَ لَا تَہْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ۰ۚ وَہُوَاَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِيْنَ۵۶} (القصص:۵۶) بے شک آپ لوگوں کو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے جسے وہ چاہتا ہے۔
اور یہ قول بھی:
{وَاِنَّكَ لَـــتَہْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۵۲ۙ} (الشوری:۵۲) اور بلاشبہ آپ ہی لوگوں کو سیدھا راستہ دکھا رہے ہیں۔
یہاں پہلیآیت میںہدایت، سے مراد توفیق دینا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور دوسری میں ہدایت سے مراد راہنمائی کرنا یا سیدھی راہ دکھانا ہے جس سے آپ ﷺ عہدہ برآ ہورہے ہیں۔
٭…اسی طرح یہ مثال:
{شَہِدَ اللہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۰ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ۔۔۔} (آل عمران : ۱۸) اللہ تعالیٰ گواہی دیتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے واہل علم بھی۔
نیز یہ ارشاد بھی:
{وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللہُ۰ۭ ۔۔۔} (آل عمران :۶۲ ) ’’ کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے۔
اس کے برعکس یہ ارشاد:
{ فَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ} (الشعراء : ۲۱۳) اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنا کر مت پکارنا۔
پھر یہ ارشاد:
{وَمَا ظَلَمْنٰہُمْ وَلٰكِنْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فَمَآ اَغْنَتْ عَنْہُمْ اٰلِہَتُہُمُ الَّتِيْ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ شَيْءٍ لَّمَّا جَاۗءَ اَمْرُ رَبِّكَ۰ۭ وَمَا زَادُوْہُمْ غَيْرَ تَتْبِيْبٍ۱۰۱}(ھود :۱۰۱) جب تمہارے رب کا حکم آیا تواللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان کے وہ معبود کچھ کام نہ آسکے جنہیں وہ پکارا کرتے تھے۔جنہوں نے سوائے تباہی کے انہیں کچھ نہ نوازا۔
پہلی دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ کے سوا دیگر کے الہ ہونے کی نفی ہے اور آخری دو آیتوں میں غیر کے الہ ہونے کا اثبات ہے۔ کیوں؟ اس کا جواب ان دونوں قسم کی آیات کو جمع کرنے سے مل جاتا ہے وہ اس طرح کہ جو اُلوہیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے وہ الوہیت حق ہے اور جودوسروں کے لئے ثابت کی گئی ہے وہ باطل اُلوہیت ہے ۔ اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتے ہیں:
{ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ہُوَالْبَاطِلُ وَاَنَّ اللہَ ہُوَالْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ۶۲} (الحج:۶۲ ) یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے اور اس کے سوا جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں اور یہ پھی کہ اللہ تعالیٰ ہی بلند وبرتر اور بڑا ہے۔
مزید مثالوں کا بیان اسباب نزول میں آرہا ہے۔اس موضوع پر بہترین کتاب علامہ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کی ہے جس کا نام دَفعُ إِیْہَامِ الاِضْطِرَابِ عَنْ آیِ الْکِتَابِہے۔
۱۸۔ قرآن ، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ مخالفت وحمایت میں اور اپنی بات پیش کرنے میںاس کا اسلوب بیان، الفاظ کا انتخاب،زبانی ادب اور اخلاق ایک انسان کو نیا انسان بناتے ہیں۔دعوت دین کی بہتر بنیاد بناتے ہیںاورتعلیم کتاب کی تأثیر میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ایسا رنگ صبغۃ اللہ کا ہی اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ اگر تعلیم قرآن سے معلم ومتعلم ایسا رنگ نہیں پکڑتے تو سب کچھ عبث ہے۔ اس لئے معلم کی زبان والفاظ میں جوش بے شک ہو مگر ہوش بھی ہو۔اس لئے کہ وہ داعی بھی ہے اور ایک نمونہ بھی۔تَخَلَّقُوا بِأَخْلاَقِ اللہِ اور صبغۃ اللہ میں خود ڈھلتا جائے۔
۱۹۔ آیات کے اختتام پر صفات باری تعالیٰ کا ذکر بڑی ہی اہمیت کا حامل ہے۔ بیشتر آیات کے آخر میں غفور رحیم، خبیر، بصیر، علیم بذات الصدور، عالم الغیب والشہادۃ، سمیع علیم وغیرہ صفات کیا معنی وتعلق رکھتی ہیں۔ معلم ان صفات کو سابقہ گفتگو سے جوڑے۔باہمی تعلق بتائے۔مسلسل اہمیت واضح کرے تاکہ رب کریم کی صحیح پہچان اور عظمت دلوں میں بیٹھتی جائے۔ اس مقتدر ہستی کے مقابلے میں وہ خود کو اورہر ایک کو چھوٹا وبے بس سمجھے۔اللہ عظیم کے مقابلے میں غیر اللہ اور من دون اللہ اس پر واضح ہوتا جائے۔ اللہ ورسول کی ا طاعت ومحبت اس کی گھٹی میں پڑجائے۔ اس کی مہربانیوں اور رحمتوںپرا للہ کی محبت اس کے دل میں بیٹھے، اس کا خوف اسے رلادے۔ اپنے گناہوں پر معلم ومتعلم کی نظر ہو اور رب کی ناراضگی بھی ہمہ وقت ان کے پیش نظر رہے۔
۲۰۔ قرآن مجید نے رسول اکرم ﷺ کے اخلاق فاضلہ کو سراہا ہے۔اگر سیرت نبوی واحادیث نبویہ سے رسول اکرمﷺ کی روزمرہ زندگی اور معاملات کی مثالیں معلم کو ازبر ہوں تو ان اخلاقیات کے اثرات بہت گہرے ہیں اس لئے کہ سیرت رسول اور قرآن دونوں اپنے اپنے مقام پر ساتھ ساتھ ہیں یعنی رسول کی سیرت سے جو کچھ ٹپکتا ہے خواہ عمل کی صورت میں ہو یا قول کی یا لوگوںکے ساتھ معاملے کی، سیرت بھی قرآن کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔اس لئے احادیث، واقعات، غزوات، اسفار رسول، اذکار رسول، مناجات رسول، معاملات رسول کو بھی ساتھ پیش کرتا جائے تاکہ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرآنُ کی صحیح تصویر طالب علم کے سامنے آجائے۔ حب رسول طالب علم کی سیرت بن جائے۔
نجاشی کو پورے آداب واحترام سے قرآن مجید سنایا گیا اس نے سنا اور غور سے سنا، سمجھ گیا اور ایمان لایا۔ جنوں نے قرآن سنا اور رسول کی تلاوت سے سنا۔ تو پکار اٹھے {اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَــبًا۱ۙ يَّہْدِيْٓ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ۰ۭ}۔ ہم نے بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو سیدھی راہ کی راہنمائی کرتا ہے ہم تو اس پر ایمان لائے۔
۲۱۔ معلم کو چاہئے کہ قرآن مجید کی اول تا آخر تعلیم دے۔ اس میں اپنی پسند وناپسند کے مطابق آیات کا نتخاب نہ کرے بلکہ قرآن کے رجحانات اور تعلیم کے مطابق خود کو ڈھالے اور ثابت کرے کہ ہر مقام پر مکرر آئی ہوئی عبارت کی کیا خصوصیت واہمیت ہے۔غیر ضروی مباحث سیاست، حکومت جیسے موضوعات سے اجتناب کرے اور اپنی نظر نص فہمی پر لگائے اور اسی کی تعلیم دے۔تاکہ اس کا ادراک اور احاطہ کرکے طلبہ میں تَفَقُّہ فِی القرآن کا پہلو اجاگر کرسکے۔ ضعیف وموضوع روایات اور اسرائیلیات کا استعمال ہر گز نہ کرے۔عصری علوم کی مثالیں دیتے وقت حتمی بات نہ کرے اس لئے کہ یہ انسانی علوم ہیں ان میں وقت کے ساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے جبکہ قرآن مجید ایک ابدی کتاب ہے اور ناقابل تغیر ہے۔عربی نص کا صحیح فہم طلبہ کے دماغ میں ڈالے تاکہ نماز میں یا تراویح میں قرآن سنتے وقت ان کے معانی ومفاہیم ان کے دماغ میں گھومتے جائیں اور اثر لے کر نماز میں اپنی مطلوبہ کیفیات کو حاصل کرسکیں۔
۲۲…معلم قرآن، امہات کتب تفسیر جن میں تفسیر ابن جریر طبری، ابن العربی کی أحکام القرآن، تفسیر ابن عطیہ، تفسیر ابن کثیر اور تفسیر قرطبی، تفسیر القاسمی اور تفسیر اضواء البیان از شنقیطی سے بھی مستفید ہو۔ تفسیری تائید کے لئے ائمہ محدثین کی کتب مثلاً صحیح بخاری، اس کی شرح فتح الباری، صحیح مسلم اور اس کی شرح المنہاج از امام نووی، المفہم از امام المازری، سنن اربعہ، موطأ امام مالک، التمہید از ابن عبد البر، سنن دار قطنی اور بیہقی، مسند احمد ، مسند دارمی، مسند ابوداؤد طیالسی، امام طبرانی کی تینوں معاجم، مصنف عبد الرزاق، وابن ابی شیبۃ، نیل الأوطار از امام شوکانی وغیرہ سے بھی مدد لے۔اسی طرح رجال کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کی کتب پر اعتماد کرے جیسے تاریخ کبیر اور تاریخ صغیر از امام بخاری، تذکرۃ الحفاظ اور میزان الإعتدال از امام ذہبیؒ، تہذیب الکمال از امام ابو الحجاج المزی الکامل از ابن عدی، التقریب والتہذیب از امام ابن حجر عسقلانی ۔
… اہل لغت مثلاً ابو عبیدؒ، ابن مالکؒ کی کتب، ازہریؒ کی تہذیب اللغۃ اور فیومیؒ کی المصباح المنیر کو بھی پیش نظر رکھے۔لغوی مسائل اور صرف و اعراب کے مسائل کے لئے اشعار عرب سے بھی مدد لے۔
…قراءت شاذہ کے ذکر سے اجتناب کرے ہاں اگر تنبیہ مقصود ہو تو پھر ان کا ذکر مفید ہوگا۔
۲۳… ترجیح مسائل میں کسی معین مذہب میں متعصب ہوئے بغیر ، قرآن وصحیح حدیث کو یا اقرب کو دلیل بنائے۔
۲۴۔ جدید سہولیات فراہم کرکے طلبہ میں قرآن سمجھنے کی استعداد بڑھائی جاسکتی ہے۔مثلاً گرمی وسردی کے موسم کے مطابق کلاس کا ماحول بنانے کا اہتمام کرے۔ طلبہ کی صحت درست رکھنا اورہونا بہت ضروری ہے اور کلاس میں حاضری بھی۔بیماری کے ایک آدھ ناغہ کے بعد طالبعلم استاذ کے ساتھ یا سبق کے ساتھ کلاس میں نہیں چل رہا ہوتا۔اس لئے حفظان صحت کے اصولوں سے واقفیت کرانے کے لئے ا ور موسم و ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں سے طلبہ کو آگاہ کرنے کے لئے مختلف ماہرین کے وقتاً فوقتاً لیکچرز کا اہتمام کرے۔
۲۵۔ اپنے طلبہ سے قلم کا استعمال کرائے۔ مثلاً وہ کلاس میں دوران سبق اہم نوٹس لیں۔سوالات لکھ کر دیں۔ روزانہ جو سبق پڑھیں اسے لکھیں تاکہ عربی خط درست ہو۔ معلم ہر طالب علم سے کم از کم ایک بار پورا قرآن ضرور لکھوالے۔