ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
تفسیرقرآن میں قراء ات کے اثرات
ڈاکٹر نبیل بن محمد ابراہیم
مترجم: محمد عمران اسلم
قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا جس کے براہ راست مخاطب بھی اہل عرب ہی تھے۔ ان کی مادری زبان چونکہ عربی تھی اس لیے انہیں قرآن سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ مزید برآں اگر انہیں قرآنی آیات کی تفہیم میں کسی قسم کی مشکل کاسامناہوتا بھی تو رسول اللہ ﷺ اس کی مکمل وضاحت فرما دیتے۔جیسا کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت :
مترجم: محمد عمران اسلم
نازل ہوئی تو صحابہ کرام پر اس آیت کامفہوم متعین کرنا مشکل ہوگیا جس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم نے حضرت لقمانؑ کا اپنے بیٹوں سے یہ خطاب نہیں سنا؟’’إنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ‘‘(لقمان :۱۳) ’’بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ یعنی ظلم سے مراد شرک ہے۔’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ‘‘ (الانعام :۸۲) ’’جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہ کیا۔‘‘
جیسے جیسے آیات قرآنیہ نازل ہوتیں صحابہ کرامؓ ان کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہوئے ذہن نشین کرلیا کرتے تھے۔ پھر مرورِ زمانہ کے ساتھ جب اسلامی فتوحات وسیع ہوتی چلی گئیں تو بہت سے عجمی لوگ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے جن میں فارسی، ہندوستانی اور افعانی وغیرہ شامل تھے۔
چونکہ یہ لوگ عربی زبان سے قطعی نابلد تھے لہٰذا انہیں عربی سمجھنے میں دقت کاسامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ علماء کرام نے علوم عربیہ اور بلاغت ومعانی کی بنیاد رکھی۔ اس کے ساتھ ہی علم تفسیر وجود میں آیا۔ یہ علم اپنے وجود کے اعتبار سے تو بعثت سے ہی شروع ہوگیا تھا، کیونکہ آپ ﷺ کا فرض منصبی قرآن کریم کی تفہیم وتبیین ہی تھا، لیکن باقاعدہ تدوین کا آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا۔ اس سلسلے میں قراء ات ، حدیث، ناسخ ومنسوخ اور بہت سے دیگر علوم سے مدد لی گئی۔ مفسرین نے قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے سب سے پہلے قرآن کی تفسیر قرآن کے ذریعے، پھر قرآن کی تفسیر سنت کے ذریعے، پھربالترتیب اَقوال صحابہ، اَقوال تابعین، لغت عرب اورآخر میں اپنی رائے کے ذریعے تفسیر کااسلوب اختیارکیا۔اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ قرآن کریم کی تفسیر میں قراء ات قرآنیہ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں،کیونکہ قراء ات، قرآن کے الفاظ کو جدید اور نئے معانی عطا کرتی ہیں۔
مفسرین وفقہاء کے نزدیک کسی کلمہ قرآنی میں دو متواتر قراء تیں ہوں تو وہ دوآیات ہی کی طرح ہیں ان کی تفسیر وارد شدہ آیات کی طرح کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ قراء ات قرآنیہ کے بارے میں کہا گیا: ’’ہر قراء ۃ اپنے معنی پر دلالت کرنے کے اعتبار سے مستقل آیت کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘ (أحکام القرآن لابن عربی:۱؍۱۶۹)
ذیل میں اس بحث کی دو طرح سے تقسیم کی جاتی ہے:
(١) قراء ات قرآنیہ میں مفسرین کا مؤقف
(٢) تفسیر قرآن میں قراء ات کے اثرات