تیسری توجیہ
’’ولو تری الذین ظلموا إذا یرون العذاب یقولون: إن القوۃ ﷲ جمیعا‘‘
’’وہ لوگ جو ظلم کرتے ہیں جب عذاب کو دیکھیں گے تو کہیں گے : ساری کی ساری قوت اللہ جل جلالہ کے لئے ہے۔‘‘
امام حمزہ رحمہ اللہ، کسائی رحمہ اللہ، ابوعمرورحمہ اللہ، عاصم رحمہ اللہ اور ابن کثیررحمہ اللہ نے
’یا‘کے ساتھ پڑھا ہے، جس کی ایک تاویل یہ بیان کی گئی ہے:
’’ولو یری فی الدنیا الذین ظلموا حالھم فی الآخرۃ إذ یرون العذاب لعلموا أن القوۃ ﷲ جمیعا‘‘
’’اگر ظالم لوگ آخرت کے عذاب کو دنیا میں دیکھ لیں تو وہ جان لیں کہ ساری کی ساری قوت اللہ کے لئے ہے۔‘‘
(٣) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’إِنِّیْ وَضَعْتُہَا اُنْثٰی وَاﷲُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ‘‘ (آل عمران:۳۶)
اس آیت میں کلمہ ’وضعت‘ میں دو قراء تیں ہیں:
امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ، شعبہ رحمہ اللہ اور امام یعقوب رحمہ اللہ نے صیغہ واحد متکلم کے ساتھ
’وَضَعْتُ‘ جبکہ باقی سب قراء نے صیغہ واحد مؤنث غائب کے ساتھ
’وَضَعَتْ‘ پڑھاہے۔
جن لوگوں نے تاء کو ساکن کیا ہے ان کی قراء ت کی توجیہ یہ ہے کہ یہ اُم مریم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے اور جنہوں نے
’تا‘کو ضمہ دیا ہے ان کی قراء ت کی توجیہ یہ بنتی ہے کہ یہ جملہ حکایت ہے اس سے جو اُم مریم نے اپنے بارے میں خبر دی۔
تفسیر زاد المیسّر میں ہے:
’’من قرأ بجزم التاء وفتح العین فیکون فی الکلام تقدیم وتأخیر، وتقدیرہ: انی وضعتہا انثی ولیس الذکر کالانثی واللہ أعلم بما وضعت۔ ومن قرأ بضم التاء فہو کلام متصل من کلام أم مریم‘‘ (زاد المیسّر: ۱؍۲۷۶)
’’ اگر صیغہ متکلم کے ساتھ پڑھا جائے تو پھر
واﷲ أعلم بما وضعتُ یہ اُم مریم کا مقولہ بن جائے گا اور پورا کلام متصل ہوگا۔گویا کلام کا سیاق یوں ہوگا:
’’إنی وضعتہا أنثی واﷲ أعلم بما وضعتُ‘‘’’میں نے لڑکی جنی ہے، اور اللہ جانتا ہے جو میں نے جنا ہے،لیکن اگر اس کو صیغہ غائب کے ساتھ پڑھا جائے تو کلام میں تقدیم و تاخیر ہوگی یعنی
واﷲ أعلم بما وضعتْ ام مریم کا مقولہ نہیں ہوگا۔‘‘
گویا صیغہ غائب والی قراء ت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے تسلی ہے اور صیغہ متکلم والی قراء ت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ان کو یقین تھا کہ یہ جو لڑکی پیدا ہوئی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے جس کو وہی بہتر جانتا ہے۔
(٤) فرمان الٰہی ہے :
’’إنَّ اﷲَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اﷲ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ‘‘ (الحج:۳۸)
اس آیت میں کلمہ ’یدفع‘کے اندر دو قراء تیں ہیں:
ابن کثیررحمہ اللہ، ابوعمرو بصری رحمہ اللہ اور یعقوب رحمہ اللہ نے
’یَدْفَعُ‘جبکہ باقی سب قراء نے
’یُدٰفِعُ‘پڑھاہے۔
باب مفاعلہ میں چونکہ فعل جانبین سے پایا جاتاہے لہٰذا اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ یہاں مدافعت کا فاعل تو صرف اللہ تعالیٰ ہے، تو پھر باب مفاعلہ کا معنی کیسے ہوگا؟ اس کے بارے میں امام ابومحمد مکی قیسی رحمہ اللہ الکشف میں لکھتے ہیں:
’’لکن یحمل علی تکریر الفعل،أی یدفع عنہم مرۃ بعد مرۃ فیصح لفظ یدافع من واحد‘‘
’’اس کو فعل کے تکرار پر محمول کیا جائے گا یعنی وہ ان کا دفاع کرتاہے بار بار، لہٰذا یدافع کا ایک جانب سے استعمال ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ ( الکشف: ۲؍ ۱۲۰)
تفسیر بحر المحیط میں ہے:
’’ومن قال یدفع، فمعناہ: یبالغ فی الدفع عنہم‘‘ (بحر المحیط: ۶؍ ۳۷۳)
’’ جس نے یدافع کہا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ وہ دفاع میں مبالغہ یعنی شدت سے کام لیتا ہے۔‘‘
یعنی صیغہ مجرد والی قراء ت سے تو نفسِ مضمون حاصل ہوتا ہے، اور مفاعلہ والی قراء ت سے اللہ تعالیٰ کے فعل مدافعت کی قوت وقدرت کے کمال کی طرف اشارہ ہے۔
(٥) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’إنَّا اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ‘‘(البقرۃ:۱۱۹)
اس آیت میں کلمہ
’ولا تسئل‘ میں دو قراء تیں ہیں:
امام نافع رحمہ اللہ اور یعقوب رحمہ اللہ نے
’ وَلَا تَسْئَلْ‘لام کے جزم کے ساتھ، جب کہ باقی سب قراء نے لام کے ضمہ کے ساتھ
’ وَلا تُسْئَل‘ پڑھا ہے۔
تفسیر مظہری میں ہے :
’’ جمہور کی قراء ت کے موافق
’’ وَلَا تُسْئَلُ عَنْ أصْحٰبِ الْجَحِیْمِ‘‘کے معنی یہ ہوں گے :
’’اے محمدﷺ! آپ سے اس کی پوچھ گچھ نہ ہوگی کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہ لائے۔ آپ کے ذمہ تو صرف پہنچا دینا ہے۔ اور نافع کی قراء ت پر سوال سے نہی ( منع) شدت عذاب سے کنایہ ہوگی۔ ‘‘
امام قرطبی نفی والی قراء ت کامعنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ والمعنی إنا أرسلنٰک بالحق بشیرا ونذیرا غیر مسئول عنہم‘‘ ( احکام القرآن : ۲ ؍۹۲)
’’اور معنی یہ ہے کہ بے شک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا بنا کر بھیجاہے، اس حال میں کہ ان کے بارے میں آپ سے کوئی سوال نہ ہوگا۔‘‘