• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیرقرآن میں قراء ات کے اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تفسیرقرآن میں قراء ات کے اثرات

ڈاکٹر نبیل بن محمد ابراہیم
مترجم: محمد عمران اسلم​
قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا جس کے براہ راست مخاطب بھی اہل عرب ہی تھے۔ ان کی مادری زبان چونکہ عربی تھی اس لیے انہیں قرآن سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ مزید برآں اگر انہیں قرآنی آیات کی تفہیم میں کسی قسم کی مشکل کاسامناہوتا بھی تو رسول اللہ ﷺ اس کی مکمل وضاحت فرما دیتے۔جیسا کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت :
’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا إِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ‘‘ (الانعام :۸۲) ’’جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہ کیا۔‘‘
نازل ہوئی تو صحابہ کرام پر اس آیت کامفہوم متعین کرنا مشکل ہوگیا جس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم نے حضرت لقمانؑ کا اپنے بیٹوں سے یہ خطاب نہیں سنا؟’’إنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ‘‘(لقمان :۱۳) ’’بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ یعنی ظلم سے مراد شرک ہے۔
جیسے جیسے آیات قرآنیہ نازل ہوتیں صحابہ کرامؓ ان کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہوئے ذہن نشین کرلیا کرتے تھے۔ پھر مرورِ زمانہ کے ساتھ جب اسلامی فتوحات وسیع ہوتی چلی گئیں تو بہت سے عجمی لوگ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوئے جن میں فارسی، ہندوستانی اور افعانی وغیرہ شامل تھے۔
چونکہ یہ لوگ عربی زبان سے قطعی نابلد تھے لہٰذا انہیں عربی سمجھنے میں دقت کاسامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ علماء کرام نے علوم عربیہ اور بلاغت ومعانی کی بنیاد رکھی۔ اس کے ساتھ ہی علم تفسیر وجود میں آیا۔ یہ علم اپنے وجود کے اعتبار سے تو بعثت سے ہی شروع ہوگیا تھا، کیونکہ آپ ﷺ کا فرض منصبی قرآن کریم کی تفہیم وتبیین ہی تھا، لیکن باقاعدہ تدوین کا آغاز دوسری صدی ہجری میں ہوا۔ اس سلسلے میں قراء ات ، حدیث، ناسخ ومنسوخ اور بہت سے دیگر علوم سے مدد لی گئی۔ مفسرین نے قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے سب سے پہلے قرآن کی تفسیر قرآن کے ذریعے، پھر قرآن کی تفسیر سنت کے ذریعے، پھربالترتیب اَقوال صحابہ، اَقوال تابعین، لغت عرب اورآخر میں اپنی رائے کے ذریعے تفسیر کااسلوب اختیارکیا۔اس میں دو رائے نہیں ہیں کہ قرآن کریم کی تفسیر میں قراء ات قرآنیہ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں،کیونکہ قراء ات، قرآن کے الفاظ کو جدید اور نئے معانی عطا کرتی ہیں۔
مفسرین وفقہاء کے نزدیک کسی کلمہ قرآنی میں دو متواتر قراء تیں ہوں تو وہ دوآیات ہی کی طرح ہیں ان کی تفسیر وارد شدہ آیات کی طرح کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ قراء ات قرآنیہ کے بارے میں کہا گیا: ’’ہر قراء ۃ اپنے معنی پر دلالت کرنے کے اعتبار سے مستقل آیت کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘ (أحکام القرآن لابن عربی:۱؍۱۶۹)
ذیل میں اس بحث کی دو طرح سے تقسیم کی جاتی ہے:
(١) قراء ات قرآنیہ میں مفسرین کا مؤقف
(٢) تفسیر قرآن میں قراء ات کے اثرات
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات قرآنیہ میں مفسرین کا مؤقف

تفسیر میں قراء ات متواترہ کی قبولیت کے سلسلہ میں جمہور امت میں سے کسی قسم کا اختلاف نہیں ملتا۔ البتہ دو مختلف المعنی قراء ات میں ترجیح، طعن اور دفاع وغیرہ کا رجحان پایا جاتا ہے۔قراء ات قرآنیہ کے با رے میں مختلف مفسرین کے مؤقف پیش خدمت ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام طبری رحمہ اللہ
امام طبری رحمہ اللہ’’جامع البیان فی تفسیر القرآن‘‘ کے مصنف ہیں۔کتب تفاسیر میں امام طبری کی تفسیرکو بہت زیادہ دادِ تحسین سے نوازا گیاہے۔بہت سے نامور علماء کرام آپ کی تفسیر کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’تمام تفاسیر میں سے سب سے صحیح تفسیر امام طبری رحمہ اللہ کی ہے۔ آپ نے اسانید ثابتہ کے ساتھ اقوال سلف کا تذکرہ کیا ہے۔ تفسیر میں کسی بدعت کا تذکرہ ہے اورنہ ہی کوئی متہم چیز نقل کی گئی ہے۔‘‘(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: ۱۳؍۳۱۱)
لیکن امام صاحب رحمہ اللہ نے قراء ات کے ضمن میں بسا اَوقات ایسا مؤقف اختیار کیا ہے جو آپ کی جلالت ش علمی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ تفسیر جامع البیان میں کچھ ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جن میں بعض قراء ات متواترہ کے انکار کی جانب رغبت یا ان کو ایک دوسرے کے مقابلے میں ترک کرنے کارجحان پایا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک معیار آپ ﷺ کی ہی ذات ہے۔آپ ﷺ نے جیسے بغیر ترجیح کے قرآن قرار دیا ہے ہم اسے قرآن ہی سمجھیں گے۔
قراء ات کے بارے میں آپ کے مؤقف کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ مختلف قراء ات متواترہ کے مابین ترجیح کے قائل ہیں۔آپ کی تفسیر میںدرج ذیل جملے کثرت سے ملتے ہیں:
’’وأعجب القراء تین إلی قراء ۃ کذا‘‘
’’میرے نزدیک ان دو قراء توں میں پسندیدہ قراء ت اس طرح ہے‘‘
’’وأصح القراء تین فی التلاوۃ عندي‘‘
’’تلاوت میں صحیح ترین تلاوت میرے نزدیک یہ ہے۔‘‘
’’ والقراء ۃ التي أستیجزھا ھی کذا‘‘
’’جس قراء ت کو میں جائز قرار دیتا ہوں وہ یہ ہے۔‘‘
امام موصوف رحمہ اللہ اپنی تفسیر ’جامع البیان‘ میں رقمطراز ہیں کہ آیت:
’’قَالَ وَمَنْ یَّقْنُطْ مِنْ رَحْمَۃِ رَبِہِ إلَّا الضَّالِیْنَ‘‘ (الحجر:۵۶)
کے لفظ’ یقنط‘میں دو قراء تیں بیان کی گئی ہیں۔
قراء مدینہ و کوفہ نے نون کے فتحہ کے ساتھ ’یَقْنَطُ‘ جبکہ اعمش رحمہ اللہ اور کسائی رحمہ اللہ نے نون کے کسرہ کے ساتھ ’یَقْنِط‘ پڑھا ہے۔ یہی قراء ۃ امام خلف رحمہ اللہ کی بھی ہے۔ امام طبری رحمہ اللہ نے نون کے کسرے والی قراء ۃ کوترجیح دی ہے۔حالانکہ یہ دونوں قراء ات متواترہ ہیں۔اس کے بجائے اگر امام صاحب رحمہ اللہ جناب نبی کریم ﷺ والا انداز ’’ ہکذا انزلت‘‘ اپناتے تو یہ ان کے شایان شان تھا۔ بہرحال قرآن کے بارے میں ایک راجح اور دوسرے کو مرجوح قراردیناان کا ذاتی مؤقف ہے، جو لائق التفات نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام زمخشری

امام زمخشری کی تفسیر ’الکشاف عن حقائق التنزیل وعیون الاقأویل فی وجوہ التأویل‘ کے نام سے معروف ہے۔امام صاحب کا علمی مقام ومرتبہ محتاج بیان نہیں، لیکن محققین حضرات نے آپ کی تفسیر کو اس بناء پر طعن کا نشانہ بنایا ہے کہ اس میں مذہب معتزلہ کی جانب میلان پایاجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قراء ات متواترہ کے بارے میں بھی ان پر اعتزالی نظریات کی گہری چھاپ نظر آتی ہے ،امام صاحب قراء ات کے مابین ترجیح اور فضیلت کے قائل ہیں ۔جس کی مثال یہ ہے کہ آیت:
’’مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ (الفاتحۃ:۴)
میں لفظ ’ملک ‘ کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’ اس میں بہت سی قراء تیں ہیں، اگرچہ یہاں قراء ات متواترہ لفظ مَلِکِ اور مٰلکِ ہی ہیں، بعض نے’مَلِکِ‘ بعض نے ’مَالِکِ‘ اور ’مُلْکِ‘لام کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ’مَالِکَ‘ پڑھتے ہیں۔ لیکن امام صاحب نے ’مَلِکِ‘ کی قراء ۃ کو راجح قراردیاہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن عطیہ رحمہ اللہ

امام ابن عطیہ رحمہ اللہ تفسیر،حدیث، فقہ، نحو اور ادب کے نامور عالم اور فقیہ تھے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کی تفسیر ’المحرّر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ قراء ات کے سلسلے میں آپ نے جو مؤقف اختیارکیا ہے۔ اس کی وضاحت کے لئے آپ کی تفسیرمیں سے یہ مثال پیش خدمت ہے:
’’اَلٓمٓ٭اَﷲُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ‘‘ (آل عمران:۱،۲)
اس آئت کے بارے میں امام ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ قراء سبعہ نے اس آیت کے کلمہ’’اَلٓمٓ٭اﷲ‘‘ کو میم کے فتحہ اور الف ساقطہ کے ساتھ ’الٰمَ اﷲ‘ پڑھا ہے۔ امام عاصم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے میم کے سکون اور قطع الف کے ساتھ’’ الم اللّٰہ‘‘ پڑھا ہے۔ یہ دوسری قراء ۃ امام ابوبکر رحمہ اللہ سے بھی روایت کی گئی ہے۔امام ابوجعفررحمہ اللہ نے میم کے کسرہ کے ساتھ ’المِ اللّٰہ‘ پڑھا ہے۔امام ابن عطیہ رحمہ اللہ نے ان میں سے پہلی قراء ۃ کو ترجیح دی ہے،کیونکہ یہ قراء ۃ جمہور کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام قرطبی رحمہ اللہ

امام قرطبی رحمہ اللہ کی تفسیر ’الجامع لأحکام القرآن‘ ایک منفرد علمی تصنیف ہے۔ انہوں نے قراء ات میں دوطرح کے مؤقف اختیار کئے ہیں:
(١) وارد شدہ قراء ات متواترہ کو بغیر ترجیح و تعقیب کے بعینہٖ بیان کرنا۔
(٢) تمام قراء ات کو پیش کرتے ہوئے ان میں سے زیادہ قوی معنی رکھنے والی قراء ۃ کو ترجیح دینا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلی مثال:
قرآن میں ہے:’’إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَائٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَایُؤمِنُوْنَ‘‘ (البقرۃ:۶)
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’آیت میں موجود کلمہ ’أأنذرتھم‘ میں مختلف قراء ات بیان کی گئی ہیں۔‘‘
امام خلیل رحمہ اللہ اور امام سیبویہ رحمہ اللہ نے پہلے ہمزہ کی تخفیف اور دوسرے کی تسہیل کے ساتھ پڑھا ہے۔ انہوں نے اس کی توجیہ یہ بیان کی کہ یہ قریش اور سعد بن بکر کی قراء ۃ ہے۔
ابن محیصن رحمہ اللہ نے اسے ’أنذرتھم‘ صرف ایک ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے۔
ابن اسحاق رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے دونوں ہمزوں کو تحقیق اورادخال الف کے ساتھ’أاأنذرتھم‘پڑھا ہے۔
امام حمزہ رحمہ اللہ، امام عاصم رحمہ اللہ اور امام کسائی رحمہ اللہ نے دونوں ہمزوں کو تحقیق کے ساتھ ’أأنذرتھم‘ جبکہ امام اخفش رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ان دو ہمزوں میں سے پہلے کی تخفیف جائز ہے۔‘‘
اس مثال میں ہم نے ملاحظہ کیا کہ امام قرطبی رحمہ اللہ نے بغیر کسی توجیہ وتعقیب کے تمام قراء ات کو بعینہٖ پیش کردیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری مثال
آپ کے ترجیح کے مؤقف کی وضاحت کے لئے ایک مثال درج ذیل ہے:
’’قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبَّنَا وَیَغْفِرْلَنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘ (الاعراف:۱۴۹)
امام حمزہ رحمہ اللہ اور امام کسائی رحمہ اللہ نے’لئن لم ترحمنا‘ تائے خطاب کے ساتھ پڑھا ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ کے نزدیک مذکورہ قراء تمیں پہلی قراء ۃ کی بہ نسبت زیادہ عاجزی و انکساری پائی جاتی ہے،لہٰذا انہوں نے اسی کو ترجیح دی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام آلوسی رحمہ اللہ

امام آلوسی رحمہ اللہ کی تفسیر کا نام ’روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی‘ہے،قراء ات متواترہ کے حوالے سے ان کاموقف دفاع کا ہے۔وہ دلائل وبراہین کے ذریعے قراء ات پر طعن کرنے والوں کا رد کرتے ہیں۔
آئت ’’ وَإِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ أَنْفُسِکُمْ أوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اﷲُ فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَائُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَائُ وَاﷲُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ‘‘ (البقرۃ:۲۳۴) کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں موجود کلمہ’یغفر‘ اور’یعذب‘میں دو قراء تیں ہیں۔ابن عامر،عاصم،ابوجعفر اور یعقوب نے آیت میں موجود کلمہ ’یغفر‘ اور ’یعذب‘ کوراء اور با کے ضمہ کے ساتھ’یَغْفِرُ‘ اور’یُعَذِبُ‘ جبکہ باقی قراء نے جزم کے ساتھ ’یَغْفِرْ‘ اور ’یُعذِبْ‘پڑھاہے۔ امام زمخشری نے قواعد عربیہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے پہلی قراء ۃ پر طعن کیاہے۔ عربی کاقاعدہ یہ ہے کہ راء کاادغام صرف راء میں ہوتا ہے۔‘‘
امام آلوسی رحمہ اللہ اس کا جواب دیتے ہوئے،لکھتے ہیں:
’’ قراء ات سبعہ متواتر ہیں اور تواتر کے ساتھ منقول ہیں جبکہ نحویوں کا قول ظنی ہے۔ مزید برآں راء کا لام میں ادغام ابو عمرورحمہ اللہ سے روایت کیاگیاہے اور اسی طرح قراء ات اور لغات کے امام ابومحمد یزیدی رحمہ اللہ سے بھی راء کا لام میں اِدغام منقول ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان دونوں میں تقارب پایاجاتاہے۔ البتہ جب راء کاتکرار ہوتو اس صورت میں راء کا لام میں اِدغام لازم نہیں ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تفسیرقرآن میں قراء ات کے اثرات

مفسرین کا خیال ہے کہ قراء ات چاہے وہ متواترہ ہوں یاشاذہ ،آیات قرآنی کو نئے نئے معانی عطا کرتی ہیں۔
حتی کہ اگر دو مختلف قراء ات دو مختلف معانی پر دلالت کررہی ہوں تو ان کی حیثیت دو آیات کی سی ہوگی اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ قراء ات میں جہاں تلاوت قرآن میں آسانی کا پہلو ملحوظ رکھا گیا ہے وہاں ان کی حکمت میں یہ بھی شامل ہے کہ اس سے معانی اور مفاہیم کی کئی نئی جہتیں سامنے آتی ہیں۔ ذیل میں ہم قراء ات سے حاصل ہونے والے اسی دوسرے پہلو پر مختلف مفسرین نے جو نقطہ رسیاں کی ہیں ان پر نظر ڈالتے ہیں۔
(١) فرمان الٰہی ہے:
’’وَإِذَا أرَدْنَا أنْ نُھْلِکَ قَرْیَۃً أمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِیْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا‘‘(الاسراء :۱۶)
اس آیت میں موجود لفظ ’أمرنا‘میں مختلف قراء تیں بیان کی گئی ہیں۔ اس اعتبار سے اس میں متعدد معانی کابھی تذکرہ کیا جاتا ہے۔ قاضی ابوبکر بن عربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس لفظ میں تین قراء ات ہیں:
(١) میم کی تخفیف کے ساتھ ’أَمَرْنا‘
(٢) میم کی تشدید کے ساتھ ’أمَّرْنَا‘
(٣) میم کی تخفیف اور ہمزۃ پر مد کے ساتھ’آمَرْنَا‘
٭ پہلی قراء ت مشہور ہے، جس کامعنی ہے: ہم نے ان کوعدل و انصاف کا حکم دیا، لیکن انہوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے فسق و فجور اختیار کیا۔پس ان کو ہلاک کردیاگیا۔
٭ دوسری قراء ت علی رحمہ اللہ، ابی العالیہ رحمہ اللہ، ابی عمرو رحمہ اللہ اور ابی عثمان النھدی رحمہ اللہ کی ہے، جس کا معنی ہے: ہم نے ان کو تعداد میں زیادہ کردیا۔اور یہ بات بدیہی ہے کہ جب بھی ہجوم زیادہ ہوگا تو غلطیاں بھی زیادہ ہوں گی۔ آخر اس کو ان کی غلطیوں کی پاداش میں عذاب سے دوچار ہونا پڑا۔
٭ تیسری قراء ت امام حسن رحمہ اللہ اور اعرج رحمہ اللہ کی ہے، جو امارت کے معنی پر دلالت کرتی ہے،جس کا مفہوم یہ ہوگا کہ جب ہم نے ان کو قوموں کی باگ ڈور تھما دی تو ان کا فرض منصبی یہ تھا کہ وہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتے، لیکن انہوں نے اس ذمہ داری کا حق ادا نہ کیا، جس کی بدولت وہ عذاب الہٰی کے مستحق قرار پائے۔
(٢) فرمان الٰہی ہے:
’’وَلَوْ یَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ أنَّ الْقُوَّۃَ ﷲِ جَمِیْعًا وَأنَّ اﷲَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ‘‘(البقرۃ:۱۶۵)
امام ابن عطیہ رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر’’ المحرّر الوجیز‘‘میں مختلف قراء ات کی بنیاد پر آیات قرآنی کے بہت سے معنی اَخذ کئے ہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالا فرمان میں ایک قراء ۃ ’’ وَلَوْ تَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا‘‘کی ہے۔امام نافع رحمہ اللہ اور ابن عامر رحمہ اللہ نے ’تری‘ میں ’تا‘ کہ فتحہ اور أن میں ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے آیت میں مذکور دوسرے أن کو پہلے پر عطف کرتے ہوئے فتحہ پڑھا گیا ہے اور اس کی درج ذیل توجیہات بیان کی گئی ہیں۔
 
Top