- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
وَعَدَ اللَّـهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ هِيَ حَسْبُهُمْ ۚ وَلَعَنَهُمُ اللَّـهُ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيمٌ ﴿٦٨﴾
اللہ تعالیٰ ان منافق مردوں، عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کر چکا ہے جہاں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، وہی انہیں کافی ہے ان پر اللہ کی پھٹکار ہے، اور ان ہی کے لیے دائمی عذاب ہے۔
كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿٦٩﴾
مثل ان لوگوں کے جو تم سے پہلے تھے، (١) تم میں سے وہ زیادہ قوت والے تھے اور زیادہ مال و اولاد والے تھے پس وہ اپنا دینی حصہ برت گئے پھر تم نے بھی اپنا حصہ برت لیا (٢) جیسے تم سے پہلے کے لوگ اپنے حصے سے فائدہ مند ہوئے تھے اور تم نے بھی اس طرح مذاقانہ بحث کی جیسے کہ انہوں نے کی تھی۔ (٣) ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں غارت ہو گئے۔ یہی لوگ نقصان پانے والے ہیں۔ (٤)
٦٩۔١ یعنی تمہارا حال بھی اعمال اور انجام کے اعتبار سے امم ماضیہ کے کافروں جیسا ہی ہے۔ اب غائب کی بجائے، منافقین سے خطاب کیا جا رہا ہے۔
٦٩۔٢ ”خَلاق“ کا دوسرا ترجمہ دنیاوی حصہ بھی کیا گیا ہے۔ یعنی تمہاری تقدیر میں دنیا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے، وہ برت لو، جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے اپنا حصہ برتا اور پھر موت یا عذاب سے ہم کنار ہو گئے۔
٦٩۔٣ یعنی آیات الٰہی اور اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کے لیے۔ یا دوسرا مفہوم ہے کہ دنیا کے اسباب اور لہو و لعب میں جس طرح وہ مگن رہے، تمہارا بھی یہی حال ہے۔ آیت میں پہلے لوگوں سے مراد اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ ہیں۔ جیسے ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی ضرور متابعت کرو گے، بالشت بہ بالشت، ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہوں تو تم بھی ضرور گھسو گے، لوگوں نے پوچھا، کیا اس سے آپ کی مراد اہل کتاب ہیں؟ آپ نے فرمایا، اور کون؟“۔ (صحيح بخاری، كتاب الاعتصام مسلم، كتاب العلم)۔ البتہ ہاتھ بہ ہاتھ (بَاعًا بِبَاع) کے الفاظ ان میں نہیں ہیں یہ تفسیر طبری میں منقول ایک اثر میں ہے۔
٦٩۔ ٤ أُولَئِكَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذکورہ صفات و عادات کے حامل ہیں مشبہین بھی اور مشبہ بہم بھی یعنی جس طرح وہ خاسر و نامراد رہے تم بھی اسی طرح رہو گے حالانکہ وہ قوت میں تم سے زیادہ سخت اور مال و اولاد میں بھی بہت زیادہ تھے اس کے باوجود وہ عذاب الہی سے نہ بچ سکے تو تم جو ان سے ہر لحاظ سے کم ہو کس طرح اللہ کی گرفت سے بچ سکتے ہو۔
اللہ تعالیٰ ان منافق مردوں، عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کر چکا ہے جہاں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، وہی انہیں کافی ہے ان پر اللہ کی پھٹکار ہے، اور ان ہی کے لیے دائمی عذاب ہے۔
كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿٦٩﴾
مثل ان لوگوں کے جو تم سے پہلے تھے، (١) تم میں سے وہ زیادہ قوت والے تھے اور زیادہ مال و اولاد والے تھے پس وہ اپنا دینی حصہ برت گئے پھر تم نے بھی اپنا حصہ برت لیا (٢) جیسے تم سے پہلے کے لوگ اپنے حصے سے فائدہ مند ہوئے تھے اور تم نے بھی اس طرح مذاقانہ بحث کی جیسے کہ انہوں نے کی تھی۔ (٣) ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں غارت ہو گئے۔ یہی لوگ نقصان پانے والے ہیں۔ (٤)
٦٩۔١ یعنی تمہارا حال بھی اعمال اور انجام کے اعتبار سے امم ماضیہ کے کافروں جیسا ہی ہے۔ اب غائب کی بجائے، منافقین سے خطاب کیا جا رہا ہے۔
٦٩۔٢ ”خَلاق“ کا دوسرا ترجمہ دنیاوی حصہ بھی کیا گیا ہے۔ یعنی تمہاری تقدیر میں دنیا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے، وہ برت لو، جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے اپنا حصہ برتا اور پھر موت یا عذاب سے ہم کنار ہو گئے۔
٦٩۔٣ یعنی آیات الٰہی اور اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کے لیے۔ یا دوسرا مفہوم ہے کہ دنیا کے اسباب اور لہو و لعب میں جس طرح وہ مگن رہے، تمہارا بھی یہی حال ہے۔ آیت میں پہلے لوگوں سے مراد اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ ہیں۔ جیسے ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی ضرور متابعت کرو گے، بالشت بہ بالشت، ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہوں تو تم بھی ضرور گھسو گے، لوگوں نے پوچھا، کیا اس سے آپ کی مراد اہل کتاب ہیں؟ آپ نے فرمایا، اور کون؟“۔ (صحيح بخاری، كتاب الاعتصام مسلم، كتاب العلم)۔ البتہ ہاتھ بہ ہاتھ (بَاعًا بِبَاع) کے الفاظ ان میں نہیں ہیں یہ تفسیر طبری میں منقول ایک اثر میں ہے۔
٦٩۔ ٤ أُولَئِكَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذکورہ صفات و عادات کے حامل ہیں مشبہین بھی اور مشبہ بہم بھی یعنی جس طرح وہ خاسر و نامراد رہے تم بھی اسی طرح رہو گے حالانکہ وہ قوت میں تم سے زیادہ سخت اور مال و اولاد میں بھی بہت زیادہ تھے اس کے باوجود وہ عذاب الہی سے نہ بچ سکے تو تم جو ان سے ہر لحاظ سے کم ہو کس طرح اللہ کی گرفت سے بچ سکتے ہو۔