• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَرِ‌حَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَ‌سُولِ اللَّـهِ وَكَرِ‌هُوا أَن يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَقَالُوا لَا تَنفِرُ‌وا فِي الْحَرِّ‌ ۗ قُلْ نَارُ‌ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّ‌ا ۚ لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ ﴿٨١﴾
پیچھے رہ جانے والے لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جانے کے بعد اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہیں (١) انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرنا ناپسند رکھا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اس گرمی میں مت نکلو۔ کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے، کاش کہ وہ سمجھتے ہوتے۔ (٢)
٨١۔١ یہ ان منافقین کا ذکر ہے جو تبوک میں نہیں گئے اور جھوٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کر لی۔ خلاف کے معنی ہیں پیچھے یا مخالفت۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد آپ کے پیچھے یا آپ کی مخالفت میں مدینہ میں بیٹھے رہے۔
٨١۔٢ یعنی اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ جہنم کی آگ کی گرمی کے مقابلے میں، دنیا کی گرمی کوئی حیثیت نہیں رکھتی، تو وہ کبھی پیچھے نہ رہتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی یہ آگ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ یعنی جہنم کی آگ کی شدت دنیا کی آگ سے انہتر حصے زیادہ ہے۔ (صحيح بخاری- بدء الخلق باب صفة النار) اللهم احفظنا منها
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرً‌ا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٨٢﴾
پس انہیں چاہیے کہ بہت کم ہنسیں اور بہت زیادہ روئیں (١) بدلے میں اس کے جو یہ کرتے تھے۔
٢٨۔١ قَلِيلا اور كَثِيرًا یا تو مصدریت (یعنی ضِحْكًا قَلِيلا اور بُكَاءً كَثِيرًا) یا ظرفیت یعنی (زَمَانًا قَلِيلا وَزَمَانًا كَثِيرًا) کی بنیاد پر منصوب ہے اور امر کے دونوں صیغے بمعنی خبر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہنسیں گے تو تھوڑا اور روئیں گے بہت زیادہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَإِن رَّ‌جَعَكَ اللَّـهُ إِلَىٰ طَائِفَةٍ مِّنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُ‌وجِ فَقُل لَّن تَخْرُ‌جُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَن تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا ۖ إِنَّكُمْ رَ‌ضِيتُم بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّ‌ةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ ﴿٨٣﴾
پس اگر اللہ تعالیٰ آپ کو ان کی کسی جماعت (١) کی طرف لوٹا کر واپس لے آئے پھر یہ آپ سے میدان جنگ میں نکلنے کی اجازت طلب کریں (٢) تو آپ کہہ دیجئے کہ تم میرے ساتھ ہرگز چل نہیں سکتے اور نہ میرے ساتھ تم دشمنوں سے لڑائی کر سکتے ہو۔ تم نے پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا (٣) پس تم پیچھے رہ جانے والوں میں ہی بیٹھے رہو۔ (٤)
٨٣۔١ منافقین کی جماعت مراد ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالٰی آپ کو صحیح سلامت تبوک سے مدینہ واپس لے آئے جہاں یہ پیچھے رہ جانے والے منافقین بھی ہیں۔
٨٣۔٢ یعنی کسی اور جنگ کے لیے، ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کریں۔
٨٣۔٣ یہ آئندہ ساتھ نہ لے جانے کی علت ہے کہ تم پہلی مرتبہ ساتھ نہیں گئے۔ لہذا اب تم اس لائق نہیں کہ تمہیں کسی بھی جنگ میں ساتھ لے جایا جائے۔
٨٣۔٤ یعنی اب تمہاری اوقات یہی ہے کہ تم عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو، جو جنگ میں شرکت کرنے کے بجائے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت اس لیے دی گئی ہے تاکہ ان کے اس ہم و غم اور حسرت میں اور اضافہ ہو جو انہیں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے تھا۔ (اگر تھا)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِ‌هِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُ‌وا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ ﴿٨٤﴾
ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس کے جنازے کی ہرگز نماز نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ (٢) یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور مرتے دم تک بدکار بے اطاعت رہے ہیں۔ (٣)
٨٤۔١ یہ آیت اگرچہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی۔ لیکن اس کا حکم عام ہے ہر شخص جس کی موت کفر و نفاق پر ہو وہ اس میں شامل ہے۔ اس کا شان نزول یہ ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہو گیا تو اس کے بیٹے عبد اللہ (جو مسلمان اور باپ ہی کا ہم نام تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ (بطور تبرک) اپنی قمیص عنایت فرما دیں تاکہ میں اپنے باپ کو کفنا دوں۔ دوسرا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں۔ آپ نے قمیص بھی عنایت فرما دی اور نماز جنازہ پڑھانے کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اللہ تعالٰی نے ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھانے سے روکا ہے، آپ کیوں اس کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالٰی نے مجھے اختیار دیا ہے“ یعنی روکا نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ ”اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرے گا تو اللہ تعالٰی انہیں معاف نہیں فرمائے گا، تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ ان کے لیے استغفار کر لوں گا“، چنانچہ آپ نے نماز جنازہ پڑھا دی۔ جس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرما کر آئندہ کے لیے منافقین کے حق میں دعائے مغفرت کی قطعی ممانعت فرما دی (صحيح بخاری، تفسير سورة براءت ومسلم كتاب صفات المنافقين وأحكامهم)
٨٤۔٢ یہ نماز جنازہ اور دعائے مغفرت نہ کرنے کی علت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے جن لوگوں کا خاتمہ کفر و فسق پر ہو، ان کی نہ نماز جنازہ پڑھنی چاہیے اور نہ ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے۔ ایک حدیث میں تو یہاں تک آتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان پہنچے تو معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن ابی کو دفنایا جا چکا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنے گھٹنوں پر رکھ کراس پر اپنا لعاب دہن تھوکا، اپنی قمیص اسے پہنائی (صحيح بخاری كتاب اللباس، باب لبس القميص وكتاب الجنائز- صحيح مسلم، كتاب صفات المنافقين وأحكامهم) جس سے معلوم ہوا کہ جو ایمان سے محروم ہو گا اسے دنیا کی بڑی سے بڑی شخصیت کی دعائے مغفرت اور کسی کی شفاعت بھی کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ أَن يُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُ‌ونَ ﴿٨٥﴾
آپ کو ان کے مال و اولاد کچھ بھی بھلے نہ لگیں! اللہ کی چاہت یہی ہے کہ انہیں ان چیزوں سے دنیاوی سزا دے اور یہ اپنی جانیں نکلنے تک کافر ہی رہیں۔

وَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَ‌ةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّـهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَ‌سُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْ‌نَا نَكُن مَّعَ الْقَاعِدِينَ ﴿٨٦﴾
جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو ان میں سے دولت مندوں کا ایک طبقہ آپ کے پاس آ کر یہ کہہ کر رخصت لے لیتا ہے کہ ہمیں تو بیٹھے رہنے والوں میں ہی چھوڑ دیجئے۔ (١)
٨٦۔١ یہ انہیں منافقین کا ذکر ہے۔ جنہوں نے حیلے تراش کر پیچھے رہنا پسند کیا۔ أُولُو الطَّوْلِ سے مراد ہے صاحب حیثیت، مال دار طبقہ۔ یعنی اس طبقے کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا، کیونکہ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ موجود تھا، قَاعِدِينَ سے مراد بعض مجبوریوں کے تحت گھروں میں رک جانے والے افراد ہیں، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کو خَوَالِفُ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے خَالِفَةٌ ، کی جمع ہے۔ یعنی پیچھے رہنے والی عورتیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
رَ‌ضُوا بِأَن يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ ﴿٨٧﴾
یہ تو خانہ نشین عورتوں کا ساتھ دینے پر ریجھ گئے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی اب وہ کچھ سمجھ عقل نہیں رکھتے۔ (١)
٨٧۔١ دلوں پر مہر لگ جانا یہ مسلسل گناہوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے، اس کے بعد انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَـٰكِنِ الرَّ‌سُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَ‌اتُ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٨٨﴾
لیکن خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اس کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں، یہی لوگ بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔

أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿٨٩﴾
انہی کے لیے اللہ نے وہ جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ (١)
٨٩۔١ ان منافقین کے برعکس اہل ایمان کا رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں انہیں اپنی جانوں کی پروا ہے نہ مالوں کی۔ ان کے نزدیک اللہ کا حکم سب پر بالا تر ہے، انہی کے لیے خیرات ہیں، یعنی آخرت کی بھلائیاں اور جنت کی نعمتیں اور بعض کے نزدیک دین و دنیا کے منافع اور یہی لوگ فلاح یاب اور فوز عظیم کے حامل ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَجَاءَ الْمُعَذِّرُ‌ونَ مِنَ الْأَعْرَ‌ابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٩٠﴾
بادیہ نشینوں میں سے عذر والے لوگ حاضر ہوئے کہ انہیں رخصت دے دی جائے اور وہ بیٹھ رہے جنہوں نے اللہ سے اور اس کے رسول سے جھوٹی باتیں بنائی تھیں۔ اب تو ان میں جتنے کفار ہیں انہیں دکھ دینے والی مار پہنچ کر رہے گی۔ (١)
٩٠۔١ ان مُعَذِّرِين کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ شہر سے دور رہنے والے وہ اعرابی ہیں جنہوں نے جھوٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کی۔ دوسری قسم ان میں وہ تھی جنہوں نے آ کر عذر پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور بیٹھے رہے۔ اس طرح گویا آیت میں منافقین کے دو گروہوں کا تذ کرہ ہے اور عذاب الیم کی وعید میں دونوں شامل ہیں۔ اور مِنْهُمْ سے جھوٹے عذر پیش کرنے والے اور بیٹھ رہنے والے دونوں مراد ہوں گے اور دوسرے مفسرین نے مُعَذِّرُونَ سے مراد ایسے بادیہ نشین مسلمان لیے ہیں جنہوں نے معقول عذر پیش کر کے اجازت لی تھی اور مُعَذِّرُونَ ان کے نزدیک اصل میں مَعْتَذِرُوْنَ ہے تا کو ذال میں مدغم کر دیا گیا ہے اور معتذر کے معنی ہیں واقعی عذر رکھنے والا اس اعتبار سے آیت کے اگلے جملے میں منافقین کا تذکرہ ہے اور آیت میں دو گروہوں کا ذکر ہے پہلے جملے میں ان مسلمانوں کا جن کے پاس واقعی عذر تھے اور دوسرے منافقین جو بغیر عذر پیش کیے بیٹھے رہے اور آیت کے آخری حصے میں جو وعید ہے اسی دوسرے گروہ کے لیے ہے۔ وَاللهُ أَعْلَمُ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَّيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْ‌ضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَ‌جٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِن سَبِيلٍ ۚ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٩١﴾
ضعیفوں پر اور بیماروں پر اور ان پر جن کے پاس خرچ کرنے کو کچھ بھی نہیں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں، ایسے نیک کاروں پر الزام کی کوئی راہ نہیں، اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے۔ (١)
٩١۔١ اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو واقعی معذور تھے اور ان کا عذر بھی واضح تھا مثلاً (1) ضعیف و ناتواں یعنی بوڑھے قسم کے لوگ، اور نابینا یا لنگڑے وغیرہ معذورین بھی اسی ذیل میں آ جاتے ہیں، بعض نے انہیں بیماروں میں شامل کیا ہے، (2) بیمار، (3) جن کے پاس جہاد کے اخراجات نہیں تھے اور بیت المال بھی ان کے اخراجات کا متحمل نہیں تھا، اللہ اور رسول کی خیر خواہی سے مراد، جہاد کی ان کے دلوں میں تڑپ، مجاہدین سے محبت رکھتے ہیں اور اللہ اور رسول کے دشمنوں سے عداوت، اور حتی الامکان اللہ اور رسول کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں، اگر جہاد میں شرکت کرنے سے معذور ہوں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ ﴿٩٢﴾
ہاں ان پر بھی کوئی حرج نہیں جو آپ کے پاس آتے ہیں کہ آپ انہیں سواری مہیا کر دیں تو آپ جواب دیتے ہیں کہ میں تو تمہاری سواری کے لیے کچھ بھی نہیں پاتا تو وہ رنج و غم سے اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے لوٹ جاتے ہیں کہ انہیں خرچ کرنے کے لیے کچھ بھی میسر نہیں۔ (١)
٩٢۔١ یہ مسلمانوں کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے جن کے پاس اپنی سواریاں بھی نہیں تھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں سواریاں پیش کرنے سے معذرت کی جس پر انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے، گویا مخلص مسلمان جو کسی بھی لحاظ سے معقول عذر رکھتے تھے اللہ تعالٰی نے جو ہر ظاہر باطن سے باخبر ہے ان کو جہاد میں شرکت سے مستثنٰی کر دیا۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے فرمایا کہ ”تمہارے پیچھے مدینے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر چلتے ہو، تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں“ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے پوچھا۔ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے جب کہ وہ مدینے میں بیٹھے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حَبَسَهُمُ الْعُذْرُ (صحيح البخاري كتاب الجهاد، باب من حبسه العذر عن الغزو- وصحيح مسلم، كتاب الإمارة باب ثواب من حبسه عن الغزو مرض) ”عذر نے ان کو وہاں روک دیا ہے“۔
 
Top