• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُ‌ونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ ﴿٦٩﴾
آپ کہہ دیجئے کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ افترا کرتے ہیں، (١) وہ کامیاب نہ ہوں گے۔ (٢)
٦٩۔١ افترا کے معنی جھوٹی بات کہنے کے ہیں۔ اس کے بعد مزید "جھوٹ " کا اضافہ تاکید کے لیے۔
٦٩۔٢ اس سے واضح ہے کہ کامیابی سے مراد آخرت کی کامیابی یعنی اللہ کے غضب اور اس کے عذاب سے بچ جانا محض دنیا کی عارضی خوش حالی، کامیابی نہیں۔ جیسا کہ بہت سے لوگ کافروں کی عارضی خوشحالی سے مغالطے کا اور شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے اگلی آیت میں فرمایا: ”یہ دنیا میں تھوڑا سا عیش کر لیں پھر ہمارے ہی پاس ان کو آنا ہے“ یعنی یہ دنیا کا عیش، آخرت کے مقابلے میں نہایت قلیل اور تھوڑا سا ہے جو شمار میں نہیں۔ اس کے بعد انہیں عذاب شدید سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس لیے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کافروں، مشرکوں اور اللہ کے نافرمانوں کی دنیاوی خوشحالی اور مادی ترقیاں، یہ اس بات کی دلیل نہیں ہیں کہ یہ قومیں کامیاب ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہے۔ یہ مادی کامیابیاں ان کی جہد مسلسل کا ثمرہ ہیں جو اسباب ظاہر کے مطابق ہر اس قوم کو حاصل ہو سکتی ہیں۔ جو اسباب کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی طرح محنت کرے گی، چاہے وہ مومن ہو یا کافر۔ علاوہ ازیں یہ عارضی کامیابیاں اللہ کے قانون مہلت کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہیں۔ جس کی وضاحت اس سے قبل بعض جگہ ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْ‌جِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُ‌ونَ ﴿٧٠﴾
یہ دنیا میں تھوڑا سا عیش ہے پھر ہمارے پاس ان کو آنا ہے پھر ہم ان کو ان کے کفر کے بدلے سخت عذاب چکھائیں گے۔

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ‌ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِ‌ي بِآيَاتِ اللَّـهِ فَعَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَ‌كُمْ وَشُرَ‌كَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُ‌كُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُ‌ونِ ﴿٧١﴾
اور آپ ان کو نوح (علیہ السلام) کا قصہ پڑھ کر سنائیے جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم! اگر تم کو میرا رہنا اور احکام الٰہی کی نصیحت کرنا بھاری معلوم ہوتا ہے تو میرا تو اللہ ہی پر بھروسہ ہے۔ تم اپنی تدبیر مع اپنے شرکا کے پختہ کر لو (١) پھر تمہاری تدبیر تمہاری گھٹن کا باعث نہ ہونی چاہیے۔ (٢) پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھ کو مہلت نہ دو۔
٧١۔١ یعنی جن کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان کی مدد بھی حاصل کر لو ”اگر وہ تمہارے زعم کے مطابق تمہاری مدد کر سکتے ہیں“۔
٧١۔٢ غُمَّۃً کے دوسرے معنی ہیں، ابہام اور پوشیدگی۔ یعنی میرے خلاف تمہاری تدبیر واضح اور غیر مبہم ہونی چاہیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ‌ ۖ إِنْ أَجْرِ‌يَ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ ۖ وَأُمِرْ‌تُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٧٢﴾
پھر بھی اگر تم اعراض ہی کیے جاؤ تو میں نے تم سے کوئی معاوضہ تو نہیں مانگا، (١) میرا معاوضہ تو صرف اللہ ہی کے ذمہ ہے اور مجھ کو حکم کیا گیا ہے کہ میں مسلمانوں میں سے رہوں۔ (٢)
٧٢۔١ کہ جس کی وجہ سے تم یہ تہمت لگا سکو کہ دعوائے نبوت سے اس کا مقصد تو مال و دولت کا اکٹھا کرنا ہے۔
٧٢۔٢ حضرت نوح عليہ السلام کے اس قول سے بھی معلوم ہوا کہ تمام انبیاء کا دین اسلام ہی رہا گو شرائع مختلف اور مناہج متعدد رہے۔ جیسا کہ آیت ﴿لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا﴾ (المائدة:48)، سے واضح ہے۔ لیکن دین سب کا اسلام تھا۔ ملاحظہ ہو سورۃ النمل 91، سورہ بقرہ 131-132، سورہ یوسف،101۔ سورہ یونس 84، سورہ اعراف 126، سورہ نمل 44، سورہ مائدہ 44 اور 111 اور سورہ انعام 162- 163۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ وَأَغْرَ‌قْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ فَانظُرْ‌ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنذَرِ‌ينَ ﴿٧٣﴾
سو وہ لوگ ان کو جھٹلاتے رہے (١) پس ہم نے ان کو اور جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے ان کو نجات دی اور ان کو جانشین بنایا (٢) اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو غرق کر دیا۔ سو دیکھنا چاہیے کیسا انجام ہوا ان لوگوں کا جو ڈرائے جا چکے تھے۔
٧٣۔١ یعنی قوم نوح عليہ السلام نے تمام تر وعظ و نصیحت کے باوجود جھٹلانے کا راستہ نہیں چھوڑا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح عليہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو ایک کشتی میں بٹھا کر بچا لیا اور باقی سب کو حتٰی کہ حضرت نوح عليہ السلام کے ایک بیٹے کو بھی غرق کر دیا۔
٧٣۔٢ یعنی زمین میں ان سے بچنے والوں کو ان سے پہلے کے لوگوں کا جانشین بنایا۔ پھر انسانوں کی آئندہ نسل انہی لوگوں بالخصوص حضرت نوح عليہ السلام کے تین بیٹوں سے چلی، اسی لیے حضرت نوح عليہ السلام آدم ثانی کہا جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِ رُ‌سُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ ﴿٧٤﴾
پھر نوح (علیہ السلام) کے بعد ہم نے اور رسولوں کو ان کی قوموں کی طرف بھیجا سو وہ ان کے پاس روشن دلیلیں لے کر آئے (١) پس جس چیز کو انہوں نے اول میں جھوٹا کہہ دیا یہ نہ ہوا کہ پھر اس کو مان لیتے۔ (٢) اللہ تعالیٰ اسی طرح حد سے بڑھنے والوں کے دلوں پر بند لگا دیتا ہے۔
٧٤۔١ یعنی ایسے دلائل و معجزات لے کر آئے جو اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ واقعی یہ اللہ کے سچے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت و رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔
٧٤۔٢ لیکن یہ امتیں رسولوں کی دعوت پر ایمان نہیں لائے، محض اس لیے کہ جب اول اول یہ رسول ان کے پاس آئے تو فوراً بغیر غور و فکر کیے، ان کا انکار کر دیا۔ اور یہ پہلی مرتبہ کا انکار ان کے لیے مستقل حجاب بن گیا۔ اور وہ یہی سوچتے رہے کہ ہم تو پہلے انکار کر چکے ہیں، اب اس کو کیا ماننا، لہذا ایمان سے محروم رہے۔
٧٤۔٣ یعنی جس طرح ان گذشتہ قوموں پر ان کے کفر و تکذیب کی وجہ سے مہریں لگتی رہیں ہیں اسی طرح آئندہ بھی جو قوم رسولوں کو جھٹلائے گی اور اللہ کی آیتوں کا انکار کرے گی، ان کے دلوں پر مہر لگتی رہے گی اور ہدایت سے وہ، اسی طرح محروم رہے گی، جس طرح گذشتہ قومیں محروم رہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَىٰ وَهَارُ‌ونَ إِلَىٰ فِرْ‌عَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآيَاتِنَا فَاسْتَكْبَرُ‌وا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِ‌مِينَ ﴿٧٥﴾
پھر ان پیغمبروں کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون (علیہا السلام) کو، (١) فرعون اور ان کے سرداروں کے پاس اپنی نشانیاں دے کر بھیجا۔ (٢) سو انہوں نے تکبر کیا اور وہ لوگ مجرم قوم تھے۔ (٣)
٧٥۔١ رسولوں کے عمومی ذکر کے بعد، حضرت موسیٰ و ہارون علیہا اسلام کا ذکر کیا جا رہا ہے، درآں حالیکہ رسول کے تحت میں وہ بھی آ جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کا شمار جلیل القدر رسولوں میں ہوتا ہے اس لیے خصوصی طور پر ان کا الگ ذکر فرما دیا۔
٧٥۔٢ حضرت موسیٰ عليہ السلام کے معجزات، بالخصوص نو آیات بینات، جن کا ذکر اللہ نے سورت نبی اسرائیل آیت 101 میں کیا ہے۔ مشہور ہیں۔
٧٥۔٣ لیکن چونکہ وہ بڑے بڑے جرائم اور گناہوں کے عادی تھے۔ اس لہے انہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کے ساتھ بھی استکبار کا معاملہ کیا۔ کیونکہ ایک گناہ، دوسرے گناہ کا ذریعہ بنتا اور گناہوں پر اصرار بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب کی جرأت پیدا کرتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا إِنَّ هَـٰذَا لَسِحْرٌ‌ مُّبِينٌ ﴿٧٦﴾
پھر جب ان کو ہمارے پاس سے صحیح دلیل پہنچی تو وہ لوگ کہنے لگے کہ یقیناً یہ صریح جادو ہے۔ (١)
٧٦۔١ جب انکار کے لیے کوئی معقول دلیل نہیں ہوتی تو اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ مُوسَىٰ أَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَكُمْ ۖ أَسِحْرٌ‌ هَـٰذَا وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ‌ونَ ﴿٧٧﴾
موسٰی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کیا تم اس صحیح دلیل کی نسبت جب کہ وہ تمہارے پاس پہنچی ایسی بات کہتے ہو کیا یہ جادو ہے، حالانکہ جادوگر کامیاب نہیں ہوا کرتے۔ (١)
٧٧۔١ حضرت موسیٰ عليہ السلام نے کہا ذرا سوچو تو سہی، حق کی دعوت اور صحیح بات کو تم جادو کہتے ہو، بھلا یہ جادو ہے؟ جادوگر تو کامیاب ہی نہیں ہوتے۔ یعنی مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے اور ناپسندیدہ انجام سے بچنے میں وہ ناکام ہی رہتے ہیں اور میں تو اللہ کا رسول ہوں، مجھے اللہ کی مدد حاصل ہے اور اس کی طرف سے مجھے معجزات اور آیات بینات عطا کی گئی ہیں مجھے سحر و ساحری کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور اللہ کے عطا کردہ معجزات کے مقابلے میں اس کی حیثیت ہی کیا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِ‌يَاءُ فِي الْأَرْ‌ضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ ﴿٧٨﴾
وہ لوگ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم کو اس طریقہ سے ہٹا دو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے اور تم دونوں کو دنیا میں بڑائی مل جائے (١) اور ہم تم دونوں کو کبھی نہ مانیں گے۔
٧٨۔١ یہ منکرین کی دیگر حجتیں ہیں جو دلائل سے عاجز آ کر، پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم ہمارے آباء و اجداد کے راستے سے ہٹانا چاہتے ہو، دوسرے یہ کہ ہمیں جاہ و ریاست حاصل ہے، اسے ہم سے چھین کر خود اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہو اس لیے ہم تو کبھی بھی تم پر ایمان نہ لائیں گے۔ یعنی تنقید آباء پر اصرار اور دنیاوی وجہ کی خواہش نے انہیں ایمان لانے سے روکے رکھا۔ اس کے بعد آگے وہی قصہ ہے کہ فرعون نے ماہر جادوگروں کو بلایا اور حضرت موسیٰ عليہ السلام اور جادوگروں کا مقابلہ ہوا، جیسا کہ سورہ اعراف میں گزرا اور سورہ طہ میں بھی اس کی کچھ تفصیل آئے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ فِرْ‌عَوْنُ ائْتُونِي بِكُلِّ سَاحِرٍ‌ عَلِيمٍ ﴿٧٩﴾
اور فرعون نے کہا میرے پاس تمام ماہر جادوگروں کو حاضر کرو۔

فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَ‌ةُ قَالَ لَهُم مُّوسَىٰ أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ ﴿٨٠﴾
پھر جب جادوگر آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ ڈالو جو کچھ تم ڈالنے والے ہو۔

فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَىٰ مَا جِئْتُم بِهِ السِّحْرُ‌ ۖ إِنَّ اللَّـهَ سَيُبْطِلُهُ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ ﴿٨١﴾
سو جب انہوں نے ڈالا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ جو کچھ تم لائے ہو جادو ہے۔ یقینی بات ہے کہ اللہ اس کو ابھی درہم برہم کیے دیتا ہے، (١) اللہ ایسے فسادیوں کا کام بننے نہیں دیتا۔ (٢)
٨١۔١ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بھلا جھوٹ بھی، سچ کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتا ہے؟ جادوگروں نے، چاہے وہ اپنی فن میں کتنے ہی درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے، جو کچھ پیش کیا، وہ جادو ہی تھا اور نظر کی شعبدہ بازی ہی تھی اور جب حضرت موسیٰ عليہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا پھینکا تو اس نے ساری شعبدہ بازیوں کو آن واحد میں ختم کر دیا۔
٨١۔٢ اور یہ جادوگر بھی مفسدین تھے، جنہوں نے محض دنیا کمانے کے لیے جادوگری کا فن سیکھا ہوا تھا اور جادو کے کرتب دکھا کر لوگوں کو بیوقوف بناتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کے اس عمل فساد کو کس طرح سنوار سکتا تھا؟
 
Top