• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَ‌ءُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّ‌بِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِ‌ينَ ﴿٩٤﴾
پھر اگر آپ اس کی طرف سے شک میں ہوں جس کو ہم نے آپ کے پاس بھیجا ہے تو آپ ان لوگوں سے پوچھ دیکھئے جو آپ سے پہلی کتابوں کو پڑھتے ہیں۔ بیشک آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے سچی کتاب آئی ہے۔ آپ ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔ (٤)
٩٤۔١ یہ خطاب یا تو عام انسانوں کو ہے یا پھر نبی کے واسطے سے امت کو تعلیم دی جا رہی ہے۔ کیونکہ نبی کو تو وحی کے بارے میں کوئی شک ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ جو کتاب پڑھتے ہیں، ان سے پوچھ لیں کا مطلب ہے کہ قرآن مجید سے پہلے کی آسمانی کتابیں (تورات و انجیل وغیرہ) یعنی جن کے پاس یہ کتابیں موجود ہیں ان سے اس قرآن کی بابت معلوم کریں کیونکہ ان میں اس کی نشانیاں اور آخری پیغمبر کی صفات بیان کی گئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّـهِ فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ ﴿٩٥﴾
اور نہ ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلایا، کہیں آپ خسارہ پانے والوں میں سے نہ ہو جائیں۔ (١)
٩٥۔١ یہ بھی دراصل مخاطب امت کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تکذیب کا راستہ خسران اور تباہی کا راستہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَ‌بِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿٩٦﴾
یقیناً جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے۔

وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّىٰ يَرَ‌وُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ ﴿٩٧﴾
گو ان کے پاس تمام نشانیاں پہنچ جائیں جب تک کہ وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں۔ (١)
٩٧۔١ یہ وہی لوگ ہیں جو کفر و مصیت الٰہی میں اتنے غرق ہو چکے ہوتے ہیں کہ کوئی و عظ ان پر اثر نہیں کرتا اور کوئی دلیل ان کے کارگر نہیں ہوتی۔ اس لیے نافرمانیاں کر کے قبول حق کی فطری استعداد و صلاحیت کو وہ ختم کر لیے ہوتے ہیں، ان کی آنکھیں اگر کھلتی ہیں تو اس وقت، جب عذاب الٰہی ان کے سروں پر آ جاتا ہے، تب وہ ایمان اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا ﴿فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ﴾ (المومن:85) ”جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے (اس وقت) ان کے ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیا“۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْ‌يَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ﴿٩٨﴾
چنانچہ کوئی بستی ایمان نہ لائی کہ ایمان لانا اس کو نافع ہوتا سوائے یونس (علیہ السلام) کی قوم کے۔ (١) جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے رسوائی کے عذاب کو دنیاوی زندگی میں ان پر سے ٹال دیا اور ان کو ایک وقت (خاص) تک کے لیے زندگی سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔
٩٨۔١ لَوْلَا یہاں تحضیض کے لیے هَلاَّ کے معنی میں ہے یعنی جن بستیوں کو ہم نے ہلاک کیا، ان میں کوئی ایک بستی بھی ایسی کیوں نہ ہوئی جو ایسا ایمان لاتی جو اس کے لیے فائدہ مند ہوتا۔ ہاں صرف یونس عليہ السلام کی قوم ایسی ہوئی ہے کہ جب وہ ایمان لے آئی تو اللہ نے ان سے عذاب دور کر دیا مختصر پس منظر یہ کہ یونس عليہ السلام نے جب دیکھا کہ ان کی تبلیغ و دعوت سے ان کی قوم متاثر نہیں ہو رہی تو انہوں نے قوم میں اعلان کیا کہ فلاں فلاں دن تم پر عذاب آ جائے گا اور وہ خود وہاں سے نکل گئے۔ جب عذاب بادل کی طرح ان پر امڈ آیا تو وہ بچوں عورتوں سمیت ایک میدان میں جمع ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ واستفغار شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی اور ان سے عذاب ٹال دیا۔ حضرت یونس عليہ السلام آنے جانے والے مسافروں سے اپنی قوم کا حال معلوم کرتے رہتے تھے، انہیں جب معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم سے عذاب ٹال دیا ہے، تو انہوں نے اپنی تکذیب کے بعد اس قوم میں جانا پسند نہیں کیا بلکہ ان سے ناراض ہو کر وہ کسی اور طرف روانہ ہو گئے، جس پر وہ کشتی کا واقعہ پیش آیا (جس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی) (فتح القدیر) البتہ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ قوم یونس ایمان کب لائی؟ عذاب دیکھ کر لائی، جب کہ ایمان لانا نافع نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اس قانون سے مستثنی کر کے اس کے ایمان کو قبول کر لیا۔ یا ابھی عذاب نہیں آیا تھا یعنی وہ مرحلہ نہیں آیا تھا کہ جب ایمان نافع نہیں ہوتا۔ لیکن قرآن کریم قوم یونس کا الا کے ساتھ جو استثنا کیا ہے وہ پہلی تفسیر کی تائید کرتا ہے۔ واللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
٩٨۔۲ قرآن نے دنیاوی عذاب کے دور کرنے کی صراحت تو کی ہے، اخروی عذاب کی بابت صراحت نہیں کی، اس لیے بعض مفسرین کے خیال میں اخروی عذاب ان سے ختم نہیں کیا گیا۔ لیکن جب قرآن نے یہ وضاحت کر دی کہ دنیاوی عذاب، ایمان لانے کی وجہ سے ٹالا گیا تھا، تو پھر اخروی عذاب کی بابت صراحت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ہے۔ کیونکہ اخروی عذاب کا فیصلہ تو ایمان اور عدم ایمان کی بنیاد پر ہی ہونا ہے۔ اگر ایمان لانے کے بعد قوم یونس اپنے ایمان پر قائم رہی ہو گی، (جس کی صراحت یہاں نہیں ہے) تو یقینا وہ اخروی عذاب سے بھی محفوظ رہے گی۔ البتہ بصورت دیگر عذاب سے بچنا صرف دنیا ہی کی حد تک ہی ہو گا۔ واللہ اعلم
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَوْ شَاءَ رَ‌بُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْ‌ضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِ‌هُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ﴿٩٩﴾
اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے، (١) تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کر سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ مومن ہی ہو جائیں۔
٩٩۔١ لیکن اللہ نے ایسا نہیں چاہا، کیونکہ یہ اس کی اس حکمت و مصلحت کے خلاف ہے، جسے مکمل طور پر وہی جانتا ہے۔ یہ اس لیے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید خواہش ہوتی تھی کہ سب مسلمان ہو جائیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ مشیت الٰہی جو حکمت بالغہ اور مصلحت راجحہ پر مبنی ہے، اس کی مقتضی نہیں۔ اس لیے آگے فرمایا کہ آپ لوگوں کو زبردستی ایمان لانے پر کیسے مجبور کر سکتے ہیں؟ جب کہ آپ کے اندر اس کی طاقت ہے نہ اس کے آپ مکلف ہی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ وَيَجْعَلُ الرِّ‌جْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿١٠٠﴾
حالانکہ کسی شخص کا ایمان لانا اللہ کے حکم کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ بےعقل لوگوں پر گندگی ڈال دیتا ہے۔ (١)
١٠٠۔١ گندگی سے مراد عذاب یا کفر ہے۔ یعنی جو لوگ اللہ کی آیات پر غور نہیں کرتے، وہ کفر میں مبتلا رہتے ہیں اور یوں عذاب کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قُلِ انظُرُ‌وا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ‌ عَن قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُونَ ﴿١٠١﴾
آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو کہ کیا کیا چیزیں آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو نشانیاں اور دھمکیاں کچھ فائدہ نہیں پہنچاتیں۔

فَهَلْ يَنتَظِرُ‌ونَ إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلِهِمْ ۚ قُلْ فَانتَظِرُ‌وا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِ‌ينَ ﴿١٠٢﴾
سو وہ لوگ صرف ان لوگوں کے سے واقعات کا انتظار کر رہے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ آپ فرما دیجئے کہ اچھا تو تم انتظار میں رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔
١٠٢۔١ یعنی یہ لوگ، جن پر کوئی دلیل اور دھمکی اثر انداز نہیں ہوتی، لہذا ایمان نہیں لاتے۔ کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے ساتھ بھی وہی تاریخ دہرائی جائے جن سے پچھلی امتیں گزر چکی ہیں۔ یعنی اہل ایمان کو بچا کر (جیسا کہ اگلی آیت میں وضاحت ہے) باقی سب کو ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ اگر اسی بات کا انتظار ہے تو ٹھیک ہے، تم بھی انتظار کرو، میں بھی انتظار کر رہا ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ثُمَّ نُنَجِّي رُ‌سُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٠٣﴾
پھر ہم اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کو بچا لیتے تھے، اسی طرح ہمارے ذمہ ہے کہ ہم ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي شَكٍّ مِّن دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلَـٰكِنْ أَعْبُدُ اللَّـهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ ۖ وَأُمِرْ‌تُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٠٤﴾
آپ کہہ دیجئے (١) کہ اے لوگو! اگر تم میرے دین کی طرف سے شک میں ہو تو میں ان معبودوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو، (٢) لیکن ہاں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمہاری جان قبض کرتا ہے۔ (٣) اور مجھ کو یہ حکم ہوا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے رہوں۔
١٠٤۔١اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرما رہا ہے کہ آپ تمام لوگوں پر واضح کر دیں کہ میرا طریقہ اور مشرکین کا طریقہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
١٠٤۔٢ یعنی اگر تم میرے دین کے بارے میں شک کرتے ہو، جس میں صرف ایک اللہ کی عبادت ہے اور یہی دین حق ہے نہ کہ کوئی اور تو یاد رکھو میں ان معبودوں کی کبھی اور کسی حال میں عبادت نہیں کروں گا جن کی تم کرتے ہو۔
١٠٤۔٣ یعنی موت و حیات اسی کے ہاتھ میں ہے، اسی لیے جب وہ چاہے تمہیں ہلاک کر سکتا ہے کیونکہ انسانوں کی جانیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿١٠٥﴾
اور یہ کہ اپنا رخ یکسو ہو کر (اس) دین کی طرف کر لینا، (١) اور کبھی مشرکوں میں سے نہ ہونا۔
١٠٥۔١ حَنِیْف کے معنی ہیں۔ یک سو، یعنی ہر دین کو چھوڑ کر صرف دین اسلام کو اپنانا اور ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف ایک اللہ کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہونا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّ‌كَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ ﴿١٠٦﴾
اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تجھ کو نہ نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی ضرر پہنچا سکے۔ پھر اگر ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔ (١)
١٠٦۔١ یعنی اگر اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبودوں کو آپ پکاریں گے جو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں تو یہ ظلم کا ارتکاب ہو گا، ظلم کے معنی ہیں ”وَضْعُ الشَّيْءِ فِي غَيْرِ مَحِلِّهِ“، کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا۔ عبادت چونکہ صرف اللہ کا حق ہے جس نے تمام کائنات بنائی ہے اور تمام اسباب حیات بھی وہی پیدا کرتا ہے تو اس مستحق عبادت ذات کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا نہایت ہی غلط ہے اس لئے شرک کو ظلم عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہاں بھی خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن اصل مخاطب افراد انسانی اور امت محمدیہ ہے۔
 
Top