• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُ‌وا أَنفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَفْتَرُ‌ونَ ﴿٢١﴾
یہی ہیں جنہوں نے اپنا نقصان آپ کر لیا اور وہ سب کچھ ان سے کھو گیا، جو انہوں نے گھڑ رکھا تھا۔

لَا جَرَ‌مَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَ‌ةِ هُمُ الْأَخْسَرُ‌ونَ ﴿٢٢﴾
بیشک یہی لوگ آخرت میں زیاں کار ہوں گے۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَخْبَتُوا إِلَىٰ رَ‌بِّهِمْ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٣﴾
یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کیے اور اپنے پالنے والے کی طرف جھکتے رہے، وہی جنت میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ ہی رہنے والے ہیں۔

مَثَلُ الْفَرِ‌يقَيْنِ كَالْأَعْمَىٰ وَالْأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ‌ وَالسَّمِيعِ ۚ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٢٤﴾
ان دونوں فرقوں کی مثال اندھے، بہرے اور دیکھنے، سننے والے جیسی ہے۔ (١) کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں؟ کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟
٢٤۔١ پچھلی آیات میں مومنین اور کافرین اور سعادت مندوں اور بدبختوں، دونوں کا تذکرہ فرمایا۔ اب اس میں دونوں کی مثال بیان فرما کر دونوں کی حقیقت کو مزید واضح کیا جا رہا ہے۔ فرمایا، ایک کی مثال اندھے اور بہرے کی طرح ہے اور دوسرے کی دیکھنے اور سننے والے کی طرح۔ کافر دنیا میں حق کا روئے زیبا دیکھنے سے محروم اور آخرت میں نجات کے راستہ سے بے بہرہ، اسی طرح حق کے دلائل سننے سے بے بہرہ ہوتا ہے، اسی لیے ایسی باتوں سے محروم رہتا ہے جو اس کے لیے مفید ہوں۔ اس کے برعکس مومن سمجھ دار، حق کو دیکھنے والا اور حق اور باطل کے درمیان تمیز کرنے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ حق اور خیر کی پیروی کتا ہے، دلائل کو سنتا اور ان کے ذریعے سے شبہات کا ازالہ کرتا اور باطل سے اجتناب کرتا ہے، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ استفہام نفی کے لیے ہے۔ یعنی دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ ﴿لا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ﴾(الحشر:20) ”جنتی دوزخی برابر نہیں ہو سکتے جنتی تو کامیاب ہونے والے ہیں“، ایک اور مقام پر اسے اس طرح بیان فرمایا ”اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں۔ اندھیرے اور روشنی، سایہ اور دھوپ برابر نہیں، زندے اور مردے برابر نہیں“۔ (سورہ فاطر:19-20)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ‌ مُّبِينٌ ﴿٢٥﴾
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا کہ میں تمہیں صاف صاف ہوشیار کر دینے والا ہوں۔

أَن لَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّـهَ ۖ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ أَلِيمٍ ﴿٢٦﴾
کہ تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو، (١) مجھے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے۔ (٢)
٢٦۔١ یہ وہی دعوت توحید ہے جو ہر نبی نے آ کر اپنی اپنی قوم کو دی۔ جس طرح فرمایا ﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: 25) ”جو پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجے، ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو“۔
٢٦۔ ٢ یعنی اگر مجھ پر ایمان نہیں لائے اور اس دعوت توحید کو نہیں اپنایا تو عذاب الٰہی سے نہیں بچ سکو گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا مِن قَوْمِهِ مَا نَرَ‌اكَ إِلَّا بَشَرً‌ا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَ‌اكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَ‌اذِلُنَا بَادِيَ الرَّ‌أْيِ وَمَا نَرَ‌ىٰ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ ﴿٢٧﴾
اس کی قوم کے کافروں کے سرداروں نے جواب دیا کہ ہم تو تجھے اپنے جیسا انسان ہی دیکھتے ہیں (١) اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ (٢) لوگوں کے (٣) اور کوئی نہیں جو بے سوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں)، ہم تو تمہاری کسی قسم کی برتری اپنے اوپر نہیں دیکھ رہے، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھ رہے ہیں۔
٢٧۔١ یہ وہی شبہ ہے، جس کی پہلے کئی جگہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ کافروں کے نزدیک بشریت کے ساتھ نبوت و رسالت کا اجتماع بڑا عجیب تھا، جس طرح آج کے اہل بدعت کو بھی عجیب لگتا ہے اور وہ بشریت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے ہیں۔
٢٧۔٢ حق کی تاریخ میں یہ بات بھی ہر دور میں سامنے آتی رہی ہے کہ ابتداء میں اس کو اپنانے والے ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں معاشرے میں بے نوا کم تر سمجھا جاتا تھا اور صاحب حیثیت اور خوش حال طبقہ اس سے محروم رہتا۔ حتی کہ پیغمبروں کے پیروکاروں کی علامت بن گئی۔ چنانچہ شاہ روم ہرقل نے حضرت ابو سفیان رضی الله عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پوچھا تو اس میں ان سے ایک بات یہ بھی پوچھی کہ ”اس کے پیروکار معاشرے کے معزز سمجھے جانے والے لوگ ہیں یا کمزور لوگ“ حضرت ابو سفیان رضی الله عنہ نے جواب میں کہا ”کمزور لوگ“ جس پر ہرقل نے کہا ”رسولوں کے پیروکار یہی لوگ ہوتے ہیں“۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 7) قرآن کریم میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ خوش حال طبقہ ہی سب سے پہلے پیغمبروں کی تکذیب کرتا رہا ہے۔ (سورہ زخرف: 23) اور یہ اہل ایمان کی دنیاوی حیثیت تھی اور جس کے اعتبار سے اہل کفر انہیں حقیر اور کم تر سمجھتے تھے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ حق کے پیروکار معزز اور اشراف ہیں چاہے وہ مال و دولت کے اعتبار سے فروتر ہی ہوں اور حق کا انکار کرنے والے حقیر اور بے حیثیت ہیں چاہے وہ دنیوی اعتبار سے مال دار ہی ہوں۔
٢٧۔٣ اہل ایمان چونکہ، اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلے میں اپنی عقل و دانش اور رائے کا استعمال نہیں کرتے، اس لیے اہل باطل یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بے سوچ سمجھ والے ہیں کہ اللہ کا رسول انہیں جس طرف موڑ دیتا ہے، یہ مڑ جاتے ہیں جس چیز سے روک دیتا ہے، رک جاتے ہیں۔ یہ بھی اہل ایمان کی ایک بڑی بلکہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ لیکن اہل کفر و باطل کے نزدیک یہ خوبی بھی ”عیب“ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ يَا قَوْمِ أَرَ‌أَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّ‌بِّي وَآتَانِي رَ‌حْمَةً مِّنْ عِندِهِ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنتُمْ لَهَا كَارِ‌هُونَ ﴿٢٨﴾
نوح نے کہا، میری قوم والو! مجھے بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے کسی دلیل پر ہوا اور مجھے اس نے اپنے پاس کی کوئی رحمت عطا کی ہو، (١) پھر وہ تمہاری نگاہوں میں (٢) نہ آئی تو کیا زبردستی میں اسے تمہارے گلے منڈھ دوں، حالانکہ تم اس سے بیزار ہو۔ (٣)
٢٨۔١ بَيِّنَةٍ سے مراد ایمان و یقین ہے اور رحمت سے مراد نبوت۔ جس سے اللہ تعالٰی نے حضرت نوح (عليہ السلام) کو سرفراز کیا تھا۔
٢٨۔۲ یعنی تم اس کے دیکھنے سے اندھے ہو گئے۔ چنانچہ تم نے اس کی قدر پہچانی اور نہ اسے اپنانے پر آمادہ ہوئے، بلکہ اس کو جھٹلایا اور اس کی تکذیب اور رد کے درپے ہو گئے۔
٢٨۔۳ جب یہ بات ہے تو ہدایت ورحمت تمہارے حصے میں کس طرح آ سکتی ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِ‌يَ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِ‌دِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُم مُّلَاقُو رَ‌بِّهِمْ وَلَـٰكِنِّي أَرَ‌اكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ﴿٢٩﴾
میری قوم والو! میں تم سے اس پر کوئی مال نہیں مانگتا۔ (١) میرا ثواب تو صرف اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے نہ میں ایمان داروں کو اپنے پاس سے نکال سکتا ہوں، (٢) انہیں اپنے رب سے ملنا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت کر رہے ہو۔ (٣)
٢٩۔١ تاکہ تمہارے دماغوں میں یہ شبہ نہ آ جائے کہ اس دعوائے نبوت سے اس کا مقصد تو دولت دنیا اکٹھا کرنا ہے۔ میں تو یہ کام صرف اللہ کے حکم پر اسی کی رضا کے لیے کر رہا ہوں، وہی مجھے اجر دے گا۔
٢٩۔٢ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح عليہ السلام کے سرداروں نے بھی معاشرے میں کمزور سمجھے جانے والے اہل ایمان کو حضرت نوح عليہ السلام سے اپنی مجلس یا اپنے قرب سے دور رکھنے کا مطالبہ کیا ہوگا، جس طرح روسائے مکہ نے رسول اللہ سے اس قسم کا مطالبہ کیا تھا، جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی آیت نازل فرمائیں تھیں ﴿وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ﴾ (سورة الأنعام: 52)، ”اے پیغمبر ان لوگوں کو اپنے سے دور مت کرنا جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں“، ﴿وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلا تَعْدُ عَيْنَاكَ عنہمْ﴾ (الكهف: 28)۔ ”اپنے نفسوں کو ان لوگوں کے ساتھ جوڑے رکھئے! جو اپنے رب کو صبح شام پکارتے ہیں، اپنے رب کی رضا چاہتے ہیں، آپ کی آنکھیں ان سے گزر کر کسی اور کی طرف تجاوز نہ کریں“۔
٢٩۔٣ یعنی اللہ اور رسول کے پیروکار کو حقیر سمجھنا اور پھر انہیں قرب نبوت سے دور کرنے کا مطالبہ کرنا، یہ تمہاری جہالت ہے۔ یہ لوگ تو اس لائق ہیں کہ انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جائے نہ کہ دور دھتکارا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَيَا قَوْمِ مَن يَنصُرُ‌نِي مِنَ اللَّـهِ إِن طَرَ‌دتُّهُمْ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُ‌ونَ ﴿٣٠﴾
میری قوم کے لوگو! اگر میں ان مومنوں کو اپنے پاس سے نکال دوں تو اللہ کے مقابلے میں میری مدد کون کر سکتا ہے؟ (١) کیا تم کچھ بھی نصیحت نہیں پکڑتے۔
٣٠۔١ گویا ایسے لوگوں کو اپنے سے دور کرنا، اللہ کے غضب اور ناراضگی کا باعث ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِ‌ي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّـهُ خَيْرً‌ا ۖ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ﴿٣١﴾
میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، (سنو!) میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا، نہ یہ میں کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں، نہ میرا یہ قول ہے کہ جن پر تمہاری نگاہیں ذلت سے پڑ رہی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دے گا ہی نہیں، (١) ان کے دل میں جو ہے اسے اللہ ہی خوب جانتا ہے، اگر میں ایسی بات کہوں تو یقیناً میرا شمار ظالموں میں ہو جائے گا۔ (٢)
٣١۔١ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایمان کی صورت میں خیر عظیم عطا کر رکھا ہے جس کی بنیاد پر وہ آخرت میں بھی جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ چاہے گا، تو بلند مرتبے سے ہمکنار ہوں گے۔ گویا تمہارا ان کو حقیر سمجھنا ان کے لیے نقصان کا باعث نہیں، البتہ تم ہی عند اللہ مجرم ٹھہرو گے کہ اللہ کے نیک بندوں کو، جن کا اللہ کے ہاں بڑا مقام ہے، تم حقیر اور فرومایہ سمجھتے ہو۔
٣١۔٢ کیونکہ میں ان کی بابت ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں، صرف اللہ جانتا ہے، تو یہ ظلم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالُوا يَا نُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْ‌تَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴿٣٢﴾
(قوم کے لوگوں نے) کہا اے نوح! تو نے ہم سے بحث کر لی اور خوب بحث کر لی۔ (١) اب تو جس چیز سے ہمیں دھمکا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ، اگر تو سچوں میں ہے۔ (٢)
٣٢۔١ لیکن اس کے باوجود ہم ایمان نہیں لائے۔
٣٢۔٢ یہ وہی حماقت ہے جس کا ارتکاب گمراہ قومیں کرتی آئی ہیں کہ وہ اپنے پیغمبر سے کہتی رہی ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا کر ہمیں تباہ کروا دے۔ حالانکہ ان میں عقل ہوتی، تو وہ کہتیں کہ اگر سچا ہے اور واقعی اللہ کا رسول ہے، تو ہمارے لئے دعا کر کہ اللہ تعالیٰ ہمارا سینہ بھی کھول دے تاکہ ہم اسے اپنا لیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ إِنَّمَا يَأْتِيكُم بِهِ اللَّـهُ إِن شَاءَ وَمَا أَنتُم بِمُعْجِزِينَ ﴿٣٣﴾
جواب دیا کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ ہی لائے گا اگر وہ چاہے اور ہاں تم اسے ہرانے والے نہیں ہو۔ (١)
٣٣۔١ یعنی عذاب کا آنا خالص اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، یہ نہیں ہے کہ جب میں چاہوں، تم پر عذاب آ جائے۔ تاہم جب اللہ عذاب کا فیصلہ کر لے گا یا بھیج دے گا، تو پھر اس کو کوئی عاجز کرنے والا نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَا يَنفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَ‌دتُّ أَنْ أَنصَحَ لَكُمْ إِن كَانَ اللَّـهُ يُرِ‌يدُ أَن يُغْوِيَكُمْ ۚ هُوَ رَ‌بُّكُمْ وَإِلَيْهِ تُرْ‌جَعُونَ ﴿٣٤﴾
تمہیں میری خیر خواہی کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی، گو میں کتنی ہی تمہاری خیر خواہی کیوں نہ چاہوں، بشرطیکہ اللہ کا ارادہ تمہیں گمراہ کرنے کا ہو، (١) وہی تم سب کا پروردگار ہے (٢) اور اسی کی طرف لوٹ جاؤ گے۔
٣٤۔١ إِغْوَاءٌ بمعنی اضلال (گمراہ کرنا ہے) یعنی تمہارا کفر و جحود اگر اس مقام پر پہنچ چکا ہے، جہاں سے کسی انسان کو پلٹ کر آنا اور ہدایت کو اپنا لینا ناممکن ہے، تو اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہر لگا دینا کہا جاتا ہے، جس کے بعد ہدایت کی کوئی امید باقی نہیں رہ جاتی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم بھی اسی خطرناک موڑ تک پہنچ چکے ہو تو پھر میں تمہاری خیر خواہی بھی کرنی چاہوں یعنی ہدایت پر لانے کی اور زیادہ کوشش کروں، تو یہ کوشش اور خیر خواہی تمہارے لیے مفید نہیں، کیونکہ تم گمراہی کے آخری مقام پر پہنچ چکے ہو۔
٣٤۔۲ ہدایت اور گمراہی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، جہاں وہ تمہیں تمہارے عملوں کی جزا دے گا۔ نیکوں کو ان کے نیک عمل کی جزا اور بروں کو ان کی برائی کی سزا دے گا۔
 
Top