• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَقْدُمُ قَوْمَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَوْرَ‌دَهُمُ النَّارَ‌ ۖ وَبِئْسَ الْوِرْ‌دُ الْمَوْرُ‌ودُ ﴿٩٨﴾
وہ تو قیامت کے دن اپنی قوم کا پیش رو ہو کر ان سب کو دوزخ میں جا کھڑا کرے گا، (١) وہ بہت ہی برا گھاٹ (٢) ہے جس پر لا کھڑے کیے جائیں گے۔
٩٨۔١ یعنی فرعون، جس طرح دنیا میں ان کا رہبر اور پیش رو تھا، قیامت والے دن بھی یہ آگے آگے ہی ہوگا اور اپنی قوم کو اپنی قیادت میں جہنم میں لے کر جائے گا۔
٩٨۔٢ وِرْدٌ پانی کے گھاٹ کو کہتے ہیں، جہاں پیاسے جا کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ لیکن یہاں جہنم کو ورد کہا گیا ہے۔ مَوْرُودٌ وہ مقام یا گھاٹ یعنی جہنم جس میں لوگ لے جائے جائیں گے یعنی جگہ بھی بری اور جانے والے بھی برے۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهَا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَأُتْبِعُوا فِي هَـٰذِهِ لَعْنَةً وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ بِئْسَ الرِّ‌فْدُ الْمَرْ‌فُودُ ﴿٩٩﴾
ان پر تو اس دنیا میں بھی لعنت چپکا دی گئی اور قیامت کے دن بھی (١) برا انعام ہے جو دیا گیا۔ (٢)
٩٩۔١ لَعْنَۃ سے پھٹکار اور رحمت الٰہی سے دوری و محرومی ہے، گویا دنیا میں بھی وہ رحمت الٰہی سے محروم اور آخرت میں میں بھی اس سے محروم ہی رہیں گے، اگر ایمان نہ لائے۔
٩٩۔٢ رِفْدً انعام اور عطیے کو کہا جاتا ہے۔ یہاں لعنت کو رفد کہا گیا ہے۔ اسی لیے اسے برا انعام قرار دیا گیا مَرْفُوْد وہ انعام جو کسی کو دیا جائے۔ یہ الرفد کی تاکید ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْقُرَ‌ىٰ نَقُصُّهُ عَلَيْكَ ۖ مِنْهَا قَائِمٌ وَحَصِيدٌ ﴿١٠٠﴾
بستیوں کی یہ بعض خبریں جنہیں ہم تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں ان میں سے بعض تو موجود ہیں اور بعض (کی فصلیں) کٹ گئی ہیں۔ (١)
١٠٠۔١ قائم سے مراد وہ بستیاں، جو اپنی چھتوں پر قائم ہیں اور حَصِیْد بمعنی محصود سے مراد وہ بستیاں جو کٹے ہوئے کھیتوں کی طرح نابود ہو گئیں۔ یعنی جن گزشتہ بستیوں کے واقعات ہم بیان کر رہے ہیں، ان میں سے بعض تو اب بھی موجود ہیں، جن کے آثار و کھنڈرات نشان عبرت ہیں اور بعض بالکل ہی صفہ ہستی سے معدوم ہو گیئں اور ان کا وجود صرف تاریخ کے صفحات پر باقی رہ گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَـٰكِن ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ۖ فَمَا أَغْنَتْ عَنْهُمْ آلِهَتُهُمُ الَّتِي يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ لَّمَّا جَاءَ أَمْرُ‌ رَ‌بِّكَ ۖ وَمَا زَادُوهُمْ غَيْرَ‌ تَتْبِيبٍ ﴿١٠١﴾
ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا، (١) بلکہ خود انہوں نے ہی اپنے اوپر ظلم کیا، (٢) اور انہیں ان کے معبودوں نے کوئی فائدہ نہ پہنچایا جنہیں وہ اللہ کے سوا پکارا کرتے تھے، جب کہ تیرے پروردگار کا حکم آ پہنچا، بلکہ اور ان کا نقصان ہی انہوں نے بڑھا دیا۔ (٣)
١٠١۔١ ان کو عذاب اور ہلاکت سے دو چار کر کے۔
١٠١۔٢ کفر و معاصی کا ارتکاب کر کے۔
١٠١۔٣ جب کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ انہیں نقصان سے بچائیں گے اور فائدہ پہنچائیں گے۔ لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو واضح ہو گیا کہ ان کا یہ عقیدہ فاسد تھا، اور یہ بات ثابت ہو گئی کہ اللہ کے سوا کوئی کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَكَذَٰلِكَ أَخْذُ رَ‌بِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَ‌ىٰ وَهِيَ ظَالِمَةٌ ۚ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ ﴿١٠٢﴾
تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب کہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے بیشک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت (١) سخت ہے۔
١٠٢۔١ یعنی جس طرح گزشتہ بستیوں کو اللہ تعالیٰ نے تباہ اور برباد کیا، آئندہ بھی وہ ظالموں کی اسی طرح گرفت کرنے پر قادر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ اللهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ ”اللہ تعالٰی یقیناً ظالم کو مہلت دیتا ہے لیکن جب اس کی گرفت کرنے پر آتا ہے تو پھر اس طرح اچانک گرتا ہے کہ پھر مہلت نہیں دیتا“۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَ‌ةِ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ وَذَٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ ﴿١٠٣﴾
یقیناً اس میں (١) ان لوگوں کے لیے نشان عبرت ہے جو قیامت کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ وہ دن جس میں سب لوگ جمع کیے جائیں گے اور وہ، وہ دن ہے جس میں سب حاضر کیے جائیں گے۔ (٢)
١٠٣۔١ یعنی مواخذہ الٰہی میں یا ان واقعات میں جو عبرت و موعظبت کے لیے بیان کیے گئے ہیں۔
١٠٣۔٢ یعنی حساب اور بدلے کے لیے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَمَا نُؤَخِّرُ‌هُ إِلَّا لِأَجَلٍ مَّعْدُودٍ ﴿١٠٤﴾
اسے ہم جو ملتوی کرتے ہیں وہ صرف ایک مدت معین تک ہے۔ (١)
١٠٤۔١ یعنی قیامت کے دن میں تاخیر کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے لیے ایک وقت معین کیا ہوا ہے۔ جب وہ وقت مقرر آ جائے گا، تو ایک لمحے کی تاخیر نہیں ہو گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يَوْمَ يَأْتِ لَا تَكَلَّمُ نَفْسٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ ﴿١٠٥﴾
جس دن وہ آ جائے گی مجال نہ ہو گی کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بات بھی کر (١) لے، سو ان میں کوئی بدبخت ہو گا اور کوئی نیک بخت۔
١٠٥۔٤ گفتگو نہ کرنے سے مراد، کسی کو اللہ تعالیٰ سے کسی طرح کی بات یا شفاعت کرنے کی ہمت نہیں ہو گی۔ الا یہ کہ وہ اجازت دے دے۔ طویل حدیث شفاعت میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَلا يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ إِلا الرُّسُلُ وَدَعْوَى الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ؛ اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ (صحيح بخاری، كتاب الإيمان، باب فضل السجود، ومسلم، كتاب الإيمان، باب معرفة طريق الرؤية ) ”اس دن انبیاء کے علاوہ کسی کو گفتگو کی ہمت نہ ہو گی اور انبیاء کی زبان پر بھی اس دن صرف یہی ہو گا کہ یا اللہ! ہمیں بچا لے، ہمیں بچا لے“۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ‌ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ‌ وَشَهِيقٌ ﴿١٠٦﴾
لیکن جو بدبخت ہوئے وہ دوزخ میں ہوں گے وہاں چیخیں گے چلائیں گے۔

خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْ‌ضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَ‌بُّكَ ۚ إِنَّ رَ‌بَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِ‌يدُ ﴿١٠٧﴾
وہ وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں جب تک آسمان و زمین برقرار رہیں (١) سوائے اس وقت کے جو تمہارا رب چاہے۔ (٢) یقیناً تیرا رب جو کچھ چاہے کر گزرتا ہے۔
١٠٧۔١ ان الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ لگا ہے کہ کافروں کے لیے جہنم کا عذاب دائمی نہیں ہے بلکہ موقت ہے یعنی اس وقت تک رہے گا جب تک آسمان و زمین رہیں گے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ کیونکہ یہاں ﴿مَا دَامَتِ السِّمٰوٰ تُ وَالْاَرْضُ﴾ اہل عرب کے روز مرہ کی گفتگو اور محاورے کے مطابق نازل ہوا ہے۔ عربوں کی عادت تھی کہ جب کسی چیز کا دوام ثابت کرنا مقصود ہوتا تو وہ کہتے تھے کہ هَذَا دَائِمٌ دَوَامَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ (یہ چیز اسی طرح ہمیشہ رہے گی۔ جس طرح آسمان و زمین کا دوام ہے) اسی محاورے کو قرآن کریم میں استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل کفر و شرک جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ جس کو قرآن نے متعدد جگہ ﴿خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا﴾ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ ایک دوسرا مفہوم اس کا یہ بھی بیان کی گیا ہے کہ آسمان و زمین سے مراد جنس ہے۔ یعنی دنیا کے آسمان و زمین اور ہیں جو فنا ہو جائیں گے لیکن آخرت کے آسمان و زمین ان کے علاوہ اور ہوں گے، جیسا کہ قران کریم میں اس کی صراحت ہے، ﴿يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ﴾ (سورۃ ابراہیم:48)، ”اس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی بدل دئیے جائیں گے“۔ اور آخرت کے یہ آسمان و زمین، جنت اور دوزخ کی طرح ہمیشہ رہیں گے۔ اس آیت میں یہی آسمان و زمین مراد ہے نہ کہ دنیا کے آسمان و زمین جو فنا ہو جائیں گے۔ (ابن کثیر) ان دونوں مفہوموں میں سے کوئی بھی مفہوم مراد لے لیا جائے، آیت کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے اور وہ اشکال پیدا نہیں ہوتا جو مذکور ہوا۔ امام شوکانی نے اس کے اور بھی کئی مفہوم بیان کیے ہیں جنہیں اہل علم ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ (فتح القدیر)
١٠٧۔٢ اس استثناء کے بھی کئی مفہوم بیان کیے گئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ صحیح مفہوم یہی ہے کہ یہ استثناء ان گناہ گاروں کے لیے ہے جو اہل توحید و اہل ایمان ہوں گے۔ اس اعتبار سے اس سے ما قبل آیت میں شَقِی کا لفظ عام یعنی کافر اور عاصی دونوں کو شامل ہو گا اور «إِلا مَا شَاءَ رَبُّكَ» سے عاصی مومنوں کا استثناء ہو جائے گا اور مَا شَآءِ میں مَا، مَنْ کے معنی میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْ‌ضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَ‌بُّكَ ۖ عَطَاءً غَيْرَ‌ مَجْذُوذٍ ﴿١٠٨﴾
لیکن جو نیک بخت کیے گئے وہ جنت میں ہوں گے جہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان و زمین باقی رہے مگر جو تیرا پروردگار چاہے۔ (١) یہ بے انتہا بخشش ہے۔ (٢)
١٠٨۔ ١ یہ استثناء بھی عصاۃ اہل ایمان کے لیے ہے۔ یعنی دیگر جنتیوں کی طرح یہ نافرمان مومن ہمیشہ سے جنت میں نہیں رہیں ہوں گے، بلکہ ابتدا میں ان کا کچھ عرصہ جہنم میں گزرے گا اور پھر انبیاء اور اہل ایمان کی سفارش سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، جیسا کہ احادیث صحیحہ سے یہ باتیں ثابت ہیں۔
١٠٨۔٢ غیر مجذوذ کے معنی ہیں غیر مقطوع۔ یعنی نہ ختم ہونے والی عطاء۔ اس جملے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جن گناہ گاروں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، یہ دخول عارضی نہیں، ہمیشہ کے لیے ہو گا اور تمام جنتی ہمیشہ اللہ کی عطاء اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے، اور یہ ہمیشہ کے لیے جاری رہے گا۔ اس میں کبھی انقطاع نہیں ہو گا۔
 
Top