• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُ‌كَ أَن نَّتْرُ‌كَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّ‌شِيدُ ﴿٨٧﴾
انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب! کیا تیری صلاۃ (١) تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں (٢) تو تو بڑا ہی با وقار اور نیک چلن آدمی ہے۔ (٣)
٨٧۔١ صَلاةٌ سے مراد عبادت دین یا تلاوت ہے۔
٨٧۔٢ اس سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک زکوۃ و صدقات ہیں، جس کا حکم ہر آسمانی مذہب میں دیا گیا ہے اللہ کے حکم سے زکوٰۃ و صدقات کا اخراج، اللہ کے نافرمانوں پر نہایت شاق گزرتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم اپنی محنت و لیاقت سے مال کماتے ہیں تو اس کے خرچ کرنے یا نہ کرنے میں ہم پر پابندی کیوں ہو۔ اور اس کا کچھ حصہ ایک مخصوص مد کے لیے نکالنے پر ہمیں مجبور کیوں کیا جائے؟ اسی طریقے سے کمائی اور تجارت میں حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی پابندی بھی ایسے لوگوں پر نہایت گراں گزرتی ہے، ممکن ہے ناپ تول میں کمی سے روکنے کو بھی انہوں نے اپنے مالی تصرفات میں دخل در معقولات سمجھا ہو۔ اور ان الفاظ میں اس سے انکار کیا ہو۔ دونوں ہی مفہوم اس کے صحیح ہیں۔
٨٧۔٣ حضرت شعیب عليہ السلام کے لیے یہ الفاظ انہوں نے بطور استہزا کہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ يَا قَوْمِ أَرَ‌أَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّ‌بِّي وَرَ‌زَقَنِي مِنْهُ رِ‌زْقًا حَسَنًا ۚ وَمَا أُرِ‌يدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِ‌يدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ ﴿٨٨﴾
کہا اے میری قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل لیے ہوئے ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بہترین روزی دے رکھی ہے، (١) میرا یہ ارادہ بالکل نہیں کہ تمہارے خلاف کر کے خود اس چیز کی طرف جھک جاؤں جس سے تمہیں روک رہا ہوں، (٢) میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہی ہے۔ (٣) میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے، (٤) اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔
٨٨۔١ رزق حسن کا دوسرا مفہوم نبوت بھی بیان کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر)
٨٨۔٢ یعنی جس کام سے میں تجھے روکوں، تم سے خلاف ہو کر وہ میں خود کروں، ایسا نہیں ہو سکتا۔
٨٨۔٣ میں تمہیں جس کام کے کرنے یا جس سے روکنے کا حکم دیتا ہوں، اس سے مقصد اپنی مقدور بھر، تمہاری اصلاح ہی ہے۔
٨٨۔٤ یعنی حق تک پہنچنے کا جو میرا ارادہ ہے، وہ اللہ کی توفیق سے ہی ممکن ہے، اس لیے تمام معاملات میں میرا بھروسہ اسی پر ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِ‌مَنَّكُمْ شِقَاقِي أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ ۚ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ ﴿٨٩﴾
اور اے میری قوم (کے لوگو!) کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کو میری مخالفت ان عذابوں کا مستحق بنا دے جو قوم نوح اور قوم ہود اور قوم صالح کو پہنچے ہیں۔ اور قوم لوط تو تم سے کچھ دور نہیں۔ (١)
٨٩۔١ یعنی ان کی جگہ تم سے دور نہیں، یا اس سبب میں تم سے دور نہیں جو ان کے عذاب کا موجب بنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَاسْتَغْفِرُ‌وا رَ‌بَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَ‌بِّي رَ‌حِيمٌ وَدُودٌ ﴿٩٠﴾
تم اپنے رب سے استغفار کرو اور اس کی طرف توبہ کرو، یقین مانو کہ میرا رب بڑی مہربانی والا اور بہت محبت کرنے والا ہے۔

قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرً‌ا مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَ‌اكَ فِينَا ضَعِيفًا ۖ وَلَوْلَا رَ‌هْطُكَ لَرَ‌جَمْنَاكَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ ﴿٩١﴾
انہوں نے کہا اے شعیب! تیری اکثر باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں (١) اور ہم تو تجھے اپنے اندر بہت کمزور پاتے ہیں، (٢) اگر تیرے قبیلے کا خیال نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگسار کر دیتے، (٣) اور ہم تجھے کوئی حیثیت والی ہستی نہیں گنتے۔ (٤)
٩١۔١ یہ یا تو انہوں نے بطور مذاق تحقیر کہا درانحالیکہ ان کی باتیں ان کے لیے ناقابل فہم نہیں تھیں۔ اس صورت میں یہاں فہم کی نفی مجازا ہو گی۔ یا ان کا مقصد ان باتوں کے سمجھنے سے معذوری کا اظہار ہے جن کا تعلق غیب سے ہے۔ مثلا بعث بعد الموت، حشر نشر، جنت و دوزخ وغیرہ اس لحاظ سے، فہم کی نفی حقیقتا ہو گی۔
٩١۔٢ یہ کمزوری جسمانی لحاظ سے تھی، جیسا کہ بعض کا خیال ہے کہ حضرت شعیب عليہ السلام کی بینائی کمزور تھی یا وہ نحیف و لاغر جسم کے تھے یا اس اعتبار سے انہیں کمزور کہا کہ وہ خود بھی مخالفین سے تنہا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔
٩١۔٣ حضرت شعیب عليہ السلام کا قبیلہ کہا جاتا ہے کہ ان کا مددگار نہیں تھا، لیکن وہ قبیلہ چونکہ کفر وشرک میں اپنی ہی قوم کے ساتھ تھا، اس لیے اپنے ہم مذہب ہونے کی وجہ سے اس قبیلے کا لحاظ، بہرحال حضرت شعیب عليہ السلام کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے میں مانع تھا۔
٩١۔٤ لیکن چونکہ تیرے قبیلے کی حیثیت بہرحال ہمارے دلوں میں موجود ہے، اس لیے ہم درگزر سے کام لے رہے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ يَا قَوْمِ أَرَ‌هْطِي أَعَزُّ عَلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَ‌اءَكُمْ ظِهْرِ‌يًّا ۖ إِنَّ رَ‌بِّي بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌ ﴿٩٢﴾
انہوں نے جواب دیا کہ اے میری قوم کے لوگو! کیا تمہارے نزدیک میرے قبیلے کے لوگ اللہ سے بھی زیادہ ذی عزت ہیں کہ تم نے اسے پس پشت ڈال (١) دیا ہے یقیناً میرا رب جو کچھ تم کر رہے ہو سب کو گھیرے ہوئے ہے۔
٩٢۔١ کہ تم مجھے تو میرے قبیلے کی وجہ سے نظر انداز کر رہے ہو۔ لیکن جس اللہ نے مجھے منصب نبوت سے نوازا ہے اس کی کوئی عظمت نہیں اور اس منصب کا کوئی احترام تمہارے دلوں میں نہیں ہے اور اسے تم نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ یہاں حضرت شعیب عليہ السلام نے أَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِنِّي (مجھ سے زیادہ ذی عزت) کی بجائے أَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ اللہ سے زیادہ ذی عزت کہا جس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ نبی کی توہین یہ دراصل اللہ کی توہین ہے۔ اس لیے کہ نبی اللہ کا مبعوث ہوتا ہے۔ اور اسی اعتبار سے اب علمائے حق کی توہین اور ان کو حقیر سمجھنا یہ اللہ کے دین کی توہین اور اس کا استخفاف ہے، اس لیے کہ وہ اللہ کے دین کے نمائندے ہیں۔ ﴿وَاتَّخَذْتُمُوهُ ﴾ میں ھا کا مرجع اللہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ کے اس معاملے کو، جسے لے کر اس نے مجھے بھیجا ہے، اسے تم نے پس پشت ڈال دیا ہے اور اس کی کوئی پروا تم نے نہیں کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَيَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَن يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ ۖ وَارْ‌تَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَ‌قِيبٌ ﴿٩٣﴾
اے میری قوم کے لوگو! اب تم اپنی جگہ عمل کیے جاؤ میں بھی عمل کر رہا ہوں، تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ کس کے پاس وہ عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کر دے اور کون ہے جو جھوٹا ہے۔ تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔ (١)
٩٣۔١ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ قوم اپنے کفر و شرک پر مصر ہے اور وعظ و نصیحت کا بھی کوئی اثر ان پر نہیں ہو رہا، تو کہا اچھا تم اپنی ڈگر پر چلتے رہو، عنقریب تمہیں جھوٹے سچے کا اور اس بات کا کہ رسوا کن عذاب کا مستحق کون ہے؟ علم ہو جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُ‌نَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَ‌حْمَةٍ مِّنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِ‌هِمْ جَاثِمِينَ ﴿٩٤﴾
جب ہمارا حکم (عذاب) آ پہنچا ہم نے شعیب کو اور ان کے ساتھ (تمام) مومنوں کو اپنی خاص رحمت سے نجات بخشی اور ظالموں کو سخت چنگھاڑ کے عذاب نے دھر دبوچا (١) جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندے پڑے ہوئے ہو گئے۔
٩٤۔١ اس چیخ سے ان کے دل پارہ پارہ ہو گئے اور ان کی موت واقع ہو گئی اور اس کے مابعد ہی بھونچال بھی آیا، جیسا کہ سورۃ اعراف: 91 اور سورۃ عنکبوت 37 میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
كَأَن لَّمْ يَغْنَوْا فِيهَا ۗ أَلَا بُعْدًا لِّمَدْيَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُودُ ﴿٩٥﴾
گویا کہ وہ ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے، آگاہ رہو مدین کے لیے بھی ویسی ہی دوری (١) ہو جیسی دوری ثمود کو ہوئی۔
٩٥۔١ یعنی لعنت، پھٹکار، اللہ کی رحمت سے محرومی اور دوری۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿٩٦﴾
اور یقیناً ہم نے ہی موسیٰ کو اپنی آیات اور روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا تھا۔ (١)
٩٦۔١ آيَاتٌ سے بعض کے نزدیک تورات اور سلطان مبین سے معجزات مراد ہیں، اور بعض کہتے ہیں کہ آیات سے، آیات تسعہ اور سلطان مبین (روشن دلیل) سے عصا مراد ہے۔ عصا، اگرچہ آیات تسعہ میں شامل ہے لیکن معجزہ چونکہ نہایت ہی عظیم الشان تھا، اس لیے اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِلَىٰ فِرْ‌عَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاتَّبَعُوا أَمْرَ‌ فِرْ‌عَوْنَ ۖ وَمَا أَمْرُ‌ فِرْ‌عَوْنَ بِرَ‌شِيدٍ ﴿٩٧﴾
فرعون اور اس کے سرداروں (١) کی طرف، پھر بھی ان لوگوں نے فرعون کے احکام کی پیروی کی اور فرعون کا کوئی حکم درست تھا ہی نہیں۔ (٢)
٩٧۔١ مَلَاء قوم کے اشراف اور ممتاز قسم کے لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ (اس کی تشریح پہلے گزر چکی ہے) فرعون کے ساتھ، اس کے دربار کے ممتاز لوگوں کا نام اس لیے لیا گیا ہے کہ اشراف قوم ہی ہر معاملے کے ذمہ دار ہوتے تھے اور قوم ان ہی کے پیچھے چلتی تھی۔ اگرچہ موسیٰ عليہ السلام پر ایمان لے آتے تو یقیناً فرعون کی ساری قوم ایمان لے آتی۔
٩٧۔٢ رَشِيدٍ ذی رشد کے معنی میں ہے۔ یعنی بات تو حضرت موسیٰ عليہ السلام کی رشد وہدایت والی تھی، لیکن اسے ان لوگوں نے رد کر دیا اور فرعون کی بات، رشد و ہدایت سے دور تھی، اس کی انہوں نے پیروی کی۔
 
Top