• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّ‌سُولُ قَالَ ارْ‌جِعْ إِلَىٰ رَ‌بِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَ‌بِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ ﴿٥٠﴾
اور بادشاہ نے کہا یوسف کو میرے پاس لاؤ، (١) جب قاصد یوسف کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا، اپنے بادشاہ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے (٢) تھے؟ ان کے حیلے کو (صحیح طور پر) جاننے والا میرا پروردگار ہی ہے۔
٥٠۔١ مطلب یہ ہے کہ جب وہ شخص تعبیر دریافت کر کے بادشاہ کے پاس گیا اور اسے تعبیر بتائی تو وہ اس تعبیر سے اور حضرت یوسف عليہ السلام کی بتلائی ہوئی تدبیر سے بڑا متاثر ہوا اور اس نے اندازہ لگا لیا کہ یہ شخص، جسے ایک عرصے سے حوالہ زنداں کیا ہوا ہے، غیر معمولی علم و فضل اور اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے انہیں دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
٥٠۔٢ حضرت یوسف عليہ السلام نے جب دیکھا کہ بادشاہ اب مائل بہ کرم ہے، تو انہوں نے اس طرح محض عنایت خسروانہ سے جیل سے نکلنے کو پسند نہیں فرمایا، بلکہ اپنے کردار کی رفعت اور پاک دامنی کے اثبات کو ترجیح دی تاکہ دنیا کے سامنے آپ کا کردار اور اس کی بلندی واضح ہو جائے۔ کیونکہ داعی الی اللہ کے لیے یہ عفت و پاک بازی اور رفعت کردار بہت ضروری ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَ‌اوَدتُّنَّ يُوسُفَ عَن نَّفْسِهِ ۚ قُلْنَ حَاشَ لِلَّـهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِن سُوءٍ ۚ قَالَتِ امْرَ‌أَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَ‌اوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ ﴿٥١﴾
بادشاہ نے پوچھا اے عورتو! اس وقت کا صحیح واقعہ کیا ہے جب تم داؤ فریب کرکے یوسف کو اس کی دلی منشا سے بہکانا چاہتی تھیں، انہوں نے صاف جواب دیا کہ معاذ اللہ ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں (١) پائی، پھر تو عزیز کی بیوی بھی بول اٹھی کہ اب تو سچی بات نتھر آئی۔ میں نے ہی اسے ورغلایا تھا، اس کے جی سے، اور یقیناً وہ سچوں میں سے ہے۔ (٢)
٥١۔١ بادشاہ کے استفسار پر تمام عورتوں نے یوسف علیہ السلام کی پاک دامنی کا اعتراف کیا۔
٥١۔٢ اب امرأة العزیز (زلیخا) کے لیے بھی یہ اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں رہا کہ یوسف عليہ السلام بے قصور ہے اور یہ پیش دستی میری ہی طرف سے ہوئی تھی، اس فرشتہ صفت انسان کا اس لغزش سے کوئی تعلق نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ذَٰلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ ﴿٥٢﴾
(یوسف علیہ السلام نے کہا) یہ اس واسطے کہ (عزیز) جان لے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہیں کی (١) اور یہ بھی کہ اللہ دغا بازوں کے ہتھکنڈے چلنے نہیں دیتا (٢)۔
٥٢۔١ جب جیل میں حضرت یوسف عليہ السلام کو ساری تفصیل بتلائی گئی تو اسے سن کر یوسف عليہ السلام نے کہا اور بعض کہتے ہیں کہ بادشاہ کے پاس جا کر انہوں نے یہ کہا اور بعض مفسرین کے نزدیک زلیخا کا قول ہے اور مطلب یہ ہے کہ یوسف عليہ السلام کی غیر موجودگی میں بھی اسے غلط طور پر متہم کر کے خیانت کا ارتکاب نہیں کرتی بلکہ امانت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہوں۔ یا یہ مطلب ہے کہ میں نے اپنے خاوند کی خیانت نہیں کی اور کسی بڑے گناہ میں واقع نہیں ہوئی۔ امام ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔
٥٢۔٢ کہ وہ اپنے مکر و فریب میں ہمیشہ کامیاب ہی رہیں، بلکہ ان کا اثر محدود اور عارضی ہوتا ہے۔ بالآخر جیت حق اور اہل حق ہی کی ہوتی ہے، گو عارضی طور پر اہل حق کو آزمائشوں سے گزرنا پڑے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
پارہ 13
وَمَا أُبَرِّ‌ئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ‌ةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَ‌حِمَ رَ‌بِّي ۚ إِنَّ رَ‌بِّي غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٥٣﴾
میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا۔ (١) بیشک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے، (٢) مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی اپنا رحم کرے، (٣) یقیناً میرا رب پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے۔
٥٣۔١ اسے اگر حضرت یوسف عليہ السلام کا قول تسلیم کیا جائے تو بطور کسر نفسی کے ہے، ورنہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی پاک دامنی ہر طرح سے ثابت ہو چکی تھی۔ اور اگر یہ عزیزہ مصر کا قول ہے (جیسا کہ امام ابن کثیر کا خیال ہے) تو یہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اپنے گناہ کا اور یوسف عليہ السلام کو بہلانے اور پھسلانے کا اعتراف کر لیا۔
٥٣۔٢ یہ اس نے اپنی غلطی کی توجیہ یا اس کی علت بیان کی کہ انسان کا نفس ہی ایسا ہے کہ برائی پر ابھارتا ہے اور اس پر آمادہ کرتا ہے۔
٥٣۔٣ یعنی نفس کی شرارتوں سے وہی بچتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، جیسا کہ حضرت یوسف عليہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي ۖ فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ ﴿٥٤﴾
بادشاہ نے کہا کہ اسے میرے پاس لاؤ کہ میں اسے اپنے خاص کاموں کے لیے مقرر کر لوں، (١) پھر جب اس سے بات چیت کی تو کہنے لگا کہ آپ ہمارے ہاں آج ذی عزت اور امانت دار ہیں۔ (٢)
٥٤۔١ جب بادشاہ (ریان بن ولید) پر یوسف عليہ السلام کے علم و فضل کے ساتھ ان کے کردار کی رفعت اور پاک دامنی بھی واضح ہو گئی، تو اسے حکم دیا کہ انہیں میرے سامنے پیش کرو، میں انہیں اپنے لیے منتخب کرنا یعنی اپنا مصاحب اور مشیر خاص بنانا چاہتا ہوں۔
٥٤۔٢ مَکِیْنُ مرتبہ والا، آمِین رموز مملکت کا راز دان۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْ‌ضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ ﴿٥٥﴾
(یوسف نے) کہا آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے، (١) میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں۔ (٢)
٥٥۔١ خزائن خزانۃ کی جمع ہے خزانہ ایسی جگہ کو کہتے ہیں جس میں چیزیں محفوظ کی جاتی ہیں زمین کے خزانوں سے مراد وہ گودام ہیں جہاں غلہ جمع کیا جاتا ہے۔ اس کا انتظام ہاتھ میں لینے کی خواہش اس لیے ظاہر کی کہ مستقبل قریب میں (خواب کی تعبیر کی رو سے) جو قحط سالی کے ایام آنے والے ہیں، اس سے نمٹنے کے لیے مناسب انتطامات کیے جا سکیں اور غلے کی معقول مقدار بچا کر رکھی جا سکے، عام حالات میں اگرچہ عہدہ و منصب کی طلب جائز نہیں ہے، لیکن حضرت یوسف عليہ السلام کے اس اقدام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاص حالات میں اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ قوم اور ملک کو جو خطرات درپیش ہیں اور ان سے نمٹنے کی اچھی صلاحیت میرے اندر موجود ہیں جو دوسروں میں نہیں ہیں، تو وہ اپنی اہلیت کے مطابق اس مخصوص عہدے اور منصب کی طلب کر سکتا ہے علاوہ ازیں حضرت یوسف عليہ السلام نے تو سرے سے عہدہ و منصب طلب ہی نہیں کیا، البتہ جب بادشاہ مصر نے انہیں پیشکش کی تو پھر ایسے عہدے کی خواہش کی جس میں انہوں نے ملک اور قوم کی خدمت کا پہلو نمایاں دیکھا۔
٥٥۔٢ حَفِیْظ میں اس کی اس طرح حفاظت کروں گا کہ اسے کسی بھی غیر ضروری مصرف میں خرچ نہیں کروں گا عَلِیْم اس کو جمع کرنے اور خرچ کرنے اور اس کے رکھنے اور نکالنے کا بخوبی علم رکھتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْ‌ضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ۚ نُصِيبُ بِرَ‌حْمَتِنَا مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ‌ الْمُحْسِنِينَ ﴿٥٦﴾
اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک کا قبضہ دے دیا کہ وہ جہاں کہیں چاہے رہے سہے، (١) ہم جسے چاہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں۔ ہم نیکو کاروں کا ثواب ضائع نہیں کرتے۔ (٢)
٥٦۔١ یعنی ہم نے یوسف عليہ السلام کو زمین میں ایسی قدرت و طاقت عطا کی کہ بادشاہ وہی کچھ کرتا جس کا حکم حضرت یوسف عليہ السلام کرتے، اور سرزمین مصر میں اس طرح تصرف کرتے جس طرح انسان اپنے گھر میں کرتا ہے اور جہاں چاہتے، وہ رہتے، پورا مصر ان کے زیرنگین تھا۔
٥٦۔٢ یہ گویا اجر تھا ان کے صبر کا جو بھائیوں کے ظلم و ستم پر انہوں نے کیا اور ثابت قدمی کا جو زلیخا کی دعوت گناہ کے مقابلے میں اختیار کی اور اس کی اولو العزمی کا جو قید خانے کی زندگی میں اپنا رکھی۔ حضرت یوسف عليہ السلام کا یہ منصب وہ ہی تھا جس پر اس سے پہلے وہ عزیز مصر فائز تھا جس کی بیوی نے کو ورغلانے کی مذموم سعی کی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بادشاہ حضرت یوسف عليہ السلام کی دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہو گیا تھا بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ عزیز مصر، جس کا نام اطفیر تھا، فوت ہو گیا تو اس کے بعد زلیخا کا نکاح حضرت یوسف عليہ السلام سے ہ وگیا اور دو بچے بھی ہوئے، ایک نام افرائیم اور دوسرے کا نام میشا تھا، افرئیم ہی یوشع بن نون اور حضرت ایوب عليہ السلام کی بیوی رحمت کے والد تھے (تفسیر ابن کثیر) لیکن یہ بات کسی مستند روایت سے ثابت نہیں اس لیے نکاح والی بات صحیح معلوم نہیں ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اس عورت سے جس کردار کا مظاہرہ ہوا، اس کے ہوتے ہوئے ایک نبی کے حرم سے اس کی وابستگی، نہایت نامناسب بات لگتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَأَجْرُ‌ الْآخِرَ‌ةِ خَيْرٌ‌ لِّلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴿٥٧﴾
یقیناً ایمان داروں اور پرہیزگاروں کا اخروی اجر بہت ہی بہتر ہے۔

وَجَاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَ‌فَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنكِرُ‌ونَ ﴿٥٨﴾
یوسف کے بھائی آئے اور یوسف کے پاس گئے تو اس نے انہیں پہچان لیا اور انہوں نے اسے نہ پہچانا۔ (١)
٥٨۔١ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب خوش حالی کے سات سال گزرنے کے بعد قحط سالی شروع ہو گئی جس نے ملک مصر کے تمام علاقوں اور شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، حتیٰ کہ کنعان تک بھی اس کے اثرات جا پہنچے جہاں حضرت یعقوب عليہ السلام اور حضرت یوسف عليہ السلام کے بھائی رہائش پذیر تھے۔ حضرت یوسف عليہ السلام نے اپنے حسن تدبیر سے اس قحط سالی سے نمٹنے کے لیے جو انتظامات کئے تھے وہ کام آئے اور ہر طرف سے لوگ حضرت یوسف عليہ السلام کے پاس غلہ لینے کے لیے آ رہے تھے حضرت یوسف عليہ السلام کی یہ شہرت کنعان تک بھی جا پہنچی کہ مصر کا بادشاہ اس طرح غلہ فروخت کر رہا ہے۔ چنانچہ باپ کے حکم پر یہ بردران یوسف عليہ السلام بھی گھر کی پونجی لے کر غلے کے حصول کے لیے دربار شاہی میں پہنچ گئے جہاں حضرت یوسف عليہ السلام تشریف فرما تھے، جنہیں یہ بھائی تو نہ پہچان سکے لیکن یوسف عليہ السلام نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِي بِأَخٍ لَّكُم مِّنْ أَبِيكُمْ ۚ أَلَا تَرَ‌وْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَا خَيْرُ‌ الْمُنزِلِينَ ﴿٥٩﴾
جب انہیں ان کا اسباب مہیا کر دیا تو کہا کہ تم میرے پاس اپنے اس بھائی کو بھی لانا جو تمہارے باپ سے ہے، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں پورا ناپ کر دیتا ہوں اور میں ہوں بھی بہترین میزبانی کرنے والوں میں۔ (١)
٥٩۔١ حضرت یوسف عليہ السلام نے انجان بن کر جب اپنے بھائیوں سے باتیں پوچھیں تو انہوں نے جہاں اور سب کچھ بتایا، یہ بھی بتا دیا کہ ہم دس بھائی اس وقت یہاں موجود ہیں۔ لیکن ہمارے دو بھائی (یعنی دوسری ماں سے) اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک تو جنگل میں ہلاک ہو گیا اور اس کے دوسرے بھائی کو والد نے اپنی تسلی کے لیے اپنے پاس رکھا ہے، اسے ہمارے ساتھ نہیں بھیجا۔ جس پر حضرت یوسف عليہ السلام نے کہا کہ آئندہ اسے بھی ساتھ لے کر آنا، دیکھتے نہیں کہ میں ناپ بھی پورا دیتا ہوں اور مہمان نوازی اور خاطر مدارت بھی خوب کرتا ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَإِن لَّمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِندِي وَلَا تَقْرَ‌بُونِ ﴿٦٠﴾
پس اگر تم اسے لے کر نہ آئے تو میری طرف سے تمہیں کوئی ناپ بھی نہ ملے گا بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ (١)
٦٠۔١ ترغیب کے ساتھ یہ دھمکی ہے کہ اگر گیارہویں بھائی کو ساتھ نہ لائے تو نہ تمہیں غلہ ملے گا نہ میری طرف سے اس خاطر مدارت کا اہتمام ہو گا۔
 
Top