• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ﴿٣٠﴾
چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کر لیا۔

إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ﴿٣١﴾
مگر ابلیس کے۔ کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شمولیت کرنے سے (صاف) انکار کر دیا۔

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ﴿٣٢﴾
(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟

قَالَ لَمْ أَكُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ‌ خَلَقْتَهُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ﴿٣٣﴾
وہ بولا کہ میں ایسا نہیں کہ اس انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (١)
٣٣۔١ شیطان نے انکار کی وجہ حضرت آدم عليہ السلام کا خاکی اور بشر ہونا بتلایا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اور بشر کو اس کی بشریت کی بنا پر حقیر اور کم تر سمجھنا یہ شیطان کا فلسفہ ہے، جو اہل حق انبیاء علیہم السلام کی بشریت کے منکر نہیں، اس لیے کہ ان کی بشریت کو خود قرآن کریم نے وضاحت سے بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں بشریت ان کی عظمت اور شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ فَاخْرُ‌جْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَ‌جِيمٌ ﴿٣٤﴾
فرمایا اب تو بہشت سے نکل جا کیوں کہ تو راندہ درگاہ ہے۔

وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٣٥﴾
اور تجھ پر میری پھٹکار ہے قیامت کے دن تک۔

قَالَ رَ‌بِّ فَأَنظِرْ‌نِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿٣٦﴾
کہنے لگا کہ اے میرے رب! مجھے اس دن تک کی ڈھیل دے کہ لوگ دوبارہ اٹھا کھڑے کیے جائیں۔

قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِ‌ينَ ﴿٣٧﴾
فرمایا کہ اچھا تو ان میں سے ہے جنہیں مہلت ملی ہے۔

إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ﴿٣٨﴾
روز مقرر کے وقت تک۔

قَالَ رَ‌بِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٣٩﴾
(شیطان نے) کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لیے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی۔

إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٤٠﴾
سوائے تیرے ان بندوں کے جو منتخب کر لیے گئے ہیں۔

قَالَ هَـٰذَا صِرَ‌اطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ ﴿٤١﴾
ارشاد ہوا کہ ہاں یہی مجھ تک پہنچنے کی سیدھی راہ ہے۔ (١)
٤١۔١ یعنی تم سب کو بالآخر میرے پاس ہی لوٹ آنا ہے، جنہوں نے میرا اور میرے رسولوں کا اتباع کیا ہو گا، میں انہیں اچھی جزا دوں گا اور جو شیطان کے پیچھے لگ کر گمراہی کے راستے پر چلتا رہا ہو گا اسے سخت سزا دوں گا جو جہنم کی صورت میں تیار ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴿٤٢﴾
میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں، (١) لیکن ہاں جو گمراہ لوگ تیری پیروی کریں۔
٤٢۔١ یعنی میرے نیک بندوں پر تیرا داؤ نہیں چلے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے کوئی گناہ ہی سرزد نہیں ہو گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا گناہ نہیں ہو گا کہ جس کے بعد نادم اور تائب نہ ہو کیونکہ وہی گناہ انسان کی ہلاکت کا باعث ہے کہ جس کے بعد انسان کے اندر ندامت کا احساس اور توبہ و انابت الی اللہ کا داعیہ پیدا نہ ہو۔ ایسے گناہ کے بعد ہی انسان گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اور بالآخر دائمی تباہی و ہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اور اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ گناہ پر اصرار نہیں کرتے بلکہ فوراً توبہ کر کے آئندہ کے لیے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٤٣﴾
یقیناً ان سب کے وعدے کی جگہ جہنم ہے۔ (١)
٤٣۔١ یعنی جتنے بھی تیرے پیروکار ہوں گے، سب جہنم کا ایندھن بنیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِّكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ ﴿٤٤﴾
جس کے سات دروازے ہیں۔ ہر دروازے کے لیے ان کا ایک حصہ بٹا ہوا ہے۔ (١)
٤٤۔١ یعنی ہر دروازہ مخصوص قسم کے لوگوں کے لیے خاص ہو گا۔ مثلاً ایک دروازہ مشرکوں کے لیے، ایک دروازہ دھریوں کے لیے۔ ایک زندیقوں، ایک زانیوں کے لیے۔ سود خوروں، چوروں اور ڈاکوؤں کے لیے وغیرہ وغیرہ۔ یا سات دروازوں سے مراد سات طبق اور درجے ہیں۔ پہلا طبق یا درجہ جہنم ہے، دوسرا نطی۔ پھر حطمہ، پھر سعیر۔ پھر سقر، پھر حجیم، پھر ھاویہ، سب سے اوپر والا درجہ موحدین کے لیے ہو گا، جنہیں کچھ عرصہ سزا دینے کے بعد یا سفارش پر نکال لیا جائے گا، دوسرے میں یہودی، تیسرے میں عیسائی، چوتھے میں صابی، پانچویں میں مجوسی، چھٹے میں مشرکین اور ساتویں میں منافقین ہوں گے، سب سے اوپر والے درجے کا نام جہنم ہے اس کے بعد اس ترتیب سے نام ہیں۔ (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿٤٥﴾
پرہیزگار جنتی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ (١)
٤٥۔١ جہنم اور اہل جہنم کے بعد جنت اور اہل جنت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ جنت میں جانے کی ترغیب ہو۔ متقین سے مراد شرک سے بچنے والے موحدین ہیں اور بعض کے نزدیک وہ اہل ایمان جو معاصی سے بچتے رہے۔ جَنَّاتٍ سے مراد باغات اور عُیُونِ سے نہریں مراد ہیں۔ یہ باغات اور نہریں یا تو متقین کے لیے مشترکہ ہونگی، یا ہر ایک کے لیے الگ الگ باغات اور نہریں یا ایک ایک باغ اور نہر ہو گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ ﴿٤٦﴾
(ان سے کہا جائے گا) سلامتی اور امن کے ساتھ اس میں داخل ہو جاؤ۔
٤٦۔١ سلامتی ہر قسم کی آفات سے اور امن ہر قسم کے خوف سے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو یا فرشتے اہل جنت کو سلامتی کی دعا دیں گے۔ یا اللہ کی طرف سے ان کی سلامتی اور امن کا اعلان ہو گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِ‌هِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُ‌رٍ‌ مُّتَقَابِلِينَ ﴿٤٧﴾
ان کے دلوں میں جو کچھ رنجش و کینہ تھا، ہم سب کچھ نکال دیں گے، (١) وہ بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔
٤٧۔١ دنیا میں ان کے درمیان جو آپس میں حسد اور بغض و عداوت کے جذبات رہے ہوں گے، وہ ان کے سینوں سے نکال دیئے جائیں گے اور ایک دوسرے کے بارے میں ان کے آئینے کی طرح صاف اور شفاف ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَ‌جِينَ ﴿٤٨﴾
نہ تو وہاں انہیں کوئی تکلیف چھو سکتی ہے اور نہ وہ وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے۔

نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ‌ الرَّ‌حِيمُ ﴿٤٩﴾
میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا ہی مہربان ہوں۔

وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ ﴿٥٠﴾
اور ساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت دردناک ہیں۔

وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَيْفِ إِبْرَ‌اهِيمَ ﴿٥١﴾
انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا (بھی) حال سنا دو۔

إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ إِنَّا مِنكُمْ وَجِلُونَ ﴿٥٢﴾
کہ جب انہوں نے ان کے پاس آ کر سلام کہا تو انہوں نے کہا کہ ہم کو تو تم سے ڈر لگتا ہے۔ (١)
٥٢۔١ حضرت ابراہیم عليہ السلام کو ان فرشتوں سے ڈر اس لیے محسوس ہوا کہ انہوں نے حضرت ابراہیم عليہ السلام کا تیار کردہ بھنا ہوا بچھڑا نہیں کھایا، جیسا کہ سورہ ھود میں تفصیل گزری۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر کو بھی غیب کا علم نہیں ہوتا، اگر پیغمبر عالم الغیب ہوتے تو حضرت ابراہیم عليہ السلام سمجھ جاتے کہ آنے والے مہمان فرشتے ہیں اور ان کے لیے کھانا تیار کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ فرشتے انسانوں کی طرح کھانے پینے کے محتاج نہیں ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالُوا لَا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُ‌كَ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ ﴿٥٣﴾
انہوں نے کہا ڈرو نہیں، ہم تجھے ایک صاحب علم فرزند کی بشارت دیتے ہیں۔

قَالَ أَبَشَّرْ‌تُمُونِي عَلَىٰ أَن مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ‌ فَبِمَ تُبَشِّرُ‌ونَ ﴿٥٤﴾
کہا، کیا اس بڑھاپے کے آ جانے کے بعد تم مجھے خوشخبری دیتے ہو! یہ خوشخبری تم کیسے دے رہے ہو؟

قَالُوا بَشَّرْ‌نَاكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُن مِّنَ الْقَانِطِينَ ﴿٥٥﴾
انہوں نے کہا ہم آپ کو بالکل سچی خوشخبری سناتے ہیں آپ مایوس لوگوں میں شامل نہ ہوں۔ (١)
٥٥۔١ کیوں کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو خلاف نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں وہ ہر بات پر قادر ہے، کوئی بات اس کے لیے ناممکن نہیں۔
 
Top