• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ ﴿٣٠﴾
چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کر لیا۔
إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ﴿٣١﴾
مگر ابلیس کے، کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شمولیت کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ ﴿٣٢﴾
(اللہ تعالٰی نے) فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟
قَالَ لَمْ أَكُن لِّأَسْجُدَ لِبَشَرٍ‌ خَلَقْتَهُ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ ﴿٣٣﴾
وہ بولا کہ میں ایسا نہیں کہ اس انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے (١)۔
٣٣۔١ شیطان نے انکار کی وجہ حضرت آدم علیہ السلام کا خاکی اور بشر ہونا بتلایا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اور بشر کو اس کی بشریت کی بنا پر حقیر اور کم تر سمجھنا یہ شیطان کا فلسفہ ہے، جو اہل حق انبیاء علیہم السلام کی بشریت کے منکر نہیں، اس لئے کہ ان کی بشریت کو خود قرآن کریم نے وضاحت سے بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں بشریت ان کی عظمت اور شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالَ فَاخْرُ‌جْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَ‌جِيمٌ ﴿٣٤﴾
فرمایا اب تو بہشت سے نکل جا کیونکہ تو راندہ درگاہ ہے۔
وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٣٥﴾
تجھ پر میری پھٹکار ہے قیامت کے دن تک۔
قَالَ رَ‌بِّ فَأَنظِرْ‌نِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴿٣٦﴾
کہنے لگا میرے رب! مجھے اس دن تک کی ڈھیل دے کہ لوگ دوبارہ اٹھ کھڑے کیئے جائیں۔
قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِ‌ينَ ﴿٣٧﴾
فرمایا کہ اچھا تو ان میں سے ہے جنہیں مہلت ملی ہے۔
إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ ﴿٣٨﴾
روز مقرر کے وقت تک۔
قَالَ رَ‌بِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٣٩﴾
(شیطان نے) کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لئے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی۔
إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٤٠﴾
سوائے تیرے ان بندوں کے جو منتخب کرلئے گئے ہیں۔
قَالَ هَـٰذَا صِرَ‌اطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ ﴿٤١﴾
ارشاد ہوا کہ ہاں یہی مجھ تک پہنچنے کی سیدھی راہ ہے (١)
٤١۔١ یعنی تم سب کو بالآخر میرے پاس ہی لوٹ آنا ہے، جنہوں نے میرا اور میرے رسولوں کا اتباع کیا ہوگا، میں انہیں اچھی جزا دوں گا اور جو شیطان کے پیچھے لگ کر گمراہی کے راستے پر چلتا رہا ہوگا اسے سخت سزا دوں گا جو جہنم کی صورت میں تیار ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ ﴿٤٢﴾
میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں (١) لیکن ہاں جو گمراہ لوگ تیری پیروی کریں۔
٤٢۔١ یعنی میرے نیک بندوں پر تیرا داؤ نہیں چلے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے کوئی گناہ ہی سرزد نہیں ہوگا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا گناہ نہیں ہوگا کہ جس کے بعد نادم اور تائب نہ ہو کیونکہ وہی گناہ انسان کی ہلاکت کا باعث ہے کہ جس کے بعد انسان کے اندر ندامت کا احساس اور توبہ و انابت الی اللہ کا داعیہ پیدا نہ ہو۔ ایسے گناہ کے بعد ہی انسان گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اور بالآخر دائمی تباہی و ہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اور اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ گناہ پر اصرار نہیں کرتے بلکہ فوراً توبہ کر کے آئندہ کے لئے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٤٣﴾
یقیناً سب کے وعدے کی جگہ جہنم ہے (١)
٤٣۔١ یعنی جتنے بھی تیرے پیروکار ہوں گے، سب جہنم کا ایندھن بنیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِّكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُومٌ ﴿٤٤﴾
جس کے سات دروازے ہیں۔ ہر دروازے کے لئے ان کا ایک حصہ بنا ہوا ہے (١)
٤٤۔١ یعنی ہر دروازہ مخصوص قسم کے لوگوں کے لئے خاص ہوگا۔ مثلاً ایک دروازہ مشرکوں کے لئے، ایک دروازہ دھریوں کے لئے۔ ایک زندیقوں، ایک زانیوں کے لئے۔ سود خوروں، چوروں اور ڈاکوؤں کے لئے وغیرہ وغیرہ۔ یا سات دروازوں سے مراد سات طبق اور درجے ہیں۔ پہلا طبق یا درجہ جہنم ہے، دوسرا نطی۔ پھر حطمہ، پھر سعیر۔ پھر سقر، پھر حجیم، پھر ہاویہ، سب سے اوپر والا درجہ موحدین کے لئے ہوگا، جنہیں کچھ عرصہ سزا دینے کے بعد یا سفارش پر نکال لیا جائے گا، دوسرے میں یہودی، تیسرے میں عیسائی،چوتھے میں صابی، پانچویں میں مجوسی۔ چھٹے میں مشرکین اور ساتویں میں منافقین ہونگے، سب سے اوپر والے درجے کا نام جہنم ہے اس کے بعد اس ترتیب سے نام ہیں۔ (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿٤٥﴾
پرہیزگار جنتی لوگ باغوں اور چشموں میں ہونگے (١)
٤٥۔١ جہنم اور اہل جہنم کے بعد جنت اور اہل جنت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ جنت میں جانے کی ترغیب ہو۔ متقین سے مراد شرک سے بچنے والے موحدین ہیں اور بعض کے نزدیک وہ اہل ایمان جو معاصی سے بچتے رہے۔ جَنَّاتٍ سے مراد باغات اور عُیُونِ سے نہریں مراد ہیں۔ یہ باغات اور نہریں یا تو متقین کے لئے مشترکہ ہونگی، یا ہر ایک کے لئے الگ الگ باغات اور نہریں یا ایک ایک باغ اور نہر ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ ﴿٤٦﴾
(ان سے کہا جائیگا) سلامتی اور امن کے ساتھ اس میں داخل ہوجاؤ۔
٤٦۔ ١ سلامتی ہر قسم کی آفات سے اور امن ہر قسم کے خوف سے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو یا فرشتے اہل جنت کو سلامتی کی دعا دیں گے۔ یا اللہ کی طرف سے ان کی سلامتی اور امن کا اعلان ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِ‌هِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُ‌رٍ‌ مُّتَقَابِلِينَ ﴿٤٧﴾
ان کے دلوں میں جو کچھ رنجش و کینہ تھا، ہم سب کچھ نکال دیں گے (١) وہ بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہونگے۔
٤٧۔١ دنیا میں ان کے درمیان جو آپس میں حسد اور بغض و عداوت کے جذبات رہے ہوں گے، وہ ان کے سینوں سے نکال دیئے جائیں گے اور ایک دوسرے کے بارے میں ان کے آئینے کی طرح صاف اور شفاف ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَ‌جِينَ ﴿٤٨﴾
نہ تو وہاں انہیں کوئی تکلیف چھو سکتی ہے اور نہ وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے۔
نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ‌ الرَّ‌حِيمُ ﴿٤٩﴾
میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہوں۔
وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ ﴿٥٠﴾
ساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت دردناک ہیں۔
وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَيْفِ إِبْرَ‌اهِيمَ ﴿٥١﴾
انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا (بھی) حال سنادو۔
إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ إِنَّا مِنكُمْ وَجِلُونَ ﴿٥٢﴾
کہ جب انہوں نے ان کے پاس آکر سلام کہا تو انہوں نے کہا کہ ہم کو تو ڈر لگتا ہے (١)
٥٢۔١ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان فرشتوں سے ڈر اس لئے محسوس ہوا کہ انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تیار کردہ بھنا ہوا بچھڑا نہیں کھایا، جیسا کہ سورہ ہود میں تفصیل گزری۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی کے جلیل القدر پیغمبر کو بھی غیب کا علم نہیں ہوتا، اگر پیغمبر عالم الغیب ہوتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ جاتے کہ آنے والے مہمان فرشتے ہیں اور ان کے لئے کھانا تیار کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ فرشتے انسانوں کی طرح کھانے پینے کے محتاج نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
قَالُوا لَا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُ‌كَ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ ﴿٥٣﴾
انہوں نے کہا ڈرو نہیں، ہم تجھے ایک صاحب علم فرزند کی بشارت دیتے ہیں۔
قَالَ أَبَشَّرْ‌تُمُونِي عَلَىٰ أَن مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ‌ فَبِمَ تُبَشِّرُ‌ونَ ﴿٥٤﴾
کہا، کیا اس بڑھاپے کے آجانے کے بعد تم مجھے خوشخبری دیتے ہو! یہ خوشخبری تم کیسے دے رہے ہو؟
قَالُوا بَشَّرْ‌نَاكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُن مِّنَ الْقَانِطِينَ ﴿٥٥﴾
انہوں نے کہا ہم آپ کو بالکل سچی خوشخبری سناتے ہیں آپ مایوس لوگوں میں شامل نہ ہوں (١)۔
٥٥۔١ کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو خلاف نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں وہ ہر بات پر قادر ہے، کوئی بات اس کے لئے ناممکن نہیں۔
 
Top