• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَكَانُوا يَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا آمِنِينَ ﴿٨٢﴾
یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے تھے، بے خوف ہو کر۔ (١)
٨٢۔١ یعنی بغیر کسی خوف کے پہاڑ تراش لیا کرتے تھے۔ نو ہجری میں تبوک جاتے ہوئے جب رسول اللہ ﷺ اس بستی سے گزرے تو آپ ﷺ نے سر پر کپڑا لپیٹ لیا اور اپنی سواری کو تیز کر لیا اور صحابہ سے فرمایا کہ روتے ہوئے اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس بستی سے گزرو (ابن کثیر) صحیح بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے۔ نمبر 433، مسلم نمبر 2285۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُصْبِحِينَ ﴿٨٣﴾
آخر انہیں بھی صبح ہوتے ہوتے چنگھاڑ نے آ دبوچا۔ (١)
٨٣۔١ حضرت صالح عليہ السلام نے انہیں کہا کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آ جائے گا، چنانچہ چوتھے روز ان پر یہ عذاب آ گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٨٤﴾
پس ان کی کسی تدبیر و عمل نے انہیں کوئی فائدہ نہ دیا۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ ۖ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ ﴿٨٥﴾
ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے، (١) اور قیامت ضرور ضرور آنے والی ہے۔ پس تو حسن و خوبی (اور اچھائی) سے درگزر کر لے۔
٨٥۔١ حق سے مراد وہ فوائد و مصالح ہیں جو آسمان و زمین کی پیدائش سے مقصود ہیں۔ یا حق سے مراد محسن (نیکوکار) کو اس کی نیکی کا اور بدکار کو اس کی برائی کا بدلہ دینا ہے۔ جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا ”اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے تاکہ بروں کو ان کی برائیوں کا اور نیکوں کو ان کی نیکی کا بدلہ دے“۔ (النجم: 31)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّ رَ‌بَّكَ هُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ ﴿٨٦﴾
یقیناً تیرا پروردگار ہی پیدا کرنے والا اور جاننے والا ہے۔

وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْ‌آنَ الْعَظِيمَ ﴿٨٧﴾
یقیناً ہم نے سات آیتیں دے رکھی ہیں (١) کہ وہ دہرائی جاتی ہیں اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے۔
٨٧۔١ سَبْعُ مَثَانِي سے مراد کیا ہے اس میں مفسرین کا اختلاف ہے صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ یہ سات آیتیں ہیں اور جو ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں (مثانی کے معنی بار بار دہرانے کے کیے گئے ہیں) حدیث میں بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ یہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا ہوں (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ الحجر) ایک اور حدیث میں فرمایا [أُمُّ الْقُرْآنِ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ] سورہ فاتحہ قرآن کا ایک جزء ہے اس لیے قرآن عظیم کا ذکر بھی ساتھ ہی کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ ﴿٨٨﴾
آپ ہرگز اپنی نظریں اس چیز کی طرف نہ دوڑائیں، جس سے ہم نے ان میں سے کئی قسم کے لوگوں کو بہرہ مند کر رکھا ہے، نہ ان پر آپ افسوس کریں اور مومنوں کے لیے اپنے بازو جھکائے رہیں۔ (١)
٨٨۔١ یعنی ہم نے سورت فاتحہ اور قرآن عظیم جیسی نعمتیں آپ کو عطا کی ہیں، اس لیے دنیا اور اس کی زینتیں اور ان مختلف قسم کے اہل دنیا کی طرف نہ نظر دوڑائیں جن کو دنیا فانی کی عارضی چیزیں ہم نے دی ہیں اور وہ جو آپ کی تکذیب کرتے ہیں، اس پر غم نہ کھائیں اور مومنوں کے لیے اپنے بازو جھکائے رہیں، یعنی ان کے لیے نرمی اور محبت کا رویہ اپنائیں۔ اس محاورہ کی اصل یہ ہے کہ جب پرندہ اپنے بچوں کو اپنے سایہ شفقت میں لیتا ہے تو ان کو اپنے بازوؤں یعنی پروں میں لے لیتا ہے۔ یوں یہ ترکیب نرمی، پیار و محبت کا رویہ اپنانے کے مفہوم میں استعمال ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَقُلْ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ‌ الْمُبِينُ ﴿٨٩﴾
اور کہہ دیجئے کہ میں تو کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔

كَمَا أَنزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ ﴿٩٠﴾
جیسے کہ ہم نے ان تقسیم کرنے والوں پر اتارا۔ (١)
٩٠۔١ بعض مفسرین کے نزدیک أَنْزَلْنَا کا مفعول الْعَذَابَ محذوف ہے۔ معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں کھل کر ڈرانے والا ہوں عذاب سے، مثل اس عذاب کے، جو مُقْتَسِمِينَ پر نازل ہوا، مُقْتَسِمِينَ کون ہیں؟ جنہوں نے کتاب الٰہی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے قریش کی قوم مراد ہے، جنہوں نے اللہ کی کتاب کو تقسیم کر دیا، اس کے بعض حصے کو شعر، بعض کو سحر (جادو) بعض کو کہانت اور بعض کو اساطیرالأولین (پہلوں کی کہانیاں) قرار دیا، بعض کہتے ہیں کہ مُقْتَسِمِينَ سے اہل کتاب اور قرآن سے مراد تورات و انجیل ہیں۔ انہوں نے ان آسمانی کتابوں کو متفرق اجزاء میں بانٹ دیا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حضرت صالح عليہ السلام کی قوم ہے جنہوں نے آپس میں قسم کھائی تھی کہ صالح عليہ السلام اور ان کے گھر والوں کو رات کے اندھیرے میں قتل کر دیں گے ﴿تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ وَاَهْلَهٗ﴾ (النمل: 49) اور آسمانی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ ”عِضِينَ“ کے ایک معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ اس کی بعض باتوں پر ایمان رکھنا اور بعض کے ساتھ کفر کرنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْ‌آنَ عِضِينَ ﴿٩١﴾
جنہوں نے اس کتاب الٰہی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔

فَوَرَ‌بِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٩٢﴾
قسم ہے تیرے پالنے والے کی! ہم ان سب سے ضرور باز پرس کریں گے۔

عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٩٣﴾
ہر چیز کی جو وہ کرتے تھے۔

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ‌ وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْمُشْرِ‌كِينَ ﴿٩٤﴾
پس آپ (١) اس حکم کو جو آپ کو کیا جا رہا ہے کھول کر سنا دیجئے! اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے۔
٩٤۔١ اصْدَعْ کے معنی ہیں کھول کر بیان کرنا، اس آیت کے نزول سے قبل آپ ﷺ چھپ کر تبلیغ فرماتے تھے، اس کے بعد آپ نے کھلم کھلا تبلیغ شروع کر دی۔ (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ﴿٩٥﴾
آپ سے جو لوگ مسخرا پن کرتے ہیں ان کی سزا کے لیے ہم کافی ہیں۔

الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ‌ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ﴿٩٦﴾
جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبود مقرر کرتے ہیں انہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا۔

وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُ‌كَ بِمَا يَقُولُونَ ﴿٩٧﴾
ہمیں خوب علم ہے کہ ان باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَ‌بِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ ﴿٩٨﴾
آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔

وَاعْبُدْ رَ‌بَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ﴿٩٩﴾
اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آ جائے۔ (١)
٩٩۔١ مشرکین آپ کو ساحر، مجنون، کاہن وغیرہ کہتے جس سے بشری جبلت کی وجہ سے آپ کبیدہ خاطر ہوتے، اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ حمد و ثنا کریں، نماز پڑھیں اور اپنے رب کی عبادت کریں، اس سے آپ کو قلبی سکون بھی ملے گا اور اللہ کی مدد بھی حاصل ہو گی، سجدے سے یہاں نماز اور یقین سے مراد موت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سورة النحل

(سورة النحل مکی ہے اور اس کی ایک سو اٹھائیس آیتیں اور سولہ رکوع ہیں۔)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان بڑا رحم والا ہے۔

أَتَىٰ أَمْرُ‌ اللَّـهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِ‌كُونَ ﴿١﴾
اللہ تعالیٰ کا حکم آ پہنچا، اب اس کی جلدی نہ مچاؤ۔ (١) تمام پاکی اس کے لیے ہے وہ برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں۔
١۔١ اس سے مراد قیامت ہے، یعنی وہ قیامت قریب آ گئی ہے جسے تم دور سمجھتے تھے، پس جلدی نہ مچاؤ، یا وہ عذاب مراد ہے جسے مشرکین طلب کرتے تھے۔ اسے مستقبل کے بجائے ماضی کے صیغے سے بیان کیا، کیونکہ اس کا وقوع یقینی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّ‌وحِ مِنْ أَمْرِ‌هِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُ‌وا أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ ﴿٢﴾
وہی فرشتوں کو اپنی وحی (١) دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے (٢) اتارتا ہے کہ تم لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں، پس تم مجھ سے ڈرو۔
٢۔١ رُوحٌ سے مراد وحی ہے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے۔ ﴿وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلا الإِيمَانُ﴾ (الشوری:52) ”اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے وحی کی، اس سے پہلے آپ کو علم نہیں تھا کہ کتاب کیا ہے، اور ایمان کیا ہے“۔
٢۔٢ مراد انبیاء علیہم السلام ہیں جن پر وحی نازل ہوتی ہے۔ جس طرح اللہ نے فرمایا ﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ﴾ (الأنعام:124) ”اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے“۔ ﴿يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلاقِ﴾ (المؤمن:15) ”وہ اپنے حکم سے اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے وحی ڈالتا یعنی نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات والے (قیامت کے) دن سے لوگوں کو ڈرائے“۔
 
Top