• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُخْزِيهِمْ وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَ‌كَائِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تُشَاقُّونَ فِيهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ إِنَّ الْخِزْيَ الْيَوْمَ وَالسُّوءَ عَلَى الْكَافِرِ‌ينَ ﴿٢٧﴾
پھر قیامت والے دن بھی اللہ تعالٰی انہیں رسوا کرے گا اور فرمائے گا کہ میرے شریک کہاں ہیں جن کے بارے میں تم لڑتے جھگڑتے تھے، (١) جنہیں علم دیا گیا تھا وہ پکار اٹھیں گے (٢) آج تو کافروں کو رسوائی اور برائی چمٹ گئی۔
٢٧۔١ یعنی یہ تو وہ عذاب تھا جو دنیا میں ان پر آئے اور قیامت والے دن اللہ تعالٰی انہیں اس طرح ذلیل و رسوا کرے گا کہ ان سے پوچھے گا تمہارے وہ شریک کہاں ہیں جو تم نے میرے لئے ٹھہرا رکھے تھے، اور جن کی وجہ سے تم مومنوں سے لڑتے جھگڑتے تھے۔
٢٧۔٢ یعنی جن کو دین کا علم نہیں تھا وہ دین کے پابند تھے وہ جواب دیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٢٨﴾
وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، فرشتے جب ان کی جان قبض کرنے لگتے ہیں اس وقت وہ جھک جاتے ہیں کہ ہم برائی نہیں کرتے تھے (١) کیوں نہیں؟ اللہ تعالٰی خوب جاننے والا ہے جو کچھ تم کرتے تھے۔
٢٨۔١ یہ مشرک ظالموں کی موت کے وقت کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو وہ صلح کی بات ڈالتے ہیں یعنی سمع و طاعت اور عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو برائی نہیں کرتے تھے۔ جس طرح میدان محشر میں اللہ کے روبرو بھی جھوٹی قسمیں کھائیں گے اور کہیں گے ' اللہ کی قسم، ہم مشرک نہیں تھے ' دوسرے مقام پر فرمایا ' جس دن اللہ تعالٰی ان سب کو اٹھا کر اپنے پاس جمع کرے گا تو اللہ کے سامنے بھی یہ اسی طرح (جھوٹی) قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں۔
٢٨۔۲فرشتے جواب دیں گے کیوں نہیں؟ یعنی تم جھوٹ بولتے ہو، تمہاری تو ساری عمر ہی برائیوں میں گزری ہے اور اللہ کے پاس تمہارے اعمال کا ریکارڈ محفوظ ہے تمہارے اس انکار سے اب کیا بنے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِ‌ينَ ﴿٢٩﴾
پس اب تو ہمیشگی کے طور پر تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ (١) پس کیا ہی برا ٹھکانا ہے غرور کرنے والوں کا۔
٢٩۔١ امام ابن کثیر فرماتے ہیں، ان کی موت کے فوراً بعد سب کی روحیں جہنم میں چلی جاتی ہیں اور ان کے جسم قبر میں رہتے ہیں (جہاں اللہ تعالٰی اپنی قدرت کاملہ سے جسم و روح میں بعد کے باوجود، ان میں ایک گونہ تعلق پیدا کر کے ان کو عذاب دیتا ہے، (اور صبح شام ان پر آگ پیش کی جاتی ہے) پھر جب قیامت برپا ہوگی تو ان کی روحیں ان کے جسموں میں لوٹ آئیں گی اور ہمیشہ کے لئے یہ جہنم میں داخل کر دیئے جائیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنزَلَ رَ‌بُّكُمْ ۚ قَالُوا خَيْرً‌ا ۗ لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۚ وَلَدَارُ‌ الْآخِرَ‌ةِ خَيْرٌ‌ ۚ وَلَنِعْمَ دَارُ‌ الْمُتَّقِينَ ﴿٣٠﴾
اور پرہیزگاروں سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا نازل فرمایا ہے؟ تو جواب دیتے ہیں اچھے سے اچھا جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لئے اس دنیا میں بھلائی ہے، اور یقیناً آخرت کا گھر تو بہت ہی بہتر ہے، اور کیا ہی خوب پرہیزگاروں کا گھر ہے۔
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِ‌ي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ‌ ۖ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْزِي اللَّـهُ الْمُتَّقِينَ ﴿٣١﴾
ہمیشگی والے باغات جہاں وہ جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جو کچھ طلب کریں گے وہاں ان کے لئے موجود ہوگا۔ پرہیزگاروں کو اللہ تعالٰی اسی طرح بدلے عطا فرماتا ہے۔
الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ ۙ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٣٢﴾
وہ جن کی جانیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں کہتے ہیں کہ تمہارے لئے سلامتی ہی سلامتی ہے، (١) جاؤ جنت میں اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے (٢)۔
٣٢۔١ ان آیات میں ظالم مشرکوں کے مقابلے میں اہل ایمان و تقویٰ کا کردار اور ان کا حسن انجام بیان فرمایا ہے۔
٣٢۔٢ سورہ اعراف کی آیت ٤٣ کے تحت یہ حدیث گزر چکی ہے کہ کوئی شخص بھی محض اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا، جب تک اللہ کی رحمت نہیں ہوگی۔ لیکن یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ تم اپنے عملوں کے بدلے جنت میں داخل ہو جاؤ، تو ان میں دراصل کوئی منافقت نہیں۔ کیونکہ اللہ کی رحمت کے حصول کے لئے اعمال صالحہ ضروری ہیں، اس کے بغیر آخرت میں اللہ کی رحمت مل ہی نہیں سکتی۔ اس لئے حدیث مذکورہ کا مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح ہے اور عمل کی اہمیت بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس لیے ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ہے ان اللہ لا ینظر الی صورکم واموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
هَلْ يَنظُرُ‌ونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ أَمْرُ‌ رَ‌بِّكَ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّـهُ وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴿٣٣﴾
کیا یہ اسی بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں یا تیرے رب کا حکم آجائے؟ (١) ایسا ہی ان لوگوں نے بھی کیا تھا جو ان سے پہلے تھے (٢) ان پر اللہ تعالٰی نے کوئی ظلم نہیں کیا (٣) بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے (٤)۔
فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴿٣٤﴾
پس ان کے برے اعمال کے نتیجے انہیں مل گئے اور جس کی ہنسی اڑاتے تھے اس نے ان کو گھیر لیا (١)
٣٤۔١ یعنی جب رسول ان سے کہتے کہ اگر تم ایمان نہیں لاؤ گے تو اللہ کا عذاب آ جائے گا۔ تو یہ استہزا کے طور پر کہتے کہ جا اپنے اللہ سے کہہ وہ عذاب بھیج کر ہمیں تباہ کر دے۔ چنانچہ اس عذاب نے انہیں گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے، پھر اس سے بچاؤ کا کوئی راستہ ان کے پاس نہیں رہا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَ‌كُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّ‌مْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّ‌سُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴿٣٥﴾
مشرک لوگوں نے کہا اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادے اس کے سوا کسی اور کی عبادت ہی نہ کرتے، نہ اس کے فرمان کے بغیر کسی چیز کو حرام کرتے۔ یہی فعل ان سے پہلے لوگوں کا رہا۔ تو رسولوں پر تو صرف کھلم کھولا پیغام پہنچا دینا ہے (١)
٣٥۔١ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے مشرکین کے ایک وہم اور مغالطے کا ازالہ فرمایا ہے وہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں یا اس کے حکم کے بغیر ہی کچھ چیزوں کو حرام کر لیتے ہیں، اگر ہماری یہ باتیں غلط ہیں تو اللہ تعالٰی اپنی قدرت کاملہ سے ہمیں ان چیزوں سے روک کیوں نہیں دیتا، وہ اگر چاہے تو ہم ان کاموں کو کر ہی نہیں سکتے۔ اگر وہ نہیں روکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، اس کی مشیت کے مطابق ہے۔ اللہ تعالٰی نے ان کے اس شبہے کا ازالہ ' رسولوں کا کام صرف پہنچا دینا ہے ' کہہ کر فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی نے تمہیں اس سے روکا نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی نے تو تمہیں ان مشرکانہ امور سے بڑی سختی سے روکا ہے۔ اسی لئے وہ ہر قوم میں رسول بھیجتا اور کتابیں نازل کرتا رہا ہے اور ہر نبی نے آ کر سب سے پہلے اپنی قوم کو شرک ہی سے بچانے کی کوشش کی ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ہرگز یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ شرک کریں کیونکہ اگر اسے یہ پسند ہوتا کہ تکذیب کر کے شرک کا راستہ اختیار کیا اور اللہ نے اپنی مشیت تکوینیہ کے تحت قہراً و جبراً تمہیں اس سے نہیں روکا، تو یہ اس کی حکمت ومصلحت کا ایک حصہ ہے، جس کے تحت اس نے انسانوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کی آزمائش ممکن ہی نہ تھی۔ ہمارے رسول ہمارا پیغام تم تک پہنچا کر یہی سمجھاتے رہے کہ اس آزادی کا غلط استعمال نہ کرو بلکہ اللہ کی رضا کے مطابق اسے استعمال کرو۔ ہمارے رسول یہی کچھ کر سکتے تھے، جو انہوں نے کیا اور تم نے شرک کے آزادی کا غلط استعمال کیا جس کی سزا دائمی عذاب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّ‌سُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّـهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ فَانظُرُ‌وا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ﴿٣٦﴾
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو۔ پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالٰی نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی (١) پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا؟
٣٦۔١ مذکورہ شبہے کے ازالے کے لئے مزید فرمایا کہ ہم نے تو ہر امت میں رسول بھیجا اور یہ پیغام ان کے ذریعے سے پہنچایا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ لیکن جن پر گمراہی ثابت ہو چکی تھی، انہوں نے اس کی پرواہ ہی نہ کی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِن تَحْرِ‌صْ عَلَىٰ هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَن يُضِلُّ ۖ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِ‌ينَ ﴿٣٧﴾
گو آپ ان کی ہدایت کے خواہشمند رہے ہیں لیکن اللہ تعالٰی اسے ہدایت نہیں دیتا جسے گمراہ کردے اور نہ ان کا کوئی مددگار ہوتا ہے (١)۔
٣٧۔١ اس میں اللہ تعالٰی فرما رہا ہے۔ اے پیغمبر! تیری خواہش یقیناً یہی ہے کہ یہ سب ہدایت کا راستہ اپنا لیں لیکن قوانین الہیہ کے تحت جو گمراہ ہوگئے ہیں، ان کو ہدایت کے راستے پر نہیں چلا سکتا، یہ تو اپنے آخری انجام کو پہنچ کر ہی رہیں گے، جہاں ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَأَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللَّـهُ مَن يَمُوتُ ۚ بَلَىٰ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ‌ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٣٨﴾
وہ لوگ بڑی سخت سخت قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ مردوں کو اللہ زندہ نہیں کرے گا (١) کیوں نہیں ضرور زندہ کرے گا یہ اس کا برحق لازمی وعدہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (٢)۔
٣٨۔١ کیونکہ مٹی میں مل جانے کے بعد ان کا دوبارہ جی اٹھنا، انہیں مشکل اور ناممکن نظر آتا تھا۔ اسی لئے رسول جب انہیں بعث بعد الموت کی بابت کہتا تو اسے جھٹلاتے ہیں، اس کی تصدیق نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس یعنی دوبارہ زندہ نہ ہونے پر قسمیں کھاتے ہیں، قسمیں بھی بڑی تاکید اور یقین کے ساتھ۔
٣٨۔٢ اس جہالت اور بےعلمی کی وجہ سے رسولوں کی تکذیب و مخالفت کرتے ہوئے دریاے کفر میں ڈوب جاتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا أَنَّهُمْ كَانُوا كَاذِبِينَ ﴿٣٩﴾
اس لئے بھی کہ یہ لوگ جس چیز میں اختلاف کرتے تھے اسے اللہ تعالٰی صاف بیان کردے اور اس لئے بھی کہ خود کافر اپنا جھوٹا ہونا جان لیں (١)۔
٣٩۔١ یہ وقوع قیامت کی حکمت و علت بیان کی جا رہی ہے کہ اس دن اللہ تعالٰی ان چیزوں میں فیصلہ فرمائے گا جن میں لوگ دنیا میں اختلاف کرتے تھے اور اہل حق اور اہل تقویٰ کو اچھی جزا اور اہل کفر و فسق کو ان کے برے عملوں کی سزا دے گا۔ نیز اس دن اہل کفر پر بھی یہ بات واضح ہو جائے گی کہ قیامت کے عدم وقوع پر جو قسمیں کھاتے تھے ان میں وہ جھوٹے تھے۔
 
Top