• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَمَا يَنبَغِي لِلرَّ‌حْمَـٰنِ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا ﴿٩٢﴾
شان رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ اولاد رکھے۔
إِن كُلُّ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ إِلَّا آتِي الرَّ‌حْمَـٰنِ عَبْدًا ﴿٩٣﴾
آسمان و زمین میں جو بھی ہیں سب کے سب اللہ کے غلام بن کر ہی آنے والے ہیں (١)۔
٩٣۔١ جب سب اللہ کے غلام اور اس کے عاجز بندے ہیں تو پھر اسے اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور یہ اس کے لائق بھی نہیں ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لَّقَدْ أَحْصَاهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا ﴿٩٤﴾
ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو پورے گن بھی رکھا ہے (١)
٩٤۔١ یعنی آدم سے لے کر صبح قیامت تک جتنے بھی انسان، جن ہیں، سب کو اس نے گن رکھا ہے، سب اس کے قابو اور گرفت میں ہیں، کوئی اس سے چھپا ہے اور نہ چھپا رہ سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْ‌دًا ﴿٩٥﴾
یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اس کے پاس حاضر ہونے والے ہیں (١)
٩٥۔١ یعنی کوئی کسی کا مددگار نہیں ہوگا، نہ مال ہی وہاں کچھ کام آئے گا (يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ)26۔ الشعراء:88) اس دن نہ مال نفع دے گا، نہ بیٹے، ہر شخص کو تنہا اپنا اپنا حساب دینا پڑے گا اور جن کی بابت انسان دنیا میں یہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے وہاں حمائتی اور مددگار ہوں گے، وہاں سب غائب ہو جائیں گے۔ کوئی کسی کی مدد کے لئے حاضر نہیں ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّ‌حْمَـٰنُ وُدًّا ﴿٩٦﴾
بیشک جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے شائستہ اعمال کیے ہیں ان کے لئے اللہ رحمٰن محبت پیدا کر دے گا (١)
٩٦۔١ یعنی دنیا میں لوگوں کے دلوں میں اس کی نیکی اور پارسائی کی وجہ سے محبت پیدا کر دے گا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ' جب اللہ تعالٰی کسی (نیک) بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اللہ جبرائیل علیہ السلام کو کہتا ہے، میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ پس جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنی شروع کر دیتے ہیں پھر جبرائیل علیہ السلام آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی فلاں آدمی سے محبت کرتا ہے، پس تمام آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر زمین میں اس کے لئے قبولیت اور پذیرائی رکھ دی جاتی ہے ' (صحیح بخاری)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فَإِنَّمَا يَسَّرْ‌نَاهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ‌ بِهِ الْمُتَّقِينَ وَتُنذِرَ‌ بِهِ قَوْمًا لُّدًّا ﴿٩٧﴾
ہم نے اس قرآن کو تیری زبان میں بہت ہی آسان کر دیا ہے (١) کہ تو اس کے ذریعہ سے پرہیزگاروں کو خوشخبری دے اور جھگڑالو (٢) کو ڈرا دے۔
٩٧۔١ قرآن کو آسان کرنے کا مطلب اس زبان میں اتارنا ہے جس کو پیغمبر جانتا تھا یعنی عربی زبان میں، پھر اس کے مضمون کا کھلا ہونا، واضح اور صاف ہونا۔
٩٧۔٢ لُدَّا (أَلَدُّ کی جمع) کے معنی جھگڑا لو کے ہیں مراد کفار ومشرکین ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْ‌نٍ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُم مِّنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِ‌كْزًا ﴿٩٨﴾
ہم نے اس سے پہلے بہت سی جماعتیں تباہ کر دیں ہیں، کیا ان میں سے ایک بھی آہٹ تو پاتا ہے یا ان کی آواز کی بھنک بھی تیرے کان میں پڑتی ہے؟ (١)۔
٩٨۔١ احساس کے معنی ہیں، حس کے ذریعے سے معلومات حاصل کرنا۔ یعنی کیا تو ان کو آنکھوں سے دیکھ سکتا یا ہاتھوں سے چھو سکتا ہے؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی ان کا وجود ہی دنیا میں نہیں ہے کہ تو انہیں دیکھ یا چھو سکے یا دیکھ سکے یا اس کی ہلکی سی آواز ہی تجھے کہیں سے سنائی دے سکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سورة طه

(سورة طه ۔ سورہ نمبر ۲۰ ۔ تعداد آیات ۱۳٥)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
طه ﴿١﴾
طٰہٰ
مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْ‌آنَ لِتَشْقَىٰ ﴿٢﴾
ہم نے یہ قرآن تجھ پر اس لئے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑ جائے۔ (١)
٢۔١ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تو ان کے کفر پر کثرت افسوس اور ان کے عدم ایمان پر حسرت سے اپنے آپ کو مشقت میں ڈال لے اور غم میں پڑ جائے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے۔ (فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا) 18۔ الکہف:6) پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے بلکہ ہم نے تو قرآن کو نصیحت اور یاد دہانی کے لیے اتارا ہے تاکہ ہر انسان کے تحت الشعور میں ہماری توحید کا جو جذبہ چھپا ہوا ہے۔ واضح اور نمایاں ہو جائے گویا یہاں شقآء عنآء اور تعب کے معنی میں ہے یعنی تکلیف اور تھکاوٹ۔

*حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے متعدداسباب بیان کئے گئے ہیں۔ بیض تاریخ وسیر کی روایتات میں اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر میں سورہ طہ کا سننا اور اس سے مثاثر ہونا بھی مذکورہے۔ (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِلَّا تَذْكِرَ‌ةً لِّمَن يَخْشَىٰ ﴿٣﴾
بلکہ اس کی نصیحت کے لئے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔
تَنزِيلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْأَرْ‌ضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى ﴿٤﴾
اس کا اتارنا اس کی طرف سے ہے جس نے زمین کو اور بلند آسمان کو پیدا کیا ہے۔
الرَّ‌حْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْ‌شِ اسْتَوَىٰ ﴿٥﴾
جو رحمٰن ہے، عرش پر قائم ہے (١)
٥۔١ بغیر کسی حد بندی اور کیفیت بیان کرنے کے، جس طرح کہ اس کی شان کے لائق ہے یعنی اللہ تعالٰی عرش پر قائم ہے، لیکن کس طرح اور کیسے؟ یہ کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَ‌ىٰ ﴿٦﴾
جس کی ملکیت آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان اور (کرہ خاک) کے نیچے کی ہر ایک چیز پر ہے (١)۔
٦۔١ ثَرَیٰ کے معنی ہیں السافلین یعنی زمین کا سب سے نچلا حصہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَإِن تَجْهَرْ‌ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ‌ وَأَخْفَى ﴿٧﴾
اگر تو اونچی بات کہے تو وہ تو ہر ایک پوشیدہ، بلکہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی بخوبی جانتا ہے
٧۔١ یعنی اللہ کا ذکر یا اس سے دعا اونچی آواز میں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی جانتا ہے یا اَخْفَیٰ کے معنی ہیں کہ اللہ تو ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو اس نے تقدیر میں لکھ دیا اور ابھی تک لوگوں سے مخفی رکھا ہے۔ یعنی قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اسے علم ہے۔
 
Top