- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ﴿٢٥﴾
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ میرے لئے کھول دے۔
وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي ﴿٢٦﴾
اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے
وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي ﴿٢٧﴾
اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے۔
يَفْقَهُوا قَوْلِي ﴿٢٨﴾
تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں۔
وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي ﴿٢٩﴾
اور میرا وزیر میرے کنبے میں سے کر دے۔
هَارُونَ أَخِي ﴿٣٠﴾
یعنی میرا بھائی ہارون (علیہ السلام) کو۔
اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي ﴿٣١﴾
تو اس سے میری کمر کس دے۔
وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي ﴿٣٢﴾
اور اسے میرا شریک کار کر دے (١)
٣٢۔١ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام جب فرعون کے شاہی محل میں زیر پرورش تھے تو کھجور یا موتی کی بجائے آگ کا انگارا منہ میں ڈال لیا تھا جس سے ان کی زبان جل گئی اور اس میں لکنت پیدا ہوگئی (ا بن کثیر) جب اللہ تعالٰی نے انہیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر میرا پیغام پہنچاؤ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں دو باتیں آئیں ایک تو یہ کہ وہ بڑا جابر اور متکبر بادشاہ ہے بلکہ رب ہونے تک کا دعویدار ہے دوسرا یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اس کی قوم کا ایک آدمی مارا گیا تھا اور جس کی وجہ سے موسیٰ کو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے نکلنا پڑا تھا یعنی ایک فرعون کی عظمت وجباریت کا خوف اور دوسرا اپنے ہاتھوں ہونے والے واقعہ کا اندیشہ اور ان دونوں پر زائد تیسری بات زبان میں لکنت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ یا اللہ ! میرا سینہ کھول دے تاکہ میں رسالت کا بوجھ اٹھا سکوں میرے کام کو آسان فرما دے یعنی جو مہم مجھے درپیش ہے اس میں میری مدد فرما اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ فرعون کے سامنے میں پوری وضاحت سے تیرا پیغام پہنچا سکوں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اپنا دفاع بھی کر سکوں اس کے ساتھ یہ دعا بھی کی کہ میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو (کہتے ہیں کہ یہ عمر میں موسیٰ علیہ السلام سے بڑے تھے) بطور معین اور مددگار میرا وزیر اور شریک کار بنا دے وزیر موازر کے معنی میں ہے یعنی بوجھ اٹھانے والا جس طرح ایک وزیر بادشاہ کا بوجھ اٹھاتا ہے اور امور مملکت میں اسکا مشیر ہوتا ہے اسی طرح ہارون علیہ السلام میرا مشیر اور بوجھ اٹھانے والا ساتھی ہو۔
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے پروردگار! میرا سینہ میرے لئے کھول دے۔
وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي ﴿٢٦﴾
اور میرے کام کو مجھ پر آسان کر دے
وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي ﴿٢٧﴾
اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے۔
يَفْقَهُوا قَوْلِي ﴿٢٨﴾
تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ سکیں۔
وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي ﴿٢٩﴾
اور میرا وزیر میرے کنبے میں سے کر دے۔
هَارُونَ أَخِي ﴿٣٠﴾
یعنی میرا بھائی ہارون (علیہ السلام) کو۔
اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي ﴿٣١﴾
تو اس سے میری کمر کس دے۔
وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي ﴿٣٢﴾
اور اسے میرا شریک کار کر دے (١)
٣٢۔١ کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام جب فرعون کے شاہی محل میں زیر پرورش تھے تو کھجور یا موتی کی بجائے آگ کا انگارا منہ میں ڈال لیا تھا جس سے ان کی زبان جل گئی اور اس میں لکنت پیدا ہوگئی (ا بن کثیر) جب اللہ تعالٰی نے انہیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر میرا پیغام پہنچاؤ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں دو باتیں آئیں ایک تو یہ کہ وہ بڑا جابر اور متکبر بادشاہ ہے بلکہ رب ہونے تک کا دعویدار ہے دوسرا یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اس کی قوم کا ایک آدمی مارا گیا تھا اور جس کی وجہ سے موسیٰ کو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے نکلنا پڑا تھا یعنی ایک فرعون کی عظمت وجباریت کا خوف اور دوسرا اپنے ہاتھوں ہونے والے واقعہ کا اندیشہ اور ان دونوں پر زائد تیسری بات زبان میں لکنت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ یا اللہ ! میرا سینہ کھول دے تاکہ میں رسالت کا بوجھ اٹھا سکوں میرے کام کو آسان فرما دے یعنی جو مہم مجھے درپیش ہے اس میں میری مدد فرما اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ فرعون کے سامنے میں پوری وضاحت سے تیرا پیغام پہنچا سکوں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اپنا دفاع بھی کر سکوں اس کے ساتھ یہ دعا بھی کی کہ میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو (کہتے ہیں کہ یہ عمر میں موسیٰ علیہ السلام سے بڑے تھے) بطور معین اور مددگار میرا وزیر اور شریک کار بنا دے وزیر موازر کے معنی میں ہے یعنی بوجھ اٹھانے والا جس طرح ایک وزیر بادشاہ کا بوجھ اٹھاتا ہے اور امور مملکت میں اسکا مشیر ہوتا ہے اسی طرح ہارون علیہ السلام میرا مشیر اور بوجھ اٹھانے والا ساتھی ہو۔