• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فَأَخْرَ‌جَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ‌ فَقَالُوا هَـٰذَا إِلَـٰهُكُمْ وَإِلَـٰهُ مُوسَىٰ فَنَسِيَ ﴿٨٨﴾
پھر اس نے لوگوں کے لئے ایک بچھڑا نکال کھڑا کیا یعنی بچھڑے کا بت، جس کی گائے کی سی آواز بھی تھی پھر کہنے لگے کہ یہی تمہارا بھی معبود ہے (١) اور موسیٰ کا بھی۔ لیکن موسیٰ بھول گیا ہے۔
٨٨۔۱زینۃ سے زیورات اور القوم سے قوم فرعون مراد ہے۔ کہتے ہیں یہ زیورات انہوں نے فرعونیوں سے عاریتًا لئے تھے، اسی لئے انہیں بوجھ کہا گیا کیونکہ یہ ان کے لئے جائز نہیں تھے، چنانچہ انہیں جمع کر کے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا، سامری نے بھی (جو مسلمانوں کے بعض گمراہ فرقوں کی طرح) گمراہ تھا اس نے تمام زیورات کو تپا کر ایک طرح بچھڑا بنا دیا کہ جس میں ہوا کے اندر باہر آنے جانے سے ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی تھی۔ اس آواز سے اس نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ موسیٰ علیہ السلام تو گمراہ ہوگئے ہیں کہ وہ اللہ سے ملنے کے لئے طور پر گئے ہیں، جبکہ تمہارا اور موسیٰ علیہ السلام کا معبود تو یہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
أَفَلَا يَرَ‌وْنَ أَلَّا يَرْ‌جِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّ‌ا وَلَا نَفْعًا ﴿٨٩﴾
کیا یہ گمراہ لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ تو ان کی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور نہ ان کے کسی برے بھلے کا اختیار رکھتا ہے (١)
٨٩۔١ اللہ تعالٰی نے ان کی جہالت و نادنی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی نہیں پتہ چلا کہ یہ بچھڑا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ نہ نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔ جب کہ معبود تو وہی ہو سکتا ہے جو ہر ایک کی فریاد سننے پر، نفع و نقصان پہنچانے پر اور حاجت برآوری پر قادر ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُ‌ونُ مِن قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُم بِهِ ۖ وَإِنَّ رَ‌بَّكُمُ الرَّ‌حْمَـٰنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِ‌ي ﴿٩٠﴾
اور ہارون (علیہ السلام) نے اس سے پہلے ہی ان سے کہہ دیا تھا اے میری قوم والو! اس بچھڑے سے صرف تمہاری آزمائش کی گئی ہے، تمہارا حقیقی پروردگار تو اللہ رحمٰن ہی ہے، پس تم سب میری تابعداری کرو۔ اور میری بات مانتے چلے جاؤ (١)۔
٩٠۔١ حضرت ہارون علیہ السلام نے یہ اس وقت کہا جب یہ قوم سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی عبادت میں لگ گئی
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالُوا لَن نَّبْرَ‌حَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّىٰ يَرْ‌جِعَ إِلَيْنَا مُوسَىٰ ﴿٩١﴾
انہوں نے جواب دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی تک تو ہم اسی کے مجاور بنے بیٹھے رہیں گے (١)
٩١۔١ اسرائیلیوں کو یہ گو سالہ اتنا اچھا لگا کہ ہارون علیہ السلام کی بات کی بھی پروا نہیں کی اور اس کی تعظیم و عبادت چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ يَا هَارُ‌ونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَ‌أَيْتَهُمْ ضَلُّوا ﴿٩٢﴾
موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اے ہارون! انہیں گمراہ ہوتا ہوا دیکھتے ہوئے تجھے کس چیز نے روکا تھا۔
أَلَّا تَتَّبِعَنِ ۖ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِ‌ي ﴿٩٣﴾
کہ تو میرے پیچھے نہ آیا۔ کیا تو بھی میرے فرمان کا نافرمان بن بیٹھا (١)
٩٣۔١ یعنی اگر انہوں نے تیری بات ماننے سے انکار کر دیا تھا، تو تجھ کو فوراً میرے پیچھے کوہ طور پر آ کر مجھے بتلانا چاہیے تھا تو نے بھی میرے حکم کی پروا نہ کی۔ یعنی جانشینی کا صحیح حق ادا نہیں کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَ‌أْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّ‌قْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ وَلَمْ تَرْ‌قُبْ قَوْلِي ﴿٩٤﴾
ہارون (علیہ السلام) نے کہا اے میرے ماں جائے بھائی! میری داڑھی نہ پکڑ اور سر کے بال نہ کھینچ، مجھے تو صرف یہ خیال دامن گیر ہوا کہ کہیں آپ یہ (نہ) فرمائیں (١) کہ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میری بات کا انتظار نہ کیا۔ (۲)
٩٤۔١ حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کو شرک کی گمراہی میں دیکھ کر سخت غضب ناک تھے اور سمجھتے تھے کہ شاید اس میں ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کی، جن کو وہ اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے، خوش آمد کا بھی دخل ہو، اس لئے سخت غصے میں ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر پکڑ کر انہیں جھنجھوڑنا اور پوچھنا شروع کیا، جس پر حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں اتنا سخت رویہ اپنانے سے روکا۔
٩٤۔۲ سورہ اعراف میں حضرت ہارون علیہ السلام کا جواب یہ نقل ہوا ہے کہ قوم نے مجھے کمزور خیال کیا اور میرے قتل کے درپے ہوگئی (آیت۔ ۱٤۲) جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنی ذمے داری پوری طرح نبھائی اور انہیں سمجھا نے اور گو سالہ پرستی سے روکنے میں مداہنت اور کوتاہی نہیں کی۔ لیکن معاملے کو اس حد تک نہیں جانے دیا کہ خانہ جنگی شروع ہو جائے کیونکہ ہارون علیہ السلام کے قتل کا مطلب پھر ان کے حامیوں اور مخالفوں میں آپس میں خونی تصادم ہوتا اور بنی اسرائیل واضح طور پر دو گروہوں میں بٹ جاتے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے حضرت موسیٰ علیہ السلام چوں کہ خود وہاں موجود نہ تھے اس لیے صورت حال کی نزاکت سے بےخبر تھے اسی بنا پر حضرت ہارون علیہ السلام کو انہوں نے سخت سست کہا لیکن پھر وضاحت پر وہ اصل مجرم کی طرف متوجہ ہوئے اس لیے یہ استدلال صحیح نہیں (جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں) کہ مسلمانوں کے اتحاد وارفاق کی خاطر شرکیہ امور اور باطل چیزوں کو بھی برداشت کر لینا چاہیے کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام نے نہ ایسا کیا ہی ہے نہ ان کے قول کا یہ مطلب ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِ‌يُّ ﴿٩٥﴾
موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا سامری تیرا کیا معاملہ ہے۔
قَالَ بَصُرْ‌تُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُ‌وا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ‌ الرَّ‌سُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي ﴿٩٦﴾
اس نے جواب دیا کہ مجھے وہ چیز دکھائی دی جو انہیں دکھائی نہیں دی، تو میں نے قاصدِ الٰہی کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر لی اسے اس میں ڈال دیا (١) اسی طرح میرے دل نے یہ بات میرے لئے بھلی بنا دی۔
٩٦۔١ مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کو گزرتے ہوئے سامری نے دیکھا اور اس کے قدموں کے نیچے کی مٹی اس نے سنبھال رکھ لی، جس میں کچھ کرامات کے اثرات تھے۔ اس مٹی کی مٹھی اس نے پگھلے ہوئے زیورات یا بچھڑے میں ڈالی تو اس میں سے ایک قسم کی آواز نکلنی شروع ہوگئی جو ان کے فتنے کا باعث بن گئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَّن تُخْلَفَهُ ۖ وَانظُرْ‌ إِلَىٰ إِلَـٰهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ۖ لَّنُحَرِّ‌قَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا ﴿٩٧﴾
کہا اچھا جا دنیا کی زندگی میں تیری سزا یہی ہے کہ تو کہتا رہے کہ مجھے نہ چھونا (١) اور ایک اور بھی وعدہ تیرے ساتھ ہے جو تجھ سے ہرگز نہیں ٹلے گا (٢) اور اب تو اپنے اس معبود کو بھی دیکھ لینا جس کا اعتکاف کئے ہوئے تھا کہ ہم اسے جلا کر دریا میں ریزہ ریزہ اڑائیں گے۔ (۳)
٩٧۔١ یعنی عمر بھر تو یہی کہتا رہے گا کہ مجھ سے دور رہو، مجھے نہ چھونا، اس لئے کہ اسے چھو تے ہی چھونے والا بھی اور یہ سامری بھی دونوں بخار میں مبتلا ہو جاتے۔ اس لئے جب کسی انسان کو دیکھتا تو فوراً چیخ اٹھتا کہا جاتا ہے کہ پھر یہ انسانوں کی بستی سے نکل کر جنگل میں چلا گیا، جہاں جانوروں کے ساتھ اس کی زندگی گزری اور یوں عبرت کا نمونہ بنا رہا، گویا لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جو شخص جتنا زیادہ حیلہ و فن اور مکر و فریب اختیار کرے گا، دنیا اور آخرت میں اس کی سزا بھی اسی حساب سے شدید تر اور نہایت عبرت ناک ہوگی۔
٩٧۔٢ یعنی آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے جو ہرصورت بھگتنا پڑے گا۔
۹۷۔۳ اس سے معلوم ہوا کہ شرک کے آثار ختم کرنا بلکہ ان کا نام ونشان تک مٹا ڈالنا چاہیے ان کی نسبت کتنی ہی مقدس ہستیوں کی طرف ہو، توہین نہیں، جیسا کہ اہل بدعت، قبر پرست اور تعزیہ پرست باور کراتے ہیں بلکہ یہ توحید کا منشا اور دینی غیرت کا تقاضا ہے جیسے اس واقعے میں اس اثرالرسول کو نہیں دیکھا گیا جس سے ظاہری طور پر روحانی برکات کا مشاہدہ بھی کیا گیا اس کے باوجود اس کی پروا نہیں کی گئی اس لیے کہ وہ شرک کا ذریعہ بن گیا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
إِنَّمَا إِلَـٰهُكُمُ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴿٩٨﴾
اصل بات یہی ہے کہ تم سب کا معبود برحق صرف اللہ ہی ہے اس کے سوا کوئی پرستش کے قابل نہیں۔ اس کا علم تمام چیزوں پر حاوی ہے
كَذَٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِن لَّدُنَّا ذِكْرً‌ا ﴿٩٩﴾
اس طرح ہم تیرے سامنے (١) پہلے کی گزری ہوئی وارداتیں بیان فرما رہے ہیں اور یقیناً ہم تجھے اپنے پاس سے نصیحت عطا فرما چکے ہیں (٢)۔
٩٩۔١ یعنی جس طرح ہم نے فرعون و موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان کیا، اسی طرح انبیاء کے حالات ہم آپ پر بیان کر رہے ہیں تاکہ آپ ان سے باخبر ہوں، اور اس میں عبرت کے پہلو ہوں، انہیں لوگوں کے سامنے نمایاں کریں تاکہ لوگ اس کی روشنی میں صحیح رویہ اختیار کریں۔
٩٩۔٢ نصیحت (ذکر) سے مراد قرآن عظیم ہے۔ جس سے بندہ اپنے رب کو یاد کرتا، ہدایت اختیار کرتا اور نجات و سعادت کا راستہ اپناتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
مَّنْ أَعْرَ‌ضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وِزْرً‌ا ﴿١٠٠﴾
اس سے جو منہ پھیر لے گا (١) وہ یقیناً قیامت کے دن اپنا بھاری بوجھ لادے ہوئے ہوگا (٢)۔
١٠٠۔١ یعنی اس پر ایمان نہیں لائے گا اور اس میں جو کچھ درج ہے، اس پر عمل نہیں کرے گا۔
١٠٠۔٢ یعنی گناہ عظیم اس لئے کہ اس کا نامہ اعمال، نیکیوں سے خالی اور برائیوں سے پر ہوگا۔
 
Top