• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَإِذَا رَ‌آكَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَـٰذَا الَّذِي يَذْكُرُ‌ آلِهَتَكُمْ وَهُم بِذِكْرِ‌ الرَّ‌حْمَـٰنِ هُمْ كَافِرُ‌ونَ ﴿٣٦﴾
یہ منکرین تجھے جب دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق ہی اڑاتے ہیں کیا یہی وہ ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر برائی سے کرتا، اور وہ خود ہی رحمٰن کی یاد کے بالکل ہی منکر ہیں (١)
٣٦۔١ اس کے باوجود یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسی و مذاق اڑاتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ ( اِنْ يَّتَّخِذُوْنَكَ اِلَّا هُزُوًا ۭ اَھٰذَا الَّذِيْ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوْلًا) 25۔ الفرقان:41)
جب اے پیغمبر! یہ کفار مکہ تجھے دیکھتے ہیں تو تیرا مذاق اڑانے لگ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ ۚ سَأُرِ‌يكُمْ آيَاتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ ﴿٣٧﴾
انسان جلد باز مخلوق ہے میں تمہیں اپنی نشانیاں ابھی ابھی دکھاؤں گا تم مجھ سے جلد بازی نہ کرو (١)۔
٣٧۔١ یہ کفار کے متعلق عذاب کے جواب میں ہے کہ چونکہ انسان کی فطرت میں عجلت اور جلد بازی ہے اس لئے وہ پیغمبروں سے بھی جلدی مطالبہ کرنے لگ جاتا ہے کہ اپنے اللہ سے کہہ کہ ہم پر فوراً عذاب نازل کروا دے۔ اللہ نے فرمایا جلدی مت کرو، میں عنقریب اپنی نشانیاں تمہیں دکھاؤں گا۔ ان نشانیوں سے مراد عذاب بھی ہو سکتا ہے اور صداقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل وبراہین بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٣٨﴾
کہتے ہیں کہ اگر سچے ہو تو بتا دو کہ یہ وعدہ کب ہے۔
لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا حِينَ لَا يَكُفُّونَ عَن وُجُوهِهِمُ النَّارَ‌ وَلَا عَن ظُهُورِ‌هِمْ وَلَا هُمْ يُنصَرُ‌ونَ ﴿٣٩﴾
کاش! یہ کافر جانتے کہ اس وقت نہ تو یہ کافر آگ کو اپنے چہروں سے ہٹا سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں سے اور نہ ان کی مدد کی جائے گی (١)
٣٩۔١ اس کا جواب علیحدہ ہے، یعنی اگر یہ جان لیتے تو پھر عذاب کا جلدی مطالبہ نہ کرتے یا یقینا جان لیتے کہ قیامت آنے والی ہے یا کفر پر قائم نہ رہتے بلکہ ایمان لے آتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
بَلْ تَأْتِيهِم بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَ‌دَّهَا وَلَا هُمْ يُنظَرُ‌ونَ ﴿٤٠﴾
(ہاں ہاں!) وعدے کی گھڑی ان کے پاس اچانک آجائے گی اور انہیں ہکا بکا کر دے گی (١) پھر نہ تو یہ لوگ اسے ٹال سکیں گے اور نہ ذرا سی بھی مہلت دیئے (٢) جائیں گے۔
٤٠۔١ یعنی انہیں کچھ سجھائی نہیں دے گا کہ وہ کیا کریں؟
٤٠۔٢ کہ وہ توبہ و اعتذار کا اہتمام کرلیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُ‌سُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُ‌وا مِنْهُم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ ﴿٤١﴾
اور تجھ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ہنسی مذاق کیا گیا پس ہنسی کرنے والوں کو ہی اس چیز نے گھیر لیا جس کی وہ ہنسی اڑاتے تھے (١)۔
٤١۔١ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مشرکین کے مذاق اور جھٹلانے سے بد دل نہ ہوں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، تجھ سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا گیا، بالآخر وہی عذاب ان پر الٹ پڑا، یعنی اس نے انہیں گھیر لیا، جس کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور جس کا وقوع ان کے نزدیک ابھی مستبعد تھاجس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا) 6۔ الانعام:34) تجھ سے پہلے بھی رسول جھٹلائے گئے پس انہوں نے تکذیب پر اور ان تکلیفوں پر جو انہیں دی گئیں صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے ساتھ کفار و مشرکین کے لیے اس میں تہدید و وعید بھی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
قُلْ مَن يَكْلَؤُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ‌ مِنَ الرَّ‌حْمَـٰنِ ۗ بَلْ هُمْ عَن ذِكْرِ‌ رَ‌بِّهِم مُّعْرِ‌ضُونَ ﴿٤٢﴾
ان سے پوچھئے کہ رحمٰن کے سوا، دن اور رات تمہاری حفاظت کون کر سکتا ہے؟ (١) بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے رب کے شکر سے پھرے ہوئے ہیں۔
٤٢۔١ یعنی تمہارے جو کرتوت ہیں، وہ تو ایسے ہیں کہ دن یا رات کی کسی گھڑی میں تم پر عذاب آسکتا ہے؟ اس عذاب سے دن اور رات تمہاری کون حفاطت کرتا ہے؟ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی اور ہے جو عذاب الٰہی سے تمہاری حفاظت کر سکے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُم مِّن دُونِنَا ۚ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ‌ أَنفُسِهِمْ وَلَا هُم مِّنَّا يُصْحَبُونَ ﴿٤٣﴾
کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں جو انہیں مصیبتوں سے بچالیں۔ کوئی بھی خود اپنی مدد کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ کوئی ہماری طرف سے ساتھ دیا جاتا ہے (١)۔
٤٣۔١ اس معنی ہیں ' وَلَا ھُمْ یَجْارُوْنَ مِنْ عَذَابِنَا ' نہ وہ ہمارے عذاب سے ہی محفوظ ہیں، یعنی وہ خود اپنی مدد پر اور اللہ کے عذاب سے بچنے پر قادر نہیں ہیں، پھر ان کی طرف سے ان کی مدد کیا ہوئی ہے اور وہ انہیں عذاب سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
بَلْ مَتَّعْنَا هَـٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ‌ ۗ أَفَلَا يَرَ‌وْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْ‌ضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَ‌افِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ ﴿٤٤﴾
بلکہ ہم نے انہیں اور ان کے باپ دادوں کو زندگی کے سرو سامان دیئے یہاں تک کہ ان کی مدت عمر گزر گئی (١) کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں (٢) اب کیا وہی غالب ہیں؟ (٣)۔
٤٤۔١ یعنی ان کی یا ان کے آبا واجداد، کی زندگیاں اگر عیش و راحت میں گزر گئیں تو کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر ہیں؟ اور آئندہ بھی انہیں کچھ نہیں ہوگا؟ نہیں بلکہ یہ چند روزہ زندگی کا آرام تو ہمارے اصول مہلت کا ایک حصہ ہے، اس سے کسی کو دھوکا اور فریب میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔
٤٤۔٢ یعنی زمین کفر بتدریج گھٹ رہی ہے اور دولت اسلام وسعت پذیر ہے۔ کفر کے پیروں تلے سے زمین کھسک رہی ہے اور اسلام کا غلبہ بڑھ رہا ہے اور مسلمان علاقے پر علاقہ فتح کرتے چلے جا رہے ہیں۔
٤٤۔٣ یعنی کفر کو سمٹتا اور اسلام کو بڑھتا ہوا دیکھ کر بھی، کیا وہ کافر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غالب ہیں؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی وہ غالب نہیں، مغلوب ہیں، فاتح نہیں، مفتوح ہیں، معزز و سر فراز نہیں، ذلت اور خواری ان کا مقدر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
قُلْ إِنَّمَا أُنذِرُ‌كُم بِالْوَحْيِ ۚ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاءَ إِذَا مَا يُنذَرُ‌ونَ ﴿٤٥﴾
کہہ دیجئے! میں تمہیں اللہ کی وحی کے ذریعہ آگاہ کر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہیں سنتے جبکہ انہیں آگاہ کیا جائے (١)۔
٤٥۔١ یعنی قرآن سنا کر انہیں وعظ و نصیحت کر رہا ہوں اور یہی میری ذمہ داری ہے اور منصب ہے۔ لیکن جن لوگوں کے کانوں کو اللہ نے حق کے سننے سے بہرا کر دیا، آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور دلوں پر مہر لگا دی، ان پر اس قرآن کا اور وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,752
پوائنٹ
1,207
وَلَئِن مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَ‌بِّكَ لَيَقُولُنَّ يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ ﴿٤٦﴾
اگر انہیں تیرے رب کے کسی عذاب کا جھونکا بھی لگ جائے تو پکار اٹھیں کہ ہائے ہماری بد بختی یقیناً ہم گناہ گار تھے (١)۔
٤٦۔١ یعنی عذاب کا ایک ہلکا سا چھٹا اور تھوڑا حصہ بھی پہنچے گا تو پکار اٹھیں گے اور اعتراف جرم کرنے لگ جائیں گے۔
 
Top