• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿٤١﴾
جن لوگوں نے اللہ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنا لیتی ہے، حالانکہ تمام گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہے (١) کاش! وہ جان لیتے۔
٤١۔١ یعنی جس طرح مکڑی کا جالا (گھر) نہایت، کمزور اور ناپائیدار ہوتا ہے، ہاتھ کے معمولی اشارے سے وہ نابود ہو جاتا ہے۔ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بھی بالکل ایسا ہی ہے، یعنی بےفائدہ ہے کیونکہ وہ بھی کسی کے کام نہیں آسکتے۔ اس لئے غیر اللہ کے سہارے بھی مکڑی کے جالے کی طرح یکسر ناپائیدار ہیں۔ اگر یہ پائیدار یا نفع بخش ہوتے تو یہ معبود گزشتہ اقوام کو تباہی سے بچا لیتے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ انہیں نہیں بچا سکے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِنَّ اللَّـهَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٤٢﴾
اللہ تعالٰی ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جنہیں وہ اس کے سوا پکار رہے ہیں، وہ زبردست اور ذی حکمت ہے۔
وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِ‌بُهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ ﴿٤٣﴾
ہم نے ان مثالوں کو لوگوں کے لئے بیان فرما رہے ہیں (١) انہیں صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں (٢)
٤٣۔١ یعنی انہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے، شرک کی حقیقت سے آگاہ کرنے اور ہدایت کا راستہ سجھانے کے لئے۔
٤٣۔٢ اس علم سے مراد اللہ کا، اس کی شریعت کا اور ان آیات و دلائل کا علم ہے جن پر غور و فکر کرنے سے انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی اور ہدایت کا راستہ ملتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
خَلَقَ اللَّـهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بِالْحَقِّ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿٤٤﴾
اللہ تعالٰی نے آسمانوں اور زمین کو مصلحت اور حق کے ساتھ پیدا کیا ہے (١) ایمان والوں کے لئے تو اس میں بڑی بھاری دلیل ہے (٢)۔
٤٤۔١ یعنی بےفائدہ اور بےمقصد نہیں۔
٤٤۔٢ یعنی اللہ کے وجود کی، اس کی قدرت اور علم و حکمت کی۔ اور پھر اسی دلیل سے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کائنات میں اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
پارہ 21
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ‌ ۗ وَلَذِكْرُ‌ اللَّـهِ أَكْبَرُ‌ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ﴿٤٥﴾
جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے (١) اور نماز قائم کریں (٢) یقیناً نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے (۳) بیشک اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے (٤)
٤٥۔١ قرآن کریم کی تلاوت متعدد مقاصد کے لئے مطلوب ہے۔ محض اجر و ثواب کے لئے، اس کے معنی و مطلب پر تدبر و تفکر کے لئے، تعلیم و تدریس کے لئے، اور وعظ و نصیحت کے لئے، اس حکم تلاوت میں ساری صورتیں شامل ہیں۔
٤٥۔٢ کیونکہ نماز سے (بشرطیکہ نماز ہو) انسان کا تعلق اللہ تعالٰی کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے، جس سے انسان کو اللہ تعالٰی کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم و ثبات کا باعث، اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے اس لیے قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ نماز اور صبر کوئی مرئی چیز نہیں ہے نہیں کہ انسان انکا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کرلے۔ یہ تو غیر مرئی چیز ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط و تعلق پیدا ہوتا ہے وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور رہنمائی کرتا ہے اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز بھی پڑھنے کی تاکید کی گئی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے جو عظیم کام سونپا گیا تھا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا اہتمام فرماتے۔
٤٥۔٣ یعنی بےحیائی اور برائی سے روکنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا فلاں بیماری کو روکتی ہے اور واقعتا ایسا ہوتا ہے لیکن کب؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے ایک دوائی کو پابندی کے ساتھ اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے جو حکیم اور ڈاکٹر بتلائے۔ دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں۔ اسی طرح نماز کے اندر بھی یقینا اللہ نے ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت جب نماز کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان آداب وشرائط کے ساتھ پڑھا جائے جو اس کی صحت و قبولیت کے ضروری ہیں۔ مثلا اس کے لیے پہلی چیز اخلاص ہے، ثانیا طہارت قلب یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو۔ ثالثا باجماعت اوقات مقررہ پر اس کا اہتمام۔ رابعا ارکان صلاۃ قرأت رکوع قومہ سجدہ وغیرہ میں اعتدال و اطمینان خامسا خشوع وخضوع اور رقت کی کیفیت۔ سادسا مواظبت یعنی پابندی کے ساتھ اس کا التزام سابعا رزق حلال کا اہتمام۔ ہماری نمازیں ان آداب وشرائط سے عاری ہیں۔ اس لیے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے ہیں جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی امر کے کیے ہیں۔ یعنی نماز پڑھنے والے کو چاہیے کہ بےحیائی کے کاموں سے اور برائی سے رک جائے۔
٤٥۔٤ یعنی بےحیائی اور برائی سے روکنے میں اللہ کا ذکر، اقامت صلٰوۃ سے زیادہ مؤثر۔ اس لئے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے، برائی سے رکا رہتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہو جاتی ہے، اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لئے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَـٰهُنَا وَإِلَـٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿٤٦﴾
اور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو (١) مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں (۲) اور صاف اعلان کردو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی (۳) ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ہم سب اسی کے حکم برادر ہیں۔
٤٦۔١ اس لئے کہ وہ اہل علم و فہم ہیں، بات کو سمجھنے کی صلاحیت و استعداد رکھتے ہیں۔ بنابریں ان سے بحث و گفتگو میں تلخی اور تندی مناسب نہیں۔
٤٦۔۲یعنی جو بحث و مجادلہ میں افراط سے کام لیں تو تمہیں بھی سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ بعض نے پہلے گروہ سے مراد وہ اہل کتاب لیے ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور دوسرے گروہ سے وہ اشخاص جو مسلمان نہیں ہوئے بلکہ یہودیت و نصرانیت پر قائم رہے اور بعض نے ظلموا منھم کا مصداق ان اہل کتاب کو لیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے تھے اور جدال قتال کے بھی مرتکب ہوتے تھے ان سے تم بھی قتال کرو تاآنکہ مسلمان ہو جائیں یا جزیہ دیں۔
٤٦۔۳ تورات و انجیل پر۔ یعنی یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور یہ شریعت اسلامیہ کے قیام اور بعثت محمدیہ تک شریعت الٰہی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ ۚ فَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَمِنْ هَـٰؤُلَاءِ مَن يُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الْكَافِرُ‌ونَ ﴿٤٧﴾
اور ہم نے اسی طرح آپ کی طرف اپنی کتاب نازل فرمائی ہے، پس جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں (١) اور ان (مشرکین) میں سے بعض اس پر ایمان رکھتے ہیں (٢) اور ہماری آیتوں کا انکار صرف کافر ہی کرتے ہیں۔
٤٧۔١ اس سے مراد عبد اللہ بن سلام وغیرہ ہیں۔ ایتائے کتاب سے مراد اس پر عمل ہے، گویا اس پر جو عمل نہیں کرتے، انہیں یہ کتاب دی ہی نہیں گئی۔
٤٧۔٢ ان سے مراد اہل مکہ ہیں۔ جن میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَّارْ‌تَابَ الْمُبْطِلُونَ ﴿٤٨﴾
اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے نہ تھے (١) نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے (٢) کہ یہ باطل پرست لوگ شک و شبہ میں پڑتے (۳)
٤٨۔۱ اس لیے کہ ان پڑھ تھے
٤٨۔٢اس لئے کہ لکھنے کے لئے بھی علم ضروری ہے، جو آپ نے کسی سے حاصل ہی نہیں کیا تھا۔
٤٨۔٣ یعنی اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے یا کسی استاد سے کچھ سیکھا ہوتا تو لوگ کہتے کہ یہ قرآن مجید فلاں کی مدد سے یا اس سے تعلیم حاصل کرنے کا نتیجہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ‌ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ ﴿٤٩﴾
بلکہ یہ قرآن تو روشن آیتیں ہیں اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں (١) ہماری آیتوں کا منکر سوائے ظالموں کے اور کوئی نہیں۔
٤٩۔١ یعنی قرآن مجید کے حافظوں کے سینوں میں ہے۔ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ قرآن مجید لفظ بہ لفظ سینے میں محفوظ ہو جاتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِّن رَّ‌بِّهِ ۖ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّـهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ‌ مُّبِينٌ ﴿٥٠﴾
انہوں نے کہا کہ اس پر کچھ نشانیاں (معجزات) اس کے رب کی طرف سے کیوں نہیں اتارے گئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں تو سب اللہ تعالٰی کے پاس ہیں (١) میں تو صرف کھلم کھلا آگاہ کر دینے والا ہوں۔
٥٠۔١ یعنی یہ نشانیاں اس کی حکمت و مشیت، جن بندوں پر اتارنے کی ہوتی ہے، وہاں وہ اتارتا ہے، اس میں اللہ کے سوا کسی کا اختیار نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَرَ‌حْمَةً وَذِكْرَ‌ىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿٥١﴾
کیا انہیں یہ کافی نہیں؟ کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جو ان پر پڑھی جا رہی ہے، اس میں رحمت (بھی) ہے اور نصیحت (بھی) ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں۔
٥۱۔١ یعنی وہ نشانیاں طلب کرتے ہیں۔ کیا ان کے لیے بطور نشانی قرآن کافی نہیں ہے جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جس کی بابت انہیں چیلنج دیا گیا ہے کہ اس جیسا قرآن لا کر دکھائیں یا کوئی ایک سورت ہی بنا کر پیش کر دیں۔ جب قرآن کی اس معجزہ نمائی کے باوجود یہ قرآن پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہمالسلام کی طرح انہیں معجزے دکھا بھی دیے جائیں تو اس پر یہ کون سا ایمان لے آئیں گے۔
٥۱۔۲یعنی ان لوگوں کے لیے جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہے، کیونکہ وہی اس سے متمتع اور فیض یاب ہوتے ہیں۔
 
Top