- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ ﴿٣٩﴾
تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وہ اللہ تعالٰی کے ہاں نہیں بڑھتا (١) اور جو کچھ صدقہ زکوۃ تم اللہ تعالٰی کا منہ دیکھنے (اور خوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچند کرنے والے ہیں (٢)۔
٣٩۔١ یعنی سود سے بظاہر اضافہ معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کی نحوست بالآخر دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور متعدد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت میں ربا سے مراد سود نہیں بلکہ وہ تحفہ اور ہدیہ لیا جو کوئی غریب آدمی کسی مال دار کو یا رعایا کا کوئی فرد بادشاہ یا حکمران کو اور ایک خادم اپنے مخدوم کو اس نیت سے دیتا ہے کہ وہ اس کے بدلے میں مجھے اس سے زیادہ دے گا۔ اسے ربا سے اسی لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ دیتے وقت اس میں زیادتی کی نیت ہوتی ہے۔ یہ اگرچہ مباح ہے تاہم اللہ کے ہاں اس پر اجر نہیں ملے گا۔ (فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ) 30۔ الروم:39) سے اسی اخروی اجر کی نفی ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا (جو تم عطیہ دو) اس نیت سے کہ واپسی کی صورت میں زیادہ ملے، پس اللہ کے ہاں اس کا ثواب نہیں۔
٣٩۔٢ زکوۃ صدقات سے ایک تو روحانی و معنوی اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی بقیہ مال میں اللہ کی طرف سے برکت ڈال دی جاتی ہے۔ دوسرے قیامت والے دن اس کا اجر و ثواب کئی کئی گنا ملے گا، جس طرح حدیث میں ہے کہ حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بڑھ بڑھ کر احد پہاڑ کے برابر ہو جائے گا (صحیح مسلم)
تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وہ اللہ تعالٰی کے ہاں نہیں بڑھتا (١) اور جو کچھ صدقہ زکوۃ تم اللہ تعالٰی کا منہ دیکھنے (اور خوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچند کرنے والے ہیں (٢)۔
٣٩۔١ یعنی سود سے بظاہر اضافہ معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کی نحوست بالآخر دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور متعدد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت میں ربا سے مراد سود نہیں بلکہ وہ تحفہ اور ہدیہ لیا جو کوئی غریب آدمی کسی مال دار کو یا رعایا کا کوئی فرد بادشاہ یا حکمران کو اور ایک خادم اپنے مخدوم کو اس نیت سے دیتا ہے کہ وہ اس کے بدلے میں مجھے اس سے زیادہ دے گا۔ اسے ربا سے اسی لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ دیتے وقت اس میں زیادتی کی نیت ہوتی ہے۔ یہ اگرچہ مباح ہے تاہم اللہ کے ہاں اس پر اجر نہیں ملے گا۔ (فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِ) 30۔ الروم:39) سے اسی اخروی اجر کی نفی ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا (جو تم عطیہ دو) اس نیت سے کہ واپسی کی صورت میں زیادہ ملے، پس اللہ کے ہاں اس کا ثواب نہیں۔
٣٩۔٢ زکوۃ صدقات سے ایک تو روحانی و معنوی اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی بقیہ مال میں اللہ کی طرف سے برکت ڈال دی جاتی ہے۔ دوسرے قیامت والے دن اس کا اجر و ثواب کئی کئی گنا ملے گا، جس طرح حدیث میں ہے کہ حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بڑھ بڑھ کر احد پہاڑ کے برابر ہو جائے گا (صحیح مسلم)