• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
قُلْ إِن ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَىٰ نَفْسِي ۖ وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَ‌بِّي ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِ‌يبٌ ﴿٥٠﴾
کہہ دیجئے کہ اگر میں بہک جاؤں تو میرے بہکنے (کا وبال) مجھ پر ہے اور اگر میں راہ ہدایت پر ہوں توبہ سبب اس وحی کے جو میرا پروردگار مجھے کرتا (١) ہے وہ بڑا ہی سننے والا اور بہت ہی قریب ہے (٢)۔
٥٠۔١ یعنی بھلائی سب اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ تعالٰی نے جو وحی اور حق مبین نازل فرمایا، اس میں رشدو ہدایت ہے، صحیح راستہ لوگوں کو اس سے ملتا ہے۔ پس جو گمراہ ہوتا ہے، تو اس میں انسان کی اپنی ہی کوتاہی اور ہوائے نفس کا دخل ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا
٥٠۔٢ جس طرح حدیث میں فرمایا ' تم بہری اور غائب ذات کو نہیں پکار رہے ہو ' بلکہ اس کو پکار رہے ہو جو سننے والا، قریب اور قبول کرنے والا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَوْ تَرَ‌ىٰ إِذْ فَزِعُوا فَلَا فَوْتَ وَأُخِذُوا مِن مَّكَانٍ قَرِ‌يبٍ ﴿٥١﴾
اور اگر آپ (وہ وقت) ملاحظہ کریں جبکہ یہ کفار گھبرائے پھریں گے اور پھر نکل بھاگنے کی کوئی صورت نہ ہوگی (١) اور قریب کی جگہ سے گرفتار کر لئے جائیں گے۔
٥١۔١ فَلَافَوْتَ کہیں بھاگ نہیں سکیں گے؟ کیونکہ وہ اللہ کی گرفت میں ہونگے، یہ میدان محشر کا بیان ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَقَالُوا آمَنَّا بِهِ وَأَنَّىٰ لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ ﴿٥٢﴾
اس وقت کہیں گے کہ ہم اس قرآن پر ایمان لائے لیکن اس قدر دور جگہ سے (مطلوبہ چیز) کیسے ہاتھ (١) آسکتی ہے۔
٥٢۔١ تَنَاوُش،ُ کے معنی تناول یعنی پکڑنے کے ہیں یعنی اب آخرت میں انہیں ایمان کس طرح حاصل ہو سکتا ہے جب کہ دنیا میں اس سے گریز کرتے رہے گویا آخرت میں انہیں ایمان کے لئے، دنیا کے مقابلے میں دور کی جگہ ہے، جس طرح دور سے کسی چیز کو پکڑنا ممکن نہیں، آخرت میں ایمان لانے کی گنجائش نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَقَدْ كَفَرُ‌وا بِهِ مِن قَبْلُ ۖ وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ ﴿٥٣﴾
اس سے پہلے تو انہوں نے اس سے کفر کیا تھا، اور دور دراز سے بن دیکھے بھٹکتے رہے (١)۔
٥٣۔١ یعنی اپنے گمان سے کہتے رہے کہ قیامت اور حساب کتاب نہیں۔ یا قرآن کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ جادو، گھڑا ہوا جھوٹ اور پہلوں کی کہانیاں ہیں یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ جادوگر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے مجنون ہے۔ جب کہ کسی بات کی بھی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ كَمَا فُعِلَ بِأَشْيَاعِهِم مِّن قَبْلُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا فِي شَكٍّ مُّرِ‌يبٍ ﴿٥٤﴾
ان کی چاہتوں اور ان کے درمیان پردہ حائل کر دیا گیا (١) جیسے کہ اس سے پہلے بھی ان جیسوں کے ساتھ کیا گیا (٢) وہ بھی (انہی کی طرح) شک و تردد میں پڑے ہوئے تھے۔ (۳)
٥٤۔١ یعنی آخرت میں وہ چاہیں گے کہ ان کا ایمان قبول کرلیا جائے، عذاب سے ان کی نجات ہو جائے، لیکن ان کے درمیان اور ان کی اس خواہش کے درمیاں پردہ حائل کر دیا گیا یعنی اس خواہش کو رد کر دیا گیا۔
٥٤۔٢ یعنی پچھلی امتوں کا ایمان بھی اس وقت قبول نہیں کیا گیا جب وہ عذاب کے آنے کے بعد ایمان لائیں۔
۵٤۔۱اس لیے اب معائنہ عذاب کے بعد ان کا ایمان بھی کسی طرح قبول ہوسکتا ہے؟حضرت قتادہ فرماتے ہیں ریب وشک سے بچو، جو شک کی حالت میں فوت ہوگا اسی حالت میں اٹھے گا اور جو یقین پر مرے گا، قیامت والے دن یقین پر ہی اٹھے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
سورة فاطر

(سورة فاطر ۔ سورہ نمبر ۳٥ ۔ تعداد آیات ٤٥)​
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
الْحَمْدُ لِلَّـهِ فَاطِرِ‌ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُ‌سُلًا أُولِي أَجْنِحَةٍ مَّثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُ‌بَاعَ ۚ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ ﴿١﴾
اس اللہ کے لئے تمام تعریفیں سزاوار ہیں جو (ابتداء) آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا (١) اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر (قاصد) بنانے والا ہے (٢) مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے (٣) اللہ تعالٰی یقیناً ہرچیز پر قادر ہے۔
١۔۱ فَاطِر،ُ کے معنی ہیں، پہلے پہل ایجاد کرنے والا، یہ اشارہ ہے اللہ کی قدرت کی طرف کہ اس نے آسمان و زمین پہلے پہل بغیر نمونے کے بنائے، تو اس کے لئے دوبارہ انسانوں کو پیدا کرنا کون سا مشکل ہے؟۔
۱۔٢ مراد جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالٰی انبیاء کی طرف یا مختلف مہمات پر قاصد بنا کر بھیجتا ہے۔ ان میں کسی کے دو کسی کے تین کسی کے چار پر ہیں جن کے ذریعے سے وہ زمین پر آتے اور زمین سے آسمان پر جاتے ہیں۔
١۔٣ یعنی بعض فرشتوں کے اس سے بھی زیادہ پر ہیں، جیسے حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نے معراج کی رات جبرائیل علیہ السلام کو اصلی صورت میں دیکھا اس کے چھ سو پر تھے (صحیح بخاری)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
مَّا يَفْتَحِ اللَّـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّ‌حْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا ۖ وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْ‌سِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿٢﴾
اللہ تعالٰی جو رحمت لوگوں کے لئے کھول دے سو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کردے تو اس کے بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں (١) اور وہی غالب حکمت والا ہے۔
٢۔١ ان ہی نعمتوں میں سے ارسال رسل اور انزال کتب بھی ہے۔ یعنی ہرچیز کا دینے والا بھی ہے، اور واپس لینے والا یا روک لینے والا بھی وہی ہے۔ اس کے علاوہ نہ کوئی معطی ہے اور نہ مانع وقابض۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُ‌وا نِعْمَتَ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ ۚ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ‌ اللَّـهِ يَرْ‌زُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْ‌ضِ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ﴿٣﴾
لوگو! تم پر جو انعام اللہ نے کئے ہیں انہیں یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا اور کوئی بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان و زمین سے روزی پہنچائے؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم کہاں الٹے جاتے ہو (١)
٣۔١ یعنی اس بیان اور وضاحت کے بعد بھی تم غیر اللہ کی عبات کرتے ہو؟۔ مطلب ہے کہ تمہارے اندر توحید اور آخرت کا انکار کہاں سے آگیا، جب کہ تم مانتے ہو کہ تمہارا خالق اور رازق اللہ ہے (فتح القدیر)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَإِن يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُ‌سُلٌ مِّن قَبْلِكَ ۚ وَإِلَى اللَّـهِ تُرْ‌جَعُ الْأُمُورُ‌ ﴿٤﴾
اور اگر یہ آپ کو جھٹلائیں تو آپ سے پہلے کے تمام رسول بھی جھٹلائے جا چکے ہیں۔ تمام کام اللہ ہی طرف لوٹائے جائیں گے (١)۔
٤۔١ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا کر کہاں جائیں گے؟ بالآخر تمام معاملات کا فیصلہ تو ہمیں نے کرنا ہے، اس لئے اگر یہ باز نہ آئے، تو ان کو بھی ہلاک کرنا ہمارے لئے مشکل نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّ‌نَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۖ وَلَا يَغُرَّ‌نَّكُم بِاللَّـهِ الْغَرُ‌ورُ‌ ﴿٥﴾
لوگو! اللہ تعالٰی کا وعدہ سچا ہے (١) تمہیں زندگانی دنیا دھوکے میں نہ ڈالے (٢) اور نہ دھوکے باز شیطان غفلت میں ڈالے۔
٥۔١ کہ قیامت برپا ہوگی اور نیک و بد کو ان کے عملوں کی جزا و سزا دی جائے گی۔
٥۔٢ یعنی آخرت کی ان نعمتوں سے غافل نہ کردے جو اللہ تعالٰی نے اپنے نیک بندوں اور رسولوں کے پیروکاروں کے لئے تیار کر رکھی ہیں۔ پس اس دنیا کی عارضی لذتوں میں کھو کر آخرت کی دائمی راحتوں کو نظر انداز نہ کرو
 
Top