• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لَا جَرَ‌مَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَ‌ةِ وَأَنَّ مَرَ‌دَّنَا إِلَى اللَّـهِ وَأَنَّ الْمُسْرِ‌فِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ‌ ﴿٤٣﴾
یہ یقینی امر ہے (١) کہ مجھے جس کی طرف بلا رہے ہو وہ تو نہ دنیا میں پکارے جانے کے قابل ہے (۲) نہ آخرت میں (۳) اور یہ بھی (یقینی بات ہے) کہ ہم سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے (٤) اور حد سے گزر جانے والے ہی (یقیناً) اہل دوزخ ہیں۔ (۵)
٤٣۔١ لاجرَمَ یہ بات یقینی ہے، یا اس میں جھوٹ نہیں ہے۔
٤٣ ۔٢ یعنی وہ کسی کی پکار سننے کی استعداد ہی نہیں رکھتے کہ کسی کو نفع پہنچا سکیں یا الوہیت کا استحقاق انہیں حاصل ہو اس کا تقربیا وہی مفہوم ہے جو اس آیت اور اس جیسی دیگر متعدد آیات میں بیان کیا گیا ہے (وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ) 46۔ الاحقاف:5) (اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ) 35۔فاطر:14) اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر بالفرض سن لیں تو قبول نہیں کر سکتے۔
٤٣۔۳ یعنی آخرت میں ہی وہ پکار سن کر کسی کو عذاب سے چھڑانے پر یا شفاعت ہی کرنے پر قادر ہوں؟ یہ بھی ممکن نہیں ہے ایسی چیزیں بھلا اس لائق ہو سکتی ہیں کہ وہ معبود بنیں اور ان کی عبادت کی جائے؟
٤٣۔٤ جہاں ہر ایک کا حساب ہوگا اور عمل کے مطابق اچھی یا بری جزا دی جائے گی۔
٤٣۔۵ یعنی کافر و مشرک جو اللہ کی نافرمانی میں ہر حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اس طرح جو بہت زیادہ گناہ گار مسلمان ہوں گے جن کی نافرمانیاں اسراف کی حد تک پہنچی ہوئی ہوں گی انہیں بھی کچھ عرصہ جہنم کی سزا بھگتنی ہوگی تاہم بعد میں شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا اللہ کی مشیت سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَسَتَذْكُرُ‌ونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ ۚ وَأُفَوِّضُ أَمْرِ‌ي إِلَى اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ بَصِيرٌ‌ بِالْعِبَادِ ﴿٤٤﴾
پس آگے چل کر تم میری باتوں کو یاد کرو گے (۱) میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں (۲) یقیناً اللہ تعالٰی بندوں کا نگران ہے۔ (۳)
٤٤۔١ عنقریب وہ وقت آئے گا جب میری باتوں کی صداقت اور جن باتوں سے روکتا تھا ان کی شناعت تم پر واضح ہو جائے گی پھر تم ندامت کا اظہار کرو گے مگر وہ وقت ایسا ہوگا کہ ندامت بھی کوئی فائدہ نہیں دے گی۔
٤٤۔۲ یعنی اسی پر بھروسہ کرتا اور اسی سے ہر وقت استعانت کرتا ہوں اور تم سے بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کرتا ہوں۔
٤٤۔۳ وہ انہیں دیکھ رہا ہے پس وہ مستحق ہدایت کو ہدایت سے نوازتا اور ضلالت کا استحقاق رکھنے والے کو ضلالت سے ہمکتار کتا ہے ان امور میں جو حکمتیں ہیں ان کو وہی خوب جانتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَوَقَاهُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُ‌وا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْ‌عَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ ﴿٤٥﴾
پس اسے اللہ نے تمام بدیوں سے محفوظ رکھ لیا جو انہوں نے سوچ رکھی تھیں (١) اور فرعوں والوں پر بری طرح کا عذاب الٹ پڑا (٢)
٤٥۔١ یعنی اس کی قوم قبط نے اس مومن کے اظہار حق کی وجہ سے اس کے خلاف جو تدبیریں اور سازشیں سوچ رکھی تھیں ان سب کو ناکام بنا دیا اور اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نجات دے دی۔ اور آخرت میں اس کا گھر جنت ہوگا۔
٤٥۔٢ یعنی دنیا میں انہیں سمندر میں غرق کر دیا گیا اور آخرت میں ان کے لئے جہنم کا سخت ترین عذاب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
النَّارُ‌ يُعْرَ‌ضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْ‌عَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ ﴿٤٦﴾
آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں (١) اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔ (۲)
٤٦۔١ اس آگ پر برزخ میں یعنی قبروں میں لوگ روزانہ صبح شام پیش کئے جاتے ہیں، جس سے قبر کا عذاب ثابت ہوتا ہے جس کا بعض لوگ انکار کرتے ہیں۔ حدیث میں تو بڑی وضاحت سے عذاب قبر پر روشنی ڈالی گئی ہے مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سوال کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' ہاں! قبر کا عذاب حق ہے ' اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ' جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو (قبر میں) اس پر صبح و شام اس کی جگہ پیش کی جاتی ہے یعنی اگر وہ جنتی ہے تو جنت اور جہنمی ہے تو جہنم اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ تیری اصل جگہ ہے، جہاں قیامت والے دن اللہ تعالٰی تجھے بھیجے گا (صحیح بخاری اس کا مطلب ہے کہ منکرین عذاب قبر قرآن و حدیث دونوں کی صراحتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔
٤٦۔۲ اس سے بالکل واضح ہے کہ عرض علی النار کا معاملہ جو صبح وشام ہوتا ہے قیامت سے پہلے کا ہے اور قیامت سے پہلے برزخ اور قبر ہی کی زندگی ہے قیامت والے دن اس کو قبر سے نکال کر سخت ترین عذاب یعنی جہنم میں ڈال دیا جائے گا آل فرعون سے مراد فرعون اس کی قوم اور اس کے سارے پیروکار ہیں یہ کہنا کہ ہمیں تو قبر میں مردہ آرام سے پڑا نظر آتا ہے اسے اگر عذاب ہو تو اس طرح نظر نہ آئے لغو ہے کیونکہ عذاب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہمیں نظر بھی آ‏ئے اللہ تعالٰی ہر طرح عذاب دینے پر قادر ہے کیا ہم دیکھتے نہیں ہیں کہ خواب میں ایک شخص نہایت المناک منظر دیکھ کر سخت کرب و اذیت محسوس کرتا ہے لیکن دیکھنے والوں کو ذرا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ خوابیدہ شخص تکلیف سے دو چار ہے اس کے باوجود عذاب قبر کا انکار محض ہٹ دھرمی اور بےجا تحکم ہے بلکہ بیداری میں بھی انسان کو جو تکالیف ہوتی ہیں وہ خود ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ صرف انسان کا تڑپنا اور تلملانا ظاہر ہوتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ تڑپے اور تلمائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ‌ فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُ‌وا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِّنَ النَّارِ‌ ﴿٤٧﴾
اور جب کہ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور لوگ تکبر والوں سے (جن کے یہ تابع تھے) کہیں گے ہم تو تمہارے پیرو تھے تو کیا اب تم ہم سے اس آگ کا کوئی حصہ ہٹا سکتے ہو؟
قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُ‌وا إِنَّا كُلٌّ فِيهَا إِنَّ اللَّـهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ ﴿٤٨﴾
وہ بڑے لوگ جواب دیں گے ہم تو سبھی اس آگ میں ہیں، اللہ تعالٰی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر چکا ہے۔
وَقَالَ الَّذِينَ فِي النَّارِ‌ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوا رَ‌بَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِّنَ الْعَذَابِ ﴿٤٩﴾
اور (تمام) جہنمی مل کر جہنم کے داروغوں سے کہیں گے کہ تم ہی اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ کسی دن تو ہمارے عذاب میں کمی کر دے۔
قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُ‌سُلُكُم بِالْبَيِّنَاتِ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۚ قَالُوا فَادْعُوا ۗ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِ‌ينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ ﴿٥٠﴾
وہ جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہارے رسول معجزے لے کر نہیں آئے تھے؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں، وہ کہیں گے پھر تم ہی دعا کرو (١) اور کافروں کی دعا محض بے اثر اور بےراہ ہے (٢)
٥٠۔١ ہم ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے کیونکر کچھ کہہ سکتے ہیں جن کے پاس اللہ کے پیغمبر دلائل و معجزات لے کر آئے لیکن انہوں نے پروا نہ کی؟
٥٠۔٢ یعنی بالآخر وہ خود ہی اللہ سے فریاد کریں گے لیکن اس فریاد کی وہاں شنوائی نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ دنیا میں ان پر حجت تمام کی جا چکی تھی اب آخرت تو ایمان، توبہ اور عمل کی جگہ نہیں، وہ تو دار الجزا ہے، دنیا میں جو کچھ کیا ہوگا، اس کا نتیجہ وہاں بھگتنا ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
إِنَّا لَنَنصُرُ‌ رُ‌سُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ ﴿٥١﴾
یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے (١) اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے (۲) کھڑے ہونگے۔
٥١۔١ یعنی ان کے دشمن کو ذلیل اور ان کو غالب کریں گے بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ بعض نبی قتل کر دئیے گئے جیسے حضرت یحیی و زکریا علیہما السلام وغیرہ اور بعض ہجرت پر مجبور ہوگئے جیسے ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وعدہ امداد کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟ دراصل یہ وعدہ غالب حالات اور اکثریت کے اعتبار سے ہے اس لیے بعض حالتوں میں اور بعض اشخاص پر کافروں کا غلبہ اس کے منافی نہیں یا مطلب یہ ہے کہ عارضی طور پر یعض دفعہ اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت کافروں کو غلبہ عطا فرما دیا جاتا ہے لیکن بالاخر اہل ایمان ہی غالب اور سرخرو ہوتے ہیں جیسے حضرت یحیی و زکریا علیہما السلام کے قاتلین پر بعد میں اللہ تعالٰی نے ان کے دشمنوں کو مسلط فرما دیا جنہوں نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی اور انہیں ذلیل و خوار کیا جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے کر مارنا چاہا اللہ نے ان یہودیوں پر رومیوں کو ایسا غلبہ دیا کہ انہوں نے یہودیوں کو خوب ذلت کا عذاب چکھایا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقا یقینا ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن اس کے بعد جنگ بدر، احد، احزاب، غزوہ خیبر، اور پھر فتح مکہ کے ذریعے سے اللہ تعالٰی نے جس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی اور اپنے پیغمبر اور اہل ایمان کو جس طرح غلبہ عطا فرمایا اس کے بعد اللہ کی مدد کرنے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟ ابن کثیر
٥١۔۲ اشہاد شہید گواہ کی جمع ہے جیسے شریف کی جمع اشراف ہے قیامت والے دن فرشتے اور انبیاء علیہم السلام گواہی دیں گے یا فرشتے اس بات کی گواہی دیں گے کہ یا اللہ پیغمبروں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا لیکن ان کی امتوں نے ان کو جھٹلایا۔ علاوہ ازیں امت محمدیہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گواہی دیں گے جیسے کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اس لئے قیامت کو گواہوں کے کھڑا ہونے کا دن کہا گیا ہے۔ اس دن اہل ایمان کی مدد کرنے کا مطلب ہے ان کو ان کے اچھے اعمال کی جزا دی جائے گی اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
يَوْمَ لَا يَنفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَ‌تُهُمْ ۖ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ‌ ﴿٥٢﴾
جس دن ظالموں کو ان کی (عذر) معذرت کچھ نفع نہ دے گی ان کے لئے لعنت ہی ہوگی اور ان کے لئے برا گھر ہوگا (١)
٥٢۔١ یعنی اللہ کی رحمت سے دوری اور پھٹکار۔ اور معذرت کا فائدہ اس لئے نہیں ہوگا کہ وہ معذرت کی جگہ نہیں، اس لئے یہ معذرت، معذرت باطلہ ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْهُدَىٰ وَأَوْرَ‌ثْنَا بَنِي إِسْرَ‌ائِيلَ الْكِتَابَ ﴿٥٣﴾
ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہدایت نامہ عطا فرمایا (۱) اور بنو اسرائیل کو اس کتاب کا وارث بنایا (١)
٥٣۔١ یعنی نبوت اور تورات عطا کی جیسے فرمایا (اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّنُوْرٌ) 5۔ المائدہ:44)
٥٣۔١ یعنی تورات، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی باقی رہی، جس کے نسلاً بعد نسل وہ وارث ہوتے رہے۔ یا کتاب سے مراد وہ تمام کتابیں ہیں جو انبیائے بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں، ان سب کتابوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
هُدًى وَذِكْرَ‌ىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿٥٤﴾
کہ وہ ہدایت و نصیحت تھی عقل مندوں کے لئے (١)
٥٤۔١ آسمانی کتابوں کا فائدہ وہی اٹھاتے ہیں ہدایت و نصیحت حاصل کرتے ہیں جو عقل سلیم کے مالک ہیں دوسرے لوگ تو گدھوں کی طرح ہیں جن پر کتابوں کا بوجھ تو لدا ہوتا ہے لیکن وہ اس سے بےخبر ہوتے ہیں کہ ان کتابوں میں کیا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فَاصْبِرْ‌ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ‌ لِذَنبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَ‌بِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ‌ ﴿٥٥﴾
پس اے نبی! تو صبر کر اللہ کا وعدہ بلا شک (وشبہ) سچا ہی ہے تو اپنے گناہ کی (١) معافی مانگتا رہ (۱) اور صبح شام (۲) اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتا رہ۔
٥٥۔١ گناہ سے مراد چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہیں، جو بہ تقاضائے بشریت سرزد ہو جاتی ہیں، جن کی اصلاح بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے کر دی جاتی ہے۔ یا استغفار بھی ایک عبادت ہی ہے۔ اجر و ثواب کی زیادتی کے لئے استغفار کا حکم دیا گیا ہے، یا مقصد امت کی رہنمائی ہے کہ وہ استغفار سے بےنیاز نہ ہوں۔
٥٥۔۲ عشیی سے دن کا آخری اور رات کا ابتدائی حصہ اور ابکار سے رات کا آخری اور دن کا ابتدائی حصہ مراد ہے۔
 
Top