• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر احسن البیان (تفسیر مکی)

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَت تَّأْتِيهِمْ رُ‌سُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَكَفَرُ‌وا فَأَخَذَهُمُ اللَّـهُ ۚ إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٢٢﴾
یہ اس وجہ سے کہ ان کے پاس پیغمبر معجزے لے لے کر آتے تھے تو وہ انکار کر دیتے تھے (١) پس اللہ انہیں پکڑ لیتا تھا۔ یقیناً وہ طاقتور اور سخت عذاب والا ہے۔
٢٢۔١ یہ ان کی ہلاکت کی وجہ بیان کی گئی ہے، اور وہ ہے اللہ کی آیتوں کا انکار اور پیغمبروں کی تکذیب۔ اب سلسلہ نبوت و رسالت تو بند ہے۔ تاہم آفاق پر انس میں بیشمار آیات الٰہی بکھری اور پھیلی ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں وعظ وتذکیر اور دعوت وتبلیغ کے ذریعے سے علماء اور داعیان حق ان کی وضاحت اور نشاندہی کے لیے موجود ہیں اس لیے آج بھی جو آیات الہی سے اعراض اور دین وشریعت سے غفلت کرے گا اس کا انجام مکذبین اور منکرین رسالت سے مختلف نہیں ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَلَقَدْ أَرْ‌سَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ ﴿٢٣﴾
اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی آیتوں اور کھلی دلیلوں کے ساتھ بھیجا۔ (۱)
۲۳۔۱ آیات سے مراد وہ نشانیاں بھی ہو سکتی ہیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے یا عصا اور ید بیضا والے دو بڑے واضح معجزات بھی سلطان مبین سے مراد قوی دلیل اور حجت واضحہ جس کا کوئی جواب ان کی طرف سے ممکن نہیں تھا بجز ڈھٹائی اور بےشرمی کے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
إِلَىٰ فِرْ‌عَوْنَ وَهَامَانَ وَقَارُ‌ونَ فَقَالُوا سَاحِرٌ‌ كَذَّابٌ ﴿٢٤﴾
فرعون ہامان اور قارون کی طرف تو انہوں نے کہا (یہ تو) جادوگر اور جھوٹا ہے۔
۲٤۔۱ فرعون مصر میں آباد قبط کا بادشاہ تھا بڑا ظالم وجابر اور رب اعلی ہونے کا دعوے دار اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور اس پر طرح طرح کی سختیاں کرتا تھا جیسا کہ قرآن کے متعدد مقامات پر اس کی تفصیل ہے ہامان فرعون کا وزیر اور مشیر خاص تھا قارون اپنے وقت کا مال دار ترین آدمی تھا ان سب نے پہلے لوگوں کی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کی اور انہیں جادوگر اور کذاب کہا جیسے دوسرے مقام پر فرمایا گیا کذلک ما اتی الذین من قبلھم من رسول الا قالو ساحر او مجنون اتواصوابہ بل ھم قوم طاغون اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس جو بھی نبی آیا انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں؟نہیں بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْحَقِّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ ۚ وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِ‌ينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ ﴿٢٥﴾
پس جب ان کے پاس (موسیٰ علیہ السلام) ہماری طرف سے (دین) حق لے کر آئے تو انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ جو ایمان والے ہیں ان کے لڑکوں کو تو مار ڈالو (۱) اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھو اور کافروں کی جو حیلہ سازی ہے وہ غلطی میں ہی ہے (۲)
٢٥۔١فرعون یہ کام پہلے بھی کر رہا تھا تاکہ وہ بچہ پیدا نہ ہو جو نجومیوں کی پیش گوئی کے مطابق اس کی بادشاہت کے لیے خطرے کا تھا یہ دوبارہ حکم اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تذلیل واہانت کے لیے دیا نیز تاکہ بنی اسرائیل موسیٰ علیہ السلام کے وجود کو اپنے لیے مصبیت اور نحوست کا باعث سمجھیں جیسا کہ فی الواقع انہوں نے کہا (اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا) 7۔ الاعراف:129) اے موسیٰ علیہ السلام تیرے آنے سے قبل بھی ہم اذیتوں سے دو چار تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے۔٢٥۔١ یعنی اس سے جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کی قوت میں اضافہ اور اس کی عزت میں کمی نہ ہو۔ یہ اسے حاصل نہیں ہوا، بلکہ اللہ نے فرعون اور اس کی قوم ہی غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو بابرکت زمین کا وارث بنا دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ فِرْ‌عَوْنُ ذَرُ‌ونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَ‌بَّهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ‌ فِي الْأَرْ‌ضِ الْفَسَادَ ﴿٢٦﴾
اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑو کہ میں موسیٰ(علیہ السلام) کو مار ڈالوں (١) اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو پکارے (٢) مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی (بہت بڑا) فساد برپا نہ کر دے۔ (۳)
٢٦۔١ یہ غالبًا فرعون نے ان لوگوں سے کہا جو اسے موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے سے منع کرتے تھے۔
٢٦۔٢ یہ فرعون کی دیدہ دلیری کا اظہار ہے کہ میں دیکھوں گا، اس کا رب اسے کیسے بچاتا ہے، اسے پکار کر دیکھ لے۔ یا رب ہی کا انکار ہے کہ اس کا کون سا رب ہے جو بچا لے گا، کیونکہ رب تو وہ اپنے آپ کو کہتا تھا۔
٢٦۔۳ یعنی غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر ایک اللہ کی عبادت پر نہ لگا دے یا اس کی وجہ سے فساد نہ پیدا ہو جائے مطلب یہ تھا کہ اس کی دعوت اگر میری قوم کے کچھ لوگوں نے قبول کرلی تو وہ نہ قبول کرنے والوں سے بحث وتکرار کریں گے جس سے ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوگا جو فساد کا ذریعہ بنے گا یوں دعوت توحید کو اس نے قساد کا سبب اور اہل توحید کو فسادی قرار دیا درآں حالیکہ فسادی وہ خود تھا اور غیر اللہ کی عبادت ہی فساد کی جڑ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ مُوسَىٰ إِنِّي عُذْتُ بِرَ‌بِّي وَرَ‌بِّكُم مِّن كُلِّ مُتَكَبِّرٍ‌ لَّا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ ﴿٢٧﴾
موسٰی (علیہ السلام) نے کہا میں اپنے اور تمہارے رب کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس تکبر کرنے والے شخص(کی برائی) سے جو روز حساب پر ایمان نہیں رکھتا۔ (۱)
۲۷۔۱ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے علم میں جب یہ بات آئی کہ فرعون مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو انہوں نے اللہ سے اس کے شر سے بچنے کیلیے دعا مانگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دشمن کا خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے اللھم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذ بک من شرور ھم مسند احمد اے اللہ ہم تجھ کو ان کے مقابلے میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ رَ‌جُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْ‌عَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَ‌جُلًا أَن يَقُولَ رَ‌بِّيَ اللَّـهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّ‌بِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِ‌فٌ كَذَّابٌ ﴿٢٨﴾
اور ایک مومن شخص نے، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہا کہ تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمہارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے (١) اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہو، تو جس (عذاب) کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے اس میں کچھ نہ کچھ تو تم پر آپڑے گا، (۲) اللہ تعالٰی اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوں۔ (۳)
٢٨۔١ یعنی اللہ کی ربوبیت پر وہ ایمان یوں ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے پاس اپنے اس موقف کی واضح دلیلیں ہیں۔ ٢٨۔ یہ اس نے بطور تنزل کے کہا کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اس سے تعرض نہ کیا جائے اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالٰی خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا و آخرت میں دے دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقینا وہ تمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے تم پر ان میں سے کوئی عذاب آ سکتا ہے۔
٢٨۔۳ اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہوتا جیسا کہ تم باور کراتے ہو تو اللہ تعالٰی اسے دلائل معجزات سے نہ نوازتا جب کہ اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں دوسرا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالٰی خود ہی اسے ذلیل اور ہلاک کر دے گا تمہیں اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِ‌ينَ فِي الْأَرْ‌ضِ فَمَن يَنصُرُ‌نَا مِن بَأْسِ اللَّـهِ إِن جَاءَنَا ۚ قَالَ فِرْ‌عَوْنُ مَا أُرِ‌يكُمْ إِلَّا مَا أَرَ‌ىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّ‌شَادِ ﴿٢٩﴾
اے میری قوم کے لوگو! آج تو بادشاہت تمہاری ہے کہ اس زمین پر تم غالب ہو، لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آگیا تو کون ہماری مدد کرے گا ۲١) فرعون بولا، میں تو تمہیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود دیکھ رہا ہوں اور میں تو تمہیں بھلائی کی راہ بتلا رہا ہوں۔ (۳)
٢٩۔١ یعنی یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ تمہیں زمین پر غلبہ عطا فرمایا اس کا شکر ادا کرو اور اس کے رسول کی تکذیب کر کے اللہ کی ناراضی مول نہ لو۔
٢٩۔۲ یہ فوجی لشکر تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے، نہ اللہ کے عذاب ہی کو ٹال سکیں گے اگر وہ آ گیا۔ یہاں تک اس مومن کا کلام تھا جو ایمان چھپائے ہوئے تھا۔
٢٩۔۳ فرعون نے اپنے دنیاوی جاہ جلال کی بنیاد پر جھوٹ بولا اور کہا کہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہی تمہیں بتلا رہا ہوں اور میری بتلائی ہوئی راہ ہی صحیح ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا وما امر فرعون برشید (ھود)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُم مِّثْلَ يَوْمِ الْأَحْزَابِ ﴿٣٠﴾
اس مومن نے کہا اے میری قوم! (کے لوگو) مجھے تو اندیشہ ہے کہ تم پر بھی ویسا ہی روز (بد عذاب) نہ آئے جو اور امتوں پر آیا۔
مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ وَمَا اللَّـهُ يُرِ‌يدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ ﴿٣١﴾
جیسے امت نوح اور عاد و ثمود اور ان کے بعد والوں کا (حال ہوا) (١) اللہ اپنے بندوں پر کسی طرح کا ظلم کرنا نہیں چاہتا۔ (۲)
٣١۔١ یہ اس مومن آدمی نے دوبارہ اپنی قوم کو ڈرایا کہ اگر اللہ کے رسول کی تکذیب (جھٹلایا) پر ہم اڑے رہے تو خطرہ ہے کہ گزشتہ قوموں کی طرح عذاب الٰہی کی گرفت میں آ جائیں گے
۔ ٣١۔۲یعنی اللہ نے جن کو بھی ہلاک کیا ان کے گناہوں کی پاداش میں اور رسولوں کی تکذیب ومخالفت کی وجہ سے ہی ہلاک کیا ورنہ وہ شفیق ورحیم رب اپنے بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا گویا قوموں کی ہلاکت یہ ان پر اللہ کا ظلم نہیں ہے بلکہ قانون مکافات کا ایک لازمی نتیجہ ہے جس سے کوئی قوم اور فرد مستثنی نہیں از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جو از جو
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,763
پوائنٹ
1,207
وَيَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ ﴿٣٢﴾
اور مجھے تم پر قیامت کے دن کا بھی ڈر ہے (١)
٣٢۔١تنادی کے معنی ہیں۔ ایک دوسرے کو پکارنا، قیامت کو یَوْمَ التَّنَادِ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس دن ایک دوسرے کو پکاریں گے۔ اہل جنت اہل نار کو اور اہل نار اہل جنت کو ندائیں دیں گے۔ (وَنَادٰٓي اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا يَّعْرِفُوْنَهُمْ بِسِيْمٰىهُمْ قَالُوْا مَآ اَغْنٰى عَنْكُمْ جَمْعُكُمْ وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ 48؀ اَهٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللّٰهُ بِرَحْمَةٍ ۭ اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ 49؀ ) 7۔ الاعراف:49-48)۔ بعض کہتے ہیں کہ میزان کے پاس ایک فرشتہ ہوگا جس کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا اس کی بد بختی کا یہ فرشتہ چیخ کر اعلان کرے گا بعض کہتے ہیں کہ عملوں کے مطابق لوگوں کو پکارا جائے گا جیسے اہل جنت کو اے جنتیو! اور اہل جہتم کو اے جہنمیو! امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام بغوی کا یہ قول بہت اچھا ہے کہ ان تمام باتوں ہی کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا ہے۔
 
Top